رفی پیڈیا!

رفی نے 'ادبی مجلس' میں ‏جولائی 11, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    چھری، قینچی اور زبان

    چھری ایک روزمرہ کے استعمال کی چیز ہے۔ یہ اوزار کبھی باورچی خانے میں‌ مستعمل تھا جس سے سبزی، گوشت وغیرہ کاٹے جاتے تھے مگر آج اسے بطور ہتھیار بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ چھری وہی اچھی ہوتی ہے جو بوقتِ ضرورت کام آئے، چھری چھوٹی بھی ہوتی ہے اور بڑی بھی، لیکن اگر دو چھریوں کو بیک وقت استعمال کیا جائے تو وہ قینچی بن جاتی ہے، عام نظر میں قینچی گو کہ چھری جیسی خطرناک نہیں سمجھی جاتی لیکن اگر آپ چھریوں کی خصوصیات سے آگاہ ہوں تو یہ اندازہ لگانے میں ذرا بھی دقت نہیں ہوگی کہ قینچی کا ایک ایک پر بھی ان خصوصیات پر پورا اترتا ہے، پھر بھی یقین نہ آئے تو قینچی کو جیب میں رکھ کر کبھی جہاز پر سوار ہونے کی "کوشش کرنے کی کوشش" کریے گا، اب اگر آپ یہ مشن امپاسیبل کر کے آ چکے ہوں تو قینچی کے بھیانک استعمال سے بخوبی واقف ہو چکے ہوں گے تو یہ بھی جان گئے ہوں گے کہ ایک اکیلا اور دو گیارہ کے مصداق قینچی چھری کی بھی ماں ہے۔ مزید سمجھنے کے لئے درج ذیل مساوات دیکھیں:

    چھری + چھری = قینچی

    کتنی آسانی سے ہم نے لیفٹ ہینڈ سائیڈ کو حل کر ڈالا، مگر رائیٹ ہینڈ سائیڈ کی طرف آئیے تو پتہ چلے گا کہ مسئلہ اتنا آسان نہیں جتنا ہم سمجھ رہے ہیں:

    دوسری طرف ہے زبان جس کا میٹھا پن بڑے سے بڑا کام نکال سکتا ہے، بڑے بڑوں کو آپ کا گرویدہ کر سکتا ہے، بہت سے ایسے افراد آپ نے بھی دیکھ رکھے ہوں گے جو صرف زبان کی کمائی پر ہی گذارہ کرتے ہیں، انہیں اپنے ہاتھ پاؤں ہلانے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرنا پڑتی، لیکن ان کے لئے خوشامدی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، خوشامد خود تو بہت پُرکشش شے ہے مگر یہ لفظ انتہائی معیوب ہے، پھر بھی اکثر اس جال میں پھنس جاتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس پر کوئی خرچ بھی نہیں آتا اور نہ ہی محنت کرنا پڑتی ہے بس زبان کی لوچ سے اگلے کا پتہ صاف کیا جا سکتا ہے۔ یعنی وہی کام جو ایک چھُری سے لیا جا سکتا ہے، مگر زبان کو تو قینچی سے تشبیہہ دی جاتی ہے نا وہ کیوں بھلا؟ وہ اس لئے کہ زبان جہاں مٹھاس کے ذریعے گھائل کرتی وہیں اپنی کڑواہٹ سے بھی محبتوں کے گلے کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ تو بھائی لوگ کیا خیال ہے زبان اور قینچی ہم پلہ ہوئیں‌یا نہیں؟

    ویسے یہاں پر ضروری سمجھتا ہوں‌ کہ یہ بھی بیان کرتا چلوں کہ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان بچے رہیں۔

    ذرا غور کیجیئے گا کہ یہاں پر بھی زبان کو ہاتھ پر مقدم کیا گیا کہ یہ ہر وقت قینچی کی طرح چل سکتی ہے اور پہلے اسی کے وار ہوتے ہیں، ہاتھ کی نوبت بعد میں آتی ہے جیسا کہ کہا گیا ہے۔
    جراحات السنان لہا التیام
    ولایلتام ماجرح اللسان
    “ یعنی نیزوں کے زخم بھرجاتے ہیں اور زبانوں کے زخم عرصہ تک نہیں بھرسکتے۔ ”
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  2. sjk

    sjk -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏ستمبر 8, 2007
    پیغامات:
    1,754
    جزاکم اللہ خیرا رفی بھائی، ابو عبد اللہ بھائی نے ایک بہت خوبصورت حدیث بتائی تھی۔ پر عمومی طور پر دوسروں کے ساتھ معاملات کے وقت ہم بھول جاتے ہیںِ

    [qh]عن ابن مسعود، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ألا أخبركم بمن يحرم على النار أو بمن تحرم عليه النار على كل قريب هين سهل [/qh] ( ترمذي، صححہ الالباني)
    ترجمہ:کیا تمہیں نہ بتاؤں جہنم کس پر حرام ہے ؟ ہر آسانی نرمی اور سہولت دینے والے،لوگوں سے قریب رہنے والے پر جہنم حرام ہے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  3. ابن عمر

    ابن عمر رحمہ اللہ بانی اردو مجلس فورم

    شمولیت:
    ‏نومبر 16, 2006
    پیغامات:
    13,354
  4. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    [qh]جراحات السنان لها التیام
    ولايلتام ماجرح اللسان
    [/qh]
    كيا خوب شعر ياد كرايا اسى موضوع پر حضرت علي رضي اللہ عنہ كے اشعار

    [qh]و احفظ لسانك واحترز من لفظه
    فالمرء يسلم باللسان ويعطب
    والسِّرُّ فاكُتُمْهُ ولا تَنطِق به
    فهو الأسير لديك اذ لا ينشب
    وَاحْرَصْ على حِفْظِ القُلُوْبِ مِنَ الأَذَى
    فرجوعها بعد التنافر يصعب
    إِنّ القُلوبَ إذا تنافر ودُّها
    شِبْهُ الزُجَاجَةِ كسْرُها لا يُشْعَبُ[/qh]
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  5. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063
    السلام علیکم
    بہت ہی عمدہ اور مفید شئیرنگ ہے رفی بھئی۔
    میں خوس ، آپکی پیڈیا میں گھس پڑ رہا تھا۔۔پھر سونچا کہ ابھی ، آغاز ہے اتنا جلدی "رفی پیڈیا " میں چھید کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔، مطلب کوئی بات لکھ پڑرہا تھا۔۔انی ویز۔۔۔
    واقعی بہت ہی امپارٹنٹ چیز کی طرف اشارہ ہے۔۔۔اللہ ہمیں محفوظ رکھے۔۔آمین
     
  6. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    بابے، آکٹوپس اور فٹبال!

    بابے، آکٹوپس اور فٹبال!

    بابے یا باوے ایک ہی لفظ ہے، ان کی ایک بڑی قسم ہے پروفیشنل بابے، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انتر یامی ہوا کرتے ہیں، اب آپ پوچھیں گے کہ یہ انتر یامی کیا لفظ ہوا، بھئی گیانی، اچھا اس کا مطلب بھی نہیں پتہ، میں‌کیسے سمجھاؤں کیونکہ ان کی خصوصیات کا تعلق ہی ہندو مذہب سے زیادہ ملتا ہے، اسی لئے ہندی الفاظ ہی زیادہ بہتر ترجمانی کر پاتے ہیں! چلیں کوشش کرتا ہوں آپکو آسان زبان میں بتانے کی "جو ہر بھید کو جانتا ہو، دلوں میں بھی چھپے رازوں کو"۔
    جس طرح زندہ ہاتھی لاکھ کا ہو تو مرا ہوا سوا لاکھ کا ہوتا ہے، ٹھیک اسی طرح یہ بابے بھی زندگی میں اتنا نام اور پیسہ نہیں کما پاتے جتنا ان کے مرنے کے بعد گدی نشین کما لیتے ہیں۔ خیر ہمیں‌ اس سے کیا ہمیں تو بس اتنا پتہ ہے کہ یہ بابے بڑے عامل کامل ہوا کرتے ہیں، ان کا ماٹو ہوتا ہے ناممکن کو ممکن بنائیں، جو چاہیں سو پائیں، آج کی آج آزمائیں۔ ان کی جڑیں بہت گہری ہوا کرتی ہیں، اور کئی ہاتھ ہوتے ہیں، جی ہاں یہ مافوق الفطرت دکھنے کہ لئے یہ سب ضروری ہوتا ہے۔ جو ایک بار ان کے شکنجے میں‌ پھنس جاتا ہے وہ بہ مشکل ہی نکل پاتا ہے۔ ان کے اوپر عموماً سبز رنگ کی کائی جمی ہوتی ہے۔ اور انتہائی بد وضع و کریہہ صورت کے ہوتے ہیں۔
    بڑی بڑی پیشین گوئیاں بھی کر جاتے ہیں، پرانے بادشاہوں نے تو ان کی ایک خاص فوج رکھی ہوتی تھی جو ان کو ہر کام سے پہلے بتایا کرتے تھے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔

    چلتے ہیں دوسری جانب، آپ نے یہ خبر تو ضرور سن رکھی ہو گی کہ جرمن آکٹوپس نے تیسری پوزیشن کیلئے جرمنی کوفیورٹ قرار دیا ہے اور یہی وہ آکٹوپس تھا جس نے سیمی فائنل میں جرمنی کے مقابلے میں سپین کی جیت کی پیشگوئی کی تھی جو کہ سچ ثابت ہوئی جس کے بعد آکٹوپس کے چرچے پوری دنیا میں ہونے لگے۔ فائنل کی پیشین گوئی بھی آکٹوپس بابا نے سپین کے حق میں کی جو کہ سچ ثابت ہوئی۔

    آکٹوپس گزشتہ دوسال سے مختلف چیزوں کے بارے میں اپنی پیشگوئیاں کرتا رہتا ہے لیکن موجودہ ورلڈکپ میں اس نے جو پیشگوئیاں کی وہ اتفاقاً درست ہوئیں جس کے بعد ’جرمن آکٹوپس پاؤل‘ کے چرچے ہر اس ملک میں بھی ہونے لگے ہیں جہاں فٹ بال کے شوقین موجود ہیں اور رواں ورلڈکپ کے مقابلے دیکھے جا رہے ہیں۔پاؤل نامی اس ہشت پاجانور جوکہ پانی میں رہتا ہے نے صرف چند ہی دنوں میں عالمی شہرت حاصل کرلی اور دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اب تو شائقین کے علاوہ بعض کھلاڑی اور سیاست دان بھی آکٹوپس پر یقین کرنے لگے ہیں اور کریں بھی کیوں نہ جو خصوصیات بابوں میں پائی جاتی تھیں‌ یہ آکٹوپس بھی انہی کا حامل ہے، لیکن جہاں آکٹوپس کی شہرت میں اضافہ ہوا ہے وہیں اس کے "وہابی نما" دشمنوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ویسے میرا تو ذاتی خیال یہی ہے کہ اب بابوں کا دور ختم ہوا چاہتا ہے اور ان کی جگہ آکٹوپسوں کا دور شروع ہو گیا ہے، کیونکہ بابوں کی تو نہ سمندری طوفان کے آگے چلتی ہے اور نہ دہشت گردوں کے آگے۔ آپ میں سے کوئی بھی شرط لگا لے کہ پاؤل کے مرنے کے بعد نہ صرف شہرت میں اضافہ ہوگا بلکہ اسکی میت شریف کسی عجائب خانے میں محفوظ کر دی جائیگی جہاں لاکھوں زائرین اس عظیم آکٹوپس کے جسدِ فانی کے دیدار سے فیض یاب ہوں گے۔


    رہا فٹ بال، تو بھائی لوگ فٹ بال کی قسمت میں ٹھوکر ہی لکھی ہے، کبھی اس کے پاؤں میں تو کبھی اس کے پاؤں میں، معتقدین کا یہی حال رہنا ہے۔

    اب دیکھیئے کہ حدیثِ مبارکہ ان پیشین گوئیوں کے بارے میں کیا حکم دیتی ہے:

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیب کی پانچ کنجیاں ہیں جنہیں اللہ تعالی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ کسی کو نہیں معلوم کہ کل کیا ہونے والا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے کل کیا کرناہوگا، اس کا کسی کو علم نہیں۔ نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ اسے موت کس جگہ آئے گی اور نہ کسی کو یہ معلوم کہ بارش کب ہوگی۔ (صحیح بخاری -> کتاب استسقاء، حدیث نمبر : 1039)

    اور قرآن کریم میں ارشاد ہے:

    [ar] اِنَّ اللّٰہَ عِندَہُ عِلمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الغَیثَ وَیَعلَمُ مَا فِی الاَرحَامِ وَمَاتَدرِی نَفس مَّاذَا تَکسِبُ غَدًا وَمَا تَدرِی نَفس بِاَیٍِ اَرضٍ تَمُوتُ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیم خَبِیر ( لقمان:34 ) [/ar]

    یعنی“بے شک قیامت کب قائم ہوگی یہ علم خاص اللہ پاک ہی کو ہے اور وہی بارش اتارتا ہے ( کسی کو صحیح علم نہیں کہ بالضرورفلاں وقت بارش ہو جائے گی ) اور صرف وہی جانتا ہے کہ مادہ کے پیٹ میں کیا ہے، اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گااور یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کون سی زمین پر انتقال کرے گا بے شک اللہ ہی جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے"

     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  7. فرینڈ

    فرینڈ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏مئی 30, 2008
    پیغامات:
    10,709
    بہت خوب! جزاک اللہ خیرا۔۔۔۔۔۔!
     
  8. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    حسب معمول بہت تخليقى اور عمدہ تحرير ! جزاكم اللہ خيرا ۔اللہ تعالى ضعيف الاعتقادى سے بچائے ۔

    فٹ بال اور بابوں کے معتقدين كى مماثلت بھی خوب بتائى ، ٹھوکریں !

    يہ بابوں كا مسئلہ كمائى ہوتا ہے تو اس آکٹوپس كے معاملے ميں بھی يقینا پیسے کا چکر ہے اور ميڈیا وہ سامرى ہے جو بچھڑوں ميں بھی اپنے فن سے آواز پیدا كر ديتا ہے ۔

    توہم پرست ہر دور ميں عقل سے عارى ہوتے ہیں جس طرح حضرت موسى عليہ السلام كى قوم كے کچھ كم عقل سونے کے بچھڑے كو بولتے ديكھ كر اس كو خدا مان بيٹھے تھے اور يہ بھی نہیں سوچا تھا كہ بچھڑا صرف تب ہی كيوں بولتا ہے جب ہوا چلتی ہے ، اسى طرح اس آکٹوپس كے توہم پرست معتقدين نے بھی یہ نہیں سوچا کہ آکٹوپس نے منہ سے كسى ٹیم كا نام تو نہیں لیا وہ تو ايك باكس ( ڈبے) سے دوسرے ميں جاتا تھا اور بس تو اس ميں كيا پیشنگوئی ہوئی ؟ اور ان كم عقل معتقدين كى ذرا عالمى حالات حاضرہ پر نظر ہوتی تو يہ ہی سوچ ليتے کہ يہ عالمى جوا بازوں اور سٹہ بازوں كا شوشہ ہی نہ ہو مخصوص ٹیموں كا ريٹ بڑھانے كے ليے ؟

    يہاں دل چاہتا ہے كہ كہا جائے توہم پرست كم عقل مغرب ! مگر كيا كيا جائے ابھی دھرابى چکوال كا نعلين پاک والا واقعہ پرانا نہیں ہوا !

    تو ثابت ہوا كہ مشرق كم ازكم "فٹ بالوں" ميں مغرب سے کم نہیں ، البتہ جے کے رولنگ (ہیری پوٹركى مصنفہ) اور ڈین براؤن (دى لوسٹ سمبل، دى داونشى كوڈ كا مصنف ) جيسے " ذرا ذہین فٹ بال " ادھر زيادہ چھپتے اور بكتے ہیں اتنا كہ بيسٹ سيلر ايوارڈ لے لیتے ہیں ! اور بظاہر دنياوى ٹھوکر نہیں کھاتے مگر آخرت ميں تو وہی ٹھوکریں!!!!
     
  9. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    شکریہ عین سسٹر!

    مجھے ایسے ہی کسی ریسپانس کا انتظار تھا جس میں شکریے اور جزاک اللہ سے بڑھ کر بھی کچھ کہا جائے۔ دراصل توہم پرستی تو خصوصیت ہی غیرمسلموں کی ہے اور اسی توہم پرستی نے ترقی کر کے شخصیت پرستی کا روپ اپنا لیا جس سے بابوں کی انڈسٹری کو فروغ حاصل ہوا۔
     
  10. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    خير كہنا تو "رفی پیڈیا " كى پہلی پوسٹ پر بھی بہت کچھ تھا مگر مصنف سے خوف آتا تھا كہ ليكچر كی پھبتی نہ كس دے !سادوں پر لکھی تحریر " سادے" بھی ایسی ہی زبردست تھی ۔

    رفی پیڈیا اچھا آئیڈیا ہے اسى نام سے بلاگ ہونا چاہیے ۔

    چیٹنگ اور چَیٹنگ پر لکھ چکے ، اب ذرا كبھی فرصت ميں بليك ميلنگ پر شوخ قلم اٹھائیے ۔ ۔ ۔
     
  11. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    ہمممممممممم اچھا انڈیا اوہ سوری آئیڈیا ہے، بلاگ کے نام والا بھی اور ٹاپک والا بھی۔

    کیپ واچنگ!
     
  12. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    گیپ انالیسس - Gap analysis

    گیپ انالیسس - Gap analysis

    گیپ انالیسس کی اصطلاح کاروبار اور معاشیات میں عام ہے، یہ ایک ایسا طریقہ کار ہوتا ہے جس کی مدد سے کسی کمپنی کو اپنی کارکردگی کا موازنہ اپنی صلاحیت سے کرنا ممکن ہوتا ہے۔ اسکی بنیاد ان دو سوالوں پر ہے: "ہم کہاں کھڑے ہیں" اور "ہم کہاں کھڑا ہونا چاہتے ہیں"

    اگر کوئی ادارہ اپنے ذرائع کا صحیح استعمال نہ کر رہا ہو تو اس کی کار کردگی اور پیداوار اس کی صلاحیت سے کہیں کم ہو جاتی ہے۔

    گیپ انا لیسس کا مقصد اس خلاء کو ڈھونڈنا جو کسی لائحہ عمل پر عمل درآمد اور بہترین نتائج کے حصول کے درمیان ہو اور موجودہ سطح کا تعین کرنا ہوتا ہے۔

    اس سے ادارے کو اپنے اندر ایسی چیزوں کا پتہ چلتا ہے جن میں مزید بہتری لائی جا سکتی ہے۔

    گیپ (GAP) گُڈ، ایوریج اور پوور (Good, Aeverage and Poor) کا مخفف بھی سمجھا جاتا ہے، یعنی کسی بھی طریقہ کار میں سے ایسی چیزوں کی نشاندہی کرنا جو اچھی ہوں، متوسط ہوں یا خراب ہوں۔

    ان دونوں تعریفوں کو سامنے رکھ کر کیا ہم، ہم یعنی مسلمان اپنا تجزیہ کر سکتے ہیں؟ کیا عوامل ہیں کہ بہترین امت کا خطاب پانے والے اس وقت دگرگوں حالات سے نبرد آزما ہیں؟ کیا خود احتسابی ہمارا فریضہ نہیں؟ یا پھر ہم ہیں ہی اسی قابل؟

    نہیں ہم اس قابل تو نہیں تھے، ہمارا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ ہمارے اندر وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک بہترین امت کا خاصہ ہیں، ہم نے ہر دور کی سپر پاور کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، ہمارے نام کا ڈنکا تو چہار دانگ عالم میں بجتا تھا، صلاحیت تو ہے ہمارے اندر پھر کیا وجہ ہے کہ ہم زوال در زوال کی جانب رواں دواں ہیں؟

    یقیناً وہ طریقہء کار، وہ لائحہ عمل، وہ حکمتِ عملی خامی کا شکار ہے جس پر ہم عمل پیرا ہیں۔

    کیا؟ ہمارا لائحہ عمل تو دینِ فطرت ہے، اس میں خامی کہاں سے آئی؟

    غور کریں کیا ہم اس ضابطہء حیات پر عمل کر رہے ہیں جس کے بارے میں اللہ تعالٰی نے فرمایا تھا "الیوم اکملت لکم دینکم"؟ یا پھر اس پر جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے متنبہ فرمایا تھا ٫٫فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین ، تمسکوا بہا وعضوا علیہا بالنواجذ وایاکم ومحدثات الامور ، فان کل محدثۃ بدعۃ ، وکل بدعۃ ضلالۃ ،،وفی روایۃ النسائی ٫٫وکل ضلالۃ فی النار،،٫٫مسلمانو!تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقے ہی کو اختیار کرنا اور اسے مضبوطی سے تھامے رکھنا اور دین میں اضافہ شدہ چیزوں سے اپنے کو بچاکررکھنا اس لئے کہ دین میں نیا کام ( چاہے وہ بظاہر کیسا ہی ہو) بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ ہر گمراہی جہنم تک لے جانے والی ہے ،،( ابو داود کتاب السنۃ باب :٥حدیث : ٤٦٠٧ اور نسائی کتاب الخطبۃ باب :٢٢حدیث :١٥٧٦)۔

    اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس گیپ انالیسس پر توجہ دیں اور دیکھیں کہ کیا چیز گُڈ ہے، کیا ایوریج ہے اور کیا پوّر ہے؟
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  13. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    میں اتنا خوفناک ہوں :00010:

    کہیئے، کہیئے کھُل کر کہیئے، آئی ڈونٹ ہیو مائنڈ!

    پہلے ہی فرائی ہو چکا تھا!
     
  14. کمانڈر فہد

    کمانڈر فہد -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 29, 2009
    پیغامات:
    391
    رفی بھائی کیا لکھ دیا ، آج ہی cost accounting میں variance analysis پڑھ کر آیا ہوں ،Bedgeted Factory Overheads اور Actual Factory Overheadsکے فرق کو variance analysis کہتے ہیں ،بہت مشکل ٹوپک ہے ، آپ نے تو بس ڈیفینیشن لکھی ہے ، آگے جو پنگے ہوتے ہیں وہ آپ کو کیا پتہ ؟:) دماغ گھما کر رکھ دیتا ہے یہ ٹوپک ، اتفاق سے آپ نے بھی اسی ٹوپک پر بات کی ۔تو میں اس کے متعلق کیا کہہ سکتا ہوں ۔:00006:
     
    Last edited by a moderator: ‏جولائی 13, 2010
  15. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    ہمممممممممم تو آگے کے پنگے آگے چل کر دیکھیں گے فی الحال آپ کا کیا خیال ہے، کیا اس طریقے سے امپلیمنٹ کیا جا سکتا ہے جیسا میں نے کہا ہے؟
     
  16. کمانڈر فہد

    کمانڈر فہد -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 29, 2009
    پیغامات:
    391
    جی جی کیوں نہیں ایسے بھی امپلیمنٹ کیا جا سکتا ہے ، اتنی تو سمجھ آ ہی گئی تھی مجھے لیکچر کی ، آپ نے بہت اچھا موازنہ قائم کیا مسلمان اور Gap Anaysis کا ۔میں سمجھتا ہوں کہ ہر مسلمان کو ہر روز سونے سے پہلے اپنا احتساب کرنا چاہیے کہ سارا دن میں اس نے کون کون سے اچھے اعمال کیے اور کون کون سے برے اعمال کیے ۔اور ان برے اعمال کو اپنے سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس طرح انسان کی پوری زندگی اچھی گزر سکتی ہے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  17. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاكم اللہ خيرا وبارك فيكم ووفقكم للخير ۔آپ كى بات بالكل درست ہے ۔ دراصل امر بالمعروف اور نہی عن المنكر ( جسے احتساب بھی کہتے ہیں) Gap analysis ہی ہے !

    اور سورہ العصر كہتی ہے کہ سب خسارے ميں ہیں اور صرف وہی كامياب ہیں جو ايمان لائيں پھر خود نيك عمل كريں اور دوسروں كو تواصى بالحق اور تواصى بالصبر كريں ۔ اور يہی احتساب ہے جو ہر مسلمان پر فرض ہے۔ علماء كے ہاں يہ چھوٹی سی سورت "فريضہ احتساب كا خلاصہ " كہلاتى ہے ۔جيسے سورت اخلاص "توحيد كا خلاصہ" ہے۔

    اسلامى "احتساب" ميں بھی آپ كو اسوہ حسنہ دے كر دوسوال دیے گئے ہیں
    موازنہ كرتے جائيں، خرابياں دور كرتے جائيں اور فوز عظيم كى طرف بڑھتے جائيں !

    اور اسلامى اصطلاح ميں گڈ، ايوريج اور پور كو آپ تقوى، فرض ، سنن، نفل ، حرام ميں ڈھونڈ لیں ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  18. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    بہت عمدہ لکھا ہے ۔ مجھ سے پوچھیں تو ہر چیز میں Gap analysis چاہیے ۔دین دنیا کس کس کو روئیں ۔ تعلیم ، اخلاق ، کردار وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ افسوس !
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  19. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    عمر کا نیا سال مبارک ! اللہ برکت دے
     
  20. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    لیبل!

    لیبل

    لیبل کسی چیز کی پہچان کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کے ذریعے اس چیز کے بارے میں‌ معلومات ظاہر کی جا سکتی ہیں۔ یہ کاغذ، پلاسٹک، لوہے یا کپڑے کا ٹکڑا بھی ہو سکتا ہے جس پر متعلقہ چیز کا پتہ، مالک کا نام، اس کے استعمال کا طریقہ، ہدایات، یا منزلِ مقصود وغیرہ درج ہوتی ہیں۔

    لیبل کسی چیز پر چپکایا جا سکتا ہے یا پھر خود اس پر کندہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ چپکانے یا کندہ کرنے کے لئے اسےسلائی کیا جاتا ہے، گرم کیا جاتا ہے یا پھر دباؤ (پریشر) کا استعمال کیا جاتا ہے۔

    لیبل دو اقسام کے ہوتے ہیں، دائمی (پرمانینٹ) اور عارضی (پیل ایبل)




    جیسا کہ اوپر بیان کر آیا ہوں‌ کہ لیبل ہر چیز کے لئے ہوتا ہے تو آئیے دیکھتے ہیں آجکل انسانوں کے لئے چند کثیر الاستعمال لیبلز کی کچھ مثالیں:

    دہشت گردی/انتہا پسندی/بنیاد پرستی کا لیبل

    کفر کا لیبل

    شرک کا لیبل

    فرقہ وارانہ لیبل

    قومیت کا لیبل

    روشن خیالی کا لیبل


    یہ سب لیبلز اپنی جگہ موثر ہیں، مگر میرا یہ تحریر لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم ایک اہم لیبل کو فراموش کئے ہوئے ہیں، اور وہ ہے اسلام کا لیبل، یوں تو ہم لیبلز کی کئی تہیں اپنے اوپر چڑھائے ہوئے ہیں لیکن کیا ہمیں دیکھ کر کسی اور کو ہمارے ہونے کا احساس بھی ہوتا ہے۔ اگر نہیں ہوتا تو یقیناً ہم نے غلط لیبل استعمال کیا ہے۔ اور یہ غلط لیبل کسی دوسری پراڈکٹ یا کمپنی کا بھی ہو سکتا ہے۔

    یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ایک کمپنی کا لیبل کسی دوسری کمپنی کی مصنوعات پر لگانا قانوناً و شرعاً دھوکہ، فریب اور جرم ہے۔

    ایک مسلمان کا لیبل کیا ہونا چاہیئے، اس کی وضع قطع، ہی اسکا لیبل ہے، اور یہ لیبل ہمیں قرآن و حدیث سے ملتا ہے تو دیکھیئے کہ کہیں‌ مرد بغیر داڑھی کے اور بڑھی ہوئی مونچھوں کے ہیں تو کہیں‌ خواتین بغیر حجاب کے۔ کہیں مردوں کے کپڑے ٹخنوں سے نیچے تک ہیں تو عورتیں‌ ادھ ننگی!

    کسی بھی شئے کی تیاری کے بعد اس پر لیبل لگتا ہے پھر اس کا معائنہ ہوتا ہے، اور پاس ہو جائے تو اسے ریلیز کیا جاتا ہے، ورنہ ریجیکٹیڈ میٹیریل کہلاتا ہے۔ کیا موجودہ دور میں ہمارے مسلمانوں‌ کے لیبلز چیک کرنے کا یا ریلیز کرنے کا کوئی ایک پیمانہ رائج ہے، نہیں، ہم صرف اس لئے مسلمان ہے کہ ہمارے لئے یہ لیبل کافی ہے کہ ہم مسلمانوں‌ کے گھر پیدا ہو گئے۔ ورنہ ہماری حیثیت ریجیکٹیڈ مٹیریل سے زیادہ نہیں۔

    اور نہ ہی ہمارے اندر اتنی ہمت ہے کہ ہم اصل لیبل لگوانے کے لئے گرمی، سردی یا دباؤ جیسی وقتی تکالیف سہہ سکیں۔

    مصنوعات کی تیاری کے دوران جو عارضی لیبل لگتے ہیں، وہ ہم ضرور لگائے پھرتے ہیں، لیکن فنش پراڈکٹ کا دائمی لیبل ہمارے اوپر کبھی لگ نہیں پاتا۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں