پہلی سعودی خاتون فوٹوگرافر مردانہ کھیلوں کی کوریج کریں گی

حرب نے 'حالاتِ حاضرہ' میں ‏اگست 4, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. حرب

    حرب -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 14, 2009
    پیغامات:
    1,082
    ابھا [سعودی عرب] ۔ محمد القناص

    ایک ماہ قبل جنوبی افریقہ میں کھیلے گئے فٹ بال ورلڈ کپ میں بطور فوٹوگرافر کے شرکت کرنے والی سعودی عرب کی پہلی کیمرہ وویمن منال الدباغ کو اپنے ملک میں مردوں کے کھیلوں کی کوریج کے چیلنج کا سامنا ہے۔ تاہم اسے اس بات کی خوشی ہے کہ وہ سعودی شہرابھا میں کھیلے جانے والے انٹرنیشنل ایلیٹ فٹ بال میچ کی کوریج کرے گی۔ اس کا کہنا ہے کہ "ابھا ٹورنامنٹ کی کوریج کا اپنا ہی مزہ ہے"۔

    خیال رہے کہ سعودی عرب میں مردوں کے کھیلوں کے مقابلوں کی کوریج کے لیے خواتین فوٹو گرافروں کی شرکت ناپسندیدہ سمجھی جاتی ہے۔ منال الدباغ سعودی عرب کی پہلی کیمرہ مین خاتون ہیں جو جنوبی افریقہ میں کھیلے گئے فٹ بال ورلڈ کپ میں فوٹو گرافر کی حیثیت سے شرکت میں کامیاب ہوئی۔ منال کے ورلڈ کپ کی کوریج کرنے پر سعودی عرب کے مختلف حلقوں میں بے چینی بھی دیکھی گئی اور یہ معاملہ بڑے پیمانے پر بحث کا موضوع بنا رہا۔

    منال الدباغ ورلڈ کپ میں تصویر کشی کی خدمات انجام دینے کے بعد نہ صرف مسرت کا اظہار کرتی ہیں بلکہ اس کا کہنا ہے کہ جنوبی افریقہ ورلڈ کپ نے اسے ایک نیا حوصلہ اور ولولہ دیا ہے اور یہ حوصلہ اسے اب اپنے وطن میں مَردوں کے مخصوص کھیلوں کے مقابلوں کی کوریج کے لیے میدان میں لے آیا ہے۔

    سعودی عرب کے شہر"ابھا" میں کھیلے گئے انٹرنیشنل ایلیٹ فٹ بال ٹورنامنٹ میں شرکت اور اپنے ملک میں مردوں کے کھیلوں کے مقابلوں کی کوریج اس کے لیے پہلا موقع تھا۔ العربیہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایونٹ کی کوریج کے حوالے سے منال کہتی ہیں کہ" میں پوری تیاری کے ساتھ" ابھا ٹورنامنٹ" میں شرکت کے لیے پہنچی، لیکن مجھے یقین نہیں تھا کہ ٹورنامنٹ کی انتظامیہ مجھے مردوں کے لیے مخصوص مقابلے میں کوریج کی اجازت دےگی۔ لیکن میری خوشی کی اس وقت انتہا نہ رہی جب چیمپئن آرگنائز کمیٹی نے مجھے نہ صرف اجازت دی بلکہ میں نے اپنا ایکریڈیشن کارڈ بھی بنا لیا۔" منال مزید کہتی ہیں کہ ابھا میں اسے شائد کوریج کی اجازت نہ ملتی لیکن جب انتظامیہ کو معلوم ہوا کہ میں عالمی فٹ کپ کے جنوبی افریقہ کے میچ کی کوریج کر چکی ہوں تو انہوں نے مجھے اجازت دینے میں دیر نہیں کی"۔

    اس سوال پرکہ آیا وہ ورلڈ کپ میں فوٹو گرافر کے طور پرشرکت کرنے کے بعد کیسا محسوس کرتی ہے۔ منال کا کہنا تھا کہ "ایک سعودی عرب کی خاتون شہری کی حیثیت میرا فٹ بال ورلڈ کپ کی کوریج کے لیے شرکت کرنا میری بہت بڑی کامیابی ہے۔ عالمی کپ میں جہاں دنیا بھرکی ٹیموں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ان مقابلوں میں حصہ لیں، وہیں ہرصحافی اور فوٹو گرافر کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس کی کوریج کرے۔ میں سمجتھی ہوں کہ یہ میری بڑی کامیابی ہے کہ نہ صرف ورلڈ کپ میں شرکت میں کامیاب رہی بلکہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں بھی پوری کیں۔ جنوبی افریقہ فٹ ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے مجھے کسی کا تعاون حاصل نہ تھا۔ سفر کے تمام اخراجات میں نے اپنی جیب سے پورے کیے"۔

    جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو کسی میڈیا کمپنی کی جانب سے مَردوں کے کھیلوں کو"کور"کرنے کے لیے کسی قسم کی انشورنس یا تعاون حاصل نہیں تو کیا آپ کے لیے اس فیلڈ میں نکلنا دشوار نہیں ہوتا۔ اس پر منال نے کہا کہ اس سلسلے میں سعودی عرب کا ایک اسپورٹس میگزین میرے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ تاہم بیشتر ایونٹ وہ اپنی مدد آپ کے تحت ہی کور کرتی ہیں۔

    منال الدباغ سعودی عرب اور دیگر ممالک میں جہاں بھی مَردوں کے کھیلوں میں مقابلے منعقد ہوں ان کی کوریج میں دلچپسی رکھتی ہیں۔ منا ل نے بحرین میں کھیلے جانے والے "فرسٹ لِگ ورلڈ کپ کوالیفائر میں اپنی شرکت کی اجازت اور اس کے بعد ریاض میں کھیلے جانے والے"سیکنڈ لِگ" میں اجازت نہ دیے جانےکی خبروں کی تردید کی اور کہا ہمیں قبل از وقت اس طرح کی افواہوں پر غور کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

    منال نے کہا کہ انہوں نے بحرین اور سعودی عرب کے محکمہ کھیل کو تحریر کیا ہے کہ وہ مردوں کے کھیلوں کے مقابلوں میں خواتین فوٹو گرافروں کو شرکت کی اجازت دیں۔ میرے پاس بحرین اسپورٹس یونین کی جانب سے فراہم کردہ خصوصی کارڈ بھی ہے۔ ماٰضی میں ٹیموں کے مقابلوں سے قبل ریہرسل کے دوران مجھے کوریج کی اجازت حاصل تھی۔ تاہم سعودی خواتین کا میچ شروع ہونے کے اسٹیڈیم میں داخل ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود مجھے امید ہے کہ انہیں بحرین اور ریاض میں کھیلے جانے والے فٹ بال ٹورنامنٹ کی کوریج کی اجازت مل جائے گی۔
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں