امّ المؤمنین حضرت امّ حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا

mahajawad1 نے 'سیرتِ سلف الصالحین' میں ‏مارچ 3, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. mahajawad1

    mahajawad1 محسن

    شمولیت:
    ‏اگست 5, 2008
    پیغامات:
    473

    امّ المؤمنین حضرت امّ حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا​


    نام رملہ اور کنیت امّ حبیبہ تھی۔ نسب نامہ یہ ہے۔
    امّ حبیبہ بنت ابی سفیان بن حرب بن امیّہ بن عبد شمس۔
    والدہ کا نام صفیہ بنت ابی العاص تھا، جو حضرت عثمان غنی کی پھوپھی تھیں۔ گویا حضرت امّ حبیبہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حقیقی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ وہ بعثت نبوی سے سترہ سال قبل مکہ میں پیدا ہوئیں۔ حضرت امّ حبیبہ کا پہلا نکاح عبید اللہ بن جحش سے ہوا۔ دونوں نے بعد بعثت کے ابتدائی دور میں اکٹے اسلام قبول کیا۔ حضرت امّ کے والد اس وقت اسلام کے سخت ترین دشمن تھے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دی تو عبیداللہ جحش اور امّ حبیبہ بھی دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ہجرت کرکے حبش چلے گئے۔ حبش پہنچنے کے چند دن بعد عبیداللہ تو مرتد ہوگئے اور عیسائی مذہب اختیار کرکے شراب نوشی شروع کردی۔ حضرت امّ حبیبہ نے شوہر کو بہت سمجھایا کہ کیوں اپنی عاقبت برباد کرتے ہو لیکن اللہ نے ان کے دل پر مہر لگا دی تھی۔ کوئی اثر نہ ہوا اور عیسائیت میں زندگی بسر کرتے ہوئے وفات پائی۔ عبیداللہ کی صلب سے حضرت امّ حبیبہ کی ایک بیٹی حبیبہ کے نام سے تھیں۔ ان کو شرف صحابیت حاصل ہے۔ ان ہی کے نام کی نسبت سے حضرت رملہ کی کنیت امّ حبیبہ مشہور ہوئی۔
    حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب وعالم غربت میں حضرت امّ حبیبہ کے بیوہ ہونے کی اطلاع ملی تو آپ نے ان کے ایّام عدّت پورے ہونے کے بعد حضرت عمرو بن امیّہ ضمری کو نجاشی شاہ حبش کے پاس اس غرض سے بھیجا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امّ حبیبہ کو نکاح کا پیغام دے دیں۔ نجاشی نے انہیں ایک
    لونڈی کے ذریعے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام نکاح حضرت امّ حبیبہ کے پاس بھیجا۔ انہیں بیحد مسرّت ہوئی۔ اظہار تشکّر کے طور پر لونڈی کو چاندی کے دو کنگن اور نقرئی انگوٹھیاں عطا کیں اور حضرت خالد بن سعید بن العاص کو اپنا وکیل مقرر کیا۔ شام کو نجاشی نے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور دوسرے مسلمانوں کو بلا کر خود نکاح پڑھایا۔ رسم نکاح سے فراغت کے بعد حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ نے سب کو کھانا کھلا کر رخصت کیا۔ نکاح کے کچھ عرصے بعد حضرت امّ حبیبہ حبش سے مدینہ منورہ آ گئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں خیبر کی مہم پر تشریف لے گئے تھے۔ یہ اواخر سنہ ۶ ہجری یا اوائل ۷ ہجری کا واقعہ ہے۔
    حضرت امّ حبیبہ بڑی نیک فطرت اور صالحہ خاتون تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں قدیم الاسلام ہونے کا شرف عطا کیا حالانکہ ان کے والد فتح مکہ تک مشرکین کی قیادت کرتے رہے۔ اسلام کی خاطر انہوں نے طویل سفر صعوبتیں خندہ پیشانی سے برداشت کیں اور حبش میں غربت کی زندگی اختیار کی، حالانکہ ان کا گھرانہ تموّل اور ریاست کے لحاظ سے قریش میں بہت ممتاز تھا۔ فتح مکہ سے قبل انکے والد ایک مرتبہ ان سے ملنے مدینہ آئے۔ اس آمد کا مقصد یہ بھی تھا کہ اپنی بیٹی کی عرفت میعاد صلح کی توسیع کیلئے کوشش کریں۔ جب وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھنے لگے تو حضرت امّ حبیبہ نے بستر الٹ دیا ۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو ناگوار گزرا بولے: ’’ تمہیں اس بستر پر اپنے باپ کا بھی بیٹھنا پسند نہیں۔‘‘ حضرت امّ حبیبہ نے جواب دیا۔ ’’ بیشک مجھے پسند نہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر مبارک پر ایک مشرک بیٹھے۔‘‘ ابو سفیان خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے اور صرف اتنا کہا ’’ تو میرے پیچھے بہت بگڑ گئی‘‘۔
    حضرت امّ حبیبہ رضی اللہ عنہا حسن ظاہری سے بھی متصف تھیں، صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی کے حسن و جمال پر فخر کیا کرتے تھے۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو شخص بارہ رکعت نفل روزانہ پڑھے گا اسکے لئے جنت میں گھر بنایا جائیگا۔‘‘
    حضرت امّ حبیبہ سن رہی تھیں۔ اس کے بعد ساری زندگی بارہ رکعت نفل روزانہ نہایت پابندی سے پڑھتی رہیں۔
    جب ان کے والد ابو سفیان رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو تین دن بعد خوشبو منگا کر رخساروں اور بازوؤں پر ملی اور فرمایا:
    ’’ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ ایماندار عورت کیلئے تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ جائز نہیں، سوائے خاوند کے کہ اسکی موت پر چار مہینہ دس دن بیوی کو سوگ کرنا چاہئیے۔‘‘
    امّ المؤمنین حضرت امّ حبیبہ نے سنہ ۴۴ ہجری میں ۷۳ سال کی عمر میں ( اپنے بھائی امیر معاویہ رضی اللہ عنہہ کے دور حکومت میں ) وفات پائی۔ وفات سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور کہا: ’’ میرے اور آپ کے درمیان سوکنوں کے تعلقات تھے، اگر کوئی غلطی مجھ سے ہوئی ہو تو معاف کر دیجئے۔‘‘
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ’’ میں نے معاف کیا۔‘‘ پھر ان کیلئے دعا مانگی۔ حضرت امّ حبیبہ نے فرمایا: ’’ آپ نے مجھے خوش کیا للہ آپ کو خوش رکھے۔‘‘
    حضرت امّ حبیبہ سے ۶۵ احادیث مروی ہیں جن کے راویوں میں کئی جلیل القدر صحابہ اور تابعین شامل ہیں۔

    رضی اللہ تعالیٰ عنہا​
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں