شبِ برأت کا تحقیقی جائزہ

فہد جاوید نے 'ماہِ شعبان المعظم' میں ‏مئی 19, 2015 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. فہد جاوید

    فہد جاوید رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2015
    پیغامات:
    83
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
    الحمداللہ رب العالمین اصلٰوۃ وسلام وعلیٰ رسولہ لکریم واصحابہِ واہل بیتِ واجماعین
    امابعد!
    مضمون کی ابتداء سے پہلے ہم کچھ گزارشات قارئین کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں:
    1. ہمارا مقصد علمائے دین کے علمی معیار کو چیلنج کرنا نہیں ہے بلکہ ہم محض دین کے ایک ادنا سے طالبِ علم ہونے کی حیثیت سے اپنی تحقیق پیش کر رہے ہیں ۔ جس میں مزید بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود رہے گی۔
    2. عام طور پر ہم اپنی ساری قوت ان دینی مسائل پر صرف کر دیتے ہیں جن کا تعلق نہ تو ایمانیات سے ہوتا ہے اور نہ ہی معمولات سے۔ یہ موضوع بھی اسی قسم کا ہے لہذا تمام فریقین کو اس میں متشدد رویہ اپنانا سے گریز کرنا چاہیے اور اس بنیاد پر باہمی نفرت کی فضاء پیدا کرنے سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔
    3. ہم نے اپنے اس مضمون میں صرف 15شعبان کی تاریخ کو شبِ براُت کے طور پر متعین کرنے کے بارے میں فریقین کے دلائل کا جائزہ لیا ہے۔باقی رہی بات شعبان کی فضیلت کی تو اس پر تمام مسالک کا اجماع ہے۔ لہذا ہم صرف اختلافی مسئلہ پر بحث کریں گے۔
    * شبِ براُت کے حق میں پیش کی جانی والی قرآنی آیت کی تحقیق:
    ’’إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ إِنَّا کُنَّا مُنذِرِیْنَ ، فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیْم‘‘ (سورہ الدخان : 3-4)
    ترجمہ: ’’ بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارابیشک ہم ڈر سنانے والے ہیں۔اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام‘‘ (کنزالایمان از مولانا احمد رضا خان بریلوی صاحب صفحہ 717)
    اس آیت کی تشریح مشہور بریلوی عالم جناب مولانا نعیم الدین مرادآبادی ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:
    ’’اس رات سے یا شبِ قدر مراد ہے یا شبِ براٰت،اس شب میں قرآن پاک بتمامہ لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا کی طرف اتارا گیا‘‘(کنزالایمان مع حاشیہ خزائن العرفان صفحہ 717)۔اسی آیت مبارکہ سے ایک اور بریلوی عالمِ دین جناب مولانا محمد عنایت رسول قادری بھی شبِ براُت کی دلیل لاتے ہیں۔اور اس کی تائید میں احادیث بھی نقل کرتے ہیں۔ (شبِ براُت ناشر جمعیت اشاعت اہلسنت پاکستان صفحہ 2)
    مشہور شیعہ تفسیر نمونہ میں اس آیت کے ذیل میں درج ہیں:
    ’’مجموعی طور پر ان آیات سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آجاتی ہے کہ وہ مبارک رات جو زیر تفسیرِ آیت میں ذکر ہوتی ہے ،شبِ قدر ہے جو ماہِ رمضان المبارک میں ہے۔ (تفسیرِ نمونہ جلد12سورہ الدخان آیت:1-8)
    معروف دیوبندی عالمِ دین مولانا اشرف علی تھانوی صاحب اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
    ’’بعض نے لیلۃ مبارکۃ کی تفسیر شبِ براُت سے کی ہے کیونکہ اس کی نسبت بھی یہ آیا ہے کہ اس میں سالانہ واقعات کا فیصلہ ہوتا ہے لیکن چونکہ کسی روایت

    سے قرآن کا اس میں نازل ہونا معلوم نہیں ہوا اور شبِ قدر میں نازل ہونا خود قرآن میں مذکور ہے۔‘‘ (تفسیر بیان القرآن صفحہ 1026)
    بانیِ جماعتِ اسلامی سید ابوالاعلی مودودی اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    ’’یہ رمضان کی وہی رات ہے جسے لیلۃ القدر کہا گیا ہے‘‘ (تفہیم القرآن صفحہ 560)
    سعودی عرب سے شائع ہونے والی اہلحدیث عالمِ دین حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کی تفسیر میں اس آیت کی تفسیر یہ بیان کی گئی ہے:
    ’’قرآن پاک کا نزول شبِ قدر میں ثابت ہے تو اس سے شبِ براُت مراد لینا کسی طرح بھی صحیح نہیں‘‘ (تفسیر احسن البیان صفحہ 1397)
    * تجزیہ:
    سورہ الدخان کی اس آیت کی تفسیر میں صرف بریلوی علماء نے باقی مسالک کے علماء سے اختلاف کیا ہے۔ آیئے طرفین کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں۔اور اسی آیت کا ترجمہ ایک بار پھر پیش کرتے ہیں:
    ’’ بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارابیشک ہم ڈر سنانے والے ہیں۔اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام‘‘ (کنزالایمان صفحہ 717)
    اہل علم جانتے ہیں کہ تفسیرِ قرآن کا سب سے پہلا ماخذ قرآن پاک خود ہے۔لہذا معروف بریلوی مفسر جناب احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں:
    ’’تفسیر کی چار صورتیں ہیں۔تفسیر قرآن بالقرآن کیونکہ خود قرآن بھی اپنی تفسیر کرتا ہے۔پھر تفسیر قرآن بالحدیث.....، پھر تفسیر قرآن بالاجماع...... اور پھرتفسیر قرآن باقوال مجتہدین،ان تمام تفسیروں میں پہلی قسم کی تفسیر بہت مقدم ہے کیونکہ جب خود کلام فرمانے والا رب تعالیٰ ہی اپنے کلام کی تفسیر فرما دے تو اور طرف جانا ہرگز درست نہیں۔‘‘(علم القرآن صفحہ 13)
    چنانچہ ہمیں اس آیت کی تفسیر پہلے قرآن پاک میں ہی تلاش کرنی چاہیے اس لیے ہم قرآن پاک سے ان آیات کو تلاش کرے گے تو قرآن پاک کے نزول پر دلالت کرتیں ہوں۔لہذا ارشاد ربانی ہے: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآن (سورہ البقرہ :185)
    ترجمہ: ’’رمضان کا مہینہ جس میں قرآن (پاک)اترا‘‘(کنزالایمان صفحہ 42)
    اس آیاتِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن پاک کا نزول ماہِ رمضان مبارک میں ہواتھالہذا اب ہم قرآن پاک سے اس رات کے متعلق دریافت کرتے ہیں جس رات کو قرآن پاک کا نزول ہوا تھا۔ اس سلسلہ میں رب تعالیٰ کا فرمانِ عالیشان ہے:
    إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَۃِ الْقَدْرِ (سورہ القدر :1) ترجمہ: ’’بیشک ہم نے اسے شبِ قدر میں اتارا‘‘(کنزالایمان صفحہ 871)
    اس آیتِ مبارکہ سے قرآن پاک کا شبِ قدر میں نازل ہونا ثابت ہوجاتا ہے لہذا سورۃ الدخان کی آیت 2میں بھی رمضان کی اسی رات کا تذکیرہ ہو رہا ہے جو شبِ قدر کے نام سے مشہور ہے نہ کہ 15شعبان کی رات جسے شبِ براُت کہتے ہیں۔پیر کرم علی شاہ الازہری بھی اپنی تفسیر میں اس آیت کا اطلاق شبِ قدر پر ہی کرتے ہیں۔(دیکھئے تفسیر ضیاء القرآن صفحہ 433جلد4)
    * حنفی اصولِ فقہ اور بریلوی تفسیر:
    ہم یہاں حنفی مدارس میں اصولِ فقہ کی پڑھائی جانے والی ابتدائی کتاب اصولِ الشاشی میں موجود ایک قائدے کو نقل کرتے ہیں:
    ’’خبرِ واحد پر عمل کرنے کی ایک شرط یہ ہے کہ وہ قرآن پاک کے خلاف نہ ہو‘‘(تلخیص اصولِ الشاشی صفحہ81ناشر مکتبہ مدینہ دعوتِ اسلامی) خبرِ واحد کا مطلب ہے’’وہ حدیث جسے ایک راوی نے ایک راوی سے یا ایک راوی نے ایک جماعت سے یا ایک جماعت نے ایک راوی سے روایت کیا ہو‘‘(تلخیص اصولِ الشاشی صفحہ 81ناشر مکتبہ مدینہ دعوتِ اسلامی) لہذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ خبرِ واحد قرآن پاک کہ کسی بھی ظاہری حکم پر کوئی کمی یا ذیادتی نہیں کر سکتی۔ (تلخیص اصولِ الشاشی صفحہ 23ناشر مکتبہ مدینہ دعوتِ اسلامی)مگر علمائے بریلویہ سورۃ الدخان کی آیت 2کی تفسیر میں خبرِ واحد لاتے ہیں اور وہ بھی سخت ضعیف روایات(اس کی تفصیل آگے آئے گی)۔(دیکھئے شبِ براُت از مولانا محمد عنایت رسول قادری )مگر دوسری طرف علمائے حنفیہ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے والی صحیح روایت کو یہ کہ کر رد کر دیتے ہیں کہ یہ قرآن پاک میں سورۃ الاعراف :204 کے خلاف ہے۔اس قسم کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جو امام ابنِ قیم نے اعلام الموقعین میں پیش کیں ہیں۔
    * شبِ براُت کے حق میں پیش کی جانے والی احادیثِ مبارکہ کی تحقیق:
    شبِ براُت کے حوالے سے درج ذیل احادیث زبانِ زد عام ہیں:
    1. سیدہ عائشہ صدیقہ مطہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں رات کو آسمانِ دنیا پر اترتے ہیں اور بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں اس باب میں ابوبکر صدیقؓ سے بھی روایت ہے امام ترمذی فرماتے ہیں کہ ہم اس روایت کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں،امام بخاری نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے امام بخاری فرماتے ہیں کہ یحییٰ بن کثیر نے عروہ سے اور حجاج نے یحییٰ بن کثیرسے کوئی حدیث نہیں سنی۔(یعنی ان کی ملاقات ثابت نہیں)(جامع ترمذی باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان،سنن ابنِ ماجہ باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان)
    اس حدیث کا ضعف امام ترمذی نے خود ہی بیان فرما دیا ہے کسی اور کے کچھ کہنے کی یہاں کیا حاجت ہوسکتی ہے؟
    2. سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہسے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب نصف شعبان کی رات آئے تو اس رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو،اس رات اللہ تعالیٰ سورج کے غروب ہوتے ہی پہلے آسمان پر نزول فرما لیتا ہے اور صبح صادق طلوع ہونے تک کہتا رہتا ہے: کیا کوئی مجھ سے بخشش مانگنے والا ہے کہ میں اسے معاف کردوں؟کیا کوئی رزق طلب کرنے والا ہے کہ اسے رزق دوں؟ کیا کوئی (کسی بیماری)میں مبتلا ہے کہ میں اسے عافیت عطافرمادوں؟‘‘ (سنن ابنِ ماجہ باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان)
    یہ حدیث تو سخت ضعیف ہے۔اس میں ایک راوی ابن ابی سبرۃ ہے جس کہ بارے میں امام احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ یہ احادیث گھڑتا تھا،ابن مدینی اور امام بخاری اسے منکر الحدیث لکھتے ہیں اور امام نسائی اسے متروک(جس پر جھوٹ بولنے کا الزام ہو) کہتے ہیں۔(تہذیب التہذیب جلد 12صفحہ 27)
    3. حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت بیان کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات (اپنے بندوں پر)نظر فرماتا ہے،پھر مشرک اور (مسلمان بھائی سے)دشمنی رکھنے والے کے سواساری مخلوق کی مغفرت فرما دیتا ہے۔‘‘ (سنن ابنِ ماجہ باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان)
    اس حدیث کا ایک راوی عبدالرحمنٰ بن عزرب مجہول (جس کے حالات کا علم نہ ہو)ہے۔(تقریب صفحہ 590)اور دوسرا راوی الضحاک بن ایمن بھی مجہول ہے۔(تقریب صفحہ 457)اور عبداللہ بن لھیعۃ ضعیف ہے اور ولید تدلیس کرتا ہے( ابنِ ماجہ تخریج حافظ زبیر علی زئی صفحہ 389)
    ان تمام احادیث کو اہل حدیث محدث حافظ زبیر علی زئی نے سخت ضعیف لکھا ہے ( ابنِ ماجہ تخریج حافظ زبیر علی زئی )مشہور دیوبندی عالمِ دین مفتی تقی عثمانی اپنے ایک خطاب میں بھی ان احادیث کو ضعیف کہتے ہیں مگرمزید یہ بھی کہتے ہیں کہ کثرتِ طرق کی بنا پر ان کی کمزوری دور ہو جاتی ہے(آپ کا یہ بیان شبِ براُت کی حقیقت کے نام سے یوٹیوب پر سنا جاسکتا ہے)ان تمام روایات کو بیان کرنے کے بعد بریلوی عالمِ دین مفتی منیب الرحمن فرماتے ہیں’’یہ روایات اگرچہ سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں لیکن اس پر علماء کا اجماع ہے کہ ’’فضائلِ اعمال‘‘ میں ضعیف روایات معتبر ہوتیں ہیں‘‘(روزنامہ دنیا 6جون 2014)
    * کثرتِ طرق کا مطلب:
    جس ضعیف روایت کے مختلف شواہد پائے جائیں اوروہ شواہد اس سے زیادہ قوی ہوں ایسی حدیث کو حسن لغیرہ کہتے ہیں(تیسرِ مصطلح الحدیث از ڈاکٹر محمود الطحان)یعنی ضعیف روایت تب حسن حدیث کے درجے پر پہنچ سکتی ہے جب اسی طرح کی اور حدیث بھی موجود ہو اور اس میں پہلی حدیث کی طرح کا ضعف نہ پایا جائے۔اس کی وضاحت امام مسلم نے صحیح مسلم کے مقدمہ میں بھی پیش کی ہے۔ یعنی ضعیف حدیث اسی مفہوم کی کسی صحیح یا حسن حدیث کی تائیدمیں پیش کی جاسکتی ہے۔(دیکھئے مقدمہ صحیح مسلم)اور اس پر امت کا اجماع ہے ۔ مگر اوپر بیان کی گئیں احادیث میں سے کوئی بھی حدیث حسن درجے تک نہیں پہنچتی لہذا ان احادیث کو ایک دوسرے کی تائید میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔
    * حنفی اصولِ حدیث اور دیو بندی حضرات:
    دیوبندی حضرات کثرتِ طرق کی بنیاد پر شبِ براُت کی فضیلت کے قائل ہیں مگر اس رات کی جانے والی کسی عبادت اور روزہ کے قائل نہیں (شبِ براُت کی حقیقت از مولانا فضل الرحمنٰ اعظمی)حالانکہ کے احادیث تو عبادت اور روزے کی بھی کافی مل جاتی ہیں جس کا ذکر خود بھی وہ اپنی کتاب میں کرتے ہیں۔آخر کثرتِ طرق کا اصول یہاں کیوں نہ استعمال کیا گیا؟
    * انصاف کا تقاضا:
    اصول اس لیے مرتب کیے جاتے ہیں تاکہ علوم کو سیکھنے اور سمجھنے میں آسانی پیدا کی جا سکے اور صحیح اصول وہ ہوتے ہیں جو باہم متعارض نہ ہوں۔اس لیے پہلے ہم نے بریلوی حضرات کی تفسیر کو انہیں کے اصولِ فقہ پر پرکھا جس سے یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا بریلوی حضرات نے تفسیر صحیح نہیں کی یا حنفی اصولِ فقہ مسائل کا حل پیش کرنے سے قاصر ہے؟اسی طرح دیوبندی حضرات نے اپنے اصولِ حدیث کو استعمال کرتے ہوئے آدھی بات قبول کر لی اور آدھی چھوڑ دی۔حالانکہ کہ انصاف کا تقاضا ہے کہ اگر فقہ کا مسئلہ درپیش ہو تو ان اصولوں کو اپنایا جائے جو باہم متعارض نہ ہوں اور جب اصولِ حدیث کا معاملہ ہو تو اصول بھی محدثین سے لیے جائے۔کیونکہ سونار ہی سونے کو پرکھنے کا ہنر جانتا ہے۔

    إِنْ أُرِیْدُ إِلاَّ الإِصْلاَحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ إِلاَّ بِاللّہ
    وَآخِرُ دَعْوَاناْ أَنِ الْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • مفید مفید x 1
  2. T.K.H

    T.K.H رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2014
    پیغامات:
    234
    اس معاملے میں ”سید ابو الاعلٰی مودودیؒ“اور ”حافظ صلاح الدین یوسف صاحب“ کی بات قرآن مجید سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہیں۔
     
  3. محمد عامر یونس

    محمد عامر یونس محسن

    شمولیت:
    ‏مارچ 3, 2014
    پیغامات:
    899
    صرف قرآن سے یا پھر حدیث سے بھی !

    عرباض بن ساريہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

    " تم نئے نئے كام ايجاد كرنے سے بچو؛ كيونكہ ہر نيا كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے "

    سنن ابو داود حديث نمبر ( 4067 ).

    2 - جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث جس ميں ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے خطبہ ميں يہ فرمايا كرتے تھے:

    " يقينا سب سے زيادہ سچى بات كتاب اللہ ہے، اور سب سے احسن اور بہتر طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا ہے، اور سب سے برے امور اس كے نئے ايجاد كردہ ہيں، اور ہر نيا ايجاد كردہ كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے، اور ہر گمراہى آگ ميں ہے "

    3 - عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث جس ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

    " جس كسى نے بھى ہمارے اس امر ( دين ) ميں كوئى نئى چيز ايجاد كى جو اس ميں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے "

    صحيح بخارى حديث نمبر ( 2697 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).

    4 - اور ايك روايت ميں يہ الفاظ ہيں:

    " جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا امر نہيں تو وہ مردود ہے "

    صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  4. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    کسی کی بھی بات کا بھی قرآن مجید سے مطابقت ضروری نہیں ـ ورنہ تو ہرشخص اپنی مطلب اور مزاج کے مطابق قرآن سے مطابقت والا مسئلہ لے سکتا ہے ـ بات صرف اتنی ہے کہ شب برات کا مطلب کیا ہے ، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ اللہ کے نبی ﷺ نے کیا فرمایا ـ اتنا ذکر کرنے کے بعد مسئلہ حل ہو جاتا ہے ـ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں