بعثت نبوی اور دعوت دین کا آغاز

سعیدہ شیخ نے 'سیرتِ اسلامی' میں ‏دسمبر 3, 2018 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. سعیدہ شیخ

    سعیدہ شیخ محسن

    شمولیت:
    ‏مارچ 16, 2018
    پیغامات:
    80
    "يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ اِنَّـآ اَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْـرًا

    اے نبی ہم نے آپ کو بلاشبہ گواہی دینے والا اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

    "وَدَاعِيًا اِلَى اللّـٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْـرًا

    اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور چراغ روشن بنایا ہے

    "وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ بِاَنَّ لَـهُـمْ مِّنَ اللّـٰهِ فَضْلًا كَبِيْـرًا

    اور ایمان والوں کو خوشخبری دے اس بات کی کہ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بہت بڑا فضل ہے۔"
    (سورہ احزاب ۴۵/۴۶/۴۷)


    نبی اکرم ﷺ نبوت سے پہلے مکہ سے باہر اکثر و بیشتر غار حرا میں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ کوہ حرا کو کوہِ فاران بھی کہا جاتا ہے۔ اور وہاں عبادت کی غرض سے جاتے تھے، عبادت کیا تھی غور فکر اور ذکر کی عبادت تھی۔ وہی اپنا وقت گزارتے تھے۔ اپنی ملت و قوم کا کرب تھا جو جہالت اور گمراہی کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ سسکتی اور دم توڑتی انسانیت کی تڑپ جو رسولﷺ کو بے چین اور مضطرب کئے ہوئے تھی۔ وہ معاشرہ تمام خرابیوں اور برائیوں کی آماجگاہ تھا۔ اس لئے کہ وہاں نہ کوئی قوانین تھے نہ کسی کی حکمرانی تھی۔ اور طاقت اور اختیارات کے بل پر کمزور کو دبایا جاتا۔ معاشرہ کئی طبقات میں بٹا ہوا تھا۔ ایک طرف اعلی خاندان کے بچوں کی تو اچھی پرورش کی جاتی تھی مگر دوسری طرف لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔ دوسرے مذہب کی طرح عورت کی بھی کوئی عزت اور مقام نہیں تھا۔ برائیاں کا کلچر عام تھا۔ نبی اکرم ﷺ انسانیت کی فکر اور غم میں ڈوبے رہتے۔ اور رمضان کی ان مبارک ساعتوں میں قرآن کا نزول ہوتا ہے۔ حضرت جبریل امین ص پہلی وحی لے کر آتے ہیں۔ اقراء !

    اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّـذِىْ خَلَقَ۔
    "پڑھ ! اپنے رب کے نام سے، جس نے سب کو پیدا کیا"۔

    اس آیت کی صداؤں سےدو عالم گونج اٹھتا ہے.اور کائنات کی اصل حقیقت منکشف ہوتی ہے اور رسولﷺ کی نبوت کا ظہور ہوتا ہے اس حقیقت کو یقین کا رنگ بھرنے کے لئے رسولﷺ مستعد اور کمربستہ ہوجاتے ہیں. اور اللہ پر ایمان اور یقین کے ساتھ اللہ کی کبریائی کا اعلان کرتے ہیں۔ " وَرَبَّكَ فَكَـبِّـرْ"
    اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرو۔ اور اسی حق و صداقت کا پیغام لے کر اٹھے۔ اور پھر دوبارہ کبھی غار میں نہیں گئے۔ یہی کام شب روز کامعمول قرار پایا۔ ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ منصبِ رسالت پر فائز ہونے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت تک دین پہنچانے کے لیے جس صبر و تحمل، عفو و درگزر اور شفقت و رحمت کا طرز عمل اختیار فرمایا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ایک ایسا عظیم الشان پہلوہے جس کی رفعتوں اور بلندیوں کا ادراک کرنا کسی انسان کی بس کی بات نہیں ہے۔ اسلام کے عقائد سے لوگوں کو آگاہ کرانا اور اسے دلوں میں راسخ کرانا۔ رات دن اسی سعی و کوشش میں سرگرداں رہے۔ تاکہ الله کے فرمان کو سارے جہاں میں جاری اور ساری کرنا رسولﷺ کا اولین مقصد قرار پایا۔ اور بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب کی طرف بلانے کی دعوت پیش کی۔ اور یہی دعوت شب وروز کا معمول بن گیا۔ فکر تھی تو بس ایک کہ کس طرح اس پیغام کو لوگوں تک پہنچایا جائے، ان کے جسم و جان کو کس طرح ان راہوں پر لگایا جائے، انھیں کس طرح منزل کا شعور دیا جائے، یہی احساس اور احساس کی شدت آپؐ کو بے چین اور مضطرب کرتی رہی۔

    آپ ﷺ خود بھی اسی جدوجہد کا پیکر بنے جس کے اثرات اور ثمرات آپﷺ کی ذات اقدس پر نمایاں نظر آرہے تھیں۔ جہاں ایک طرف قلب سلیم انسان فیض یاب ہورہیں تھیں۔ تو وہی دعوت کے نتیجے میں آپ پر طرح طرح سے ذہنی اور جسمانی سختیاں کی جارہی تھی۔ کبھی کانٹے بچھاتے تو کبھی پتھر برساتے اور گالیاں دیتے تو کبھی شاعر، کاہن کہتے یا کبھی حالتِ نماز میں اوجھ رکھتے۔ ایک روز تو عملاً انہوں نے اس کا اقدام کر بھی ڈالا تھا۔ نبی ﷺ حرم میں نماز پڑھ رہے تھے۔ یکایک عُقبہ بن ابی مُعَیط آگے بڑھا اورس نے آپ کی گردن میں کپڑا ڈال کر اسے بَل دینا شروع کر دیا تاکہ گلا گھونٹ کر آپؐ کو مار ڈالے مگر عین وقت حضرت ابوبکر پہنچ گئے اور انہوں نے دھکا دے کر اسے ہٹا دیا۔ حضرت عبداللہ کا بیان ہے کہ جس وقت ابو بکر صدّیق اُس ظالم سے کشمکش کر رہے تھے اس وقت اُن کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ اَتَقْتُلُوْ نَ رَجُلاً اَنْ یَّقُوْلَ رَ بِّیَ اللہ (کیا تم ایک شخص کو صرف اِس قصور میں مارے ڈالتے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے؟) تو اس واقعہ سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کش طرح اس کے اثرات آپ کی صحت اور اعصاب پر نظر آرہے تھے۔ اسی لئے ایک روز حضرت ابوبکر نے پوچھا اللہ کے رسول آپؐ بوڑھے نظر آرہے ہے۔ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا "مجھے سورہ ہود اور ان جیسی سورتوں نے بوڑھا کر دیا ہیں۔"

    ہم نے بھی کلمہ کا اقرار کیا ہے اللہ تعالی کو اپنا رب مانا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم میں انسانیت کے لئے وہ تڑپ اور جذبہ نہیں ہم کتنے دلوں پر دستک دیتے ہیں۔ کتنے لوگوں کو اس کلمے سے آگاہی کراتے ہیں.کتنے لوگوں کو اس آگ سے بچانے کے لئے فکرمند رہتے ہیں۔ ہم کیوں نہیں خلوص کے ساتھ اس کام کو انجام دیتں۔ وجہ صرف یہ کہ ہم نے اپنے دین کو مادیت کے ڈھیر میں دفن کر دیا ہے دین تو خیر خواہی اور انسانیت کا نام ہے. ہمارے رسولﷺ نے جس کام کو کرتے کرتے اپنی ہر چیز قربان کر دی. یہاں تک کہ انہیں اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو گیا. اس پر بھی اللہ کے رسولﷺ نے کہا , لا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا" اے میرے رفیق غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اگر ہم نے حضور نبی کریمﷺ کی قائم مقامی کرنی اور ان کے مشن کو لے کر آگے چلنا ہے تو یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اسوۂ حسنہ کا کامل اتباع نہ کیا جائے۔

    نبی اکرمﷺ نبی آخرالزماں ہیں۔ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں قیامت تک قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، بالکل اسی طریقے سے خود نبی اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ اور آپؐ کی تعلیمات کو بھی محفوظ کر دیا ہیں۔ نبی اکرمﷺ کے بعد اُمت آپؐ کی قائم مقام ہے جو اس مشن کو لے کر اُٹھے اور اس ہدایت کی علمبردار بنے۔ آپؐ کی تعلیمات کا خود بھی پیکر بنے اور دُور تک پھیلی ہوئی دنیا تک آپؐ کا پیغام پہنچائے۔ نبی اکرم ﷺ کا اسوہ حسنہ ہمارے لئے مشعل راہ ہیں، ظاہر ہے کہ جو لوگ قائم مقام ہیں، اُمت کی حیثیت سے آپؐ کے مشن کے علمبردار ہیں، انہیں اس بارے میں بھی رہنمائی وہیں سے ملیں گیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے فرائض اور ذمہ داری کو پہچانے اورا علاے کلمہ کی سر بلندی کے لئے اپنی جان اپنا مال اپنی زندگی قربان کرنے والا بنائے. اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت کےتقاضے کو پورا کرنے والا بنائے. آمین۔
     
    • اعلی اعلی x 2
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    آمین!
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  3. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    جزاک اللہ خیرا سس!
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  4. سعیدہ شیخ

    سعیدہ شیخ محسن

    شمولیت:
    ‏مارچ 16, 2018
    پیغامات:
    80
    آمین ۔
    وایاکم احسن الجزاء
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  5. سیما آفتاب

    سیما آفتاب محسن

    شمولیت:
    ‏اپریل 3, 2017
    پیغامات:
    484
    علامہ اقبال ہمارے لیے ہی یہ کہہ گئے ہیں

    رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے۔۔۔۔۔ وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
    نماز و روزہ و قربانی و حج۔۔۔۔۔ یہ سب باقی ہے تو باقی نہیں ہے

    اللہ ہم سب کو اپنے مقدور بھر عمل کی توفیق دے آمین
    جزاک اللہ خیرا سسٹر
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  6. سعیدہ شیخ

    سعیدہ شیخ محسن

    شمولیت:
    ‏مارچ 16, 2018
    پیغامات:
    80
    آمین
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں