حسینیوں کی بغاوت اور امام ابوحنفیہ پر افترا پردازی

ابوعکاشہ نے 'غیر اسلامی افکار و نظریات' میں ‏نومبر 19, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    حسینیوں کی بغاوت اور امام ابوحنفیہ پر افترا پردازی

    مودودی صاحب لکھتے ہیں۔ (ص264)

    "دوسرا خروج محمد بن عبدالله (نفس زکیہ) اور ان کے بھائی ابراہیم بن عبدالله کا تھا جو امام حسن بن علی کی اولاد سے تھے یہ ۱۴۵ھ ۷۶۲۔۷۶۳ء کا واقعہ ہےجب امام ابو حنیفہ بھی اپنے پورے اثر و رسوخ کو پہنچ چکے تھے۔ ان دونوں بھائیوں کی خفیہ تحریک بنی امیہ کے زمانے سے چل رہی تھی حتیٰ کہ ایک وقت تھا جب خود المنصور نے دوسرے بہت سے لوگوں کے ساتھ جو اموی سلطنت کے خلاف بغاوت کرنا چاہتے تھے نفس زکیہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ عباسی سلطنت قائم ہو جانے کے بعد یہ لوگ روپوش ہو گئے اور اندر ہی اندر اپنی دعوت پھیلاتے رہے۔ خراسان الجزیرہ رے طبرستان یمن اور شمالی افریقہ میں ان کے داعی پھیلے ہوئے تھے۔ نفس زکیہ نے خود اپنا مرکز حجاز میں رکھا تھا۔ ان کے بھائی ابراہیم نے عراق میں بصرے کو اپنا مرکز بنا رکھا تھا۔ کوفہ میں بقول ابن اثیر ایک لاکھ تلواریں ان کی حمایت میں نکلنے کو تیار تھیں المنصور ان کی خفیہ تحریک سے پہلے ہی واقف تھا اور ان سے نہایت خوف زدہ تھا کیونکہ ان کی دعوت اسی عباسی دعوت کے متوازی چل رہی تھی جس کے نتیجے میں دولتِ عباسیہ قائم ہوئی تھی اور اس کی تنطیم عباسی دعوت کی تنظیم سے کم نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کئی سال سے اس کے توڑنے کے درپے تھا اور اسے کچلنے کے لیے انتہائی سختیاں کر رہا تھا۔

    جب رجب ۱۴۵ میں نفس زکیہ نے مدینے سے عملاً خروج کیا تو منصور سخت گبھراہٹ کی حالت میں بغداد کی تعمیر چھوڑ کر کوفہ پہنچا اور اس تحریک کے خاتمے تک اسے یقین نہ تھا کہ اس کی سلطنت باقی رہے گی یا نہیں۔۔۔

    اس خروج کے موقعے پر امام ابو حنیفہ کا طرز عمل پہلے خروج سے بالکل مختلف تھا جیساکہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں انھوں نے اس زمانے میں جب کہ منصور کوفے ہی میں موجود تھا اور شہر میں ہر رات کرفیو لگا رہتا تھا بڑے زور شور سے کھلم کھلا اس تحریک کی حمایت کی یہاں تک کہ ان کے شاگردوں کو خطرہ پیدا ہو گیا کہ ہم سب باندھ لیے جائیں گے۔ وہ لوگوں کو ابراہیم کا ساتھ دینے اور ان سے بیعت رنے کی تلقین کرتے تھے وہ ان کے ساتھ خروج کو نفلی حج سے ۵۰ یا ۷۰ گنا زیادہ ثواب کا کام قرار دیتے تھے۔"

    مودودی صاحب نے جو خیالی فضا قائم کی ہے اس کی کہ کچھ بھی اصل نہیں۔ اگر واقعی حسنیوں کی تحریک دعوت عباسیہ کے متوازی چل رہی تھی تو اس کا ظہور کیوں نہیں ہوا اور ہمیں یہ کیوں ملتا ہے کہ محمد الارقط بن عبدالله حسنی نے جب۱۴۵ میں خروج کیا تو خود مدینے کے لوگ بھی ان کے ساتھ نہ تھے اور انھیں اتنے آدمی میسر نہ آسکے کہ دوچار گھنٹے ہی عسکر خلافت کا مقابلہ کر سکتے۔ یہی حشر محمدالارقط کے بھائی ابراہیم کا ہوا کہ بآسانی انھیں ختم کردیا گیا۔ اور عالم اسلام میں ایک پتّہ بھی نہ کھڑکا۔

    اس بغاوت کا حال سن کر امیرالمومنین منصور کا کوفے تشریف لے جانے کا کوئی ثبوت نہیں اور نہ انھیں اس کی کسی درجہ میں ضرورت تھی۔ لوگوں نے محمد الارقط کے خروج کو اہمیت دینے کے لیے یہ افسانے تراشے ہیں جن کا عملی ظہور کچھ نظر نہیں آتا۔

    رہی وہ افترا پردازی جو امام صاحب پر کی گئی ہے تو ناظرین کرام کو سطور بالا سے معلوم ہو گیا ہوگا کہ قریب ترین مآخذ کے مطابق امام ابو حنیفہ کا قیام محمد الارقط کی بغاوت کے وقت خاص بغداد میں تھا۔ اور وہ دارالخلافہ کی تعمیر میں مشغول تھے۔ انھیں اس کی فرصت کہاں تھی کہ دارالخلافہ کی تعمیر کا کام چھوڑ کر بصرے جائیں اور ابراہیم کی بغاوت میں شرکت کےلیے لوگوں کو ابھاریں اور نہ قواعد شرعیہ اور اپنے کھلے ہوئے مذہب کے مطابق وہ ایسا کر سکتے تھے۔

    خلافِ عباسیہ ۱۳۲ھ میں قائم ہو چکی تھی اور امیرالمومنین المنصور کو بھی امامت پر فائز ہوئے آٹھ برس ہو چکے تھے سندھ سے لے کر مراکش تک تمام امت ان کی بیعت میں تھی اور چینی ترکستان وغیرہ بھی انہی کا پرچم لہراتا تھا۔ ایسی صورت میں ان کے خلاف جو بھی کھڑا ہوا وہ قواعد شرعیہ کے تحت باغی تھا اور واجب القتل۔ یعنی ارشاد نبوی کے مطابق اس نے جماعت سے باہر ہو کر اپنے آپ کو ہلاکت کے لیے پیش کر دیا تھا۔ امام صاحب اور دوسرے ائمہ کسی طرح اس قسم کی شورشوں میں باغیوں کے ہمنوا نہیں ہو سکے تھے۔ یہ افترا پرداز راوی جنھیں مودودی صاحب نے حجّت بنا کر پیش کیا ہے اس کی کیا توجہ کریں گے کہ اگر ابراہیم کی بغاوت میں شرکت کرنا پچاس یا ستر نفلی حج کرنے کے برابر تھا تو امام صاحب نے خود یہ فضیلت حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ دوسروں کو ایک فعل پر ابھارنا اور خود اس سے محترز رہنا ایسی بات ہے جسے کوئی سلیم العقل شخص امام ابوحنیفہ جیسے عالم و فقیہ کی طرف منسوب نہیں کر سکتا۔ مودودی صاحب جیسے لوگ جن کا کام ہی اکابر امت پر تہمت تراشی ہے ایسی بات کہہ سکتے ہیں۔

    ان دونوں حسنی باغیوں محمد الارقط و ابراہیم۔ بغاوتوں کو نہ علم السیاست کے مطابق "انقلاب کی کوشش" کا نام دیا جاسکتا ہے اور نہ شرعی احکام کی بنیاد پر "اقدام جہاد" کا۔ اسے تو فساد فی الرض ہی کہا جاسکتا ہے اور ایسے مفسدیں کے ساتھ کوئی رعایت بھی نہیں برتی جاسکتی۔ مودودی صاحب نے علویوں کی خاندانی دعوت تو ساری دنیا میں پھیلی ہوئی تباہی بتادی مگر اس بات کو چھپا گئے کہ اس بغاوت کو فرو کرنے کے لیے امیرالمومنین المنصور نے جو فوجی دستہ ایک ہاشمی قائد یعنی اپنے بھتیجے عیسیٰ بن موسیٰ بن محمد الامام بن علی السجاد بن عبدالله بن العباس کی قیادت میں بھیجا تھا اس میں ہاشمیوں کے سب ہی گھرانوں کے نمائندے شامل تھے۔ اور اس بات کا خاص اہتمام تھا کہ حسنی باغی کے مقابلے کے لیے اس کے اہل خاندان حسنی و حسینی و جعفری و عقیلی بڑی تعداد میں جائیں تاکہ اس بغاوت کی حقیقت اور اصلیت جو محض نسبی و خاندانی تعلیوں کی بنا پر کی گئی سب پر واضح ہو جائے۔ طبری و دیگر مورخین نے ی چند نام ان ہاشمیوں کے لکھے بھی ہیں یعنی محمد الارقط کے چچازاد بھائی (۱)قاسم بن حسن بن زید بن حسن بن ابی طالب (۲)عبدالله بن حسین الاصغر بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (محمد الارقط نے انھیں مار ڈالنے کی دہمکی دی تھی یہ بھاگ آئے تھے)، (۳)عمر بن محمد بن عمر بن علی ابی طالب، (۴)عبدالله بن محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب (۵)عبدالله بن اسمٰعیل بن عبدالله بن جعفر بن ابی طالب (۶)محمد ابی الکرام بن عبدالله بن علی بن عبدالله بن جعفر بن ابی طالب (یہ حضرات حسنین کی بہن سیدہ زینب کے حقیقی پوتے تھے (۷)قاسم بن عبدالله بن محمد بن عقیل بن ابی طالب (۸)ابو عقیل محمد بن عبدالله بن محمد بن عقیل بن ابی طالب سرکاری دستہٴ فوج کے قائد نے جب اہل مدینہ کو یہ پیغام بھیجے کہ جو لوگ اس مخصے سے الگ ہیں ان کو امان ہے تو آخرالذکر عقیلی بزرگ مع اپنے چند اعزہ کے سرکاری لشکر میں چلے آئے تھے۔
     
  2. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    امیرالمومنین المنصور نے فوجی دستے بھیجتے وقت عیسیٰ بن موسیٰ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا۔

    یا عیسیٰ! انی ابعثک الیٰ جنبی ھذین فان ظفرت بالرجل فثم سیفک وفاد نی الناس بالامان۔ (البدیہ والطبری)
    اے عیسیٰ میں تم کو اس کی طرف بھیج رہا ہوں جو میرے ان دونوں پہلوؤں کے درمیان ہے یعنی میرا عزیز قریب ہے۔ اگر تم (محمد الارقط کو زندہ) پکڑ سکو تو اپنی تلوار نیام تک کر لینا یعنی قتل نہ کرنا، اور لوگوں کو امان دینے کا اعلان کر دینا۔

    ہاشمی خاندان کے ایک فرد ہونے کے علاوہ محمد الارقط کے امیرالمومنین سے اور بھی کئی رشتے تھے۔ محمد کے والد عبدالله بن حسن مثنیٰ کی پھوپی ام کلثوم بنت حسین بن حسن بن علی بن ابی طالب امیرالمومنین المنصور کی دادی یعنی جناب علی السجاد بن عبدالله بن العباس کی زوجہ تھیں (نسب قریش، ص۵۰) نیز محمد کے حقیقی چچا محمد بن حسن مثنیٰ کی صاحبزادی کہ ان کا نام بھی ام کلثوم تھا امیرالمومنین کی چچی تھیں یعنی عیسیٰ بن علی السجاد بن عبدالله بن العباس کے نکاح میں تھیں (ایضاً، ص۵۳) اور خود محمد الارقط کی اپنی بیٹی زینب امیرالمومنین المنصور کی بہو تھیں یعنی ان کے بھتیجے محمد بن امیرالمومنین عبدالله ابی العباس السفاح کی زوجہ تھیں۔

    فکانت زینب بنت محمد عند محمد بن ابی العباس امیرالمومنین۔ (نسب قریش، ص۵۵)
    اور (محمد الارقط) کی بیٹی زینب امیرالمومنین ابو العباس (السفاح) کے فرزند محمد کی زوجیت میں تھی۔

    محمد الارقط کے یہ داماد محمد بن ابو العباس السفاح بھی اپنے ہاشمی عزیزوں کے ساتھ اسی فوجی دستے میں شامل تھے جو ان کے خسر کی بغاوت فرو کرنے بھیجا گیا تھا۔ طبری کی روایتوں میں بیان ہے کہ مدینہ پہنچ کر فوجی دستے کے سردار نے تین دن متواتر محمد اور ان کے ساتھی باغیوں کو بغاوت سے باز رکھنے کی طرح طرح کوشش کی حتیٰ کہ اپنے ساتھی حسنی و حسینی و جعفری و عقیلی نسب دس اشخاص کو بھیجا کہ محمد کو سمجھائیں محمدﷺ نے الٹا لڑنے آئے ہو نے ابی الکرام جعفری نے جواباً کہا کہ تم باز نہ آئے تو ہمیں بھی تم سے اسی طرح لڑنا پڑے گا جس طرح تمھارے دادا علی، طلحہ و زبیر سے اسی لیے تو لڑے تھے کہ ان دونوں نے ان کی بیعت توڑ دی تھی اسی بات کا اظہار امیرالمومنین نے اپنی مشہور تقریر میں کیا تھا جو بغاوتوں کے فرو ہونے کے بعدکی تھی یہ پوری تقریر طبری میں نقل ہے امیرالمومنین نے فرمایا تھا کہ محمد کے اپنے گھر کا کوئی شخص بوڑھا ہو یا جوان، چھوٹا ہو یا بڑا ایسا نہ بچا جس نے میرے بھیجے ہوئے لوگوں سے رقمیں نہ لے لی ہوں اور ان کے ہاتھ پر میری ایسی بیعت نہ کی ہو جس کے توڑ دینے پر میرے لیے ان کی سزا وہی ملال نہ ہو گئی ہو (طبری) مورخ طبری کی ان روایتوں سے اس اتہام کی قلعی کھل جاتی ہے جو مودودی صاحب نے یہ کہہ کر لگایا ہے کہ "خود المنصور نے دوسرے بہت سے لوگوں کے ساتھ جو اموی سلطنت کے خلاف بغاوت کرنا چاہتے تھے نفس زکیہ (محمد الارقط) کے ہاتھ پر بیعت کی تھی" ان کا یہ کہنا بھی محض بے اصل ہے کہ ان دونوں بھائیوں (محمد و ابراہیم) کی خفیہ تحریک بنی امیہ کے زمانے سے چل رہی تھی یہ تو خالص وضعی اور خیالی بات ہے ان دونوں بھائیوں کے عالم وجود میں آنے سے بھی پہلے سے وہ تحریک چل رہی تھی جس مورخین نے "دعوت عباسیہ" کے نام سے بیان کیا ہے چنانچہ طبری (ج۸، ص۱۳۵) نے بنی العباس کی "اول الدعوة" کے جلی عنوان کے تحت ۱۰۰ھ کے واقعات کے مضمون میں بتایا ہے کہ:

    وفی ھذا السنة اعنی سنتہ وجّہ محمد بن علی بن عبدالله بن عباس من ارض الشراةمیسرہ الی العراق ووجّہ محمد بن خنیس وابا عکرمة السراج وھوا ابو محمد الصادق وحیّاں العطار الی خراسان ۔۔۔ وامرھم بالدعاء الیہ والیٰ اھل بیتہ۔
    اور اس سنہ یعنی ۱۰۰ھ میں محمد بن علی بن عبدالله بن عباس نے مقام ستراة سے (جہاں اموی حکومت نے عباسی امام اور ان کے گھر والوں کو نظربند کر دیا تھا) میسرہ کو عراق اور محمد بن خنیس، ابوعکرمہ السراج کو جنھیں محمد الصادق بھی کہتے تھے اور حیان العطار کو خراسان بھیجا اور انھیں حکم دیا کہ میرے اور میرے خاندان والوں کے لیے لوگوں کو دعوت (بیعت خلافت کی) دیں

    طبری کے علاوہ دیگر کتب تاریخ نیز الہدایہ والنہایة (ج۹، ص۱۸۹) میں بعنوان جلی دعوت عباسیہ کی ۱۰۰ھ میں ابتدا ہونے کا ذکر تفصیلاً کرتے ہوئےلکھا ہے "وفیھا کان بدّودعوة بنی العباس" امیرالمومنین ابو جعفر المنصور کے والد ماجد امام محمد بن امام علی السجّاد بن سیدنا عبدالله بن العباس نے دعوتِ عباسیہ کے حامی ممالک یعنی عراق و خراسان وغیرہ ہمیں تبلیغ و اشاعت کے لیے بارہ نقیب مقررکیے تھے جن کی تعداد بعد میں ستّر ہو گئی تھی ان عباسی نقباء کے حالات اور ان کی جانثارانہ کارگزاریاں صفحات تاریخ پر ثبت ہیں برخلاف علویوں کے جن کے خروج اور بغاوتیں تمام تر نسبی تعلّیوں اور شخصی و ذاتی مفادات کے پست ترین اغراض سے وابستہ رہیں۔ دعوتِ عباسیہ کا عظیم و وحید مطمح نظر ملّتِ اسلامیہ کے عمومی مفاد کے خاطر عرب وغیر عرب کے غیر اسلامی امتیازات کو ختم کرکے اسلامی معاشرے میں اصول مساوات کو بروئے کار لا کر سیاسی انقلاب بپا کرنا تھا اس پرآشوب زمانے میں جب کہ بعض اموی خلفاء کی غلطیوں سے جو مودودی صاحب کو بھی تسلیم ہے کہ ایک طرف تو مصری و یمنی عرب قبائل میں عصبیت جاہلیہ کے جذبات سے خوفناک خوں ریزیاں ہو رہیتھیں اور دوسری جانب حکومت کے تمام شعبوں، منصبوں اور عہدوں کے دروازے غیر عرب مسلمانوںپر کلیتاً بند تھے غیر عرب باشندے جنھوں نے اسلام کی ابتدائی ایک صدی کی مدت میں اسلامت تعلیمات سے بہرہ ور ہو کر اپنی ذہنی اخلاقی و علمی صلاحیتوں سے اسلامی معاشرے میں اپنا مقام پیدا کرلیا تھا اپنا واجبی حصہ حاصل کرنے کے لیے مضطرب و بے چین تھے۔ دعوت عباسیہ کو بڑی خوش دلی سے لبیک کہا گیا اموی حکومت نے بعض عباسی نقیبوں کو باغیانہ سرگرمیوں کے جرم میں موت کی سزا بھی دی مگر عباسی امام سے دیگر نقباء کا رابطہ برابر قائم رہا عباسی امام اور ان کے قریبی عزیزوں کو بھی اموی حکومت نے ان کے وطن مدینہ منورہ سے خارج البلد کرکے پہلے اور مقامات پر اور بالآخر قصبہ حمیمہ (نزد شام) میں نظر بند کر دیا صرف موسم حج میں حرمین شریفین جانے کی اجازت تھی اس تمام مدّت میں جو ربع صدی کا زمانہ ہوتا ہے ان دونوں حسنی باغیوں محمد الارقط و ابراہیم کے اہلِ خاندان خصوصاً ان کے والد عبدالله بن حسن مثنیٰ کے اموی خلفا سے گہرے روابط قائم تھے انھوں نے اپنی حقیقی بہن زینب کو جو حرت حسن بن علی کی حقیقی پوتی اور حضرت حسین کی حقیقی نواسی تھیں اموی خلیفہ الولید بن عبدالملک کے حبالہٴ عقد میں دے دیا تھا۔

    فکانت زینب بن حسن بن حسن بن علی عند الولید بن عبدالملک بن مروان وھوا خلیفہ۔ (نسب قریش، ص۵۲)
    اور زینب دختر حسن (مثنیٰ) بن حسین بن علی (بن ابی طالب) خلیفہ الولید بن عبدالملک بن مروان کے حبالہ عقد میں اس وقت آئیں جب وہ خلیفہ تھے۔







     
  3. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    محمد الارقط کے والد یہ عبدالله حسنی اموی خلفاء کے حاشیہ نشین بھی رہے دعوتِ عباسیہ جب وسیع پیمانہ پر پھیل گئی تھی شیعہ مولف عمدة الطالب کے حسب روایت ایک عباسی داعی نے جب ابراہیم امام عباسی کو یہ اطلاع دی کہ قد اخذت لک البیععة بخراسان اجتمعت لک الجیوش (یعنی خراسان میں آپ کی بیعت لے لی گئی ہے اور آپ کے واسطے لشکر بھی جمع ہو گئے ہیں) ان عبدالله کو بھی اس کاپتہ لگ گیا انھوں نے اموی خلیفہ سے تحریراً مخبری کر دی اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ من انی بری من ابراہیم ومحدت یعنی میں ابراہیم (امام عباسی) کی اس کارروائی سے بری الذمہ ہوں ایک اور شیعہ مورخ نے اپنی مشہور تالیف مقاتل الطالبین (ص۲۵۷ و ۲۵۹) میں صراحتاً بیان کیا ہے کہ اموی خلیفہ نے عبدالله حسنی کو اس مخبری و جاسوسی کے صلے میں گرانقدر رقم بھی عطا کی تھی دعوتِ عباسیہ کے قائد اس وقت ابراہیم امام محمد بن امام علی السجاد بن سیدنا عبدالله بن العباس تھے اموی حکومت نے محمد الارقط کے باپ کی اس جاسوسی کے نتیجے میں ان کو یکایک گرفتار کرکے مقام حدّان میں قید کر دیا۔ بحالتِ قید ان کی غیر طبعی موت واقع ہوگئی جس کا لوگوں کے قلوب پر بڑا اثر پڑا تھا جو ابن سلمہ قریشی کے مرثیہ کے ان چند اشعار سے بھی ظاہر ہوتا ہے ابن سلمہ نے کہا تھا:

    قد کنت احسبنی حلال فضعضفنی
    میں تو اپنے کو بہت چست و چالاک خیال کرتا تھا مگر
    فیہ امام وخیر الناس کلھم
    اس قبر میں دو امام ہیں جن کے مرنے کی مصیبت عام ہے
    فلا عفا الله من مروان مظلمة
    پس خدا معاف نہ کرے مروان کے اس ظلم کو
    قبر بحرّان فیہ عصمہ الدین
    مجھ کو سست کر دیا اس قبر نے جو حرّان میں ہے
    بین الصفائع والا حجار والطین
    ان کی موت نے مالدار اور مسکین کو یتیم کر دیا
    لکن عفا الله فمن قال امین
    لیکن خدا معاف کرے جس نے میری اس دعا پر آمین کہی

    عباسی امام کے وہ سب کے سب بھائی بھتیجے جنھیں اموی حکومت نے قصبہ حمیمہ میں نظر بند کر رکا تھا محمد الارقط کے والد عبدالله حسینی کی اس جاسوسی کی بھنک پاتے ہی بسرعت تمام (بحسن تدبیر اپنے طرف داروں عباسی نقیبوں کے پاس عراق جا پہنچے جہاں عباسی امام ابراہیم شہید کے حسب وصیت ابوالعباس عبدالله السفاح کی بیعت ہو کر اموی حکومت کا تختہ الٹ گیا۔ یہ ہے سیاسی انقلاب کی وہ صحیح صورت حال جس کے بارے میں زمانہ حال کے شیعہ مورخ مسٹر جسٹس امیر علی کو بھی یہ تسلیم کر لینا پڑا کہ دعوت عباسیہ کے ذریعے جو سیاسی انقلاب رونما ہوا اس کا آئيڈیل اور مطمح نظر ایسا ارفع و اعلیٰ تھا کہ زمانہ ماضی و حال میں جس کی مثال نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ:

    "ایسا زبردست سیاسی انقلاب نہ زمانہ ماضی میں رونما ہو سکا اور نہ زمانہٴ حال میں اس انقلاب کی بدولت اخوت و مساوات انسانی کے جمہوریت پرور اصول عملی طور سے ماخذ ہوئے یہی اصلی باعث اور سبب تھا عباسی خلافت کے غیرمعمولی استحکام و قوت کا اور اس کی مذہبی عظمت کی پائيداری کا کہ دینوی اقتدار کے انحطاط و زوال کے بعد بھی اس کی مذہبی عظمت باقی رہی عباسی خاندان کے ابتدائی حکمرانوں نے اپنی تمام رعایا میں نسلی و طبقاتی مساوات کے بنیادی اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی سلطنت کے ڈھانچے کو کچھ اس طرح استوار کیا کہ پانچ صدیوں تک بلاکسی مدمقابل کے قائم رہی اور خاتمہ بھی ہوا تو باہر کے وحشیوں کے یلغار سے۔ (ص۴۰۳، ہسٹری آف سیر یسفیر)

    الغرض دعوت عباسیہ کی مقبولیت عوام الناس میں اسی بنا پر تھی جسے شیعہ مورخ نے مندرجہ بالا فقرے میں بیان کیا ہے مودودی صاحب کا قول محض بے اصل اور باطل ہے کہ محمد و ابراہیم کی کوئی تحریک "عباسی دعوت کے متوازی چل رہی تھی اور اس کی تنظیم بھی عباسی دعوت سے کم نہ تھی" ان خیالی باتوں کی قلعی تو محمد و ابراہیم کے پدر بزرگوار کے اس واقعہ ہی سے پوری طرح کھل جاتی ہے کہ جوں ہی امیرالمومنین ابو العباس عبدالله السفاح نبیرہٴ جرالامت حضرت عبدالله بن عباس کی بیعت ہو کر خلافت عباسی قائم ہو گئی اموی خلیفہ کے یہ مخبر و جاسوس عبدالله حسینی مدینہ سے چل کر امیرالمومنین کی خدمت میں تہنیت کے لیے الانبار (کوفہ) پہنچ گئے عالی ظرف عباسی خلیفہ ان کے پست کردار سے صرف نظرکرتے ہوئے اپنی دریا دلی سے کہ طبعاً بڑے سخی تھے کان السفاح اسخی الناس ابتا (تاریخ الخلفاء) اور اسی سخاوت ودریا دلی سے السفاح کہلائے ان کو بھی اگر بنہا عطیات سے نوازا مورخ طبری نے یہ واقعہ تفصیل سے لکھا ہے اور کہا ہے :

    قدم عبدالله بن حسن علی ابی العباس بالانبار فاکرما وحبّاہ وقربة وادناة ووضع شیئاً لم یضھہ باجہِ۔ (ج۱۳، ص۱۰۱)
    عبدالله بن حسن (امیرالمومنین) السفاح کی خدمت میں انبار حاضر ہوئے خلیفہ نے عزت توقیر کی محبت کا برتاؤ کیا عزیز کی طرح اپنے پاس ٹھہرایا اور ایسی بات لطف و احسان کی ان کے ساتھ کی جو کسی اور کے ساتھ نہ کی تھی۔

    پھر مورخ طبری نے بتایا ہے کہ جواہرات کے صندوقچے سے نصف ان کو عطا فرمائے، عبدالله اتنے مسرور ہوئے کہ بے ساختہ چند شعر زبان سے ادا ہو گئے جن سے رشک و حسد کا اظہار ہوتا تھا پھر اپنی حرکت پر متنبہ ہو کرکہنے لگے:
    یا امیرالمومنین ھفوة کانت والله ما اردت بہا سواً (ایضاً)
    اے امیرالمومنین یہ میری بکواس ہوئی ختم بخدا میرا ارادہ اس سے برائی کا نہ تھا۔

    امیرالمومنین نے ان کی معذرت قبول کرتے ہوئے اپنے برتاؤ میں کوئی فرق نہ آنے دیا۔ بلکہ عبدالله کی اس درخواست کو بھی شرف قبولیت بخشا کہ ان کی پوتی زینب دختر محمد الارقط امیرالمومنین کے نوعمر فرزند محمد کے حبالہ عق میں آئے اس رشتے کا ذکر پچھلے اوراق میں آچکا ہے۔ امیرالمومنین عبدالله السفاح کے چند سالہ عہد خلافت میں عبدالله حسنی کئی مرتبہ حاضر ہوئے ایک مرتبہ قرآن شریف بغل میں دبا کر حاضر دربار ہوئے اور کہنے لگے "اے امیرالمومنین ہمارا حق ہمیں دیجیے جو الله تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ہمیں دیا" امیرالمومنین عبدالله السفاح بڑے حاضر جواب تھے۔ برجستہ فرمایا۔ "تمھارے دادا علی بن ابی طالب جو مجھے سے بہتر اور زیادہ عدل کرنے والے تھے انھوں نے اپنے ایام خلافت میں تمھارے دونوں بزرگوں حسن و حسین کو جو تم سے زیادہ بہتر اور برتر تھے کیا اس سے کچھ زیادہ دیا جو اب تم کو دیا جاتا ہے۔ (ص۵۹، ج۱۰، البدایہ والنہایہ)عبدالله یہ معقول جواب سن کر سٹپٹا کر رہ گئے اپنے غلط طالبہ کی نامنظوری سے مشتعل ہو کر حکومت کے خلاف بغاوت کی ریشہ دوانیاں شروع کردیں۔ امام ابوحنیفہ کی ذات گرامی پر صریح اتہام ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی برپا کی ہوئی شورشوں کی تائید اور باغیوں سے ہمدردی کا برتاؤ کر سکتے تھے جن کے کردار کی پستی کی یہ کیفیت ہو کہ ایک طرف تو سربراہ حکومت و خلیفہ وقت کے یہاں برابر حاضر ہوں "یا امیرالمومنین" کہہ کر مخاطبکریں اور بیعت اطاعت و فرمانبرداری کا اظہار کریں عطیات و وظائف کی بیش بہار قوم بار بار حاصل کرکے شاد کام بھی ہوں، مزید مطالبات کے لیے بھرے دربار میں قرآن شریف ہاتھوں پر رکھ کر بیت المال میں خمس و فی پر اپنا حق جتائیں اور امیرالمومنین سے رشتہٴ ودا دو محبت استوار کرنے کی خاطر ان کے فرزند دلبند کے حبالہٴ عقد میں اپنی دختر نیک اختر بھی دیں اور دوسری طرف اسی حکومت و خلافت کی جڑیں اکھاڑنے اور اپنی خاندانی حکوت قائم کرنے کے لیے بغاوت کی خفیہ خفیہ تیاریاں بھی کریں۔ عبدالله حسنی اور ان کے بیٹوں کے غلط اقدام بغاوت کو صحیح بتانے کے لیے امام اعظم کا نام کذاب راویوں نے استعمال کرنے کی حماقت کی تھی مودودی صاحب نے اس کے مضمرات پر غور کیے بغیر وہی روایت نقل کر دی جو محض بے امن ہے۔

    محمود احمد عباسی
    حقیقت خلافت و ملوکیت
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں