الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- ابن تیمیہ رحمہ اللہ

نعمت اللہ نے 'اردو یونیکوڈ کتب' میں ‏نومبر 21, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    جو شخص اس مسئلے میں موسیٰ و خضر علیہما السلام کے قصہ سے استدلال کرتا ہے۔ وہ دو وجوہ سے غلطی پر ہے۔
    ایک یہ کہ نہ تو سیدناموسیٰ علیہ السلام، خضر علیہ السلام کی طرف مبعوث تھے اور نہ خضر علیہ السلام پر ان کی پیروی واجب تھی۔ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت تمام جن و انسان کے لیے ہے۔
    اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہء رسالت کو کوئی ایسی شخصیت بھی پالے جو خضر علیہ السلام سے بھی افضل ہو مثلاً سیدناابراہیم، سیدناموسیٰ اور سیدناعیسیٰ علیہم السلام تو اس پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع واجب ہوگا تو خضر علیہ السلام خواہ نبی ہوں یا ولی کیوں کر اتباع نہ کریں گے، یہی وجہ ہے کہ خضر علیہ السلام نے سیدناموسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا:
    انا علی علم من علم الہ علمنیہ اللہ لا تعلمہ و انت علی علم من علمہ اللہ علمکہ اللہ لا اعلمہ
    کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم میں سے کچھ مجھے سکھا دیا ہے جو آپ کو معلوم نہیں ، اور اسی نے اپنے علم سے کچھ آپ کوسکھا دیا ہے، جس سے میں آگاہ نہیں۔
    (بخاری کتاب العلم باب ماذکر فی ذہاب موسیٰ فی البحر رقم: ۷۳، مسلم کتاب الفضائل، باب فضائل خضر رقم: ۶۱۶۳۔)
     
  2. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    جن و انسان میں سے جس کسی تک بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پہنچ چکی ہو تو اسے اس طرح کی بات کرنا روا نہیں۔
    دوسرے جو کچھ خضر علیہ السلام نے کیا تھا وہ سیدناموسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے خلاف نہیں تھا اور سیدناموسیٰ علیہ السلام کو وہ اسباب معلوم نہیں تھے۔ جن کی بنا پر وہ کام جائز تھے۔ جب خضر علیہ السلام نے وہ اسباب بیان کر دئیے تو سیدناموسیٰ علیہ السلام نے اس پر ان کی موافقت کی۔ کیونکہ ظالم و غاصب کے قبضے کے ڈر سے کشتی توڑنے اور پھر اس کی مرمت کردینے میں کشتی والوں کی مصلحت کا لحاظ اور ان پر احسان تھا اور یہ جائزہے۔ اور حملہ آور موذی کو خواہ وہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو اور جس کو قتل کیے بغیر اس کے والدین کفر سے نہ بچ سکیں، اس کا قتل جائز ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نجدہ حروری نے پوچھا کہ بچوں کے قتل کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ تو فرمایا کہ اگر آپ کو ان کے متعلق وہ بات معلوم ہوجائے جو خضر علیہ السلام کو بچے کے متعلق معلوم تھی تو ان کو قتل کر ڈالیے ورنہ قتل نہ کریں
    (مسلم کتاب الجہاد، باب نساء الغازیات، مسند احمد، ۱؍۳۰۸)
    رہا بلامعاوضہ یتیم کے ساتھ احسان کرنا اور بھوک پر صبر کرنا تو یہ اعمالِ صالح میں سے ہے۔ اس میں کوئی امر شریعت ِ الٰہی کے خلاف نہ تھا۔
    ائمہ کی تقلید نہ واجب ہے نہ حرام
     
  3. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    لیکن جب شریعت سے مراد حاکم کا فیصلہ ہو تو وہ کبھی عادل ہوتا ہے۔ کبھی ظالم ہوتا ہے۔ کبھی درست ہوتا ہے اور کبھی غلطی کرتا ہے۔ کبھی شریعت سے ابوحنیفہ، ثوری، مالک بن انس، اوزاعی، لیث بن سعد، شافعی، احمد، اسحاق، دائود (رحمہم اللہ) وغیرہ ائمہ فقہ کا قول مراد ہوتا ہے۔ سو یہ لوگ اپنے اقوال کے لیے کتاب و سنت سے دلیل لیتے ہیں۔ جب کوئی شخص ان میں سے کسی کی تقلید جائز طور پر کرے تو جائز ہے اور اگر اس کی تقلید نہ کرے تو کسی اور کی تقلید بشرطِ گنجائش کر لے تو جائز ہے۔ ان میں سے کسی ایک کا اتباع تمام امت پر اس طرح واجب نہیں ہے۔ جس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی واجب ہے اور نہ ان میں سے کسی کی تقلید اس شخص کی تقلید کی طرح حرام ہے جو کہ بغیر علم کے بحث کرتا ہے۔
    رہا وہ شخص جو شریعت کی طرف وہ امور منسوب کرتا ہے جو شریعت میں نہیں مثلاً من گھڑت احادیث، اللہ کی مراد کے برخلاف تاویلات باطلہ وغیرہ تویہ تو شریعت میں تبدیلی کے مترادف ہے۔ اس صورت میں شرعِ منزل، شرعِ مؤول اور شرعِ مبدّل کے درمیان فرق کرنا، اسی طرح ضروری ہے۔ جس طرح حقیقت ِ کونیہ اور حقیقت دینیہ امر یہ کے مابین فرق کرنا ضروری ہے اور جس طرح ان مسائل میں جس کی دلیل کتاب و سنت سے لی گئی ہو اور ان مسائل میں جس میں کسی کے ذوق اور وجدان پر اکتفا کیا گیا ہو ، فرق کرنا لازمی ہے۔
     
  4. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    تکوینی اور دینی اُمور میں فرق کی اہمیت

    تکوینی اور دینی اُمور میں فرق کی اہمیت

    اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس ’’ارادہ‘‘، ’’امر‘‘ ، ’’قضاء‘‘ ، ’’اذن‘‘ و ’’تحریم‘‘ ’’بعث‘‘ و ’’ارسال‘‘، ’’کلام‘‘ و’’جعل‘‘ میں جو تکوینی ہے اور جسے اس نے مقدر کیا اور اس کا فیصلہ فرمایا۔ اگرچہ اس کا حکم نہ دیا، نہ اس کو پسند کیا اور نہ اس کے کرنے والوں کو ثواب دیتا ہو اور نہ انہیں اپنے متقی اولیاء میں سے کرتا ہو۔ اور اس ارادہ، قضا، امر، اذن و تحریم، ارسال، کلام اور جعل میں فرق کیا ہے جو دینی ہے اور جس کا اس نے حکم دیا، اسے مشروع کیا اور پسند کیا۔ اس کی تعمیل کرنے والے سے محبت کرتا ہے انہیں ثواب عطا فرماتا ، انہیں عزت دیتا اور انہیں اپنے متقی اولیاء، کامران لشکر اور بامراد جماعت میں سے کرتا ہے۔
    اور یہ فرق ان عظیم ترین امور میں سے ہے، جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے دوستوں اور اس کے دشمنوں میں امتیاز کیا جاتا ہے۔ لہٰذا جس کو اللہ تعالیٰ نے ان اعمال کی توفیق ارزاں کی جو کہ اسے محبوب وپسندیدہ ہوں اور وہ شخص اسی حالت میں مر جائے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے دوستوں میں سے ہے اور جس کے کام ایسے ہوں، جن سے پروردگار ناراض ہو اور مرتے دم تک ایسے ہی افعال کا ارتکاب کرتا رہے تو وہ اس کے دشمنوں میں سے ہے۔
    چنانچہ ارادۂ کونیہ اللہ تعالیٰ کی اس مشیئت کا نام ہے جو اس کی مخلوق کے لیے ہوتی ہے اور تمام مخلوقات اس کی مشیئت اور اس کے ارادۂ کونیہ میں شامل ہے۔
    جب کہ ارادہِ دینیہ اس کی محبت اور رضا کو شامل ہے۔ اور ان امور کو شامل ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا اور انہیں دین اور شریعت قرار دیا ہے۔ یہ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ مختص ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:


    فَمَنْ يُّرِدِ اللہُ اَنْ يَّہْدِيَہ يَشْرَحْ صَدْرَہ لِلْاِسْلَامِ ۰ۚ وَمَنْ يُّرِدْ اَنْ يُّضِلَّہ يَجْعَلْ صَدْرَہ ضَيِّقًاحَرَجًاكَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاۗءِ
    الانعام

    ’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ ہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے، اس کے سینے کو وہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے وہ گمراہ کرنے کاارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو وہ تنگ اور بھچا ہوا کر دیتا ہے گویا اسے آسمان پر چڑھنا پڑھ رہا ہے۔‘‘

    نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا:
    وَلَا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِيْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ اِنْ كَانَ اللہُ يُرِيْدُ اَنْ يُّغْوِيَكُمْ ۰ۭ
    ھود

    ’’میری خیر خواہی تمہیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتی، اگر اللہ تمہیں کرنے کا ارادہ کرتا ہو۔‘‘

    اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:

    وَاِذَآ اَرَادَ اللہُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَہ ۰ۚ وَمَا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِہ مِنْ وَّالٍ
    الرعد

    ’’جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر کوئی مصیبت ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ٹل نہیں سکتی اور اللہ کے سوا ان لوگوں کا کوئی حامی و مددگار بھی نہیں ۔‘‘

    اور دوسرے پارے میں فرمایا:

    وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ ۰ۭ يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ۰ۡ
    البقرہ

    ’’اور جو شخص بیمار ہو یا سفر پرہو تو دوسرے ایام میں سے اتنے ہی دن شمار کر کے روزہ رکھ لے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور تمہارے ساتھ سختی کا ارادہ نہیں رکھتا۔‘‘

    اور فرمایا:

    مَا يُرِيْدُ اللہُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ حَرَج وَّلٰكِنْ يُّرِيْدُ لِيُطَہِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَہ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ۶
    المائدہ

    ’’اللہ تعالیٰ کا تم پر کسی طرح کی تنگی کرنے کا ارادہ نہیں بلکہ اس کا ارادہ ہے کہ تم پر اپنا احسان پورا کرے تاکہ تم شکر کرو۔‘‘

    نکاح کے حلال اور حرام امور کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

    يُرِيْدُ اللہُ لِيُـبَيِّنَ لَكُمْ وَيَہْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَيَتُوْبَ عَلَيْكُمْ ۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ ۲۶ وَاللہُ يُرِيْدُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْكُمْ ۰ۣ وَيُرِيْدُ الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الشَّہَوٰتِ اَنْ تَمِيْلُوْا مَيْلًا عَظِيْمًا ۲۷ يُرِيْدُ اللہُ اَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ ۰ۚ وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا ۲۸
    النساء

    ’’اللہ کا ارادہ ہے کہ جو لوگ تم سے پہلے ہو گزرے ہیں۔ ان کے طریقے تمہارے سامنے کھول کھول کر بیان کرے اور تم کو انہی کے طریقوں پر چلائے اور تم پر مہر کی نظر رکھے اور جو لوگ نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تم راہِ راست سے بھٹک کر بہت دور جا پڑو۔ اللہ کا ارادہ ہے کہ تم پر سے بوجھ ہلکا کرے اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔‘‘

    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو امر و نہی ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا:

    اِنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ لِيُذْہِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَيْتِ وَيُطَہِّرَكُمْ تَطْہِيْرًا ۳۳ۚ
    الاحزاب

    ’’اے اہل بیت! اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ تم سے ہر طرح کی گندگی دور کر دے اور تمہیں اچھی طرح پاک کر دے۔‘‘

    اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو ایسی باتوں کا حکم دیا ہے۔ جن سے تمہاری گندگی دور ہوجائے اور تم صاف ستھرے ہوجائو۔ یعنی گندگی کو دور کرنے والے کاموں کا حکم دے دیا گیا ہے جس نے اس حکم کی اطاعت کی وہ پاک ہوجائے گا۔ اس سے گندگی دور ہوجائے گی اس کی نافرمانی کرنے والے کے برخلاف (کہ اس کی تطہیر نہ ہوگی)
     
  5. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    امر کونی و امر دینی

    امر کونی و امر دینی


    رہی امر کی بحث سو امرِ کونی کے متعلق فرمایا:
    اِنَّمَا قَوْلُــنَا لِشَيْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰہُ اَنْ نَّقُوْلَ لَہ كُنْ فَيَكُوْنُ ۴۰ۧ
    سورۃ النحل

    ’’یہی بات ہے کہ کسی چیز کے لیے ہمارا امر یہ ہے کہ جب اس کا ارادہ کریں تو ہم اس کے لیے کہیں کہ ہو جا، پس ہوجائے۔‘‘

    اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

    وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَۃٌ كَلَمْح ٍبِالْبَصَرِ ۵۰
    القمر

    ’’ہمارا امر تو بس ایک بات ہوتی ہے جیسے آنکھ کا جھپکانا۔‘‘

    اور فرمایا:

    اَتٰىھَآ اَمْرُنَالَيْلًا اَوْ نَہَارًا فَجَعَلْنٰھَا حَصِيْدًا كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِ ۰ۭ
    یونس

    ’’اس سرزمین پر ہمارا امر دن یا رات کو پہنچا تو اسے کٹی ہوئی کھیتی کی مانند کر دیا گویا ایک دن پہلے اس کا نام و نشان نہ تھا۔‘‘

    امرِ دینی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

    اِنَّ اللہَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۰ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ۹۰
    النحل

    ’’اللہ تم کو انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے اور احسان کرنے کا اور قرابت والوں کو مالی امداد دینے کا اور بے حیائی کے ناشائستہ کاموں اور ایک دوسرے پر زیادتی کرنے سے منع فرماتا ہے۔ تم لوگوں کو نصیحت کرتا ہے تاکہ تم ان باتوں کا خیال رکھو۔‘‘

    اور فرمایا:

    اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا ۰ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ ۰ۭ اِنَّ اللہَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِہ ۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا ۵۸
    النساء

    ’’اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں کو ادا کر دیا کرو اور جب لوگوں کے درمیان حکم بنو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں اچھی نصیحتیں کرتا ہے، بے شک اللہ تعالیٰ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔‘‘
     
  6. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    اذن کونی و قدری و اذن دینی و شرعی

    اذن کونی و قدری و اذن دینی و شرعی

    اذنِ کونی کے متعلق فرمایا:
    وَمَا ھُمْ بِضَاۗرِّيْنَ بِہ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ
    البقرہ

    ’’اور وہ کسی کو اللہ تعالیٰ کے اذن کے سوا نقصان نہیں پہنچا سکتے۔‘‘

    یہاں اذن سے مراد اللہ تعالیٰ کی مشیئت و قدرت ہے۔ ورنہ سحر کو اللہ تعالیٰ نے ہرگز مباح نہیں کیا۔


    اذنِ دینی کے متعلق فرمایا:
    اَمْ لَہُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِہِ اللہُ ۰ۭ
    الشوریٰ

    ’’کیا ان لوگوں نے اللہ کے شریک بنا رکھے ہیں، جنہوں نے ان کے لیے دین کا ایک رستہ تیار کیا ہے، جس کا اللہ نے اذن نہیں دیا۔‘‘

    اور فرمایا:

    اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا ۴۵ۙ وَّدَاعِيًا اِلَى اللہِ بِـاِذْنِہ
    الاحزاب

    ’’ہم نے تجھے گواہی دینے والا، بشارت دینے والا، عذابِ الٰہی سے ڈرانے والا، اللہ تعالیٰ کی طرف اس کے اذن سے بلانے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘

    اور فرمایا:

    وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِـاِذْنِ اللہِ ۰ۭ
    النساء

    ’’ہم نے جو بھی رسول بھیجا ہے، وہ محض اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے ساتھ اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘

    اور فرمایا:

    مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَۃٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْہَا قَاۗىِٕمَۃً عَلٰٓي اُصُوْلِہَا فَبِـاِذْنِ اللہِ
    الحشر

    ’’اے مسلمانو! کھجوروں کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے ہیں یا ان کی جڑوں پر قائم چھوڑ دئیے ہیں، وہ سب اللہ تعالیٰ کے اذن کے ساتھ ہوا۔‘‘
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں