کیا صحیح مسلم میں مسنون رفع الیدین کے ترک کی دلیل ہے؟

کفایت اللہ نے 'اتباعِ قرآن و سنت' میں ‏اپریل 28, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. کفایت اللہ

    کفایت اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 23, 2008
    پیغامات:
    2,017
    نماز میں چارمقامات پررفع الیدین ثابت ہے لیکن بعض حضرات صحیح‌ مسلم کی ایک غیرمتعلق حدیث پیش کرکے عوام کو یہ مغالطہ دیتے ہیں کہ اس میں مسنون رفع الیدیں سے منع کردیا گیا ہے:
    سب سے پہلے صحیح‌ مسلم کی یہ حدیث‌ ملاحظہ ہو:

    حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ» قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَرَآنَا حَلَقًا فَقَالَ: «مَالِي أَرَاكُمْ عِزِينَ» قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَقَالَ: «أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟» فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ، وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟ قَالَ: «يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْأُوَلَ وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ» [صحيح مسلم (1/ 322) رقم 430]

    مذکورہ حدیث کا مسنون رفع الیدین سے کوئی تعلق نہیں ہے اس کے کئی دلائل ہیں ۔
    پہلی دلیل:
    اس میں ہاتھ اٹھانے کا موقع ومحل ذکرنہیں ہے۔

    یعنی یہ صراحت نہیں ہے کہ اس حدیث میں‌ قبل الرکوع وبعدہ یا بعدالقیام من الرکعتین والے رفع الیدین سے روکا جارہا ہے جبکہ ان مواقع پررفع الیدین صراحتا ثابت ہے، لہٰذا یہ روایت ان مواقع کے علاوہ دیگرمواقع کے لئے ہے اوران مواقع پرہم بھی کسی طرح کا رفع الیدین نہیں‌ کرتے۔

    دوسری دلیل:
    رفع الیدین (ہاتھ اٹھانے) کی کیفیت مبہم ہے۔

    اورہاتھ اٹھا نا کئی طرح کا ہوتا ہے، مثلا:

    الف: دعاء کے لئے رفع الیدین یعنی ہاتھ اٹھانا، چنانچہ امام بخاری فرماتے ہیں:
    وَقَالَ أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ: «دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَرَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ» وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: رَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ وَقَالَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ» صحيح البخاري (8/ 74)
    نیزصحیح بخاری حدیث نمبر4323 کے تحت ایک ایک روایت کا ٹکڑا ہے:
    فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ
    (صحيح البخاري 5/ 156 رقم 4323 )

    ب: سلام کے لئے ہاتھ اٹھانا ، امام طبرانی فرماتے ہیں :
    حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: «مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ» (المعجم الكبير للطبراني :2/ 205 رقم 1836 )
    اس حدیث سے معلوم ہوا بوقت سلام ہاتھ اٹھانے پر بھی رفع الیدین کے الفاظ حدیث میں‌ مستعمل ہیں ۔

    تیسری دلیل:
    قران قران کی تفسیر ہے اسی طرح حدیث حدیث‌ کی تفسیرہے ۔

    اورصحیح مسلم کی زیربحث راویت کی تشریح درج ذیل روایت سے ہوجاتی ہے کہ اس کا تعلق بوقت سلام والے رفع الیدین سے ہے:
    حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: «مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ» (المعجم الكبير للطبراني :2/ 205 رقم 1836 )

    تنبیہ بلیغ:
    یہی حدیث صحیح مسلم میں اسی سند متن کے ساتھ ہیں لیکن اس میں ’’مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ‘‘ کی جگہ ’«عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘ کے الفاظ ہیں اورجب ہم زیربحث روایت کی تشریح میں مسلم کی اس دوسری روایت کو پیش کرکے کہتے ہیں کہ دیکھو صحیح مسلم ہی میں اس دوسری حدیث کی تشریح‌ موجود ہے کہ اس سے مراد بوقت سلام والا رفع الیدین ہے ، تو حنفی حضرات چیخنے لگتے ہیں کہ نہیں مسلم کی اس اگلی حدیث میں تو’’«عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘ کے الفاظ ہیں اورپہلی حدیث میں ’’«مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ،‘‘ کے الفاظ ہیں۔
    اسی لئے ہم نے مسلم والی دوسری حدیث کے الفاظ نہ نقل کرکے طبرانی کے الفاظ نقل کئے ہیں جوبعینہ اس سند متن سے ہے جو مسلم میں آگے موجودہے۔
    اورطبرانی کی یہ روایت اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ مسلم کی اگلی روایت میں ’«عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘کے الفاظ اورپہلی روایت میں‌’’«مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ،‘‘ کے الفاظ میں‌کوئی فرق نہیں ہے۔

    طبرانی کی اس روایت اورمسلم میں اگلی والی روایت دونوں کی سند یکساں ہے:
    مسلم کی اگلی والی روایت کی سند یہ ہے:
    وَحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ الْقِبْطِيَّةِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا۔۔۔۔۔۔۔الخ
    اورطبرانی والی روایت کی سند یہ ہے:
    حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا ۔۔۔۔۔

    چوتھی دلیل :
    الفاظ حدیث ’’ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘کی دلالت:

    اس حدیث میں جس رفع الیدین کا ذکرہے اسے سرکش گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دی گئی ہے ، اوریہ مسنون رفع الیدین سے ایک الگ شکل ہے کیونکہ اس صورت میں ہاتھ دائیں بائیں ہلے گا جساکہ درج ذیل حدیث اس کی دلیل ہے:
    عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: «مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ» (المعجم الكبير للطبراني :2/ 205 رقم 1836 )

    اس حدیث‌ میں غورکریں یہاں یہ بات مسلم ہے کہ اس میں بوقت سلام والے رفع الیدین کا تذکرہ ہے ، اورہاتھ کو دائیں بائیں اٹھانے کی بھی صراحت ہے ، اوریہاں اس صورت کو ’’كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ‘‘ کہا گیا ہے۔
    اس سے ثابت ہواکہ ’’ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘ کی صورت جس رفع الیدین میں پائے جاتی ہے اس کا مسنون رفع الیدین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

    پانچویں دلیل:
    یہ ممنوع عمل صرف صحابہ کی طرف منسوب ہواہے۔

    مسلم کی زیربحث حدیث میں ’’ «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ‘‘ کے الفاظ پرغور کریں اس میں جس رفع الیدین پرعمل سے روکا گیا ہے اس عمل کو صرف صحابہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
    یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا تعلق مسنون رفع الیدین سے نہیں ہے، کیونکہ ایسا ہوتا تویہ عمل صرف صحابہ کی طرف منسوب نہ کیا جاتا اس لئے کہ یہ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی عمل تھا جیسا کہ فریق دوم کو بھی یہ بات تسلیم ہے۔
    ایسی صورت میں جمع متکم کا صیغہ استعمال ہونا چاہئے یعنی اس طرح ’’مالنا نرفع ایدینا‘‘ ۔ اورحدیث میں ایسا نہیں لہٰذا ثابت ہوا کہ ممنوعہ رفع الیدین صرف صحابہ کا اپنا عمل تھا اورمسنون رفع الیدین جس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام سب عمل کرتے تھے اس کا اس حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

    چھٹی دلیل:
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹوکنے پرصحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ نہ دیا:

    زیربحث مسلم کی حدیث میں جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے رفع الیدین کی وجہ پوچھی تو صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ نہ دیا ، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا تعلق مسنون رفع الیدین سے نہ تھا کیونکہ ایسا ہوتا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی عمل تھا اورایسی صورت میں صحابہ آپ کا حوالہ فورا دیتے کے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کو رفع الیدین کرتے ہوئے دیھکا اس لئے ہم نے بھی کیا ، جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتاہے:

    عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ إِذْ خَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عَنْ يَسَارِهِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ الْقَوْمُ أَلْقَوْا نِعَالَهُمْ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ، قَالَ: «مَا حَمَلَكُمْ عَلَى إِلْقَاءِ نِعَالِكُمْ» ، قَالُوا: رَأَيْنَاكَ أَلْقَيْتَ نَعْلَيْكَ فَأَلْقَيْنَا نِعَالَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ جِبْرِيلَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّ فِيهِمَا قَذَرًا - أَوْ قَالَ: أَذًى - " وَقَالَ: " إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلْيَنْظُرْ: فَإِنْ رَأَى فِي نَعْلَيْهِ قَذَرًا أَوْ أَذًى فَلْيَمْسَحْهُ وَلْيُصَلِّ فِيهِمَا "،سنن أبي داود (1/ 175 رقم 650)

    اس حدیث میں‌ غورکریں کہ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو دیکھ کر عمل کیا اورجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹوکا توفورا‌آپ کا حوالہ دے دیا کہ آپ نے ایسا کیا اس لئے ہم نے بھی ایسا کیا۔
    معلوم ہوا کہ اگرزیربحث حدیث میں مسنون رفع الیدین پر صحابہ کرام کو ٹوکا گیا ہوتا تو صحابہ یہاں بھی فورآ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیتے ، اس سے ثابت ہوا کہ اس حدیث‌ میں مسنون رفع الیدین سے نہین روکا گیا ہے۔

    ساتویں دلیل:
    اس عمل کو سرکش گھوڑوں کی دم کی حرکت سے تشبہ دینا:

    اس حدیث میں ممنوعہ رفع الیدین کوسرکش گھوڑوں کی دم کی حرکت سے تشبہ دی گئی ہے ، یہ اس بات کا ثبوت ہے کا اس کا تعلق ایسے عمل سے نہیں ہوسکتا جسے آپ نے کبھی بھی انجام دیاہو، اورمسنون رفع الیدین تو آپ کا عمل رہا ہے ، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک پل کے لئے بھی ایسے عمل کوانجام دے سکتے جس کی اتنی بری مثال ہو؟؟؟

    آٹھویں دلیل:
    محدثین کا اجماع۔

    محدثین کا اس بات پراجماع ہے کہ زیربحث روایت میں ممنوعہ رفع الیدین کا تعلق تشہد کے وقت ہے۔

    1: امام نووی نے باب قائم کیا:
    بَابُ الْأَمْرِ بِالسُّكُونِ فِي الصَّلَاةِ، وَالنَّهْيِ عَنِ الْإِشَارَةِ بِالْيَدِ، وَرَفْعِهَا عِنْدَ السَّلَامِ، وَإتْمَامِ الصُّفُوفِ الْأُوَلِ وَالتَّرَاصِّ فِيهَا وَالْأَمْرِ بِالِاجْتِمَاعِ صحيح مسلم (1/ 322)

    2:امام ابوداؤد نے باب قائم کیا:
    بَابٌ فِي السَّلَامِ سنن أبي داود (1/ 261)

    3: امام نسائی نے باب قائم کیا:
    بَابُ السَّلَامِ بِالْأَيْدِي فِي الصَّلَاةِ سنن النسائي (3/ 4)

    4:امام ابونعیم نے باب قائم کیا:
    بَابُ الْكَرَاهِيَةِ أَنْ يَضْرِبَ الرَّجُلُ بِيَدَيْهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ فِي الصَّلاةِ المسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم (2/ 53)

    5: امام ابن حبان نے باب قائم کیا:
    ذِكْرُ الْخَبَرِ الْمُقْتَضِي لِلَّفْظَةِ الْمُخْتَصَرَةِ الَّتِي تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهَا بِأَنَّ الْقَوْمَ إِنَّمَا أُمِرُوا بِالسُّكُونِ فِي الصَّلَاةِ عِنْدَ الْإِشَارَةِ بِالتَّسْلِيمِ دُونَ رَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ الرُّكُوعِ صحيح ابن حبان (5/ 199)

    6:امام ابن ابی شیبہ نے باب قائم کیا:
    مَنْ كَرِهَ رَفْعَ الْيَدَيْنِ فِي الدُّعَاءِ مصنف ابن أبي شيبة (2/ 230)

    7: امام ابن حجرنے فرمایا:
    وَلَا دَلِيلَ فِيهِ عَلَى مَنْعِ الرَّفْعِ عَلَى الْهَيْئَةِ الْمَخْصُوصَةِ فِي الْمَوْضِعِ الْمَخْصُوصِ وَهُوَ الرُّكُوعُ وَالرَّفْعُ مِنْهُ لِأَنَّهُ مُخْتَصَرٌ مِنْ حَدِيثٍ طَوِيلٍ وَبَيَانُ ذَلِكَ أَنَّ مُسْلِمًا رَوَاهُ أَيْضًا مِنْ حَدِيثِ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ التلخيص الحبير ط العلمية (1/ 544)

    8: امام نووی نے فرمایا:
    وَأَمَّا حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ فَاحْتِجَاجُهُمْ بِهِ مِنْ أَعْجَبِ الْأَشْيَاءِ وَأَقْبَحِ أَنْوَاعِ الْجَهَالَةِ بِالسُّنَّةِ لِأَنَّ الْحَدِيثَ لَمْ يَرِدْ فِي رَفْعِ الْأَيْدِي في الركوع والرفع منه لكنهم كَانُوا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ فِي حَالَةِ السَّلَامِ مِنْ الصلاة ويشيرون بها الي الجانبين ويريدون بِذَلِكَ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَنْ الْجَانِبَيْنِ وَهَذَا لَا خِلَافَ فِيهِ بَيْنَ أَهْلِ الْحَدِيثِ وَمَنْ لَهُ أَدْنَى اخْتِلَاطٍ بِأَهْلِ الْحَدِيثِ وَيُبَيِّنُهُ أَنَّ مُسْلِمَ بْنَ الْحَجَّاجِ رَوَاهُ فِي صَحِيحِهِ مِنْ طَرِيقِينَ المجموع شرح المهذب (3/ 403)

    9: امام بخاری نے فرمایا:
    وَأَمَّا احْتِجَاجُ بَعْضِ مَنْ لَا يَعْلَمُ بِحَدِيثِ وَكِيعٍ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: دَخَلَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَنَحْنُ رَافِعِي أَيْدِينَا فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ: «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ، فَإِنَّمَا كَانَ هَذَا فِي التَّشَهُّدِ لَا فِي الْقِيَامِ» كَانَ يُسَلِّمُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ فَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَفْعِ الْأَيْدِي فِي التَّشَهُّدِ , وَلَا يَحْتَجُّ بِمِثْلِ هَذَا مَنْ لَهُ حَظٌّ مِنَ الْعِلْمِ، هَذَا مَعْرُوفٌ مَشْهُورٌ لَا اخْتِلَافَ فِيهِ , وَلَوْ كَانَ كَمَا ذَهَبَ إِلَيْهِ لَكَانَ رَفْعُ الْأَيْدِي فِي أَوَّلِ التَّكْبِيرَةِ , وَأَيْضًا تَكْبِيرَاتُ صَلَاةِ الْعِيدِ مَنْهِيًّا عَنْهَا؛ لِأَنَّهُ لَمْ يَسْتَثْنِ رَفْعًا دُونَ رَفْعٍ قرة العينين برفع اليدين في الصلاة (ص: 31)

    10: امام ابن الملقن نے فرمایا:
    (أما) الحَدِيث الأول، وَهُوَ حَدِيث (جَابر بن) سَمُرَة فجعْله مُعَارضا لما قدمْنَاهُ من أقبح الجهالات لسنة سيدنَا رَسُول الله - صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم -؛ لِأَنَّهُ لم يرد فِي رفع الْأَيْدِي فِي الرُّكُوع وَالرَّفْع مِنْهُ، وَإِنَّمَا كَانُوا يرفعون أَيْديهم فِي حَالَة السَّلَام من الصَّلَاة، ويشيرون بهَا إِلَى (الْجَانِبَيْنِ) يُرِيدُونَ بذلك السَّلَام عَلَى من (عَلَى) الْجَانِبَيْنِ، وَهَذَا لَا (اخْتِلَاف) فِيهِ بَين أهل الحَدِيث وَمن لَهُ أدنَى اخْتِلَاط بأَهْله، البدر المنير (3/ 485)

    تلک عشرۃ کاملہ۔ مؤخرالذکردونوں‌ حوالوں میں عدم اختلاف یعنی اجماع کی صراحت ہے۔

    نویں دلیل:
    عموم مان لیں تو مسنون رفع الیدین کی استثناء ثابت ہے:

    جس طرح اس حدیث‌ کے ہوتے ہوئے احناف تکبیرات عیدین میں اوروترمیں اورتکبیرتحریمہ میں دیگردلائل کی بنا پررفع الیدین کرتے ہیں اسی طرح مسنون رفع الیدین کے بھی دلائل موجود ہیں۔
    امام بخاری فرماتے ہیں:
    وَلَا يَحْتَجُّ بِمِثْلِ هَذَا مَنْ لَهُ حَظٌّ مِنَ الْعِلْمِ، هَذَا مَعْرُوفٌ مَشْهُورٌ لَا اخْتِلَافَ فِيهِ , وَلَوْ كَانَ كَمَا ذَهَبَ إِلَيْهِ لَكَانَ رَفْعُ الْأَيْدِي فِي أَوَّلِ التَّكْبِيرَةِ , وَأَيْضًا تَكْبِيرَاتُ صَلَاةِ الْعِيدِ مَنْهِيًّا عَنْهَا؛ لِأَنَّهُ لَمْ يَسْتَثْنِ رَفْعًا دُونَ رَفْعٍ قرة العينين برفع اليدين في الصلاة (ص: 31)

    دسویں دلیل:
    خود علمائے احناف کا اعتراف:

    محمود حسن دیوبندی فرماتے ہیں:
    ’’باقی رہا اذناب خیل کی روایت سے جواب دینا بروئے انصاف درست نہیں ، کیونکہ وہ سلام کے بارے میں ہے، کہ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ ہم بوقت سلام نماز اشارہ بالید کرتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کومنع فرمادیا (الورد الشذی :ص: 65)
    محمد تقی عثمانی فرماتے ہیں:
    ’’لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس حدیث سے حنفیہ کا استدلال مشتبہ اورکمزورہے۔۔۔(درس ترمذی: ج 2ص36)

    تلک عشرۃ کاملۃ
     
    Last edited by a moderator: ‏اپریل 28, 2011
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • اعلی اعلی x 2
  2. ابو وقاص

    ابو وقاص -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏جون 13, 2008
    پیغامات:
    382
    بھائی کفایت اللہ آپ کی تحقیق قابل تعریف ہے مگر ھم جیسے لوگوں کے لئے اردو ترجمہ بھی کردیتے تو ھم بھی اس معلومات سے مستفید ہوتے۔
     
  3. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    جزاک اللہ خیرا
     
  4. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاكم اللہ خيرا وبارك فيكم ۔
    اس حديث شريف كے تمام طرق اور شواھد كو جمع كيا جائے تو يہی بات ثابت ہوتی ہے كہ يہ نماز كے آخر ميں سلام كے وقت سے متعلق ہے ، اور اس كے متعلق تصريح خود حديث ميں موجود ہے۔ کچھ مزيد صحيح احاديث يوں ہیں۔
    [qh]كنا إذا صلينا خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فسلم أحدنا أشار بيده من عن يمينه ومن عن يساره فلما صلى قال ما بال أحدكم يومي بيده كأنها أذناب خيل شمس إنما يكفي أحدكم أو ألا يكفي أحدكم أن يقول هكذا وأشار بأصبعه يسلم على أخيه من عن يمينه ومن عن شماله ۔ (سنن أبي داود براويت جابر بن سمرة ) [/qh]
    يہاں سلام كے وقت كى تصريح ہے۔يہی روايت سنن النسائي ميں بھی موجود ہے۔ اور صحيح ہے۔
    [qh]عن جابر بن سمرة كنا نصلي خلف النبي صلى الله عليه وسلم فنسلم بأيدينا ، فقال : ما بال هؤلاء يسلمون بأيديهم كأنها أذناب خيل شمس ، أما يكفي أحدهم أن يضع يده على فخذه ، ثم يقول : السلام عليكم ، السلام عليكم ۔[/qh]
    آگے ديكھیے۔
    خود امام طحاوي نے شرح معاني الآثار ميں حضرت جابربن سمرة كى روايت بايں الفاظ ذكر كى ہے۔
    [qh]كنا إذا صلينا خلف النبي صلى الله عليه وسلم سلمنا بأيدينا قلنا السلام عليكم السلام عليكم فقال ما بال أقوام يسلمون بأيديهم كأنها أذناب خيل شمس أما يكفي أحدكم إذا جلس في الصلاة أن يضع يده على فخذه ويشير بأصبعه ويقول السلام عليكم السلام عليكم ۔[/qh] (شرح معاني الآثار : 1/269)
    اس روايت ميں بار بار سلام كا وقت واضح ہے۔کہ وہ سلام پھیرتے وقت دائيں بائيں ہاتھ سے اشارہ كرتے تب ان كو نبي صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا كہ ہاتھوں كو رانوں پر رکھے رہیں۔
    ياد رہے كہ امام طحاوي نے بھی اس حديث كو "صحيح" كہا ہے۔قائلين تقليد كو كم ازكم اپنے امام طحاوي كى مان لينى چاہیے، اور احاديث صحيحہ كى غلط تاويلات كرنے سے باز آ جانا چاہیے۔۔۔
    اللہ سبحانہ وتعالى ہم سب كو تعصب سے جان چھڑا كر خالصتا قرآن وسنت كى تعليمات پر عمل كى توفيق دے۔
     
  5. ابن شہاب

    ابن شہاب ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اپریل 13, 2011
    پیغامات:
    224
    جزاک اللہ خیرا کفایت اللہ بھائی !
     
  6. شفقت الرحمن

    شفقت الرحمن ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جون 27, 2008
    پیغامات:
    753
    جزاکما اللہ خیرا کفایت اللہ بھائی اور آپا ام نور العین

    بڑی آپا کے دلائل سے ایک اور تحقیقی جہت سامنے آئی ہے جو پہلے پردے میں تھی اگرچہ خفیف سا اشارہ شیخ کفایت اللہ کی دی ہوئی معجم الطبرانی کی روایت میں ہے۔

    بہت بہت شکریہ دونوں اراکین کا۔
     
  7. کفایت اللہ

    کفایت اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 23, 2008
    پیغامات:
    2,017
    صحیح مسلم کی حدیث کو بعض لوگ خواہ مخواہ رکوع والے مسنون رفع الیدین پر فٹ کرتے ہیں حالانکہ رکوع والے رفع الیدین میں ہاتھ اوپر نیچے اٹھائے جاتے ہیں جبکہ گھوڑا جب اپنی دم ہلاتا ہے تو دائیں اور بائیں ہلاتا ہے ، ثبوت کے لئے ذیل کی ویڈیو ملاحظہ فرمائیں:

    Ghora dum kaise hilata hai


    ۔
     
  8. عبدالرحمن بھٹی

    عبدالرحمن بھٹی نوآموز.

    شمولیت:
    ‏مئی 6, 2016
    پیغامات:
    123
    آپ کے محولہ تھریڈ پر وہیں لکھوں یا کہ اس تھریڈ میں؟
     
  9. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    ترک رفع یدین کے قائل عبدالرحمن بھٹی کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کرسکے جس سے رفع الیدین کا ترک ہونا ثابت ہو ۔ لہذا اس تھریڈ سے غیر متعلقہ تمام پوسٹس نئے تھریڈ منتقل کردی گئی ہیں ۔ مزید گفتگو وہیں جاری رکھی جائے ۔ شکریہ
    http://www.urdumajlis.net/threads/.37534/
     
    • متفق متفق x 3
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں