کیا حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے پیارے نانا صلی اللہ علیہ وسلم کا چہلم منایا تھا؟

عائشہ نے 'ماہِ صفر' میں ‏دسمبر 13, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    محترم جناب آپ پھر لمبی لمبی پوسٹیں کرکے مرکزی نقطہ سے ہٹ رہے ہیں۔
    اتنی بحث کے باوجود ابھی تک آپ یہ ثابت نہیں کرسکیں کہ عید میلاد کو صحابہ کرام وتابعین میں سے کس نے منایا جبکہ آپ احادیث بھی پیش کررہے ہیں۔
    بجائے لمبی پوسٹس کے آپ ایک دلیل پیش کردیتے کسی صحابی یا تابعی یا فقہ حنفی یا شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کی کتاب سے عید میلاد منانے پر۔
    میرے پاس اتناٹائم نہیں کہ میں بار بار اوپر ذکر کیا گیا سوال کروں اور آپ دلیل دینے کے بجائے ادھر ادھر کی باتیں لکھ دیں۔
    شکریہ
     
    • متفق متفق x 1
  2. ممتاز قريشی

    ممتاز قريشی نوآموز

    شمولیت:
    ‏دسمبر 3, 2015
    پیغامات:
    29
    محترم بھائی اعجاز علی شاھہ صاحب۔۔ میں نے اس وقت تک آپ کی سب باتوں کا الگ الگ جواب دیا ہے ، افسوس کی بات ہے کہ وہ سب باتیں آپ کو ادھر ادھر کی باتیں لگ رہی ہیں۔۔۔۔!!

    میں نے میلاد مصطفی ﷺ کی تائید میں قرآن پاک کی آیات اور ان سے حاصل مفہوم بھی آسان الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔
    اگر آپ متفق نہیں ہیں تو آپ کی نظر میں ان قرآنی آیات کا مفہوم کیا ہونا چاہیئے۔۔۔۔؟؟؟

    بڑے دکھہ کی بات ہے کہ آپ کو قرآن پاک سے بھی زیادہ صحابہ کرام کے میلاد منانے سے دلچسپی ہے۔
    آپ نے لکھا ہے کہ
    دیکھا جائے تو قرآن پاک سے میلاد مصطفی ﷺ پیش کرنے کہ بعد کسی صحابی کا میلاد منانا ثابت کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔

    اس کہ باوجود آپ دوستوں کی خواہش پر میں کچھہ مستند احادیث پیش کر رہا ہوں جن میں میلاد مصطفی ﷺ کا تذکرہ موجود ہے۔ ان کو پڑھنے سمجھنے اور تسلیم کرنے کہ بعد بھی کوئی مسلمان انکار کرے تو ایسے لوگوں کہ لیئے ہی قر آن پاک میں کہا گیا ہے کہ آنکھیں ہوتے ہوئے بھی اندھے ہیں ، زبان ہوتے ہوئے بھی گونگے ہیں اور کان ہوتے ہوئے بھی بہرے ہیں۔۔۔!!!

    احادیث مبارکہ میں تذکرہ میلاد مصطفی ﷺ
    حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ کچھہ صحابہ رضی اللہ عنھم آپس میں بیٹھہ کر مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کے درجات و کمالات کا تذکرہ کر رہے تھے۔ ایک نے کہا حضرت ابراھیم علیہ السلام خلیل اللہ تھے ، دوسرے نے حضرت موسی علیہ السلام کا تذکرہ کیا وہ کلیم اللہ تھے ،تیسرے نے حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں کہا کہ وہ روح اللہ تھے۔ ایک نے حضرت آدم علیہ السلام کو صفی اللہ کہا۔ اتنے میں حضور اکرم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا جو کچھہ تم نے کہا میں نے سن لیا وہ سب درست ہے اور میرے بارے میں سن لو !
    ترجمہ: میں اللہ کا حبیب ہوں اور اس پر فخر نہیں۔ (مشکواہ المصابیح)

    غور کیا آپ نے۔۔۔؟؟
    یہ محفل میلاد نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر ایسی محافل جائز نہ ہوتیں تو حضور اکرم ﷺ منع فرمادیتے۔

    اب یہاں ہمارے کچھہ اسلامی بھائی یہ اعتراض بھی کر سکتے ہی کہ میلاد کا کوئی ایسا جلوس بھی ثابت کریں جس میں صحابہ کرام شریک ہوئے ہوں۔

    محترم دوستو۔۔۔محافل میلاد کی دوسری اصل ، حدیث رسول میں موجود ہے۔ بے شک آپ ﷺ کی آمد پر خوشی کا اظہار کرنا ایمان کی علامت ہے۔ جب آپ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چڑھہ گئے اور بچے اور خدام راستوں پر پھیل گئے سب لوگ نعرے لگا رہے تھے یا محمد رسول اللہ ، یا محمد رسول اللہ ( صحیح مسلم 2، 419) قبیلہ بنو نجار کی بچیاں دف بجا کر نعت پڑھہ رہی تھیں (طلع البدر علینا) ہم پر چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا ثنیات کی پہاڑیوں کی طرف سے۔
    بے شک ہم پر اس نعمت کا شکر منانا واجب ہے۔ حضور اقدس ﷺ نے اس پر خوشی کا اظہار فرمایا۔

    ایک اور روایت صحیح بخاری میں منقول ہے کہ ابولہب کی لونڈی ثوبیہ نے حضور اقدس ﷺ کی ولادت کی خوشخبری ابولہب کو سنائی تو اس نے انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے لونڈی سے کہا "جاؤ آج سے تم آزاد ہو" ، پھر جب وہ حالت کفر میں مر گیا تو ایک مرتبہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے خواب میں آیا اور کہنے لگا کہ تم سے جدا ہو کر میں سخت عذاب سے دوچار ہوں ، بس سوموار کے دن اس انگلی سے سیراب کیا جاتا ہوں ( جس کے اشارے سے ثوبیہ کو آزاد کیا تھا) ۔ تمام شارحین حدیث کا اتفاق ہے کہ اگر ابولہب جیسا کافر آپ ﷺ کو بھتیجا سمجھہ کر آپ ﷺ کے میلاد کی خوشی منائے تو اسے سیراب کیا جائے تو اس امتی کی کیا شان ہوگی جو آپ ﷺ کو نبی اور اللہ پاک کا حبیب سمجھہ کر میلاد مناتا ہے۔۔۔!!

    حضور اکرم ﷺ پیر کے دن روزہ رکھا کرتے تھے استفسار پر فرمایا اس دن میں پیدا ہوا ہوں اور اس دن مجھہ پر قرآن نازل ہوا ہے۔ (صحیح مسلم ، مشکواہ شریف)

    غور کریں میرے اسلامی بھائیو۔۔۔۔۔میلاد مصطفی ﷺ اور نزول قرآن کی مسرت خود مصطفی ﷺ نے فرمائی ہے۔پھر کتنی ہی محافل میں آپ ﷺ کی موجودگی میں نعت خوانی ہوئی۔ حضرت حسان بن ثابت ، حضرت کعب بن زہیر ، حضرت عباس رضی اللہ عنہم نے آپ ﷺ کےدشمنوں کی تردید کی اور آپ ﷺ نے ان تمام کو انعامات سے بھی سرفراز فرمایا۔ کیا یہ محافل میلاد مصطفی ﷺ نہیں تھیں۔۔۔۔
    اگر یہ محافل میلاد نہیں ہیں تو پھر اور کونسی محفل میلاد ہوتی ہے۔۔۔۔!!!

    حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کو اطلاع ملی کہ کسی گستاخ نے آپ ﷺ کےنسب شریف میں طعن کیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: "میں کون ہوں۔۔۔"؟؟
    صحابہ رضی اللہ عنہم نے فرمایا؛ "آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔"
    نبی کریم ﷺ نے فرمایا "میں عبدالمطلب کے بیٹے عبداللہ کا بیٹا ہوں۔ اللہ نے مخلوق پیدا کی ان میں سب سے بہتر مجھے بنایا پھر مخلوق کے دو گروہ کئے ان میں مجھے بہتر بنایا پھر ان کے گھرانے بنائے اور مجھے ان میں بہتر بنایا تو میں ان سب میں اپنی ذات کے اعتبار اور گھرانے کے اعتبار سے بہتر ہوں۔" ( مشکواہ شریف)

    غور و فکر کی بات:
    محترم دوستو۔۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے خود محفل میلاد منعقد فرمائی جس میں اپنا حسب و نسب بیان فرمایا اور یہ بھی ثابت ہوا کہ محفل میلاد کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس محفل میں ان لوگوں کا رد کیا جائے جو آپ ﷺ کی بد گوئی کریں اور آپ ﷺ سے باطنی اور ظاہری بغض رکھتے ہوں۔
     
    • غیر متفق غیر متفق x 1
  3. T.K.H

    T.K.H رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2014
    پیغامات:
    234
    صحابہ کرام ؓ بغیر میلاد منائے صرف اطاعتِ رسول ﷺ کی وجہ سے دنیا پر چھا گئے اورہم ”جشن عید میلاد النبیﷺ“ کو با قاعدگی سے منانے کے باوجود دنیا بھر میں رُسوا ہو رہے ہیں۔ وجہ صرف اور صرف اطاعتِ رسولﷺسے انحراف اور عشقِ رسولﷺکے نام پر گھڑے گئے معیارات ہیں جن کی کوئی سند اللہ تعالٰی نے نازل نہیں فرمائی۔

    آج کا مسلمان ہدایت یافتہ اس لیے نہیں کہ وہ ”جشن عید میلاد النبیﷺ“ نہیں مناتا بلکہ اس لیے ہے کہ اس نے قرآنی معیار کو پسِ پشت ڈال کر اپنے جی سے ایک نیا معیار”عشق ِ رسولﷺ“ کے نام پہ گھڑ کے اسلام کے اندرلا گھسانے کی سعی کی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے مسلمان کی ہدایت کے لیے ایک ہی معیار بتایا ہے کہ:-

    وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُواۚ

    اُس کی اطاعت کرو گے تو خود ہی ہدایت پاؤ گے۔

    قرآن، سورۃ النور، آیت نمبر 54

    ”عاشقانِ رسولﷺ“ نے اطاعتِ رسولﷺپر زور دینے کی بجائےایک عمل بلا دلیل پر زور دینا شروع کر دیا اور طبقۂ خاص یہ راز جاننے سے قاصر ہے کہ رسول اللہ ﷺسے مسلمانوں کے لگاؤ میں کمی کا سبب میلادِ مصطفیٰﷺ کا جشن نہ منانے پر نہیں بلکہ اطاعتِ رسولﷺسے انحراف پر مبنی ہے۔

    اگر عید میلاد النبیﷺ کا جشن منانا شرعی عمل ہوتا تو رسول اللہ ﷺاسکو ضرور مناتے،منانے کی تلقین کرتے اور اسکو منانے کی روایات تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہوتیں اوراس کا دن بھی عید الفطر و الضحیٰ کی طرح متعین ہوتا ”باطل اجتہاد وقیاس“سے اسکا جواز نہ تراشا جاتا۔اس سے زیادہ حیرت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تاریخِ پیدائش میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ اور اس اختلاف کا فیصلہ ”قیاس“ کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے جو یقیناً خطاء سے مبرا نہیں۔ اگرنبیﷺ اور صحابہ کرامؓ عیدمیلادالنبیﷺبا قاعدگی سے مناتے تو اس دن کے تعین میں اختلاف چہ معنی دارد ؟

    اگر ”عاشقانِ رسولﷺ“ قرآن وسُنت میں مذکور اعمال کی طرف لوگوں کو توجہ دلاتے اور اسی پر اکتفاء کرتےتو لوگوں کی اصلاح کےلیے کافی تھااس طرح کرنے سےاغیار کی مسلمانوں کے خلاف ”سازش“ اپنی موت آپ مر جاتی اور ہمیں اسلام میں مزید کسی ”عید“ کا اضافہ نہ کرنا پڑتا۔

    مگر طبقۂ خاص کو یہ اضافہ شائد اس لیے کرنا پڑا کہ ان کی نظر میں قرآن و سُنت کے بیان کردہ اعمال میں کوئی جاذبیت نہیں اس لیے انہوں نے سوچا کہ”عشقِ رسولﷺ“ کے نام پہ عید میلاد النبیﷺ کے دن برقی قمقموں کی جاذبیت سے لاعلم و کم علم عوام و خواص کو اسلام کی طرف راغب کر کے اغیار کی ”سازشوں“ کا قلع قمع کیا جائے۔

    ہمارے لیے فقط یہی دلیل کافی ہے کہ قرآن و سُنت اور خیر والقرون میں اس غیر شرعی فعل کا کوئی ثبوت نہیں ۔

    معلوم پڑتا ہے کہ طبقۂ خاص نے قرآن و سُنت سے بے نیاز ہو کر عید میلاد النبیﷺکے جواز کو تراشنے کےلیےمحض ”عقلی تدبر“ سے کام لیا ہے اس لیےجب لوگ قرآن مجید سے ہدایت لینے کی بجائے الٹا اسے ہدایت دینے بیٹھ جاتے ہیں تواسی طرح کی رکیک اور دور دراز تاویلات کا سہارا لینا ایک ناگزیر مجبوری بن جاتی ہے جس سے چھٹکارا پانا قریب قریب ناممکن ہو جاتا ہے۔

    یہی وجہ ہے جو یہاں سورۃ آل ِعمران کی آیات سے بھی بالکل غلط استدلال کیا گیا ہے کیونکہ اس میں عیدمیلاد النبیﷺ کا نہیں بلکہ پیغمبروں سےنبیﷺکی نبوت و رسالت اور انکی اس سلسلے میں مدد کرنے کا اقرار لیا گیا ہےجسکا تذکرہ مندرجہ ذیل سورۃ الاحزاب کی آیات میں بھی آیا ہےاور یہ میثاق کس چیز کا لیا گیا تھا اسکا تذکرہ سورۃ آلِ عمران کی آیات میں کر دیا گیا یعنی لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ “۔

    آیا ت ملاحظہ فرمائیں:-

    وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۖ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا ﴿٧﴾ لِّيَسْأَلَ الصَّادِقِينَ عَن صِدْقِهِمْ ۚ وَأَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿٨﴾

    اور (اے نبیﷺ) یاد رکھو اُس عہد و پیمان کو جو ہم نے سب پیغمبروں سے لیا ہے، تم سے بھی اور نوحؑ اور ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ ابن مریم سے بھی سب سے ہم پختہ عہد لے چکے ہیں تاکہ سچے لوگوں سے (ان کا رب) ان کی سچائی کے بارے میں سوال کرے، اور کافروں کے لیے تو اس نے درد ناک عذاب مہیا کر ہی رکھا ہے۔

    قرآن ، سورۃ الاحزاب، آیت نمبر08-07

    وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُۚقَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ ﴿٨١﴾ فَمَن تَوَلَّىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٨٢﴾

    یاد کرو، اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ، "آج ہم نے تمہیں کتاب اور حکمت و دانش سے نوازا ہے، کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اُسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے، تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی" یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا، "کیا تم اِس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟" اُنہوں نے کہا ہاں ہم اقرار کرتے ہیں اللہ نے فرمایا، "اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں اس کے بعد جو اپنے عہد سے پھر جائے وہی فاسق ہے"۔

    قرآن ، سورۃ آلِ عمران، آیت نمبر82-81

    اگراس میثاق سے ”عید میلادالنبیﷺ“ کا ثبوت مل سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں ہےکہ مندرجہ ذیل آیت کی روشنی میں بنی اسرائیل کےبارہ نقباء کا میلاد منانے کا جواز ثابت نہ ہو۔

    وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا وَقَالَ اللَّهُ إِنِّي مَعَكُمْ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ ﴿المائدة: ١٢﴾

    اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا اور ان میں بارہ نقیب مقرر کیے تھے اور ان سے کہا تھا کہ "میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نے نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دی اور میرے رسولوں کو مانا اور ان کی مدد کی اور اپنے خدا کو اچھا قرض دیتے رہے تو یقین رکھو کہ میں تمہاری برائیاں تم سے زائل کر دوں گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، مگراس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو در حقیقت اُس نے سوا٫ السبیل گم کر دی"۔

    یہ حقیقت بھی نظروں سے ہرگز اوجھل نہ ہونے پائے کہ جب ایک چیز کی بنیاد غلط ہوتو اس پر بنائی جانے والی ہر عمارت بھی غلط ہی ہو گی طبقۂ خاص نے جس طرح قرآن مجید کی آیات سے غلط استدلال کرنے میں ٹھوکر کھائی ہے بالکل اسی طرح انکااحادیث کے فہم میں ٹھوکر کھانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں جس روایت سے انہوں نے عید میلاد النبیﷺ کے جشن کا ثبوت فراہم کیا ہےاسکی حقیقت بھی ملاحظہ فرمالیں۔

    عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ جَائَ نَاسٌ مِنْ الْأَعْرَابِ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ الصُّوفُ فَرَأَی سُوئَ حَالِهِمْ قَدْ أَصَابَتْهُمْ حَاجَةٌ فَحَثَّ النَّاسَ عَلَی الصَّدَقَةِ فَأَبْطَئُوا عَنْهُ حَتَّی رُئِيَ ذَلِکَ فِي وَجْهِهِ قَالَ ثُمَّ إِنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ جَائَ بِصُرَّةٍ مِنْ وَرِقٍ ثُمَّ جَائَ آخَرُ ثُمَّ تَتَابَعُوا حَتَّی عُرِفَ السُّرُورُ فِي وَجْهِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئٌ

    حضرت جریر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کچھ دیہاتی آدمی اونی کپڑے پہنے ہوئے حاضر ہوئے آپ نے ان کی بدحالی دیکھ کر ان کی حاجت و ضرورت کا اندازہ لگا لیا آپ ﷺنے لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی پس لوگوں نے صدقہ میں کچھ دیر کی تو آپ ﷺکے چہرہ اقدس پر کچھ ناراضگی کے آثار نموادر ہوئے پھر انصار میں سے ایک آدمی دراہم کی تھیلی لے کر حاضر ہوا پھر دوسرا آیا پھر صحابہ نے متواتر اتباع شروع کر دی یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺکے چہرہ اقدس پر خوشی کے آثار ظاہر ہونے لگے رسول اللہﷺنے فرمایا جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس کے لئے اس عمل کرنے والے کے برابر ثواب لکھا جائے گا اور ان کے ثواب میں سے کچھ کمی نہ کی جائے گی اور جس آدمی نے اسلام میں کوئی برا طریقہ رائج کیا پھر اس پر عمل کیا گیا تو اس پر اس عمل کرنے والے کے گناہ کے برابر گناہ لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔

    صحیح مسلم ، جلد سوم، حدیث نمبر2299

    اس روایت کواگر سیاق و سباق کے ساتھ دیکھا جائے تواس سے بھی عید میلاد النبیﷺکاجواز قطعاً ثابت نہیں ہوتا کیونکہ صدقہ کرنے کا حکم قرآن مجید میں موجود ہے اور اس روایت میں کوئی نیا طریقہ بیان نہیں ہوا بلکہ یہ قرآن مجید کے حکم پر مبنی ایک عمل ہے جبکہ قرآن و سُنت میں عید میلاد النبیﷺکا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔

    لہذابراہِ کرم جس طرح قرآن مجید میں نماز ،زکوٰۃ، روزہ،حج اور دیگر احکامات واضح طریق پر بیان ہوئے ہیں اسی طرح عید میلاد النبیﷺکا جشن منانے کا حکم قرآن مجید سے پیش فرمائیں۔

     
    • ناپسندیدہ ناپسندیدہ x 1
  4. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    ·
    · آپ نے یہاں میری ہی بات کو دہرا دیا

    · م
    · ممتاز قریشی صاحب یہاں میت کی طرف سے صدقہ کی بات ہو رہی ہے " کسی بھی چیز" کی بات نہیں ۔ یہ آپ کی اپنی طرف سے اضافہ ہے۔ اور اسی طرح کا اضافہ بدعت کہلاتا ہے۔ قرآنی آيات پڑھ کر کسی زندہ یا مردہ کو ثواب پہنچانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں۔
    · اس حدیث میں بھی صدقہ کا ذکر ہے۔ " کسی بھی چیز" کا نہیں۔ اور باب بھی صدقہ کے فضائل کا ہے۔

    · جی یہاں بھی آپ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ بات کو سمجھیے۔ آپ نے کی کسی نے دعوت کی اس نے آپ کے سامنے کھانا لا کر رکھا۔ اور آپ نے اس کے رزق کی زیادتی کے لیے دعا کی۔ یہ وہ طریقہ نہیں ہے جو کہ آپ کے بدعتیوں میں رائج ہے۔ کہ ایک گلاس پانی، فروٹ، اور سالن روٹی اہتمام کے ساتھ مولوی صاحب کے سامنے رکھا اور پھر اس پر فاتحہ پڑھی، اور کچھ دوسری آیات پڑھ کر پھونک ماری ، اس کا ثواب مرنے والے کی روح کو بخشا اور پھر اس کھانے کو دوسرے کھانے میں برکت کے لیے ملا کر کھا لیا۔
    · کسی کی دعوت کرنا اور کھانا کھلانا ایسا عمل ہے جو کہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔

    ·
    · پہلی بات تو یہ کہ ثواب بھیجنے کے جو طریقے صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ ان طریقوں پر عمل کریں۔ قرآن پڑھ کر اس کا ثواب فوت شدگان کو بلٹی کرنے کا طریقہ ہمیں نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سکھایا ہے۔ دوسری بات یہ کہ نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں بھی صحابہ کرام وفات پاتے رہے نہ تو ان کا سوئم، دسواں، چہلم وغیرہ منایا گیا اور نہ ہی عرس (شادی) کا دن منایا گیا۔ اور پھر آپ کی وفات کے بعد بھی کسی نے صحابی نے یہ سب کچھ نہیں کیا۔ اب ایک بات مجھے بتا دیجیے کہ دین کو آپ اور آج کے بدعتی زیادہ سمجھتے ہیں یا نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام۔ یعنی جو مطلب آپ کو سمجھ آ گیا وہ ان عظیم ہستیوں کی سمجھ میں نہ آ سکا۔ اس دور میں قرآن بھی موجود تھا۔ اس کا ثواب بھی موجود تھا اور یہ سب کرنے میں کوئ امر مانع بھی نہیں تھا۔ اگر یہ ثواب کا کام ہوتا تو آپ صلی اللہ ضرور صحابہ کو اس کی تعلیم ضرور دیتے۔

    آپ کے تمام نتائج غلط اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں۔ جو اعمال قران و حدیث اور نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں آپ وہیں کریں ان سے آگے نہ بڑھیں۔

    جی قریشی صاحب نیک کرنے کا ثواب ضرور ملتا ہے۔ لیکن ثواب بخشنے کا جو طریقہ نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود نہیں تھا وہ بدعت کہلاتا ہے۔ اور اس میں یہی قباحت ہے۔
    ۔
    میرے بھائ یہاں بھی اپنا ہی بنایا ہوا اصول لاگو کیجیے کہ جس کام یا جس عمل کے بارے میں ممانعت نہ ہو ۔۔ اور وہ کام وہ عمل جو نیک بھی ہو تو اس کا کرنا بدعت نہیں ہے۔
    نماز پڑھنا تو سنت سے ثابت ہے، تو ہم چار سنت یا چار فرض کیوں نہ پڑھیں۔ اور پھر اس سے کہیں منع بھی تو نہیں کیا گیا اور یہ کام بھی نیک ہے ۔ جو کام قرآن و حدیث سے نیک کام ثابت ہوتا ہو اسے اگر دن مقرر کر کے کیا جائے تو بدعت قرار دینا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ ایسا نیا کام جس سے دین کو کوئی نقصان نہ ہو ، ایسا نیا کام جس کے ثواب کی قوی امید ہو، ایسا نیا کام جو کسی بھی قرآن و حدیث کے ٹکراؤ میں نہ آتا ہو ، اُس نیک کام کو آخر کس دلیل سے بدعت کہہ دینا چاہیئے۔۔۔۔!!!؟؟؟

    یہاں آپ کی دین اسلام سے لاعلمی ظاہر ہو رہی ہے۔ دین کی تبلیغ اور اسے سکھانے کا طریقہ تو نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ اور آج تک جاری ہے۔ دین کو سیکھنے اور سکھانے کی ترغیب میں آپ کو بہت سی احادیث تلاش کرنے پر مل جائیں گے۔پہلے ادوار میں اساتذہ بھی موجود تھے اور شاگرد بھی۔ اور قران اور حدیث پڑھانے کا عمل بھی موجود تھا۔ اور آج کے مدارس میں بھی یہ سب کچھ موجود ہے۔

    دلیل اوپر بیان کر دی گئ ہے۔
    جواب تو آپ کے پہلے ہی جملے میں موجود ہے۔ محترم بدعت دین میں اضافے کو کہتے ہیں۔ دنیاوی ایجادات کو نہیں۔

    آپ سے ایک سوال پوچھتا ہوں۔ آپ کے مسلک کی دو مساجد میں سے ایک مسجد کچی اینٹوں سے بنی ہوئ ہے اور اس میں پنکھے اور قالین وغیرہ بھی نہیں ہیں۔ اور دوسری مسجد میں یہ سب کچھ موجود ہے۔ تو کیا ان دونوں مساجد میں نماز پڑھنے یا اذان دینے کے طریقے میں کوئ فرق ہے یا دونوں میں اذان اور نماز کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے؟ آپ فورا ہی جواب دیں گے کہ نہیں جی دونوں میں ایک ہی طریقے سے نماز اور اذان ہوتی ہے۔ مطلب ہوا کہ مسجد کچی ہو یا پکی ہو دین میں کوئ اضافہ نہیں ہوتا۔ اور نماز پڑھنے کے لیے ان دونوں کا ہونا یا نہ ہونا کوئ معنی نہیں رکھتا۔

    آپ نے اس حوالے سے قران کریم پر اعراب لگانے کا بھی ذکر کیا تھا۔ یہاں مجھے ایک بات بتا دیجیے جب جبرئیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر آۓ تو آپ نے تو "اقرا" کو کس طرح پڑھا ہوگا۔ اور یہ بھی بتا دیجیے کہ ہم یہاں اردو زبان لکھ رہے ہیں ہیں۔ تو الفاظ پر اعراب کیوں نہیں لگا رہے ہیں؟

    اگلی بات آپ ماشاءاللہ سے ڈاکٹر ہیں۔ اگر آپ کے نام کے آگے ڈاکٹر نہ لکھا جاۓ تو کیا آپ کے ڈاکٹر ہونے پر کوئ اثر پڑے گا؟

    ان سب باتوں پر غور کریں گے کے تو اعراب کے حوالے سے آپ خود ہی جان لیں گے کہ عربی الفاظ پر اعراب ہمیشہ سے ہی موجود تھے۔ اس زمانے میں ظاہر اس لیے نہیں کیے جاتے تھے کہ عربی جاننے والے ہر لفظ کی حرکت کے بارے میں علم رکھتے تھے۔ اور قران کریم میں اعراب لگانے سے پہلے یا اس کے بعد کوئ تبدیلی واقع نہیں ہوئ۔ نہ تو اس کے الفاظ کم ہوۓ اور نہ ہی زیادہ۔ اور اسی طرح احادیث کی جملہ کتب اٹھا کر دیکھ لیں وہاں بھی آپ کو زیر زبر پیش نہیں ملیں گے۔ میں اور آپ انہیں نہیں پڑھ سکتے لیکن علماء اور عربی جاننے والے لوگوں کو انہیں پڑھنے میں کوئ مشکل نظر نہیں آتی

    آپ کی نظر سے وہ حدیث تو گذری ہوگي جس کا متن کچھ اس طرح ہلے کہ جب آپ مدینہ منورہ تشریف لے گۓ تو آپ نے وہاں لوگوں کو کھجور کے پودوں کی پیوند کاری کرتے دیکھا تو آپ نے تعجب کا اظہار کیا۔ اگلے سال صحابہ کرام نے ایسا نہ کیا۔ تو ان کے درختوں پر بہت کم پھل آیا۔ جب صحابہ کرام نے آپ کو اس کا بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اپنے دنیاوی امور کو تم مجھ سے بہتر جانتے ہو۔

    آپ نے کھانے پر آیت الکرسی کے حوالے سے نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک روایت نقل کی۔ بھائ اعجاز علی شاہ نے آپ سے اس کی عربی عبارت کے بارے میں مطالبہ کیا جوابا آپ نے ۔ در منثور کے اردو ترجمہ مذکورہ صفحہ پیش کردیا اور اس روایت کو مستند قرار دے دیا۔ میرے خیال میں آپ کو یہ معلوم ہی نہیں کہ کسی روایت کے مستند ہونے کی کیا شرائط ہیں۔ عربی میں یہ روایت کچھ اس طرح ہے۔

    وأخرج أبو الحسن محمد بن أحمد بن شمعون الواعظ في أماليه وابن النجار عن عائشة «أن رجلاً أتى النبي صلى الله عليه وسلم، فشكا إليه أن ما في بيته ممحوق من البركة، فقال: أين أنت من آية الكرسي، ما تليت على طعام ولا إدام إلا أنمى الله بركة ذلك الطعام والإِدام».)

    ہم نے شیخ رفیق طاہر صاحب سے جب اس کے روایت کے بارے میں سوال کیا تو ان کا جواب کچھ ایسے تھا

    يه روايت تو مسلسل بالعلل هے

    ایک راوی مجہول اسکے بعد تین ضعیف پھر ایک مدلس !

    یعنی یہ روایت کسی طور بھی قابل استدلال نہیں ہے۔



    اگر پھر بھی آپ کو اس کے مستند ہونے پر اصرار ہے تو پھر اس کی تمام اسناد پیش کرنا اور ان کا ثقہ ہونا ثابت کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ بھی ہماری آپ سے درخواست ہے کہ آئندہ جب بھی کوئ روایت پیش کریں تو اس کا حوالہ اور اسناد ضرور فراہم کریں۔ تاکہ اس کی تحقیق میں آسانی ہو۔


    بہت غور کیا بھائ بلکہ کافی عرصہ سے غور کر رہے ہیں۔ ان آیات سے تو نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سالگرہ منانے کا کوئ بھی حکم واضح نہیں ہوتا۔ آپ بھی غور فرمائیں۔ یہ آیات نبئ کریم پر اتریں۔ اور اگر ان آیات کا مقصد اور مطلب اپ کی سالگرہ منانا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فورا ہی صحابہ کرام کو یہ سمجھا دیتے۔

    محترم قریشی صاحب آپ ذرا غور فرمائیں۔ بات کسی بھی دوسرے دن کی نہیں ہے۔ عید میلاد منانے کی ہے۔ آپ کے نزدیک سنت رسول اپنانے کی اہمیت ہے یا دین میں ایک نئ عید ایجاد کرنے کی؟
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پیدائش کا دن یعنی پیر کو یاد رکھتے تھے۔ اور یاد رکھنے کا طریقہ یہ تھا کہ آّ اس دن روزہ رکھتے تھے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک یہ دن عید کا نہیں تھا۔ تو آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے دن کو ہر ہفتے نبئ کریم صلی اللہ علیہ کی سنت کے مطابق کیوں ادا نہیں کرتے؟ اور پھر جب وہ ہر سال اپنی پیدائش کے دن کا اہتمام نہیں کرتے تھے تو آپ کیوں کرتے ہیں؟ دین کو آپ زیادہ جانتے ہیں یا نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم۔ صحابہ کرام
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  5. ممتاز قريشی

    ممتاز قريشی نوآموز

    شمولیت:
    ‏دسمبر 3, 2015
    پیغامات:
    29
    محترم بابر تنویر صاحب۔۔۔۔ میں "میلاد مصطفی ﷺ اور بدعت" کی تفصیلی وضاحت کہ لیئے ایک الگ تحقیقی مضمون اس فورم پر سب دوستوں کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کر چکا ہوں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں لکھے گئے اس مضمون کو عام قاری سے دور رکھا گیا ہے۔ بحرحال اس سے کم سے کم یہ بات تو ظاہر ہوتی ہے کہ فورم انتظامیہ جابدارانہ سوچ کہ ساتھہ صرف ایک مخصوص سوچ کو فروغ دینا چاہتی ہے۔۔۔۔!!

    اس دور میں اسلام الگ سے کہیں بھی وجود نہیں رکھتا۔ لامحالہ اسلام کو مکمل سمجھنے کہ لیئے ہمیں مختلف اسلامی مسالک کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مختلف مسالک کہ درمیان موجود مختلف اختلافی موضوعات کو بہتر سمجھنے کہ لیئے ان موضوعات پر تفصیلی بحث مباحث کرنے کی ضرورت ہمیشہ سے رہتی آئی ہے لیکن اس فورم پر یہ سب اس وقت ممکن ہوگا جب فورم انتظامیہ فراخدلی سے مکمل غیر جانبدار ہو کر ہر ایک ممبر کو اپنی آراء لکھنے کی مکمل آزادی دے گی۔

    سخت رویہ اور اس طرح کی رکاوٹیں ڈال کر کوئی خود کو صراط مستقیم پر ثابت نہیں کر سکتا بلکہ ایسا کرنے سے فریق مخالف کا ہی مؤقف کمزور ثابت ہوتا ہے۔

    اس فورم پر ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ممبر کو یہ حق ملنا چاہیئے کہ وہ اگر کسی موضوع سے متفق نہ ہو تو اپنا نکتہ نظر قرآن و سنت کی روشنی میں عام قاری تک پہنچا سکے۔ اسی طرح دین کو سمجھنے اور سمجھانے میں مدد مل سکتی ہے۔

    اور ، اگر۔۔۔۔۔
    صرف خود کو ہی حق پر سمجھتے ہوئے باقی سب مسالک پر ون سائیڈیڈ تنقید کرتے رہنا اس فورم کا مقصد ہے تو اس بات کی بھی وضاحت کر دیں ، تاکہ پھر کوئی نیا ممبر اپنا وقت ضایع کرنے کی زحمت نہ کرے۔


    میرے خیال میں یہ بھی بہتر ہوگا کہ اس فورم کا نام ھی تبدیل کر کہ ایسا رکھہ لیں جس سے آپ لوگوں کا مسلک صاف ظاہر ہوتا ہو ، تا کہ کوئی نیا ممبر بننے سے پہلے ہی یہ سمجھہ لے کہ اس فورم پر اسے صرف ایک سوچ اور ایک فکر کا ہی مخصوص مواد پڑھنے کو ملیگا۔۔۔۔!!

    اور ، اگر۔۔۔۔۔
    "اردو مجلس فورم" نام رکھہ کر آپ لوگ عوام کو صرف ایک مخصوص سوچ اور ایک مخصوص فکر پہنچا کر صرف ایک دوسرے کی واہ واہ میں لگے رہنا ہی چاہتے ہو ، تو پھر ایسا دین ایمان آپ لوگوں کو مبارک ہو۔۔۔۔۔!!!

    کوئی بات بری لگی ہو تو پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  6. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    1- محترم یہ تھریڈ چہلم اور دسواں اور سوئم وغیرہ کے موضوع پر تھا۔ اور اسی حوالے سے بدعت کا تذکرہ ہوا اور پھر آپ نے یہیں عید میلاد النبی (سالگرہ) کا تذکرہ چھیڑ دیا۔ فورم کا اصول تو یہ کہتا تھا یہ آپ کو یاد دھانی کرائ جاتی کہ یہاں صرف اسی موضوع پر بات کریں۔ پھر بھی آپ کی تسلی کے لیے اس حوالے سے بھی یہیں جوابات دیے گۓ۔
    2- دوسری بات یہ کہ جناب آپ کو اگر آپ کو مجلس پر کسی بھی حوالے سے کوئ تحفظات ہیں تو مجلس کے قوانین کے مطابق انتظامیہ سے براہ راست رابطہ کریں۔ متعلقہ زمرے کے انچارج آپ کو شافی جواب دیں گے۔ ان شاء اللہ
    3- دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں آپ ایک دینی موضوع پر بحث کر رہے ہیں۔ اور آپ نے اپنے حق میں چند حوالہ جات دیے۔ اور آپ کو یہاں دلائل سے بتایا گیا کہ ان آیات یا احادیث سے آپ غلط استدلال کر رہے ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ بھائ جب آپ کو حوالہ دے رہے یا کوئ حدیث کوٹ کر رہے ہیں ہیں تو اس کے بارے میں آپ کو پوری معلومات ہونی چاہییں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ " آپ سے سن کا مطلب پوچھا گيا تو آپ اس کا مطلب معلوم نہیں۔ اور اگر معلوم ہوتا تو آپ بدعات گھڑنے کے لیے اس حدیث کا حوالہ نہ دیتے۔ دوسری بات یہ کہ بھائ جو قرآنی آیات آپ نے کوٹ کیں ان سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سالگرہ منانے کی کوئ دلیل نہیں ملتی۔ اسی طرح آيت الکرسی کو حوالے سے بھی اتنا کافی نہیں تھا کہ یہ روایت سیوطی نے درمنثور میں پیش کی ہے۔ بلکہ اس روایت کی اسناد اور راویوں کی حیثیت جاننا بہت ضروری تھا۔ اور ہم نے علماء سے رجوع کرکے ان کی اسناد کے بارے میں معلومت پیش کیں۔ کیا آپ نے بھی ایسا کیا؟ ان حالات آپ کے لیے بہتر یہی ہے کہ پوری کی پوری کتابیں پیش نہ کریں بلکہ آپ کے ذہن میں جو سوالات ہیں وہ سوال و جواب سیکشن میں پیش کریں اور ان کا موازنہ اپنے طور پر اس مواد سے کریں جو کہ آپ کے پاس موجود ہے اور آپ کے نزدیک صحیح ہے۔
    4- اور جہاں تک ایک طبقہ فکر کی نمائندگي کی بات ہے تو یہ بات یاد رکھیں کہ یہ ایک سلفی فورم ہے اور یہاں آپ کو قرآن و حدیث کے حوالہ جات ملیں گے۔ اور اتباع قرآن و سنت کا سبق ملے گا۔ کسی بھی عالم کی اندھی تقلید نہیں۔
    جزاک اللہ خیرا
     
    • متفق متفق x 4
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  7. ممتاز قريشی

    ممتاز قريشی نوآموز

    شمولیت:
    ‏دسمبر 3, 2015
    پیغامات:
    29
    محترم بابر تنوير صاحب۔۔ آپ نے لکھا یے کہ ۔۔۔۔
    آپ کی اطلاع کیلئے عرض کردوں کہ میں نے عید میلادالنبی ﷺ کا تذکرہ نہیں چھیڑا بلکہ اس موضوع پر پہلے سے سوئم ، چہلم، دسواں ، چالیسواں اور ایصال ثواب کہ ساتھہ ساتھہ میلاد النبی ﷺ پر بھی بحث شروع ہو چکی تھی۔

    [​IMG]

    جب موضوع سے ھٹ کہ ایسے جواب لکھے جا ریے تھے تو آپ کو اسی وقت ٹوک دینا چاہیئے تھا۔

    آپ نے اگر اعجاز علی شاھہ صاحب کہ اس جواب کو قابل توجہ نہ سمجھا تو کم از کم بھائی علی رضوان کہ اس جواب کو اہمیت دیتے ہوئے یاد دھانی کرادیتے کہ یہ موضوع میلادالنبی ﷺ کہ متعلق نہیں ہے۔

    [​IMG]

    بحرحال موضوع سے ھٹ کر اس قسم کہ جوابات تو آپ نے برداشت کر لیئے اور کسی کو نہ روکا نہ ٹوکا۔۔۔۔!!!
    لیکن جب میں نے پہلے سے زیربحث ان موضوعات پر جوابات لکھے تو آپ کو یہ خیال آگیا کہ اصل موضوع تو صرف ایصال ثواب ہے۔

    آگے آپ نے لکھا ہے کہ۔۔۔۔
    میں اس مجلس کا نیا ممبر ہوں ، آپ لوگ ماشاء اللہ سینئر ممبر ہو اور میرے خیال میں آپ خود مجلس کہ منتظم بھی ہو۔ یہاں پر تحفظات لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ مجلس کہ عام قاری یہ جان سکیں کہ ان موضوعات پر اس فورم پر کس طرح عدل و انصاف سے بحث کی جاتی ہے۔

    محترم بھائی۔۔۔یہ بحث تو ابھی ختم نہیں ہوئی اس لیئے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کہ کون قرأن و حدیث سے غلط استدلال لے رہا ہے۔

    کتنی عجیب بات ہے کہ صحیح مسلم کی جس حدیث کہ ترجمہ پر آپ کو اعتراض ہے اس کا درست ترجمہ آپ نے ابھی تک پیش نہیں کیا۔

    میرے بھائی۔۔میں نے تو صحیح مسلم کی مذکورہ حدیث کا مذکورہ ترجمہ تصویری عکس لگا کر بھی دکھا دیا ہے۔ظاہر ہے وہ ترجمہ بھی علماء کرام کا کیا گیا ترجمہ ہے۔ بصورت دیگر اگر اس ترجمے میں کوئی غلطی ہے تو آپ کو درست ترجمہ اور درست مفھوم ضرور پیش کرنا چاہیئے۔۔

    سب پڑھنے والوں کی خدمت میں عرض کردوں کہ کچھہ دن پہلے "عید میلاد النبی ﷺ اور بدعت" کہ موضوع پر قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک تحقیقی مضمون کو اس مجلس کی زینت بنانے کی کوشش کی گئی تھی ، افسوس کی بات ہے کہ اس موضوع کو ابھی تک منظر عام پر نہیں لایا گیا۔۔۔!!
    دراصل صحیح مسلم کی مذکورہ حدیث اور لفظ "سن" پر وضاحت بھی اسی موضوع میں کر دی گئی تھی۔
    چوں کہ وہ مضمون روک دیا گیا ہے اس لیئے یہاں پر اسی موضوع سے صرف متعلقہ جواب پیش کر رہا ہوں۔

    صحیح مسلم میں موجود حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنھما سے مروی حدیث مبارکہ نہایت اہم ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    من سنّ في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها بعده، من غير أن ينقص من أجورهم شيء. ومن سن في الإسلام سنة سيئة کان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده، من غير أن ينقص من أوزارهم شيء.
    ’’جو شخص اِسلام میں کسی نیک کام کی بنیاد ڈالے تو اس کے لئے اس کے اپنے اَعمال کا بھی ثواب ہے اور جو اُس کے بعد اِس پر عمل کریں گے اُن کا ثواب بھی ہے، بغیر اِس کے کہ اُن کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ اور جس نے اِسلام میں کسی بری بات کی اِبتدا کی تو اُس پر اُس کے اپنے عمل کا بھی گناہ ہے اور جو اُس کے بعد اِس پر عمل کریں گے اُن کا بھی گناہ ہے، بغیر اِس کے کہ اُن کے گناہ میں کچھ کمی ہو۔‘‘
    1. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب الحث علي الصدقة ولو بشق تمرة أو کلمة طيبة وأنها حجاب من النار، 2 : 704، 705، رقم : 1017
    2. مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة أو سيئة ومن دعا إلي هدي أوضلالة، 4 : 2059، رقم : 1017
    3. نسائي، السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقة، 5 : 76، رقم : 2554
    4. ابن ماجة، السنن، المقدمة، باب من سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، 75، رقم : 203، 206، 207
    5. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359

    اس حدیث میں لفظ ’’سنّ‘‘ لغوی معنی کے اِعتبار سے ’’ابدع‘‘ کے ہم معنی ہے یعنی جس نے اسلام میں کوئی اچھی (نئی) راہ نکالی۔ یہاں سے ’’بدعتِ حسنہ‘‘ کا تصور ابھرتا ہے۔ اِسی طرح ’’من سنّ فی الاسلام سنۃ سیئۃ‘‘ سے بدعتِ سیئہ کی طرف اشارہ ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ اس سے تو صرف ’’سنت‘‘ ہی مراد ہے بدعت مراد نہیں لی جا سکتی تو اس کا جواب یہ ہے کہ (معاذ اﷲ) اگر اس سے مراد صرف ’’سنت‘‘ ہی ہوتا تو کیا وہاں ’’حسنہ‘‘ کہنے کی ضرورت تھی؟ کیا کوئی سنت غیر حسنہ بھی ہوسکتی ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ عمل کرنے کے حوالے سے ’’مَنْ عَمِلَ‘‘ تو کہہ سکتے ہیں مگر ’’من سنَّ‘‘ کہنے کی کیا ضرورت ہے کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے ایک اُمتی کیا ’’راہ‘‘ نکالے گا؟ وہ تو صرف عمل اور اِتباع کا پابند ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ’’سَنَّ‘‘ سے مراد معروف معنوں میں سنت نہیں ہے بلکہ یہاں لغوی معنی یعنی راستہ اور نئی راہ نکالنا مراد ہے۔


    محترم بھائی۔۔۔ ان قرآنی آیات میں آمد مصطفیﷺ کا ذکر ہے۔ وہ ذکر اللہ رب العزت خود کر رہا ہے۔ اس ذکر کو سب انبیاء کرام مل کر سن رہے ہیں۔ اب ان قرآنی آیات سے کم از کم یہ بات تو واضح ہو جاتی کہ ذکر آمد مصطفی ﷺ کرنا اور اسے سننا کوئی بدعت نہیں ہے۔ ذکر آمد مصطفی ﷺ کوئی غیر اسلامی کام بھی نہیں ہے۔ ذکر آمد مصطفی ﷺ سے اسلام کو کوئی خطرہ بھی نہیں ہوتا۔ ایسا اچھا کام سال میں صرف ایک دو بار نہیں کرنا چاہیئے۔۔ بلکہ ذکر آمد مصطفیﷺ تو ہر روز ہر ایک مسلمان کو کرنا چاہیئے۔۔۔!!
    بیشک اللہ پاک کی ہر نعمت کو یاد کرنا ، اس کا چرچہ کرنا اور اس پر خوشیاں منانا قرآنی تعلیمات میں سے ہے۔ نبی پاکﷺ کی آمد کی خوشی وہی منائے گا جو آپ ﷺ کو اللہ پاک کی نعمت ، رحمت اور احسان سمجھے گا۔

    محترم بھائی۔۔۔۔ میرے مذکورہ جواب میں در منثور کہ علاوہ بھی کافی دلائل اور مستند احادیث موجود ہیں۔ آپ کو چاہیئے تھا کہ ان پر اپنا مؤقف پیش کرتے۔ درمنثور کی مذکورہ حدیث کو بھی کتاب "در منثور اردو ترجمہ" سے عکس پیش کر چکا ہوں۔ اس کی اسناد ضعیف ہیں تو ضد یا انا کی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ سے گذارش ہے کہ اس حدیث کو چھوڑ کہ دوسری صحیح اسناد والی احادیث کو زیر بحث لائیں۔
    یہ اچھی بات ہے کہ آپ علماء کرام سے رجوع کرتے ہیں۔ مجھے بھی جہاں مشکل پیش آتی ہے تو ان کی رہنمائی ضرور لیتا ہوں۔

    اس موضوع میں اس وقت تک میں نے آپ کہ جوابات پر ہی اظہار خیال کیا ہے۔ باقی پوری کتاب پیش کرنا تو کسی کہ لیئے بھی ممکن نہیں ہوتا۔

    میں بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں ہی اپنا مؤقف پیش کر رہا ہوں۔
    کوئی بھی عالم اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کرتا۔ وہ بھی قرآن و حدیث کی حوالہ جات سے ہی اسلام کو سمجھتا اور سمجھاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا استدلال ہی غلط ہو۔
    یہاں پر بھی تو ہم الگ الگ فکر کہ ساتھہ ہی بحث کر رہے ہیں۔

    یاد رہے کہ اس قسم کہ بحث مباحث کو ذاتیات سے ھٹ کہ صرف دین کو درست سمجھنے کی غرض سے کرنا چاہیئے۔
    امید ہے کی آپ میری کسی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے۔
     
    • غیر متفق غیر متفق x 1
  8. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    درست فرمایا ممتاز قریشی صاحب یہ ہمیں اس سے پہلے ہی کرنا چاہیے تھا۔ بہرحال اس موضوع کی مناسبت سے پہلے بدعت اور سوئم، دسواں وغیرہ کی بحث کو مکمل کر لیا جاۓ۔ آپ پوسٹ نمبر 44 میں میرے دلائل کا جواب دے دیجیے۔

    یہ سب کہنے سے پہلے آپ مجلس اس رول پر نظر دوڑا لیجیے۔

    فورم پر ارسال کیے گئے کسی بھی مواد کو کسی بھی سبب کے باعث حذف کرنے یا مدون کرنے کے تمام حقوق بحق ادارہ محفوظ ہیں اور اس پر ادارہ کسی کو بھی جوابدہ نہیں‌۔

    کھانے پر آیت الکرسی پڑھنے کے بارے میں آپ کی پیدائش کی گئ روایت کو آّ نے خود ہی ضعیف مان لیا اور یہ روایت ضعیف اور نہیں بلکہ موضوع ہے۔ اور آپ اسے اپنی بے علمی کے سبب یا اپنے علماء کی دینی خیانت کے سبب اسے مستند قرار دے رہے تھے۔

    جناب آپ نے ترجمہ تو درست پیش کیا ہے لیکن حدیث کا پس منظر پیش نہیں کیا جس سے تمام بات واضح ہو جاۓ گي۔ اس حوالے سے آپ کے غلط استدلال کا ثبوت ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ مکمل حدیث آپ خود بھی پیش کرچکے ہیں۔ لیکن آپ نے صرف اپنی مرضی کی عبارت پر لال نشان لگا دیا۔ اور ذیل میں بھی آپ نے اتنا ہی حصہ پیش کیا۔ بہرحال یہ آپ کا فرمان ہے۔


    نہیں ابھرتا جناب ممتاز قریشی صاحب۔ کیا آپ کو یہ معلوم نہیں کہ اچھی اور نئ میں فرق ہے؟ یہ بھی آپ کی اس حدیث کی تشریح میں خیانت ہے۔ اس حدیث کا پس منظر کیا ہے؟ یہ تو اپ کو معلوم ہی ہوگا۔ چلیں میں آپ کی خدمت میں پیش کر دیتا ہوں : جس سے آپ کا کشید کیا گيا مفہوم باطل ثابت ہوتا ہے۔

    صحيح مسلم كى حديث ميں جرير بن عبد اللہ ہى كى روايت سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں:
    " كچھ اعرابى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے اور انہوں نے اون پہنى ہوئى تھى جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كى يہ برى اور پراگندہ حالت ديكھى كہ وہ تنگ دست اور ضرورتمند ہيں تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں كو صدقہ و خيرات پر ابھارا، تو لوگوں نے اس ميں سستى اور دير كى حتٰى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے چہرہ مبارك سے اس كا اظہار ہونے لگا.راوى بيان كرتے ہيں: پھر ايك انصارى صحابى چاندى كى ايك تھيلى لايا اور پھر ايك دوسرا صحابى اور پھر سب نے ان كى پيروى كى حتٰى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے چہرہ سے خوشى و سرور ٹپكنے لگا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
    " جس كسى نے اسلام ميں كوئى اچھا طريقہ جارى كيا اور اس پر بعد ميں عمل ہونے لگا تو اس كے ليے بھى اس پر عمل كرنے كے برابر اجر لكھا جائيگا اور كسى كے اجروثواب ميں كوئى كمى نہيں كى جائيگى.
    جناب ممتاز قریشی صاحب شائد آپ کی سمجھ میں یہ بات آگئ ہو کہ "سن" سے مراد یہاں صدقہ کا وہ طریقہ جسے انصاری صحابی نے شروع کیا۔ ۔ یعنی اس کی مثال موجود تھی۔ یہ اس صحابی کا سنۃ حسنہ تھا جس کی پیروی دوسرے صحابہ نے بھی کی۔ اور پھر صدقہ کرنا بھی ایسا عمل تھا جس کی مثال اور ترغیب بھی پہلے سے موجود تھی اور "بدع" سے مراد وہ اضافہ ہے جس کی مثال پہلے سے موجود نہ ہو۔ بالکل اسی طرح جس طرح، سوئم، دسواں، چالیسواں وغیرہ۔ جن کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے "کل بدعۃ ضلالہ"

    یہاں بھی آپ کا استدلال غلط ہے، ذرا غور فرمائیں : جس نے" سے یہاں اشارہ نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب نہیں ہے۔ بالکل بلکہ اس اچھے عمل کے شروع کرنے والے کی طرف ہے۔ اسی طرح جس طرح پہلے حصے میں "سن" سے مراد نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں صحابی کا عمل تھا۔ سنۃ سئیہ سے بھی مراد اس شخص کی سنت ہے جو کہ اسلام میں کوئ غلط طریقہ رائچ کرے۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے۔

    ( جی قریشی صاحب بالکل ضرورت تھی اور اس کی وضاحت اوپر کر دی گئ ہے)

    جی قریشی صاحب وہ حضور کی سنت سے وہی راہ نکالے گا اور وہی عمل کرے گا جس کی اصل سنت صحیح احادیث سے سے ثابت ہوگی۔

    اور آخر میں دین میں بدعتیں ایجاد کرنے والوں کی آنکھین کھولنے کے لیے یہ سنن دارمی کی یہ روایت بہت اہم ہے۔


    أخبرناالحكم بن المباركأخبرناعمرو بن يحيىقال سمعتأبييحدث عنأبيهقالكنا نجلس على بابعبد الله بن مسعودقبل صلاة الغداة فإذا خرج مشينا معه إلى المسجد فجاءناأبو موسى الأشعريفقال أخرج إليكمأبو عبد الرحمنبعد قلنا لا فجلس معنا حتى خرج فلما خرج قمنا إليه جميعا فقال لهأبو موسىياأبا عبد الرحمنإني رأيت في المسجد آنفا أمرا أنكرته ولم أر والحمد لله إلا خيرا قال فما هو فقال إن عشت فستراه قالرأيت في المسجد قوما حلقا جلوسا ينتظرون الصلاة في كل حلقة رجل وفي أيديهم حصى فيقول كبروا مائة فيكبرون مائة فيقول هللوا مائة فيهللون مائة ويقول سبحوا مائة فيسبحون مائة قال فماذا قلت لهم قال ماقلت لهم شيئا انتظار رأيك وانتظار أمرك قال أفلا أمرتهم أن يعدوا سيئاتهم وضمنت لهم أن لا يضيع منحسناتهم ثم مضى ومضينا معه حتى أتى حلقة من تلك الحلق فوقف عليهم فقال ما هذا الذي أراكم تصنعون قالوا ياأبا عبد الرحمنحصى نعد به التكبير والتهليل والتسبيح قال فعدوا سيئاتكم فأنا ضامن أن لا يضيع من حسناتكم شيء ويحكم يا أمة محمد ما أسرع هلكتكم هؤلاء صحابة نبيكم صلى الله عليه وسلم متوافرون وهذه ثيابه لم تبل وآنيته لم تكسر والذي نفسي بيده إنكم لعلى ملة هي أهدى من ملة محمد أو مفتتحو باب ضلالة قالواوالله ياأبا عبد الرحمنما أردنا إلا الخير قال وكم من مريد للخير لن يصيبه إن رسول الله صلى الله عليه وسلم حدثناأن قوما يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهموايم الله ما أدري لعل[ص:80 ]أكثرهم منكم ثم تولى عنهم فقالعمرو بن سلمةرأينا عامة أولئك الحلق يطاعنونا يومالنهروانمعالخوارج

    عمل یہاں بھی نیک ہے یعنی کنکریوں پر عمل کرنا۔ لیکن عبد اللہ مسعود کہتے ہیں کہ ان کنکریوں پر اپنے گناہوں کو شمار کرو۔


    ان سب کا جواب آپ کو دیا گیا ہے۔ پوسٹ نمبر 44 چيک کریں ۔ اور اپنی راۓ سے نوازیں اور اگر کسی کا نہیں دیا گيا تو اس کی نشاندھی فرما دیں۔ دوسری بات یہ کہ آپ نے ایک موضوع روایت کو فرمان نبی کہہ کر پیش کیا۔ اور جب اس کی حیثیت کو بتا دی گئ ہے تو آپ ایک غلط بات نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرنے پر اللہ تعالی سے معافی مانگیں۔ کیونکہ نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئ بات غلط طور پر منسوب کرنے والے کا ٹھکانا جہنم ہے۔ اور یہ بھی خیال رکھیں کہ آئندہ کوئ روایت ایسی نقل نہ کریں جس کی اسناد آپ کو معلوم نہ ہوں۔ تو جب آپ نے اس کا موضوع ہونا تسلیم کر لیا تو اس بات سے بھی رجوع کر لیں کہ قرآن کی کوئ آیت پڑھ کر کھانے پر پھونک ماری جا سکتی ہے۔ ہاں کوئ آپ کی دعوت کرے اور کھانا آپ کے سامنے رکھا ہو اور کھانا شروع کرنے سے پہلے آپ دعوت کرنے والے کے لیے خیر و برکت کی دعا ضرور مانگ سکتے ہیں۔ اور دعا کھانے کے اوپر نہیں بلکہ آپ کو کھانا کھلانے کے نیک عمل پر مانگي جاۓ گے۔
     
    • متفق متفق x 2
  9. T.K.H

    T.K.H رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2014
    پیغامات:
    234
    سن کا معنی:ـ
    ایک راستہ پر چلنا۔ ایک طریق قائم کرنا

    اس معنی کو ذہن میں رکھ کر روایت پر غور کریں۔

    سنسے ابدع کا معنی لینا صحیح نہیں ہےکیونکہ یہاں سنۃطریقہ یاراستہ کے معنی میں مستعمل ہے لہذا یہاں سنۃ حسنۃکا مطلب اچھا طریقہ اور سنۃ سیئۃکا مطلب بُرا طریقہ قائم کرنا ہے۔مزید برآں جس طرح سنت ہمیشہحسنہ ہی ہوتی ہے سیئۃنہیں ہوتی بالکل اُسی طرح بدعت سیئۃہی ہوتی ہے حسنہ کبھی نہیں ہوتی۔ اگر یہاں پرسن سے مراد ابدعمراد ہوتا تو لفظ سنکی بجائے ابدع استعمال ہوتا جو کہ نہیں ہوا۔

    سنت معلوم و معروف چیز ہوتی ہے جبکہ بدعت نئی چیز ہوتی ہے کیونکہ شرع میں اسکی کوئی مثال یا دلیل نہیں ہوتی۔اور ہم سب جانتے ہیں کہ اس روایت میں صدقہ کرنے کی ترغیب دینے کو سنۃ حسنۃقرار دیا گیا ہے جسکا حکم قرآن مجید میں موجود ہے۔اب بتائیں کہ یہاں کون سی بدعتِ حسنہ کا تصور اُبھر رہا ہے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  10. ممتاز قريشی

    ممتاز قريشی نوآموز

    شمولیت:
    ‏دسمبر 3, 2015
    پیغامات:
    29
    محترم بابر تنویر کی خدمت میں۔۔۔۔۔۔۔!!!
    آپ نے لکھا ہے کہ
    اس موضوع کی مناسبت سے پہلے بدعت اور سوئم، دسواں وغیرہ کی بحث کو مکمل کر لیا جاۓ۔ آپ پوسٹ نمبر 44 میں میرے دلائل کا جواب دے دیجیے۔


    یہ اچھی بات ہے کہ اس موضوع پر ہم صرف بدعت ، ایصال ثواب اور سوئم ، چہلم وغیرہ کی بحث مکمل کریں۔
    آپ نے پوسٹ 44 میں دیئے گئے دلائل کے جواب لکھنے کا کہا ہے۔ اصل میں وقت کی کمی اور مختلف جوابات آنے کی وجہ سے آپ کا مذکورہ جواب زیر بحث نہ آسکا تھا اور میں دوسرے اعتراضات پر توجہ دیتا رہا۔


    سب پڑھنے والوں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ محترم بابر تنویر صاحب نے میری ایک پوسٹ 25 پر جوابی اعتراضات پوسٹ نمبر 44 میں پیش کیئے تھے۔ پوسٹ 44 میں پیش کیئے گئے اعتراضات پر جوابات دینے کہ لیئے ضروری ہے کہ میں اپنی پوسٹ 25 اور محترم بابر تنویر کی پوسٹ 44 کہ مذکورہ حصے بھی ساتھہ ساتھہ پیش کرتا جاؤں تا کہ بات کو سمجھنے مین آسانی رہے۔

    [​IMG]
    عجیب بات:
    محترم دوستو۔۔۔ ھمارے مسلمان بھائی سورت الانعام کی آیت 118 سے بھی وہی مفھوم قبول کرتے ہیں جو ھماری نظر میں بھی درست ہے۔

    " جانور کہ ذبیح کہ وقت اللہ پاک کا ذکر اور کھانے سے پہلے (جب کہ کھانا سامنے رکھا ہو) اللہ پاک کا ذکر (یعنی بسم اللہ پڑھنا) جائز اور باعث برکت ہے۔"

    [​IMG]
    ” تو کھاؤ اس میں سے جس پر اللہ کا نام لیا گیا اگر تم اس کی آیتیں مانتے ہو“
    (سورت الانعام 118)

    کیا اب یہ ممکن ہے کہ ہم اس بات کا انکار کردیں کہ کھانا سامنے رکھہ کر اللہ پاک کا ذکر (قرآن شریف کا کوئی بھی حصہ پڑھنا) جائز نہیں ہے۔۔!!


    کیا کوئی قرآنی آیت یا صحیح حدیث اس بات سیے منع کرتی ہے کہ ہم کھانا سامنے رکھہ کر قرآن پاک کی آیات نہیں پڑھہ سکتے۔۔۔؟؟
    یہاں یہ بات بھی ذھن میں رہے کہ ایصال ثواب کی نیت سے قرآن خوانی کرتے وقت کھانا سامنے نہیں رکھا جاتا بلکہ ختم قرآن کے بعد آخر میں بوقت دعا کھانا سامنے رکھہ کر کچھہ قرآنی آیات اور ذکرواذکار وغیرہ دعا میں شامل کر کے ایصال ثواب کیا جاتا ہے۔
    اگر کھانا سامنے رکھہ کر عین قرآنی آیت (سورت الانعام 118) کہ مطابق اللہ پاک کا ذکر یعنی کچھہ قرآنی آیات پڑھی جائیں تو کیا یہ نیک عمل نہیں ہے۔۔۔ کیا یہ باعث ثواب نہیں ہے۔۔۔؟؟؟

    [​IMG]
    ” تو کھاؤ اس میں سے جس پر اللہ کا نام لیا گیا اگر تم اس کی آیتیں مانتے ہو“
    (سورت الانعام 118)


    میں نے پوسٹ 25 میں لکھا تھا۔۔
    حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ والی حدیث سے یہ بات سمجھہ میں آرہی ہے کہ فوت شدہ کو دنیا کی کوئی بھی چیز صدقہ کر کے بھی ثواب بھیجا جاسکتا ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ عمل نیک ہونا چاہیئے جس عمل سے ثواب کی امید کی جا سکے۔
    بے شک ہمارے فوت شدہ عزیز واقارب کو وہ چیزیں یا کھانا نہیں پہنچتا لیکن اس نیک عمل کا ثواب ضرور پہنچتا ہے۔

    محترم بابر تنویر نے پوسٹ 44 میں جواب دیا ہے کہ۔۔۔۔
    اس حدیث میں بھی صدقہ کا ذکر ہے۔ " کسی بھی چیز" کا نہیں۔ اور باب بھی صدقہ کے فضائل کا ہے۔
    محترم بھائی۔۔ یہ حدیث تو واضح الفاظ میں"ایصال ثواب" کی تائید کر رہی ہے۔
    غور کریں کسی فوت شدہ مسلمان کو ایک زندہ مسلمان کے صدقے کا ثواب پہنچ رہا ہے۔۔۔۔!!!

    ایک مسلمان فوت ہو چکا ہے یعنی اس کہ اپنے اعمال کا سلسلہ تو ختم ہو چکا ہے۔ اس کہ باوجود اسے زندہ لوگوں کے اعمال (صدقہ) سے نفع پہنچ رہا ہے۔۔۔۔!!!

    محترم دوستو۔۔۔۔ ایک مسلمان کی طرف سے کیا گیا صدقہ ( ایک نیک عمل) صرف اسے ہی فائیدہ نہیں دیتا بلکہ کسی فوت شدہ مسلمان کو ثواب پہنچانے کی نیت سے وہ صدقہ کیا جائے تو اس کا ثواب اس فوت شدہ مسلمان کو بھی ضرور ملتا ہے۔ اسی کو آسان الفاظ میں "ایصال ثواب" کہا جاتا ہے۔ یہ کوئی بدعت نہیں ہے بلکہ ایک جائز اور مقبول عمل ہے۔
    محترم بابر تنویر صاحب۔۔۔آپ اس صحیح حدیث سے فوت شدہ کہ لیئے ایصال ثواب کرنے کا انکار کن دلائل پر کر رہے ہیں۔۔۔؟؟؟
    یاد رہے کہ یہ حدیث در منثور کی نہیں ہے بلکہ صحیح بخاری ، ترمذی اور سنن نسائی میں بھی موجود ہے۔
    کیا یہ حدیث پڑھہ کر ، سمجھہ کر اور درست مان کر بھی آپ یہ کہیں گے کہ کسی زندہ مسلمان کے نیک اعمال پہلے سے فوت شدہ مسلمان کو کوئی نفع نہیں پہنچاسکتے۔۔۔؟؟
    آخر ہم صحاح ستہ میں موجود اس مستند حدیث کا کیا مفہوم لیں۔۔؟؟
    بھلا کوئی مسلمان اس صحیح حدیث کا انکار کیسے کر سکتا ہے۔۔؟؟؟

    سب پڑھنے والوں کی یاد دھانی کہ لیئے مذکورہ حدیث دوبارہ پیش کر رہا ہوں۔

    حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کی غیر موجودگی میں ان کی والدہ فوت ہو گئیں تو انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے عرض کیا ؛ یا رسول اللہ (ﷺ) میری والدہ کا انتقال ہوگیا اور میں ان کے پاس موجود نہیں تھا ، اگر میں ان کی طرف سے کوئی چیز صدقہ کروں تو کیا انہیں اس کا فائیدہ ہوگا۔
    تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ”ہاں“

    حضرت سعد نے عرض کیا ” میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا مخراف باغ ان کی طرف سے صدقہ ہے۔“
    (بخاری شریف کتاب الوصایا ، ترمذی ابواب الزکواہ ، سنن نسائی کتاب الوصایا)
    مشکواہ شریف کی اس حدیث پر دوبارہ غور وفکر کی دعوت دیتا ہوں۔

    حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ” مردہ کی حالت قبر میں ڈوبتے ہوئے فریاد کرنے والے کی طرح ہوتی ہے۔ وہ انتظار کرتا ہے کہ اس کہ باپ یا ماں یا بھائی یا دوست کی طرف سے اس کو دعا پہنچے اور جب اس کو کسی کی دعا پہنچتی ہے تو دعا کا پہچنا اس کو دنیا مافیھا سے محبوب تر ہوتا ہے اور بے شک اللہ تعالی اہل زمین کی دعا سے اہل قبور کو پہاڑوں کی مثل اجر و رحمت عطا کرتا ہے اور بے شک زندہ کا تحفہ مردوں کی طرف یہی ہے کہ ان کے لیئے بخشش (کی دعا) مانگی جائے۔
    (مشکواہ شریف ص 205)
    بیشک دعا عبادت میں شامل ہے۔ دعا ایک نیک عمل ہے۔ صدقہ کرنا بھی ایک نیک عمل ہے۔ قرآن پاک کی تلاوت، درود و اذکار بھی سب نیک عمل ہیں۔ بھلا کس مسلمان کو اس بات سے انکار ہوگا۔
    مشکواہ شریف کی اس حدیث سے تو یہی ظاھر ہوتا ہے کہ فوت شدہ مسلمان اپنے زندہ عزیزواقارب سے یہ امید رکھتا ہے کہ اسے دعاؤں اور نیک اعمال میں یاد رکھا جائے اور بیشک فوت شدہ مسلمانوں کو زندہ لوگوں کا ثواب بخش دینے سے انہیں اللہ پاک کی طرف سے نفع بھی پہنچتا ہے ، تو کیا یہ ممکن ہے کہ ہم یہ کہنے لگ جائیں کہ جو مرگیا وہ ختم ہو گیا اب وہ جانیں ، اس کہ اعمال جانیں اور اللہ پاک کا حساب کتاب۔۔۔۔!!!
    یا ہم یہ کہہ دیں کہ اب اس مرنے والے کو کوئی بھی دوسرا مسلمان کچھہ نفع نہیں دے سکتا۔۔۔!!
    کیا ایسی باتیں قرآن و حدیث کے خلاف نہیں ہیں۔۔۔۔؟؟

    کسے فوت شدہ کو اپنے نیک اعمال کا ثواب بخش دینا ہی تو ایصال ثواب ہے۔
    پیارے اسلامی بھائیو۔۔۔۔۔۔یہ ایک کھلی گمراھی ہے کہ کوئی مسلمان یہ کہہ دے کہ جو مسلمان مر گئے ہیں وہ مٹی میں مل گئے اب ان وفات پانے والوں کو کوئی زندہ انسان ذرا برابر بھی نفع نہیں پہنچا سکتا۔۔۔۔یہ بات صریح اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔

    [​IMG]
    محترم بھائی۔۔۔۔ آپ نے یہاں اس حدیث کو مانتے ہوئے بھی اپنی بات منوانے کی کوشش کی ہے۔
    اس حدیث سے یہ بات صاف طور پر ثابت ہوتی ہے کہ کھانا سامنے رکھہ اللہ عزوجل سے دعا مانگنا کوئی بدعت نہیں ہے۔

    اوپر سورت الانعام کی آیت 118 سے یہ بات واضح کی گئی ہے کی کھانا کھاتے ہوئے اللہ پاک کا ذکر کرنا چاھیئے۔ اب یہ حدیث کھانا سامنے رکھہ کر دعا مانگنا بھی جائز قرار دے رہی ہے۔

    ایصال ثواب کرتے وقت ہم کھانا سامنے رکھہ کر اللہ کا ذکر (قرآن پاک کی کچھہ آیات کی تلاوت) اور پھر دعا مانگتے ہیں۔ دونوں کام قرآن وحدیث کے عین مطابق ہیں۔ ان سب نیک اعمال کا ثواب فوت شدہ کو ضرور ملتا ہے یہ بات بھی مختلف احادیث سے ثابت ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی اس بات کا انکار کرتا ہے تو وہ قرآن و حدیث کا انکار ہوگا۔۔۔!!

    بیشک دعا عبادت میں شامل ہے۔ کھانے کو سامنے رکھہ کر اللہ پاک سے کوئی بھی دعا مانگنا بدعت نہیں بلکہ سنت رسول اللہ ﷺ ہے۔
    دعا مانگتے ہوئے قرآن پاک کی آیات پڑھہ لی جائیں تو وہ بدعت نہیں ہوسکتیں یہ بات بھی یاد ریے کہ قرآن پاک کی کئی آیات تو دعائیں بھی ہیں۔ مثال کہ طور پر سورت فاتحہ مکمل دعا ہے۔ ہم ایصال ثواب کہ وقت سورت فاتحہ بھی خصوصی طور پر پڑھتے ہیں۔

    کیا اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے آپ لوگوں نے کھانا سامنے رکھہ کر کبھی دعا مانگی ہے۔۔ یا آپ لوگ اس کو سنت ہی نہیں مانتے۔۔۔؟؟؟
    (جاری یے۔۔۔۔)
     
    • غیر متفق غیر متفق x 1
  11. ممتاز قريشی

    ممتاز قريشی نوآموز

    شمولیت:
    ‏دسمبر 3, 2015
    پیغامات:
    29
    محترم بابر تنویر کی خدمت میں۔۔۔۔۔۔۔!!!

    محترم بابر تنویر صاحب۔۔۔آپ نے اپنی پوسٹ 44 میں لکھا ہے کہ۔۔۔۔

    [​IMG]
    محترم اسلامی بھائی۔۔۔ایصال ثواب تو نبی پاک ﷺ کی بہت ساری احادیث سے ثابت ہے۔
    آج میں سب پڑھنے والوں کی غوروفکر کے لیئے صحیح بخاری سے دو احادیث پیش کر رہا ہوں۔

    [​IMG]
    [​IMG]

    اسی قسم کی مزید احادیث بھی صحاح ستہ میں موجود ہیں۔
    یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ قبر پر شاخ لگانے سے فوت شدہ مسلمان کے عذاب میں کمی کیوں کر دی جاتی ہے۔۔۔؟؟؟

    محترم دوستو۔۔۔ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ مختلف احادیث و آیات سے یہ امر ثابت ہے کہ ہر زندہ چیز اللہ عزوجل کی تسبیح کرتی ہے۔ لکڑی کی حیات یہ ہے کہ جب تک وہ تر ہے زندہ ہے۔ صحیح بخاری کی مذکورہ احادیث سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ درخت کی شاخیں قبر پر لگانے کا مقصد یہ ہے کہ اس کی تسبیح سے فوت شدہ کو فائیدہ پہنچے۔ حضوراکرم ﷺ کے اس فعل سے ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ صرف ایک درخت کی شاخ کی تسبیح سے بھی فوت شدہ کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے تو اگر کوئی مسلمان قبرستان جا کر یا گھر پر آیات کلام پاک پڑھہ کر فوت شدہ کی ارواح کو ایصال ثواب کرتا ہے تو انہیں کس قدر نفع پنہچتا ہوگا۔

    مختلف علماء اکرام نے اس قسم کی احادیث سے یہ مفھوم لیا ہے کہ قبر کے پاس قرآن پاک پڑھنا مستحب ہے۔ اس لیئے کہ قرآن شریف کی تلاوت تخفیف عذاب کے لیئے شاخ کی تسبیح سے زیادہ اولی ہے۔

    فوت شدہ مسلمان کی بخشش و مغفرت کے لیئے دعا کرنا انہیں مختلف نیک اعمال کے ذریعے ایصال ثواب کرنا کسی بھی طرح اسلام کے منافی نہیں ہے۔ میت کے لیئے زندوں کا دعا کرنا تو خود قرآن پاک سے بھی ثابت ہے اور یہی ایصال ثواب کی اصل ہے۔


    سورت الحشر آیت 10
    [​IMG]
    [​IMG]

    اگر کوئی مسلمان یہ کہے کہ فوت شدہ مسلمان کو زندہ مسلمان کسی قسم کا نفع نہیں پنہچا سکتا اور مردے کے "صرف" اپنے اعمال ہی اسے نفع پنہچاتے ہیں تو وہ شخص صریح قرآن و حدیث کا انکاری ہو جاتا ہے۔۔۔!!
     
    • غیر متفق غیر متفق x 1
  12. ممتاز قريشی

    ممتاز قريشی نوآموز

    شمولیت:
    ‏دسمبر 3, 2015
    پیغامات:
    29
    محترم بابر تنویر کی خدمت میں۔۔۔۔۔۔!!!

    آپ نے اپنی پوسٹ 44 میں لکھا ہے کہ۔۔۔۔

    [​IMG]

    محترم اسلامی بھائی ایصال ثواب کرنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ فوت شدہ مسلمانوں کو نیک اعمال بخش دینے سے ان کی مغفرت ، ان کے عذاب میں کمی اور ان کے درجات بلند کردیئے جاتے ہیں۔ اپنی بات کی تائید میں مختلف دلائل بھی پیش کر رہا ہوں جن سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ فوت شدہ مسلمانوں کو ہماری دعائیں ، صدقات ، خیرات اور مختلف نیک اعمال ایصال ثواب کرنا کسی بھی طرح غیر اسلامی نہیں ہیں۔

    کیا آپ لوگ کسی مسلمان کی قبر پر درخت کی شاخ لگانے کے قائل ہیں۔۔۔۔؟؟؟

    کیا قبر پر اس نیت سے درخت کی شاخ لگانا کہ فوت شدہ کو فائیدہ پہنچے گا سنت رسولﷺ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟

    اگر درخت کی شاخ لگانے سے فوت شدہ کو کوئی فائیدہ نہیں ملتا تو اس حدیث کی تاویل کس طرح کریں گے۔۔۔۔؟؟

    جاری ہے۔۔۔۔۔
     
    • غیر متفق غیر متفق x 1
  13. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    میرے بھائ کیوں کسی حدیث کی غلط تاویل کرتے ہیں۔ ذکر ہو رہا ہے یہاں عذاب قبر کا۔ نہ کہ ایصال ثواب کا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم کے ایک معجزہ کا کہ اللہ تعالی نے آپ کو ان دو حضرات پر عذاب قبر کی خبر دے دی۔ اور اس کی وجہ بتادی یہاں ایصال ثواب کہاں سے آگيا؟
    بالکل درست
    اس عذاب کی تخفیف کا کوئ حتمی ثبوت نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ اسی وقت یہ حکم صادر فرما دیتے کہ قبر پر ہری ٹہنیاں لگا دیا کرو اس سے مردے کو عذاب میں تخفیف ہو جاے گي۔ بلکہ آپ نے فرمایا کہ "شائد" جب تک یہ ٹہنیاں ہری رہیں ان کے عذاب میں کچھ تخفیف رہے۔
    سورہ حشر کی آيت نمبر 10 میں بھی دعا کا ذکر ہے ۔ ایصال ثواب یا ثواب "بخشنے" کا نہیں۔

    آگے کچھ جاری رکھنے سے پہلے اس کا جواب مرحمت فرما دیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • متفق متفق x 1
  14. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    جی بالکل ممکن ہے ۔ اللہ کے نام سے شروع کرنے کا مطلب ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر شروع کیا جاۓ۔ قران کی کوئ اور آیت پڑھ کرنہیں۔ اور اگر آپ ثواب بخشنے کی نیت سے قران پڑھنا چآہتے ہیں اس کا کوئ ثبوت موجود نہیں ہے۔
    مجھے کسی صحیح حدیث سے بتا دیجیے کہ کہ نبئ کری صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا کیا ہو۔ بات میری بات کو ماننے کی نہیں ہے نبئ کریم کے فرمان یا عمل کا حوالہ دینے کی ہے۔
    جی یہ قران اور سورہ فاتحہ "ایصال ثواب" کے لیے پڑھنا بالکل نئ چیز ہے اور بدعت ہےنبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہیں پڑھی تھی۔ یعنی یہ طریقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو معلوم نہیں تھا ۔ یہ وحی صرف آپ کے علماء پر نازل ہو‎ ئ۔
    اس کی مکمل وضاحت کر چکا ہوں۔
     
    Last edited: ‏جنوری 9, 2016
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • متفق متفق x 1
  15. T.K.H

    T.K.H رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2014
    پیغامات:
    234
    ایصالِ ثواب کا اسلام میں کوئی تصور نہیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • متفق متفق x 1
  16. T.K.H

    T.K.H رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2014
    پیغامات:
    234
    ایصالِ ثواب اگر جائز ہے تو ایصالِ عذاب بھی جائز ہونا چاہیے مگر طبقۂ خاص تو ''میٹھا میٹھا ہپ ہپ ، کڑوا کڑوا تھو تھو''کا مصداق ہے۔مجھے تو لگتا ہے کہ سب کلمہ گو بِلا عمل”اصحاب الیمین“ قرار پا چکے، کچھ کمی ہے تو حرام خوریوں اور بُرے اعمال ایصالِ عذاب کے ذریعے کافروں کے کھاتے میں ڈال کر اور طبقۂ خاص کی طرف سےایصالِ ثواب پا کر ”مقربین“ میں شامل ہو نا بس باقی ہے۔مجھےتعجب ہوتا ہے کہ ایسے لوگ کھلے الفاظ میں قرآن مجید کا انکار کیوں نہیں کر دیتے ۔اور کیوں اپنے باطل ”اجتہادو قیاس“ کو قرآنی آیات بنا کر پیش کرتے ہیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 4
  17. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    ایصال ثاب کے مقابل ایک اور ایصال
    http://www.urdumajlis.net/index.php?threads/14859/
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  18. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    ویسے گستاخی معاف بھائی
    جیسے کہ بابر بھائی نے فرمایا وہ معجزہ تھا
    اور دلچسپ بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قبروں کے بارے میں بتادیا تھا کہ عذاب ہورہاہے جبکہ ہر قبر پر انہوں نے نہیں رکھا خوب سمجھیں میرے بھائی !
    اس کا مطلب اگر آپ بھی شاخ رکھتے ہیں تو پھر آپ یقین کررہے ہیں کہ مردے کو عذاب دیا جارہا ہے اور اس کا علم آپ کو کیسے ہوا یہ پھر الگ مسئلہ ہے !
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
    • متفق متفق x 1
  19. نصر اللہ

    نصر اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2011
    پیغامات:
    1,845
    السلام علیکم.
    محترم اسلامی بھائی.!
    آپ اس مذکورہ حدیث سے سو فیصد غلط استدلال فرما رہے ہیں، حدیث بیان کرنے کا جو مقصد تھا آپ کی تاویل سے وہ مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے غور سے دیکھنے پر واضح معلوم ہو گا کہ اس حدیث پر باب کیا باندھا گیا ہے..؟
    پیشاب کی آلودگی سے بچنا اور اس پورے واقعے کا مقصد صرف یہ ہے کہ پیشاب کی آلودگی سے بچا جائے نہ کہ ایصال ثواب ہے.
    ایصال ثواب کی نفی کے لئے یہ بات کافی معلوم ہوتی ہے کہ نبی علیہ السلام کی حیات طیبہ میں اور بعد مین بھی صرف اس واقعے کے سوا کوئی دوسرا واقعہ یا موقعہ قبر پر شاخیں رکھنے کا نہیں ملتا وگرنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ عذاب الہی کو کم کرنے اور ٹالنے کے لئے ان شاخوں کا سہارا نہ لیا جاتا!
    دوبارہ پھر اسی حدیث کو اچھے انداز میں پڑھیں تو آپ کو "شائد" کا لفظ بھی ملے گا اور "شائد" ہمیشہ گمان پر دلالت کرتا ہے یقین پر نہیں جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان شاخوں سے ثواب کا کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ اللہ رب العزت اگر چاہیں تو عذاب میں ایک وقت مقررہ تک کمی فرمادیں.
    جس چیز میں مسئلہ ہی ایک امید کے ساتھ جو بنا یقین کے ہے پایا جا رہا ہے اس بات میں اسقدر ڈٹھائی سے ایصال ثواب لینا ایک معمہ سے کم نہیں ہے.
    ایصال ثواب کے جو تین مدارج حدیث میں مذکور ہیں وہ کافی ہیں.
    اور نیک اعمال بخش دینا میں چاہوں گا کہ یہ "بخش دینا" اصطلاحا کیا اور اس کا طریقہ کیا ہے اور اس کا طریقہ کسی حدیث سے واضح فرمادیں.


    Sent from my CHM-U01 using Tapatalk
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
    • متفق متفق x 2
  20. نصر اللہ

    نصر اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2011
    پیغامات:
    1,845
    کسی کے لئے دعا کرنا اور کسی کے لئے اپنا عمل کر کے اس کا ثواب "ایصال" کرنا دو مختلف پہلو ہیں جن میں زمین و آسمان کا فرق کہہ دیں تو مبالغہ نہیں ہوگا، دونوں کو ایک دوسرے میں خم کرنا نادانی ہے.


    Sent from my CHM-U01 using Tapatalk
     
    • متفق متفق x 3
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں