اسلامی ناول مضر یا مفید؟

عائشہ نے 'ادبی مجلس' میں ‏دسمبر 11, 2015 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    ماشاءاللہ بہت مفید وڈیو ہے، اللہ آپ سب لوگوں کے وقت اور کوشش میں برکت دے اور عمل کی توفیق دے۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے یہ وہی وقت ہے جس کی پیشگوئی ہے کہ علم تو بہت ہے عمل نہیں ہے۔
    مجھے یہ لگتا ہے کہ ناول لکھنے والے بھی لوگوں میں برائی پھیلانے کے ایک حد تک ذمہ دار ہیں، کسی نہ کسی طرح یہ بھی لوگوں کو فضول قصوں میں الجھاتے ہیں، جس کو ان کو قصوں کا نشہ لگ جائے اس کو کوئی دوسرا کام کرتے کم ہی دیکھا ہے۔ اصل علم وہی ہے جو فکشن سے پاک ہو۔ یہ سوچنا چاہیے۔ ابن تیمیہ اور ابن قیم کی اصل کتب کا اردو ترجمہ موجود ہے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  2. مریم جمیلہ

    مریم جمیلہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مارچ 26, 2015
    پیغامات:
    111
    اپنی کم علمی کے باعث مجھے آپ کی بات سے تھوڑا سا اختلاف ہے۔ جن لوگوں کا اعلیٰ پائے کی کتب اور صحیح علم سے شغف اور تعلق ہو انہیں اس قسم کی چیزیں بے کار معلوم ہوں گی۔ یقینا ہم سب کا فرض ہے کہ ہم شیوخ عظام کی کتب سے استفادہ کریں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مجھ سمیت بہت سارے لوگ دنیا میں ایسے ہیں جو اس معاملے میں کوتاہی کے مرتکب ہیں۔ ہمارے جیسے عام لوگوں کو فکشن کی زبان اپیل کرتی ہے اور اگر ہمیں اسی ذریعے سے ایسی چیزیں سکھائی جائیں تو یہ کافی اثر انگیز ثابت ہوتی ہیں۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ یقینا قصہ نگاروں کی اکثریت اپنے الفاظ سے اپنے پڑھنے والوں کے وقت کی بربادی کا سامان کرتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام قصہ نگار ایک سے نہیں ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ نمرہ احمد بالکل بھی عام ناول نگاروں کی طرح بے کار باتوں میں نہیں الجھاتیں۔ بلکہ عوام الناس نام کی مخلوق کو اس سے قرآن کو اپنی زندگی بنانے کے لیے زیادہ تحریک ملتی ہے۔

    سو فیصد متفق۔ ہمیں اصل علم حاصل کرنے کی ضرور کوشش کرنی چاہیے لیکن اگرساتھ ساتھ فکشن سے بھی ایسی کام کی باتیں سیکھنے کو ملیں تو کیا مضائقہ ہے۔ کیا عجب ہے کہ اس ذریعے سے متعارف کردہ امام ابن القیم کی کتاب کسی کو اتنی پسند آئے کہ پھر وہ ان کی باقی کتب بھی پڑھنے لگے اور یوں اس کی رسائی اصل علم تک ہو!
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • متفق متفق x 2
  3. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جی مریم پستی سے بلندی کے سفر پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ میں خود ادب اسلامی کے خالی میدان کو دیکھ کر کڑھنے والوں میں سے ہوں لیکن یہ ڈر لگتا ہے کہ یہ سفر مزید پستی تک نہ لے جائے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اسلامی ناولوں سے بہتر نشے کی تلاش میں برے ناولوں اور پھر ڈراموں تک چلے جاتے ہیں۔ کچھ اسلامی ڈرامے بھی سننے میں آئے ہیں جو بظاہر حجاب والی لڑکیوں کے متعلق ہیں لیکن اصل موضوع وہاں بھی رومان ہے۔ اسلامی ناولز میں بھی رومان کا مسالا ڈالنا پڑتا ہے۔
    بہر حال ہر مرحلہ عمر کی اپنی آزمائش ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اسلامی فکشن کی بجائے اصل اسلام، سائنسی فکشن کے بجائے اصل سائنس، تاریخی ناولز ڈراموں کی نسبت اصل تاریخ سے ناتہ جوڑنا چاہیے۔
    اس کا یہ مقصد بالکل نہیں کہ یہ موضوع برا ہے۔ ماشاءاللہ وڈیو بھی بہت اچھی ہے اور آپ کا پیش کردہ اقتباس بھی۔ اللہ تعالی نیکی کی آواز کو طاقت دے اور اس کے مداحوں کی تعداد بڑھائے۔ آپ لوگ اپنے ہم عمروں کے لیے بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ اسے جاری رکھیے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  4. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    یہ ایک قدیم بحث ہے جس کا اختصار یہ ہے کہ بہت سے لوگ سیدھی راہ پر بھی آتے ہیں.

    شعر کا کلام اگر اچھا ہے تو شعر اچھا ہے

    ناول اگر کسی سچی کہانی پر مبنی ہوں تو ہمارے نزدیک حرج نہیں

    بہت سے لوگ نمرہ احمد کے ناول مصحف پڑھ کر راہ راست پر آئے اور انہوں نے قرآن پڑھنا شروع کر دیا.

    باقی کسی کوہدایت دینا الله کا اختیار ہے. ناول بذات خود ہدایت نہیں دے سکتا جب تک کہ الله کی مرضی شامل حال نہ ہو

    Sent from my H30-U10 using Tapatalk
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 4
    • متفق متفق x 1
  5. مریم جمیلہ

    مریم جمیلہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مارچ 26, 2015
    پیغامات:
    111
    جزاکِ اللہ خیرا
    میں آپ کے تحفظات سے بالکل متفق ہوں. اور ادب اسلامی کے میدان کی ویرانی بھی کھٹکتی ہے. لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میدان میں نمرہ احمد کی آمد ہوا کا تازہ، بے حد خوشگوار جھونکا ہے. زیادہ تر نئی نسل کے لیے: )
    اس معاملے میں بھی نمرہ احمد نے ایک معیار قائم کیا ہے اور کم از کم ابھی تک کہیں کوئی cheap بات نظر نہیں آتی ـ
    لیکن بات وہی ہے جو آپ نے کہی. ہمیں زیادہ توجہ فکشن کے بجائے اصل کو دینی چاہیے.
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • متفق متفق x 1
  6. مریم جمیلہ

    مریم جمیلہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مارچ 26, 2015
    پیغامات:
    111
    بجا فرمایا. جزاک اللہ خیراً
     
  7. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    میں تو یہ سوچتی ہوں کہ ڈائجسٹ ریڈرز اور گھٹیا رومانوی ناولز کے دلدادہ لوگوں کی رسائی دوائے شافی جیسی عمدہ کتاب تک ہوگئی اس سے اچھی بات کیا ہوگی۔
    کم از کم محبت کے جھوٹے فلسفوں کے مارے ہوئے لوگ یا پھر رومی کے صوفیانہ اقوال کو اپنی ناکام محبتوں کے لیے استعمال کرنے والے کچھ حقیقت سمجھنے کے قابل ہوں گے۔

    پھر یہ کہ ہر ایک کا ذوق مختلف ہوتا ہے۔ سب لوگ خالص علمی اور تاریخی کتب نہیں پڑھ سکتے۔ کوشش بھی کریں تو نہیں پڑھی جاتیں۔ گاوؤں میں خواتین کو دیکھا ہے صرف ڈائجسٹ کہین نہ کہیں سے منگوا کر پڑھ لیں گی اور کچھ نہیں پڑھ سکیں۔ ان تک ایک صاف ستھری چیز پہنچ رہی ہے۔
    ایک طبقے کے لیے یہ عمدہ خدمت ہے میرے خیال میں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 5
    • متفق متفق x 1
  8. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    اسلامی ادب پر ایک الگ موضوع شروع کرتے ہیں۔ یہاں آپ مجھے صرف اتنا بتائیں کہ
    -یہ ناول اور خواتین میں مقبول ناولز کس کیٹیگری میں آتے ہیں؟
    خواتین میں مقبول زیادہ تر ناول نیم رومانوی یا مکمل رومانوی ناول ہوتے ہیں، جنہیں پردہ رکھنے کے لیے سماجی اصلاحی ناول کہتے ہیں، لیکن حقیقت میں سب سے عظیم مسئلہ ہیروئن کی شادی ہوتا ہے۔ اس ناول کا مین پلاٹ بھی کہیں نہ کہیں دو ایسے کرداروں کے گرد ہی گھومتا ہے؟ اب اس پلاٹ میں بھرائی کو کچھ مزاح، کچھ ایڈونچر، سسپنس چاہیے۔ اسلامی ادیب قرآنی آیات، تفسیر احادیث ڈال دے گا۔ لیجیے ادب اسلامی ہو گیا۔ کیا اسلام میں اسی تحریر لکھنے کی اجازت ہے؟ یہ موضوع پڑھنے والے بھی رومینس نہیں لکھ سکتے، اتنا جرات مند ہونے کے لیے بہت کچھ غیر اسلامی کرنا پڑتا ہے۔ میں تو اپنی حلال کی کمائی ڈائجسٹ پر کبھی خرچ نہیں کروں گی چاہے اس میں اسلامی ناول چھپا ہو۔۔
    - میری ایک کولیگ سے میں نے پوچھا اس کیے بارے میں تو پتہ چلا کہاس ناول کا مین پلاٹ ہے دو کردار جو آپس میں ایک دوسرے سے شدید نفرت کرتے ہیں لیکن مل کر مرڈر کیس سولو کر رہے ہیں۔ یہ اتنا پٹا ہوا پلاٹ ہے کہ حد نہیں۔ مزید یہ کہ شادی ہو گئی، لیکن دکھاوے کو شادی کی ہے، ایک دوسرے سے شدید نفرت ہے۔ کوئی بات نہیں آج کل خواتین کے ڈراموں اور ناولوں کا رواج ہے کہ شادی کر کے نفرت کرنی ہے۔ اس طرح کی کہانیوں سے کون سی اسلامی تربیت ہوتی ہے؟ بس کہانی ذرا دائرہ اسلام میں آجاتی ہے۔ یہ کام خواتین کے "اصلاحی میگزینز" میں بھی ہو رہا ہے۔ کرداروں کی تو نکاح شادی ہو چکی ہے، پڑھنے والوں کی بھی شادی ہو چکی ہے اس کی کون ضمانت دے گا؟ اس طرح کے ناول میں شوہر کی جو مٹی پلید ہوتی ہے، کیا اسلام ایک بیوی کو شوہر سے اتنی بدتمیزی کی اجازت دیتا ہے، کہ رہو میاں کی دی ہوئی چھت کے نیچے، کھاؤ اس کا دیا ہوا پیسہ، اور بدتمیزی بھی اسی سے کرو؟ لڑکیوں کی اچھی تربیت ہے۔ حقیقی زندگی میں وہ میاں سے ایسا سلوک کر کے گھر بسا لیں گی؟ ہمارے گھروں میں ایک ایسی بہو یا بھابی آ جائے جس کے ہاتھوں آپ اپنے بیٹے یا بھائی کو ذلیل ہوتے دیکھیں، وہ ان کے کھانے پینے، آرام کا خیال نہ کرے تو آپ ایسے ڈرامے لکھنے والوں کو توپ سے اڑا دیں گی۔
    - ناول کا مطلب فکشن یعنی غیر حقیقی۔ حقیقت پر مبنی فکشن بھی لکھیں تو جھوٹ کی ملاوٹ لازمی ہے۔ ہماری عورتوں کا یہی مسئلہ ہے کہ وہ حقیقی دنیا میں نہیں رہتیں۔ شادی ہو گئی، بچے جوان ہو گئے، پوتے آ گئے۔ اماں آج بھی وہی رومانوی ناولوں، ڈراموں کی دلدادہ ہیں۔
    - ڈائجسٹ اصل میں تجارت ہیں۔ یہ کون سا "ادب" چھاپتے ہیں؟ کمرشل! تجارت اپنا خسارہ برداشت نہیں کرتی۔ اسے اپنا اصل مسالہ چاہیے ورنہ قارئین جس چٹخارے کے عادی ہیں وہ ناراض ہوں گے۔ اصل ادیب اور کمرشل ادیب میں یہی فرق ہے!
    - ڈائجسٹ میں چھپنے والے ادب سے اردو زبان کی کیا خدمت ہوئی ہے؟ باقاعدہ ادیبوں سے پوچھیے۔ آپ کے اسلامی ناول، باقاعدہ ادب کی ذیل میں ہی نہیں آ رہے تو وہ اسلامی ادب کیسے بنیں گے اور کس دن بنیں گے؟ عمیرہ اور نمرہ کی اپنی اردو کمزور نہیں خطرناک حد تک کمزور ہے، اسی ظرح زندگی کب شروع ہو گی نامی ناول کی اردو میں کون سی خاص بات ہے کہ قارئین کا ذوق بہتر ہو گا؟ اس کا اندازہ مجلس پر پوسٹ کیے گئے اقتباسات کو دیکھ کر ہی ہو جاتا ہے۔ ؎
    -نشے کے مریض کو آپ نشے میں دوا ڈال کر دیتے رہیں گے تو وہ نشہ کس دن چھوڑے گا اور دوا کتنا اثر کرے گی؟
    - ایک اسلامی ناول کی خاطر آپ ایک فضول ڈائجسٹ گھر لے آئیں جس میں 15 دوسرے ناول برائی کی ترغیب دیں گے، جس کا ٹائٹل ہی نگاہ کو پست کرنے کی بجائے بدنگاہی کی تبلیغ ہو؟ مزید اسلامی ادیب بتا رہا ہے کہ ایک کردار توبہ کرنے سے پہلے یہ یہ برائیاں کر چکا ہے، اسے فلاں ہیروئن پسند تھی، فلاں فلم پسند تھی، اب جس نے وہ ہیروئن نہیں دیکھی وہ بھی سوچے گا ایک بار دیکھا تو جائے ۔
    تو پیارے بچو شیطان تدریج سے کام کرتا ہے۔ اسے پتہ ہے آپ نے فلم نہیں دیکھنی، ہاں آپ اسلامی ناول پڑھ لیں گے تو وہ آپ کے لیے برائی کی کم ڈوز لے آتا ہے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • معلوماتی معلوماتی x 1
  9. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    ستیاناس میری چائے ٹھنڈی ہوگئی۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  10. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    ڈائجسٹ تو ڈائجسٹ ریڈرز ہی خریدتے ہیں، نمل کے لیے تو اس کا فیس بک پیج کافی ہے :)
    باقی اعتراضات کا جواب ذرا نمرہ احمد کے فینز اور نمل پڑھنے والے دیں۔ میں نے ابھی تک اس کی ایک قسط بھی نہیں پڑھی ہے۔ کہانی کے بارے میں علم نہیں بس اس کے چند اقتباسات نظر سے گزرے ہیں اسی کی بنیاد پر بات کی تھی۔

    آپ نے جس طبقے کی بات کی ہے وہ شاید مذہبی گھرانوں میں آتے ہیں جہاں عموما ناول، ڈائجسٹ اور فحش چیزوں سے اجتناب برتا جاتا ہے۔ اس حساب کی آپ کی رائے سے متفق ہوں۔ وقت واقعی ضائع ہوتا ہے، لیکن فوائد بھی ہیں کچھ کچھ!
    میں ذاتی طور پر اگر کبھی کوئی ستھرا انگلش ناول پڑھنے کا ارادہ کروں تو اسی غرض سے پڑھتی ہوں کہ انگلش میں بہتری آئے (یہ بھی ایک الگ بحث ہے مگر میں اس فائدے کی قائل ہوں)۔ اردو ناول بھی پڑھنے کی عادی نہیں اوراگر پڑھوں تو اس کا دفاع نہیں کروں گی کیونکہ مجھے علم ہے کہ وہ کم از کم میرے لیے صرف چسکا ہوتا ہے، کہانی برائے کہانی۔ اس سے بہتر ہے بندہ مولانا آزاد کو پڑھ لے، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو پڑھ لے، مشفق خواجہ یا ماہر کو پڑھ لے :) مگر پلیز اشفاق احمداور ممتاز مفتی بالکل نہیں ! :)
    بہرحال، میں نے تو بات کی تھی عادی ڈائجسٹ ریڈرز کی جن کی زندگی میں پڑھنے کو کچھ اور آتا ہی نہیں۔ میں بالکل سچ بات بتا رہی ہوں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے پاس کھانے کو پیسے نہین ہوتے، محلے کی دو تین سہیلیاں مل ملا کر ڈائجسٹ کے لیے پیسے جمع کرتی ہیں اور ہر ماہ باقاعدگی سے پڑھتی ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ کہانی ہی پڑھتے ہیں ورنہ کچھ نہیں پڑھتے۔ پڑھے لکھے طبقے میں بھی لوگ یا تو کورس کی کتب مارے باندھے پڑھیں گے یا پھر کہانی، ناول۔ ان کو ایسی چیز سے افاقہ ضرور ہوگا۔کچھ ذہن کھلے گا۔ جنہوں نے کبھی ابن القیم رحمہ اللہ کا نام نہ سنا ہو، قرآن کے فہم سے بالکل نابلد ہوں وہ شاید کچھ سوچنے لگیں۔ پھر آپ کہیں گی کہ خالص علمی چیزیں پڑھائی جائیں جو نقصان سے پاک ہوں تو سوال یہ ہے کہ وہ ان تک پہنچیں کیسے، ذوق کیسے پیدا ہو؟ ڈائجسٹ کے راستے تو نہیں پہنچیں گی کم از کم ایسی چیزیں۔
    رہی بات نشے کی تو اس خوف سے کہ نشہ نہین چھوٹے گا تو دوا سرے سے بند کر دی جائے یہ بھی عقلمندی نہیں۔

    اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اسی پر مطمئن ہوکر بیٹھا جائے۔ آپ نے اوپر جن باتوں کے غیر شرعی ہونے کی نشاندہی کی اس طرح کی باتوں پر تنقید ہونی چاہیے مثبت انداز میں۔ تاکہ جو لوگ اس میدان میں کام کر رہے ہیں وہ بہتری لا سکیں۔ مگر اچھی سوچ رکھنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے حق میں میں بالکل نہیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 4
  11. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جی اصل میں یہی مقصد ہے دل ہمارے ان کے ساتھ ہیں۔
    چپ کا روزہ افطار کرنے کا شکریہ۔فیس بک پر لڑکیوں کے ایک اسلامی گروپ میں مجھے کسی نے شامل کر دیا، جس سے میں خود کو جلد ہی نکال لیا۔ وہاں ایک ناول کی نئی قسط کا جیسا بے تابانہ استقبال ہو رہا تھا ویسا کبھی کسی قرآنی ، تفسیری ربط کا ہوتے نہیں دیکھا۔ لیکن پھر بھی دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے!
    اسی واقعے کے بعد میں نے وہ گروپ چھوڑ دیا کیوں کہ انسان پر صحبت کا اثر بہت جلد ہوتا ہے۔
    ناول ہوتے ہوں گے سچی کہانیوں والے لیکن مجھے تو نسیم حجازی کے ناول بھی اتنے "اسلامی" اور "ادبی"نہیں لگے تھے، ڈائجسٹ فکشن سے اچھے وہ ادیب ہیں جو صاف ستھرا مگر باقاعدہ ادب لکھ گئے ہیں بھلے ان پر اسلامی کا ٹھپا نہیں۔
     
    Last edited: ‏دسمبر 12, 2015
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  12. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    یہ اچھی بات ہے اگر آپ ڈائجسٹ نہیں خرید رہے۔
    مذہبی گھرانوں کے علاوہ بھی اچھے ستھرے مطالعے کا ذوق رکھنے والے گھروں میں ڈائجسٹ کو ناپسند کیا جاتا ہے۔ ہماری بچپن کی سہیلیاں ہم ایک دوسرے سے اپنے اپنے گھر میں آنے والے جرائد کا تبادلہ کیا کرتے تھے، مجھے یاد ہے وہ لوگ مذہبی نہیں تھے ان کے گھر بھی ڈائجسٹ ممنوع تھے۔ ان کے ایک بھائی کو عمران سیریز پڑھنے پر ابا سے دھنائی ہوئی تھی۔
     
    • متفق متفق x 2
  13. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جی مریم اگر چہ فکشن مجھے ذاتی طور پر پسند نہیں لیکن ادبی قسم کی فکشن پڑھنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ یہاں بات ڈائجسٹ کے فکشن کی ہو رہی ہے جہاں زبان بھی درست نہیں اور اخلاقیات بھی رو بہ زوال ہیں۔ باقاعدہ ادیب کو پڑھتے ہی فرق سمجھ آ جاتا ہے کمرشل لٹریچر اور اصل لٹریچر کا۔
     
    • متفق متفق x 1
  14. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    واقعی، ایسا ایک طبقہ موجود ہے جن کی زندگی، ڈائجسٹ، ڈرامے کی نئی قسط اور مارننگ شوز سے باہر نہیں نکلتی۔ بہت ہی دکھ ہوتا ہے۔ اللہ ان کو اس کنویں سے باہر نکلنے کی توفیق دے۔
     
    • متفق متفق x 2
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  15. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    میرے خیال میں یہ موضوع ایک الگ بحث کا متقاضی ہے۔ ناول اور اسلامی ناول کے مضر یا مفید ہونے پر یہاں بات ہوسکتی ہے لیکن اس کا تعلق ادب سے جوڑنے یا توڑنے کے لیے ادبی پہلو دیکھنے ہوں گے۔ اردو ادب کی تاریخ، ناول کا ارتقا وغیرہ دیکھنا ہوگا۔
    پھر آپ کو اسلامی ادب کی تعریف بھی کرنا ہوگی، کیا، کیوں اور کیسے!
    ہمارا تو یہ موضوع ہے ہی نہیں۔ لہذا ہم اس بارے میں کوئی جواب دینے سے قاصر ہیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • متفق متفق x 1
  16. مریم جمیلہ

    مریم جمیلہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مارچ 26, 2015
    پیغامات:
    111
    آپ اس کو اسلامی ادب نہیں کہنا چاہتیں، ٹھیک ہے۔ اس کے لیے زیادہ درست اصطلاح پاپولر فکشن ہے۔ فکشن غیر حقیقی ہوتا ہے لیکن کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کوئی قصہ خوانی نہیں ہوا کرتی تھی؟ ہلکی پھلکی تفریح کی تو اسلام میں حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اور تفریح میں ہی آیاتِ قرآنی کامفہوم سیکھنے کو ملے تو اس سے بڑی اور کیا بات ہو سکتی ہے۔

    میں آپ کو بتاؤں، نمل کا عظیم مسئلہ ہرگز بھی ہیروئن کی شادی کا نہیں ہے۔ اس کا موضوع معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان (جس میں بچے، ماموں، پھپھو، خالہ، دادا' سب شامل ہیں) ہے۔ اس کا موضوع مسئلہ قصاص ہے۔اس کا موضوع "موجودہ دور کے موسی و فرعون" ہیں۔ اس کا موضوع نوجوان نسل کو پیش آنے والے مسائل ہیں۔ اس کا سب سے بڑا موضوع مسلمان امت کی قرآن سے دوری ہے۔ معذرت کے ساتھ، آپ کی کولیگ نے آپ کو لبِ لباب بتاتے ہوئے بالکل بھی انصاف سے کام نہیں لیا۔ آپ ہر معاملے میں خوب چھان پھٹک سے کام لیتی ہیں پھر اس معاملے میں کسی اور کی کہی ہوئی بات کیوں کافی ہے؟
    بات یہ ہے کہ نمل کے مخاطب علماء، شیوخ اور تحقیق کے طلبہ نہیں ہیں بلکہ بنیادی طور پر "عوام الناس" ہیں، جن میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو عام کہانیوں اوررومانوی ڈراموں اور فلموں کے رسیا ہیں۔ ایسے لوگ قرآن سے بہت دور ہیں اور اپنا فارغ وقت اس مشغلے میں صرف کرتے ہیں۔ قرآن کا کہنا ہے کہ لوگوں کو پیغام ایسے انداز سے پہنچایا جائے جو ان کی عقل کو بھی اپیل کرے اور دل کو بھی مسحور کرے (البلاغ المبین)۔ تو ایسے لوگوں کو تلقین اگر ان کےایسے پسندیدہ ذریعےسے جس میں بظاہر کوئی شرعی قباحت بھی نہیں، کی جائے تو اس میں غلط کیا ہے؟
    پھر یہ بھی ہے کہ کوئی انسان غلطیوں سے پاک نہیں ہے۔ نمرہ احمد کی تحریر بھی ہرگز کامل درجہ نہیں رکھتی۔ لیکن اس میں پائی جانے والی کچھ اونچ نیچ کی وجہ سے سارے ، بے حد اصلاحی لوازمے کو بالکل رد کر دیا جانا، ہرگز درست معلوم نہیں ہوتا۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ یہ ناول پڑھنے کے لیے ردی قسم کے ڈائجسٹ خریدیں، ہر ماہ نمرہ احمد کے فیس بک پیج پر ان کی مخلص ٹیم بہترین کوالٹی میں کمپوز شدہ ناول کی نئی قسط اپلوڈ کر دیا کرتی ہے۔ سو کمائی کے ضائع ہونے کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔

    مجھے یقین ہے کہ اگر ڈائجسٹ ان کی تحریر کو چھاپنے سے انکار کر دے تو وہ اس کے لیے دوسرا ذریعہ تلاش کریں گی۔ کیونکہ یہ دو چار مہینوں میں لکھا گیا "کمرشل ناول" نہیں ہے بلکہ اپنے سیکھے ہوئے علم کا ذرا سا حصہ دوسروں تک پہنچانے کی ایک کوشش ہے۔ اور بقول ان کے یہ دو تین سالوں کے عرصے میں لکھا گیا ہے۔

    اس بات کا پورا ایک پس منظر ہے اور یہ الگ ہی موضوع ہے۔ ناول پڑھنے والوں کو معلوم ہے کہ تازہ ترین قسط میں موصوفہ کو سچائی کا علم ہونے پر اپنی غلطیوں کا افسوس ہے اور وہ اس سب کو ٹھیک کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
    '" میں نے بہت غلط کیا اس کے ساتھ اللہ تعالی۔ وہ بے گناہ تھا مگر میں نے اس کا اعتبار نہیں کیا۔ میں نے اس کو اس جہنم سے نہیں نکالا۔ میں کیسے اس گلٹ سے نکلوں؟۔۔۔۔ پلیز میری مدد کریں۔ کوئی راستہ نکالیں۔ مجھ سے بات کریں۔" آنسو ٹپ ٹپ آنکھوں سے گر رہے تھے۔ دل بھی دکھی تھا۔ '

    جہاں تک تربیت کی بات ہے، تو اسی ناول کا یہ جملہ پڑھیے:
    "عورت اگر کبھی خاندان میں دب بھی جائے، جارحیت کا جواب بھی صلح صفائی سے دے، اور بظاہر چیونٹیوں کی طرح اندھی اور خاموش زندگی بھی گزار رہی ہو، تو وہ بھی کوئی بری بات نہیں ہوتی۔ بہت سے لوگوں کے سکون کے لیے اپنی انا کی قربانی دینا برا کیسے ہو سکتا ہے بھلا؟"

    ناول عام لوگوں سے انہی کے بارے میں انہی کی زبان میں بات کرتا ہے۔ ہمارا معاشرہ موبائل اور سوشل میڈیا کی وجہ سے برائیوں میں مبتلا ہو رہا ہے اور اس کی وجہ بھی قرآن سے دوری ہے۔ تو یونہی چلتے چلتے اگر کوئی اتنے زبردست انداز سے قرآن کی آیات اس سب پر منطبق کر کے ایسی برائیوں سے دور رہنے کی تلقین کرے تو یہ خسارے کا سودا تو نہ ہوا۔ ملاحظہ کیجئے:
    "جب مکھی گھر سے نکلتی ہے تو اس کو اپنے گھر کا راستہ مقناطیسی لہروں کی مدد سے یاد رہتا ہے۔ وہ پھول پہ بیٹھتی ہے اور رس لے کر واپس گھر کی طرف اڑتی ہے' لیکن درمیان میں۔۔۔ موبایل سگنلز کی لہروں کا جال بچھا ہوتا ہے۔ شہد کی مکھی جب کسی سگنل کی لہر سے ٹکراتی ہے تو مقناطیسی فیلڈ متاثر ہوتا ہے' یوں سمجھیں وہ چکرا جاتی ہے اور 'کنفیوزڈ' ہو جاتی ہے۔ اس ٹکر سے وہ سمت کا تعین کھو دیتی ہے۔ وہ اپنے گھ کا راستہ بھول جاتی ہے۔ وہ پھر مااری ماری ایک جگہ سے دوسری جگہ اڑتی ہے' اور یونہی بھٹک بھٹک کر کہیں گر کر مر جاتی ہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ گھر لوٹنے والی مکھیوں کی تعداد کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ اور جب مجھے یہ معلوم ہوا تو میں نے سوچا۔۔۔ کہ یہ آیت نحل ہے' اتنی اہم آیت جس میں سورۃ کا نام لکھا ہے' تو شہد کی مکھی کی مثال بیان کرنے کا کیا مقصد ہو سکتا تھا؟"

    "تب مجھے احساس ہوا کہ ....یہ موبائلز ہماری دنیا سے مٹھاس کیسے غائب کر رہے ہیں۔ کتنی ہی پیاری اور اچھی لڑکیاں ‘ جنہوں نے شہد سے میٹھے گھر بنا نے تھے ‘ وہ روز گھر سے نکلتی ہیں‘ پھولوں‘ رنگوں اور خوشبوؤں کی آس لے کر ‘ آسان راستوں پہ چلتی ہیں ‘ مگر پھر....درمیان میں یہ موبائل سگنلز آ جاتے ہیں۔ اوران کے راستے مشکل ہو جاتے ہیں۔ وہ کنفیوز ہو جاتی ہیں۔ کسی نا محرم سے فون پہ بات کرنے کے لئے ڈھیروں دلیلیں گھڑتی ہیں‘ فتوے لیتی ہیں ‘ کزن بھی تو بھائی ہوتا ہے ‘ اسلام اتنا بھی سخت نہیں‘ میں کوئی غلط بات تو نہیں کر رہی ‘ وغیرہ وغیرہ۔ اور اسی کرب اور تکلیف میں وہ گھر کا راستہ بھول جاتی ہیں۔ وہ در بدر بھٹکتی رہتی ہیں۔ انہوں نے تو آسان راستوں پہ چلنا تھا ‘ اپنے دلوں میں موجود قرآن سے ‘ اور نور سے ‘ لوگوں کو شفا دینی تھی ‘ اپنے ٹیلنٹ اور پوٹینشل کو میٹھے کاموں کے لئے استعمال کرنا تھا ‘ مگر یہ موبائل سگنلز ان کو بیمار کر دیتے ہیں۔ مرضِ عشق بہت موذی مرض ہے۔ اگر آپ میں سے کوئی اس میں مبتلا ہے تو یاد رکھئے ‘ اس مر ض کی شفا ہے ‘ لیکن اس شفا کے لئے پہلے آپ کو اپنے راستے ٹھیک کرنے ہوں گے۔ وہ مشکل راہیں جن میں کرب ہے ‘ پکڑے جانے کا خوف ہے ‘ ان کو ترک کرنا ہو گا۔"


    اردو ادب کی خدمت کی بات کریں تو نمرہ احمد اس میں پیچھے نہیں رہیں۔ ادب کی ایک صنف ہے ناول۔ ناولوں میں ہمیشہ سے سیدھے سادھے انداز سے دو چار کرداروں کی ٹپیکل کہانی اور چند ایک جذباتی فلسفے لکھنے کی روایت رہی ہے۔ مگر نمرہ احمد نے اس جمود کو توڑا ہے۔ آپ دیکھیں گی ان کی تحریر میں سسپنس، جاسوسی، مزاح، جذبات، اخلاقیات، روزمرہ کے معاشرتی مسائل، قرآن سب کچھ بغیر کسی پیوند کے سمویا گیا ہے ۔ کوئی بے ہودہ بات نہیں اور "جذباتیت" کے لیے بھی ایک معیار ہے۔ عام ناولوں کی طرح مرکزی کردار کے لیے "محبت میں سب کچھ جائز" نہیں دکھایا گیا ہے۔

    کیا یہ بھی خطرناک حد تک کمزور اردو ہے؟
    "پھر وہ اٹھی' اور سائیڈ ٹیبل پہ دھری سفید جلد والی کتاب اٹھائی۔ گھٹنوں پہ رکھ کر بےدلی سے صفحے پلٹانے لگی۔۔۔
    دروازہ کھلا تو تیز روشنی امڈ امڈ کر آنکھوں کو چندھیا گئی۔ وہ ماتھے پہ ہاتھ کا چھجا بنائے قدم قدم چلتی آگے آئی تو دیکھا' اس کے ارد گرد دمشق کی ایک روشن دوپہر آباد تھی۔ ہر شے زردی میں لپٹی تھی۔ مگر پہلے کے برعکس' وہ بےدلی سے سر جھکائے' چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی کچے راستے پہ آگے بڑھتی گئی۔ دھول جوتوں کو آلودہ کرتی گئی۔ جب چہرہ اٹھایا تو مسجد سے ملحقہ حجرہ سامنے تھا اور ایک طرف درخت تلے وہی ہڈیوں کا سا پنجر آدمی اکڑوں بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے کی مردنی اور ویرانی ہنوز برقرار تھی۔ آج چھوٹی دیوار کے ساتھ شیخ کھڑے تھے۔ پیر تک آتا سفید' چمکدار لباس پہنے' مسکراتے ہوئے۔ وہ بنا مسکرائے قریب آ رکی۔
    "کیا آپ نے اس بیمار کو ابھی تک شفایاب نہیں کیا؟"
    "بیمار خود کوشش نہ کرے تو کچھ نہیں ہو سکتا۔"


    مانا کہ بھاری بھرکم اردو استعمال نہیں کی گئی مگر ویسی اردو مطلوب کس کو ہے۔ عام فہم الفاظ، سادہ باتیں۔۔ کیا اس کو کمزور اردو کہا جاتا ہے؟ مزید برآں، معلوم ہوتا ہے کہ اردو میں Dan Brown کے ناولوں کی قسم کے چونکا دینے والے موڑ اور تحقیق پر مبنی مواد کہانی کی شکل میں لکھنے کی یہ پہلی مثال نمرہ احمد نے قائم کی ہے۔
    اور نشے کی بھی خوب کہی۔ یہ دیکھیے:
    "'ہر شخص کا خمر مختلف ہوتا ہے۔ پتہ ہے الکحل کیوں حرام ہے؟ کیونکہ وہ نشہ کرتی ہے اور لت ڈالتی ہے۔ ہر نشہ والی چیز خمر ہوتی ہے۔ چاہے وہ مشروب نہ ہو یا اس کا رنگ سرخ نہ ہو۔ میرا خمر یہ سب تھا۔ یہ کمپیوٹر، موبائل، انٹرنیٹ، ٹی وی۔ سو اب۔۔۔ میں ان چیزوں کو استعمال نہیں کروں گی۔'
    'حنہ، کوئی بھی چیز بذاتِ خود اچھی یا بری نہیں ہوتی۔ اس کا استعمال اسے اچھا یا برا۔۔۔۔'
    'بالکل بھی مت کہیے گا یہ فضول بات جو لوگ دہرا دہرا کر نہیں تھکتے۔ ہر چیز کے بارے میں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ بذاتِ خود اچھی یا بری نہیں ہے۔ کچھ چیزوں کا برا استعمال ان کے اندر برائی کا اثر اتنا راسخ کر دیتا ہے کہ۔۔۔ کہ ان میں آپ کے لیے اچھائی ختم ہو جاتی ہے۔ ۔۔۔'
    'لیکن حنہ، الکحل بھی اکٹھی حرام نہیں ہوئی تھی۔ آہستہ آہستہ منع کی گئی تھی۔ تین حصوں میں۔ ایک دم سے ان چیزوں کو زندگی سے نکالو گی تو اپنا ایک حصہ ان ہی کے ساتھ کھو دو گی۔ ایڈکٹڈ آدمی کو ایک دم سے منشیات سے نہیں ہٹایا جاتا۔ ڈوز ہلکی اور مزید ہلکی کی جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ چھوڑو۔ خود کو دبا کر، جبر کرو گی تو کتنا عرصہ ضبط ہو گا؟ ایک دن سپرنگ کی طرح واپس آجاؤ گی۔'
    'نہیں۔ اگر ابھی نہیں چھوڑا تو کبھی نہیں چھوڑ سکوں گی۔' وہ چپ ہو گیا۔ اگر وہ اپنا ضبطِ نفس آزمانا چاہتی تھی ،تو سعدی کو اسے روکنا نہیں چاہیے۔"


    اور یہ دیکھیے:
    "اکتا کر اس نے ٹی وی بند کیا۔ کمرے کی خاموشی عجیب لگنے لگی۔ اس نے سر ہاتھوں میں گرا لیا اور سوچنے کی کوشش کی کہ وہ اتنا بے سکون کیوں ہے؟ مگر اگلے ہی لمحے چونکا۔ " اسکرین!" اسکرین میں سکون کب اور کس کو ملا تھا' جو اسے ملے گا؟ بھلے وہ ٹی وی اسکرین ہو' کمپیوٹر اسکرین ہو یا موبائل اسکرین۔ اسکرین سستی' بے سکونی اور بے زاری عنایت کرتی ہے اگر یہ اللہ کے ذکر سے خالی ہو! وہ اٹھا اور باتھ روم چلا گیا۔ کچھ دیر بعد گیلے ہاتھ پیر اور چہرے کے ساتھ باہر نکلا اور اپنا قرآن لے کراسٹڈی ٹیبل پہ آبیٹھا۔
    "پتہ ہے کیا اللہ تعالی، اس اسکرین کی نماز اور قرآن کے ساتھ ہمیشہ ایک جنگ چھڑی رہتی ہے۔ جتنی زیادہ ہماری زندگیوں میں' اسکرین آتی ہے' اتنی ہماری نماز کم ہوتی ہے۔ اور جتنی نماز آتی ہے' اتنی ہی اسکرین خود بخود جانے لگتی ہے۔ ہم بیک وقت دو دل نہیں رکھ سکتے۔ حیا سے عاری دل، اور مومن کا دل، یہ ایک سینے میں ساتھ نہیں رہ سکتے۔"


    بالکل وہ یہ سب سوچے گا مگر کچھ آگے چل کر یہ سب سوچنے کے اتنے خطرناک نتائج بتا کر اس کو اسی سے تو باز رکھا جاتا ہے۔

    "نمل" ناول میرے جیسے بہت سے عام قارئین (نہ کہ محققین اور علمائے کرام) کےلیےکم از کم وقتی طورپر ایمانی تازگی کا ذریعہ ضرور بنا ہے۔ ایک خالصتاً پرسنل بات بتاؤں، صرف تحدیث نعمت کی خاطر! سورہ نحل کی چند آیات کی تفسیر کو نمرہ احمد نے اتنے پیارے انداز سے ایک واقعے پر منطبق کیا کہ میں نے اس کے بعد اس حصے کو حفظ کر لیا۔
    فَإِذا قَرَأتَ القُرآنَ فَاستَعِذ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطانِ الرَّجيمِ
    إِنَّهُ لَيسَ لَهُ سُلطانٌ عَلَى الَّذينَ آمَنوا وَعَلىٰ رَبِّهِم يَتَوَكَّلونَ

    اچھے کام کرنے کے لیے انسپائریشن کہیں سے بھی مل سکتی ہے نا؟ سو اگر نمل سے ملی تو یہ تو میرے لیے مفید ہی ہوا نا؟
     
    Last edited: ‏دسمبر 12, 2015
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • متفق متفق x 2
  17. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    شکریہ مریم کہ آپ نے برا نہیں مانا ورنہ نسیم حجازی کے مداح باقاعدہ ناراض ہو گئے تھے۔ میری ہفتے کی آخری کلاس ہفتے اور اتوار کی سرحد کے درمیان ہوتی ہے، اس لیے نیند بھی خراب ہوتی ہے۔ کل چھٹی کا اکلوتا دن ہے جو سو کر ہی گزرے گا۔ پھر لکھوں گی اس پر ان شاءاللہ۔
    اس بات سے تو آپ بھی اتفاق کر چکی ہیں کہ یہ پاپولر فکشن ہے۔ پاپ لٹریچر اکثریت کے موڈ کے تابع ہی ہوتا ہے تکنیکی اعتبار سے، اگر آپ اس کی باقاعدہ تعریف دیکھیں۔قرآن اکثریت کے معیار کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
    اب یہ بھی طے کر لیجیے کہ اس ناول کی کیٹیگری کیا ہے۔ سماجی، رومانوی،جاسوسی؟
    میری گزشتہ پوسٹ کی ہر بات اس ایک ناول کے بارے میں نہیں تھی۔ یہ عمومی جملے تھے جیسے عظیم مسئلے والا۔
    دوسرا سوال یہ تھا کہ ہم میں سے کوئی کم بے ہودہ ہی سہی، چیپ نہ سہی، کلاسی رومینس لکھ سکتا ہے؟ گھر والے کچھ نہ بھی کہیں تو ہمارا ضمیر ہمیں جوتے مارے گا۔ میں تو نہیں لکھ سکتی۔ اسلام بھی اجازت نہیں دیتا۔ رومینس لکھنے کے لیے پہلے رومینس سوچنا پڑھنا، یا دیکھنا پڑتا ہے یاد رکھیں۔جس طرح باقاعدہ سنگرز کے نشید نہیں سننے چاہییں اسی طرح فلموں کے حوالے دینے والوں کے ناول پڑھیں گے تو کسی دن فلموں تک جا نکلیں گے ہم۔ جس نے فلمیں دیکھی ہوں گی وہی اپنی تحریروں میں اس کے حوالے دے گا۔ اور ہمیں وہ حدیث یاد آنی چاہیے کہ لوہار کی بھٹی کے پاس بیٹھو گے تو بدبو لے کر اٹھو گے، اور مسک فروش کے پاس سے اچھی خوشبو ملے گی۔ صحبت اپنا اثر بہت ہی چپکے سے چھوڑتی ہے۔
    سب یہی کہتے ہیں کہ ہم اصلاح کے لیے برائی دکھا کر اس کا برا انجام دکھائیں گے لیکن برائی سیکھنے کی تاک میں رہنے والے اپنی مرضی کا سبق ہی سیکھتے ہیں۔ انجام کس کو یاد رہتا ہے۔ پھر ایک عمر ہوتی ہے جس میں انسان کو جذبات جو راستہ دکھا رہے ہوتے ہیں وہ اسی پر چلنا چاہتا ہے۔ کسی ناصح کی نہیں سنتا، ناول اور ڈراموں کے شائقین میں مرض عشق کے ماروں کی تعداد کچھ زیادہ ہی نکلتی ہے۔ انسانی نفسیات ہے کہ وہ برائی جلدی سیکھتا ہے۔ کتنی خبریں آتی ہیں کہ بچے سپر مین یا سپائیڈر میں کی نقل میں چھت سے چھلانگ لگا بیٹھے، ولن ناپسندیدہ ہوتا ہے لیکن لوگ ولن سے انسپائر ہو کر سموکنگ کرنے لگے۔
    اچھا کیا آپ نے اقتباس دے دئیے
    اردو اتنی عاجز زبان نہیں کہ اس کے دامن میں ان انگریزی الفاظ کا اردو متبادل نہ ہو۔ نہ ہی وہ متبادل متروک ہوچکے ہیں کہ کہا جائے ثقل کے ڈر سے ان سے اجتناب کیا گیا۔یہ تو صرف الفاظ ہیں۔ اردو زبان اور محاوروں کی بجائے انگریزی محاوروں کا اردو ترجمہ لکھنے کا رواج عمیرہ اور نمرہ نے ہی شروع کیا ہے۔
    یہی اصل بات ہے کہ پھر بھی ڈائجسٹ کی کہانی کمرشل لٹریچر کی ذیل میں ہی آتی ہے۔ یہ تجارت ہے اور تجارت میں اخلاقیات کا کباڑہ ہو جاتا ہے۔ عمیرہ نے شروع میں جب لکھا تھا لوگوں نے کہا بہت اسلامی لکھتی ہیں۔ پھر وہی اسلامی کہانیاں کمرشلزم کی ضروریات کے عین مطابق اسی اصلاحی مصنفہ کے ہاتھوں سے ڈراموں میں ڈھلیں، سکرین پر چلیں میری ایک با حجاب سٹوڈنٹ نے مجھ سے عمیرہ کے ڈرامے کا ایک کلپ شئیر کیا۔ میں نے پوچھا بھئی یہ تم کن کاموں میں لگ گئیں۔ اور پھر مجھ سے شئیر کر رہی ہیں۔ تو اس نے کہا میم آپ دیکھیں اس ڈرامے کو دیکھ کر بہت لوگ اللہ کے قریب ہو گئے۔ یعنی الٹا ہو گیا ؟دین دار لڑکیاں ناول سے ڈرامے تک چلی گئیں۔ اصلاحی ڈرامے کے پاکیزہ ڈائلاگ جس لڑکی پر فلمائے گئے وہ کیا آسمان سے آئی تھی جس پر پردہ فرض نہیں تھا؟
    مجھے سوال اٹھانا اچھا لگتا ہے۔ جواب قارئین خود ڈھونڈیں۔اس موضوع کو چھیڑنے کا مقصد یہی تھا کہ ہم ہر اسلامی نظر آنے والی چیز کے پیچھے فورا نہ لگ جایا کریں، اس کو پرکھا کریں۔ احتیاط اچھی چیز ہے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • ظریفانہ ظریفانہ x 1
  18. مریم جمیلہ

    مریم جمیلہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مارچ 26, 2015
    پیغامات:
    111
    کیٹیگری طے کرنا کیوں ضروری ہے؟ کیا اس کے بغیر ناول سے لطف اٹھانا یا ہدایت حاصل کرنا ممکن نہیں؟ کیا ایک ہی کتاب اپنے اندر تنوع نہیں رکھ سکتی؟
    قرآن میں بھی تو بعض گناہوں کا ذکر کر کے پھر اس کے نتائج سے خبردار کیا گیا ہے. یعنی ناصح تو نصیحت ہی کرے گا. اب سننے والوں کے عمل کا وہ ذمہ دار نہیں. اور ایسا ہے کہ ناول پڑھنے والے اتنے معصوم نہیں کہ انہوں نے کبھی کوئی ڈرامہ یا مووی دیکھی ہی نہ ہو. لہذا جو دیکھتے ہیں ان کے لیے باز آنے کا پیغام ہے اور جو نہیں دیکھتے ان کو باز رہنے کا.
    یہی بات ہے نا. ناول کا یہی مقصد ہوتا ہے. جذبات کو جذبات کے ذریعے ہی قابو کیا جائے. سیدھی سادی لاجک اس وقت شاید اتنا اثر نہ کرے جتناکسی اور کا(غیر حقیقی) تجربہ اور اس سے نکالے جانے والے نتائج.
    بالکل متفق. لیکن شاید مصنفہ نے ایسا اس لیے کیا ہے کہ ان کے قارئین کو یہ باتیں خود سے زیادہ متعلق لگیں. اور پھر کس کی تحریر یہاں کاملیت کو پہنچ سکتی ہے؟
    یہ بات بالکل دل کو لگتی ہے. میرا خیال ہے رومینس کی بھی مہذب شکل لکھنے کا مقصد اسے فطرت سے زیادہ قریب کرنا ہوتا ہے. ورنہ یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ ناول کے کردار حقیقت سے دور ہیں. شاید "مودة و رحمة" بیان کرنے کی کوشش ہے. : ))
    میں آپ سے متفق ہوں. ایسا نہیں ہونا چاہیے. اور خدا جانے عمیرہ احمد نے کیونکر ایسا قدم اٹھایا. مگر کم از کم نمرہ احمد نے واضح الفاظ میں کہہ رکھا ہے کہ انہیں ڈراموں میں دلچسپی نہیں ہے اور وہ اپنی تحاریر کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہونے دیں گی.
    آپ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں. مگر بات صرف اتنی ہے کہ مجھے نمرہ احمد کی تحاریر سے نقصان کوئی نہیں اور فائدہ زیادہ ہوتا ہے، سو یہ مجھے پسند یے اور یقینا یہی نظریہ ان کے کچھ ۸۹۰۰۰ قارئین کا ہو گا. اللہ تعالی ہم سب کو سیدھے راستے پر چلائیں. آمین.
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  19. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جی آپ نے اچھی بات کہی۔ دیکھیے ہم قرآن اور احادیث کے قصوں کو اکیڈیمک لیول پر سٹڈی کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث برائی کی تفصیلات ہر گز بیان نہیں کرتے۔آپ کوئی بھی قرآنی قصہ دیکھ لیں۔ یہی فرق ہے۔ اسی کی طرف اسلامی ادب لکھنے والوں کو توجہ دینے اور بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ مجھے معلوم ہے ہم سب اچھی نیت کے باوجود غلطیاں کرتے ہیں۔ ان کی نیت بہت اچھی ہے ہمیں معلوم ہ لیکن دینی حدود کا پاس بھی ضروری ہے۔
    ہمیں قارئین کا ذوق بہتر کرنا چاہیے نا کہ ان کو وہی دینا جو وہ چاہتے ہیں۔ ہمیں رجحان ساز بننا ہے۔ یہی اصل مسئلہ ہے پاپ اور لٹریری کے بنیادی فرق کا۔ یہ تجارت کی ضرورت ہے کہ عوام کی خراب زبان لکھو کیوں کہ اچھی زبان ان کو گراں لگتی ہے۔ تو یہ اردو ادب کی خدمت نہیں ہو رہی، پیٹ کی خدمت ہو رہی ہے۔
    اللہ اللہ، اسلام انسانوں کی ذاتی زندگی کی حقیقی مودت پر یقین رکھتا ہے، ہر کوئی اپنا ذاتی تجربہ کرے اور اپنے تک رکھے۔ کسی دوسرے جوڑے کی مودت ورحمت سرعام بیان کرنے کو حرام کیا گیاہے۔ اس بارے میں واضح حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر ان لوگوں کی مذمت کی، انہیں ملعون کہا جو اپنے تعلقات سر عام بیان کرتے ہیں۔ اب بتائیے ایسی تحریروں کو پڑھنا اور ایسے ڈرامے دیکھنا کیسے جائز ہوا۔ نئی نسل ایسی مودت و رحمت کی کہانیاں پڑھ کر کیا کر رہی ہے یہ آپ والدین اور اساتذہ سے پوچھیے۔
    انہوں نے بھی شاید یہی سوچا ہو کہ ڈرامہ دیکھنے والے طبقے کو دعوت دینی چاہیے۔ یعنی وہی دلیل جو ڈائجسٹ میں چھپنے کی ہے!
    اسی دلیل سے اسلامی فلم بھی بن سکتی ہے! جس میں اسلامی گانے ہوں!
    کوئی کھائی میں گرا ہو تو ہمیں اسے نکالنا چاہیے ناکہ وہیں اسے سال بھر کا راشن پہنچا دیں کہ ٹھیک ہے عیش سے رہو کھائی میں، ہم تمہارے تک آ کر دعوت کا کام کرتے رہیں گے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • متفق متفق x 1
  20. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    یہ طے کرنا اس لیے ضروری ہے کہ ہمیں برا لگے یا اچھا جو چیز جس قسم سے تعلق رکھتی ہے وہ اسی میں آئے گی۔کوئی تحریر کوثر و تسنیم سے دھلی ہو، پڑھنے والے شراب طہور پی کر پڑھیں لیکن چھپی تو ڈائجسٹ میں اور ہے بھی رومانوی ناول تو پھر بات وہیں کی وہیں آجات ہے کہ باقاعدہ اسلامی ہے نہ ادبی ہے۔
    میرا مقصد آپ کی حوصلہ افزائی ہے۔ اچھے مداح ان کو لکھ سکتے ہیں کہ وہ باقاعدہ ادب کی طرف آئیں، اپنی کتب چھپوائیں تا کہ ان کو وہ لوگ پڑھ سکیں جو اسلامی ادب کے حقیقی قارئین ہیں، اور تا کہ سچی دعوت دین کو ان کی آواز سے مضبوطی ملے۔۔مین سٹریم کی طرف آنے کا انہیں بھی فائدہ ہو گا اور کاز کو بھی۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • ظریفانہ ظریفانہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں