توحید اور شرک کی تعریف ، بریلوی نقطہ نظر

آزاد نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏ستمبر 14, 2008 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. آزاد

    آزاد ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 21, 2007
    پیغامات:
    4,558
    السلام علیکم:
    محترم حضرات!
    اس آپ کے پیش نظر جو مضمون ہے یہ میں نے ایک بریلوی عالم کی کتاب سے لیا ہے، مجھے اس کا جواب چاہیے، امید ہے کہ آپ اپنی وسعت علمی اور وسعت قلبی سے کام لیکر اس مضمون میں دی گئی گالیوں سے اجتناب کرتے ہوئے جواب مرحمت فرمائیں گے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین۔
    توحید کی تعریف
    کلمہ طیبہ "لا الہ الا اللہ" میں توحٰد کا مکمل بیان ہے یعنی اس بات کا زبان سے اقرار اور دل سے یقین کرنا کہ سچا معبود اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔لا الہ الااللہ کی تشریح میں حضرت العلامہ علی قاری محدث علیہ الرحمۃ مرقا ہ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں۔
    (لا الہ)لا ھی النافیۃ للجنس علیٰ تنصیص علیٰ نفی کل فرد من افردہ(الا اللہ) قیل خبر۔لا۔والحق انہ محذوف والاحسن فیہ لا الہ معبود بالحق فی الوجود۔الا اللّٰہ ۔ولکون الجلالۃ اسما للذات المستجمع لکمال الصفات وعلماً للمعبود بالحق قیل لو بدل بالرحمٰن لایصح بہ التوحید المطلق ثم قیل التوحید ھو الحکم بوحدانیہتہ منعوتا بالتنزہ عما یشاء بہ اعتماد افقولا وعملا فیقینا وعرفانا فمشاھدۃ وعیانا فثبوتا ودواما۔"
    ترجمہ: لا الہ میں لا نفی جنس کا ہے جو ہر فرد الہٰ کی نفی پر نص ہے اور الا اللہ کی نسبت کہا گیا ہے کہ "لا"کی خبر ہے اور حق یہ ہے کہ خبر محذوف ہے اور احسن یہ کہ ہستی میں کوءی الہ معبود برحق نہیں سوائے اللہ کے کیونکہ اسم اللہ ذات مسجمع صفات کمال کا اسم اور معبود برحق کا عَلَم ہے۔ کہا گیا ہے کہ اگر اس کی جگہ الرحمن لایا جائے تو توحید مطلق اس سے صحیح نہ ہو۔ پھر کہا گیاہے کہ توحید کسی شے کی وحدانیت کا حکم کرنا اور اس کو جاننا ہے اور اصطلاح میں "توحید" اللہ تعالیٰ کی ذات کو اس کی وحدانیت کے ساتھ مشابہ سے منزہ ثابت کرنا اعتقاداً پھر قولاً و عملاًپھر یقیناً و عرفاناً پھر مشاہدۃً و عیاناً پھر ثبوتاً و دواماً۔
    شک کی تعریف
    شرک وہی ہے جس کو الا الہ الا اللہ نے باطل کیا یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو معبود ٹھہرانا۔تفسیر خازن میں ہے۔"من یشرک باللہ یعننی یجعل معہ شریکا غیرہ"شرک کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ اس کے غیر کو شریک ٹھہرایا جائے۔"شرح عقائد می ہے "الا شراک ھو اثبات الشریک فی الالوھیۃ یعنی وجوب الوجود کما للمجوس او بمعنی استحقا العبادۃ کم لعبدۃ الاصنام"یعنی شرک کرنا یہ ہے کہ شریک کا ثابت کرنا ہے الوہیہ میں یعنی وجوب وجود میں جیسے کہ مجوسی کرتے ہیں یا بمعنی استحقاق عبادت میں جیسے کہ بت پرست کرتے ہیں۔کذا فی شرح الفقہ الاکبر۔
    حضرت شیخ المحققین عبدالحق محدث دہلوی قدسنا اللہ باسرارہ العزیز اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں۔بالجملہ شرک سہ قسم است۔دروجود ودر خالقیت و در عبادت۔خلاصہ مطلب یہ ہے کہ شرک تین طرح کا ہوتا ہے۔ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کو واجب الوجود ٹھہرائے۔
    دوسرے یہ کہ کسی دوسرے کو اللہ تعالیٰ کے سوا حقیقۃً خالق جانے۔ تیسرے یہ غیر اللہ کی عبادت کرے یا اللہ کے سوا کسی کو مستحق عبادت سمجھے۔۔۔‘‘ معلوم ہوا کہ واجب الوجود یعنی اپنی ذات وصفات میں دوسرے سے بے نیاز اور غنی بالذات فقط اللہ تعالیٰ ہے اور فقط وہی عبادت کے لائق ہے اور حقیقۃًوہی خالق ہے ۔پس اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو ذات و صفات میں دوسرے سے بے نیا زاور غنی بالذات جانے یا اسے حقیقۃً خالق جانے یا مستحق عبادت سمجھے تو وہ مشرک ہے مثلاًآریہ جو اللہ کے سوائے روح اور مادۃ کو بھی قدیم اور واجب الوجود مانتے ہٰں اور خالق سے بے نیاز جانتے ہین مشرک ہیں اور مثلاً ستارہ پرست کہ تغیرات عالم کو تاثیر کواکب سے جانتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیٰں کہ ستارے اپنی تاثیرات میں غنی بالذات ہیں۔کسی محتاج نہیں پس یہ بھی مشرک ہیں۔یا بے پرست جو بتوں کو مستحق عبادت جانتے اور ان کی عبدت کرتے ہیں یہ بھی مشرک ہیں۔لیکن جو لوگ اشیاء کو اللہ تعالیٰ کی عطا سے جانتے ہیں وہ کسی طرح مشرک نہیں ٹھہرتے ۔ مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات وصفات میں واجب الوجود،ازلی،ابدی، مستقل ،غیر متغیر، قائم بالذات ، خالق و مالک حقیقی ، غنی عن الغیر ، وحدہٗ لا شریک لہٗ ہے پس اللہ کی سی صفات اوروں کے لیے ثابت کرنے کا یہ مطلب ہو کہ غیر اللہ کے لیے صفات ذاتی، قدیم، مستقل ، غیرمتغیر کا اعتقاد رکھا جائے اور اسے عطاء الہی کے بغیر کسی صفت سے متصف تسلیم کیا جائے جو کہ یقینا شرک ہے اہلسنت و جماعت کے عقیدہ کی رو سے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کے لیے ذرہ بھی قدرت یا اختیار یا علم ثابت کرنا اور تسلیم کرنا یا کسی بھی صفت کو ماننا اگر بالذات ہو تو شرک ہے لیکن غیر اللہ کے لیے کسی صفت کا اثبات بہ عطاء الہی ہرگز شرک نہیں۔جبکہ وہ صفت ازروئے قرآن و حدیث اس کے لیے ثابت ہو۔حقیقت یہ کہ کفار و مشرکین آثار کو اسباب کی طرف حقیقۃً منسوب کرتے ہیں اور انھیں مستقلاً بالذات مؤثر جانتے ہیں مگرمسلمان اسباب کو وسائل جانتے ہیں اور ان وسائل کے حجابات میں قادر مطلق کے دست قدرت کو دیکھتے ہیں ،اختیار بالذات اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھتے ہیں اور افعال و صفات اور تاثیرات کو اسباب و وسائل کی طرف مجازاً منسوب کرتے ہیں نہ کہ حقیقتاً ۔پھر اگر اس فرق وامتیاز کو تسلیم نہ کیا جائے تو انسان ہر بات میں مشرک ہو جائے اور ایمان کی کوئی راہ ہی نہ رہے۔پس مخلوق میں سے کسی کے لیے صفات و کمالات کو بہ عطائے الہٰی جاننا ہی ’’اللہ کی سی صفات اوروں کے لیے تسلیم یا ثابت کرنے ‘‘کے حکم سے خارج ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات بالذات ہیں نہ کہ بالعطاء یعنی اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت یا کمال غیر سے حاصل شدہ نہیں۔اس کا ہر کمال ذاتی اور غیر مکتسب ہے تو ثابت ہوا کہ کسی اور کے لیے صفات و کمالات بعفائے الہٰی تسلیم یاثابت کرنا شرک نہیں بلکہ عین ایمان ہے۔۔پس ثابت ہوا کہ سفھاء الاحلام وہابی اب تک ذات صفات الہٰی سے بے خبر اور جاہل ہیں کہ یہ مسئلہ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا۔اسی لیے یہ لوگ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور اولیائے کرام کے لیے کوئی صفت وکمال بہ عطائے الہٰی تسلیم کرنے کوبھی اللہ کی سی صفت قرار دے کر خواہ مخواہ صحیح العقیدہ مسلمانوں کو مشرک ٹھہراتے ہیں۔حالانکہ ہنوز وہ خود توحید و شرک کی حقیقت سے بے خبر ہیں قصور تو ہے خود ان کے فہم و علم کا مگر مجرم ٹھہراتے ہیں دوسرے بے گناہوںکو۔ ان کے اس مسئلہ کو نہ سمجھنے کا یہ ناقابل تردید ثبوت ہے کہ یہ مخلوق میں سے کسی کے لیے بھی کوئی صفت بہ عطائے الہٰی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ پھر بھلا کوئی ان سے پوچھے کہ اگر تم کسی کے لیے کوئی صفت بعطائے الہٰی تسلیم کرنے کو شرک ہی ٹھہراتے ہو تو بتائو کہ اللہ تعالیٰ کی صفت ’’حی‘‘ ہے یا نہیں۔ پھر کیا شرک سے بچنے کی خاطر تم اپنے آپ کو مردہ کہو گے؟کیا تمھارے بڑے بھی کسی زمانہ میں صفت حیات سے متصف ہو یا نہیں؟اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ’’عالم‘‘ہے تو کیا تم خود کو یا اپنے پیشوائوں کو عالم نہیں سمجھتے ؟’’سمیع‘‘اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور ’’بصیر‘‘ بھی تو کیا تم سمیع و بصیر نہیں ہو؟پھر کلام کرنا بھی اللہ کی صفت ہے اور ارادہ وقدرت بھی اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں پھر شرک سے بچنے کیلئے تم کیا کروگے؟ آیا یوںکہو گے کہ ہم میں اللہ کی صفات ؛میں سے کوئی صفت نہیں ہم وہابی سب مردے ہیں۔جاہل مطلق ہیں۔بہرے ہیں۔اندھے ہیں،گونگے ہیںاور ہم وہابیوں میں نہ ارادہ ہے نہ قدرت تم کیا تم خاک ہو یا پتھر،جماد محض ہو؟ پھر اگر تمھاری یہ بات بھی تسلیم کرلی جائے کہ تم سب کے سب اجساد جامد ہو تو بھی تمھارا پیچھا شرک سے نہیں چھوٹتا کہ جسم جامد ہونے کی صورت میں بھی ’’موجود‘‘ ہونا پایا جائے گا اور موجود ہونا بھی اللہ کی صفت ہے تو پھر شرک سے بچنے کیلئے اپنے وجود کا بھی انکار کردوگے؟ یعنی کہ دنیا میں تمھارا وجود ہی نہیں ہے۔ پس اگر تمھاری بائیں صحیح ہیں تو بتائو کہ تم کیا ہو؟ تم کس حیثیت سے موجود ہو؟ دنیا میں کیونکی چلتے ، پھرتے ، دیکھتے، سنتے، دنیاوی کام کاج کرتے اور یہ شرک و کفر کی گردانیں رٹتے ، اوٹ پٹانگ تحریریں لکھتے اور لمبی چوڑی تقریریں جھاڑتے پھرتے ہو۔ تم میں یہ صفات کہاں سے اور کیسے آگئیں؟ کیا تم میں یہ صفات بالذات ہیں ،خودبخود ہیں یا اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ؟
    تو اب انھیں لامحالہ تسلیم کرنا پڑے گا اور کہنا پڑے گا کہ ہمیں یہ صفات اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں مگر اس قدر خرابی بسیار کے بعد بھی اپنے خانہ ساز وہابیانہ اصول کی بناء پر شرک سے یہ بچ نہ سکے بلکہ مشرک ہی رہے کیونکہ ان کا اصول یہ ہے کہ ’’پھر خواہ یوں سمجھئے کہ ان کاموں کی طاقت ان کو خودبخود ہے خواہ یوں سمجھے کہ اللہ نے ان کو ایسی طاقت بخشی ہے ہر طرح شرک ثابت ہوتا ہے۔‘‘(تقویۃ الایمان) تو ان کو چاہیے کہ کوئی تیسری صورت نکالیں اور شرک سے بچنے کی تدبیر کریں۔
    اُلجھا ہے پائوں یار کا زُلف دراز میں
    لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
    مزید بر آں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ بقول نجدیہ وہابیہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق سے کسی کو کوئی صفت عطا نہیں فرمائی تو پھر افراد و اشیاء مخلوقات میں ہزاروں ، لاکھوں، کروڑوں بلکہ لاتعداد اقسام کی دویہ اور جڑی بوٹیاں کہ نفع بھی پہنچاتی ہیں اور نقصان بھی ۔ بارود ڈائنا میٹ، ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم وغیرہ ہتھیاروں میں یہ قوت کہاں سے اور کیونکر ہے کہ چشم زدن میں ہزروں لاکھوں جانداروں کو موت کے گھاٹ اتاردیں، پہاڑوں کو اڑا دیں اور علاقوں کے علاقے تباہ و برباد کرڈالیں۔نیز ٹیلی فون، وائرلیس ، ریڈیواور ٹیلی ویژن وغیرہ میں یہ سٖآت کہاں سے آگئیں کہ سینکڑوں، ہزاروں میل دور ہلکی سے ہلکی آوازوں اور تصویروں کو بھی آن واحد میں پہنچادیں۔یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ ان اشیاء میں یہ صفات و تاثیرات ذاتی نہیں ہیں تو لامحالہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان اشیاء میں یہ صفات و تاثیرات بہ عطائے الہٰی ہیںکہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور قدرتوں کا ظہور انکے ذریعے ہوتا ہے تو پھر جب کہ ایسی ادنیٰ اور بے جان اشیاء کیلیے بھی صفات و تاثیرات بہ عطائے الہٰی تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں تو حضرت انسان جو کہ اشرف المخلوقات ہے اس کے لیے صفات بہ عطائے الہٰی تسلیم کرنے میں کیونکر تامل ہوسکتا ہے ۔ پس نجدیہ وہابیہ کے انکار سے واضح ہے کہ یہ عقل ودانش سے عاری لوگ عام انسان کے مقام و منصب سے بھی واقف نہیں چہ جائیکہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں، خلفاء اللہ فی الارض انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور اولیاء اللہ قدسنا اللہ باسرارہم کے اعلیٰ و بلند و بالا مقامات و مناصب کو جن سکیں اور ان کے فضائل و کمالات علوم و اختیارات اور خداداد تصرفات کو سمجھ سکیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ اور حدیث میں سرکار دو عالم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ارشادات گواہ ہیں کہ محبوبان خدا انبیاء و اولیاء متخلق باخلاق اللہ ہیں۔صفاتِ الہٰی کے مظہر ہیں۔ بہ عطائے الہٰی متصرف ہیں اور ان کا ہر کام حکم و مشیت الہٰی کے تحت ہوتا ہے۔غزالی دوراں علامہ احمد سعید کاظمی قدس سرہٗ فرماتے ہیں ۔ مومن ہونے کیلئے ضروری ہے کہ عطاء خداوندی کا اعتقاد رکھتے ہوئے یہ اعتقاد بھی رکھا جائے ککہ اللہ تعالیٰ نے جو کمال کسی مخلوق کو عطا فرمایا ہے وہ عطا کے بعد حکم خداوندی ارادہ و مشیت ایزدی کے ماتحت ہے۔ ہر آن خدا تعالیٰ کے مشیت اس کے متعلق ہے اور اس بندے کا ایک آن کے لیے بھی خدا تعالیٰ سے بے نیاز اور مستغنی ہونا قطعاً محال اور ممتنع بالذات ہے۔‘‘
    (تسکین الخواطر فی مسئلۃ الحاضر والناظر)
    ماخوذ از تنویر البرہان از قلم ابوالحسان قادری، صفحہ نمبر 146 تا 152)
     
  2. آزاد

    آزاد ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 21, 2007
    پیغامات:
    4,558
    السلام علیکم
    کیا بات ہے کہ کوئی جواب دینے پر تیار نہیں ؟ کیا ایسی تحریریں یہاں پیش کرنا جرم ہے ؟ یا کسی کو جواب سوجھ ہی نہیں رہا؟ مہربانی فرماکر کچھ تو عرض کریں۔ البتہ کارتوس بھائی سے گزارش ہے کہ اگر انھوں‌نے گولہ باری کرنی ہے مہربانی فرما کر ادھر کا رخ نہ کیجئے گا۔
     
  3. دانیال ابیر

    دانیال ابیر محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 10, 2008
    پیغامات:
    8,415
    ہا ہا ہا

    بھئی گولہ باری کیوں ہوگی ویسے آپ کی تحریر کا جواب تو صاحب علم حضرات ہی دے سکتے ہیں تو پھر انتظار فرمائئے

    ملتے ہیں ایک شارٹ بریک کے بعد اور جواب پڑھنے کے لئے
     
  4. منہج سلف

    منہج سلف --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2007
    پیغامات:
    5,047
    السلام علیکم آزاد بھائي!
    سب سے پہلے تو آپ حضرات ہر بات کو جھگڑے کی جڑ سے کیوں لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔
    ابھی آپ نے پوسٹ کی اور ابھی آپ نے الزامات کی بوچھاڑ شروع کردی۔۔۔۔۔
    سب سے پہلے تو آپ نے الزام لگایا کہ ایسی تحریریں کرنا جرم ہے کیا؟
    کیا کسی بھائی نے آپ سے کہا کہ آپ کی اوپر والی پوسٹ جرم ہے۔۔۔۔۔ہاں؟؟؟؟
    دوسرا الزام آپ نے یہ لگایا کہ " جواب سوجھ نہیں رہا" کیا کسی نے آپ کو کہا کہ ہمیں جواب نہیں آرہا؟؟؟
    تیسرا آپ نے آتے ہی کارتوس بھائی پر گولہ باری کا الزام لگادیا۔۔۔۔

    بھائی! آپ یہاں مسئلہ سیکھنے آئے یا مسئلہ پیدا کرنے۔۔۔۔
    اگر آپ نے مسئلہ سیکھنا ہے تو پھر آپ نے سب سے پہلے تو مثبت ہوکر مسئلہ پوچھنا ہے اور پھر آپ نے انتظار کرنا ہے، اپنے آپ میں پہلے صبر و برداشت کا مادہ پیدا کریں پھر دین کی آگاہی کے بارے میں آکے آئیں۔ ان شاءاللہ
    اگر آپ نے مسئلہ پیدا کرنا ہے تو پھر ہمارے پاس فالتو وقت نہیں ہے کہ آپ حضرات کے مسئلے پر دھیان دیں بجاء کے دین سیکھنے میں صرف کریں۔
    امید کہ آپ بھائی کو میری نصحتیں بری نہ لگي ہونگيں۔ ان شاءاللہ
    والسلام علیکم
     
  5. دانیال ابیر

    دانیال ابیر محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 10, 2008
    پیغامات:
    8,415
    آزاد بھائی کیلئے​


    ویسے آزاد بھائی بات تو خاصی معقول کی ہے عتیق بھائی نے۔ ۔ ۔ ۔ چونکہ مسئلہ سنجیدہ نوعیت کا ہے تو جواب تو بہرحال کچھ توقف کے بعد ہی ملے گا

    سو صبر کرنے میں حرج کیا ہے ؟ اگر کچھ انتظار کر لینے سے کوئی حتمی جواب برآمد ہو سکتا ہے تو میرے خیال میں دینی مسئلے میں حصوصا جلد بازی اچھی چیز نہیں ہے

    ویسے آپ کی دوسری پوسٹ میں طنز عیاں تھا سو واقعی اس سے پرہیز کیجیئے تاکہ کسی کی دل آزاری کا سبب نہ بن سکے

    شکریہ

    میری بھی معذرت ایڈوانس قبول کیجئے گا

    عتیق بھائی کے لئے​


    عتیق بھائی دوسری بات آپ سے عرض کرنی تھی کہ اتنی جلدی ہائپر نہیں ہوا کرتے ہیں یہی بات صرف دو جملوں میں ختم کی جا سکتی تھی کہ بھئی تھوڑا صبر کیجئے جواب مل جائے گا ۔

    معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ غصہ انسان کی کنسنٹریشن کو توڑتا ہے یعنی ارتکاز نہیں رہتا ہے کسی چیز پر۔ ۔ ۔ ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس سے بدمزگی ہوتی ہے جو ایک مثبت موضوع کو بھی بے مزا کر دیتی ہے

    معذرت کے ساتھ آپکی کجھ پوسٹس میں نے دیکھی ہیں۔ ۔ معافی چاہوں گا کہ کہتے ہوئے کہ آپ کے جوابی مراسلے، یا انداز تخاطب میں دوسروں کے لئے اکثر حقارت کا رنگ ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ایسا نہین ہونا چاہیئے ۔ ۔ بے شک علم آپ کے پاس وسیع ہے مگر اسکو وجہ تکبر نہ بننے دیں ۔ ۔ ۔

    معافی بھی چاہونگا اور معذرت بھی۔ مگر جو میں نے محسوس کیا وہ لکھا ہے آپ میرے محترم مسلم بھائی ہیں اور مجھے آپ سے فیض سے توقعات ہین اس لئے میں آپ کی اچھی بات کو سراہوں گا اور اگر کوئی خامی نظر آئی گی تو اسکو بھی بوائنٹ آؤٹ کرنا میرا آپ پر حق ہے۔

    اس لئے کہ ۔ ۔ ۔ آپ بہرحال میرے مسلم بھائی اور آپ جیسے لوگوں کی مسلم امہ کو زیادہ ضرورت ہے

    اللہ آپ کے علم میں اور اضافہ فرمائے اس دعا کے ساتھ میں اس بحت اور بدمزگی کو یہیں ختم کرتا ہوں

    اور آزاد بھائی پلیز اپنے رویئے پر بھی ذرا توجہ دیجیئے گا پلیز


    ءءءء
     
  6. اھل السنۃ

    اھل السنۃ -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏جون 24, 2008
    پیغامات:
    295
    السلام علیکم اس مضمون کا جواب آپ کو پچھلے پانچ چھ "الحدیث" رسالوں میں مل جائے گا "امتِ مصطفیٰ ص اور شرک" کے نام سے ۔ اور پہلے رسالے میں بھی ہے۔ جزاک اللہ
     
    Last edited by a moderator: ‏اکتوبر، 9, 2008
  7. آزاد

    آزاد ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 21, 2007
    پیغامات:
    4,558
    السلام علیکم!
    محترم حضرات:
    معافی چاہتا ہوں کہ میرے الفاظ سے آپ کو دکھ پہنچا ۔ میرا ایسا ارادہ بالکل نہیں تھا۔دراصل کچھ عرصہ پہلے میںنے ایک مضمون پوسٹ کیا تھا، تو کارتوس بھائی نے بہت برے طریقے سے الفاظ بازی کی تھی۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا۔ باقی جہاں تک صبر کی بات ہے تو پہلے تو مجھے یہ مضمون پوسٹ کیے ہوئے کافی عرصہ ہو گیا ہے اور دوسرے یہ کہ اس کے بعد میری پوسٹ کو پتہ نہیں کیا کردیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے کچھ نازیبا الفاظ نکل گئے ۔( سب سے پہلے تو آپ نے الزام لگایا کہ ایسی تحریریں کرنا جرم ہے کیا؟ دوسرا الزام آپ نے یہ لگایا کہ " جواب سوجھ نہیں رہا" کیا کسی نے آپ کو کہا کہ ہمیں جواب نہیں آرہا؟؟؟
    تیسرا آپ نے آتے ہی کارتوس بھائی پر گولہ باری کا الزام لگادیا۔۔۔۔) امید ہے آپ کو اپنے سوالوں کا جواب مل گیا ہوگا۔
    (امید کہ آپ بھائی کو میری نصحتیں بری نہ لگي ہونگيں۔ ان شاءاللہ )
    بالکل۔۔

    دانیال بھائی نے لکھاہے:
    (ویسے آزاد بھائی بات تو خاصی معقول کی ہے عتیق بھائی نے۔ ۔ ۔ ۔ چونکہ مسئلہ سنجیدہ نوعیت کا ہے تو جواب تو بہرحال کچھ توقف کے بعد ہی ملے گا

    سو صبر کرنے میں حرج کیا ہے ؟ اگر کچھ انتظار کر لینے سے کوئی حتمی جواب برآمد ہو سکتا ہے تو میرے خیال میں دینی مسئلے میں حصوصا جلد بازی اچھی چیز نہیں ہے

    ویسے آپ کی دوسری پوسٹ میں طنز عیاں تھا سو واقعی اس سے پرہیز کیجیئے تاکہ کسی کی دل آزاری کا سبب نہ بن سکے

    شکریہ

    میری بھی معذرت ایڈوانس قبول کیجئے گا)
    کوئی بات نہیں جناب۔ ہم یہاں سیکھنے سکھانے کیلئے آئے ہیں۔ انشاء اللہ آئندہ کوئی شکایت نہیں پائیں گے۔
    اہل علم حضرات سے گزارش ہے کہ وہ جتنی جلد ہوسکے اس کا جواب دینے کی کوشش کریں۔
    والسلام
     
  8. دانیال ابیر

    دانیال ابیر محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 10, 2008
    پیغامات:
    8,415
    آزاد بھائی السلام علیکم

    ماشااللہ ! دین میں افہام و تفہیم کا راستہ میرے خیال میں ایک راست عمل ہے۔ ۔ تلخی جہاں ماحول کو خراب کرتی ہے وہاں دلوں میں نفرت کے بیج بھی بوتی ہے ۔ امت مسلمہ پہلے ہی انتشار کا شکار ہے مزید ہم یہاں چند افراد بھی اگر ایسے ہی ماحول کو تخلیق کر لیں تو کیا یہ مناسب ہوگا ۔ ۔ ۔

    میں اپنی زندگی میں کافی سخت مزاج انسان ہوں میں کسی بھی جگہ اور کسی بھی مقام پر اور کسی بھی شخص کے منہ پر بات کر دیتا ہوں۔ ۔ مگر وہ میری ذاتی زندگی ہے ۔ ۔ جب ہم کسی مجلس، محفل، تقریب کے حوالے سے اپنی زندگی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں وہاں کے ماحول کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوتا ہے تاکہ بدمزگی نہ ہو۔ ۔ ۔ یہاں کافی ساری پوسٹس ایسی ہوتی ہیں جو میرے مزاج کے مخالف ہیں مگر میں اپنے رائے دینے میں محتاط رویہ اختیار کرتا ہوں کیونکہ اگر مجھے وہ چیز پسند نہیں ہے تو مجھے پڑھنا ہی نہیں چاہیئے۔ کیونکہ مضمون سے متن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ۔۔ ۔ اور ضروری نہیں کہ جو مجھے پسند ہو وہی ہر جگہ ہو۔ ۔ ۔

    ہمیں دوسروں کی پسند میں بھی اپنے آپ کو ڈھالنا ہوتا ہے۔ رشتوں میں مضبوطی کا یہی ایک اعتدالی پیمانہ ہے۔ ۔

    کہ ہم اپنے دوستوں کو ان کی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کریں جیسا کہ جوابا وہ کرتے ہیں ۔ ۔

    ماشااللہ آپ کا افہامی انداز اچھا لگا

    جزاک اللہ ۔ ۔۔ خوش رہیئے آمیں
     
  9. اھل السنۃ

    اھل السنۃ -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏جون 24, 2008
    پیغامات:
    295
  10. طالب علم

    طالب علم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2007
    پیغامات:
    960
    السلام علیکم !
    اگر اللہ نے چاہا تو میں اس پوسٹ پر detailed reply ضرور کروں گا چاہے مجھے ایک ہفتہ ہی کیوں نہ لگ جائے۔ ویسے میری پوری کوشش ہوگی کہ ایک اتوار کے روز تک جواب دے دوں۔
     
  11. آزاد

    آزاد ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 21, 2007
    پیغامات:
    4,558
    السلام علیکم بھائی :
    یہ فرمائیے کہ کس نمبرز کے شماروں میں‌ یہ مضمون ہے۔؟؟
     
  12. اھل السنۃ

    اھل السنۃ -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏جون 24, 2008
    پیغامات:
    295
    بتایا تو ہے غور سے پڑہیں
     
  13. آزاد

    آزاد ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 21, 2007
    پیغامات:
    4,558
    السلام علیکم بھائی:
    آپ نے لکھا ہے کہ ”بتایا تو ہے غور سے پڑہیں” تو جناب آپ غور سے پڑہیں میں نے نمبرز پوچھے ہیں‌جب کہ آپ نے لکھا ہوا ہےکہ پچھلے پانچ چھے شماروں‌میں۔:)
     
  14. asdf

    asdf -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏فروری 12, 2009
    پیغامات:
    34
    السلام و علیکم

    میں الحدیث کے شمارے چیک کررہا تھا۔ "امت مصطفی اور شرک" کے مولف 'صدیق رضا' نامی ہیں۔ یہ مضمون شمارہ نمبر 39 سے شروع ہو رہا ہے اور 46 میں آخری قسط ہے۔
    (40 شمارہ شعبان --- ستمبر 2007 کی تاریخ سے ہے، 39 کا سرورق ہے ہی نہیں، تاہم ایک ماہ قبل کا ہوگا)

    اوپر دئے گئے آرٹیکل میں مذکور شبہات پر توضیحات یوں تو پورے مضمون میں جابجا ہوں گی تاہم شمارہ 42 سے ردود کا کچھ باقاعدہ آغاز ہے۔ میرے پاس 41 شمارہ کی پ ڈ ف فائل کرپٹ ہو گئی ہے تو معلوم نہیں کہ اُس کے مندرجات کیا ہیں۔

    اگر آپ نے پہلے ہی سے یہ شمارے ڈاؤن نہیں کر لئے ہوئے تو پہلے 42 سے 46 تک ڈاؤن کریں پھر 41 سے پیچھے۔

    کچھ دوسری ضخیم تالیفات میں اس شبہ پر مفصل بحث موجود ہے۔ انشاء اللہ، میں کوشش کروں گا۔

    ذاتی طور پر میں یہ بھی کہوں گا کہ بعض معاملات سلجھے ہوئے انداز میں ڈیل کئے جانے چاہئیں، ورنہ شاید ہم تو اپنی ذات میں مطمئن ہو جائیں لیکن غیروں کی نظر میں ہم تماشہ بن جاتے ہیں۔
     
  15. فتاة القرآن

    فتاة القرآن -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 30, 2008
    پیغامات:
    1,444
    میں چاہوں گی ان کے ہر سوال کا جواب تفصیل سے دوں
    مجھے علم نہیں کہ یہ کب کی بات ہے پرانی پوسٹ ہے جدید
    لیکن آج میری نظر سے گزری ہے ان کے ہر سوال کا جواب میں قرآن کی دلائل سے دے سکتی ہوں باذن اللہ

    ربی یوقفنی
    آمین
     
    Last edited by a moderator: ‏مارچ 2, 2009
  16. منہج سلف

    منہج سلف --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2007
    پیغامات:
    5,047
    السلام علیکم!
    حنان آپ کے جواب کا شدت سے انتظار رہے گا۔ ان شاءاللہ
    والسلام علیکم
     
  17. فتاة القرآن

    فتاة القرآن -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 30, 2008
    پیغامات:
    1,444
    بسم اللہ الرحمن الرحيم
    آزاد بھائي
    آج ميں کوشش کروں گي آپکو مکمل جواب دينے کي اسکے باوجود کے ميں ايک طالبہ ہوں کوئي عالمہ نہيں
    ليکن ميں کوشش کروں گي کہ جوابات دلائل کے ساتھ واضح پيش کر سکوں

    سب سے پہلے آپ نے توحيد کي تعريف لکھي
    تو ميں بھي توحيد کي تعريف سے بات شروع کروں گي
    تاکہ بات واضح ہو

    توحيد کيا ہے؟
    توحيد کي لفظي معني: ايک جاننا ، ماننا اور ايک کہنا ہے?
    اصطلاحا: ايک اللہ کي عبادت کرنے اور کسي کو اس عبادت ميں شريک نہ کرنے کا نام توحيد ہے?

    لا الہ الا اللہ کا مطلب کيا؟
    لا الہ ان سارے معبودوں کي نفي ہے جن کي اللہ کو چھوڑ کر پرستش کي جاتي ہے اور الا اللہ صرف ايک اللہ کي عبادت کا اقرار ہے جس کا کوئي شريک نہيں?
    لا الہ الا اللہ کي شرائط حسب ذيل ہيں:
    1) علم جو جہالت کے منافي ہو
    2) يقين جو شک کے منافي ہو
    3) اخلاص جو شرک کے منافي ہو
    4) سچائي جو جھوٹ کے منافي ہو
    5) محبت جو نفرت کے منافي ہو
    6) اطاعت جو نافرماني کے منافي ہو
    7) قبوليت جو انکار کے منافي ہو
    8) انکار ان سارے معبودوں کا جن کي اللہ کو چھوڑ کر پرستش کي جائے?
    علم و يقين واخلاص و صدقک مع
    محب? و انقياد والقبول لھا
    وزيد ثامنھا الکفران منک بما
    سوي الالہ من الاشياء قد الھا

    بھائي جان آپ کے شيخ نے شرک کو محدود کر کے صرف ان چيزوں ميں شرک کو جانا جبکہ رسول تو ہميں شرک کي کافي قسميں بتا کر گۓ ہيں

    ميں آپ کے شيخ سے پوچھوں گي کہ اگر شرک صرف انہيں کچھ محدود عقيدوں ميں ہي ہے تو
    آپ کا کيا خيال ہے ان احاديث کے بارے ميں؟

    النبي صلى اللہ عليہ وسلم قال: من حلف بغير اللہ فقد اشرك. رواہ احمد والترمذي والحاكم باسناد صحيح
    جس نے غير اللہ کي قسم کھائي اس نے شرک کر ليا

    اب ميں آپ سے پوچھوں گي کہ کيا يھاں يہ شرک کرنے والا جس کي قسم کھاتا ہے اسے واجب الوجود مان کر اسکي قسم کھاتا ہے؟
    کيا اسے خالق مان کر اسکي قسم کھاتا ہے؟
    يا اسے بے نياز سمجھ کر قسم کھاتا ہے؟
    يقيناً نہيں وہ يہ سارے عقيدے نہيں رکھتا تو کيا اب آپ کے شيخ يہ کھيں گے کہ اس نے شرک نہيں کيا؟
    جبکہ ہمارے رسول يہ فرما چکے کہ اس نے شرک کر ليا

    قال رسول اللہ -صلى اللہ ... ان اخوف ما اخاف عليكم الشرك الاصغر، فسئل عنہ قال: الرياء
    مجھے جو ڈر ہے تم لوگوں پر وہ شرک اصغر کا ہے ، پوچھا گيا اسکے بارے ميں تو فرمايا: وہ رياء ہے (دکھاوا)

    اب يھي معاملہ رياء کا بھي ہے کوئي انسان جب کسي دوسرے انسان کو دکھانے کے لئے کوئي نيکي کرتا ہے تو يقيناً وہ اس انسان کو نہ خالق سمجھ کر ايسا کرتا ہے نہ مستحقِ عبادت نہ غني بالذات
    تو کيا آپ کے شيخ ايسے ريائ شخص کے لئے بھي شرک کا حکم نا لگائيں گے؟
    کيونکہ آپ کے شيخ تو صرف ان محدود عقائد رکھنے والے کو مشرک سمجھتے ہيں؟
    کوئي شک نہيں کہ ان کي يہ بات رسول کي احاديث کے خلاف ہے?

    آپ کے شيخ کا اگر يھي عقيدہ ے تو ميں اب آپ کو اس کي کچھ تفصيل آيات سے دونگي
    سبحانک ربي
    يقينا ميرا رب پہلے سے آپ جيسي سوچ رکھنے والوں کي سوچ سے واقف تھا اس لئے ہميں پہلے ہي اس کا جواب بھي سکھا ديا
    تو ميں آپ کو آپ جيسي سوچ رکھنے والے مشرکين مکہ کا عقيدہ بتا دوں جس کا يقينا آپ انکار نہيں کر سکيں گے
    اللہ کا فرمان ہے:
    الَا لِلَّہ الدِّينُ الْخَالِصُ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِہ اوْلِيَاء مَا نَعْبُدُھمْ الَّا لِيُقَرِّبُونَا الَى اللَّہ زُلْفَى انَّ اللَّہ يَحْكُمُ بَيْنَھمْ فِي مَا ھمْ فِيہ يَخْتَلِفُونَ انَّ اللَّہ لَا يَھدِي مَنْ ھوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ [الزمر : 3]

    خبر دار! اللہ تعالي کے لئے خالص عبادت کرنا ، اور جن لوگوں نے اللہ کے سواء اولياء بنا رکھے ہيں اور کھتے ہيں کہ ہم تو ان کي عبادت صرف اس لئے کرتے ہيں کہ يہ بزرگ اولياء ہميں اللہ کے قريب کر ديں گے
    يہ لوگ جس بارے ميں اختلاف کر رہے ہيں اس کا سچا فيصلہ اللہ خود کرے گا جھوٹے اور ناشکرے لوگوں کو اللہ ہدايت نہيں ديتا


    يہ آيت آپ کے شيخ کے عقيدہ کو واضح کر رہي ہے
    آپ کے شيخ کسي ولي کي قبر پر جاکر عبادت کو شرک نہيں سمجھتے وہ صرف انہيں ايک وسيلہ سمجھتے ہيں اللہ کي قربت حاصل کرنے کا اور پھر شرک کے يہ شرائط بتاتے ہيں کہ جس کي عبادت کي جارہي ہے اسے خالق سمجھنا يا غني بالذات سمجھنا ہي اصل شرک ہے تو ذرا اپنے شيخ سے پوچھئيے کہ اللہ نے اسے کيوں شرک کا نام ديا کيوں اللہ نے يہ فرمايا؟
    اور جن لوگوں نے اللہ کے سواء اولياء بنا رکھے ہيں

    کيا يہ آيت واضح نہيں کرتي کہ يہ اللہ کے سواء کسي غير اللہ کي عبادت ہے اور اسے وسيلہ کا بہانہ بنايا جارہا ہے؟
    اگر يہ آيت آپ کو سمجھنے کہ لئے کافي نہيںتو ايک اور دليل آپ کو اللہ کے کلام سےدونگي
    ليکن اس سےپہلے آپ ذرا اپنے شيخ کي بات کو بھي سامنے رکھيں

    آپ کے شيخ کے نزديک شرک وہ ہے جس ميں کسي غير اللہ کو غني بالذات يا خالق ومستحق ِعبادت سمجھ کر اسکي عبادت کي جائے
    چليں انکے عقيدے کو سامنے رکھتے ہوئے ہم ذرا مشرکينِ مکہ کا عقيدہ ديکھتے ہيں
    ان کے عقيدے کے بارے ميں ہمارا رب ہميں باخبر کر رہا ہے
    اللہ کا فرمان ہے :

    پوچھئے تو سہي ان (مشرکينِ مکہ) سے کہ زمين اور اس کي کل چيزيں کس کي ہيں؟
    بتلاؤ اگر تم جانتے ہو ؟
    وہ فورا جواب دينگے کہ اللہ کي ، کہہ ديجئے پھر تم نصيحت کيوں نہيں حاصل کرتے؟
    پوچھئے کہ ساتوں آسمانوں کا اور بہت باعظمت عرش کا رب کون ہے؟
    وہ لوگ جواب ديں گے کہ اللہ ہي ہے کہہ ديجئے پھر تم کيوں نہيں ڈرتے؟
    پو چھئے کہ تمام چيزوں کا اختيار کس کے ہاتھ ميں ہے جو پناہ ديتا ہے ، اور جس کے مقابل کوئي پناہ نہيں ديا جاتا ، اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ ؟
    وہ يھي جواب دينگے کہ اللہ ہي ہے کہہ ديجئے کہ پھر تم کھاں سے جادو کر دئيے جاتے ہو؟ (سورہ مؤمنون84:89)


    بھائي جان يھاں اللہ تعالي نے مشرکين مکہ کے عقيدے کو واضح کر ديا
    مشرکينِ مکہ بھي آپ کے شيخ کي طرح کا ہي عقيدہ رکھتے تھے
    وہ کب اپنے بتوں کوغني بالذات سمجھتے تھے؟
    وہ کب اپنے بتوں کو خالق سمجھ کر انکي عبادت کرتے تھے؟
    بھائي جان وہ مشرکينِ مکہ بھي اللہ ہي کو مشکل کشا ، حاجت روا، خالق و مالک سمجھتے تھے ليکن اس کے باوجود ان بتوں کو اللہ کي قربت يا سفارش کرنے والا سمجھ کر انکي عبادت کرتے تھے مگر اللہ نے ان سے برات کااعلان کر ديا اور فرمايا:
    اللہ پاک ہے اس شرک سے جو يہ لوگ کرتے ہيں (سورہ التوبہ31)

    آپ کو ايک اور آيت سے دليل ديتي ہوں
    جس ميں اللہ نے آپ کے شيخ جيسے عقيدے والوں کا ذکر فرمايا ہے

    اللہ کا فرمان ہے :
    آپ کہہ ديجئيے کہ کون ہے جو تم کو آسمان اور زمين سے رزق پہنچاتا ہے؟
    يا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختيار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کي تدبير کرتا ہے ؟
    ضرور وہ (مشرکينِ مکہ) يہي کہيں گے کہ اللہ تو ان سے کہيئے پھر کيوں نہيں ڈرتے؟
    سو يہ ہے اللہ جو تمہارا حقيقي رب ہے پھر حق کے بعد اور کيا رہ گيا بجز گمراہي کے ؟ پھر کھاں پھرے جارہے ہو؟
    اسي طرح آپکے رب کي يہ بات کہ يہ ايمان نہيں لائيں گے تمام فاسق لوگوں کے حق ميں يہ ثابت ہو چکي ہے
    آپ يوں کہيئے کہ کيا تمہارے شرکاء ميں کوئي ايسا ہے جو پھلي بار بھي پيدا کرے، پھر دوبارہ بھي پيدا کرے؟
    آپ کہہ ديجيئے کہ اللہ ہي پہلي بار پيدا کرتا ہے پھر وہي دوبارہ بھي پيدا کرے گا ? پھر تم کہاں پھرے جاتے ہو؟
    آپ کہيئے کہ تمہارے شرکاہ ميں کوئي ايسا ہے کہ حق کا راستہ بتاتا ہو؟
    آپ کہ ديجئے کہ اللہ ہي حق کا راستہ بتاتا ہے تو پھر جو شخص حق کا راستہ بتاتا ہو وہ زيادہ اتباع کے لائق ہے يا وہ شخص جس کو بغير بتائے خود ہي کوئي راستہ نہ سوجھے؟ پس تم کو کيا ہو گيا ہے تم کيسے فيصلے کرتے ہو؟ (سورہ يونس 31:35)


    پھر اللہ تعالي آپ کے شيخ جيسے ظن رکھنے والوں کے بارے ميں فرماتا ہے :

    اور ان ميں سے اکثر لوگ صرف اپنے گمان پر چل رہے ہيں يقينا گمان حق (کي معرفت) ميں کچھ کام نہيں دے سکتا يہ جو کچھ يہ کر رہے ہيں يقيناً اللہ اس سے باخبر ہے(سورہ يونس36)

    بھائي ميرا خيال ہے يہ آيات آپ کے شيخ کي بيان کردہ شرک کے محدود اور غلط شرئط کو بے بنياد ثابت کرنے کہ لئے کافي ہونگي

    کيونکہ ان آيات سے يہ واضح ہو چکا ہے کہ مشرکينِ مکہ اللہ پر ايمان کے بعد ان بتوں کي پوچا کرتے تھے مشرکينِ مکہ ان بتوں کو غني بالذات نہں سمجھتے تھے نا ہي خالق و مالک سمجھتے تھے وہ تو آپ کے شيخ جيسا ہي عقيدہ رکھتے تھے يعني اللہ کي قربت کا ايک وسيلہ
    ليکن ذرا آپ اپنے شيخ س ے پوچھيں کيا مشرکينِ مکہ بھي آپ کي نظر ميں مشرک نہ تھے کيونکہ بقول ان کے ايسا عقيدہ رکھ کر کسي کي عبادت کرنا يہ کسي سے مدد مانگنا شرک نہيں ؟
    تو اللہ نے محمد رسول اللہ کو کلمہ (لا الہ الا اللہ ) کي تبليغ کے لئے ان کے ہاں کيوں مبعوث کيا؟
    اور رسول صلي اللہ عليہ وسلم نے آتے ہي سب سے پہلے اسي کلمہ کي کيوں دعوت دي اور فرمايا
    قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا
    بھائي ذرا غور کيجئے اس بات پر اور اگر ممکن ہو تو ذرا سيرہ نبوي پڑھ کر ذرا مزيد ان کے عقائد کو جاننے کي کوشش کيجئے اور پھر ذرا اپنے شيخ کے عقائد کو بھي سامنے رکھ کر خود حق کے ساتھ فيصلہ کر ليجيئے

    بھائي ذرا آپ اپنے شيخ سے کوئي ايک دليل مانگے قرآن و حديث سے جس سے يہ ثابت ہو کہ اللہ نے اولياء يا پيروں کو مشکل کشا يا حاجت روا بنا کر اپني کسي صفت ميں اپنے ساتھ شريک کيا ہے؟

    ميں آپ کے شيخ کو اللہ کے کلام سے دليل دے کر ثابت کر سکتي ہوں کہ اللہ نے اپني اس صفت ميں اپنے لاڈلے نبي محمد صلي اللہ عليہ وسلم کو بھي شريک نہي کيا پھر آپ کے قبروں کے پيروں کو يہ صفت کس نے دے دي؟

    آپ کا رب رسول کي زباني يہ کھنے کا حکم دے رھا ہے رسول کو کہ :
    کہہ ديجئے کہ مجھے تمھارے کسي نقصان اور نفع کا کوئي اختيار نھيں، کہہ ديجيے کہ مجھے ہرگز کوئي اللہ سے نہيں بچا سکتا اور ميں ہرگز اس کے سوا کوئي جائے پناہ بھي پا نہيں سکتا، ميرا کام صرف اللہ کا پيغام لوگوں تک پہنچانا ہے(الجن)


    اے محمد صلي اللہ عليہ وسلم کہہ ديجئے کہ ميں خود اپني ذات کے لئے کسي نفع کا اختيار نہيں رکھتا اور نہ کسي نقصان کا مگرصرف وہي جو اللہ چاہے(سورہ الاعراف188

    يہ آيات واضح کرتي ہيں کہ کسي کا نفع و نقصان رسول کے ہاتھ ميں بھي نہيں تو آپ کے پيروں کو يہ اختيارات کس نے دے ديئے؟؟؟

    آپ کے شيخ نے بڑے بہادرانہ انداز ميں ہم پر تنقيد تو کر دي کہ ہم صفات عطاء الہي پر بھي يقين نہ رکھنے والے جاھل لوگ ہيں ليکن يہ قرآن و حديث سے دليل دينا بھول گئے
    آخر کب اور کس نے ان پيروں اولياء کو اللہ کي ان صفات ميں شريک کيا؟
    ذرا يہ بات قرآن و حديث سے ثابت کر ديکھائيں

    يہاں آپ کے شيخ بڑے دليرانہ انداز ميں عقلي دلائل دے کر آپ سب کو بے وقوف بنانے کي کوشش کر رہے ہيں مجھے ان کي ايسي دليل پر حيراني ہے
    چليں اس کا ميں بھي ذرا عقلي دلائل ميں ہي جواب دينے کي کوشش کرتي ہوں
    پہلي بات تو شيخ يہ ثابت کر ديں آيات و حديث سے کہ اللہ نے اپنے (النافع ، الضار ، الرازق، الحاضر، الغائب ، الھادي، القريب ، النصير، المستعان، الشافي، المقدم ، الموخر،التواب ، الغفور)
    ان سارے صفاتي ناموں ميں کب اپکے پيروں اور اولياء کو شريک کيا ؟ کيا اپکے عقل مند شيخ کسي ايک آيت يا حديث سے يہ دليل دے سکتے ہيں کہ اللہ نے اپني صفت الشافي(شفا دينے والا) اس صفت ميں کسي قبر کے ولي ،پير کو شريک کيا؟ جو آج آپ لوگ قروں پر جاکر اللہ کو چھوڑ کر ان سے شفا مانگتے ہيں؟
    کب اللہ نے اپني صفت النافع(نفع دينےوالا) ميں کسي بزرگ کو شريک کيا ؟ جو آج آپ ان کے آگے سر ٹيک ٹيک کر ان سے نفع مانگنے جاتے ہو؟ کب اللہ نے اپني صفت الرازق (رزق دينے والا) ميں کسي پير فقير کو شريک کيا جو آج آپ ان کے درباروں ميں رزق تلاش کرتے ہيں؟
    ذرا اپنے شيخ سے دليل تو مانگے قرآن و حديث سے کہ وہ يہ بات ثابت کر ديں کہ اللہ نے خود ان پيروں بزرگوں کو کو اپنے ان صفتوں ميں برابر کا شريک کر رکھا ہے؟؟؟

    اللہ تو فرما رہا ہے:
    کيا تم اللہ کے علاوہ ان کي عبادت کرتے ہو جو نہ تمہيں کچھ نفع پہنچا سکيں نہ ہي نقصان تف ہے تم پر اور ان پر جن کي تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ?کيا تمھيں اتني سي عقل بھي نہيں ؟(سورہ الانبياء 66:67)

    بھائي ذرا سا عقل کو استعمال کيا جاۓاور شيخ کي بات کو سايٹ پر رکھ اللہ کي بات کو سمجھنے کي کوشش کي جاۓ تو حق کو سمجھنا آسان ہو جاۓ گا
    چليں اب آپ کے شيخ کي دوسرے بے معني عقلي دليل کا جواب بھي ديتي ہوں

    اب سوال انکا بڑا عجيب ہے
    کہتے ہيں اللہ سميع و بصير ہے تو کيا تم گونگےبہرے ہو؟
    اوہ عقل مند شيخ ذرا آپ يہ تو بتاؤ کہ اگر اللہ بصير ہے اور وہ سمندر کي گھرائي ميں موجود لاکھوں مچھليوں کو ہر لمحہ ديکھ رہا ہے وہ رزاق ہے تو ان مچھليوں کو روزانہ رزق کھلارہا ہے اب ذرا آپ اپني بصيرت کي اس صفت سے سمندر کي گہرائي ميں موجود مچھليوں کي تعداد ہي ديکھ کر بتا ديں؟
    يقينا يہ آپ کے ليے ممکن نہيں اوہ عقل مند شيخ اپکي ہر صفت اور اللہ کي ہرصفت ميں زمين آسمان کا فرق ہے
    وَلِلّہ الْمَثَلُ الاعْلَىَ وَھوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [النحل : 60]
    اور اللہ کے لے تو بہت ہي بلند صفت ہے وہ بڑا ہي غالب اور حکمت والا ہے

    اور ياد رکھيے اللہ کے ليے مثاليں مارنا منع ہے
    اس ليے ان چيزوں کو آپ اپني عقلي دلائل کے ليے استعمال مت کيا کريں
    فَلاَ تَضْرِبُواْ لِلّہ الامْثَالَ انَّ اللّہ يَعْلَمُ وَانتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ [النحل : 74]
    اور اللہ کے ليے مثاليں نا مارو بے شک اللہ جانتا ہے اور تم نہي جانتے



    آپ کي وجہ سے مجھے ايسي ہي مثال ديني پڑي جيسي آپ نے دي لوگوں کو بے وقوف بنانے کے ليے
    اس ليے ضروري يہ تھا کہ آپکو آپکي ہي مثال سے سمجھايا جاۓ

    دوسري ايک اہم بات جوايسے شيخ دليل کے طور پر لوگوں کو بے وقوف بنانے کے ليے اکثر استعمال کرتے ہيں ضروري ہے آج اسے بھي واضح کيا جاۓ

    آپ کے شيخ آپ کو يہ کہيں گے کہ اگر اللہ کي صفت شافي ہے تو ہم وہابي لوگ وہ شفا ڈاکٹرز کے پاس کيوں تلاش کرتے ہيں ؟ ايسے ہي تم لوگ شفا بزرگوں سے قبروں پر جاکر مانگ سکتے ہو

    تو اس کا جواب ميں آپ کے شيخ کو يہ دونگي کہ
    ہم اگر ڈاکٹر کے پاس جاتے ہيں علاج کے غرض سے
    تو کون سا وہابي ڈاکٹر کے پاس جاکر نذرانہ پيش کرتا ہے؟
    کون سا موحد ڈاکٹر کے ليے دل ميں عاجزي و انکساري کے ساتھ اسے سجدے کر کے اس سے شفا مانگتا ہے؟
    ہم جب ڈاکٹر کے پاس جاتے ہيں تو اسے ايک سبب سجھ کر نہ کہ صدق و عاجزي نذرانہ وغيرہ لے کر
    اوہ عقل مند شيخ يہاں نا صرف عقيدہ کا فرق ہے عمل کا بھي فرق ہے

    کيوں دنياوي مال و دولت کے ليے معصوم لوگوں کو انکے حقيقي رب کے سامنے جکھنے نہيں ديتے؟
    يہ عاجزي يہ انکساري يہ نذر و نياز يہ دعائيں سب عبادات کا اہم حصہ ہيں جو غير اللہ کے ليےکسي صورت جائز نہيں

    پہلے تو آپ کے شیخ قرآن و حدیث سے یہ ثابت کریں کہ ان اولیاء پیر فقیروں کو عطاۓ الہی یا صفات الہی دی گئی ہیں اس پر ایمان کی بات تو بعد میں آۓ گی پہلے دلیل تو ہو
    کيا کوئي گمراہ شيخ قرآن و حديث سے دلائل دے سکتا ہے جس سے يہ ثابت ہو سکے کہ اللہ نے کبھي کسي اولياء اللہ سے دعا مانگنے کا حکم ديا ہو؟ يہ کسي اولياء کے ليے نذر و نياز کا حکم ديا ہو؟

    قرآن ايک بار نہيں بار بار ان شريکيہ کاموں سے روکتا ہے ليکن جاہل علماء السوء آج بھي شرک کي صحيح تشريح نہ کرسکے
    شرک کو کچھ محدود اور غلط شرائط ميں قيد کر کے انھوں نے باقي شرک کي قسموں کو حلال کرديا
    افسوس در افسوس

    آخر ميں ذرا آپ اپنے ان شيخ سے ان آيات کا تفصيلي ترجمہ اور تشريح پوچھئیے
    آخر ان آيات ميں اللہ کن کا ذکر فرما رہے ہيں؟

    1/ "بے شک اللہ تعالي کے علاوہ جنہيں تم پکارتے ہو وہ تمہاري مثل بندے ہيں ان سے دعائيں مانگ ديکھو يہ تمہاري دعاؤں کا جواب ديں اگر تم سچے ہو-" (الاعراف:1949)

    2/ اور اللہ کا شريک ٹہرايا جنوں کو حالانکہ اس نے ان کم بنايا اور اس کے ليے بيٹے اور بيٹياں گھڑليں جہالت سے، پاکي اور برتري ہے اس کو ان کي باتوں سے-" (الانعام:100)
    ترجمہ: احمد رضا خان
    3/ "تم فرماؤ پکارو! انہيں جنہيں اللہ کے سوا سمجھے بيٹھے ہو وہ زرہ بھر کے مالک نہيں، آسمانوں ميں اور نہ زمين ميں اور نہ ان کا ان دونوں ميں کچھ حصہ اور نا اللہ کا ان ميں سے کوئي مددگار-" (سبا:22)
    (تفسير مدارک 5/159 ميں ہے: " قول? (من دون اللہ) اي من الاصنام و الملائک?" يعني (من دون اللہ) سے مراد بت اور فرشتے ہيں-)
    چند ايک اور آيات ملاحظہ ہوں جن ميں (من دون اللہ) سے مراد ذوي العقول ہيں-

    4/ " انہوں نے اپنے علماء اور درويشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بناليا ہے اور اسي طرح مسيح ابن مريم عليہ السلام کو بھي- حالانکہ انہيں اي معبود برحق کے علاوہ کسي کي بندگي کا حکم نہيں ديا گيا- وہ جس کے سوا کوئي عبادت کے لائق نہيں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو يہ لوگ کرتے ہيں-" (التوبہ:31)
    اس آيت کريمہ ميں (من دون اللہ) سے مراد علماء، درويش اور عيسي عليہ السلام ہيں-

    5/ 'کسي انسان کا يہ کام نہيں ہے کہ اللہ تو اس کو کتاب، حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے سوا تم ميرے بندے بن جاؤ-" (ال عمران 79)
    يہاں (من دون اللہ) سے مراد انبياء عليہم السلام ہيں جنہيں کتاب، حکمت اور نبوب جيسي اہم خصوصيات سے نوازا گيا-

    6/ " کہ ديجيے اے اہل کتاب! آؤ ايک ايسي بات کي طرف ج وہمارے اور تمہارے درميان يکساں ہے، يہ کہ ہم اللہ کے سوا کسي کي بندگي نہ کريں، اس کے ساتھ کسي کو شريک نہ ٹھرائيں اور ہم ميں سے کوئي اللہ کے علاوہ کسي کو اپنا رب نہ بنائے-" (آل عمران:64)
    يہاں (من دون اللہ) سے مراد انسان ہي ہے-
     
    Last edited by a moderator: ‏مارچ 4, 2009
  18. منہج سلف

    منہج سلف --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2007
    پیغامات:
    5,047
    جزاک اللہ حنان!
    بے شک آپ نے بہترین جواب دیا ہے اس بھائی کو۔
    مجھے امید ہے کہ اتنا کچھ ہی اس کے لیے کافی ہے اور اگر اتنے ثبوتوں کے باوجود بھی یہ بات سمجھ میں نہ آئے تو ہم ان کے حق میں دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ انہیں ھدایت نصیب فرمائے۔ آمین
    جاری و ساری رکھیں۔ ان شاءاللہ
    والسلام علیکم
     
  19. آزاد

    آزاد ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 21, 2007
    پیغامات:
    4,558
    السلام علیکم ساتھیو!
    پہلے تو میں اپنی دینی بہن کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا ، جنھوں نے بڑے ہی احسن انداز میں ہر بات کی وضاحت کی ۔ لیکن ایک بات کی وضاحت میں بھی کرنا چاہوں گا کہ میں نے یہ مضمون یہ کہہ کر نہیں پیش کیا تھا کہ یہ میرے دل کی آواز ہے اور میں‌اس سے متفق ہوں ، جیساکہ آپ نے باربار ’آپ کے شیخ‘ کے الفاظ سے مجھے یاد فرمایا ہے۔ بلکہ میں بھی سلفی ہوں۔
    امید ہے آپ سب بہترین امن وسلامتی میں ہوں گی۔ اللہ آپ کے علم و عمل میں برکت فرمائے ، اور ہمیں‌بھی دین کی سمجھ عطا فرمائے۔ آمین
     
  20. فتاة القرآن

    فتاة القرآن -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 30, 2008
    پیغامات:
    1,444
    سوری بھائی مجھے آپکی کچھ پچھلی پوسٹ سے یہ غلط فھمی ہوئی
    یہ جان کر بےحد خوشی ہوئی کہ آپ ہمارے سلفی بھائی ہیں
    الحــــــــــــــــــــــمدلــــــــــلـــــــــــــــہ​

    اللہ یجزاک الخیر
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں