پسرِ خلیل کی سیکھ ادا جو ہے ذبح ہونے کی آرزو

سلمان ملک نے 'ماہ ذی الحجہ اور حج' میں ‏اکتوبر، 23, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. سلمان ملک

    سلمان ملک -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 8, 2009
    پیغامات:
    924

    ماہ ذی الحجہ کئی ایک ایمان افروز واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے ۔ ان واقعات کو پڑھ کر اور سماعت کر کے مسلمانوں میں صبر و استقامت‘ اطاعت و فرمانبرداری اور ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ ان واقعات میں سرفہرست حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا وہ عمل ہے جو انہوں نے اپنے رب کے حکم پر اس کی رضا و خوشنودی کے لئے کیا تھا ۔ پوری تاریخ انسانی میں اس طرح کے واقع کی مثال نہیں ملتی ۔ اس عظیم واقع کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اسے قرآن حکیم میں بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے ۔ آئیے ہم بھی اس واقع کی روشنی میں اپنے ایمان کو جلا بخشیں ۔ امر واقع یہ ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام جب بڑھاپے کو پہنچے تو ان کے گھر کوئی اولاد نہ تھی انہوں نے اللہ کے حضور دعا کی رب ھب لی من الصالحین ” اے میرے رب مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما ۔ “ بارگاہ ایزدی میں یہ دعا فورا قبول ہوئی اور جو اب ملا فبشرنہ بغلام حلیم ( الصفت ) ” ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی خوش خبری دی ۔ “

    اب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوتی ہے ۔ اس سے گھر میں خوشی و مسرت کے شادیانے بج اٹھتے ہیں ۔ حضرت خلیل علیہ السلام بچے کی ولادت پر اپنی جگہ شاداں و فرحاں ہیں جبکہ حضرت ہاجرہ اپنی جگہ مسرور ہیں ۔ اس موقع پر حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام پر ایک بڑی کٹھن اور مشکل آزمائش آن پڑی ۔ حکم الٰہی ہوتا ہے کہ اے میرے خلیل اس دودھ پیتے بچے کو اور اس کی ماں کو بواد غیر ذی زرع میں چھوڑ آؤ ۔ حضرت خلیل علیہ السلام نے سرمو انحراف نہ کیا ۔ اونٹنی پر سوار ہوئے بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لیا اور اس جگہ کی تلاش میں چل نکلے ۔ جب صحرا میں پہنچے تو دیکھا کہ یہاں نہ تو کوئی انسان ہے‘ نہ پانی اور نہ ہی کوئی سایہ دار درخت ہے سمجھ گئے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں اللہ نے بیوی اور بچے کو چھوڑنے کا حکم دیا ہے ۔ حضرت خلیل علیہ السلام بیٹے کو حضرت ہاجرہ کی گود میں بٹھا کر پاس تھوڑی سی کھجوریں اور پانی کا مشکیزہ رکھ کر واپس پلٹے تو حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہ نے آواز دی.... اے اللہ کے خلیل ہمیں اس بے آب و گیاہ اور ویران صحرا میں تنہا چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں‘ یہاں ہمارا کوئی مونس و غم خوار نہیں ۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ اس طرف توجہ ہی نہ دی ۔ حضرت ہاجرہ کے بار بار کہنے پر جب خلیل علیہ السلام نے التفات نہ فرمایا تو حضرت ہاجرہ فرماتی ہیں : ( اللہ امرک بھٰذا ؟ ) ” کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے ؟ “ فرمایا ہاں مجھے اللہ نے یہ حکم دیا ہے ۔ یہ سن کر حضرت ہاجرہ کے دل کو تسلی ہو گئی اور فرمانے لگیں ( ( اذن لایضیعنا ) ) آپ تشریف لے جائیں اللہ ہمیں ہر گز ضائع نہیں کرے گا ۔ “ حضرت ہاجرہ واپس آئیں اور اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو گود میں لیکر اس سنسان وادی اور ہو کے عالم میں اللہ تعالیٰ پر متوکل ہو کر بیٹھ گئیں ۔ ادھر حضرت ابراہیم علیہ السلام جب ثنیہ کے پاس پہنچے گے جہاں آپ اپنے بیٹے اور بیوی کی آنکھوں سے اوجھل ہوں گے تو بیت اللہ شریف کی طرف متوجہ ہو کر ہاتھ اٹھا کر اللہ سے دعا کی ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم

    یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہی کی برکت ہے کہ مکہ مکرمہ میں پھلوں کے باغات نہ ہونے کے باوجود وہاں دنیا کا ہر پھل میسر ہے ۔ ابراہیم علیہ السلام یہ دعا کر کے چل دئیے ۔ ادھر حضرت ہاجرہ بچے کے ساتھ وقت گزارنے لگیں ۔ تھوڑی سی کھجوریں اور پانی چند روز میں ختم ہو گیا ۔ کھانے اور پینے کو کچھ پاس نہیں‘ خود بھی بھوکی پیاسی ہیں اور بچہ بھی بھوک اور پیاس سے بلک رہا ہے ۔ یہاں تک کہ اس نبی زادے کا پھول سا چہرہ مرجانے لگا ۔ کسی انسان کا ادھر سے گزر نہیں‘ پانی کا میلوں تک نشان نہیں ہے ۔ آخر ماں سے ننھی سی جان کا یہ حال دیکھا نہ گیا تو وہ پانی کی تلاش میں صفا پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ کر اطراف میں نظر دوڑاتی ہیں کہ کوئی انسان آتا جاتا نظر آ جائے ۔ لیکن کوئی نظر نہیں آتا اور مایوس واپس آتی ہیں ۔ وادی میں پہنچ کر دامن اٹھا کر دوڑتی ہوئی مروہ پہاڑی کی طرف جاتی ہیں وہاں سے مایوس ہو کر واپس صفا پہاڑی پر چڑھ جاتی ہیں ۔ سات مرتبہ ایسا ہی کرتی ہیں ۔ ہر بار بچے کو دیکھ بھی جاتی ہیں کہ کوئی درندہ حضرت اسماعیل کو نقصان نہ پہنچائے ۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا صفا اور مروہ کی سعی حاجی جو کرتے ہیں اس کی ابتداءیہی ہے ( تفسیر ابن کثیر جلد اول ص 203 )

    بچے کی حالت لمحہ بہ لمحہ بگڑتی جا رہی ہے ساتویں بار ماں کا چہرہ آسمان کی طرف اٹھتا ہے ۔ اللہ اگر بچہ دینا ہی تھا تو میری آنکھوں کے سامنے یوں تو نہ تڑپا کوئی ماں یہ برداشت نہیں کر سکتی ۔ اب واپس آ کر دیکھا تو بچے کے پیروں تلے سے پانی کا چشمہ جاری ہے ۔ حضرت ہاجرہ نے جلدی جلدی مشک بھری پھر اس خیال سے کہ پانی ادھر ادھر نہ پھیل جائے‘ پانی کے گرد بند باندھنے لگیں اور بے اختیار زبان سے کہا ” زم زم “ رک جا‘ رک جا ۔ نبی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ ” اللہ تعالیٰ رحم کرے اسمٰعیل علیہ السلام کی والدہ پر اگر وہ پانی کو بہنے دیتی تو آج وہ ایک بہتا ہوا چشمہ ہوتا ۔ “

    حضرت ہاجرہ نے چشمہ سے پانی خود بھی پیا اور بچہ کو بھی پلایا اس طرح زندہ رہنے کا سامان مہیا ہو گیا ۔ کچھ عرصہ بعد قریب سے بنو جرہم کا قافلہ کداءکے راستے سے گزرا ۔ انہوں نے پرندے کو گھومتے دیکھا تو کہنے لگے یہ پرندے یقینا پانی پر گھوم رہے ہیں ۔ اب ان لوگوں نے پانی کا پتہ لگانے کے لئے آدمی بھیجا‘ اس نے دیکھا کہ چشمہ کے قریب ایک عورت اور اس کا بچہ ہے ۔ اس نے آ کر قافلے والوں کو بتایا ۔ قافلے والے حضرت ہاجرہ کے پاس آئے اور عرض کرنے لگے کہ آپ اجازت دیں تو ہم یہ پانی استعمال کر لیں ۔ حضرت ہاجرہ فرمانے لگیں‘ پانی جس طرح چاہے استعمال کرو مگر پانی پر قبضہ میرا ہی ہو گا ۔ قافلے والوں نے کہا ٹھیک ہے اب وہ حرم کے پاس آباد ہو گئے اس طرح شہر مکہ آباد ہو گیا ۔ اب حضرت اسماعیل علیہ السلام پرورش پانے لگے‘ کھیلنے کودنے لگے تو اللہ تعالیٰ کی طرف ایک اور حکم ہوا ۔ اے پیارے ابراہیم علیہ السلام جس بچے کو عرب کا ریگستان ختم نہ کر سکا جاؤ جا کے اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کر دو ۔ والدین کو اولاد سے بڑھ کر کوئی پیارا نہیں ہوتا مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام حکم خداوندی کی بجا آوری کے لئے فورا مکہ پہنچے‘ بیٹے کو بلا کر کہا‘ بیٹا میں تیرا باپ ہوں پھر فرمایا یٰبنی اِنی ارٰی فی المنام اَنی اذبحک فانظر ماذا تریٰ صلی اللہ علیہ وسلم اے بیٹا میں خواب میں تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اب تو بتا تیری رائے کیا ہے ؟ حضرت اسماعیل سعادت مندی سے جواب دیتے ہیں یٰٓاَبت افعل ماتومر ستجدنیٓ اِن شاءاللّٰہ من الصٰبرین ” ابا جی! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے ان شاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے ۔ “ پھر باپ اور بیٹا دونوں نکلے‘ باپ ذبح کرنے کے لئے اور بیٹا ذبح ہونے کے لئے ۔ راستے میں شیطان ملا کہنے لگا‘ باپ اتنا ظالم کہ خود بیٹے کو ذبح کرے‘ ادھر سے جواب ملا ملعون دور ہو جا اور وہیں شیطان کو سات کنکر مارے‘ اسی طرح شیطان نے تین بار ورغلانے کی کوشش کی‘ تینوں بار کنکر کھائے ۔ اللہ رب العزت نے ان جگہوں پر نشان لگا دئیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آ کر ان نشانات کو تازہ کرے گی ۔ ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام پھر آگے بڑھے قرآن کے الفاظ ہیں ۔ فلما اسلما وتلہ للجبین جب دونوں مطیع ہو گئے‘ ( باپ نے بیٹے کو ) پیشانی کے بل لٹا لیا ۔ “ عام طور پر ذبح کرتے وقت ذبیح کو گدی کے بل لٹایا جاتا ہے مگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لٹایا گیا ۔
    سعادت مند بیٹا جھک گیا فرمان باری پر
    زمین و آسمان حیراں تھے اس اطاعت گزاری پر

    ادھر حضرت خلیل علیہ السلام نے اپنے پیارے لخت جگر کی گردن پر چھری پھیری ادھر آسمان سے آواز آئی.... ونادینہ ان یا براھیم قد صدقت الریا ” اے ابراہیم آنکھیں کھولو یقینا تو نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا ۔ “ حضرت خلیل نے آنکھیں کھولیں دیکھا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام پاس کھڑے مسکرا رہے ہیں اور جنت سے آیا ہوا دنبہ ذبح ہوا پڑا ہے ۔ اللہ فرماتے ہیں : انا کذلک نجزی المحسنین.... وترکنا علیہ فی الاٰخرین ” ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ۔ اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا ہے ۔ “ ایک بار نبی علیہ السلام سے پوچھا گیا ” ما ھذہ الاضحٰی ” یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ “ آپ نے فرمایا : سنة ابیکم ابراھیم ” یہ تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہے ۔ “ ( ابن ماجہ )

    مسلمان بھائیو! یہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کی اس بے مثال قربانی کا مختصر تذکرہ ہے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کی تھی ۔ اس بات کو یاد رکھو کہ ابراہیم علیہ السلام کی فکر ان کی پاکیزہ نیت اور خلوص کے ساتھ جب تک قربانی نہیں کی جائے گی وہ قربانی اللہ کے ہاں شرف قبولیت کا درجہ نہیں پا سکتی ۔ جانور کے گلے پر چھری چلاتے وقت دل احساس ابراہیمی سے یوں لبریز ہوں کہ اے اللہ یہ تو ایک جانور ہے جو میں تیری وفا کے حصول کے لئے ذبح کر رہا ہوں ۔ جب وقت آیا تو اپنا سب مال‘ دولت اور جان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کروں گا ۔

    پسر خلیل کی سیکھ ادا جو ہے ذبح ہونے کی آرزو
    کہ چھری رکے تو رکے مگر نہ سرکنے پائے ترا گلا

    سنہرے موتی

    پسرِ خلیل کی سیکھ ادا جو ہے ذبح ہونے کی آرزو
    ماہ ذی الحجہ کئی ایک ایمان افروز واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے ۔ ان واقعات کو پڑھ کر اور سماعت کر کے مسلمانوں میں صبر و استقامت‘ اطاعت و فرمانبرداری اور ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ ان واقعات میں سرفہرست حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا وہ عمل ہے جو انہوں نے اپنے رب کے حکم پر اس کی رضا و خوشنودی کے لئے کیا تھا ۔ پوری تاریخ انسانی میں اس طرح کے واقع کی مثال نہیں ملتی ۔ اس عظیم واقع کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اسے قرآن حکیم میں بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے ۔ آئیے ہم بھی اس واقع کی روشنی میں اپنے ایمان کو جلا بخشیں ۔ امر واقع یہ ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام جب بڑھاپے کو پہنچے تو ان کے گھر کوئی اولاد نہ تھی انہوں نے اللہ کے حضور دعا کی رب ھب لی من الصالحین ” اے میرے رب مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما ۔ “ بارگاہ ایزدی میں یہ دعا فورا قبول ہوئی اور جو اب ملا فبشرنہ بغلام حلیم ( الصفت ) ” ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی خوش خبری دی ۔ “

    اب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوتی ہے ۔ اس سے گھر میں خوشی و مسرت کے شادیانے بج اٹھتے ہیں ۔ حضرت خلیل علیہ السلام بچے کی ولادت پر اپنی جگہ شاداں و فرحاں ہیں جبکہ حضرت ہاجرہ اپنی جگہ مسرور ہیں ۔ اس موقع پر حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام پر ایک بڑی کٹھن اور مشکل آزمائش آن پڑی ۔ حکم الٰہی ہوتا ہے کہ اے میرے خلیل اس دودھ پیتے بچے کو اور اس کی ماں کو بواد غیر ذی زرع میں چھوڑ آؤ ۔ حضرت خلیل علیہ السلام نے سرمو انحراف نہ کیا ۔ اونٹنی پر سوار ہوئے بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لیا اور اس جگہ کی تلاش میں چل نکلے ۔ جب صحرا میں پہنچے تو دیکھا کہ یہاں نہ تو کوئی انسان ہے‘ نہ پانی اور نہ ہی کوئی سایہ دار درخت ہے سمجھ گئے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں اللہ نے بیوی اور بچے کو چھوڑنے کا حکم دیا ہے ۔ حضرت خلیل علیہ السلام بیٹے کو حضرت ہاجرہ کی گود میں بٹھا کر پاس تھوڑی سی کھجوریں اور پانی کا مشکیزہ رکھ کر واپس پلٹے تو حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہ نے آواز دی.... اے اللہ کے خلیل ہمیں اس بے آب و گیاہ اور ویران صحرا میں تنہا چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں‘ یہاں ہمارا کوئی مونس و غم خوار نہیں ۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ اس طرف توجہ ہی نہ دی ۔ حضرت ہاجرہ کے بار بار کہنے پر جب خلیل علیہ السلام نے التفات نہ فرمایا تو حضرت ہاجرہ فرماتی ہیں : ( اللہ امرک بھٰذا ؟ ) ” کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے ؟ “ فرمایا ہاں مجھے اللہ نے یہ حکم دیا ہے ۔ یہ سن کر حضرت ہاجرہ کے دل کو تسلی ہو گئی اور فرمانے لگیں ( ( اذن لایضیعنا ) ) آپ تشریف لے جائیں اللہ ہمیں ہر گز ضائع نہیں کرے گا ۔ “ حضرت ہاجرہ واپس آئیں اور اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو گود میں لیکر اس سنسان وادی اور ہو کے عالم میں اللہ تعالیٰ پر متوکل ہو کر بیٹھ گئیں ۔ ادھر حضرت ابراہیم علیہ السلام جب ثنیہ کے پاس پہنچے گے جہاں آپ اپنے بیٹے اور بیوی کی آنکھوں سے اوجھل ہوں گے تو بیت اللہ شریف کی طرف متوجہ ہو کر ہاتھ اٹھا کر اللہ سے دعا کی ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم

    یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہی کی برکت ہے کہ مکہ مکرمہ میں پھلوں کے باغات نہ ہونے کے باوجود وہاں دنیا کا ہر پھل میسر ہے ۔ ابراہیم علیہ السلام یہ دعا کر کے چل دئیے ۔ ادھر حضرت ہاجرہ بچے کے ساتھ وقت گزارنے لگیں ۔ تھوڑی سی کھجوریں اور پانی چند روز میں ختم ہو گیا ۔ کھانے اور پینے کو کچھ پاس نہیں‘ خود بھی بھوکی پیاسی ہیں اور بچہ بھی بھوک اور پیاس سے بلک رہا ہے ۔ یہاں تک کہ اس نبی زادے کا پھول سا چہرہ مرجانے لگا ۔ کسی انسان کا ادھر سے گزر نہیں‘ پانی کا میلوں تک نشان نہیں ہے ۔ آخر ماں سے ننھی سی جان کا یہ حال دیکھا نہ گیا تو وہ پانی کی تلاش میں صفا پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ کر اطراف میں نظر دوڑاتی ہیں کہ کوئی انسان آتا جاتا نظر آ جائے ۔ لیکن کوئی نظر نہیں آتا اور مایوس واپس آتی ہیں ۔ وادی میں پہنچ کر دامن اٹھا کر دوڑتی ہوئی مروہ پہاڑی کی طرف جاتی ہیں وہاں سے مایوس ہو کر واپس صفا پہاڑی پر چڑھ جاتی ہیں ۔ سات مرتبہ ایسا ہی کرتی ہیں ۔ ہر بار بچے کو دیکھ بھی جاتی ہیں کہ کوئی درندہ حضرت اسماعیل کو نقصان نہ پہنچائے ۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا صفا اور مروہ کی سعی حاجی جو کرتے ہیں اس کی ابتداءیہی ہے ( تفسیر ابن کثیر جلد اول ص 203 )

    بچے کی حالت لمحہ بہ لمحہ بگڑتی جا رہی ہے ساتویں بار ماں کا چہرہ آسمان کی طرف اٹھتا ہے ۔ اللہ اگر بچہ دینا ہی تھا تو میری آنکھوں کے سامنے یوں تو نہ تڑپا کوئی ماں یہ برداشت نہیں کر سکتی ۔ اب واپس آ کر دیکھا تو بچے کے پیروں تلے سے پانی کا چشمہ جاری ہے ۔ حضرت ہاجرہ نے جلدی جلدی مشک بھری پھر اس خیال سے کہ پانی ادھر ادھر نہ پھیل جائے‘ پانی کے گرد بند باندھنے لگیں اور بے اختیار زبان سے کہا ” زم زم “ رک جا‘ رک جا ۔ نبی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ ” اللہ تعالیٰ رحم کرے اسمٰعیل علیہ السلام کی والدہ پر اگر وہ پانی کو بہنے دیتی تو آج وہ ایک بہتا ہوا چشمہ ہوتا ۔ “

    حضرت ہاجرہ نے چشمہ سے پانی خود بھی پیا اور بچہ کو بھی پلایا اس طرح زندہ رہنے کا سامان مہیا ہو گیا ۔ کچھ عرصہ بعد قریب سے بنو جرہم کا قافلہ کداءکے راستے سے گزرا ۔ انہوں نے پرندے کو گھومتے دیکھا تو کہنے لگے یہ پرندے یقینا پانی پر گھوم رہے ہیں ۔ اب ان لوگوں نے پانی کا پتہ لگانے کے لئے آدمی بھیجا‘ اس نے دیکھا کہ چشمہ کے قریب ایک عورت اور اس کا بچہ ہے ۔ اس نے آ کر قافلے والوں کو بتایا ۔ قافلے والے حضرت ہاجرہ کے پاس آئے اور عرض کرنے لگے کہ آپ اجازت دیں تو ہم یہ پانی استعمال کر لیں ۔ حضرت ہاجرہ فرمانے لگیں‘ پانی جس طرح چاہے استعمال کرو مگر پانی پر قبضہ میرا ہی ہو گا ۔ قافلے والوں نے کہا ٹھیک ہے اب وہ حرم کے پاس آباد ہو گئے اس طرح شہر مکہ آباد ہو گیا ۔ اب حضرت اسماعیل علیہ السلام پرورش پانے لگے‘ کھیلنے کودنے لگے تو اللہ تعالیٰ کی طرف ایک اور حکم ہوا ۔ اے پیارے ابراہیم علیہ السلام جس بچے کو عرب کا ریگستان ختم نہ کر سکا جاؤ جا کے اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کر دو ۔ والدین کو اولاد سے بڑھ کر کوئی پیارا نہیں ہوتا مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام حکم خداوندی کی بجا آوری کے لئے فورا مکہ پہنچے‘ بیٹے کو بلا کر کہا‘ بیٹا میں تیرا باپ ہوں پھر فرمایا یٰبنی اِنی ارٰی فی المنام اَنی اذبحک فانظر ماذا تریٰ صلی اللہ علیہ وسلم اے بیٹا میں خواب میں تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اب تو بتا تیری رائے کیا ہے ؟ حضرت اسماعیل سعادت مندی سے جواب دیتے ہیں یٰٓاَبت افعل ماتومر ستجدنیٓ اِن شاءاللّٰہ من الصٰبرین ” ابا جی! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے ان شاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے ۔ “ پھر باپ اور بیٹا دونوں نکلے‘ باپ ذبح کرنے کے لئے اور بیٹا ذبح ہونے کے لئے ۔ راستے میں شیطان ملا کہنے لگا‘ باپ اتنا ظالم کہ خود بیٹے کو ذبح کرے‘ ادھر سے جواب ملا ملعون دور ہو جا اور وہیں شیطان کو سات کنکر مارے‘ اسی طرح شیطان نے تین بار ورغلانے کی کوشش کی‘ تینوں بار کنکر کھائے ۔ اللہ رب العزت نے ان جگہوں پر نشان لگا دئیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آ کر ان نشانات کو تازہ کرے گی ۔ ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام پھر آگے بڑھے قرآن کے الفاظ ہیں ۔ فلما اسلما وتلہ للجبین جب دونوں مطیع ہو گئے‘ ( باپ نے بیٹے کو ) پیشانی کے بل لٹا لیا ۔ “ عام طور پر ذبح کرتے وقت ذبیح کو گدی کے بل لٹایا جاتا ہے مگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لٹایا گیا ۔
    سعادت مند بیٹا جھک گیا فرمان باری پر
    زمین و آسمان حیراں تھے اس اطاعت گزاری پر

    ادھر حضرت خلیل علیہ السلام نے اپنے پیارے لخت جگر کی گردن پر چھری پھیری ادھر آسمان سے آواز آئی.... ونادینہ ان یا براھیم قد صدقت الریا ” اے ابراہیم آنکھیں کھولو یقینا تو نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا ۔ “ حضرت خلیل نے آنکھیں کھولیں دیکھا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام پاس کھڑے مسکرا رہے ہیں اور جنت سے آیا ہوا دنبہ ذبح ہوا پڑا ہے ۔ اللہ فرماتے ہیں : انا کذلک نجزی المحسنین.... وترکنا علیہ فی الاٰخرین ” ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ۔ اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا ہے ۔ “ ایک بار نبی علیہ السلام سے پوچھا گیا ” ما ھذہ الاضحٰی ” یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ “ آپ نے فرمایا : سنة ابیکم ابراھیم ” یہ تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہے ۔ “ ( ابن ماجہ )

    مسلمان بھائیو! یہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کی اس بے مثال قربانی کا مختصر تذکرہ ہے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کی تھی ۔ اس بات کو یاد رکھو کہ ابراہیم علیہ السلام کی فکر ان کی پاکیزہ نیت اور خلوص کے ساتھ جب تک قربانی نہیں کی جائے گی وہ قربانی اللہ کے ہاں شرف قبولیت کا درجہ نہیں پا سکتی ۔ جانور کے گلے پر چھری چلاتے وقت دل احساس ابراہیمی سے یوں لبریز ہوں کہ اے اللہ یہ تو ایک جانور ہے جو میں تیری وفا کے حصول کے لئے ذبح کر رہا ہوں ۔ جب وقت آیا تو اپنا سب مال‘ دولت اور جان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کروں گا ۔

    پسر خلیل کی سیکھ ادا جو ہے ذبح ہونے کی آرزو
    کہ چھری رکے تو رکے مگر نہ سرکنے پائے ترا گلا

    سنہرے موتی

    پسرِ خلیل کی سیکھ ادا جو ہے ذبح ہونے کی آرزو
    ماہ ذی الحجہ کئی ایک ایمان افروز واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے ۔ ان واقعات کو پڑھ کر اور سماعت کر کے مسلمانوں میں صبر و استقامت‘ اطاعت و فرمانبرداری اور ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ ان واقعات میں سرفہرست حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا وہ عمل ہے جو انہوں نے اپنے رب کے حکم پر اس کی رضا و خوشنودی کے لئے کیا تھا ۔ پوری تاریخ انسانی میں اس طرح کے واقع کی مثال نہیں ملتی ۔ اس عظیم واقع کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اسے قرآن حکیم میں بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے ۔ آئیے ہم بھی اس واقع کی روشنی میں اپنے ایمان کو جلا بخشیں ۔ امر واقع یہ ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام جب بڑھاپے کو پہنچے تو ان کے گھر کوئی اولاد نہ تھی انہوں نے اللہ کے حضور دعا کی رب ھب لی من الصالحین ” اے میرے رب مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما ۔ “ بارگاہ ایزدی میں یہ دعا فورا قبول ہوئی اور جو اب ملا فبشرنہ بغلام حلیم ( الصفت ) ” ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی خوش خبری دی ۔ “

    اب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوتی ہے ۔ اس سے گھر میں خوشی و مسرت کے شادیانے بج اٹھتے ہیں ۔ حضرت خلیل علیہ السلام بچے کی ولادت پر اپنی جگہ شاداں و فرحاں ہیں جبکہ حضرت ہاجرہ اپنی جگہ مسرور ہیں ۔ اس موقع پر حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام پر ایک بڑی کٹھن اور مشکل آزمائش آن پڑی ۔ حکم الٰہی ہوتا ہے کہ اے میرے خلیل اس دودھ پیتے بچے کو اور اس کی ماں کو بواد غیر ذی زرع میں چھوڑ آؤ ۔ حضرت خلیل علیہ السلام نے سرمو انحراف نہ کیا ۔ اونٹنی پر سوار ہوئے بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لیا اور اس جگہ کی تلاش میں چل نکلے ۔ جب صحرا میں پہنچے تو دیکھا کہ یہاں نہ تو کوئی انسان ہے‘ نہ پانی اور نہ ہی کوئی سایہ دار درخت ہے سمجھ گئے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں اللہ نے بیوی اور بچے کو چھوڑنے کا حکم دیا ہے ۔ حضرت خلیل علیہ السلام بیٹے کو حضرت ہاجرہ کی گود میں بٹھا کر پاس تھوڑی سی کھجوریں اور پانی کا مشکیزہ رکھ کر واپس پلٹے تو حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہ نے آواز دی.... اے اللہ کے خلیل ہمیں اس بے آب و گیاہ اور ویران صحرا میں تنہا چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں‘ یہاں ہمارا کوئی مونس و غم خوار نہیں ۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ اس طرف توجہ ہی نہ دی ۔ حضرت ہاجرہ کے بار بار کہنے پر جب خلیل علیہ السلام نے التفات نہ فرمایا تو حضرت ہاجرہ فرماتی ہیں : ( اللہ امرک بھٰذا ؟ ) ” کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے ؟ “ فرمایا ہاں مجھے اللہ نے یہ حکم دیا ہے ۔ یہ سن کر حضرت ہاجرہ کے دل کو تسلی ہو گئی اور فرمانے لگیں ( ( اذن لایضیعنا ) ) آپ تشریف لے جائیں اللہ ہمیں ہر گز ضائع نہیں کرے گا ۔ “ حضرت ہاجرہ واپس آئیں اور اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو گود میں لیکر اس سنسان وادی اور ہو کے عالم میں اللہ تعالیٰ پر متوکل ہو کر بیٹھ گئیں ۔ ادھر حضرت ابراہیم علیہ السلام جب ثنیہ کے پاس پہنچے گے جہاں آپ اپنے بیٹے اور بیوی کی آنکھوں سے اوجھل ہوں گے تو بیت اللہ شریف کی طرف متوجہ ہو کر ہاتھ اٹھا کر اللہ سے دعا کی ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم

    یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہی کی برکت ہے کہ مکہ مکرمہ میں پھلوں کے باغات نہ ہونے کے باوجود وہاں دنیا کا ہر پھل میسر ہے ۔ ابراہیم علیہ السلام یہ دعا کر کے چل دئیے ۔ ادھر حضرت ہاجرہ بچے کے ساتھ وقت گزارنے لگیں ۔ تھوڑی سی کھجوریں اور پانی چند روز میں ختم ہو گیا ۔ کھانے اور پینے کو کچھ پاس نہیں‘ خود بھی بھوکی پیاسی ہیں اور بچہ بھی بھوک اور پیاس سے بلک رہا ہے ۔ یہاں تک کہ اس نبی زادے کا پھول سا چہرہ مرجانے لگا ۔ کسی انسان کا ادھر سے گزر نہیں‘ پانی کا میلوں تک نشان نہیں ہے ۔ آخر ماں سے ننھی سی جان کا یہ حال دیکھا نہ گیا تو وہ پانی کی تلاش میں صفا پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ کر اطراف میں نظر دوڑاتی ہیں کہ کوئی انسان آتا جاتا نظر آ جائے ۔ لیکن کوئی نظر نہیں آتا اور مایوس واپس آتی ہیں ۔ وادی میں پہنچ کر دامن اٹھا کر دوڑتی ہوئی مروہ پہاڑی کی طرف جاتی ہیں وہاں سے مایوس ہو کر واپس صفا پہاڑی پر چڑھ جاتی ہیں ۔ سات مرتبہ ایسا ہی کرتی ہیں ۔ ہر بار بچے کو دیکھ بھی جاتی ہیں کہ کوئی درندہ حضرت اسماعیل کو نقصان نہ پہنچائے ۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا صفا اور مروہ کی سعی حاجی جو کرتے ہیں اس کی ابتداءیہی ہے ( تفسیر ابن کثیر جلد اول ص 203 )

    بچے کی حالت لمحہ بہ لمحہ بگڑتی جا رہی ہے ساتویں بار ماں کا چہرہ آسمان کی طرف اٹھتا ہے ۔ اللہ اگر بچہ دینا ہی تھا تو میری آنکھوں کے سامنے یوں تو نہ تڑپا کوئی ماں یہ برداشت نہیں کر سکتی ۔ اب واپس آ کر دیکھا تو بچے کے پیروں تلے سے پانی کا چشمہ جاری ہے ۔ حضرت ہاجرہ نے جلدی جلدی مشک بھری پھر اس خیال سے کہ پانی ادھر ادھر نہ پھیل جائے‘ پانی کے گرد بند باندھنے لگیں اور بے اختیار زبان سے کہا ” زم زم “ رک جا‘ رک جا ۔ نبی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ ” اللہ تعالیٰ رحم کرے اسمٰعیل علیہ السلام کی والدہ پر اگر وہ پانی کو بہنے دیتی تو آج وہ ایک بہتا ہوا چشمہ ہوتا ۔ “

    حضرت ہاجرہ نے چشمہ سے پانی خود بھی پیا اور بچہ کو بھی پلایا اس طرح زندہ رہنے کا سامان مہیا ہو گیا ۔ کچھ عرصہ بعد قریب سے بنو جرہم کا قافلہ کداءکے راستے سے گزرا ۔ انہوں نے پرندے کو گھومتے دیکھا تو کہنے لگے یہ پرندے یقینا پانی پر گھوم رہے ہیں ۔ اب ان لوگوں نے پانی کا پتہ لگانے کے لئے آدمی بھیجا‘ اس نے دیکھا کہ چشمہ کے قریب ایک عورت اور اس کا بچہ ہے ۔ اس نے آ کر قافلے والوں کو بتایا ۔ قافلے والے حضرت ہاجرہ کے پاس آئے اور عرض کرنے لگے کہ آپ اجازت دیں تو ہم یہ پانی استعمال کر لیں ۔ حضرت ہاجرہ فرمانے لگیں‘ پانی جس طرح چاہے استعمال کرو مگر پانی پر قبضہ میرا ہی ہو گا ۔ قافلے والوں نے کہا ٹھیک ہے اب وہ حرم کے پاس آباد ہو گئے اس طرح شہر مکہ آباد ہو گیا ۔ اب حضرت اسماعیل علیہ السلام پرورش پانے لگے‘ کھیلنے کودنے لگے تو اللہ تعالیٰ کی طرف ایک اور حکم ہوا ۔ اے پیارے ابراہیم علیہ السلام جس بچے کو عرب کا ریگستان ختم نہ کر سکا جاؤ جا کے اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کر دو ۔ والدین کو اولاد سے بڑھ کر کوئی پیارا نہیں ہوتا مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام حکم خداوندی کی بجا آوری کے لئے فورا مکہ پہنچے‘ بیٹے کو بلا کر کہا‘ بیٹا میں تیرا باپ ہوں پھر فرمایا یٰبنی اِنی ارٰی فی المنام اَنی اذبحک فانظر ماذا تریٰ صلی اللہ علیہ وسلم اے بیٹا میں خواب میں تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اب تو بتا تیری رائے کیا ہے ؟ حضرت اسماعیل سعادت مندی سے جواب دیتے ہیں یٰٓاَبت افعل ماتومر ستجدنیٓ اِن شاءاللّٰہ من الصٰبرین ” ابا جی! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے ان شاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے ۔ “ پھر باپ اور بیٹا دونوں نکلے‘ باپ ذبح کرنے کے لئے اور بیٹا ذبح ہونے کے لئے ۔ راستے میں شیطان ملا کہنے لگا‘ باپ اتنا ظالم کہ خود بیٹے کو ذبح کرے‘ ادھر سے جواب ملا ملعون دور ہو جا اور وہیں شیطان کو سات کنکر مارے‘ اسی طرح شیطان نے تین بار ورغلانے کی کوشش کی‘ تینوں بار کنکر کھائے ۔ اللہ رب العزت نے ان جگہوں پر نشان لگا دئیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آ کر ان نشانات کو تازہ کرے گی ۔ ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام پھر آگے بڑھے قرآن کے الفاظ ہیں ۔ فلما اسلما وتلہ للجبین جب دونوں مطیع ہو گئے‘ ( باپ نے بیٹے کو ) پیشانی کے بل لٹا لیا ۔ “ عام طور پر ذبح کرتے وقت ذبیح کو گدی کے بل لٹایا جاتا ہے مگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لٹایا گیا ۔
    سعادت مند بیٹا جھک گیا فرمان باری پر
    زمین و آسمان حیراں تھے اس اطاعت گزاری پر

    ادھر حضرت خلیل علیہ السلام نے اپنے پیارے لخت جگر کی گردن پر چھری پھیری ادھر آسمان سے آواز آئی.... ونادینہ ان یا براھیم قد صدقت الریا ” اے ابراہیم آنکھیں کھولو یقینا تو نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا ۔ “ حضرت خلیل نے آنکھیں کھولیں دیکھا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام پاس کھڑے مسکرا رہے ہیں اور جنت سے آیا ہوا دنبہ ذبح ہوا پڑا ہے ۔ اللہ فرماتے ہیں : انا کذلک نجزی المحسنین.... وترکنا علیہ فی الاٰخرین ” ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ۔ اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا ہے ۔ “ ایک بار نبی علیہ السلام سے پوچھا گیا ” ما ھذہ الاضحٰی ” یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ “ آپ نے فرمایا : سنة ابیکم ابراھیم ” یہ تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہے ۔ “ ( ابن ماجہ )

    مسلمان بھائیو! یہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کی اس بے مثال قربانی کا مختصر تذکرہ ہے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کی تھی ۔ اس بات کو یاد رکھو کہ ابراہیم علیہ السلام کی فکر ان کی پاکیزہ نیت اور خلوص کے ساتھ جب تک قربانی نہیں کی جائے گی وہ قربانی اللہ کے ہاں شرف قبولیت کا درجہ نہیں پا سکتی ۔ جانور کے گلے پر چھری چلاتے وقت دل احساس ابراہیمی سے یوں لبریز ہوں کہ اے اللہ یہ تو ایک جانور ہے جو میں تیری وفا کے حصول کے لئے ذبح کر رہا ہوں ۔ جب وقت آیا تو اپنا سب مال‘ دولت اور جان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کروں گا ۔

    پسر خلیل کی سیکھ ادا جو ہے ذبح ہونے کی آرزو
    کہ چھری رکے تو رکے مگر نہ سرکنے پائے ترا گلا

    پسرِ خلیل کی سیکھ ادا جو ہے ذبح ہونے کی آرزو
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں