کیا یہ سود ہے ؟

جيلة نے 'آپ کے سوال / ہمارے جواب' میں ‏مئی 4, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. جيلة

    جيلة -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏اگست 27, 2009
    پیغامات:
    12
    السلام علیکم

    کیا گاڑی کو تقسیط پر خریدنا سود میں‌داخل ہے؟؟

    نوٹ:
    تقسیط‌کی صورت میں‌گاڑی کی قیمت میں‌ 10ہزار تک اضافہ کیا گیا ہے


    آج کسی نے بتایا کہ یہ بھی سود ہے

    تو کیا اب ہم یہ گاڑی واپس کر دیں‌؟؟
    کیونکہ ہم اللہ سے جنگ کا سوچ بھی نہیں سکتے ؟

    تفصیلی جواب سے نوازیں

    سود آخر ہے کیا ؟؟

    اس کی پہچان کیسے ہوگی ؟؟
    تاکہ اس سے بچانا آسان ہو

    جزاک اللہ خیرا
     
  2. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    یقینا یہ سود ہے
    جی یہ بیع ختم کر دی جائے
    سود کی بہت سی أقسام ہیں‌ اور انکی پہچان ان تمام تر اقسام کو جاننے سے ہو سکتی ہے
    سود کی جامع مانع تعریف اللہ اور اسکے رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے نہیں‌ بتائی لہذا ہم بھی سود کی کوئی جامع مانع تعریف نہیں‌ کرسکتے آجتک لوگوں نے جتنی بھی سود کی تعریفیں‌ کی ہیں‌ سب ہی ناقص وغیر جامع و غیر مانع ہیں
    بیع تقسیط کے بارہ میں‌ مزید جاننے کے لیے فضیلۃ الشیخ حافظ عبد المنان نور پوری حفظہ اللہ کے مضمون مناقشۃ أدلۃ من أباح بیع التقسیط کا مطالعہ فرمائیں

    http://www.archive.org/download/TqseeT/TqseeT.pdf
     
  3. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    و علیکم السلام
    الاسلام سوال و جواب پر اس کی تفصیل یہاں ملاحظہ کی جا سکتی ہے :
    كيا سامان كي قيمت بڑھا كرقسطوں ميں فروخت كرنا جائز ہے ؟

    مکمل تفصیل تو بالا فتوے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ خلاصہ کچھ یوں ہے کہ :
    اگرچہ قيمت ادھار كرنےميں جواز كي نصوص وارد ہيں ليكن اس كي كوئي دليل اور نص نہيں ملتي كہ ادھار كي وجہ سے قيمت بھي زيادہ كرني جائز ہے.

    اسي ليے علماء اكرام اس مسئلہ كےحكم ميں اختلاف كرتےہيں:
    1 : بہت كم علماء اس كي حرمت كےقائل ہيں اس ليے كہ يہ سود ہے. ان كا كہنا ہےكہ: اس ليے كہ اس ميں قيمت زيادہ ہے اوريہ زيادہ قيمت مدت كے عوض ميں ہے اور يہي سود ہے.
    2 : مگر ۔۔۔ جمہور علماء كرام جن ميں آئمہ اربعہ شامل ہيں اس كےجواز كے قائل ہيں . اس پر انہوں نے كتاب وسنت سے دلائل بھي ليے ہيں۔

    یہ تمام دلائل متذکرہ فتویٰ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
     
  4. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
  5. طالب نور

    طالب نور -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 28, 2008
    پیغامات:
    366
    جو علماء قسطوں پر چیز کی زیادہ قیمت لینے کے قائل ہیں ان کے دلائل اس بارے میں صریح نہیں اور راجح یہی ہے کہ قسطوں پر زیادہ اور نقد میں کم قیمت لینا جائز نہیں اور اس پر دلاءل صریح اور واضح ہیں۔
    1۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سود ادھار میں ہوتا ہے نقد میں سود نہیں۔" (صحیح بخاری:2178)
    2۔ سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چیز کی دو قیمتیں مقرر کرنے سے منع کیا ہے۔" (سنن ترمذی:1231)
    3۔ سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ بھی مرفوعا مروی ہے : "جو شخص کسی چیز کی دو قیمتیں مقرر کرے گا یا تو وہ کم قیمت لے گا یا پھر وہ سود ہے۔" (سنن ابو داود:3461)
    اس صاف وضاحت کے باوجود غیر صریح روایات سے استدلال کر کے اس کام کو جائز کہنا کیسے درست ہے؟ لہٰذا اس کو جائز کہنے والے علماء کا مئوقف صحیح نہیں چاہے ان کی تعداد زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ دلیل کے مقابلے میں تعداد کوئی وقعت نہیں رکھتی۔
    4۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "ایک عقد میں دو معاملے کرنا جائز نہیں کہ ایک شخص کہے کہ اگر تم نقد خریدو تو اتنے روپے میں اور ادھار خریدو تو اتنے روپے میں۔" (مصنف عبدالرزاق:14633)
     
  6. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    محترم طالب نور بھائی ، آپ نے لکھا ہے :
    دلیل کے مقابلے میں تعداد کوئی وقعت نہیں رکھتی۔

    اگر برا نہ مانیں تو یہ ضرور بتائیں کہ ۔۔۔۔۔ کیا آپ کے اس فقرے کا یہ مطلب نکالا جا سکتا ہے کہ :
    جمہور تو دلیل کو نہیں سمجھ پائے اور ایک عامی سمجھ گیا ہے !!
     
  7. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    جواب ان شاءاللہ اگلے مراسلے میں !
    ان دونوں روایات میں ادھار اور نقد کی صراحت نہیں ہے !!
    دوسری بات یہ کہ ۔۔۔۔۔۔ جس فتویٰ کا لنک میں نے دیا ہے ۔۔۔۔۔ اسی میں لکھا ہے کہ ۔۔۔۔۔
    روایت کی صحت سے قطع نظر ۔۔۔۔۔۔۔
    یاد رہے کہ اس روایت میں ادھار کی "مخصوص مدت کے تعین" کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لہذا اس معاملے میں یہ روایت دلیل نہیں بنتی !
     
  8. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    صحیح بخاری کی روایت کے وہ الفاظ یہ ہیں :
    [QH]سمع أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ يقول الدينار بالدينار، والدرهم بالدرهم‏. فقلت له: فإن ابن عباس لا يقوله، فقال أبو سعيد: سألته، فقلت: سمعته من النبي صلى الله عليه وسلم، أو وجدته في كتاب الله؟. قال: كل ذلك لا أقول، وأنتم أعلم برسول الله صلى الله عليه وسلم مني، ولكنني أخبرني أسامة: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (لا ربا إلا في النسيئة).‏[/QH]

    ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔۔۔۔۔
    دینار، دینار کے بدلے میں اور درہم درہم کے بدلے میں ( بیچا جا سکتا ہے ) اس پر میں نے ان سے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما تو اس کی اجازت نہیں دیتے۔
    ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کے متعلق پوچھا کہ آپ نے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا یا کتاب اللہ میں آپ نے اسے پایا ہے؟
    انہوں نے کہا کہ ان میں سے کسی بات کا میں دعویدار نہیں ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( کی احادیث ) کو آپ لوگ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ البتہ مجھے اسامہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( مذکورہ صورتوں میں ) سود صرف ادھار کی صورت میں ہوتا ہے۔

    علامہ داؤد راز اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
    حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا مذہب یہ ہے کہ :
    بیاج اس صورت میں ہوتا ہے جب ایک طرف ادھار ہو۔ اگر نقد ایک درہم دو درہم کے بدلے میں بیچے تو یہ درست ہے۔
    ابن عباس رضی اللہ عنہما کی دلیل یہ حدیث ہے :
    [AR]لا ربوا الا فی النسیئۃ[/AR]
    حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس فتوی پر جب اعتراضات ہوئے تو انہوں نے کہا :
    میں یہ نہیں کہتا کہ اللہ کی کتاب میں میں نے یہ مسئلہ پایا ہے، نہ یہ کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ کیونکہ میں اس زمانہ میں بچہ تھا اور تم جوان تھے۔ رات دن آپ کی صحبت بابرکت میں رہا کرتے تھے۔

    قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے فتوے کے خلاف اب اجماع ہو گیا ہے۔ بعض نے کہا کہ یہ محمول ہے اس پر جب جنس مختلف ہوں۔ جیسے ایک طرف چاندی دوسری طرف سونا، یا ایک طرف گیہوں اور دوسری طرف جوار ہو ایسی حالت میں کمی بیشی درست ہے۔ بعض نے کہ حدیث "[AR]لا ربوا الا فی النسیئۃ[/AR] " منسوخ ہے مگر صرف احتمال سے نسخ ثابت نہیں ہوسکتا۔ صحیح مسلم میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
    "نہیں ہے بیاج اس بیع میں جو ہاتھوں ہاتھ ہو۔ "
    بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس قول سے رجوع کر لیا تھا۔

    امام شوکانی فرماتے ہیں :
    حازمی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اس سے رجوع اور استغفار نقل کیا ہے جب انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے سے اس بیع کی حرمت میں فرمان رسالت سنا تو افسوس کے طور پر کہا کہ آپ لوگوں نے فرمان رسالت یاد رکھا، لیکن افسوس کہ میں یاد نہ رکھ سکا۔ اور بروایت حازمی انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے جو کہا تھا وہ صرف میری رائے تھے، اور میں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے حدیث نبوی سن کر اپنی رائے کو چھوڑ دیا۔

    *******
    طالب نور بھائی !
    آپ نے دیکھا کہ کس طرح علامہ داؤد راز یہاں بدلیل سمجھا رہے ہیں کہ ۔۔۔۔۔
    صحیح بخاری میں درج یہ قول : "سود ادھار میں ہوتا ہے نقد میں سود نہیں۔"
    قولِ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نہیں ہے ، بلکہ یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی انفرادی رائے تھی جس سے انہوں نے رجوع بھی کر لیا تھا۔

    صحیح بخاری کی یہ شرح آن لائن یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔
     
  9. طالب نور

    طالب نور -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 28, 2008
    پیغامات:
    366
    ہرگز نہیں میرے قول کا یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جا سکتا کیونکہ یہ تب ہوتا جب کسی دلیل کا مفہوم میں خود سے جمہور کے خلاف دیتا۔ مگر جب آئمہ محدثین کا ایک گروہ اور پھر خود صحابی رسول ایک بات کا مطلب خود سمجھا رہے ہیں تو اس کے مقابلے میں بلا دلیل بعد والوں کی بات حجت نہیں۔ باقی تفصیل پھر سہی۔ والسلام۔
     
  10. طالب نور

    طالب نور -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 28, 2008
    پیغامات:
    366
    السلام علیکم،
    اس موضوع پر شیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ کا مضمون "قسطوں کا کاروبار شریعت کی نظر میں" پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جس میں انہوں نے نہ صرف قسطوں کے کاروبار کے خلاف صریح دلائل پیش کیے ہیں بلکہ اس کے جواز کے قائلین کے شبہات کا بھی تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ یہ مضمون ماہنامہ الحدیث:شمارہ نمبر40 میں چھپ چکا ہے۔ نیز شیخ مبشر احمد ربانی کے فتاویٰ احکام و مسائل (2 جلد طبع دارالاندلس) میں بھی موجود ہے۔ والسلام
     
  11. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    محترم باذوق بھائی ابھی تک کوئی ایسی "دلیل" نہیں‌ پیش فرماسکے جس سے یہ آشکار ہوتا ہو کہ نقد ادھار کی قیمتوں کے فرق کے ساتھ ادھار بیع جائز ہے
    انہیں اگر کوئی ایسی دلیل میسر ہے تو ضرور ذکر فرمائیں
    فجزاہ اللہ خیرا الجزاء
     
  12. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940

    نہیں‌ ہر گز نہیں‌!!!
    ہاں‌ یہ مطلب نکالا جاسکتا ہے کہ علماء کی ایک بہت بڑی تعداد سہو کا شکار ہوسکتی ہے اور چند ایک علماء کی رائے انکے مقابلہ میں‌ سدید ہو سکتی ہے
    لیکن آراء کی ترجیح و تصحیح میں‌ محک ومیزان کتاب وسنت ہی ہے
    کیونکہ الجماعۃ ما وافق الحق ولو کنت وحدک ......!!!
     
  13. طالب علم

    طالب علم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2007
    پیغامات:
    960
    شیخ عبدالرحمٰن کیلانی کا موقف

    نقد اور ادھار کی الگ الگ قیمت ممنوع ہے:

    [ar]عن ابی ھریرۃ قال نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن بیعتین فی بیعۃ[/ar]

    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک ہی چیز کو دو مختلف صورتوں میں بیچنے سے منع فرمایا

    (الموطا کتاب البیوع باب النھی عن بیعتین فی بیعۃ، ترمزی کتاب البیوع باب ما جاء فی النھی عن بیعتین فی بیعۃ (1231) نسائی کتاب البیوع باب بیعتین فی بیعۃ (4646) اس کی سند حسن ہے)

    [ar]من باع بیعتین فی بیعۃ فلہ او کسھما او الربا[/ar]

    (ابوداود کتاب الاجارۃ باب فیمن باع بیعتین فی بیعۃ (3461) ابن حبان (1110 موارد) تھمید 1389/24 ابن ابی شیبۃ 120/6 المستدرک 45/2 اس حدیث کو امام حاکم اور امام ذہبی نے مسلم کی شرط پر صیح کہا ہے)

    جس کسی نے ایک چیزدو مختلف صورتوں میں بیچی تو خریدار کم قیمت والی کا مستحق ہے یا پھر وہ سود ہے

    بعض علماء کا خیال ہے ۔ ایک بیع میں دو بیع کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جبکہ ایک ہی شخص سے یہ کہا جائے کہ نقد لو تو چار سو روپے اور چھ ماہ کے ادھار پر لو تو ساڑھے چارسو روپے۔ لیکن اگر ایک شخص نقد کی قیمت ہی الگ کرتا ہے اور نقد والوں کو چار سو روپے میں دیتا ہے اور ادھار کی قیمت ہی ساڑھے چار سو رہپے رکھتا ہے اور ادھار والوں کو اس نرخ پر دیتا ہے۔ تو یہ جائز ہے کیونکہ یہ ایک ہی شخص سے دو بیع نہیں ہیں۔

    ہم اس جواب پر مطئن نہیں کیونکہ ہمارے ہاں اقساط پر فروخت کرنے کا عام رواج ہے اور یہ ایک آدمی سے ایک ہی بیع ہوتی ہے لیکن اگر کوئی شخص اپنی باقی ماندہ اقساط یک مشت ادا کردے تو اقساط کی نسبت سے باقی قیمت میں کمی کر دی جاتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اس ادھار میں سود نہ تھا، تو اس میں اقساط کی نسبت سے مقررہ نرخ پر رقم مجرا کیسے مل جاتی ہے؟
    ہاں اگر کسی نے ایک چیز تین ماہ کے ادھار پر خریدی۔ اور تین ماہ گزرنے سے پیشتر ہی رقم میسر آ گئی اور رقم بائع کے حوالے کردے اور بائع خوش ہو کر اپنی مرضی سے کچھ رقم چھوڑ دے یا واپس کردے جو اس نے طے نہ کی تھی تو یہ صورت جائز ہے اور اس میں کچھ قباحت نہیں۔

    بحوالہ: احکام تجارت اور لین دین کے مسائل، تالیف: مولانا عبدالرحمٰن کیلانی، تخریج: مولانا مبشر احمد ربانی، صفحہ: 120-121
     
  14. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    میرے ناقص خیال میں ، اس معاملے میں "فریقِ ثانی" میں بذاتِ خود اس لیے نہیں ہوں کہ میں نے یہاں کوئی فتویٰ اپنی طرف سے نہیں دیا ہے۔
    اس معاملے میں فریقِ ثانی ، الاسلام سوال و جواب کے علماء ہیں ، جن کے حوالے میں نے مراسلات نمبر:3 اور 4 میں دئے ہیں۔
    گذارش ہے کہ جتنے بھی روابط ان دونوں مراسلات میں دئے گئے ہیں ، ان کا تفصیلی مطالعہ کر لیا جائے۔
    اس کا فیصلہ نہ آپ کر سکتے ہیں اور نہ میں۔
    یہ فیصلہ کہ کس کی رائے سدید ہے اور کس کی رائے میں سہو پایا جاتا ہے ، امت کے معتبر علماء کے اجماع کے حوالے سے سامنے لایا جانا چاہئے!
    دورِ حاضر میں مسلمانوں کا کوئی بھی فرقہ ایسا نہیں ہے جو اس بات کو نہ مانتا ہو۔
    جبکہ یہاں یہ مسئلہ ہے ہی نہیں۔
    بلکہ یہ ہے کہ جب کتاب و سنت میں کسی معاملے کی کوئی واضح تشریح نہ ہو تب کس کا "فہم" معتبر قرار پائے گا؟
    ظاہر ہے کہ "فہمِ صحابہ" حجت قرار پائے گا۔ اب اگر صحابہ کا فہم بھی کسی معاملے میں دستیاب نہ ہو تب ظاہر ہیکہ ائمہ دین کے اجتہاد کی جانب رجوع کیا جائے گا۔
    اگر کسی کو مولانا مبشر احمد ربانی کا اجتہاد راجح نظر آتا ہے تو بہت ممکن ہے کہ کسی دوسرے کو الاسلام سوال و جواب کے علماء کا اجتہاد راجح نظر آئے۔

    خود سے کوئی فتویٰ دائر کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ علماء و فقہاء کی تشریح پیش کر دی جائے۔ ہمارا کام اتنا ہی ہونا چاہئے !!
     
  15. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    ترمذی کی اس حدیث کا عربی متن یوں ہے :
    [QH]حدثنا هناد، حدثنا عبدة بن سليمان، عن محمد بن عمرو، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة ‏.[/QH]
    اس کا ترجمہ الاسلام سوال و جواب پر یوں ہے :
    ابوھريرہ رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتے ہيں كہ : رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے ايك سودے ميں دو سودے كرنےسے منع كيا ہے.
    پھر امام ترمذی اس کی شرح میں فرماتے ہیں :
    [QH]قال أبو عيسى حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح ‏.‏ والعمل على هذا عند أهل العلم وقد فسر بعض أهل العلم قالوا بيعتين في بيعة ‏.‏ أن يقول أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة وبنسيئة بعشرين ولا يفارقه على أحد البيعين فإذا فارقه على أحدهما فلا بأس إذا كانت العقدة على واحد منهما ‏.[/QH]
    اس شرح کا اردو ترجمہ الاسلام سوال و جواب پر کچھ یوں ہے :
    اہل علم كا عمل اسي پر ہے، اور بعض اہل علم نے اس كي تفسير كرتے ہوئےكہا ہےكہ: ايك بيع ميں دوبيع يہ ہے كہ كوئي يہ كہے: ميں نےيہ كپڑا نقد ميں آپ كو دس اور ادھار بيس ميں فروخت كيا، اور دونوں ميں سےايك بيع پر جدا ہو۔ لھذا جب وہ دونوں ميں سےايك پر جدا ہو اوركسي ايك پر سودا بھي طے ہوچكا ہو تواس ميں كوئي حرج نہيں.
    غور کیجئے کہ یہاں بیع کو فائنل کرنے اور پھر جدا ہونے کی بات ہے۔ اور یہی جدائی والی بات امام بغوی کی شرح السنۃ میں بھی بیان ہوئی ہے :
    الاسلام سوال و جواب کے اس فتویٰ میں لکھا ہے :
    اب اس کے مقابلے میں الاسلام سوال و جواب کا یہ فتویٰ دیکھیں
    مولانا کیلانی علیہ الرحمۃ ایک صورت یہ بتاتے ہیں کہ : اگر تین ماہ کے ادھار پر ایک چیز خریدنے والا ، اگر تین ماہ سے قبل رقم ادا کر دے تو کچھ کم رقم ادا کرے گا جبکہ مقررہ وقت کی ادائیگی میں زیادہ رقم۔ اور یہی سود ہے۔
    جبکہ ابن قدامۃ المقدسی (541 ھ) المغنی میں لکھتے ہیں : (بحوالہ الاسلام سوال و جواب)
    [QH]وبيع السلم جائز بالنص والإجماع . وهو شبيه ببيع التقسيط . وذكر العلماء من حكمته أنه ينتفع المشتري برخص الثمن ، والبائع بالمال المعجل ، وهذا دليل على أن للأجل في البيع نصيباً من الثمن. وأن هذا لا بأس به في البيوع . انظر : المغني (6/385) [/QH]
    بيع سلف نصا اوراجماعا جائز ہے، اور يہ بيع التقسيط كےمشابہ ہے، علماء كرام نے بيان كيا ہے كہ اس كي حكمت يہ ہے كہ خريدار اس ميں سستي قيمت كا فائدہ حاصل كرتا ہےاور فروخت كرنےوالا مال پہلےحاصل كركےنفع حاصل كرتا ہے، اور يہ دليل ہے كہ خريدوفروخت ميں مدت كا قيمت ميں حصہ ہے، اور خريدوفروخت ميں اس كا كوئي حرج نہيں. ديكھيں: المغني ( 6 / 385 ) .
    یعنی ابن قدامہ ، خرید و فروخت میں مدت کی قیمت کا بھی حصہ بتاتے ہوئے اسے جائز کہتے ہیں۔
    اور وہ یونہی جائز نہیں کہتے بلکہ صحیح بخاری کی حدیث دلیل میں پیش کرتے ہیں :
    [QH]ما رواه البخاري (2086) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ : قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَهُمْ يُسْلِفُونَ بِالتَّمْرِ السَّنَتَيْنِ وَالثَّلَاثَ فَقَالَ : مَنْ أَسْلَفَ فِي شَيْءٍ فَفِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ ، وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ، إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ .[/QH]
    امام بخاري رحمہ اللہ تعالي نے ابن عباس رضي اللہ تعالي عنھما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتےہيں كہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم مدينہ تشريف لائے تو وہ كھجوروں ميں دو اور تين برس كي بيع سلف كرتے تھے، تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
    ( جس نے بھي كسي چيز كي بيع سلف كي وہ معلوم ماپ اور تول اور مدت معلومہ ميں بيع كرے ) صحيح بخاري حديث نمبر ( 2086 ) .

    جبکہ عبدالرحمٰن کیلانی علیہ الرحمۃ کے فتویٰ سے علم ہوتا ہے کہ وہ ۔۔۔۔ " مدت کی قیمت" کو نہیں مانتے بلکہ اسے سود سمجھتے ہیں۔
    حالانکہ اسے سود سمجھنے کی کوئی دلیل انہوں نے نہیں دی جبکہ ابن قدامہ صحیح بخاری سے دلیل دے کر سمجھاتے ہیں کہ یہ سود نہیں ہے !!
    (ابن قدامہ نے المغنی ، کتاب البیوع میں غالباَ ایک پورا ہی باب اس موضوع پر قائم کیا ہے : باب السلف المضمون إلى أجل مسمى)
     
  16. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    علامہ کیلانی علیہ الرحمۃ کے فتویٰ کے مطابق : مدت کے عوض ، قیمت کی بڑھوتری کو وہ "سود" سمجھتے ہیں
    جبکہ ائمہ اربعہ کے ہاں یہ سود نہیں بلکہ جائز صورت ہے۔ تفصیل الاسلام سوال و جواب کے اس فتویٰ میں ملاحظہ فرمائیں :
    جو بھائی ، صرف علامہ کیلانی علیہ الرحمۃ کے فتویٰ کو ہی حق باور کرانے پر کوشاں ہیں ، ان سے درخواست ہے کہ اس فتویٰ پر علماء و فقہائے امت کے اجماع کی نقل بھی پیش فرمائیں۔ ورنہ بہت ممکن ہے کہ عام قاری پر یہ ظاہر ہو کہ یہ شائد الشیخ عبدالرحمٰن کیلانی علیہ الرحمۃ کا تفرد ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے کہ بعض معاملات میں علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اپنا منفرد نقطہ نظر رکھتے ہیں۔
     
  17. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    اگر ممکن ہو تو ائمہ محدثین کے اس گروہ کی تفصیل پیش فرمائیں۔
    اگر صحابئ رسول سے مراد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں تو میں پچھلے مراسلے میں علامہ داؤد راز علیہ الرحمۃ کی شرح کے حوالے سے لکھ چکا ہوں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے قول سے رجوع کر لیا تھا۔

    و علیکم السلام اور جزاک اللہ خیر بھائی۔
    میں الحدیث:40 میں شامل شیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ کے مضمون کا مطالعہ ان شاءاللہ آج ہی ضرور کروں گا۔
     
  18. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    قسطوں کی بیع پر یہ عمدہ رسالہ نظر آتا ہے۔ ان شاءاللہ تفصیل کے ساتھ اس کا مطالعہ کروں گا۔ اگر اس کی ورڈ فائل موجود ہو تو براہ مہربانی فراہم کیجئے گا۔
     
  19. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    مرفق سے اتار لیں‌ جناب
    کیا یاد کریں گے
     

    منسلک فائلیں:

Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں