میرے وطن کےاداس لوگو

m aslam oad نے 'متفرقات' میں ‏جون 20, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. m aslam oad

    m aslam oad نوآموز.

    شمولیت:
    ‏نومبر 14, 2008
    پیغامات:
    2,443
    گاڑی کو ایک زور دار جھٹکا لگا۔ تمام مسافر اپنی جگہ سے اچھل پڑے۔ گاڑی کے اندر اور باہر کی لائٹس بجھ گئی اور تقریباً یہ عمل دو یا تین سیکنڈ میں مکمل ہوا ہوگا ۔ گاڑی بائیں جانب جھکتی چلی گئی ، ایک زور دار دھماکے کے ساتھ گاڑی کے شیشے چکنا چور ہوئے لیکن شیشے کی ان چھناکوں کے ساتھ لوگوں کی خوف و دہشت سے کانپتی ہوئی چیخوں کی آوازیں بھی شامل تھیں۔ پیچھے سے آنے والی اسی قسم کی ایک اور”اوور لوڈ “گاڑی نے جب آگے والی گاڑی کو زمین چاٹتے دیکھا تو ڈرائیور نے کمال ہشیاری سے گاڑی کا موڑ کاٹا۔ اگر ڈرائیور چابکدستی نہ دکھاتا تو عین ممکن تھا کہ اگلی گری ہوئی گاڑی کا کچومر نکل جاتا۔

    مسافروں سمیت جو گاڑی گری تھی وہ ”الیاس کوچ“ تھی۔ بدقسمتی سے اس گاڑی کے اندر میں بھی موجود تھا۔ اس دوران ایک شخص کی چیخیں مجھے ابھی تک سنائی دے رہی ہیں۔ ”خدا کے لیے بھائی میری ٹانگ نکالو۔ “اس مسافر کی ٹانگیں گاڑی کے نیچے آئی ہوئی تھی۔ وہ بری طرح زخمی تھا۔ لوگ شیشے توڑ کر باہر نکلے اور گاڑی کو سیدھا کیا۔ ایمبولینس اس وقت تک پہنچ چکی تھیں زخمیوں کوفوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا۔ میرے بھی حواس بحال ہوچکے تھے۔ اس دوران ایک دوسری گاڑی آئی اور مجھ سمیت چار لوگ اس میں سوار ہوئے۔ دوران سفر مجھے ان چار لوگوں سے گفتگو کا موقع ملا جو اس حادثہ میں میرے ساتھ تھے۔

    اس میں سے پہلا بولا :”یہ میرے ساتھ پہلا ایسا واقعہ ہے کہ پوری بس الٹ گئی ہو۔“اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑی ہوئی تھی۔وہ شاید مزید بھی کچھ کہتا مگر میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا :” میرا تو ذہن اس حادثے کے لیے پہلے سے بنا ہوا تھا۔“ میرے اس طرح کہنے پر وہ چاروں میری طرف خشمگیں نظروں سے دیکھنے لگے۔

    میں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا :”اس ایک ہفتے میں اب تک سات سے آٹھ الیاس کوچیں الٹ چکی ہیں۔ اس لیے جب گاڑی کو جھٹکا لگا تو میں سمجھ گیا کہ آج اس کی باری ہے۔“

    میری بات سن کر دوسر گویا ہوا : ”اس میں سارا قصور ڈرائیور اور کنڈیکٹر کا ہے۔ وہ اتنے آدمی گاڑمی میں چڑھاتے کیوں ہیں۔ گاڑی نیچے سے اوپر تک یوں بھری ہوئی ہوتی ہے جیسے شہد کے چھتے پر مکھیاں چمٹی ہوتی ہیں۔

    تیسرے نے اس کی بات پوری ہونے کے فوراًبعدکہا :” میرے بھائی ! وہ تو چلو نہ بٹھائے ، مگر تم نے دیکھا نہیں کہ لوگ زبردستی چڑھنا شروع کردیتے ہیں، اس روٹ پر دوسری کوئی گاڑی بھی تو نہیں چلتی۔“

    چوتھے نے بھی گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا :” اگر ایسی بات ہے تو ڈرائیور اور کنڈیکٹر بھاگے کیوں؟“
    تیسرے نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا: ” ظاہر ہے لوگ تو اس چیز کو نہیں دیکھتے کہ قصور کس کا ہے.... بس ڈرائیور اور کنڈیکٹر کو ہی زدو کوب کرتے.... اس لیے وہ بھاگ کھڑے ہوئے ۔“

    ” لوگوں کا قصور نہیں ہے....ڈرائیور اور کنڈیکٹر بھی ذمہ دار نہیں ہے، تو پھر اس معاملے میں قصور وار کون ہوا؟ “یہ پہلا تھا جو شاید الجھن کا شکار ہو چکا تھا۔

    ” اس کا جواب میں دیتا ہوں۔ “میں نے کہا تو سب نے میری طرف کچھ عجیب سی نظروں سے دیکھا۔ لیکن میں نے اس کی قطعاً پروا نہیں کی مجھے رائے عامہ ہموار کرنی تھی۔

    تیسرے نے کہا: ”اچھا تو بہت خوب ....!تم بتاﺅگے کہ کون ذمہ دار ہے!؟“

    ” ہاں! میں بتارہا ہوں کہ اس کی ذمہ دار ہماری حکومت ہے اور یہ بات میں ایسے ہی نہیں کر رہا اور نہ ہی میرا ، اپوزیشن پارٹی سے تعلق ہے بلکہ حقائق پر مبنی بات کہہ رہا ہوں۔ کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ پہلے اتنارش کیوں نہیں ہوتا تھا گاڑیوں پر ....؟شاید آپ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات نہ آئے۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ جب سے ڈبل سواری پر پابندی لگی ہے ....گاڑیوں میں رش زیادہ ہو گیا ہے جب کہ پہلے یہی الیاس کوچ خالی خالی جارہی ہوتی تھیں۔ لوگ کام پر نکلتے تو اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور بھائیوں کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر جاتے تھے مگر اب ایسا نہیں ہے۔ “جب میں کہنے پر آ یا تو کہتا چلا گیا۔

    ”کیا ڈبل سواری پر پابندی سے ٹارگٹ کلنگ کم ہوئی ہے۔ ابھی پچھلے تین چار دنوں میں ٹارگٹ کلنگ میں 15 سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں۔ ہمارے حکمران خود تو بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں مگر عوام کو ہر لحاظ سے معاشی اور حادثاتی موت مرنے پر مجبور کر رہی ہے۔

    میری بات سن کر ان کے سر اثبات میں ہلنے لگے۔ تیسرا شاید بات زیادہ اچھی طرح سمجھا تھا۔ کہنے لگا: ” پتا نہیں!سنا تھا کہ جمہوریت میں عوام کی خود مختاری ہوتی ہے۔ ان کی مرضی ہوتی ہے اور ان کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے مگر یہاں تو کسی کے کانوں پر جوں ہی نہیں رینگتی ....نجانے کس بستی کے باسی ہیں ہم لوگ ....آج کی حکومت سے کچھ کہو توکہتے ہیں ” جمہوریت بہترین انتقام ہے....واقعی ڈبل سواری پر پابندی ، ڈرون حملے، معاشی تنگی اور پانی کا فقدان انتقام ہی تو ہے۔“

    وہ چاروں اب ایک نقطے پر متفق ہو چکے تھے۔ میں سوچنے لگا کہ ہماری عوام میں صرف سوچنے کی کمی ہے وہ ذرا سوچے تو انہیں پتا چلے کہ وہ جن حکمرانوں کو ووٹ دیتے ہیں وہ ان کے ساتھ کس قسم کا کھیل کھیلتے ہیں ۔ پاکستان کے ایک وزیر سے جب پوچھا گیا کہ آپ کہاں رہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ ”سوا سال “سے ”پی سی “ہوٹل میں قیام پزیر ہیں۔ ہمارے جو وزیر ”سوا سال “سے ”پی سی ہوٹل “میں رہتے ہوں انہیں کیا پتا ....الیاس کوچ کیوں الٹ جاتی ہے؟ مسور اور ماش کی دال 125 سے 130 کلو کیوں بک رہی ہے؟ وہ منرل واٹر پیتے ہیں اور اعلیٰ قسم کے کھانے کھاتے ہیں، ہمیشہ کی طرح ہم پھر انہیں کو ووٹ دے کر اپنا وزیر منتخب کرلیتے ہیں۔ ان ہی قسم کے لوگوں سے گزارش ہے کہ
    شجر تب ہی لگانا جب زمین کو پرکھ لینا
    ہر مٹی کی فطرت میں وفاداری نہیں ہوتی

    لیکن اب جب ان چار لوگوں کو ایک نقطے پر متفق کردیا تو دل بے حد خوش ہوا اور زبان سے یہ اشعار جاری ہوئے۔


    میرے وطن کے اداس لوگو
    نہ خود کو اتنا حقیر سمجھو
    کہ کوئی تم سے حساب مانگے
    خواہشوں کی کتاب مانگے
    نہ خود کو اتنا قلیل سمجھو
    کہ کوئی اٹھ کر کہے یہ تم سے
    وفائیں اپنی ہمیں تھمادو
    وطن کو اپنے ہمیں تھما دو
    اٹھو اور اٹھ کر بتا دو ان کو
    کہ ہم اہل ِایمان ہیں سارے
    نہ ہم میں کوئی صنم کدہ ہے
    ہمارے دل میں تو اک خدا ہے
    میرے وطن کے اداس لوگو
    جھکے سروں کو اٹھاکے دیکھو
    قدم تو آگے بڑھاکے دیکھو
    ہے اک طاقت تمہارے سر وںپر
    کرے گی سایہ جوان سروں پر
    قدم قدم پر جو ساتھ دے گی
    اگر گرے تو سنبھال دے گی
    میرے وطن کے اداس لوگو
    اٹھو چلو اور وطن سنبھالو....


    میرے وطن کےاداس لوگو!(اعظم طارق کوہستانی)
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. m aslam oad

    m aslam oad نوآموز.

    شمولیت:
    ‏نومبر 14, 2008
    پیغامات:
    2,443
    علی اوڈ کا دکھ بھی یہ ہی ہے میرے پاس موٹرسائیکل ہونے کے باوجود میں گا ڑیوں میں سفر کرنے پر مجبور ہوں کیونکہ اپنے ساتھ میں بھائی کو سوار نھیں کرسکتا
     
  3. ابن عمر

    ابن عمر رحمہ اللہ بانی اردو مجلس فورم

    شمولیت:
    ‏نومبر 16, 2006
    پیغامات:
    13,354
  4. سپہ سالار

    سپہ سالار -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 21, 2007
    پیغامات:
    2,018
    نظم، یا غزل جو بھی بہت اچھی ہے۔ اللہ ہمیں‌ہدایت دے، جب تک ہم سیدھے نہیں ہوں گے، تو ہمارے حکمران کیسے سیدھے ہو جائیں گے۔

    ایک عالم جمعہ پڑھا رہے تھے یہ الیکشن کے دنوں‌کی بات ہے۔ انہوں‌نے اپنے خطبے میں کہا کہ ہمارے حکمران چور ہیں، اس لیے ہمیں اس حاکم کو ووٹ دینا چاہیے جو کم چور ہے۔ اس سے وہ ہمارے کم ظلم کرے گا۔

    مجھے تو بات سمجھ نہیں آئی ان کی، یعنی خود انتخاب کرو کہ کون کم ظلم کرے گا۔
     
  5. m aslam oad

    m aslam oad نوآموز.

    شمولیت:
    ‏نومبر 14, 2008
    پیغامات:
    2,443
    :00010::00039:
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں