حضرت عبداللہ ؓ بن عمرؓوبن العاص

فیضان نے 'تاریخ اسلام / اسلامی واقعات' میں ‏نومبر 16, 2018 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. فیضان

    فیضان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2016
    پیغامات:
    35


    رحمت دو عالم ﷺ کو ایک مرتبہ معلوم ہوا کے آپﷺ کے ایک نوجوان ساتھی ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر نوافل پڑھتے رہتے ہیں آپﷺ نے اُن صاحب کو بُلا بھیجا۔ وہ ایک بلند و بالا سرخ رنگ کےقدرے فربہ اندام نوجوان تھے۔ جب بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوے تو آپﷺ نے اُن سے فرمایا :
    " مجھے بتایا گیا ہے کہ تم نے یہ معمول بنا رکھا ہے کہ دن کو ہمیشہ روزہ رکھتے ہو اور رات بھر ( نوافل پڑھنے میں) قیام کرتے ہو( کیا واقعۃً ایسا ہی ہے؟)
    انہوں نے عرض کیا : " ہاں رسول اللہ ﷺ "
    ﷺ نے فرمایا :
    یہ طریقہ چھوڑ دو روزے بھی رکھا کرو اور ناغہ بھی کیا کرو اسی طرح رات کو نماز بھی پڑھا کرو اور سویا بھی کرو کیونکہ تمھارے جسم کا بھی تم پر حق ہے ( یعنی جسم پر حد سے زیادہ بوجھ مت ڈالو ) اسی طرح تمھاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے ( یعنی اس کو سونے اور آرام لینے کا موقع دو ) اسی طرح تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے تمہارے مہمانوں ملاقاتیوں کا بھی تم پر حق ہے ( یعنی ان کو نظر اندازکر کے عبادت میں مشغول نہ رہو) جو ہمیشہ بلا ناغہ روزہ رکھے اس نے گویا روزہ رکھا ہی نہیں۔
    ہر مہینہ میں تین دن کے نفلی روزے رکھ لینا (یعنی رمضان المبارک کے فرض روزوں کے علاوہ ) ہمیشہ روزہ رکھنے کے حکم میں ہے ( کیونکہ ایک نیکی کا دس گُنا معاوضہ ہوتا ہے ) اسی لیے تم بس تین روزے رکھ لیا کرو اور مہینے میں ایک قرآن پاک (تہجد میں) ختم کر لیا کرو۔"
    ان صاحب نے عرض کیا : یا رسول اللہﷺ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں (اس لیے مجھے زیادہ کی اجازت مرحمت فرمایے)
    حضورﷺ نے فرمایا : تو پھر تم داوُد علیہ اسلام کی طرح روزے رکھا کرو وہ یوں کہ ایک دن روزہ اور ایک دن افطار ( یعنی روزہ کا ناغہ) اور تہجد میں سات دنوں میں ایک قرآن ختم کر لیا کرو اس سے زیادہ نہ کرو "

    انہوں نے ارشادِنبوی کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا اور آنٔدہ اسی کے مطابق عمل کرنے کا وعدہ کیا۔

    یہ صاحب رسولﷺ جن کا ذوقِ عبادت اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ ہمیشہ دن بھر روزہ رکھتے اور ساری ساری رات نوافل پڑھنے میں گزارتے اور جن کو صرف سیّد المرسلین والانبیاءﷺ کا حکم ہی اس معمول میں کمی کرنے پر آمادہ کر سکا ۔
    سیّدنا حضرت عبداللہ بن عمروؓ بن العاص تھے ۔
     
  2. فیضان

    فیضان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2016
    پیغامات:
    35
    پہلی بار لکھا ہے کوی غلطی ہو تو معاف کرنا
    جزاک اللہ خیرا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  3. فیضان

    فیضان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2016
    پیغامات:
    35


    سیّدنا حضرت عبداللہؓ بن عمروؓ بن العاص کا شمار شمعِ رسالتﷺ کے اُن پروانوں میں ہوتا ہے جو آسمانِ علم و فضل کے آفتاب و مہتاب تھے
    اُن کی کنیت ابو محمد بھی تھی اور ابو عبدالرحمٰن بھی۔ قریش کے خاندان بنو سہم سے تھے سلسلہ نسب یہ ہے:
    عبداللہ بن عمرؓو بن العاص بن وائل بن ہاشم بن معبد بن سہم بن عمرو بن ہصیص بن کعب بن لُوئ۔
    والدہ کا نام ریطہ بنتِ منبہ تھا۔
    والد حضرت عمروؓ بن العاص فاتح مِصر اپنی شجاعت و بسالت تدبیر حکمت عسکری مہارت اور بصیرت و ذکاوت کی بنا پر تاریخِ اسلام کی نہایت قدآور شخصیت ہیں جب کے حضرت عبداللہ بن عمروؓ اپنے علم و فضل اور ذوقِ عبادت کے اعتبار سے نہایت اعلیٰ و ارفع مقام رکھتے تھے ۔ وہ قریش کے اُن گنے چُنے لوگوں میں سے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ۔
    حضرت عمروؓ بن العاص نے تو فتح مکہ سے چھ مہینے پہلے اسلام قبول کیا لیکن سعادت مند فرزندہ حضرت عبداللہؓ اُن سے پہلے ہی شرفِ اسلام سے بہرہ ور ہو چکے تھے ۔
    (اہلِ سیِرَ نے ان کے قبولِ اسلام کے سال کی تصریح نہیں کی صرف یہی لکھا ہے کہ اپنے والد سے پہلے سعادت انروزِ اسلام ہو چکے تھے )
    قبولِ اسلام کے جلد ہی بعد مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آگئے۔

    حضرت عبداللہ بن عمروؓ رئیس ابنِ رئیس تھے ۔ مکہ میں ان کی زندگی امیرانہ تھی یا سادہ ، اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ قبولِ اسلام کے بعد ان کے سب و روز جس طرح گزرتے تھے اس کا حال پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ رہبانیت کی طرف مائل ہو گئے تھے ۔ عبادت کی کثرت کا یہ حال تھا کہ صحیح معنوں میں دائم الصّوم اور قائم اللیّل تھے اور اہل وعیال اور دوسرے دنیاوی معاملات سے یکسر بے نیازی اختیار کر لی تھی حضرت عمروؓبن العاص ہجرت کر کے مدینہ آئے اور بیٹے کا رنگ دیکھا تو ان کو سمجھایا کے عبادت میں اتنی شِدت مناسب نہیں اعتدال کا راستہ اختیار کرو۔۔۔۔ لیکن حضرت عبداللہؓ اپنی روش پر قائم رہے ۔ اس پر عمروؓبن العاص نے سرورِ عَالَم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر اپنے فرزند کی راہبانہ زندگی کا ماجرہ عرض کیا ۔ حضورﷺ نے حضرت عبداللہؓ کو بلا کر والد کی اطاعت کا حکم دیا اور تلقین فرمائ کے حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا ادا کرنا بھی ضروری ہے ۔اس لیے عبادت اسی قدر کرنی چاہیے کہ نہ دوسروں کی حق تلفی ہو اور نہ جسم پر زیادہ بوجھ پڑے۔

    مُسنَدِاحمد میں ہے کہ آپﷺ نے اس موقع پر یہ بھی فرمایا کہ یہی میرا طریقہ ہے اور جو میرے طریقے سے ہٹ کر چلے گا اس سے میری اُمت کا کوئ تعلق نہیں ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  4. فیضان

    فیضان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2016
    پیغامات:
    35


    حضرت عبداللہؓ کے اخلاص فی الدّین،زہدوعبادت،پاکیزہ اطواروخصائل اور سماعتِ حدیث کے شوق نے ان کو رحمت دو عالمﷺ کا موردِ شفقت و الطاف بنا دیا تھا۔
    حضورﷺ ان کے گھر تشریف لے جاتے اور ان کو عبادت میں اعتدال کی روش پر کاربند ہونے کی تلقین فرماتے۔
    خود حضرت عبداللہؓ بیان فرماتے ہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ میرے گھر کو اپنے قدُومِ میمنت لزوم سے مُشَتَرف فرمایا اور مجھے تاکید فرمائ کہ روزے بھی رکھو اور افطار بھی کرو، نمازیں بھی پڑھو اور آرام بھی کرو، جسم اور آنکھوں کا حق بھی ادا کرو اور اہل و عیال اور دوستوں کا بھی۔ اگر روزے رکھنے کا بہت شوق ہے تو داوُد علیہ السّلام جیسے روزے رکھو۔
    میں نے عرض کیا کہ داوُد علیہ السّلام کے روزے کیا تھے۔ فرمایا ،نصف عُمر ( یعنی ایک دن روزہ ایک دن ناغہ)۔ صحیح بخاری

    حضرت عبداللہؓ بن عمروؓ کو جہاد فی سبیل اللہ کا بے انتہا شوق تھا اور وہ غزوات میں اکژ رسول اللہﷺ کی ہمر کابی کا شرف حاصل کیا کرتے تھے لیکن اربابِ سِیرَ نے یہ تصریح نہیں کی کہ انہوں نے عہدِرسالت کے کن کن غزوات میں شرکت کی ۔ " سنن دار قطنیؒ " کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ غزووں میں بعض دفعہ حُضُورﷺ اُن کو کسی اہم خدمت پر مامور فرماتے تھے

    خود فرماتے ہے ایک دفعہ رسول ﷺ نے مجھے فوج کے لیے اونٹ مہیا کرنے کا حکم دیا ، چناچہ میری تحویل میں جس قدر اونٹ تھے ان سب پر لوگوں کو سوار کر دیا پھر بھی کچھ لوگ باقی رہ گئے جن کو سوار کرنے کیے لیے کوئ اونٹ نہ تھا ۔ میں نے رسولﷺ کی خدمت میں عرض کیا :
    " یا رسول اللہﷺ میں نے سارے اونٹ لوگوں میں تقسیم کر دیے لیکن کچھ لوگوں کو اونٹ نہیں مل سکا "
    حُضُور ﷺ نے فرمایا:
    " ایک ایک اونٹ کے بدلے میں صدقہ کے دو دو تین تین اونٹوں کا وعدہ کر کے کچھ اونٹ حاصل کر لو تاکہ باقی لوگ بھی ان پر سوار ہو سکیں "
    میں نے ارشادِ نبوی کی تعمیل کی اور جتنے اونٹوں کی ضرورت تھی مہیا کر لیے

    ؁۱۰ ہجری میں حجتہ الوداع کے موقع پر بھی سرورِ عالمﷺ کے ہمرکاب تھے ۔ فرماتے ہے کہ رسول اللہﷺ حجتہ الوداع میں منٰی تشریف فرما تھے کے ایک شخص آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ! نا واقفیت کی وجہ سے میں نے ذبح کرنے سے پہلے سر منڈوالیا ۔ آپﷺ نے فرمایا، ذبح کر اور پھر سر منڈوا لے کوئ حرج نہیں۔
    دوسرا شخص آیا اور اس نے عرض کیا ، نا واقفیت کے سبب میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کر لی ہے ۔
    آپﷺ نے فرمایا ، اب کنکریاں مار لے اس میں کوئ حرج نہیں
    مختصر یہ کے تقدیم و تاخیر کے جو مسائل آپ سے دریافت کیے گئے آپ ﷺ نے سب کے جواب میں یہی فرمایا کہ اب کر لے کوئ حرج نہیں ۔ ( صحیح بخاری و صحیح مسلم )
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  5. فیضان

    فیضان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2016
    پیغامات:
    35


    عہدِرسالت میں حضرت عبداللہ بن عمروؓ کا سب سے نمایاں کام جس کا اربابِ سِیَر نے خصوصیت سے زکر کیا ہے ، احادیث نبویﷺ کی کتابت ہے۔
    حضرت عبداللہؓ کو اکثر بارگاہِ نَبَوی ﷺ میں حاضر ہونے کی سعادت نصیب ہوتی تھی۔ وہ جو کچھ لسانِ رسالت سے سنا کرتے تھے اس کو لکھ لیا کرتے تھے
    بعض اصحاب نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا اور کہا ، رسول اللہﷺ کبھی رضا کی حالت میں بولتے ہیں اور کبھی غضب کی حالت میں تم سب کچھ لکھ ڈالتے ہو؟
    اس پر حضرت عبداللہؓ نے فیصلہ کیا کہ جب تک رسول اللہ ﷺ سے پوچھ نہ لے آپﷺ کی کوئ بات نہ لکھیں گے پھر جب انہوں نے حضورﷺ سے اس بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے آپنے منہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
    اکتب فوالذی نفسی بیدہ ما یخرج منه اِلَّا حق
    لکھو اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا
    یہ روایت خود حضرت عبداللہ بن عمروؓ کی زبانی منقول ہے ( ابو داوُد، احمد بن حنبل، دارمی، حاکم ،بیہقی فی المداخل)

     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  6. فیضان

    فیضان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2016
    پیغامات:
    35


    جناب رسول اللہ ﷺ سے اجازت ملنے پر حضرت عبد اللہؓ نے پھر حدیثیں لکھنی شروع کر دی اور ان کا ایک مجموعہ مرتب کیا جس کا نام " الصادقہ" رکھا ۔
    اس مجموعہ کو وہ نہایت عزیز رکھتے تھے اور کسی حالت میں بھی اس کی مفارقت گوارا نہ کرتے تھے۔فرماتے تھے : ( مایر غبنی فی الحیٰوۃ اِلاَّ الصّادقہة)
    یعنی مجھ کو زندگی کا خواہشمند یہی کتاب "صادقہ" بنا رہی ہے یہ نا ہو تو مجھے جینے کی خواہش نہیں ہے ۔ پھر خود ہی "صادقہ" کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:
    فاماالصّادقة فصحِیفِة کتبتھا منﷺ یعنی الصّادقہ وہ صحیفہ ہے جس کو میں نے رسولﷺ سے سُن سُن کر لکھا ہے۔ ( سنن دارمی جلد اول صفحہ ۲۹)


    ایک اور روایت میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت عبداللہؓ بن عمروؓ نے فرمایا کہ اگر قرآن اور یہ صحیفہ (صادقہ) اور وہط کی جاگیر مجھ کو دے دی جائے تو پھر مجھ کو دنیا کی کوئ پروا نہیں
    حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے بعد ان کا مجموعہ احادیث"الصادقہ" ان کے صابزادے شعیبؒ کو ملا اور ان کے بعد ان کے صاحبزادے عمروؒ کا ملا انہوں نے اپنے والد کے واسطے سے اسی صحیفے کی حدیثیں روایت کی ہیں
    سرورِعالم ﷺ کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ کی خلافت ہوی تو دفعتہً سارے عرب میں فتنہ ارتداد کے شعلے بھڑک اٹھے حضرت صدیق اکبرؓ نے اس فتنہ بڑی استقامت سے مقابلہ کیا اور جب تک اس کا پوری طرح قلع قمع نہ ہو گیا وہ چین سے نہ بھیٹے۔ اس فتنے کہ استیصال میں جن صاحبہ نے حصہ لیا، حضرت عبداللہؓ کے والد حضرت عمروؓ بن العاص کا نام ان میں بہت نمایاں ہیں ۔ اہلِ سیِر نے یہ تصریح نہیں کی کہ حضرت عبداللہؓ مرتدین کے خلاف بھیجے جانے والے مجاہدین کے کسی دستے میں شریک ہوے یا انہوں نے مدینہ منورہ میں ہی مقیم رہ کر شہر کی حفاظت کا فرض انجام دیا۔ البتہ یہ بات ثابت ہے کہ انہوں نے جہادِ شام میں بھر پور حصہ لیا ۔ اس جہاد کا آغاز فتنہ رِدّہ کے استیصال کے فوراً بعد صدیق اکبرؓ کے عہد خلافت میں ہی ہو گیا تھا صدیق اکبرؓ نے رومیوں سے لڑنے کے لیے جو فوجیں روانہ کی ان میں سے ایک کے سپہ سالار حضرت عمروؓبن العاص تھے انہیں فلسطین کی تسخیر پر مامور کیا گیا تھا قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہؓ اپنے والدِ گرامی کے ساتھ ہی مجاہد کی حثیت سے شام گئے اور رومیوں کے خلاف کئی معرکوں میں دادِ شجاعت دی ۔
    علامہ ابنِ اثیرؒ نے شام کی سب سے بڑی جنگ "جنگ یرموک" میں حضرت عبداللہؓ کی سرفروشانہ شرکت کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے ۔ان کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہؓ اس معرکے میں نہایت پامردی سے لڑنے اور نازک سے نازک موقع بھی اپنے پائے استقلال میں جُنبش نہ آنے دی ۔حضرت عمروؓ بن العاص اپنے فرزندکی دلادری اور استقامت دیکھ کر اتنے خوش ہوے کہ اپنا عَلمِ قیادت ان کے ہاتھ دے دیا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  7. فیضان

    فیضان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2016
    پیغامات:
    35


    حضرت عثمان ذوالنُّورینؓ کہ عہد خلافت میں عبداللہ بن سعد بن ابی سرح( جو عبداللہ بن ابی سرح یا ابنِ ابی سرح کے نام سے مشہور ہیں) مصر کے والی(گورنر) مقرر ہوے تو انہوں نے امیرالمومینؓ سے شمالی افریقہ ( طرابلس مراکش تیونس وغیرہ) پر فوج کشی کی اجازت مانگی ۔ علامہ ابنِ اثیرؒ الجزری اور ابنِ خلدونؒ کے قول کے مطابق یہ واقع ۲۶ ؁ ہجری کا ہے
    لیکن خلیفہ ابنِ خیاط نے اپنی تاریخ میں اسے ۲۷ ؁ ھ کے واقعات میں شمار کیا ہے
    حضرت عثمانؓ نے اس معاملہ میں صائب الرائے صحابہ سے مشورہ کیا انہیں اس مُہم کے حق میں پایا۔
    چناچہ امیرالمومنینؓ نے عبداللہ بن ابی سرح کو نہایت خوش دلی سے افریقہ پر لشکر کشی کی اجازت دے دی ساتھ ہی انہوں نے اس مُہم میں شریک ہونے کے لیے مدینہ منورہ میں ایک لشکر مرتب کیا اس لشکر میں بعض دوسرے صحابہ کے علاوہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ بن العاص ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ ، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ ، حضرت عبداللہ بن جعفرؓ
    حضرت حسنؓ بن علی المرتضٰیؓ اور حضرت حسینؓ بن علی المرتضٰیؓ بھی شریک تھے۔ اس لشکر نے افریقہ پہنچ کر عبداللہ بن ابی سرح کی قیادت میں طرابلس الغرب کو مسخر کیا اور بہت سے دوسرے شہروں اور علاقوں کو بھی مطیع و منقاد کیا ۔ شمالی افریقہ کے ان تمام معرکوں میں حضرت عبداللہ بن عمروؓ دوسرے جوانانِ قریش کے ساتھ برابر شریک رہے
    اور ہر معرکے میں اپنی شجا عت اور جانباذی کی دھاک بٹھا دی
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  8. فیضان

    فیضان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2016
    پیغامات:
    35


    ۳۰ ؁ہجری میں مجاہدینِ اسلام نے امیرالمومینؓ کے اِذن سے خراسان طبرستان اور جرجان پر لشکر کشی کی اس مہم کی قیادت حضرت سعیدؓ بن العاص اُمَوی والی کوفہ رہے تھے
    انھوں نے آپنے ساتھ لے جانے کے لیے کوفہ میں جو لشکر مرتب کیا اس میں بھی بہت سے اکابر اصحاب شریک ہوئے۔ ان میں حضرت حذیفہؓ بن الیمان،حضرت عبداللہ بن عمرؓ
    حضرت عبداللہ بن عباسؓ ،حضرت حسن بن علی المرتضیٰؓ، حضرت حُسین بن علی المرتضیٰؓ، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے علاوہ حضرت عبداللہؓ بن عمروؓ بن العاص بھی شامل تھے

    اس لشکر نے طبرستان پر حملہ کر کے کئی اہم شہر فتح کر لیے جرجان کے حکمران نے مقابلہ کیا اور دورانِ جنگ میں ایک موقع پر مسلمانوں کو صلوٰتہ الخوف بھی پڑھنی پڑی لیکن بالآخر اس نے ہتھیار ڈال دیے اور دو لاکھ پر صلح کر لی ۔ اسی طرح اس لشکر نے بہت سے دوسرے شہروں کو مطیع کیا اور کثیر مالِ غنیمت حاصل کیا

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے عہد خلافت ( ۳۷ ؁ھ) میں جب امیر معاویہؓ والی شام سے ان کے اختلافت نے جنگ(صفین) کی صورت اختیار کرلی تو حضرت عبداللہؓ کے والد حضرت عمروؓ بن العاص
    امیر معاویہؓ کی طرف سے لڑائی میں شریک ہوئے۔ حافظ زہبیؒ نے "تذکرتہ الحفاظ" میں لکھا ہے کہ حضرت عبداللہؓ بن عمروؓ بن العاص اس خانہ جنگی کے سخت خلاف تھے اور اس میں حصہ لینا نہیں چاہتے تھے لیکن والدِ گرامی کے حکم سے مجبور ہوگے اور حضرت امیر معاویہؓ کے لشکر میں شامل ہوگئے تاہم انہوں نے والدِ گرامی کو بار بار اس جنگ سے کنارہ کش ہونے کے لیے کہا

    مسند احمد بن حنبلؒ میں ہے کہ جنگ صفین میں جب حضرت عمارؓ بن یاسرؓ حضرت علیؓ کی طرف سے لڑتے ہوئے شہید ہوے تو وہ اپنے والدِ ماجد کے پاس گئے جو اس وقت
    حضرت امیر معاویہؓ کے پاس بیٹھے ہوے تھے ۔انہوں نے والدِگرامی سے مخاطب ہو کر فرمایا: "اباجان! کیا رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد یاد نہیں کہ افسوس عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی

    حضرت عمروؓ بن العاص نے حضرت معاویہؓ کی طرف دیکھ کر کہا، آپ نے عبداللہ کی بات سنی ؟ انہوں نے جواب دیا : ان کو ہمیشہ کوئی نئی بات سوجھتی ہے ۔
    عمارؓ کو ہم نے قتل نہیں کیا بلکہ ان کے قتل کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو انہیں اپنے ساتھ لے کر آئے (مسنداحمد)

    ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عمارؓ کی شہادت کے بعد دو آدمی جھگڑتے ہوے امیر معاویہؓ کی خدمت میں حاضر ہوے۔انعام کی لالچ میں ایک کہتا تھا کہ میں نے عمارؓ کو قتل کیا ہے
    اور دوسرا کہتا تھا میں نے کیا ہے اس موقع پر حضرت عمروؓ بن العاص اور حضرت عبداللہؓ بھی موجود تھے حضرت عبداللہؓ نے ان دونوں جھگڑنے والوں سے مخاطب ہو کر فرمایا
    تم دونوں میں سے ایک کو دوسرے کا دعویٰ خوشی سے تسلیم کر لینا چاہیے کیوں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ عمارؓ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا

    امیر معاویہؓ نے حضرت عبداللہؓ کی بات سن کر انقباص محسوس کیا ۔انہوں نے حضرت عمروؓ بن العاص سے مخاطب ہو کر کہا
    "عمرو! تم اپنے اس دیوانے سے میری جان نہیں چھڑاتے ؟ اس پر حضرت عمروؓبن العاص نے حضرت عبداللہؓ سے مخاطب ہو کر کہا
    "جانِ پدر! اگر تمہارے یہی خیالات ہیں تو پھر کیوں ہمارے ساتھ ہو؟
    حضرت عبداللہؓ نے جواب دیا
    "ابا جان! رسول اللہﷺ نے مجھے تلقین فرمائی تھی کہ زندگی بھر باپ کی اطاعت اور فرمابرداری کرتے رہنا،
    آپ نے مجھے آپنے ساتھ آنے کا حکم دیا میں نے اس کی تعمیل کی اسی لیے آپ مجھے یہاں موجود پاتے ہیں ۔" ( مسندِاحمد جلد۲ص۲۰۶)


    جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  9. فیضان

    فیضان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2016
    پیغامات:
    35


    جنگ صفین کا نتیجہ تحکیم کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اس سلسلہ میں حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان جو معاہدہ ہوا اس پر جانبین کے معتبر نماہندہ اصحاب نے دستخط کیے
    امیر معاویہؓ کی جانب سے اس پر دستخط کرنے والے اصحاب میں حضرت عبداللہ بن عمروؓ بھی شامل تھے۔

    علامہ ابن اثیرؒ کا بیان ہے کہ جنگِ صفین کے بعد حضرت عبداللہ بن عمروؓ جب تک جیے اس جنگ میں اپنی شرکت پر ہمیشہ متا سّف رہے
    فرمایا کرتے تھے کاش اللہ نے مجھے اس سے بیس ۲۰ سال پہلے اٹھا لیا ہوتا (اُسُد الغابہ جلد۳ ص۲۲۴)

    علامہ ابنِ اثیرؒ کا بیان ہے کہ جنگ صفین کے کچھ عرصے بعد ایک دن حضرت عبد اللہ بن عمروؓ حضرت ابو سعید خُدری ؓ اور کچھ دوسرے اصحاب مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے
    کے سیدنا حضرت حسین بن علیؓ کا اُدھر سے گزر ہوا۔حضرت عبداللہؓ نے انہیں دیکھ کر حاضرینِ مجلس سے کہا :
    " کیا میں وہ انسان دیکھاوُں جو آسمان والوں کےنزدیک دنیا میں سب سے زیادہ محبوب ہے"
    سب نے کہا : " ضرور ضرور

    حضرت عبد اللہ ؓ حضرت حسین ؓ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا

    " یہ ہے وہ انسان جو تمارے سامنے سے گزر رھا ہے۔ جنگ صفین کے بعد آج تک میرے اور اس کے درمیان کوئ بات چیت نہیں ہوئ لیکن اس کی رضا سے بڑھ کر میں
    دنیا میں کسی شے کو عزیز نہیں جانتا "

    حضرت ابو سعید خدری ؓ نے فرمایا:
    "کیا آپ ان سے مل کر ان کو راضی نہیں کریں گے"

    حضرت عبداللہؓ بولے: کیوں نہیں
    دوسرے دن وہ حضرت ابو سعید خدریؓ کو ساتھ لے کر حضرت حسینؓ کے مکان پر تشریف لے گے اور اندر آنے کی اجازت چاہی۔ سیدُنا حسینؓ ان سے ملنا نہیں چاہتے تھے
    اس لیے اجازت دینے میں تامّل کیا لیکن حضرت عبداللہؓ نے اتنا اسرار کیا کہ آخر انہوں نے اندر بلا لیا۔ حضرت عبداللہؓ نے ان کو وہ حالات بتائے جن کی وجہ سے انہیں جنگ صفین مین
    شریک ہونا پڑا تھا ان میں بنیادی بات یہ تھی کہ رسول اللہﷺ نے مجھے اپنے والد کی فرما نبرداری حکم دیا تھا اس لیے میں والد کے حکم کی تعمیل میں شامی لشکر میں شامل ہو گیا

    لیکن خدا کی قسم میں نے لڑائ میں نا تو تلوار اٹھائ نا کوئ تیر چلایا اور نا برچھی سے کسی کو زخمی کیا ۔ ( اُسدُ الغابہ جلد ۳ ص ۲۳۴)

    سلسلہ جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
    آسمانِ ہدایت کے ستر ستارے
    طالب الہاشمی
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  10. فیضان

    فیضان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2016
    پیغامات:
    35


    قبولِ اسلام کے بعد حضرت عبداللہؓ بن عمروؓ نے آپنی زندگی کا بیشتر حصہ مدینہ منورہ،طائف،اور مصر میں گزارا۔ مصر ان کے والد عمروؓ بن العاص نے امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کے
    عہد خلافت میں فتح کیا تھا ۔ مورخین نے تصریح تو نہیں کی لیکن قیاس یہ ہے کہ حضرت عبد اللہؓ بھی آپنے والدِ گرامی کے ساتھ جہادِ مصر میں حصہ لیا اور مصر کی تسخیر کے بعد وہاں کئی
    سال مقیم رہے ۔حضرت عثمان ذوالنورینؓ کے عہد خلافت میں حضرت عمروؓ بن العاص کو امارتِ مصر کے عہدے سے سبکدوش کر دیا گیا اور وہ مدینہ واپس آ گئے۔

    حضرت عبداللہؓ نے بھی اُسی زمانے میں مصر سے مرا جعت کی ۔ چند سال بعد حضرت امیر معاویہؓ عالمِ اسلام کے بلا شرکت غیرے فرما نروا بنے تو انہوں نے حضرت عمروؓ بن العاص
    کو دوبارہ مصر کا گورنر مقرر کر دیا۔ حضرت عبداللہؓ بھی والدِ گرامی کے پاس چلے گئے۔ ۴۳ ؁ھ یا ۴۷ ؁ھ میں حضرت عمروؓ بن العاص مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو حضرت عبداللہؓ ان
    کے پاس ہی تھے ۔ وفات سے کچھ دیر پہلے حضرت عمروؓ پر گریہ طاری ہو گیا۔ حضرت عبداللہؓ نے ان سے کہا: " ابا جان آپ روتے کیوں ہیں ،کیا آپ کو رسول اللہﷺ نے فلاں فلاں
    بشارتیں نہیں دی تھی"
    حضرت عمروؓ بن العاص نے فرمایا : "بیٹا ! ایک وقت تھا کے میں رسول اللہﷺ سے سخت عناد رکھتا تھا ، پھر وہ وقت آیا کہ آپﷺ میرے لیے دنیا کی ہر شے سے بڑھ کر عزیز ہو گئے
    اور آپ ﷺ سے بڑھ کر میری نگاہ میں محبوب نہ رہا آگر اس حالت میں مر جاتا تو جنت کی امید تھی پھر زندگی کا تیسرا دور آیا جس میں میں نے مختلف قسم کے اعمال کیے اب میں نہیں جانتا
    کہ میرا کیا حشر ہو گا۔ حاں میرے پاس سب سے قیمتی متاع لَا اِلٰہَ اِلَّا ا اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُولُ اللَّہ کی شہادت ہے۔ جب میں مر جاوُں تو نوحہ کرنے والی عورتیں میرے جنازے کے ساتھ نا جائیں نہ
    جنازے کے پیچھے آگ جائے ۔دفن کرتے وقت مٹی آہستہ آہستہ ڈالنا۔ تدفین کے بعد اتنی دیر تک قبر کے پاس رہنا جب تک جانور زبح ہو کر اس کا گوشت تقسیم ہو جائے

    نزع کے وقت ہوش و حواس پوری طرح قائم تھے۔ اس وقت حضرت عبداللہؓ نے ان سے کہا : " ابا جان ! آپ زرا اپنی کیفیت تو بیان کریں کے اس وقت آپ کیا محسوس کر رہے ہیں
    انہوں نے فرمایا : بیٹا یوں محسوس ہوتا ہے کہ جبلِ رضوی میری گردن پر ٹوٹا پڑتا ہے۔ میری آنتوں کو کجھور کے کانٹوں پر گھسیٹا جا رہا ہے اور میری جان سوئ کے ناکے سے نکل رہی ہے
    جب میں مر جاوُں تو معمولی پانی سے غسل دینا اور جسم کو کپڑے سے خشک کرنا ۔ پھر تازہ اور صاف پانی سے نہلانا اور تیسری مرتبہ ایسے پانی سے جس میں کافور کی آمزیش ہو
    پھر کپڑے سے خشک کرنا۔کفناتے وقت ازارکس سے باندھنا۔ جنازے کو نا تیز تیز نا آہستہ آہستہ لے جانا لوگوں کو جنازے کے پیچھے رکھنا اس کے آگے فرشتے چلتے ہیں اور پیچھے انسان
    قبر کے رکھنے کے بعد مٹی آہستہ آہستہ ڈالنا حضرت عبداللہؓ نے والدِ گرامی کی وصیت پر پورا پورا عمل کیا پھر خود ان کی نمازِ جنازہ پڑھائ اور جبلِ مقطم کے دامن میں سپرد ِ خاک کر دیا۔



    سلسلہ جاری ہے۔۔۔۔۔۔
    آسمانِ ہدایت کے ستر ستارے
    طالب الہاشمی
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  11. فیضان

    فیضان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2016
    پیغامات:
    35


    حضرت عبداللہؓ کو والد کے ترکے میں سے کا فی دولت اور جائداد ملی۔ اس میں طائف کے قریب وہط نام کی ایک جاگیر بھی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی قیمت کا اندازہ دس لاکھ درہم کے قریب تھا۔ حضرت عبداللہؓ اس میں کھیتی باڑی کرایا کرتے تھے۔ ان کی زندگی اگر چے زاہدانہ اور عا بدانہ تھی لیکن اپنے مال یا جائداد پر کسی کو ناجائز قبضہ کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دیتے تھے۔ایک مرتبہ وہط کے ایک قطعہ زمین کے بارے میں کسی شخص نے نزاع کی صورت پیدا ہو گئ۔ یہ جھگڑا اتنا بڑھا کے فریقین لڑنے مرنے پر تل گئے۔ان کے چچا خالد بن عاص نے نرمی اختیار کرنے کا مشوراہ دیا تو فرمایا :
    " میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو اپنے مال جائداد کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے" (مُسنَدِاحمد جلد ۱ ص ۲۰۶)

    یہ قضیہ بالآخر باہمی افہام و تفہیم سے طے ہو گیا اور لڑائ تک نوبت نہ پہنچی۔ ۶۵ ؁ہجری میں حضرت عبداللہؓ مصر کے شہر فسطاط میں مقیم تھے کہ اُن کا وقتِ آخر آپہنچا اور انہوں نے
    پیکِ اجل کو لبیک کہا۔ اس وقت مروان بن الحکم اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی فوجوں میں مصر پر قبضہ کے لیے شدید لڑائ ہو رہی تھی اور جنازے کو قبرستان تک پہنچانا بہت مشکل تھا
    اس لیے لوگوں نے انہیں گھر کے اندر ہی قبر خود کر دفنا دیا ۔
    ( تذکرۃالحفاظ۔لِذہبیؒ)

    علامہ ابنِ سعدؒ کے قول کے مطابق اس وقت ان کی عمر ۷۲ سال کی تھی درایت اور قرائن کی رو سے انہوں نے ۷۲ سال خاصی عمر پائ۔

    حضرت عبداللہؓ بن عمروؓ اُن عظیم المرتب صحابہ میں سے ہیں جن کو بارگاہ رسالت میں خاص تقرب اور شَرَف پذیرائ حاصل تھا وہ نبوت کے چشمہ فیض سے خوب سیراب ہوئے
    ان سے ۷۰۰ سات سو احادیث مروی ہے جن میں ۱۷ متفق علیہ ہیں ۔آٹھ میں بخاری اور بیس میں مسلم منفرد ہیں۔یہ حدیثیں وہ عہد رسالت ہی میں احاطہ تحریر میں لے آئے تھے
    اور مجموعہ احادیث کا نام الصادقہ رکھا تھا


    اس کی حفاظت کا ان کو خاص اہتمام تھا ۔ اگر ان سے کوئ ایسا مسلہ پوچھا جاتا جس کے بارے میں ان کو زبانی کچھ یاد نہ ہوتا تو "الصادقہ" میں سے دیکھ کر جواب دیتے تھے
    ایک مرتبہ کسی صاحب نے پوچھا کے قسطنطنیہ پہلے فتح ہوگا یا رومہ؟
    ان کے حافظے میں اس بارے میں رسول اللہﷺ کا ارشاد محفوظ نہیں تھا اس لیے آپنا صندوق منگایا۔ اس میں سے الصادقہ نکال کر اس پر ایک نظر ڈالی اور فرمایا کہ ہم ایک دن
    رسول اللہﷺ کے گرد بیٹھے ہوئے حدیثیں لکھ رہے تھے۔اسی اثناء میں کسی شخص نے پوچھا کہ قسطنطنیہ پہلے فتح ہو گا یا رومہ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ نہیں ہرقل کا شہر
    یعنی ( قسطنطنیہ) پہلے فتح ہو گا ۔
    ( سنن دارمی ص ۶۸۔ مسندِ احمدج۲ ص ۱۷۶)

    سلسلہ جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

    آسمانِ ہدایت کے ستر ستارے
    طالب الہاشمی
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  12. فیضان

    فیضان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2016
    پیغامات:
    35


    حضرت عبد اللہ ؓ بڑے لطف وابنساط کے ساتھ حدیث کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ لوگ دور دور سے سماعِ حدیث کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے وہ خندہ پیشانی سے ان کی پذ یرائ
    کرتے اور نہایت شیریں لہجے میں ان کو ارشاداتِ نبوئ سناتے۔ ایک دفعہ لوگوں کے ایک بہت بڑے مجمع نے ان کو گھیر رکھا تھا کہ ایک شخص نے بھیڑ کو چیر کر ان کےقریب پہنچنے کی کوشش کی
    لوگوں نے اسے روکا تو فرمایا کہ اسے آنے دو۔ لوگوں نے اسے راستہ دے دیا وہ اکر حضرت عبداللہؓ کے سامنے بیٹھ گیا اور بولا: اے صاحب رسول ﷺ
    رسول اللہﷺ کا کوئ ارشاد مجھے سنائے " حضرت عبداللہؓ نے متبسم ہو کر فرمایا ۔

    " میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ مسلمان وہ ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جس نے اللہ کی منع کی ہوئ چیز کو چھوڑ دیا"
    ( مسندِ احمد جلد ۲ ص۱۹۲)

    حضرت عبداللہؓ جہاں بھی تشریف لے جاتے تھے شائقینِ علم ان کی پذیرائ کرتے تھے اور ہر وقت سیکڑوں کی تعداد میں ان کے گرد جمع رہتے تھے۔ اہلِ بصرہ کو تو ان سے اس قدر عقیدت تھی کہ ان کے حلقہ درس میں غالب تعداد بصریوں کی ہی ہوتی تھی (تذکرۃ الحفاظ لِذہبیؒ)

    حضرت عبداللہؓ اپنے دور کے ذی علم صحابہ کی بے حد عزت کرتے تھے اور بر ملا ان کے علم و فضل کا اعتراف کرتے تھے ایک دفعہ ان کی مجلس میں حضرت عبداللہؓ بن مسعود کا ذکر آیا تو فرمایا
    " تم لوگوں نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا ہے جس کو میں اس دن سے دوست رکھتا ہوں جس دن رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قرآن چار آدمیوں سے حاصل کرو۔
    آپ ﷺ نے سب سے پہلے حضرت عبداللہؓ بن مسعود کا نام لیا۔"

    فیضانِ نبوئ سے خوب بہرہ یاب ہونے کے علاوہ حضرت عبداللہؓ نے عبرانی زبان بھی بڑی محنت سے سیکھی اور توریت و انجیل کا گہری نظر سے مطالعہ کیا۔
    چناچہ وہ ایک ایسے عالم بن گئے جن کو قرآن حکیم کے ساتھ توریت و انجیل پر بھی عبور حاصل تھا ۔

    راویانِ حدیث صحابہ کی فہرست میں حضرت ابو ہریرہؓ کا نام سب سے پہلے آتا ہے۔ ان سے پانچ ہزار تین سو چوہتر(۵۳۷۴) احادیث مروی ہیں
    جو کسی ایک صحابی کی مرویات کی سب سے بڑی تعداد ہے لیکن خود حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہؓ بن عمروؓ بن العاص سوا کسی اور کے پاس مجھ سے زیادہ رسول اللہﷺ
    کی حدیثیں نہیں ہیں اور یہ اس وجہ سے کہ وہ لکھا کرتے تھے اور میں لکھتا نہ تھا۔

    یہاں اشکال پیدا ہوتا ہے کہ مرویات ابو ہریرہؓ (۵۳۷۴) کے مقابلہ میں مرویات حضرت عبداللہ بن عمروؓ کی تعداد صرف ساتھ سو۷۰۰ہے
    جبکہ مذکورہ روایت کی رو سے ان کی تعداد ۵۳۷۴ سے زیادہ ہونی چاہیے۔ حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں اس اشکال کے متعدد جواب دیئے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے
    حضرت عبداللہ بن عمروؓ عبادت میں زیادہ مشغول رہتے تھے۔ تعلیم اور بیان حدیث کی نوبت کم آتی تھی نیز مصر اور طائف میں زیادہ قیام رہا جو طالبانِ حدیث کا مرجع نا تھا۔

    ( تاریخ علمِ حدیث از علامہ اشفاق الرحمٰن کاندھلوی)


    سلسلہ جاری ہے۔۔۔۔۔۔

    آسمان ہدایت کے ستر ستارے
    طالب الہاشمی

     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں