امام ابن تیمیہ، ایک عظیم مصلح: مولانا فضل الرحمن بن محمد الازہری

عائشہ نے 'امام ابنِ تیمیہ' میں ‏اگست 23, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484

    کتاب كا نام: امام ابن تیمیہ، ایک عظیم مصلح، مولانا فضل الرحمن بن محمد الازہری۔
    ناشر: ریز مشنری سٹور، ۵۳۔ نشتر روڈ، لاہور۔ فون: ۵۹۔۷۶۴۱۳۵۸۔
    صفحات: ۲۷۲۔
    قیمت(مجلد): ۲۵۰روپے۔
    تبصرہ نگار: جناب ارشاد الرحمن ۔بشكریہ ماہنامہ ترجمان القرآن

    عظیم مصلح امام ابن تیمیہ (۱۲۶۲ء۔ ۱۳۲۷ء) رحمہ اللہ نے اپنی اصلاحی کاوشوں کا علَم ایک ایسے تاریک دور میں بلندکیا جب تاتاری غارت گر، مسلمان قوموں کو دریائے سندھ سے فرات کے کنارے تک پامال کرچکے تھے۔ مسلسل ۵۰ برس کی ہزیمتوں اور علم و دانش کے مراکز کی تباہی نے مسلمانوں کو انتہائی زوال و اِدبار سے دوچار کر دیا تھا۔

    تاتاریوں کے قبولِ اسلام کے بعد بھی نومسلم تاتاری حکمرانوں کے زیراثر عوام، علما اور فقہا و مشائخ سبھی کی اخلاقی سطح بدستور ویسی ہی رہی۔ تقلید جامد کا دور دورہ تھا۔ کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنا گویا گناہ بن گیا تھا۔ عوام الناس جاہل، غیرمنظم تھے اور پست ہمت۔ ان کے لیے ممکن نہ تھا کہ دنیا پرست تنگ نظر علما اور ظالم حکمرانوں کے باہمی اشتراک کے خلاف اصلاح کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔

    صحیح الخیال علما اور حق پرست صوفیہ کی کمی نہ تھی مگر اس تاریک زمانے میں اصلاح کی آواز بلند کرنے کا شرف جس عظیم حق گو کو حاصل ہوا وہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تھے۔ بلاشبہہ تمام علوم پر انھیں گہری دسترس حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے فلسفہ و کلام، تزکیہ و احسان، تصوف و معرفت، عقائد و احکام، دین و شریعت، غرض تمام موضوعات پر تنقیدی بحثیں کیں۔ امام کی ان کاوشوں کی وجہ سے کتاب و سنت کی اصل روح نکھر کر سامنے آئی۔ تقلید و اجتہاد پر بھی امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بے مثل کام کیا۔ مشرکانہ رسوم، بدعات اور اعتقادی و اخلاقی گمراہیوں کے خلاف امام نے جہاد کیا اورکئی بار پابندِ سلاسل ہوئے لیکن تنقید و تنقیح میں انھوں نے کسی سے رعایت روا نہیں رکھی۔ بڑے بڑے نام بھی امام کی تنقید سے بچ نہ سکے۔ اس آزاد اور جرأت مندانہ تنقید کی وجہ سے ایک دنیا اُن کی دشمن ہوگئی جس کا تسلسل آج بھی قائم ہے۔

    امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی زندگی کے حالات و واقعات کے متعلق زیرنظر کتاب میں مستند حوالوں اور مصادر سے معلومات جمع کی گئی ہیں۔ امام کی ابتدائی زندگی، پیدایش، تعلیم اور مسند درس پر مختصراً روشنی ڈالی گئی ہے۔ بعدازاں تاتاری جنگوں کے کچھ حالات بیان کیے گئے ہیں۔

    تاتاریوں کے ان حملوں اور جنگوں کے مقابلے میں امام ابن تیمیہ نے جو جہادی کردار ادا کیا، اُسے بھی بیان کیاگیا ہے۔ یہ اگرچہ بہت مختصر بیان ہے مگر امام کی زندگی میں اس باب کی بہت اہمیت ہے۔ بہت سے لوگ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی زندگی کے اس گوشے سے ناواقف بھی ہیں۔ شرک و بدعت کے خلاف امام کے جہاد پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اور یہ باب امام کی زندگی کا گویا حاصل ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ امام کی ساری زندگی اسی جہاد میں گزری۔ یہ باب امام کے خلاف جعلی صوفیہ کے ہتھکنڈوں اور امام کی تجدیدی و اصلاحی کاوشوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ امام متعدد ابتلاؤں سے دوچار بھی دکھائی دیتے ہیں۔

    اس سے اگلے باب میں امام کے ایک خط الرسالۃ القبرصیۃ کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے جس میں امام نے ایک عیسائی حکمران کو مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کی طرف توجہ دلائی اور اسلام کی تعلیمات کی بھی وضاحت کی ہے۔

    چھٹا باب امام کے خلاف بُغض و عناد کی شدت کے بیان پر مشتمل ہے، اور یہیں امام کی زندگی کا باب بھی مکمل ہوجاتا ہے۔

    ساتویں باب میں امام کے اخلاق و اوصاف، ہم عصر علما کے بیانات کی روشنی میں مرتب کیے گئے ہیں۔

    آخری باب میں امام ابن تیمیہ کے نام وَر شاگردوں کا بیان ہے جن میں حافظ ابن قیم، حافظ ابن عبدالہادی، حافظ ابن کثیر اور امام الذہبی کے نام نمایاں ہیں۔ اسی باب میں امام کی تصانیف کا تعارف بھی کرا دیا گیا ہے۔ تجدیدی، اصلاحی اور تحریکی و انقلابی ذہنوں کوامام کی زندگی کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کرنے کے لیے یہ کتاب مفید کام دے سکتی ہے۔ (ا۔ ر)
    بشکریہ ترجمان القرآن

     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں