رزق کی کنجیاں۔۔۔ڈاکٹر فضل الٰھی

عاکف سعید نے 'اردو یونیکوڈ کتب' میں ‏جون 5, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عاکف سعید

    عاکف سعید محسن

    شمولیت:
    ‏مئی 16, 2010
    پیغامات:
    181

    إِنَّ الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
    [يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُون]
    [يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمِ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا]
    [يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا] وشر الأمور محدثاتها وكلّ محدثة بدعة , وكلّ بدعة ضلالة , وكلّ ضلالة في النار- اَما بعد:


    بہت سے لوگوں کی توجہ کا مرکز رزق حاصل کرنے کا مسئلہ ہے بلکہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد کا گمان یہ ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کی پابندی رزق میں کمی کا سبب ہے۔ اس سے زیادہ تعجب اور دکھ کی بات یہ ہے کہ کچھ بضاہر دین دار لوگ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ معاشی خوش حالی اور آسودگی کے حصول کیلیے کسی حد تک اسلامی تعلیمات سے چشم پوشی کرنا ضروری ہے۔
    یہ نادان لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں یا با خبر ہونے کے باوجود اس بات کو فراموش کر چکے ہیں کہ کائنات کے مالک و خالق اللہ جل جلالہ کے نازل کردہ دین میں جہاں اخروی معاملات میں رشد و ہدایت کار فرما ہے، وہاں اس میں دنیوی امور میں بھی انسانوں کی راہنمائی کی گئی ہے۔ جس طرح اس دین کا مقصد آخرت میں انسانوں کو سرفراز و سربلند کرنا ہے' اسی طرح یہ دین اللہ تعالٰی نے اس لیے بھی نازل فرمایا کہ انسانیت اس دین سے وابستہ ہو کر دنیا میں بھی خوش بختی اور سعادت مندی کی زندگی بسر کرے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں اللی مالک الملک نے ساری انسانیت کیلیے اسوہ حسنہ قرار دیا' وہ سب سے زیادہ جو دعا اللہ تعالٰی سے کرتے' اس میں دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی کا سوال ہوتا جیسا کہ درج ذیل حدیث میں آیا ہے:
    امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ’’جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ دعا (ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار) تھی‘‘
    صحیح البخاری 191/11

    کسب معاش کے معاملے میں اللہ تعالٰی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نوع انسان کو حیرانی میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے نہیں چھوڑا' بلکہ کتاب و سنت میں رزق کے حصول کے اسباب کو خوب وضاحت سے بیان کر دیا گیا ہے' اگر انسانیت ان اسباب کو اچھی طرح سمجھ کر مضبوتی سے تھام لے اور صحیح انداز میں ان سے استفادہ کرے تو اللہ مالک الملک جو بہت زیادہ رزق عطا فرمانے والے اور بہت زیادہ قوت والے ہیں' لوگوں کیلیے ہر جانب سے رزق کے دروازے کھول دیں۔ آسمان سے ان پر خیروبرکات نازل فرما دیں اور زمین سے ان کیلیے گوناگوں اور بیش بہا نعمتیں اگلوائیں۔
    اس کتابچے میں اللہ تعالٰی کی توفیق سے کتاب و سنت کی روشنی میں رزق کے دس اسباب کے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔ شاید کہ مولائے کریم اس میں ان بھولے بھٹکے برادرانِ اسلام کیلیے راہنمائی کا سامان پیدا فرما دیں جو کسب معاش کی کوششوں میں مگن تو ہیں لیکن حصول رزق کے شرعی اسباب سے یا تو بے خبر ہیں یا باخبر ہونے کے باوجود انہیں فراموش کر چکے ہیں اور ان کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔

    خاکہ:
    اس کتابچے کی تقسیم حسب ذیل انداز میں کی گئی ہے:
    پیش لفظ
    1۔ استغفار و توبہ
    2۔ تقویٰ
    3۔ توکل علی اللہ
    4۔ اللہ تعالٰی کی عبادت کیلیے فارغ ہونا
    5۔ یکے بعد دیگرے حج اور عمرہ ادا کرنا (حج و عمرے میں متابعت)
    6۔ صلہ رحمی
    7۔ اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرنا
    8۔ شرعی علوم کے حصول کیلیے وقف ہونے والے طلبہ پر خرچ کرنا
    9۔ کمزوروں کے ساتھ احسان کرنا
    10۔ اللہ تعالٰی کی راہ میں ہجرت کرنا

    جاری ہے۔۔۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  2. عاکف سعید

    عاکف سعید محسن

    شمولیت:
    ‏مئی 16, 2010
    پیغامات:
    181
    استغفار و توبہ

    استغفار و توبہ

    جن اسباب کے ذریعے اللہ تعالٰی سے رزق طلب کیا جاتا ہے' ان میں ایک اہم سبب اللہ تعالٰی کے حضور استغفار و توبہ کرنا ہے۔ اس موضوع کے متعلق گفتگو ان شاءاللہ تعالٰی دو نکتوں کے تحت کی جائے گی۔
    1۔ حقیقت استغفار و توبہ
    2۔ استغفار و توبہ کے رزق کا سبب ہونے کے دلائل

    1۔ حقیقت استغفار و توبہ:
    بہت سے لوگوں کے خیال میں استغفار و توبہ کا تعلق صرف زبان سے ہے۔
    توبہ و استغفار کا دعویٰ کرنے والے کتنے ہی لوگ ہیں جو زبان سے تو کہتے ہیں:
    اَستَغفِر اللہَ وَ اَتوب اِلَیہِ
    (میں اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی کا سوال کرتا ہوں اور اپنی سیاہ کاریوں سے تائب ہوتا ہوں)
    لیکن ان الفاظ کا اثر نہ ان کے دل پر ہوتا ہے اور نہ ان کے اثرات کا اظہار ان کے اعمال میں دکھائی دیتا ہے۔
    اللہ تعالٰی علمائے امت کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے استغفار و توبہ کی حقیقت کو خوب وضاحت سے بیان فرمایا ہے۔ مثال کے طور پر امام راغب اصفہانی رحمتہ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں ’’شریعت میں توبہ کا مطلب ہے گناہ کو اس کی قباحت کی وجہ سے چھوڑنا-
    اپنی غلطی پر نادم ہونا
    آئندہ نہ کرنے کا عزم کرنا
    اور جن اعمال کی تلافی ان کے دوبارہ ادا کرنے سے ہو سکے ان کیلیے بقدر استطاعت کوشش کرنا۔
    اور جب یہ چاروں باتیں جمع ہو جائیں تو توبہ کی شرائط پوری ہو گئیں۔‘‘
    (المفردات فی غریب القران' مادہ ’’توب‘‘ ص 76)
    امام نووی رحمتہ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں: ’’علماء نے فرمایا ہے: ہر گناہ سے توبہ کرنا واجب ہے' اگر اس گناہ کا تعلق صرف بندے اور اللہ تعالٰی کے درمیان ہو' کسی اور آدمی سے اس کا تعلق نہ ہو تو اس گناہ سے توبہ کیلیے حسب ذیل شرائط ہیں:
    1۔ اس گناہ کو چھوڑ دے۔
    2۔ اس پر نادم ہو۔
    3۔ اس بات کا عزم کرے کہ آئندہ اس گناہ کا ارتقاب نہ کرے گا۔
    اگر تین شرائط میں سے کوئی شرط بھی مفقود ہو گئی تو اس کی توبہ درست نہیں۔
    اور اگر گناہ کا تعلق کسی بندے سے ہو تو اس ست توبہ کیلیے چار شرائط ہیں۔ تین سابقہ شرائط اور چوتھی شرط یہ کہ حق دار کا حق ادا کرے۔ اگر اس کا حق مال کی صورت میں ہے تو یہ مال واپس کرے اور اگر اس پر ایسا الزام تراشا کہ جس کی سزا حد قذف ہو تو حق والے کو موقع فراہم کرے کہ وہ اس پر حد قائم کرے یا اس سے عفوودرگزر کی درخواست کرے' اور اگر اس نے اس کی غیبت کی ہو تو اس سے اس کی معافی طلب کرے۔‘‘
    (ریاض الصالحین ص 41/42)
    امام راغب اصفہانی رحمتہ اللہ علیہ استغفار کے متعلق فرماتے ہیں:
    ’’استغفار قول و فعل دونوں سے گناہوں کی معافی طلب کرنے کا نام ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد گرامی ہے: ’استَغفِروا رَبَّکم اِنَّہ کَانَ غَفَّارََا‘
    (تم اپنے رب سے گناہوں کی معافی طلب کرو' وہ گناہوں کو بہت زیادہ معاف کرنے والے ہیں)
    اس ارشاد میں صرف زبان ہی سے گناہوں کی معافی طلب کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ زبان اور عمل دونوں کے ساتھ معافی طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
    عمل کے بغیر فقط زبان سے گناہوں کی معافی طلب کرنا بہت بڑے جھوٹوں کا شیوہ ہے۔
    (المفردات فی غریب القران' مادہ ’’توب‘‘ ص 362)

    2۔ استغفار و توبہ کے رزق کا سبب ہونے کے دلائل:

    متعدد آیات کریمہ اور احادیث شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ استغفار و توبہ رزق کے حصول کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ ذیل میں چند دلائل مناسب شرح و تفصیل کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں:
    :::حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا:
    ‏فَقُلْتُ ٱسْتَغْفِرُوا۟ رَبَّكُمْ إِنَّهُۥ كَانَ غَفَّارًۭا ‏يُرْسِلِ ٱلسَّمَآءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًۭا ‏وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَلٍۢ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّتٍۢ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَرًۭا
    ’’پس میں نے کہا: اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی طلب کرو۔ بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ آسمان سے تم پر موسلا دھار مینہ برسائے گا اور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گا اور تمہارے لیے باغ اور نہریں بنائے گا۔‘‘
    (سورہ نوح 12-10)
    ان آیات کریمہ میں استغفار کے جن فوائد کا ذکر کیا گیا ہے' وہ درج ذیل ہیں:
    1۔ اِنَّہُ کَا نَ غَفَّارََا (بے شک وہ گناہوں کو بہت زیادہ معاف فرمانے والے ہیں)
    2۔ اللہ تعالٰی کا موسلا دھار بارش کا نازل فرمانا' اس کی دلیل یہ ہے:
    يُرْسِلِ ٱلسَّمَآءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا (وہ تم پر موسلا دھار بارش نازل فرمائیں گے)
    حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ’’مدرارا‘‘ سے مراد موسلا دھار بارش ہے۔ (صحیح البخاری 666/8)
    3۔ اللہ تعالٰی کا مال و دولت اور اولاد میں اضافہ فرمانا' اس کی دلیل یہ ہے:
    وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَلٍۢ وَبَنِينَ (وہ ’’اللہ تعالٰی‘‘ تمہارے مالوں اور بیٹوں میں اضافہ فرمائیں گے)
    حضرت عطاء اس آیت کے اس حصے کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ فرمائیں گے۔‘‘ (تفسیر البغوی 398/4)
    4۔ اللہ تعالٰی کی طرف سے باغات کا بنایا جانا' اس بات کی دلیل یہ ہے:
    وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّتٍۢ (اور وہ تمہارے باغات بنائیں گے)
    5۔ اللہ تعالٰی کی طرف سے نہروں کا جاری کیا جانا' اس کی دلیل یہ ہے:
    وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَرًا (اور وہ تمہارے لیے نہریں جاری فرمائیں گے)
    امام قرطبی فرماتے ہیں: ’’ اس آیت میں اور سورۃ ہود کی آیت (وَيَقَوْمِ ٱسْتَغْفِرُوا۟ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوٓا۟ إِلَيْهِ يُرْسِلِ ٱلسَّمَآءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًۭا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَىٰ قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا۟ مُجْرِمِينَ) میں اس بات کی دلیل ہے کہ گناہوں کی معافی کا سوال کرنے کے ذریعے سے رزق اور بارش طلب کی جاتی ہے۔‘‘
    (تفسیر القرطبی 302/18)
    حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
    ’’اگر تم اللہ تعالٰی کے حضور توبہ کرو' ان سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور ان کی اطاعت کرو تو وہ تم پر رزق کی فراوانی فرما دیں گے' آسمان سے بارانِ رحمت نازل فرمائیں گے' زمین سے خیر و برکت اگلوائیں گے' زمین سےکھیتی کو اگائیں گے' جانوروں کا دودھ مہیا فرمائیں گے' تمہیں اموال اور اولاد عطا فرمائیں گے' قسم قسم کے میوہ جات والے باغات عطا فرمائے گے اور ان باغوں کے درمیان نہریں جاری کریں گے۔‘‘
    (تفسیر ابن کثیر 449/4)
    جناب امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالٰی سے بارش طلب کرنے کیلیے انہی آیاتِ کریمہ میں بیان کردہ بات پر عمل کیا۔ حضرت مطرف امام شعبی رحمتہ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بارش طلب کرنے کیلیے لوگوں کے ساتھ باہر نکلے۔ اللہ تعالٰی سے گناہوں کی معافی مانگنے کے سوا انہوں نے کچھ بات نہ کی اور واپس پلٹ آئے۔ ان کی خدمت میں عرض کیا گیا: ’’ہم نے آپ کو بارش طلب کرتے ہوئے نہیں سنا‘‘
    فرمانے لگے: ’’میں نے اللہ تعالٰی سے آسمان کے ان ستاروں کے ساتھ بارش طلب کی ہے جن کے ذریعے بارش حاصل کی جاتی ہے‘‘ مراد یہ کہ استغفار سے بارش حاصل ہوتی ہے اور میں نے استغفار کے ذریعے اللہ تعالٰی سے بارش حاصل کرنے کیلیے فریاد کی ہے۔
    پھر قرآنِ کریم کی یہ آیاتِ کریمہ پڑھیں:
    ٱسْتَغْفِرُوا۟ رَبَّكُمْ إِنَّهُۥ كَانَ غَفَّارًۭا ‏يُرْسِلِ ٱلسَّمَآءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًۭا
    (اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی طلب کرو۔ بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ آسمان سے تم پر موسلا دھار مینہ برسائے گا۔)

    جاری ہے۔۔۔

     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  3. عاکف سعید

    عاکف سعید محسن

    شمولیت:
    ‏مئی 16, 2010
    پیغامات:
    181
    امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے پاس چار اشخاص آئے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی مشکل بیان کی' ایک نے قحط سالی کی' دوسرے نے تنگ دستی کی' تیسرے نے اولاد نہ ہونے کی اور چوتھے نے اپنے باغ کی خشک سالی کی شکایت کی۔ انہوں نے چاروں اشخاص کو اللہ تعالٰی سے گناہوں کی معافی طلب کرنے کی تلقین کی۔ امام قرطبی رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت ابن صبیح سے روایت کی کہ ایک شخص نے حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے رو برو قحط سالی کی شکایت کی' تو انہوں نے اس سے فرمایا: اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔
    دوسرے شخص نے غربت و افلاس کی شکایت کی' تو اس سے فرمایا: ’’اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرو۔‘‘
    تیسرے شخص نے حاضر خدمت ہو کر عرض کی: ’’اللہ تعالٰٰی سے دعا کیجیے کہ وہ مجھے بیٹا عطا فرما دیں۔‘‘ آپ نے اس کو جواب میں تلقین کی: ’’اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی کی درخواست کرو۔‘‘
    چوتھے شخص نے ان کے سامنے اپنے باغ کی خشک سالی کا شکوہ کیا تو اس سے فرمایا: ’’اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی کی التجا کرو۔‘‘
    (ابن صبیح کہتے ہیں) ہم نے اس سے کہا اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ ربیع بن صبیح نے ان سے کہا: آپ کے پاس چار اشخاص الگ الگ شکایت لے کر آئے اور آپ نے ان سب کو ایک ہی بات کا حکم دیا کہ ’’اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی کا سوال کرو۔‘‘
    (تفسیر الخازن 154/7' نیز ملاحظہ ہو: روح المعانی 73/29)
    امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ نے جواب دیا: میں نے انہیں اپنی طرف سے تو کوئی بات نہیں بتلائی (میں نے تو انہیں اس بات کا حکم دیا ہے جو بات ربِ رحیم و کریم نے سورہ نوح میں بیان فرمائی ہے) سورہ نوح میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:
    ’’ ٱسْتَغْفِرُوا۟ رَبَّكُمْ إِنَّهُۥ كَانَ غَفَّارًۭا ‏يُرْسِلِ ٱلسَّمَآءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًۭا وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَلٍۢ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّتٍۢ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَرًۭا ‘‘
    ’’اپنے رب سے گناہوں کی معافی طلب کرو' بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ آسمان سے تم پر موسلا دھار مینہ برسائے گا اور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گا اور تمہارے لیے باغ اور نہریں بنائے گا۔‘‘
    (تفسیر القرطبی 303/18' نیز ملاحظہ ہو تفسیر الکاشف 192/4' المحرر الوجیز 123/16)
    اللہ اکبر! استغفار کے فوائد و ثمرات کتنے عالی شان اور زیادہ ہیں۔ اے مولائے کریم! ہمیں استغفار کرنے والوں میں شامل فرمائیے اور استغفار کی دنیوی و اخروی خیر و برکات سے فیض یاب فرمائیے۔ آپ یقیناََ فریادوں کے سننے والے اور قبول فرمانے والے ہیں۔ آمین یا رب العالمین۔

    ب: استغفار و توبہ کے رزق کا سبب ہونے کی دوسری دلیل وہ آیت کریمہ ہے جس میں اللہ تعالٰٰی نے حضرت ہود علیہ السلام کی اپنی قوم کو دعوت دینے کا ذکر فرمایا ہے اور وہ آیت کریمہ درج ذیل ہے:
    ‏وَيَقَوْمِ ٱسْتَغْفِرُوا۟ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوٓا۟ إِلَيْهِ يُرْسِلِ ٱلسَّمَآءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًۭا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَىٰ قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا۟ مُجْرِمِينَ ‎
    ’’اور اے میری قوم! اپنے رب سے گناہوں کی معافی طلب کرو' پھر (آئندہ گناہ کرنے سے) توبہ کرو۔ وہ تم پر آسمان سے خوب زور کا مینہ برسائے گا، اور تمہاری قوت میں مزید اضافہ کرے گا اور گنہگار ہو کر پھر نہ جاؤ۔‘‘
    (سورہ ہود آیت 52)
    حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:
    ’’پھر انہوں (حضرت ہود علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالٰی سے سابقہ گناہوں کی معافی طلب کرنے کا حکم دیا کہ اس سے سابقہ خطائیں مٹ جاتی ہیں نیز اس بات کی تلقین کی کہ آئندہ گناہوں سے باز رہیں اور جس کسی میں ( استغفار و توبہ کی) خوبی پیدا ہو جائے اللہ تعالٰی اس کیلیے رزق کا حصول سہل کر دیتے ہیں' اس کے معاملات میں آسانی پیدا فرما دیتے ہیں اور اس کی حفاظت فرماتے ہیں۔ اسی لیے فرمایا:
    ’’ ‏يُرْسِلِ ٱلسَّمَآءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًۭا‘‘
    (تفسیر ابن کثیر 492/2' نیز ملاحظہ ہو: تفسیر قرطبی 51/9)
    اے ہمارے اللہ کریم! ہمیں توبہ و استغفار کی نعمت سے نواز دیجیے اور پھر ہمارے لیے رزق کا حصول سہل فرما دیجیے۔ ہمارے معاملات میں آسانیاں پیدا فرما دیجیے اور ہمارے سب کاموں میں ہمارے حامی و ناصر ہو جائیے۔ آپ فریادوں کو سننے اور پورا فرمانے والے ہیں۔ آمین یا ذاالجلال والاکرام۔

    ج: استغفار و توبہ کے حصولِ رزق کا سبب ہونے کی تیسری دلیل اللہ رب العالمین کا یہ ارشادِ گرامی ہے:
    وَأَنِ ٱسْتَغْفِرُوا۟ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوٓا۟ إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُم مَّتَعًا حَسَنًا إِلَىٰٓ أَجَلٍۢ مُّسَمًّۭى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِى فَضْلٍۢ فَضْلَهُۥ ۖ وَإِن تَوَلَّوْا۟ فَإِنِّىٓ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍۢ كَبِيرٍ
    ’’اور یہ کہ تم اپنے رب سے (گزشتہ گناہوں کی) معافی مانگو اور (آئندہ گناہ کرنے سے) توبہ کرو۔ وہ تم کو ایک مدتِ معین (یعنی موت) تک اچھی طرح (دنیا کے) مزے اڑانے دے گا اور جس نے زیادہ عبادت کی اس کو زیادہ اجر دے گا اور اگر تم پھر جاؤ تو بےشک میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں‘‘
    (سورہ ہود آیت 3)
    اس آیت کریمہ میں استغفار و توبہ کرنے والوں کیلیے اللہ مالک الملک کی طرف سے (متاع حسن)(اچھا سازوسامان) عطا فرمانے کا وعدہ ہے اور(متاع حسن) عطا کرنے سے مراد جیسا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایا' یہ ہے کہ وہ تمہیں تونگری اور فراخی رزق سے نوازیں گے۔
    زاد المسیر 75/4
    امام قرطبی رحمتہ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
    ’’یہ استغفار و توبہ کا ثمرہ ہے کہ اللہ تعالٰی تمہیں وسعتِ رزق اور خوش حالی سے نوازیں گے اور تمہیں اس طرح عذاب سے نیست و نابود نہ کریں گے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں کو کیا۔‘‘
    (تفسیر القرطبی 403/9' نیز ملاحظہ: تفسیر الطبری 230/15' تفسیر الکاشف 258/2' تفسیر البغوی 373/4' فتح القدیر 695/2' تفسیر القاسمی 63/9)
    اس آیت کریمہ میں استغفار و توبہ اور وسعتِ رزق میں وہی صلہ اور تعلق ہے جو صلہ و تعلق شرط اور اس کی جزا کے درمیان ہوتا ہے۔ استغفار و توبہ کا ذکر بطور شرط کیا گیا ہے اور فراخی رزق کا بطور جزا اور معلوم ہے کہ جب بھی شرط پائی جاتی ہے جزا کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح جب بھی بندے کی طرف سے استغفار و توبہ ہو گی' رحمٰن و رحیم رب کری کی طرف سے اس کیلیے لازماََ وسعتِ رزق اور خوش حالی ہو گی۔ مشہور مفسر قرآن شیخ محمد امین شنقیطی فرماتے ہیں:
    ’’ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ گناہوں سے استغفار و توبہ کرنا فراخی رزق اور تونگری و خوش حالی کا سبب ہے۔ کیونکہ اللہ تعالٰی نے استغفار و توبہ کو بطور شرط اور تونگری و خوش حالی کو بطور جزا ذکر فرمایا ہے‘‘
    (اضواء البیان 9/3)

    د: استغفار و توبہ کے حصولِ رزق کی کلید ہونے کی چوتھی دلیل درج ذیل حدیث ہے:
    ’’اما احمد' امام ابو داؤد' امام نسائی' امام ابن ماجہ' امام حاکم حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں' انہوں نے فرمایا: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے کثرت سے اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی' اللہ تعالٰی اس کو ہر غم سے نجات دیں گے' ہر مشکل سے نکال دیں گے اور اس کو وہاں سے رزق مہیا فرمائیں گے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہ ہو گا۔‘‘
    (المسند 55/4' وسنن ابی داؤد 267/4' کتاب السنن الکبریٰ 118/6' سنن ابن ماجہ 339/2)
    اس حدیث پاک میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے والے کو تین ثمرات و فوائد حاصل ہونے کا ذکر فرمایا ہے اور ان تین میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ سب سے بڑی قوت و طاقت کے مالک اللہ الرازق اس کو وہاں سے رزق مہیا فرمائیں گے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہ ہو گا۔
    اور اس خبر کی سچائی اور حقانیت میں کیا شبہ ہو سکتا ہے کہ خبر دینے والے وہ ہیں جو اللہ تعالٰی کی ساری مخلوق میں سب سے سچے ہیں اور پھر وہ ایسی خبر اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کی وحی سے دیتے ہیں۔
    اے رزق کے متلاشیو! کثرت سے استغفار و توبہ کرو۔ اپنے گناہوں سے دور ہو جاؤ۔ گزشتہ سیاہ کاریوں پر ندامت کے آنسو بہاؤ اور اس بات کا عزم کر لو کہ آئندہ ساری زندگی ان گناہوں کے قریب نہیں پھٹکو گے۔
    اور اس بات کا خاص طور سے دھیان رکھو کہ استغفاروتوبہ صرف زبان تک ہی نہ رہے' دل کی ندامت اور اصلاحِ اعمال کی کوشش کے بغیر زبانی استغفاروتوبہ جھوٹوں اور دغا بازوں کی عادت ہے اور اللہ تعالٰی کے ہاں ایسے استغفاروتوبہ کی کیا قدروقیمت ہو سکتی ہے؟
    یا اللہ سبحانہ وتعالٰی ہمارے صغیرہ و کبیرہ گناہ معاف فرمائیے اور ہمیں صحیح معنوں میں دین کی سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائیے۔ ہمارے رزق و مال میں برکت اور اضافہ فرمائیے۔ آمین یا رب العالمین۔

    جاری ہے۔۔۔

     
  4. عاکف سعید

    عاکف سعید محسن

    شمولیت:
    ‏مئی 16, 2010
    پیغامات:
    181
    تقویٰ

    تقویٰ
    رزق کے اسباب میں سے ایک سبب تقویٰ ہے۔ تقویٰ کے متعلق گفتگو درج ذیل دو عنوانوں کے تحت ہو گی:
    1۔ تقوے کا مفہوم
    2۔ تقوے کے رزق کا سبب ہونے کے دلائل

    1۔ تقوے کا مفہوم:

    اللہ تعالٰی علمائے امت کو جزائے خیر دیں کہ انہوں نے تقوے کا مفہوم خوب وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔
    مثال کے طور پر امام راغب اصفہانی رحمتہ اللہ علیہ نے تقوے کی تعریف ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے:
    ’’گناہ سے نفس کو بچائے رکھنا اور اس کیلیے ممنوعہ باتوں کو چھوڑا جاتا ہے اور اسکی تکمیل کی غرض سے کچھ جائز امور کو بھی ترک کیا جاتا ہے۔‘‘
    (المفردات فی غریب القران ص531)
    امام نووی رحمتہ اللہ علیہ نے تقوے کی تعریف یوں بیان فرمائی ہے:
    ’’اللہ تعالٰی کے اوامرونواہی کی پابندی کرنا۔ اور تقویٰ کے معنے یہ ہیں کہ انسان ایسے کاموں سے بچا رہے جو اللہ تعالٰی کی ناراضی اور عذاب کا سبب ہوں۔‘‘
    (تحریر الفاظ التنبیہ ص 322)
    امام جرجانی رحمتہ اللہ علیہ نے تقوے کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے:
    ’’اللہ تعالٰی کی اطاعت و تابعداری کے ذریعے سے اپنے آپ کو ان کے عذاب سے بچانا اور اس مقصد کی خاطر اپنے نفس کو ایسے کام کرنے یا چھوڑنے سے بچائے رکھنا جن کے کرنے یا چھوڑنے سے انسان عذاب کا مستحق ٹھہرے‘‘
    (کتاب التعریفات ص 68)

    جس نے اپنے نفس کو گناہون سے آلودہ کیا وہ متقی نہیں۔ جس نے اپنی آنکھوں سے حرام چیزوں کو دیکھا، یا کانوں سے اللہ تعالٰی کی ناپسندیدہ باتوں کو شوق سے سنا، یا ممنوعہ اشیاء کو دلچسپی سے اپنے ہاتھوں میں لیا، یا اللہ تعالٰی کی ناراضی کے ٹھکانوں میں گیا تو اس نے اپنے نفس کو گناہ سے نہ بچایا۔
    اپنے آپ کو گناہوں سے آلودہ کر کے اللہ تعالٰی کو ناراض کرنے والوں اور ان کے عذاب کو دعوت دینے والوں کا متقیوں سے کیا تعلق ہے؟
    اللہ تعالٰی کے اوامرونواہی کی پروا نہ کرنے والے متقیوں میں کیوں کر شمار کیے جا سکتے ہیں؟

    2۔ تقوے کے حصولِ رزق کا سبب ہونے کے دلائل:

    تقوے کے رزق کا سبب ہونے پر کئی آیاتِ کریمہ دلالت کرتی ہیں۔ ان میں سے چند ایک مناسب تفسیر کے ساتھ ذیل میں درج کی جاتی ہیں:
    اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:
    وَمَن يَتَّقِ ٱللَّهَ يَجْعَل لَّهُۥ مَخْرَجًۭا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ
    ’’اور جو کوئی اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کیلیے نکلنے کی راہ بنا دیتا ہیں اور اس کو وہاں سے روزی دیتے ہیں جہاں سے اس کو گمان ہی نہیں ہوتا‘‘
    (سورہ الطلاق آیت 3-2)
    اس ارشادِ مبارک میں اللہ رب العزت نے بیان فرمایا کہ جس شخص میں تقوے کی صفت پیدا ہو گئی، اللہ تعالٰی اس کو دو نعمتوں سے نوازیں گے۔
    پہلی نعمت یہ ہے کہ اللہ تعالٰی اس کو ہر غم و مصیبت سے نجات دیں گے۔
    حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (يَجْعَل لَّهُۥ مَخْرَجًۭا) کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں:
    ’’اللہ تعالٰی اس کو دنیا و آخرت کے ہر غم سے نجات دیں گے۔‘‘
    (تفسیر القرطبی 159/18)
    حضرت ربیع بن خثیم آیتِ کریمہ کے اس حصے کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’اللہ تعالٰی اس کیلیے ہر اس بات سے نکلنے کی راہ پیدا فرما دیں گے جو لوگوں کیلیے تنگی اور مشکل کا سبب بنتی ہے۔‘‘
    (زاد المسیر 292/8' نیز ملاحظہ ہو: تفسیر البغوی 357/4 وتفسیر الخازن 108/7)
    دوسری نعمت یہ ہے اللہ تعالٰی اس کو وہاں سے رزق مہیا فرمائیں گے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہ ہو گا۔ حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ مذکورہ بالا دونوں آیتوں کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’جو کوئی اللہ تعالٰی کے احکام کی تعمیل کر کے اور ان کی طرف سے ممنوعہ باتوں سے دور رہ کر متقی بن جائے، وہ اس کیلیے ہر مشکل سے نکلنے کی راہ پیدا فرما دیں گے اور اس کو وہاں سے روزی عطا فرمائیں گے جہاں سے رزق کا ملنا اس کے خواب و خیال میں بھی نہ ہو گا۔‘‘
    (تفسیر ابن کثیر 400/4 نیز ملاحظہ ہو: زاد المسیر 292/8 وتفسیر الکاشف 120/4)
    اللہ اکبر! تقوے کی خیر و برکت کتنی عظیم اور قیمتی ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
    ’’غموں اور دکھوں سے نجات کا نسخہ بتلانے والی قرآن کریم کی سب سے عظیم آیت کریمہ یہ ہے: وَمَن يَتَّقِ ٱللَّهَ يَجْعَل لَّهُۥ مَخْرَجًۭا‘‘
    (تفسیر ابن کثیر 400/4 نیز ملاحظہ ہو: تفسیر ابن مسعود 651/2)

    ب: تقوے کے حصولِ رزق کا سبب ہونے کی دوسری دلیل اللہ مالک الملک کا یہ ارشاد گرامی ہے:
    ‏وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ ٱلْقُرَىٰٓ ءَامَنُوا۟ وَٱتَّقَوْا۟ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَتٍۢ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ وَلَكِن كَذَّبُوا۟ فَأَخَذْنَهُم بِمَا كَانُوا۟ يَكْسِبُونَ ‎
    ’’اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور (برے کاموں کفر اور شرک سے) بچے رہتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے۔ مگر انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کے کاموں کی سزا میں ان کو دھر پکڑا۔‘‘
    (سورہ الاعراف آیت 96)
    اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے یہ بات بیان فرمائی ہے کہ اگر بستیوں والوں میں دو باتیں یعنی ایمان اور تقویٰ آجائیں تو وہ ان کیلیے ہر طرف سے خیر و برکات کے دروازوں کو کھول دیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ( لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَتٍۢ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
    ’’تو ہم ان کیلیے خیر عام کر دیں اور ہر جانب سے اس کا حاصل کرنا ان کیلیے سہل کر دیں۔‘‘
    (تفسیر ابن السعود 253/3)
    ایمان و تقویٰ والوں کے لیے اس آیت کریمہ میں اللہ تعالٰی کی جانب سے آسمان و زمین سے برکات کے کھولنے کے وعدے میں کتنے ہی لطائف پنہاں ہیں' ان میں سے تین ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں:
    1۔ اللہ تعالٰی نے ایمان و تقویٰ والوں کیلیے برکات کے کھولنے کا وعدہ فرمایا ہے' اور لفظ ((البرکات))((لابرکۃ)) کی جمع ہے اور ((البرکۃ)) کی تفسیر کرتے ہوئے امام بغوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
    ’’کسی چیز پر مداومت اور ہمیشگی‘‘
    (تفسیر البغوی 183/2)
    اور امام خازن اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
    ’’یہ کسی چیز میں خیر الٰہی کا دوام و ثبوت ہے۔‘‘
    (تفسیر الخازن 366/2)
    اسی طرح ((البرکات)) کے لفظ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایمان و تقویٰ کے بدلے میں ملنے والا ثمرہ و فائدہ عارضی اور وقتی نہین' یا ایسا نہیں جو شر سے بدل جائے بلکہ وہ دائمی اور ابدی خیر ہے۔
    سید محمد رشید رضا نے ایمان و تقویٰ والوں پر نازل ہونے والی برکات کی عمدگی اور خوبی کو یوں بیان فرمایا ہے:
    ’’مومنوں پر جو نعمتیں اور برکات نازل کی جاتی ہیں وہ ان پر خوش اور راضی ہوتے ہیں اور اللہ تعالٰی کا شکر کرتے ہیں' خیر کی راہوں میں ان کو استعمال کرتے ہیں' شر و فساد کی جگہوں پر ان کے استعمال سے گریز کرتے ہیں' نعمتوں اور برکات کے ملنے پر ان کے اس طرزِ عمل کی وجہ سے اللہ تعالٰی ان پر اپنی نعمتوں میں اضافہ فرماتے ہیں اور آخرت میں انہیں بہترین اجر چطا فرمائیں گے۔‘‘
    (تفسیر المنار 25/9)
    شیخ ابن عاشور نے ((البرکۃ)) کی تفسیر مین فرمایا ہے:
    ’’البرکۃ سے مراد وہ عمدہ خیر ہے جس کے استعمال کی بنا پر آخرت میں کچھ مواخذہ نہ ہو گا اور یہ نعمت کی بہترین کیفیت ہے‘‘
    (تفسیر التحریر والتنویر 22/9)
    2- اللہ تعالٰی نے ایمان و تقویٰ والون کو ملنے والی خیر کیلیے صیغہ جمع (البرکات) استعمال فرمایا اور صیغہ جمع کے استعمال کی حکمت بیان کرتے ہوئے شیخ ابن عاشور فرماتے ہیں:
    ’’((البرکات)) ((برکۃ)) کی جمع ہے اور جمع کا صیغہ لانے کی حکمت یہ ہے کہ ( اہل ایمان و تقویٰ کو ملنے والی) بابرکت اشیاء کی متعدد انواع و اقسام ہیں‘‘
    (تفسیر التحریر والتنویر 21/9)
    3۔ برکات کا ذکر فرماتے ہوئے اللہ تعالٰی نے فرمایا:
    بَرَكَتٍۢ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ
    آسمان و زمین سے برکتیں اور اس فرمانِ الٰہی کی تفسیر بیان کرتے ہوئے امام رازی رحمتہ اللہ علیہ تحریر کرتے ہیں:
    ’’آسمان کی برکات بارش کی صورت میں ہیں اور زمین کی برکات پودوں' پھلوں' چوپاؤں اور مویشیوں کی کثرت اور امن و سلامتی کے حصول کی شکل میں ہیں۔ (آسمان و زمین کی برکات ذکر کرنے کی حکمت یہ ہے) کہ آسمان باپ کی مانند اور زمین ماں کی طرح ہے اور اللہ تعالٰی کی تخلیق و تدبیر سے سارے منافع انہی دونوں کے ذریعے سے میسر آتے ہیں۔‘‘
    (التفسیر الکبیر 158/14)

    ج: تقویٰ کے رزق کا سبب ہونے کی تیسری دلیل اللہ تعالٰی کا درج ذیل ارشاد گرامی ہے:
    ‏وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا۟ ٱلتَّوْرَىٰةَ وَٱلْإِنجِيلَ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا۟ مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم ۚ مِّنْهُمْ أُمَّةٌۭ مُّقْتَصِدَةٌۭ ۖ وَكَثِيرٌۭ مِّنْهُمْ سَآءَ مَا يَعْمَلُونَ ‎
    ’’اور اگر وہ تورات'انجیل اور جو ان کی طرف ان کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا قائم رکھتے تو (سر کے) اوپر اور پاؤں کے نیچے دونوں طرف سے کھاتے۔ ایک گروہ تو ان میں سے سیدھا ہے اور ان میں سے اکثر برے کام کرنے والے ہیں۔‘‘
    (سورہ المائدہ آیت 66)
    اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالٰی نے جو سب سے زیادہ سچے ہیں' اہل کتاب کے متعلق بتلایا' جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی تفسیر بیان کی ہے کہ اگر وہ تورات'انجیل اور قرآنِ کریم کی تعلیمات پر عمل کرتے تو وہ ان کے آسمان سے نازل ہونے والے اور زمین سے اگنے والے رزق میں اضافہ فرما دیتے۔
    (ملاحظہ ہو: تفسیر الطبری 463/10 و تفسیر المحرر الوجیز 153/5 وزادالمسیر 395/2' وتفسیر ابن کثیر 86/2)
    شیخ یحیٰی بن عمر اندلسی اس آیتِ کریمہ پر تعلیق کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:
    ’’اگر اہل کتاب تورات'انجیل اور قرآن کریم میں نازل کردہ احکام کی تعمیل کرتے تو وہ اوپر نیچے سے کھاتے یعنی اللہ تعالٰی دنیا ان کے حوالے کر دیتے۔‘‘
    (کتاب النظر والاحکام فی جمیع احل السوق ص 41)
    امام قرطبی اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس آیت کریمہ میں بیان کردہ بات مندرجہ ذیل آیاتِ شریفہ میں بھی بیان کی گئی ہے:
    وَمَن يَتَّقِ ٱللَّهَ يَجْعَل لَّهُۥ مَخْرَجًۭا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ
    ’’اور جو کوئی اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کیلیے نکلنے کی راہ بنا دیتا ہیں اور اس کو وہاں سے روزی دیتے ہیں جہاں سے اس کو گمان ہی نہیں ہوتا‘‘
    (سورہ الطلاق آیت 3-2)
    ‏وَأَلَّوِ ٱسْتَقَمُوا۟ عَلَى ٱلطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَهُم مَّآءً غَدَقًۭا
    ’’اور اگر وہ سیدھی راہ پر قائم رہتے تو ہم انہیں خوب پانی پلاتے‘‘
    (سورہ جن آیت 16)
    ‏وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ ٱلْقُرَىٰٓ ءَامَنُوا۟ وَٱتَّقَوْا۟ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَتٍۢ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ وَلَكِن كَذَّبُوا۟ فَأَخَذْنَهُم بِمَا كَانُوا۟ يَكْسِبُونَ ‎
    ’’اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور (برے کاموں کفر اور شرک سے) بچے رہتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے۔ مگر انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کے کاموں کی سزا میں ان کو دھر پکڑا۔‘‘
    (سورہ الاعراف آیت 96)
    ان آیاتِ شریفہ میں اللہ تعالٰی نے تقوے کو عطارے رزق کا سبب قرار دیا اور شکر کرنے والوں کو مزید عطا کرنے کا وعدہ فرمایا:
    لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ
    ’’اگر تم شکر کرو گے تو میں لازماََ تمہیں اور زیادہ دوں گا۔‘‘
    (سورہ ابراہیم آیت 7)

    پس ہر وہ شخص جو رزق کی کشادگی اور فراخی چاہتا ہے وہ اپنے آپ کو ہر گناہ سے دور رکھے۔ اللہ رب العزت نے جن باتوں کا ھکم دیا ہے ان کو بجا لائے اور جن امور سے روکا ہے' ان سے باز رہے۔ اپنے آپ کو ہر اس بات سے بچائے رکھے جو اس پر اللہ تعالٰی کے ناراض ہونے اور ان کے عذان کے نزول کا باعث ہو۔ وہ بات خواہ نیکی کے چھوڑنے کی شکل میں ہو یا برائی کے ارتکاب کی صورت میں۔

    جاری ہے۔۔۔

     
  5. عاکف سعید

    عاکف سعید محسن

    شمولیت:
    ‏مئی 16, 2010
    پیغامات:
    181
    اللہ تعالٰی پر توکل

    اللہ تعالٰی پر توکل
    جن اسباب کی وساطت سے رزق حاصل کیا جاتا ہے ان میں ایک اہم سبب اللہ مالک الملک پر توکل ہے۔ اس موضوع کے متعلق درج ذیل تین عنوانوں کے تحت ان شاءاللہ گفتگو کی جا رہی ہے۔
    1۔ توکل علی اللہ کا مفہوم۔
    2۔ توکل علی اللہ کے کلیدِ رزق ہونے کی دلیل۔
    3۔ کیا توکل کے معنی حصولِ رزق کی کوششوں کو چھوڑ دینا ہیں؟

    1۔ توکل علی اللہ کا مفہوم:

    اللہ تعالٰی علمائے امت کو جزائے خیر عطا فرمائیں کہ انہوں نے توکل کے معنی و مفہوم کو خوب وضاحت سے بیان فرمایا ہے۔ مثال کے طور پر امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
    ’’توکل یہ ہے کہ دل کا اعتماد صرف اسی پر ہو جس پر توکل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہو۔‘‘
    (احیاء علوم الدین 259/4)
    علامہ مناوی فرماتے ہیں:
    ’’توکل بندے کے اظہارِ عجز اور جس پر توکل کیا گیا ہے' اس پر مکمل بھروسے کا نام ہے۔‘‘
    (فیض القدیر 311/5)
    ملا علی قاری ((التوکل علی اللہ حق التوکل)) اللہ تعالٰی پر کماحقہ توکل کا مفہوم بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
    ’’تم اس بات کو یقینی طور پر جان لو کہ درحقیقت ہر کام کرنے والے اللہ تعالٰی ہیں۔ کائنات میں جو کچھ بھی ہے تخلیق و رزق' عطا کرنا یا محروم رکھنا' ضررونفع' افلاس و تونگری' بیماری و صحت' موت و زندگی غرضیکہ ہر چیز فقط اللہ تعالٰی کے حکم سے ہے‘‘
    (مرقاۃ المفاتیح 156/9)

    2۔ توکل علی اللہ کے کلیدِ رزق ہونے کی دلیل:

    توکل علی اللہ تعالٰی کے رزق کا سبب ہونے پر درج ذیل حدیث شریف دلالت کرتی ہے:
    ’’حضراتِ آئمہ احمد'ترمذی'ابن ماجہ'ابن مبارک'ابن حبان'حاکم'قضاعی اور بغوی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’اگر تم اللہ تعالٰی پر اسی طرح بھروسہ کرو جیسا کہ ان پر بھروسہ کرنے کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ صبح خالہ پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس پلٹتے ہیں۔‘
    (المسند 243/1' جامع الترمذی 7/7' سنن ابن ماجہ 419/2' کتاب الزہد194/4' الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان 509/2)
    اس حدیث شریف میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی امت کو خبر دی کہ اللہ تعالٰی پر کماحقہ بھروسہ کرنے والوں کو اسی طرح رزق عطا کیا جاتا ہے جس طرح پرندوں کو رزق مہیا کیا جاتا ہے اور ایسے کیوں نہ ہو؟ اللہ تعالٰی پر توکل کرنے والے نے اس عظیم، منفرد، یکتا اور کائنات کے مالک پر بھروسہ کیا جن کے (كُن) کہنے سے سب کچھ ہو جاتا ہے۔
    ‏إِنَّمَآ أَمْرُهُۥٓ إِذَآ أَرَادَ شَيْـًٔا أَن يَقُولَ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ
    ’’اس کی شان تو یہ ہے کہ جب کوئی چیز (بنانا) چاہتا ہے تو اس سے فرما دیتا ہے ہو جا' وہ ہو جاتی ہے۔‘‘
    (سورہ یٰس آیت 82)
    جس نے ان پر اعتماد کیا وہ تنہا اس کے لیے کافی ہیں۔ انہوں نے خود بتلایا ہے:
    وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُۥٓ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ بَلِغُ أَمْرِهِۦ ۚ قَدْ جَعَلَ ٱللَّهُ لِكُلِّ شَىْءٍۢ قَدْرًۭا
    ’’اور جو کوئی اللہ تعالٰی پر بھروسہ رکھے وہ اس کو کافی ہے۔ یقیناََ اللہ تعالٰی اپنا کام پورا کرنے والا ہے۔ بے شک اللہ تعالٰی نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کیا ہے۔‘‘
    (سورہ الطلاق آیت 3)
    اس آیتِ شریفہ کی تفسیر میں حضرت ربیع بن خثیم فرماتے ہیں:
    ((مِن کُلِّ مَا ضَاقَ عَلَی النَّاس))
    ’’اللہ تعالی اس کیلیے ہر اس چیز کے مقابلے میں کافی ہو جاتے ہیں جو لوگوں کیلیے تنگی کا سبب بنتی ہے۔‘‘
    (شرح السنہ 298/14)

    3۔ کیا توکل کے معنی حصولِ رزق کی کوششوں کو چھوڑ دینا ہیں؟

    شاید کچھ ناسمجھ لوگ کہیں کہ جب توکل کرنے والے کو ضرور رزق ملتا ہے تو ہم حصولِ رزق کی خاطر جدوجہد اور محنت و مشقت کیوں کریں؟ کیوں نہ ہم مزے سے بیٹھے رہیں کہ توکل کی وجہ سے ہم پر آسمان سے رزق نے خود ہی نازل ہو جانا ہے؟
    ان لوگوں کی یہ بات توکل کی حقیقت سے ان کی بے علمی پر دلالت کرتی ہے۔ اگر یہ لوگ مذکورہ بالا حدیث شریف پر غور کرتے تو ایسی بات نہ کہتے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالٰی پر کماحقہ اعتماد کرنے والوں کو ان پر پرندوں سے تشبیہ دی ہے جو صبح سویرے خالی پیٹ اللہ تعالٰی کے رزق کی تلاش میں نکلتے اور شام کو اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے پیٹ بھر کر واپس اپنے گھونسلوں کی طرف پلٹتے ہیں۔ حالانکہ ان پرندوں کی دکانیں' فیکٹریاں' ملازمتیں یا کھیت نہیں جن پر وہ رزق کے حصول میں اعتماد صرف ایک اللہ تعالٰی پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی علمائے امت کو جزائے خیر عطا فرمائیں کہ انہوں نے اس بات کی تنبیہ فرمائی۔ مثال کے طور پر امام احمد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں "حدیث شریف میں یہ بات تو نہیں کہ حصولِ رزق کیلیے کوشش نہ کی جائے بلکہ وہ تو اس بات دلالت کرتی ہے کہ رزق حاصل کرنے کیلیے جدوجہد کی جائے اور جس بات کی تاکید حدیث شریف میں کی گئی ہے' وہ یہ ہے کہ اگر ان کے آنے جانے اور سعی و کوشش کے پس منظر میں یہ یقین ہو کہ ہر طرح کی خیر صرف اللہ تعالٰی کے ہاتھ میں ہے تو وہ ضرور اس طرح خیر و برکات اور رزق حاصل کر کے پلٹیں جس طرح کہ سر شام پرندے رزق حاصل کر کے پلٹتے ہیں۔"
    (ماخوذ از تحفۃ الاحوذی 8/7)
    امام احمد رحمتہ اللہ علیہ سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا گیا جو اپنے گھر یا مسجد میں بیٹھے کہتا ہے: ’’میں تو کچھ کام نہ کروں گا' میرا رزق خود میرے پاس آئے گا‘‘ آپ نے فرمایا: ’’یہ شخص علم سے کورا ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
    ’’اللہ تعالٰی نے میرا رزق میرے نیزے کے سایہ کے نیچے رکھا۔‘‘
    اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
    ’’اگر تم اللہ تعالٰی پر اسی طرح بھروسہ کرو جیسا کہ ان پر بھروسہ کرنے کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ صبح خالہ پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس پلٹتے ہیں۔‘‘
    (ماخوذ از فتح الباری 305/11)
    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ پرندے صبح و شام رزق کی جستجو میں آتے جاتے ہیں۔ حضرتِ امام نے مزید فرمایا: ’’حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم تجارت کرتے اور اپنے نخلستانوں (کجھوروں کے باغوں) میں کام کرتے اور وہ ہمارے لیے نمونہ ہیں۔‘‘ شیخ ابو حامد (امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ) اس بارے میں فرماتے ہیں: توکل کے بارے میں یہ سمجھنا کہ اس سے مراد حصولِ رزق کیلیے جسمانی کدوکش اور دماغی سوچ بچار چھوڑ کر پھٹے پرانے چیتھڑوں کی طرح زمین پر گرے رہنا اور ردی گوشت کی طرح تختہ پر پڑے رہنا احمقانہ سوچ ہے۔ ایسا کرنا شریعت میں حرام ہے۔ توکل کرنے والوں کی اسلام میں تعریف کی گئی ہے اور یہ کیسے ممکن کہ حرام کا ارتکاب کرنے والے شریعت کی نگاہ میں قابل تعریف قرار دیئے جائیں؟
    اس بارے میں حق کو آشکارا کرنے کی غرض سے ہم کہتے ہیں: توکل کا اثر بندے کی اس سعی و کوشش میں ظاہر ہوتا ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر کرتا ہے۔‘‘
    امام ابو قاسم قشیری فرماتے ہیں: ’’توکل کی جگہ دل ہے اور جب بندے کے دل میں یہ بات راسخ ہو جائے کہ رزق اللہ تعالٰی کی جانب سے ہے' اگر تنگ دستی آئی تو تقدیر الٰہی سے' آسانی ہوئی تو ان کی عنایت و نوازش سے' تو پھر ظاہری حرکت توکل کے منافی نہیں۔‘‘
    (ماخوذ ازمرقاۃ المفاتیح 157/5)
    درج ذیل حدیث شریف بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ توکل کا تقاضا رزق کے حصول کیلیے کوشش کا ترک کرنا نہیں۔
    ’’امام ابن حبان اور امام حاکم نے عمروبن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: ایک شخص نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: ’میں اپنی اونٹنی کو کھلا چھوڑ دیتا ہوں اور توکل کرتا ہوں‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کے گھٹنے کو باندھو اور توکل کرو۔‘‘
    (الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان 510/2)
    ایک دوسری روایت میں ہے جس کو امام قضاعی نے روایت کیا ہے۔ عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ نے عرج کی:
    ’’اے اللہ کے رسول! میں اپنی سواری کو پابہ زنجیر کروں (باندھوں) اور اللہ اللہ تعالٰی پر بھروسہ کروں یا سواری کو کھلا چھوڑ دوں اور توکل کروں؟‘‘
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    ’’سواری کو پابہ زنجیر کرو اور توکل کرو۔‘‘
    (مسند الشھاب 368/1)
    بات کا خلاصہ یہ ہے کہ توکل کے معنی حصولِ رزق کیلیے سعی و کوشش کو ترک کرنا نہیں۔ مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ رزق حاصل کرنے کیلیے جدوجہد کرے، لیکن اس کا بھروسہ اپنی محنت و مشقت پر نہ ہو بلکہ رب ذوالجلال پر ہو اور اس بات کا اعتقاد رکھے کہ سب معاملات انہی کے ہاتھ میں ہیں اور رزق صرف اور صرف انہی کی طرف سے ہے۔

    جاری ہے۔۔۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں