اسلام آباد: دو مذہبی تنظیموں کا مسجد پر افسوس ناک تنازعہ

ابوعکاشہ نے 'حالاتِ حاضرہ' میں ‏مارچ 10, 2015 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    خبر ہے کہ
    جماعة الدعوة کے شرپسندوں کا مسجد دارالسلام اہل حدیث I-10/2پر قبضہ ،خطیب ڈاکٹر امجد حیات کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔نمازی سراپا احتجاج ـاسسٹنٹ کمشنر رابعہ اورنگزیب صاحبہ اور ایس ایچ اوتھانہ سبزی منڈی طاہر موقع پر پہنچے اور حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے اہم کردار ادا کیا۔
    اسلام آباد( نمائندہ خصوصی ) مرکزی جمعیت اہل حدیث اسلام آباد کے زیرانتظام عرصہ 17سال سے چلنے والی مسجد دارالسلام اہل حدیث چنبیلی روڈ I-10/2پر کالعدم تنظیم جماعة الدعوة کے شرپسند عناصر نے قبضہ کر کے آج جمعة المبارک کے موقع پر پچھلے 12سال سے مسجد کے خطیب ڈاکٹر امجد حیات کو انتظامیہ سمیت مسجد میں داخل نہ ہونے دیا ۔اس پر نمازی حضرات مشتعل ہو گئے اور انہوں نے پولیس سے مدد طلب کی۔ ایس ایچ او موقع پر آئے تو انہوں نے جماعة الدعوة کے خطیب کو روکنے کا حکم دیا اور مسجد کے مستقل خطیب کو نماز پڑھانے کے لئے جب اندر بھیجا تو پولیس کی موجودگی میں جماعة الدعوة کے شرپسندوں رحمان گل، شمس الحق، سلمان بٹ،حافظ اشتیاق، سہیل اور مفتی یوسف نے خطیب مسجد ہٰذا ڈاکٹرامجد حیات سمیت دو نمازیوں پر لاتوں، مکوں اور گھونسوں سے شدید تشدد کا نشانہ بھی بنایا ۔ بعد ازاں مسجد انتظامیہ اور نمازی حضرات نے احتجاجاً مسجد سے باہرپارک میں نماز پڑھی ۔نماز کے بعد اسسٹنٹ کمشنر رابعہ اورنگزیب نے بھی مسجد کا ہنگامی دورہ کیا اورایس ایچ او صاحب کو موقع پر حکم دیا کہ سب سے پہلے مسجد کو ان شرپسندوں سے خالی کروائیں تو ایس ایچ او صاحب نے فوراً خود جا کر ان شرپسندوں کو مسجد سے نکالا اور نیا فیصلہ آنے تک مسجد کو بند کر دیا گیا۔یاد رہے کہ دو دن پہلے ان شرپسند عناصر نے مسجد میں قائم مدرسہ میں پڑھنے والے حفظ کے بچوں کو بھی نکال دیا تھا اور دو خادموں کو بھی فارغ کر دیا تھا۔اس واقعہ کے فوراً بعد مسجد ہذا کی انتظامیہ کمیٹی کے صدر چوہدری محمد صدیق کی قیادت میں مرکزی جمعیت اہل حدیث اسلام آباد کے امیرحافظ مقصود احمد سے ملاقات کی ۔انہوں نے فلاح انسانیت کی آڑ میں اہل حدیث مساجد پر آئے دن قبضہ کرنے کی کوششوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اگر بدمعاشی کا یہ سلسلہ بند نہ کیا گیا تو ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے جائینگے۔انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ان شرپسند تنظیموں پر پابندی لگائیں ۔بعد ازاں اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ کے آفس میں دونوں پارٹیوں کی میٹنگ ہوئی جس میں مسجد انتظامیہ اور نمازیوں نے اسسٹنٹ کمشنر کو واضح کر دیا کہ ہم پرامن لوگ ہیں ،ہم ان سے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کرنا چاہتے اسلئے آپ ان شرپسند عناصر سے ہماری جان چھڑائیں ۔

    [GLOW]حوالہ: [/GLOW]

    مساجد میں شرپسندی کرنے والوں کو دنیا میں سنگین رسوائی اور آخرت میں سخت عذاب دیا جائے گا۔ اسلام آباد راولپنڈی کے علمائے کرام کا مسجد دارالسلام اہل حدیث کے خطیب ڈاکٹر امجد حیات پر تشدد اور نمازیوں کو مسجد میں جانے سے روکنے پر احتجاجی اجلاس سے خطاب۔مسجد تو وہ جگہ ہے جہاں مسلمان بغیر کسی رکاوٹ کے اللہ کی عبادت اور بندگی کیلئے انفراداً یا اجتماعاً اکٹھے ہو کر نماز ادا کرسکیں ۔لیکن جماعۃ الدعوۃ کے شرپسنداور سازشی عناصر مذہبی لبادہ اوڑھ کر مسجد دارالسلام کے تقدس کو پامال کر رہے ہیں
    اسلام آباد(نمائندہ خصوصی ) مساجد میں بربادی کرنے والے شرپسند لوگ عذاب الہٰی سے نہیں بچ سکتے۔قرآنی تعلیمات کی روشنی میں جو بھی مساجد میں عبادت اور اللہ کے ذکر کو روکنے کی کوشش کرتا ہے اُسکے لیے دنیا میں سنگین رسوائی کا اور آخرت میں شدید عذاب دیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار مرکزی جمعیت اہل حدیث اسلام آباد /راولپنڈی کے علمائے کرام کے مشترکہ اجلاس سے [GLOW]حافظ مقصود احمد امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث اسلام آباد، سید عتیق الرحمن شاہ امیر راولپنڈی،ڈاکٹر فضل الہٰی، سید طالب الرحمن شاہ ، چوہدری یوسف سلفی ، سید طیب الرحمن زیدی ،مولانا حفیظ الرحمن ،مولانا سید عبدالغفار شاہ بخاری، مولانا شاہدنفیس، مولانا ابوالحفض طاہر کلیم[/GLOW] سمیت 100سے زائد علماءنے جامع مسجد دارالسلام اہل حدیثI-10/2 کے خطیب ڈاکٹر امجد حیات پر شرپسند عناصر کے تشدد اور مسجد پر قبضے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہم ظالم کا ہاتھ روکنے کے لئے کسی بھی حد تک جائیں گے ۔ایک عالم دین کے ساتھ اس طرح کا ناروا سلوک کرنا قابل مذمت بات ہے۔مقررین کا کہنا تھا کہ مسجد تو وہ جگہ ہے جہاں مسلمان بغیر کسی رکاوٹ کے اللہ کی عبادت اور بندگی کیلئے انفراداً یا اجتماعاً اکٹھے ہو کر نماز ادا کرسکیں ۔لیکن جماعۃ الدعوۃ کے شرپسنداور سازشی عناصر مذہبی لبادہ اوڑھ کر مسجد دارالسلام کے تقدس کو پامال کر رہے ہیں ۔ علمائے کرام نے وزیر داخلہ، آئی جی ،چیف کمشنر اسلام آباد سے مطالبہ کیا کہ وہ فی الفور ان شرپسند عناصر کو روکیں ورنہ پورے ملک میں مسجد اہل حدیث پر قبضے کیخلاف احتجاجی مظاہرے کیے جائینگے ۔

    http://e.jang.com.pk/03-09-2015/Pindi/pic.asp?picname=02_19.gif
     
    Last edited by a moderator: ‏مارچ 10, 2015
  2. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    چوروں کو پڑے مور
     
  3. عطاءالرحمن منگلوری

    عطاءالرحمن منگلوری -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 9, 2012
    پیغامات:
    1,489
    جماعت الدعوہ کا دعویٰ کیا ہے؟ قبضے مقصد کیا ہے؟ انا للہ...
     
  4. sfahad10

    sfahad10 -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 27, 2010
    پیغامات:
    265
    السلام علیکم
    مسجد دارالسلام کا معاملہ کافی عرصہ سے نزاع کا باعث بنا ہوا تھا۔ اور اس پر کافی مجالس ہوئی، تاکہ صلح کی کوئی تدبیر کی جاسکے۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔قانونی معاملات میں بھی نامراد ہونے کے بعد اب فریق مخالف اس معاملے کو میڈیااور سوشل میدیا میں لے آیا اور اسلام آباد ، راولپنڈی میں وال چاکنگ شروع کر دی ۔جو ان کی ذہنی سطح کا مظہر ہے۔
    اس معاملے میں آج جماعۃ الدعوۃ کے مقامی ذمہ دار سے بات ہوئی تو انہوں نے مجھے اس کا پس منظر اور سارا معاملہ بتایا ، جسے میں اپنے الفاظ میں بتا رہا ہوں۔


    پس منظر:

    1997 میں بننے والی اس مسجد کی تعمیر میں جماعۃ الدعوۃ کے اسلام آباد کے مقامی مسئولین کا پورا کردار تھا۔ چونکہ یہ مسجد گرین بیلٹ پر بنی لہٰذا اصولی طور پہ یہ غیر قانونی مسجد تھی۔ لیکن اس طرح کی بہت ساری مساجد اسلام آباد میں بنائی جاتی ہیں۔ مسجد بنانے کے فورا بعد مقامی تھانے نے CDAکے کہنے پر ایکشن کیا اور سب سے فعال بندے کو گرفتار کر لیا وہ جماعۃ الدعوۃ کے تحصیل کے ذمہ دار انجینئر پیر ارشد تھے۔جو حوالات میں رہے۔

    اس کے بعد مستقل خطبہ جمعہ جماعۃالدعوۃ کے ساتھی ہی پڑھاتے رہے۔اس مسجد میں ایف آئی ایف کے شعبہ میڈیکل کیمپ کےحالیہ ذمہ دار طارق مجید صاحب ایک سال تک جمعہ پڑھاتے رہے۔ان کے بعد اسلام آباد کے ضلعی مسئول عبدالرحمان شاد ان کے بعد حالیہ ضلع بہاولپور کے مسئول عمر فاروق صاحب ان کے بعد کرنل نذیر صاحب، ابوعمر شبیر وٹو شہید جمعہ اور عید کی نمازیں پڑھاتے رہے۔ 2005 میں جب مسجد کی مقامی انتظامیہ جو کہ میاں عبدالرحمان ، میاں عبید صاحب وغیرہ پر مشتمل تھی( جو کہ اسلام آباد جماعۃ الدعوۃ کے سینئر ترین لوگوں میں سے ہیں اور جماعۃ الدعوۃ کے مرکزی بزرگ کرنل نذیر صاحب کے قریبی رشتہ داروں میں سے ہیں)نے،مسجد سے ایک گروپ جو کہ یہ مسجد جماعت اسلامی کے حوالے کرنا چاہتا تھا ،کو فارغ کیا اور جماعت سے تقاضا کیا کہ ہمیں مستقل خطیب اور امام دیا جائے لہٰذا مستقل خطیب امجد حیات صاحب جو اس وقت کے ضلعی مسئول ابو حنظلہ بھائی کے برادر نسبتی تھےاور یونیورسٹی میں طالب علم تھے جن کے بڑے بھائی مظفر آباد میں اس وقت نائب امیر ہیں ، اور والد صاحب جماعت کے ساتھی ہیں کو خطیب مقرر کیا ۔اُس وقت تک حاجی صدیق صاحب اور ان کے رفقا کا تعلق مسجد سے صرف نماز کی حد تک تھا۔

    2009 میں میاں برادران(مسجد کی بنیادی کمیٹی کے اراکین میاں عبدالرحمان اور میاں عبید وغیرہ) I-10سےG-13شفٹ ہو گئے اور مسجد کا انتظام حاجی صدیق نے یہ وعدہ کرتے ہوئے لیا کہ میں مسجد کو نقشے کے مطابق بناؤں گا اور یہ اسی سٹیٹس پر بغیر کسی جماعتی لیبل کے چلتی رہے گی۔ لہٰذا سب نے جماعۃ الدعوۃ سمیت فنڈنگ کی اور مسجد کو از سر نو تعمیر کیا۔

    2013 تک اس مسجد سے مرکزی جمعیت کا کوئی تعلق نہ تھااور یہ مسجد 1997 سے جماعۃ الدعوۃ کے زیر انتظام رہی اور نیوٹرل انداز میں بغیر کسی جماعتی لیبل کےانتظام و انصرام چلتے رہے۔

    2013 کے بعد کی صورت حال:

    2014 کے رمضان المبارک سے دو مہینے پہلے ان سازشوں کا آغاز ہوا، جن کا نتیجہ اب سامنے آرہا ہے، کہ یہ مسجد جو مکمل تعمیر ہو چکی اس کو مرکزی جمعیت کے حوالے کیا جائے۔ اس میں منور صاحب جو حاجی صدیق کے معاونین میں سے تھے اور مرکزی جمعیت کے مقامی ذمہ دار تھے نے اس میں بھرپور کردار ادا کیا۔ حاجی صدیق صاحب رمضان سے پہلے برطانیہ چلے گئے اور پیچھے پہلی دفعہ ذمہ دار منور صاحب کو اس مسجد کا ذمہ دار بنا دیا۔

    1- منور صاحب نے چارج سنبھالتے ہی جماعۃ الدعوۃ کے ساتھیوں کو یہ کہا کہ اس رمضان میں آپ کا کوئی دعوتی شیڈول نہیں چلے گا۔اور نہ کوئی آپ کا درس ہو گا اور نہ ہی افطاری اور سحری کرنے دی جائے گی۔18 سال میں پہلی دفعہ یہ بات I-10 کے رہائشیوں کے سننے میں آئی۔ ہمیشہ سے رمضان اور اعتکاف کا مکمل دعوتی شیڈول جماعت کے ذمہ ہی تھا چنانچہ اس رمضان میں کسی قسم کا کوئی پروگرام نہ کرنے دیا گیا۔

    2- جماعت کے فنڈ باکس جو عرصہ اٹھارہ سال سے مسجد میں پڑے تھے، اٹھا کر باہر پھینک دیے گئے۔لٹریچر کا سٹال جو ہر جمعہ سال ہا سال سے لگ رہا تھا، اس کو زبردستی بند کروادیا گیا۔

    3- راولپنڈی کے مشہور خطیب کے درس پر اس مسجد میں ہمیشہ سے پابندی رہی کیونکہ وہ عموماً دعوتی حکمت کو بالائے طاق رکھ کر مسالک پر اختلافی بات کرتے ہیں۔ اور ان کے نظریات میں تکفیری رجحان بہت زیادہ ہے، ان کے پے در پے تین درس کروائے گئے جس میں انہوں نے اپنے مزاج کے عین مطابق جماعت کے خلاف اپنا غصہ اور نفرت کھل کر بیان کیا۔

    4- ساتھ ہی جماعت کے ساتھیوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ آپ کا اب کوئی درس، جمعہ یا ترجمہ قرآن کلاس نہیں ہونی دی جائے گی اور اصلاحی لٹریچر کی تقسیم جو 1997 سے جاری تھی وہ بھی روک دی گئی۔

    5- اسی دوران راولپنڈی اور اسلام آباد میں تکفیر کے گڑھ جو اسلامک ریسرچ سنٹر کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں ہمیشہ ٹی ٹی پی او رپاکستان میں خود کش حملےپاکستانی ریاستی اداروں پر کفر کے فتوے کی حمایت کی جاتی ہے کو کھلی چھوٹ دے دی گئی کہ کھلے عام ان کے تکفیر کے منہج کے دروس اور کلاسز ہوں۔

    6- اسی دوران عید قربان 2014آگئی، اور 18 سال میں پہلی دفعہ جماعت کو یہ پیغام دیا گیا کہ آپ کو نہ کھالیں جمع کرنے دی جائیں گی اور نہ اجتماعی قربانی کرنے دی جائے گی۔ لہٰذاجماعت کی طرف سے ایک وفد تشکیل دیا گیا جنہوں نے جا کر بات کی توفریق ثانی نے مجبوراً اس بات کی اجازت دی کہ آپ مسجد کے ایک کونے پر کیمپ لگا لیں اور دوسرے کونے پر ہم لگا لیتے ہیں۔

    عید الاضحیٰ 2014 کے بعد حاجی صدیق صاحب برطانیہ سے تشریف لائے، تو ان سے یہ ساری بات کہی گئی کہ یہ زیادتی ہم سے ہوئی ہے، اور ان حوالے سے منور صاحب سے پوچھا جائے۔جب مجلس میں بات شروع ہوئی تو مجلس میں مرکزی جمعیت کا بندہ کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ حاجی صاحب آپ خود ہی فون پر کہتے تھے کہ جماعۃ الدعوۃ کا سامان اٹھا کر مسجد سے باہر پھینکو اب آپ ان سے صلح والی بات کیوں کر رہے ہیں۔اس بات کا حاجی صاحب کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔اور یہ ہمارے لیے بھی ایک انکشاف تھا۔

    پھر ہم نے یہ بات حاجی صاحب کے سامنے رکھی کہ عرصہ 18 سال سے جماعت یہاںمسجد دارالسلام کا انتظام و انصرام سنبھالے ہوئی ہے اور اب جماعت کو نکال کر تکفیری ٹولے کو جگہ دینے کی کوشش کی جارہی ہے، جوہمارے لئے ناقابل قبول ہے۔

    7- لہٰذا پہلی دفعہ I-10 کے پانچ افراد منور صاحب کی قیادت میں I-9 میں حافظ مقصود صاحب (امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث اسلام آباد)کے پاس آئے جن میں حاجی صدیق نہیں تھے اور یہ بات کہی کہ اس مسجد کا انتظام مرکزی جمعیت سنبھال لے۔ یہ میٹنگ 2014 میں ہوئی۔ اس میں حافظ مقصود صاحب جو مرکزی جمعیت اسلام آباد کے امیر ہیں نے تقاضا کیا کہ یہ مسجد ہمیں لکھ کر دی جائے۔اور مقصود صاحب کی ہدایت پر ان لوگوں نے I-10 تھانے میں جماعت کے ساتھیوں کے خلاف درخواست دے دی۔

    8- یہ پہلا مرحلہ تھا جب اس مسئلے کو حافظ مقصود صاحب کے کہنے پر خود حل کرنے کی بجائے تھانے کچہری میں لے جایا گیا۔ تھانے میں یہ مسئلہ مصالحتی کمیٹی جس کے چئیر مین ملک مہربان تھے کے سپرد ہوا انہوں نے ساری بات دو دن میں سنی اور فیصلہ جماعۃ الدعوۃ کے موقف کے مطابق کر دیا۔ کہ دونوں فریقین کی طرف سے تین تین افراد نامزد کیے جائیں اور حاجی صدیق صاحب صدر ہوں گے۔ یہ مل کر مسجد کا انتظام و انصرام سنبھالیں۔

    9- یہاں سے نامراد ہو کر یہ لوگ ایس ایس پی صاحب کے پاس گئے اور مصالحتی کمیٹی کے فیصلے پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تو انہوں نے دوسری مصالحتی کمیٹی تشکیل دی اور اسے یہ مسئلہ حل کرنے کی ہدایت کی لہٰذا دوسری مصالحتی کمیٹی طاہر ایوب صاحب کی زیر نگرانی بنائی گئی جو مرکزی جمعیت کے پرانےساتھی اور تاجر ہیں۔انہوں نے بھی فریقین کی بات سننے کے بعد پہلی کمیٹی کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

    10- فریق ثانی نے یہ فیصلہ ماننے سے بھی انکار کر دیا اور ڈی ایس پی صاحب کو درخواست دے دی، انہوں نے بھی فیصلہ برقرار رکھا،

    11- پھر ایس ایس پی صاحب نے یہ مقدمہ اسسٹنٹ کمشنر رابعہ اورنگزیب صاحبہ کے پاس بھیج دیا۔ انہوں نے بھی اسی فیصلے کو برقرار رکھا۔ اور مسجد کمیٹی کے لئے افراد نامزدکرنے کا حکم دیا۔ ہماری طرف سے فوراً تین افراد کے نام اے سی صاحبہ کو دے دیئے گئے دوسرے فریق نے مشورے کے لئے وقت مانگا(یہ سب باتیں مقدمے کے ریکارڈ کا حصہ ہیں)۔

    12- چار دن بعد جب حاجی صدیق صاحب سے رابطہ کیا گیا تو وہ اس فیصلے سے مکر گئے اور کہا کہنے لگے کہ کمیٹی ہم اپنی مرضی سے بنائیں گے، جس میں کسی کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔

    اہم موڑ:

    13- اسی دوران اسلام آباد میں مختلف عوامی مقامات پر اور اوور ہیڈ پلوں کے نیچے جماعۃ الدعوۃ کے خلاف وال چاکنگ شروع ہو گئی۔ جس سے ساتھیو ںمیں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی اور ساتھیوں نے چاکنگ مٹانی شروع کر دی۔ ایک دن پیر ودھائی پل کے نیچے دو لڑکے چاکنگ کرتے ہوئے پولیس نے پکڑ لیے انہیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا 25000 روپے فی کس جرمانہ ہوا اور انہیں جیل بھیج دیا گیا ۔ ان میں ایک منور صاحب کا بیٹا عبدالرحمان اور دوسرا طیب جو آئی 10 کا رہائشی ہے اور تیسرا لڑکا موقعہ سے فرار ہو گیا وہ بھی آئی 10 کا رہائشی ہی تھا ۔

    14- اس حوالے سے جب فریق ثانی سے بات کی گئی تو جواباً حاجی صدیق صاحب ، منور صاحب وغیرہ دوبارہ حافظ مقصود کے پاس گئے اور ان کی ہدایت پر ایک اور درخواست I-10 کے ساتھیوں کے خلاف دے دی گئی۔ تھانے میں بات چیت ہوئی مگر کوئی فیصلہ نہ ہوا ۔

    جمعۃ المبارک 6اپریل 2015 کا واقعہ:

    15- فریق ثانی نے جب دیکھا کہ قانون کی نظر میں جماعۃ الدعوۃ کا مؤقف ہی درست ہے تو ہر طرف سے مایوس اور نامراد ہو کر ،مذکورہ دن صبح 8 بجے منور صاحب نے ہمارے ساتھی منیر صاحب سے ملاقات کی اور مسئلے کو مل بیٹھ کر حل کرنے کا کہا، لہٰذا طے کیا گیا کہ آج مغرب پرمجلس کی جائے اور مسئلے کا حل نکالا جائے اور یہ بھی منور صاحب نے طے کیا کہ اس جمعہ کا انتظام جماعت الدعوۃ ہی کرے گی۔اور امجد حیات صاحب مسجد نہیں آئیں گے تاکہ صلح سے پہلے کسی قسم کا انتشار نہ ہو۔ یہ بات متفقہ طور پر طے کر لی گئی۔

    امجد حیات صاحب جن کو جماعت نے رکھوایا جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے اور ان کا مستقل وظیفہ 2014 تک جماعت کی ہی طرف سے جا تا رہا تھا اور باقی اخراجات میں بھی جماعت تعاون کر رہی تھی، نے 2013 کی میں جماعت کے تمام احسانات اور تعاون کو فراموش کر دیا اور آہستہ آہستہ جماعت کے خلاف محاذ کھول دیا۔جس کا بعد میں پتہ چلا کہ یہ سب کچھ چند لوگوں کے کہنے پر ذاتی مفاد کی خاطر تھا۔جس کی تفصیل موجود ہے۔

    16- جمعہ کے خطبے کے دوران امجد حیات صاحب تشریف لائے اور چند منٹ بعد 45 کے قریب (راولپنڈی سے تقریبا 35،ترنول سے 2 ،F-7 سے ایک، I-10سے چار ) لوگ آگئے اور مسجد کے باہر شور کرنا شروع کر دیا کہ ہم جمعہ نہیں پڑھانے دیں ، امجد حیات سب افراد کے ہمراہ مسجد میں داخل ہو گئے۔ جو کہ سراسر زیادتی ، ناانصافی اور معاہدے کی خلاف ورزی تھی جس کے ذریعے انتشار اور فتنے کا بھرپور موقع پیدا کیا گیا۔ موقع پر ایس ایچ او نے پہنچ کر سب کو مسجد کے اندر بھیج دیا کہ خطبے کے دوران شور نہ مچائیں اور جا کر مسجد میں خطبہ سنیں خطبے کے بعد مسئلے کو حل کیا جائے گا۔

    لہٰذا سب لوگ مسجد میں آگئے اور آکر خطبہ سننے کی بجائے ہال میں ٹولیاں بنا کر کھڑے ہوگئے اور ہوٹنگ شروع کر دی اس دوران خطبہ جاری تھا، مفتی یوسف جو خطبہ دے رہے تھے انہوں نے اعلان کیا کہ امجد حیات صاحب تشریف لائیں اور بقیہ خطبہ اور جماعت امجد حیات صاحب کرائیں گے مگر فریق ثانی جو صرف فساد کی نیت سے ہی آیا تھا،نے لگارتار شور شرابا جاری رکھا تو دوسرے بھائی نے مائیک پکڑ کر یہی اعلان دہرایا۔تب امجد صاحب 12 لڑکوںسمیت لوگوں دھکے دیتے ہوئے منبر کی طرف بڑھے جہاں ان لڑکوں نے جو شروع دن سے فتنے اور فساد کے خواہاں تھے ،جن کا تعلق تکفیری گڑھ اسلامک ریسرچ سنٹر سے تھا، انہوں نے جماعتی بزرگ رحمان گل صاحب کو دھکہ دے کر گرایا اور ایک سینئر ساتھی کی داڑھی پکڑ کر کھینچی اس موقع پر فساد بڑھ گیا اور لڑائی شروع ہو گئی پھر ساتھیوں نے بیچ بچاوؤکیا تو امجد صاحب نے جمعہ اور نماز پڑھانے کی بجائے یہ اعلان کر دیا کہ ہم نماز باہر جا کر پڑھیں گے چانچہ یہ اپنے فسادی ساتھیوں کے ہمراہ مسجد سے چلے گئے۔ اس تمام معاملےکی وڈیو موجود ہے۔

    17- موقع پر ڈی ایس پی اور اے سی صاحبہ پہنچ گئیں انہوں نے پانچ پانچ افراد عدالت بلا لیے اور پوچھا کہ میں نے فیصلہ کیا تھا کہ دونوں طرف سے افراد ملا کر کمیٹی تشکیل دی جائے تو فیصلہ پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا۔ اس موقع پر فریق ثانی کے پاس کوئی جواب نہ تھا لہٰذا اے سی نے اسی فیصلے کو برقرار رکھا اور کہا کہ آپ جا کر صلح کریں۔

    مگر فریق ثانی کی طرف سے صلح کی بجائے تاخیری حربے اختیار کیے گئےجن کا مقصد صرف فساد اور فتنے کو ہوا دینا تھا۔

    18- اتوار کے روز G-11 میں طیب الرحمان زیدی صاحب کی مسجد میں مختلف خطبا ٔ کی میٹنگ ہوئی جس میں دو باتیں طے کی گئیں1۔ کل سوموار کو ڈی سی کے پاس جا کر تیسری درخواست دی جائے اور 2۔آنے والا جمعہ13 اپریل کو یہ خطباء اپنی مساجد میں جمعے کا موضوع جماعۃ الدعوۃ کے خلاف اور جہاد کے خلاف رکھیں گے۔

    لہٰذا سوموار کو طیب الرحمان زیدی اور طالب الرحمان شاہ صاحب کی قیادت میں کم و بیش پندرہ افراد ڈی سی صاحب کے سامنے پیش ہوئے اور جماعت کے خلاف درخواست دی اس درخواست پر مقامی تھانےI-10 نے دونوں طرف سے انیس انیس افراد کو بلا کر گرفتار کر لیا جو رات حوالات میں رہے ۔ فریقین نے صبح دس بجے تک ایک صلح نامہ تیار کر لیا اس پر دونوں فریق متفق تھے۔فریق اول سے سائن کروانے کے بعد محرر فریق ثانی کی طرف سائن کروانے جا رہا تھا کہ اس وقت راولپنڈی سے طالب الرحمان شاہ صاحب ، طیب الرحمان زیدی، حافظ مقصود صاحب وغیرہ تھانے پہنچ گئے اور صلح کرنے سے انکار کر دیا چنانچہ مجسٹریٹ نے دفعہ 7/51 کے تحت پرچہ کاٹا اور افراد کو اڈیالہ جیل منتقل کر دیا۔جس پر جماعت نے اپنے ساتھیوں کی ضمانتیں کروا لیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  5. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    بھائی ۔ اس لئے یہ پوسٹ کی گئی تھی ۔ تاکہ یہاں جو لوگ اس تنازعہ کے اصل حقائق سے واقف ہیں وہ علمی انداز میں اس کی وضاحت لکھ دیں اور مزید غلط فہمیاں پیدا نا ہوں ۔ لیکن حیرت ہے کہ لوگ ناراض ہوگئے اور بعض نے سمجھا کہ شاید ہم جماعت الدعوی کے خلاف زہر افشانی کرنا چاہتے ہیں ۔ العیاذ باللہ ۔۔۔: (
     
  6. sfahad10

    sfahad10 -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 27, 2010
    پیغامات:
    265
    السلام علیکم
    یہ پریس ریلیز جس سے اس تھریڈ کا آغاز کیا گیاہے جھوٹ اور دجل کا مرقع ہے۔

    مسجد دارالسلام 1997 سے ہی جماعۃ الدعوۃ کے زیر اہتمام چل رہی تھی۔ اس مسجد کے ساتھ مرکزی جمعیت کا نام 2013 کے بعدہی آنا شروع ہوا۔

    امجد حیات صاحب کو 2014 تک جماعۃ الدعوۃ کی طرف سے وظیفہ ملتا رہا۔ اور ان کے باقی اخراجات بھی جماعۃ الدعوۃ ہی ادا کرتی رہی ۔ میں ایک وڈیو ڈھونڈرہا ہوں جو یہ واضح کر دے گی کہ مفتی یوسف صاحب نے امجد حیات کو خود مسجد میں آنے کی دعوت دی۔

    امجد حیات کو جب مسجد میں خطبہ اورنماز پڑھانے کی دعوت دی گئی تو وہ 12 افراد کو ساتھ لے کر منبر کی طرف آیا ، مسجد میں نماز صفو ں میں بیٹھے ہوئے تھے وہ انہیں راستہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو ایک 60 سالہ بزرگ نمازی کو دھکہ دیا اور جماعت کے ایک ساتھی کی داڑھی پکڑ کر کھینچی۔ باقی ساتھیوں نے انہیں صرف روکا (اس زبان میں جو انہیں سمجھ آسکتی تھی);)

    یہ اچھا ہوا کہ موقع پر اے سی صاحبہ پہنچ گئیں، تھانے میں گئے تو ایس پی اور ڈی ایس پی بھی پہنچ گئے اور یہ سارے لوگ اس کیس کے بارے میں جانتے تھے،(تفصیل اوپر موجود ہے)۔ تھانے میں فریق ثانی کی جو عزت افزائی کی گئی اس سے فریق ثانی کو کافی سکون ہو گیا۔ :D

    مدرسے میں بلتستان کے پانچ چھ بچے موجود تھے اور مدرسہ رجسٹرڈ بھی نہیں تھا۔ اسلام آباد کے رہائشی جانتے ہیں کہ اس حوالے سے اسلام آباد میں کتنی سختی ہے۔ چنانچہ اس مدرسے کے بچوں کو کچھ دن کی چھٹی دے دی گئی ہے۔جب کہ مقامی بچوں کو مسجد میں قرآن پڑھانے کا انتظام کافی عرصہ سے چل رہا ہے ۔

    حافظ مقصود جس کی واحد قابلیت اس کے اعصاب پر جماعۃ الدعوۃ کا خوف مسلط ہونا ہے۔ یہ صاحب جہاں بھی بیٹھتے ہیں، واحد موضوع گفتگو جماعۃ الدعوۃ ہی ہوتی ہے۔:sleep:

    اے سی صاحبہ نے ان کی بات مان لی اور اب جماعت کے ساتھیوں کی ضمانتیں ہو چکی ہیں اور فریق مخالف اڈیالہ جیل کی بیرکوں میں ہے:ROFLMAO:۔حال یہ ہے جب انتظامیہ نے جمعہ کے بعد دونوں اطراف سے بیس بیس افراد کو مجلس کے لئے بلایا تو فریق مخالف کے پاس بیس مقامی افراد بھی نہیں تھے۔

    یہ حقیقت ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ فریق مخالف تک بھی اس بات کو پہنچایا جائے۔

    اب یہ سب مل کر مزید شر پھیلانا چاہتے ہیں۔ دوماہ توصیف الرحمان شاہ صاحب کی زبان بندی رہی ہے کہ وہ کہیں درس نہیں دے سکتے۔ اور اب چند دن پہلے جب یہ پابندی ختم ہوئی تو اپنی مسجد میں جمعے کے خطبے میں کہنے لگے کہ ان دو ماہ میں کوئی بھی میرے پیچھے نہیں آیا تو میں خطبے میں آئندہ صرف عام باتیں ہی کیا کروں گا۔ جو لوگ اس وقت اڈیالہ جیل میں ہیں کل کو باہر آکر وہ بھی یہی بات کہیں گے۔o_O
     
  7. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ حقیقت کیا ہے یہاں تک کہ دوسرے لوگ بھی لکھ نا دیں
    باقی سب تو ٹھیک ہے ۔ ذر اخلاق او ر ادب کے دائرے میں بات کی جائے تو زیادہ بہتر ہے ۔ علماءحق کی عزت و احترام ہر شخص پر فرض ہے ۔ چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو ۔
     
  8. sfahad10

    sfahad10 -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 27, 2010
    پیغامات:
    265
    میں آپ کی بات سے بالکل اتفاق کرتا ہوں۔ زبان بندی ایک قانونی اصطلاح ہے۔
    اگر انجانے میں مجھ سے کسی بھی عالم کی گستاخی ہو گئی ہوتو میں معذرت کرتا ہوں۔
     
  9. sfahad10

    sfahad10 -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 27, 2010
    پیغامات:
    265
    ۔

    آپ جس طرح جماعۃ الدعوۃ کا نام بگاڑ کر لکھتے ہیں ، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس پوسٹ سے آپ مقصد کیا تھا۔

    پریس ریلیز سے پہلے آپ نے یہ تبصرہ کیا اس سے بھی آپ کا مطمع نظر واضح ہے۔
     
  10. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    لیکن یہ اردو فارم ہے ۔ عربی کی بورڈانسٹال نہیں ۔ اس سے آپ میرا مقصد واضح نہیں کرسکتے ۔ نیت کے حال تو اللہ بہتر جانتا ہے ۔ پریس ریلیز سے پہلے کیسے ۔ یہ خبر تو کئی دن سے میڈیا پر موجود ہے ۔
     
  11. سوئےمقتل

    سوئےمقتل -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏فروری 28, 2015
    پیغامات:
    83
    بدگمانی سے پرہیز کی جائے. یہ واقعہ اسی جمعہ کا.ہے. لیکن اسلام آباد کی دیواروں پہ وال چاکنگ کس نے کی ہے یہ بھی دیکھنا ہے اور کب کی ہے. اصل شرارت واضح ہوجائے گی
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  12. sfahad10

    sfahad10 -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 27, 2010
    پیغامات:
    265
    معذرت میں یہ بات نہیں جانتا تھا۔

    پریس ریلیز ، اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) ۔۔۔سے شروع ہوتی ہے۔ اس سے پہلا لکھا گیا فقرہ بادی النظر میں آپ کا تبصرہ ہی محسوس ہوتا ہے۔
     
  13. sfahad10

    sfahad10 -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 27, 2010
    پیغامات:
    265
    منور صاحب جمعیت اہلحدیث کے مقامی ذمہ دار ہیں۔
    جماعۃ الدعوۃ کے ساتھیوں نے جب حاجی صدیق صاحب وغیرہ کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا تو انہوں نے کوئی وضاحت کرنے کی بجائے مرکزی جمعیت اسلام آباد کے امیرحافظ مقصود کی ایما پر جماعت کے مقامی افراد کے خلاف درخواست دے دی۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  14. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    یہاں بدگمانی کون کر رہا ہے بھائی ـ جو خبر ہے وہی شیئر کی گئی تھی ـ بدگمانی تبصرہ کرنے والوں کی طرف سے ہو رہی ہے ـ
    بھائی ـ ہم تو اسلام آباد میں موجود نہیں تھے ـ اس لئے معلوم نہیں وال چاکنگ کس نے کی ہے ـ آپ کے علم میں ہو اور مستند بات ہو تو ذکر کردیں ـ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  15. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    مذہبی تنظیموں اور جماعتوں کے تمام اعلی اہداف حاصل ہو چکے ہیں، دنیا کا ہر کونہ فتح کر کے ہر شخص مسلمان کر لیا گیا ہے، اس لیے اب اپنی ہی مسجدوں کو فتح کیا جا رہا ہے۔ اپنے ہی ساتھیوں کو مار پیٹ کر جہاد کی مشق کی جا رہی ہے۔
    پہلا فقرہ ، عنوان ہے اس خبر کا جہاں سے یہ من و عن لی گئی ہے۔
    https://www.facebook.com/ahlehadith...599890655437/1562598080655618/?type=1&theater
    امید ہے آپ اہل توحید کے اس مشہورعام فیس بک اکاؤنٹ سے واقف ہوں گے۔
    اس خبر پر ایک تبصرہ بہت دل چسپ ہے:
    مذہبی لوگوں کے آپس کے معاملات ایسے ہی ہیں، ہر باضمیر انسان ان باتوں سے پہلے پہل شرم ہی کھاتا ہے کیوں کہ اسے حقوق العباد پر وہ خطبے یاد آجاتے ہیں جو انہی مساجد سے سنے ہوتے ہیں۔ لیکن ساری عمر حکمت کے نام پر انہیں چھپایا جاتا رہے کچھ نہ کچھ باہر آ ہی جاتا ہے، اور وہ اتنا ہی خوش گوار ہوتا ہے۔
    جب جماعتوں سے اہل علم کو محض اس لیے نکال دیا جائے کہ ان کے پاس مال نہیں، جاہ نہیں، وہ خوشامد نہیں جانتے، تو آخر میں ایسے ہی لوگ باقی رہ جاتے ہیں جو غیرقانونی مساجد اور مدرسے بناتے ہیں اور جمعہ کے لیے آئے نمازیوں کو پیٹتے ہیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  16. سوئےمقتل

    سوئےمقتل -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏فروری 28, 2015
    پیغامات:
    83
    لیکن میرا اسلام آباد جانا ہوا ایک ہفتہ ہوا یعنی جس دن لڑائی ہوئی اس دن میں اسلام آباد ہی تھا اور وال چاکنگ بھی دیکھی
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  17. سوئےمقتل

    سوئےمقتل -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏فروری 28, 2015
    پیغامات:
    83
    ہم ہرغلطی کو مذہبی جماعتوں کی ناکامی ہی سمجھتے ہیں. میں کہتا ہوں یہ لڑائی سراسر بے وقوفی ہے دونوں جماعتوں کی غلطی ہے. لیکن پہل کسی اہک کی ہی ہوگی اور یہ اللہ جانتا ہے کون کتنا گناہگار ہے. لیکن اس طرح کا کام کیا تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے. اگر ہم ان تنازعات کو دو بھائیوں کے درمیان ہی سمجھیں تو شاید آگ پہ تیل نہ چھڑکیں لیکن ہماری سطحی سوچ ہمیں حزبیت سے نکلنے ہی نہیں دیتی. نہ تو مسجدوں کو کوئی فتح کرتا ہے صحیح ہے نہ یہ کام کرنا چاہیے. لیکن میرا ایک مشاہدہ ہے مسجد کا مولوی شرارت کی جڑ ہوتا ہے جو مجھے اپنے آبائی شہر کی مسجد کے شیخ الحدیث کے کرتوت دیکھ کر اندازہ ہوا.
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  18. سوئےمقتل

    سوئےمقتل -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏فروری 28, 2015
    پیغامات:
    83
    کیا ان اہل علم جن کو نکالا گیا ان کے بارے میں کچھ بتائیں تاکہ ہمیں بھی پتہ چلے کہ وہ واقعی اہل علم ہیں یا نہیں
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  19. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    تیل کون چھڑک رہا ہے؟ جوخود شہر میں وال چاکنگ کر رہے ہیں اور فیس بک پر پوسٹ کر رہے ہیں وہ ؟
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  20. sfahad10

    sfahad10 -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 27, 2010
    پیغامات:
    265
    آپ کے اس جملے کو ہم مزید وسعت دے دیتے ہوئے پوری اسلامی تاریخ پر پھیلا دیتے ہیں ، بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی وفات کے فورا بعد سے شروع کر لیتے ہیں۔ اور آپ ہر واقعہ کے بعد یہ فقرہ دہراتی جائیں۔
    نہیں ! بلکہ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ افراد اور گروہوں کے درمیان اختلافات ہوتے رہتے ہیں، اور بہتر یہی ہے کہ حکمت کے نام پر ان اختلافات کو عوام میں پھیلانے اور معاملات کو تھانے کچہری میں لے جانے سے گریز کیا جائے۔ اور اندرون خانہ ہی مسائل حل کر لیے جائیں۔

    امید ہے کہ آپ بھی اپنے آپ کو مذہبی لوگوں میں ہی شمار کرتی ہوں گی۔
    اور غیر مذہبی لوگوں کی اکثریت کے معاملات کیسے ہوتے ہیں ان کی مثال بھی لکھ دیں۔

    میری پہلی پوسٹ ساری بات کی وضاحت کر رہی ہے۔

    وال چاکنگ پر سختی سے پابندی ہے۔ جن دو لڑکوں کو پولیس نے پکڑا ہے، وہ گواہی کے لیے کافی ہوں گے۔


    ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں