نماز کے چالیس اہم مسائل صحیح احادیث کی روشنی میں--- مكمل كتاب

ابو طلحہ السلفی نے 'اردو یونیکوڈ کتب' میں ‏نومبر 8, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابو طلحہ السلفی

    ابو طلحہ السلفی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    555
    اسلام و علیکم ورحمة اللہ وبرکاة
    فضیلة الشیخ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کی نماز سے متعلقہ مسائل پر ایک جامع اور راہنما تالیف "ھَدیَة المسلمین" کے نام سے موجود ہے۔ یہ تحریر "چالیس حدیثیں از محمد الیاس" کے جواب میں لکھی گئی ہے۔ چالیس حدیثیں کے مولف محمد الیاس نے ایسی بے شمار ضعیف و موضوع روایات جمع کی ہیں جن سے "نماز حنفی" کی تائید ہوتی ہے اور دانستہ طور پر انہی موضوعات پر صحیح اور حسن روایات بیان نہیں کیں کیونکہ "نماز حنفی" ان صحیح احادیث کے مخالف ہے۔ یوں عوام کو تسلی اور مغالطہ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہماری نماز بھی احادیث کے مطابق ہے حالانکہ ضعیف اور موضوع روایات کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔ محمد الیاس کی تحریر "چالیس حدیثیں" اہل "حق" (!) فورم اور اہل "حق" (!) ویب سائٹ پر بھی "خاتم الانبیاءﷺکا طریقہ نماز" کے عنوان سے موجود ہے۔
    زیر نظر کتاب "ھَدیَة المسلمین" میں سب سے پہلے ہر مسئلے کی وضاحت صحیح احادیث کی روشنی میں کی گئی ہے اور پھر اسی مسئلے پر احناف کے تقلیدی دلائل کا تحقیقی جائزہ لیا گیا ہے۔


    اس موضوع پر تبصروں کے ليے یہ لڑی استعمال كريں ۔ انتظاميہ اردو مجلس
     
  2. ابو طلحہ السلفی

    ابو طلحہ السلفی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    555
    [font="al_mushaf"]
    بسم اللہ الرحمن الرحیم​

    [font="al_mushaf"]الحمدللہ رب العالمین و الصلٰوة والسلام علٰی رسولھ الأمین[/font]، [font="al_mushaf"]أما بعد[/font]: "[font="al_mushaf"]ھدیة المسلمین[/font]" [font="al_mushaf"]في جمع الأربعین من صلٰوة خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم[/font]
    نیت کی فرضیت​

    حدیث [1] "[font="al_mushaf"]عن عمر بن الخطاب رضي اللہ عنھ[/font]: [font="al_mushaf"]سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول[/font]: (([font="al_mushaf"]إنما الأعمال بالنیات[/font]۔۔۔)) [font="al_mushaf"]إلخ[/font]"
    سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔۔۔۔الخ
    ([font="al_mushaf"]صحیح البخاری[/font] ۲/۱ ح ۱ [font="al_mushaf"]واللفظ لہ و صحیح مسلم [/font]۱۴۰/۲ ح ۱۹۰۷)

    فوائد:
    1) اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ وضو، غسل جنابت، نماز وغیرہ میں نیت کرنا فرض ہے، اسی پر فقہاء کا اجماع ہے۔ دیکھئے " [font="al_mushaf"]الایضاح عن معانی الصحاخ[/font]" لابن ہبیرة (ج ۱ ص ۵۶) سوائے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے۔ ان کے نزدیک وضو اور غسل جنابت میں نیت واجب نہیں سنت ہے۔ ([font="al_mushaf"]الہدایة مع الدرایة[/font] ج ۱ ص ۲۰ [font="al_mushaf"]کتاب الطہارت[/font])
    یہ حنفی فتویٰ درج بالا حدیث اور دیگر دلائل شرعیہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
    2) یاد رہے کہ نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں، زبان سے نیت کرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے، حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں: "نیت دل کے ارادے اور قصد کو کہتے ہیں، قصد و ارادہ کا مقام دل ہے زبان نہیں" ([font="al_mushaf"]الفتاوی الکبریٰ[/font] ج ۱ ص ۱) اسی پر عقل والوں کا اجماع ہے (ایضاً)
    حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "زبان سے نیت کرنا نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے نہ کسی صحابی سے، نہ تابعی سے اور نہ آئمہ اربعہ سے" ([font="al_mushaf"]زاد المعاد [/font]ج ۱ ص ۲۰۱)
    لہذا زبان سے نیت کی ادائیگی بے اصل ہے، یہ کس قدر افسوسناک عجوبہ ہے کہ دل سے نیت کرنا واجب ہے مگر اس کا درجہ کم کر کے اسے محض سنت قرار دیا گیا جبکہ زبان سے نیت پڑھنا بے اصل ہے مگر اسے ایسا "مستحب" بنا دیا گیا جس پر امرِ واجب کی طرح پوری شد و مد کیساتھ عمل کیا جاتا ہے۔
    3) کسی عمل کےعنداللہ مقبول ہونے کی تین شرطیں ہیں:
    ۱: عامل کا عقیدہ کتاب و سنت اور فہمِ سلف صالحین کے مطابق ہو۔
    ۲: عمل اور طریقہ کار بھی کتاب و سنت کے مطابق ہو۔
    ۳: اس عمل کو صرف اللہ کی رضا کے لیئے سر انجام دیا جائے
    [/FONT]
     
  3. ابو طلحہ السلفی

    ابو طلحہ السلفی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    555
    [font="al_mushaf"]
    بسم اللہ الرحمن الرحیم​

    [font="al_mushaf"]الحمدللہ رب العالمین و الصلٰوة والسلام علٰی رسولھ الأمین
    ، [font="al_mushaf"]أما بعد[/font]: "[font="al_mushaf"]ھدیة المسلمین[/font]" [font="al_mushaf"]في جمع الأربعین من صلٰوة خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم[/font]
    نیت کی فرضیت​

    حدیث [1] "[font="al_mushaf"]عن عمر بن الخطاب رضي اللہ عنھ[/font]: [font="al_mushaf"]سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول[/font]: (([font="al_mushaf"]إنما الأعمال بالنیات[/font]۔۔۔)) [font="al_mushaf"]إلخ[/font]"
    سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔۔۔۔الخ
    ([font="al_mushaf"]صحیح البخاری[/font] ۲/۱ ح ۱ [font="al_mushaf"]واللفظ لہ و صحیح مسلم [/font]۱۴۰/۲ ح ۱۹۰۷)

    فوائد:
    1) اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ وضو، غسل جنابت، نماز وغیرہ میں نیت کرنا فرض ہے، اسی پر فقہاء کا اجماع ہے۔ دیکھئے " [font="al_mushaf"]الایضاح عن معانی الصحاح[/font]" لابن ہبیرة (ج ۱ ص ۵۶) سوائے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے۔ ان کے نزدیک وضو اور غسل جنابت میں نیت واجب نہیں سنت ہے۔ ([font="al_mushaf"]الہدایة مع الدرایة[/font] ج ۱ ص ۲۰ [font="al_mushaf"]کتاب الطہارت[/font])
    یہ حنفی فتویٰ درج بالا حدیث اور دیگر دلائل شرعیہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
    2) یاد رہے کہ نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں، زبان سے نیت کرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے، حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں: "نیت دل کے ارادے اور قصد کو کہتے ہیں، قصد و ارادہ کا مقام دل ہے زبان نہیں" ([font="al_mushaf"]الفتاوی الکبریٰ[/font] ج ۱ ص ۱) اسی پر عقل والوں کا اجماع ہے (ایضاً)
    حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "زبان سے نیت کرنا نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے نہ کسی صحابی سے، نہ تابعی سے اور نہ آئمہ اربعہ سے" ([font="al_mushaf"]زاد المعاد [/font]ج ۱ ص ۲۰۱)
    لہذا زبان سے نیت کی ادائیگی بے اصل ہے، یہ کس قدر افسوسناک عجوبہ ہے کہ دل سے نیت کرنا واجب ہے مگر اس کا درجہ کم کر کے اسے محض سنت قرار دیا گیا جبکہ زبان سے نیت پڑھنا بے اصل ہے مگر اسے ایسا "مستحب" بنا دیا گیا جس پر امرِ واجب کی طرح پوری شد و مد کیساتھ عمل کیا جاتا ہے۔
    3) کسی عمل کےعنداللہ مقبول ہونے کی تین شرطیں ہیں:
    ۱: عامل کا عقیدہ کتاب و سنت اور فہمِ سلف صالحین کے مطابق ہو۔
    ۲: عمل اور طریقہ کار بھی کتاب و سنت کے مطابق ہو۔
    ۳: اس عمل کو صرف اللہ کی رضا کے لیئے سر انجام دیا جائے
    [/font]
    [/FONT]
     
  4. ابو طلحہ السلفی

    ابو طلحہ السلفی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    555
    وضو کا طریقہ
    حدیث [2] "[font="al_mushaf"]عن حمران مولی عثمان أنھ رأی عثمان بن عفان دعا بإناء فأفرغ علی کفیھ ثلاث مرار
    ، [font="al_mushaf"]فغسلھما ثم أدخل یمینھ فی الإناء فمضمض و استنشر ثم غسل وجھھ ثلثًا ویدیھ إلی المرفقین ثلاث مرار
    ،[font="al_mushaf"] ثم مسح برأسھ ثم غسل رجلیھ ثلاث مرار إلی الکعبین[/font]۔۔۔۔[font="al_mushaf"]إلخ[/font]"
    حمران مولی عثمان نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو (وضو کرتے ہوئے) دیکھا: آپ نے برتن منگوایا، پھر اپنی دونوں ہتھیلیوں پر تین دفعہ پانی بہایا اور انہیں دھویا۔ پھر اپنا دایاں ہاتھ برتن میں داخل کیا (تین دفعہ) کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا پھر تین دفعہ اپنا چہرہ دھویا، اور تین دفعہ (ہی) دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے پھر آپ نے سر کا مسح کیا، پھر تین دفعہ اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے۔۔۔إلخ" اور (پھر وضو کی) اس (کیفئت) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا۔
    (صحیح بخاری ۲۷،۲۸/۱ ح ۱۵۹ و صحیح مسلم ۱۱۹،۱۲۰/۱ ح ۲۲۶)
    فوائد
    1) وضو کا یہ طریقہ افضل ہے تاہم اعضاء کا ایک ایک یا دو دو دفعہ دھونا بھی جائز ہے۔ (دیکھئے صحیح بخاری ۲۷/۱ ح ۱۵۷، ۱۵۸) بعض اعضاء کو دو دفعہ اور بعض کو تین دفعہ دھونا بھی جائز ہے دیکھئے صحیح بخاری (۱۸۶)
    2) وضو میں پورے سر کا مسح مشروع ہے، جیسا کہ درج بالا حدیث اور حدیث عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ (صحیح بخاری ۳۲/۱ ح ۱۹۲) سے ثابت ہے، بعض لوگوں کا یہ دعوی ہے کہ صرف چوتھائی سر کا مسح فرض ہے۔ یہ دعوی بلا دلیل ہے، عمامہ والی روایت عمامہ کے ساتھ ہی مختص ہے، اس لئے منکرین مسحِ عمامہ کا اس سے استدلال صحیح نہیں ہے
    3) وضو کے دوران میں کوئی دعا پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے ثابت نہیں ہے۔
    امام نسائی کی [font="al_mushaf"]کتاب عمل الیوم واللیلة[/font] (80) کی ایک روایت ([font="al_mushaf"]الکبریٰ للنسائی[/font]۲۴/۶ ح ۹۹۰۸) میں آیا ہے کہ (سیدنا) ابو موسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ نے وضو کیا، پس میں نے آپ کو یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا:
    " [font="al_mushaf"]اللّٰھم اغفرلي زنبي ووسع لي في داري و بارک لي في رزقي[/font]" (انتھی)
    اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے، ابو مجلز نے ابو موسی رضی اللہ عنہ سے کچھ بھی نہیں سنا۔ دیکھئے[font="al_mushaf"] نتائج الافکار فی تخریج احادیث الاذکار لابن حجر[/font] (۲۶۳/۱) [font="al_mushaf"]و قال في روایة أبي مجلز عن أبي موسی رضي اللہ عنھ: ففي سماعھ من أبي موسی نظر[/font]"
    دوسری بات یہ کہ اس (ضعیف روایت) کا تعلق وضوء کے بعد سے ہے جیسا کہ مسند احمد (۳۹۹/۴ ح ۱۹۸۰۳) وغیرہ میں صراحت ہے۔
    4) صحیح بخاری (185) و صحیح مسلم (235) کی حدیث کی رو سے ایک ہی چلو سے منہ اور ناک میں پانی ڈالنا بہتر ہے اور اگر منہ میں علیحدہ اور ناک میں علیحدہ چلو سے پانی ڈالا جائے تو بھی جائز ہے۔ دیکھئے [font="al_mushaf"]التاریخ الکبیر لابن ابی خثیمہ[/font] (ص ۵۸۸ ح ۱۴۱۰ و سندہ حسن)
    [/font]
    [/FONT]
     
  5. ابو طلحہ السلفی

    ابو طلحہ السلفی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    555
    کانوں کا مسح​

    حدیث [3] "[font="al_mushaf"]عن عبداللہ بن عباس
    - [font="al_mushaf"]وذکر الحدیث[/font] ، [font="al_mushaf"]و فیھ[/font] - [font="al_mushaf"]ثم قبض قبضة من الماء ثم نفض یدہ ثم مسح بھا رأسھ و أذنیھ[/font]۔۔۔۔[font="al_mushaf"]إلخ[/font]"
    عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔۔۔پھر آپ نے ایک چلو پانی لے کر اسے بہایا (پھر) سر اور کانوں کا مسح کیا۔۔۔الخ ، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے (مرفوعاً) بیان کیا ہے۔ (سنن ابی داؤد، المجتبائیہ ۲۰/۱ ح ۱۳۸)
    اس کی سند حسن ہے، اسے حاکم نے بھی مستدرک (۱۴۸/۱) میں روایت کیا ہے علاوہ ازیں کتبِ احادیث میں اس کے متعدد شواہد ہیں۔
    فوائد
    1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سر کے ساتھ کانوں کا مسح بھی کرنا چاہیے۔
    سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب وضو کرتے تو شہادت والی دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں ڈالتے (اور ان کے ساتھ دونوں کانوں کے) اندرونی حصوں کا مسح کرتے اور انگوٹھوں کے ساتھ باہر والے حصے پر مسح کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۱۸/۱ ح ۱۷۳ و سندہ صحیح)
    2) التلخيص الحبير (ج ۱ ص ۹۳ ح ۹۸) میں ابو الحسین ابن فارس کے جزء سے بلاسند [font="al_mushaf"]عن فلیح بن سلیمان عن نافع عن ابن عمر رضی اللہ عنہ[/font] منقول ہے :"[font="al_mushaf"]ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال من توضأ ومسح بیدیھ علی عنقھ و في الغل یوم القیامة[/font]" یعنی جس نے وضو کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے گردن کا مسح کیا، روز قیامت گردن میں طوق پہنائے جانے سے بچ جائے گا۔
    اس روایت کو اگرچہ ابن فارس نے: "[font="al_mushaf"]ھذا إن شاء اللہ حدیث صحیح[/font]" کہا ہے مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تردید کرتے ہوئے لکھا ہے: "[font="al_mushaf"]بین ابن فارس و فلیح مفازة[/font]، [font="al_mushaf"]فینظر فیھا[/font]" ابن فارس اور فلیح کے درمیان وہ بیابان ہے جس میں پانی نہیں ہے، پس اس کی ابن فارس سے فلیح تک سند دیکھنی چاہئے (یعنی یہ روایت بلاسند ہے۔ چونکہ دین کا دارومدار اسانید پر ہے لہذا یہ بے سند روایت سخت مردود ہے)
    4) "چالیس حدیثیں" کے مصنف محمد الیاس صاحب نے یہ جھوٹ لکھا ہے کہ " حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے التلخیص الحبیر میں اس روایت کو صحیح لکھا ہے" ۔
    5) محمد الیاس صاحب نے یہ بھی جھوٹ لکھا ہے : " علامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں بھی ایسا ہی (یعنی اسے صحیح) لکھا ہے" (چالیس حدیثیں ص۶)
    حالانکہ نیل الاوطار میں اس پر جرح موجود ہے۔ (ج ۱ ص ۱۶۴ طبع بیروت لبنان)
    6) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ پر مسح کیا ہے۔ (صحیح البخاری ج ۱ ص ۳۳ ح ۲۰۵)
    اسکے برعکس ہدایہ (جلد ۱ ص ۴۴) میں لکھا ہوا ہے کہ عمامہ پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ [font="al_mushaf"]إنا للہ و إنا الیھ راجعون[/font]
    ہدایہ کا یہ فتوی صحیح بخاری کی حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں مردود ہے۔
    [/FONT]
     
  6. ابو طلحہ السلفی

    ابو طلحہ السلفی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    555
    وضو میں جرابوں کا مسح
    حدیث [4] "[font="al_mushaf"]عن ثوبان قال
    : [font="al_mushaf"]بعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سریةً
    ۔۔۔۔ [font="al_mushaf"]أمرھم أن یمسحوا علی العصائب و التساخین
    "
    ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کی ایک جماعت بھیجی۔۔۔۔۔ انہیں حکم دیا کہ پگڑیوں اور پاؤں کو گرم کرنے والی اشیاء (جرابوں اور موزوں) پر مسح کریں۔ (سنن ابی داؤد ج ۱ ص ۲۱ ح ۱۴۶)
    اس روایت کی سند صحیح ہے، اسے حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ اور حافظ زہبی رحمہ اللہ دونوں نے صحیح کہا ہے۔ (المستدرک و التلخیص ج ۱ ص ۱۶۹ ح ۶۰۲)
    اس حدیث پر امام احمد رحمہ اللہ کی جرح کے جواب کے لئے نصب الرایہ (ج ۱ ص ۱۶۵) وغیرہ دیکھیں۔
    فوائد:
    امام ابو داؤد السجستانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    "[font="al_mushaf"]و مسح علی الجوربین علي بن أبي طالب و أبو مسعود و البراء بن عازب و أنس بن مالک و ابو أمامة و سھل بن سعد و عمرو بن حریث[/font]، [font="al_mushaf"]وروی زلک عن عمر بن الخطاب و ابن عباس[/font]"
    اور علی بن ابی طالب، ابو مسعود (ابن مسعود) اور براء بن عازب، انس بن مالک، ابو امامہ، سہل بن سعد اور عمرو بن حریث نے جرابوں پر مسح کیا اور عمر بن خطاب اور ابن عباس سے بھی جرابوں پر مسح مروی ہے (رضی اللہ عنہم اجمعین)
    (سنن ابی داؤد ۲۴/۱ ح ۱۵۹)
    صحابہ کرام کے یہ آثار مصنف ابن ابی شیبہ (۱۸۸،۱۸۹/۱) مصنف عبدالرزاق (۱۹۹،۲۰۰/۱) محلی ابن حزم (۸۴/۲) الکنٰی للدولابی (۱۸۱/۱) وغیرہ میں باسند موجود ہيں۔
    سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اثر الاوسط لابن المنذر (ج ۱ ص ۴۶۲) میں صحیح سند کیساتھ موجود ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
    علامہ ابن قدامہ فرماتے ہیں:
    "[font="al_mushaf"]ولأن الصحابة رضي اللہ عنھم مسحوا علی الجوارب و لم یظھر لھم مخالف في عصرھم فکان اجماعاً[/font]"
    اور چونکہ صحابہ نے جرابوں پر مسح کیا ہے اور ان کے زمانے میں ان کا کوئی مخالف ظاہر نہیں ہوا لہذا اس پر اجماع ہے کہ جرابوں پر مسح کرنا صحیح ہے (المغنی ۱۸۱/۱ مسئلہ ۴۲۶)
    صحابہ کے اس اجماع کی تائید میں مرفوع روایات بھی موجود ہیں جن میں سے ایک کا ذکر شروع باب میں گزر چکا ہے۔
    خفین پر مسح متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ جرابیں بھی خفین کی ایک قسم ہیں جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ ، ابراہیم نخعی اور نافع وغیرہم سے مروی ہے۔ جو لوگ جرابوں پر مسح کے منکر ہیں ان کے پاس قرآن، حدیث اور اجماع سے ایک بھی صریح دلیل نہیں ہے۔
    1) امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا:
    "[font="al_mushaf"]حدثنا محمد بن عبدالوھاب[/font]: [font="al_mushaf"]ثنا جعفر بن عون[/font]: [font="al_mushaf"]ثنا یزید بن مردانبة[/font]: [font="al_mushaf"]ثنا الولید بن سریع عن عمرو بن حریث قال[/font]: [font="al_mushaf"]رأیت علیاً بال ثم توضأ و مسح علی الجوربین[/font]"
    عمرو بن حریث (رضی اللہ عنہ) نے کہا: میں نے دیکھا علی رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور جرابوں پر مسح کیا۔ (الاوسط ج ۱ ص ۴۶۲ [font="al_mushaf"]و فی الاصل[/font]: [font="al_mushaf"]مردانیة و ھو خطا مطبعی[/font]) اس کی سند صحیح ہے۔
    2) سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے جرابوں پر مسح کیا۔
    دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (۱۸۸/۱ ح ۱۰۷۹) و سندہ حسن
    3) سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے جرابوں پر مسح کیا۔
    دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (۱۸۹/۱ ح ۱۹۸۴) و سندہ صحیح
    4) سیدنا عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے جرابوں پر مسح کیا۔
    دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (۱۸۹/۱ ح ۱۹۸۷) اور اس کی سند صحیح ہے۔
    5) سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے جرابوں پر مسح کیا۔
    دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (۱۸۹/۱ ح ۱۹۹۰) و سندہ حسن
    ابن منذر نے کہا: (امام) اسحاق بن راہویہ نے فرمایا: "صحابہ کا اس مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں ہے"۔ (الاوسط لابن المنذر ۴۶۴،۴۶۵/۱)
    تقریباً یہی بات امام ابن حزم رحمہ اللہ نے کہی ہے۔ (المحلی ۸۶/۲ مسئلہ نمبر۲۱۲)
    ابن قدامہ کا قول اس سے پہلے گزر چکا، معلوم ہوا کہ جرابوں پر مسح کے جائز ہونے کے بارے میں صحابہ کا اجماع ہے رضی اللہ عنھم اور اجماع (بذات خود مستقل) شرعی حجت ہے۔
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اللہ میری امت کو گمراہی پر کبھی جمع نہیں کرے گا" (المستدرک للحاکم ۱۱۶/۱ ح ۳۹۷، ۳۹۸) نیز دیکھئے "[font="al_mushaf"]ابراء اھل الحدیث و القرآن مما فی الشواھد من التھمة و البھتان[/font]" ص ۳۲ تصنیف حافظ عبداللہ محدث غازی پوری رحمہ اللہ (متوفی۱۳۳۷ھ)
    مزید معلومات:
    1) ابراہیم النخعی رحمہ اللہ جرابوں پر مسح کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۱۸۸/۱ ح ۱۹۷۷) اس کی سند صحیح ہے۔
    2) سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے جرابوں پر مسح کیا۔ (ایضاً ۱۸۹/۱ ح ۱۹۸۹)
    3) عطاء بن ابی رباح جرابوں پر مسح کے قائل تھے۔ (المحلٰی ۸۶/۲)
    معلوم ہوا کہ تابعین کا بھی جرابوں پر مسح کے جواز پر اجماع ہے۔ والحمدللہ
    ۱- قاضی ابو یوسف جرابوں پر مسح کے قائل تھے۔ (الہدایہ ج ۱ ص ۶۱)
    ۲- محمد بن الحسن الشیبانی بھی جرابوں پر مسح کا قائل تھا۔ (ایضاً ۶۱/۱ باب المسح علی الخفین)
    ۳- آگے آ رہا ہے کہ امام ابو حنیفہ پہلے جرابوں پر مسح کے قائل نہیں تھے لیکن بعد میں انہوں نے رجوع کر لیا تھا۔
    امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سفیان الثوری، ابن المبارک، شافعی، احمد، اور اسحاق (بن راہویہ) جرابوں پر مسح کے قائل تھے (بشرطیکہ وہ موٹی ہوں۔) دیکھئے سنن الترمذی ح ۹۹
    سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ " باقی رہا صحابہ کا عمل، تو ان سے مسح جراب ثابت ہے، اور تیرہ صحابہ کرام کے نام صراحتہ سے معلوم ہیں، کہ وہ جراب پر مسح کیا کرتے تھے۔۔۔" (فتاویٰ نذیریہ ج ۱ ص ۳۳۲)
    لہذا سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کا جرابوں پر مسح کے خلاف فتویٰ اجماع صحابہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

    جورب: سوت یا اون کے موزوں کو کہتے ہیں۔ (درس ترمذی ج ۱ ص ۳۳۴ تصنیف محمد تقی عثمانی دیوبندی) نیز دیکھئے البنایہ فی شرح الہدایہ للعینی حنفی جلد ۱ ص ۵۹۷

    امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ خفین (موزوں) جوربین مجلدین اور جوربین منعلین پر مسح کے قائل تھے مگر جوربین (جرابوں) پر مسح کے قائل نہیں تھے۔
    ملا مرغیانی لکھتے ہیں: "[font="al_mushaf"]و عنہ أنہ رجوع إلی قولھما و علیہ الفتوی[/font]"
    اور امام صاحب سے مروی ہے کہ انھوں نے صاحبین کے قول پر رجوع کر لیا تھا اور اسی پر فتویٰ ہے۔ (الہدایہ ۶۱/۱)
    صحیح احادیث، اجماع صحابہ، قول ابی حنیفہ اور مفتی بہ قول کے مقابلے میں دیوبندی اور بریلوی حضرات کا یہ دعویٰ ہے کہ جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے، اس دعویٰ پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔
    [/font]
    [/font]
    [/FONT]
     
  7. ابو طلحہ السلفی

    ابو طلحہ السلفی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    555
    اول وقت نماز پڑھنے کی فضیلت
    حدیث [5] "[font="al_mushaf"]عن عبداللہ بن مسعود قال
    : [font="al_mushaf"]سألت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: أي العمل أفضل[/font]؟ [font="al_mushaf"]قال[/font]: (([font="al_mushaf"]الصلوة في أول وقتھا[/font]))"
    سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: کون سا عمل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: اول وقت پر نماز پڑھنا۔
    (صحیح ابن خزیمہ ۱۶۹/۱ ح ۳۲۷ و صحیح ابن حبان: موارد الظمآن ۴۲۸/۱ ح ۲۸۰ وسندہ صحیح)
    اسے حاکم اور زہبی دونوں نے صحیح کہا ہے۔ (المستدرک و تلخیصہ ج ۱ ص ۱۸۸،۱۸۹ ح ۶۷۵)
    فوائد:
    1) اس صحیح حدیث سے اول وقت نماز پڑھنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بہترین اور فضیلت والے عمل کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اول وقت نماز پڑھنے کو افضل عمل قرار دیا۔
    2) اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ایسے اعمال کی جستجو میں رہتے تھے جو بہترین اور افضل ہوں تاکہ وہ ایسے اعمال سرانجام دے کر اللہ تعالٰی کے ہاں اعلٰی مقام حاصل کر سکیں۔
    3) تاخیر سے نماز پڑھنا سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور عمل صحابہ کرام کے خلاف ہے اور یہ منافقین کا طرزِ عمل ہے کہ وہ نمازیں دیر سے پڑھتے ہیں۔
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (([font="al_mushaf"]تلک صلوة المنافق[/font])) یہ (تاخیر سے [عصر کی] نماز پڑھنا) منافق کی نماز ہے۔ (صحیح مسلم ۲۲۵/۱ ح ۶۲۲)
    [/FONT]
     
  8. ابو طلحہ السلفی

    ابو طلحہ السلفی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    555
    نماز ظہر کا وقت
    حدیث [6] "[font="al_mushaf"]عن أنس بن مالک قال
    :[font="al_mushaf"] کنا إذا صلینا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالظھائر سجدنا علی ثیابنا اتقاء الحر[/font]"
    سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ظہر کی نمازیں پڑھتے تھے تو گرمی سے بچنے کے لئے اپنے کپڑوں پر سجدہ کرتے تھے۔
    (صحیح البخاری ۷۷/۱ ح ۵۴۲ واللفظ لہ و صحیح مسلم ۲۲۵/۱ ح ۲۲۰ )
    فوائد:
    1) اس روایت اور دیگر احادیث صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز ظہر کا وقت زوال کیساتھ شروع ہو جاتا ہے، اور ظہر کی نماز اول وقت پڑھنی چاہئے۔
    2) اس پر اجماع ہے کہ ظہر کا وقت زوال کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے۔ (الافصاح لابن ہبیرة ج ۱ ص ۷۶)
    3) جن روایات میں آیا ہے کہ جب گرمی زیادہ ہو تو ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، ان تمام احادیث کا تعلق سفر کیساتھ ہے جیسا کہ صحیح بخاری ج ۱ ص ۷۷ ح ۵۳۹ کی حدیث سے ثابت ہے، حضر (گھر، جائے سکونت) کے ساتھ نہیں۔ جو حضرات سفر والی روایات کو حدیث بالا وغیرہ کے مقابلہ میں پیش کرتے ہیں، ان کا موقف درست نہیں۔ انہیں چاہئے کہ ثابت کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ظہر کی نماز ٹھنڈی کر کے پڑھی ہے۔!؟
    4) سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
    "جب سایہ ایک مثل ہو جائے تو ظہر کی نماز ادا کرو اور جب دو مثل ہو جائے تو عصر پڑھو۔"
    (موطا امام مالک ۸/۱ ح ۹ و سندہ صحیح)
    اس کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کی نماز زوال سے لیکر ایک مثل تک پڑھ سکتے ہیں، یعنی ظہر کا وقت زوال سے لیکر ایک مثل تک ہے اور عصر کا وقت ایک مثل سے لیکر دو مثل تک ہے۔ مولانا عبدالحئی لکھنوی نے بھی التعلیق الممجد ص ۴۱ حاشیہ ۹ میں اس موقوف اثر کا یہی مفہوم لکھا ہے۔ یہاں بطور تنبیہ عرض ہے کہ اس "اثر" کے آخری حصہ "فجر کی نماز اندھیرے میں ادا کر" کی دیوبندی اور بریلوی دونوں فریق مخالفت کرتے ہیں، کیونکہ یہ حصہ ان کے مذہب سے مطابقت نہیں رکھتا۔
    5)سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ظہر کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: جب دوپہر کو سورج ڈھل جائے اور سایہ تسمہ جتنا ہو جائے تو ظہر قائم ہو گئی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۳۲۳/۱ ح ۳۲۷۰ و سندہ صحیح)
    معلوم ہوا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس کے قائل تھے کہ ظہر کا وقت سورج کے زوال کیساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔
    6) سُوید بن غفلہ رحمہ اللہ نماز ظہر اول وقت ادا کرنے پر اس قدر ڈٹے ہوئے تھے کہ مرنے کے لئے تیار ہو گئے، مگر یہ گوارا نہ کیا کہ ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھیں اور لوگوں کو بتایا کہ ہم ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے پیچھے اول وقت میں نماز ظہر ادا کرتے تھے۔
    (مصنف ابن ابی شیبہ ۳۲۳/۱ ح ۳۲۷۱ وسندہ حسن)
    [/FONT]
     
  9. ابو طلحہ السلفی

    ابو طلحہ السلفی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    555
    نماز عصر کا وقت​

    حدیث [7] "[font="al_mushaf"]و عن ابن عباس رضي اللہ عنھما أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال
    : (([font="al_mushaf"]أمني جبریل عند البیت مرتین[/font]۔۔۔۔ [font="al_mushaf"]ثم صلی العصر حین کان کل شيء مثل ظلہ[/font]۔۔۔))" [font="al_mushaf"]إلخ[/font]
    (سیدنا) ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام نے بیت اللہ کے قریب مجھے دو دفعہ نماز پڑھائی۔۔۔ پھر انھوں نے عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اسکے برابر ہو گیا۔۔۔الخ
    (جامع ترمذی ۳۸،۳۹/۱ ح ۱۴۹ و قال: "حدیث ابن عباس حدیث حسن")
    اس روایت کی سند حسن ہے، اسے ابن خزیمہ (ح ۳۵۲) ابن حبان (ح ۲۷۹) ابن الجارود (ح ۱۴۹) الحاکم (ج ۱ ص ۱۹۳) ابن عبد البر، ابو بکر بن العربی اور النووی وغیرہم نے صحیح کہا ہے۔ (نیل المقصود فی التعلیق علی سنن ابی داؤد ح ۳۹۳)
    بغوی اور نیموی نے بھی حسن کہا ہے۔ (دیکھئے آثار السنن ص ۸۹ ح ۱۹۴)
    فوائد:
    1) اس روایت اور دیگر احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ عصر کا وقت ایک مثل پر شروع ہو جاتا ہے، ان احادیث کے مقابلے میں کسی ایک بھی صحیح یا حسن روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عصر کا وقت دو مثل سے شروع ہوتا ہے۔
    2) عصر کا وقت ایک مثل پر شروع ہو جاتا ہے، یہ آئمہ ثلاثہ (مالک، شافعی، احمد) اور قاضی ابو یوسف اور محمد بن حسن الشیبانی وغیرہ کا مسلک ہے۔ دیکھئے رشید احمد گنگوہی کے افادات والی کتاب "الکوکب الدری" ج ۱ ص ۹۰ حاشیہ اور الاوسط لابن المنذر ۳۲۹/۲
    3) سنن ابی داؤد کی ایک روایت ہے: "آپ عصر کی نماز دیر سے پڑھتے تا آنکہ سورج صاف اور سفید ہوتا" (۶۵/۱ ح ۴۰۸)
    یہ روایت بلحاظ سند سخت ضعیف ہے، محمد بن یزید الیمامی اور اس کا استاد یزید بن عبدالرحمٰن دونوں مجہول ہیں۔ دیکھئے تقریب التہذیب (۷۷۴۷، ۶۴۰۴)
    لہذا ایسی ضعیف روایت کو ایک مثل والی صحیح احادیث کے خلاف پیش کرنا انتہائی غلط اور قابل مذمت ہے۔
    4) سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہ قول: "جب دو مثل ہو جائے تو عصر پڑھ" کا مطلب یہ ہے کہ دو مثل تک عصر کی (افضل) نماز پڑھ سکتے ہو دیکھئے التعلیق الممجد ص ۴۱ حاشیہ ۹ اور سابق حدیث:۶
    5) ایک حدیث میں آیا ہے کہ یہودیوں نے دوپہر (نصف النہار) تک عمل کیا، عیسائیوں نے دوپہر سے عصر تک عمل کیا اور مسلمانوں نے عصر سے مغرب تک عمل کیا تو مسلمانوں کو دوہرا اجر ملا۔ دیکھئے صحیح البخاری:۵۵۷
    بعض لوگ اس سے استدلال کر کےعصر کی نماز لیٹ پڑھتے ہیں حالانکہ مسلمانوں کا دوہرا اجر (رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزرنے والے) تمام یہود و نصاریٰ کے مجموعی مقابلے میں ہے۔ یاد رہے کہ حضرو کے دیوبندی "دائمی نقشہ اوقات نماز" کے مطابق سال کے دو سب سے بڑے اور سب سے چھوٹے دنوں کی تفصیل (حضرو کے وقت کیمطابق) درج زیل ہے:
    [۲۲ جون] دوپہر ۱۱-۱۲ مثل اول ۵۶-۳ (فرق ۴۵-۳) غروب آفتاب ۲۴-۷ (فرق ۲۸-۳)
    [۲۲ دسمبر] دوپہر ۰۸-۱۲ مثل اول ۴۷-۲ (فرق ۳۹-۲) غروب آفتاب ۰۵-۵ (۱۸-۲)
    اس حساب سے بھی عصر کا وقت ظہر کے وقت سے کم ہوتا ہے لہذا اس حدیث سے بعض الناس کا استدلال مردود ہے۔
    [/FONT]
     
  10. ابو طلحہ السلفی

    ابو طلحہ السلفی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    555
    نماز فجر کا وقت​

    حدیث [8] "[font="al_mushaf"]عن زید بن ثابت
    : [font="al_mushaf"]أنھم تسحروا مع النبي صلی اللہ علیہ وسلم ثم قاموا إلی الصلٰوة
    ، [font="al_mushaf"]قلت[/font] :[font="al_mushaf"] کم بینھما[/font]؟ [font="al_mushaf"]قال [/font]: [font="al_mushaf"]قدر خمسین أو ستین[/font] ، [font="al_mushaf"]یعني آیة [/font]۔"
    زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ سحری کا کھانا کھایا۔ پھر آپ اور آپ کے ساتھی (فجر کی نماز) کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے، میں (قتادہ تابعی/یا انس رضی اللہ عنہ) نے ان (انس/ یا زید رضی اللہ عنہما) سے کہا : سحری اور نماز کے درمیان کتنا وقفہ ہوتا ہے؟ تو انھوں نے کہا: پچاس یا ساٹھ آیات (کی تلاوت) کے برابر۔
    (صحیح بخاری ۸۱/۲ ح ۵۷۵ واللفظ لہ صحیح مسلم ۳۵۰/۱)

    فوائد:

    1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فجر کی نماز جلدی اور اندھیرے میں پڑھنی چاہئے۔
    صحیح البخاری (۸۲/۱ ح ۵۷۸) و صحیح مسلم (۲۳۰/۱ ح ۶۴۵) کی حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا میں لکھا ہوا ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ فجر کی نماز پڑھتی تھیں، جب نماز ختم ہو جاتی تو اپنے گھروں کو چلی جاتیں۔ اور اندھیرے میں کوئی شخص بھی ہمیں اور نساء المومنین (مومنین کی عورتوں) کو پہچان نہیں سکتا تھا۔
    2) ترمذی کی جس روایت میں آیا ہے: (([font="al_mushaf"]أسفروا بالفجر فإنہ أعظم للأجر[/font])) فجر کی نماز اسفار (جب روشنی ہونے لگے) میں پڑھو کیونکہ اس میں بڑا اجر ہے۔ (ح ۱۵۴)
    اس حدیث کی رو سے منسوخ ہے جس میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات تک فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھتے رہے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے:
    "[font="al_mushaf"]ثم کانت صلٰوتہ بعد ذلک التغلیس حتٰی مات ولم یعد إلٰی أن یسفر[/font]"
    پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (فجر) وفات تک اندھیرے میں تھی اور آپ نے (اس دن کے بعد) کبھی روشنی میں نماز نہیں پڑھی۔ (سنن ابی داود ۶۳/۱ ح ۳۹۴ وھو حدیث حسن، الزہری عنعن و للحدیث شاہد عند الحاکم [۱۹۰/۱ ح ۶۸۲ و سندہ حسن]، والناسخ والمنسوخ للحازمی ص ۷۷)
    اسے ابن خزیمہ (ج ۱ ص ۱۸۱ ح ۳۵۲) ، ابن حبان (الاحسان ج ۳ ص ۵ ح ۱۴۴۶) الحاکم (۱۹۲/۱، ۱۹۳) اور خطابی نے صحیح قرار دیا ہے، اسامہ بن زید اللیثی کی حدیث حسن درجے کی ہوتی ہے۔ دیکھئے سیر اعلام النبلاء (۳۴۳/۶) وغیرہ
    یعنی اسامہ مذکور حسن الحدیث راوی ہے۔
    3) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "[font="al_mushaf"]وصلّ الصبح و النجوم بادیة مشتبکة[/font]" إلخ اور صبح کی نماز اس وقت پڑھو جب ستارے صاف ظاہر اور باہم الجھے ہوئے ہوں۔ (موطا امام مالک ۷/۱ ح ۶ وسندہ صحیح)
    ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "[font="al_mushaf"]والصبح بغلس[/font]" اور صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھو۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ۴۵۶/۱ وسندہ حسن، حارث بن عمروالہذلی لاینزل حدیثہ عن درجة الحسن)
    اس فاروقی حکم کے برعکس دیوبندی و بریلوی حضرات سخت روشنی میں صبح کی نماز پڑھتے ہیں اور پھر یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ " ہم خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔"! سبحان اللہ!
    4) امام ترمذی فرماتے ہیں: " [font="al_mushaf"]وھو الذي اختارہ غیر واحد من أھل العلم من اصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم منھم أبو بکر و عمر ومن بعدھم من التابعین و بہ یقول الشافعي و أحمد و إسحاق یستحبون التغلیس بصلٰوة الفجر[/font]"
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کئی نے اسے اختیار کیا ہے، ان میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اور ان کے بعد کے تابعین ہیں۔ شافعی، احمد اور اسحاق (بن راہویہ) کا یہی قول ہے۔ یہ فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھنا پسند کرتے تھے۔ (سنن الترمذی تحت ح ۱۵۳)
    تنبیہ: اس سلسلے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا صریح عمل باسند صحیح نہیں ملا۔ نیز دیکھئے شرح معانی الآثار للطحاوی (۱۸۱/۱، ۱۸۲) واللہ اعلم
    5) سیدنا ابوموسیٰ الاشعری اور سیدنا عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہما صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھتے تھے۔ دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (۳۲۰/۱ ح ۳۲۳ وسندہ صحیح)
    6) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھو اور لمبی قراءت کرو۔
    (الاوسط لابن المنذر ۳۷۵/۲ وسندہ صحیح، و شرح معانی الآثار ۱۸۱/۱، مصنف ابن ابی شیبہ ۳۲۰/۱ ح ۳۲۳۵)
    بہتر یہی ہے کہ صبح کی نماز اندھیرے میں شروع کی جائے اور اس میں لمبی قراءت کی جائے۔
    ہمارے ہاں تقلیدی حضرات صبح کی نماز رمضان میں سخت اندھیرے میں پڑھتے ہیں، اور باقی مہینوں میں خوب روشنی کر کے پڑھتے ہیں، پتہ نہیں فقہ کا وہ کون سا کلیہ یا جزئیہ ہے جس سے وہ اس تفریق پر عامل ہیں، چونکہ سحری کے بعد سونا ہوتا ہے اس لئے وہ فریضہ نماز جلدی ادا کرتے ہیں۔ یہ عمل وہ اتباع سنت کے جذبہ سے نہیں کرتے کیونکہ بدعتی شخص کو اللہ تعالٰی اپنے پیارے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق ہی نہیں دیتا۔
    [/font]
    [/FONT]
     
  11. ابو طلحہ السلفی

    ابو طلحہ السلفی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    555
    اذان و اقامت کا مسنون طریقہ

    حدیث [9] "[font="al_mushaf"]عن أنس قال
    : [font="al_mushaf"]أمر بلال أن یشفع الأذان وأن یوتر الإقامة إلا الإقامة
    " (سیدنا) انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا تھا کہ اذان دہری اور اقامت اکہری کہیں، مگر اقامت ([font="al_mushaf"]قد قامت الصلٰوة
    ) کے الفاظ دو بار کہیں۔
    (صحیح البخاری ۸۵/ا ح ۶۰۵ واللفط لہ، صحیح مسلم ۱۶۴/۱ ح ۳۷۸)

    اس حدیث کی ایک دوسری سند میں آیا ہے: "[font="al_mushaf"]أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أمر بلالاً[/font]" بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا تھا۔ (سنن النسائی مع حاشیة السندھی ج ۱ ص ۱۰۳ ح ۶۲۸)

    فوائد:
    1) اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ اذان کے الفاظ درج زیل ہیں:
    [font="al_mushaf"]اللہ أکبر اللہ أکبر[/font] ، [font="al_mushaf"]اللہ أکبر اللہ أکبر[/font] - [font="al_mushaf"]أشھد أن لا إلٰہ إلا اللہ [/font]، [font="al_mushaf"]أشھد أن لا إلٰہ إلا اللہ[/font] - [font="al_mushaf"]أشھد أن محمدًا رسول اللہ[/font] ، [font="al_mushaf"]أشھد أن محمدًا رسول اللہ[/font] - [font="al_mushaf"]حي علی الصلٰوة[/font] ، [font="al_mushaf"]حي علی الصلٰوة[/font] - [font="al_mushaf"]حي علی الفلاح[/font] ، [font="al_mushaf"]حي علی الفلاح [/font]- [font="al_mushaf"]اللہ أکبر اللہ أکبر[/font] - [font="al_mushaf"]لا إلٰہ إلا اللہ[/font] ۔ (نیز دیکھئے سنن ابی داود: ۴۹۹ وسندہ حسن)
    اور اقامت کے الفاظ درج زیل ہیں:
    [font="al_mushaf"]اللہ أکبر اللہ أکبر[/font] - [font="al_mushaf"]أشھد أن لا إلٰہ إلا اللہ[/font] - [font="al_mushaf"]أشھد أن محمدًا رسول اللہ[/font] - [font="al_mushaf"]حي علی الصلٰوة[/font] - [font="al_mushaf"]حي علی الفلاح[/font] - [font="al_mushaf"]قد قامت الصلٰوة[/font] ، [font="al_mushaf"]قد قامت الصلٰوة[/font] - [font="al_mushaf"]اللہ أکبر اللہ أکبر[/font] - [font="al_mushaf"]لا إلٰہ إلا اللہ[/font] ۔ (نیز دیکھئے سنن ابی داود : ۴۹۹ و سندہ حسن)
    2) مصنف عبدالرزاق کی ایک روایت میں آیا ہے: "[font="al_mushaf"]إن بلالاً کان یثني الأذان و یثني الإقامة[/font]" بے شک بلال رضی اللہ عنہ اذان اور اقامت دہری کہا کرتے تھے۔
    لیکن یہ حدیث بلحاظِ سند ضعیف ہے۔
    ۱ - اس سند کے راوی ابراہیم النخعی مدلس ہیں۔
    (کتاب المدلسین للعراقی ص ۲۴، ۳۵ و اسماء المدلسین للسیوطی ص ۹۳)
    ان کی یہ روایت عن کیساتھ ہے۔ مدلس کی عن والی روایت محدثین کے علاوہ دیوبندیوں اور بریلویوں کے نزدیک بھی ضعیف ہوتی ہے۔ (دیکھئے خزائن السنن ۱/۱ ، فتاویٰ رضویہ ۲۴۵/۵، ۲۶۶)
    اس سند کے دوسرے راوی حماد بن ابی سلیمان ہیں۔ (دیکھئے مصنف عبدالرزاق ۴۶۲۔۱ ح ۱۷۹۰)
    حماد مذکور مدلس ہونے کے ساتھ ساتھ مختلط بھی ہیں۔ (طبقات المدلسین بتحقیقی ۲/۴۵)
    حافظ ہیثمی نے کہا "[font="al_mushaf"] ولا یقبل من حدیث حماد إلا ما رواہ عنہ القدماء[/font] : [font="al_mushaf"]شعبة و سفیان الثوری و الدستوائي[/font] ، [font="al_mushaf"]ومن عدا ھؤلاء روواعنہ بعد الإختلاط[/font]"
    حماد کی صرف وہی روایت مقبول ہے جو اس کے قدیم شاگردوں: شعبہ ، سفیان ثوری اور (ہشام) الدستوائی نے بیان کی ہے، ان کے علاوہ سب لوگوں نے ان سے اختلاط کے بعد سنا ہے۔ (مجمع الزوائد ۱۱۹/۱، ۱۲۰)
    لہذا معمر کی حماد مذکور سے روایت ضعیف ہے، عدمِ تصریحِ سماع کا مسئلہ علیحدہ ہے۔
    3) ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی جس روایت میں دہری اقامت کا ذکر آیا ہے اس میں اذان بھی دہری ہے یعنی چار دفعہ "[font="al_mushaf"]اشھد أن لا إلٰہ إلا اللہ[/font]" اور چار دفعہ "[font="al_mushaf"]أشھد أن محمدًا رسول اللہ[/font]" ہے۔ (سنن ابی داود: ۵۰۲)
    اس طریقے سے عمل کیا جائے تو صحیح ہے ورنہ صرف بغیر ترجیع والی اذان پر عمل کرتے ہوئے، اقامت اس حدیث سے لینا اور اذان حدیثِ بلال سے لینا سخت ناانصافی ہے۔
    4) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل صرف وہی شخص کر سکتا ہے جسے اللہ تعالٰی توفیق عطا فرمائے ورنہ ناممکن ہے۔ آپ دیکھ لیں جو حضرات دہری اقامت کہتے ہیں وہ دہری اذان کبھی نہیں کہتے، پتہ نہیں اتباعِ سنت سے انھیں کیا بیر ہے؟
    اللہ تعالی اتباعِِ سنت کی توفیق عطا فرمائے۔
    [/font]
    [/font]
    [/FONT]
     
  12. ابو طلحہ السلفی

    ابو طلحہ السلفی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    555
    لباس کا بیان

    حدیث [10] [font="al_mushaf"]عن أبي ھریرة قال
    : [font="al_mushaf"]قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
    : (([font="al_mushaf"]لا یصلي أحدکم فی الثوب الواحد لیس علٰی عاتقیہ شيء
    ))
    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایسے ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے، کہ اس کے کندھے پر کپڑے کا کوئی حصہ نہ ہو۔ (صحیح البخاری ۵۲/۱ ح ۳۵۹، صحیح مسلم ۱۹۸/۱ ح ۵۱۶)

    فوائد:
    1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں کندھے ڈھانپنا فرض ہے۔
    2) بعض لوگ نماز میں مردوں پر سر ڈھانپنا بھی لازمی قرار دیتے ہیں لیکن اس کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ شمائل الترمذی (ص ۷۱ وفی نسختنا ص ۴ حدیث:۳۳، ۱۲۵) کی روایت جس میں: "[font="al_mushaf"]یکثر القناع
    " "یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات اپنے سر مبارک پر کپڑا رکھتے تھے" آیا ہے وہ یزید بن ابان الرقاشی کی وجہ سے ضعیف ہے، یزید پر جرح کے لئے تہذیب التہذیب (ج ۱۱ ص ۲۷۰) وغیرہ دیکھیں، امام نسائی نے فرمایا: "[font="al_mushaf"]متروک بصري[/font]" (کتاب الضعفاء: ۶۴۲) حافظ ہیثمی نے کہا: "[font="al_mushaf"]ویزید الرقاشي ضعفہ الجمھور[/font]" اور یزید الرقاشی کو جمہور نے ضعیف کہا ہے۔ (مجمع الزوائد ۲۲۶/۶) تقریب التہذیب (۷۶۸۳) میں لکھا ہوا ہے "زاھد ضعیف"
    دیوبندیوں اور بریلویوں کی معتبر و مستند کتاب "درمختار" میں لکھا ہوا ہے کہ جو شخص عاجزی کے لئے ننگے سر نماز پڑھے تو ایسا کرنا جائز ہے۔ (الدرالمختار مع ردالمختار ۴۷۴/۱)
    اب دیوبندی فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:
    "سوال: ایک کتاب میں لکھا ہے کہ جو شخص ننگے سر اس نیت سے نماز پڑھے کہ عاجزانہ درگاہ خدا میں حاضر ہو تو کچھ حرج نہیں۔
    جواب: یہ تو کتب فقہ میں بھی لکھا ہے کہ بہ نیت مذکورہ ننگے سر نماز پڑھنے میں کراہت نہیں ہے۔" (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ۹۴/۴)
    احمد رضا خان بریلوی صاحب نے لکھا ہے:
    "اگر بہ نیت عاجزی ننگے سر پڑھتے ہیں تو کوئی حرج نہیں" (احکام شریعت حصہ اول ص ۱۳۰)
    بعض مساجد میں نماز کے دوران سر ڈھانپنے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے، اس لئے انھوں نے تنکوں سے بنی ٹوپیاں رکھی ہوتی ہیں، ایسی ٹوپیاں نہیں پہننی چاہئیں کیونکہ وہ عزت اور وقار کے منافی ہیں۔ کیا کوئی ذی شعور انسان ایسی ٹوپی پہن کر کسی پروقار مجلس وغیرہ میں جاتا ہے؟ یقیناً نہیں تو پھر اللہ تعالٰی کے دربار میں حاضری دیتے وقت تو لباس کو خصوصی اہمیت دینی چاہئے۔
    اس کے علاوہ سر ڈھانپنا اگر سنت ہے اور اس کے بغیر نماز میں نقص رہتا ہے تو پھر داڑھی رکھنا تو اس سے بھی ذیادہ ضروری بلکہ فرض ہے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی امام نے داڑھی کے بغیر نماز پڑھنے کو جائز قرار دیا ہے؟ اللہ تعالٰی فہم دین اور اتباع سنت کی توفیق عطا فرمائے۔
    تنبیہ: راقم الحروف (حافظ زبیر علی زئی) کی تحقیق میں، ضرورت کے وقت ننگے سر مرد کی نماز جائز ہے لیکن بہتر و افضل یہی ہے کہ سر پر ٹوپی ، عمامہ یا رومال ہو۔
    نافع تابعی کو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ وہ ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے ہیں تو انھوں نے فرمایا: "کیا میں نے تجھے دو کپڑے نہیں دئیے؟۔۔۔ کیا میں تجھے اس حالت میں باہر بھیجوں تو چلے جاؤ گے؟ نافع نے کہا: نہیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ نے فرمایا: کیا اللہ اس کا زیادہ مستحق نہیں ہے کہ اس کے سامنے زینت اختیار کی جائے یا انسان اس کے ذیادہ مستحق ہیں؟ پھر انھوں نے نافع کو ایک حدیث سنائی جس سے دو کپڑوں میں نماز پڑھنے کا حکم ثابت ہوتا ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ملحضاً ۲۳۶/۲ وسندہ صحیح)
    [/font]
    [/font]
    [/font]
    [/FONT]
     
  13. ابو طلحہ السلفی

    ابو طلحہ السلفی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    555
    سینے پر ہاتھ باندھنا

    حدیث [11] "[font="al_mushaf"]عن سھل بن سعد قال
    :[font="al_mushaf"] کان الناس یؤمرون أن یضع الرجل یدہ الیمنٰی علٰی ذراعہ الیسریٰ فی الصلٰوة[/font]"
    سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے) حکم دیا جاتا تھا کہ ہر شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھے۔ (صحیح البخاری ۱۰۲/۱ ح۷۴۰، و موطا الامام مالک ۱۵۹/۱ ح ۳۷۷[font="al_mushaf"] باب وضع الیدین احداہما علی الاخریٰ فی الصلٰوة[/font]، [font="al_mushaf"]ورویة ابن القاسم بتحقیقی[/font]: ۴۰۹)

    فوائد:
    1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے چاہئیں، آپ اگر اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں "ذراع" (کہنی کے سرے سے لے کر درمیانی انگلی کے سرے تک ہاتھ کے حصے) پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خود بخود سینہ پر آجائیں گے۔
    ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت ، رُسغ (کلائی) اور ساعد (کلائی سے لیکر کہنی تک) پر رکھا۔ (سنن نسائی مع حاشیة السندھی ج ۱ ص ۱۴۱ ح ۸۹۰، سنن ابی داود ج ۱ ص ۱۱۲ ح ۷۲۷) اسے ابن خزیمہ (۲۴۳/۱ ح ۴۸) اور ابن حبان (الاحسان ۲۰۲/۲ ح ۴۸۵) نے صحیح کہا ہے۔
    سینے پر ہاتھ باندھنے کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں آیا ہے:
    "[font="al_mushaf"]یضع ھٰذہ علٰی صدرہ[/font]۔۔۔۔[font="al_mushaf"]إلخ[/font]" آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ [ہاتھ] اپنے سینے پر رکھتے تھے۔۔۔الخ (مسند احمد ج ۵ ص ۲۲۶ ح ۲۲۳۱۳، واللفظ لہ، التحقیق لابن الجوزی ج ۱ ص ۲۸۳ ح ۴۷۷ وفی نسخة ج ۱ ص ۳۳۸ وسندہ حسن)
    2) سنن ابی داود (ح۷۵۶) وغیرہ میں ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے والی جو روایت آئی ہے وہ عبدالرحمٰن بن اسحاق الکوفی کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اس شخص پر جرح، سنن ابی داود کے محولہ باب میں ہی موجود ہے، علامہ نووی نے کہا: "عبدالرحمٰن بن اسحاق بالاتفاق ضعیف ہے۔" (نصب الرایة للزیلعی الحنفی ۳۱۴/۱)
    نیموی فرماتے ہیں: " [font="al_mushaf"]وفیہ عبدالرحمٰن بن إسحاق الواسطي وھو ضعیف[/font]" اس میں عبدالرحمٰن بن اسحاق الواسطی ہے اور وہ ضعیف ہے۔ (حاشیہ آثارالسنن ح ۳۳۰) مزید جرح کیلئے عینی حنفی کی البنایة فی شرح الہدایة (۲۰۸/۲) وغیرہ کتابیں دیکھیں، ہدایہ اولین کے حاشیہ ۱۷، (۱۰۲/۱) میں لکھا ہوا ہے کہ یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے۔
    3) یہ مسئلہ کے مرد ناف کے نیچے اور عورتیں سینے پر ہاتھ باندھیں کسی صحیح حدیث یا ضعیف حدیث سے قطعاً ثابت نہیں ہے، مرد اور عورت کے طریقہ نماز میں جو فرق بیان کیا جاتا ہے کہ مرد ناف کے نیچے ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینے پر، اس کے علاوہ مرد سجدے کے دوران بازو زمین سے اٹھائے رکھیں اور عورتیں بالکل زمین کے ساتھ لگ کر بازو پھیلا کر سجدہ کریں، یہ سب آلِ تقلید کی موشگافیاں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے نماز کی ہیئت، تکبیر تحریمہ سے لیکر سلام پھیرنے تک مرد و عورت کے لئے ایک ہی ہے۔ مگر لباس اور پردے میں فرق ہے مثلاً عورت ننگے سر نماز نہیں پڑھ سکتی اور اس کے ٹخنے بھی ننگے نہیں ہونے چاہئیں۔ اھل الحدیث کے نزدیک جو فرق دلائل سے ثابت ہوجائے تو برحق ہے، اور بے دلیل و ضعیف باتیں مردود کے حکم میں ہیں۔
    4) سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے منسوب تحت السرة (ناف کے نیچے) والی روایت سعید بن ذربی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔ حافظ ابن حجر نے کہا: "[font="al_mushaf"]منکر الحدیث[/font]" (تقریب التہذیب:۲۳۰۴) دیکھئے مختصر الخلافیات للبیہقی (۳۴۲/۱ تالیف ابن فرح الاشبیلی والخلافیات مخطوط ص ۳۷ ب) وکتب اسماء الرجال
    5) بعض لوگ مصنف ابن ابی شیبہ سے "[font="al_mushaf"]تحت السرة[/font]" والی روایت پیش کرتے ہیں حالانکہ مصنف ابن ابی شیبہ کے اصل (عام) قلمی اور مطبوعہ نسخوں میں "تحت السرة" کے الفاظ نہیں ہیں جبکہ قاسم بن قطوبغا (کذاب بقول البقاعی/ الضوءاللا مع ۱۸۲/۲) نے ان الفاظ کا اضافہ گھڑ لیا تھا۔ انور شاہ کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں:
    "پس بے شک میں نے مصنف کے تین (قلمی) نسخے دیکھے ہیں، ان میں سے ایک نسخے میں بھی یہ (تحت السرة والی عبارت) نہیں ہے۔" (فیض الباری ۲۶۷/۲)
    6) حنبلیوں کے نزدیک مردوں اور عورتوں کو ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ (الفقہ علی المذاہب الاربعة ۲۵۱/۱) !!
    7) تقلیدی مالکیوں کی غیر مستند اور مشکوک کتاب "المدونة" میں لکھا ہوا ہے کہ امام مالک نے ہاتھ باندھنے کے بارے میں فرمایا : " مجھے فرض نماز میں اس کا ثبوت معلوم نہیں" امام مالک اسے مکروہ سمجھتے تھے۔ اگر نوافل میں قیام لمبا ہو تو ہاتھ باندھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس طرح وہ اپنے آپ کو مدد دے سکتا ہے۔ (دیکھئے المدونة ۷۶/۱) اس غیرثابت حوالے کی تردید کے لئے موطا امام مالک کی تبویب اور امام مالک کی روایت کردہ حدیثِ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ہی کافی ہے۔
    8) جو لوگ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں ان کی دلیل المعجم الکبیر للطبرانی (۲۰/۴ ح ۱۳۹) کی ایک روایت ہے جس کا ایک راوی خصیب بن جحدر کذاب ہے۔ (دیکھئے مجمع الزوائد ۱۰۲/۲) معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع ہے لہذا اس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے۔
    9) سعید بن جبیر (تابعی) فرماتے ہیں کہ نماز میں "فوق السرة" یعنی ناف سے اوپر (سینے پر) ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ (امالی عبدالرزاق/ الفوائد لابن مندة ۲۳۴/۲ ح ۱۸۹۹ وسندہ صحیح)
    10) سینے پر ہاتھ باندھنے کے بارے میں مزید تحقیق کے لئے راقم الحروف (حافظ زبیر علی زئی) کی کتاب "نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام" ملاحظہ فرمائیں۔ اس کتاب میں مخالفین کے اعتراضات کے مدلل جوابات دیئے گئے ہیں۔ والحمدللہ
    [/FONT]
     
  14. ابو طلحہ السلفی

    ابو طلحہ السلفی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    555
    دعائے استفتاح
    حدیث [12] [font="al_mushaf"]عن أبي ھریرة قال
    :[font="al_mushaf"] قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : أقول [/font]: (([font="al_mushaf"]اللھم باعدبیني و بین خطایاي کما باعدت بین المشرق و المغرب اللھم نقني من الخطایا کما ینقی الثوب الأبیض من الدنس اللھم اغسل خطایاي بالماء و الثلج و البرد[/font]))
    ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں (نماز کے پہلے سکتے میں) ((أَللّٰهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَّ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ أَللّٰهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ أَللّٰهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ )) پڑھتا ہوں۔
    (صحیح البخاری ۱۰۳/۱ ح ۷۴۴ واللفظ لہ، صحیح مسلم ۲۱۹/۱ ح ۵۹۸)

    فوائد:
    1) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سکتہ اُولٰی میں [font="al_mushaf"]اللھم باعدبیني[/font] والی دعا پڑھنی چاہئے۔
    2) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے "[font="al_mushaf"]سبحانک اللھم و بحمدک[/font]" والی موقوف، غیر مرفوع روایت مروی ہے۔ (صحیح مسلم ج ۱ ص ۱۷۲ ح ۳۹۹)
    یہ دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی قیام اللیل میں ثابت ہے۔ (سنن ابی داود ج ۱ ص ۱۲۰ ح ۷۷۵ وسندہ حسن)
    لٰہذا یہ دعا پڑھنا بھی جائز ہے۔
    3) ان کے علاوہ بعض دیگر دعائیں بھی ثابت ہیں۔
    4) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی تحقیق یہ ہے کہ جہری نمازوں میں مقتدی (اس دعا کی بجائے) سورہ فاتحہ پڑھے اور اسے امام سے پہلے ختم کر لے۔ (دیکھئے آثار السنن مترجم ص ۲۲۳ وقال: اسنادہ حسن) اور یہی تحقیق بعض تابعین کی بھی ہے۔
    5) کتب آلِ تقلید، آثار السنن وغیرہ کے حوالے اہل التقلید پر بطورِ الزام اور اتمام حجت کے لئے پیش کئے جاتے ہیں۔
    [/FONT]
     
  15. ابو طلحہ السلفی

    ابو طلحہ السلفی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    555
    بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنا
    حدیث [13] "[font="al_mushaf"]عن عبدالرحمٰن بن أبزیٰ قال
    : [font="al_mushaf"]صلیت خلف عمر فجھر ببسم اللہ الرحمٰن الرحیم[/font]"
    (سیدنا) عبدالرحمٰن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے (سیدنا) عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اونچی آواز سے پڑھی۔
    (مصنف ابن ابی شیبہ ۴۱۲/۱ ح ۴۷۵۷ ، شرح معانی الآثار للطحاوی واللفظ لہ ۱۳۷/۱ ، السنن الکبریٰ للبیہقی ۴۸/۲) اس کے تمام راوی ثقہ و صدوق ہیں اور سند متصل ہے لٰہذا یہ سند صحیح ہے۔

    فوائد:
    1) اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ جہری نمازوں میں امام کا جہراً بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنا بالکل صحیح ہے۔
    2) سیدنا عبداللہ بن عباس اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بھی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بالجہر ثابت ہے۔ ([font="al_mushaf"]جزء الخطیب و صححہ الذہبی فی مختصر الجہر بالبسملة للخطیب[/font] ص ۱۸۰ ح ۴۱) اور اسے ذہبی نے صحیح کہا ہے۔
    3) بسم اللہ سراً (آہستہ) پڑھنا بھی جائز ہے جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ کی احادیث سے ثابت ہے۔ (۱۷۲/۱ ح ۳۹۹)
    4) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اثرِ مذکور کے راویوں کی مختصر توثیق درج زیل ہے:
    ۱: عبدالرحمٰن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ صحابی صغیر ہیں۔ (تقریب التہذیب:۳۷۹۴)
    ۲: سعید بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ ثقہ ہیں۔ (تقریب التہذیب:۲۳۴۶)
    ۳: ذر بن عبداللہ ثقہ عابد رمی بالارجاء تھے۔ (تقریب التہذیب:۱۸۴۰)
    ۴: عمر بن ذر ثقہ رمی بالارجاء تھے۔ (تقریب التہذیب:۴۸۹۳)
    ۵: عمر بن ذر سے یہ روایت خالد بن مخلد، ابو احمد اور ابن قتیبہ نے بیان کی ہے، ان راویوں کی توثیق کے لئے تہذیب التہذیب وغیرہ کا مطالعہ کریں۔
    5) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ جب نماز شروع کرتے تو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے پھر جب آپ سورہ فاتحہ کی قراءت سے فارغ ہوتے تو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۴۱۲/۱ ح ۴۱۵۵ وسندہ صحیح) امام ابو بکر بن ابی شیبہ نے اس اثر کو "من کان یجھر بھا" جو شخص اسے (بسم اللہ کو) جہراً پڑھتا ہے، کے باب میں ذکر کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی بسم اللہ جہراً پڑھتے تھے۔
    6) نُعَیم المحجمر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھی پھر سورہ فاتحہ پڑھی حتیٰ کہ جب آپ (([font="al_mushaf"]غیر المغضوب علیھم ولا الضالین[/font])) پر پہنچے تو آمین کہی اور لوگوں نے بھی آمین کہی اور آپ ہر سجدہ کرتے وقت اللہ اکبر کہتے اور دو رکعتوں کے تشھد سے اٹھتے وقت اللہ اکبر کہتے اور جب سلام پھیرتے تو فرماتے : اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہوں۔ (صحیح ابن خزیمہ ۲۵۱/۱ ح ۴۹۹، صحیح ابن حبان، الاحسان:۱۷۹۴ وسندہ صحیح)
    اس حدیث سے (کبھی کبھار) بسم اللہ الخ بالجہر کا استحباب ثابت ہوا جیسا کہ حافظ ابن حبان نے صراحت کی ہے۔ دیکھئے صحیح ابن حبان (ج ۵ ص ۱۰۰)
    یاد رہے کہ بسم اللہ الخ نماز میں سراً بھی جائز ہے بلکہ بہتر ہے۔
    [/FONT]
     
  16. ابو طلحہ السلفی

    ابو طلحہ السلفی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    555
    نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا​

    حدیث [14] "[font="al_mushaf"]عن عبادة بن الصامت أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال
    : (([font="al_mushaf"]لا صلٰوة لمن لم یقرأ بفاتحة الکتاب[/font]))" عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے۔
    (صحیح البخاری ۱۰۴/۱ ح ۷۵۶، صحیح مسلم ۱۶۹/۱ ح ۳۹۴)
    اس حدیث کے راوی سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ فاتحہ خلف الامام کے (جہری و سری سب نمازوں میں) قائل و فاعل تھے۔ (کتاب القراءت للبیہقی ص۶۹ ح ۱۳۳، واسنادہ صحیح نیز دیکھئے "احسن الکلام" تصنیف سرفرازخان صفدر دیوبندی: ج ۲ ص ۴۲ طبع دوم)
    راوی حدیث عبادہ رضی اللہ عنہ کے فہم کے مقابلے میں امام احمد وغیرہ کی تاویل صحیح نہیں ہے۔ خود امام احمد رحمہ اللہ فاتحہ خلف الامام کے قائل و فاعل تھے۔ (دیکھئے سنن الترمذی ح ۳۱۱)

    فوائد:
    1) اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی، چاہے امام ہو یا مقتدی یا منفرد۔ (دیکھئے تبویب صحیح البخاری، اعلام الحدیث فی شرح صحیح البخاری للخطابی ۵۰۰/۱)
    2) یہ حدیث متواتر ہے۔ (جزء القراءة للبخاری: ح ۵)
    3) سورہ المزمل کی آیت: ((فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ)) سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں مقتدی پر قراءت واجب (یعنی فرض) ہے۔
    (دیکھئے نورالانوار ص ۹۳،۹۴، احسن الحواشی شرح اصول الشاشی ص۸۲ حاشیہ ۷، غایة التحقیق شرح الحسامی ص۷۳، النامی شرح الحسامی ص ۱۵۵، ۱۵۶ ج ۱، معلم الاصول ص ۲۵۰ وغیرہ)
    حدیث بالا نے اس قراءت کا تعین سورہ فاتحہ سے کر دیا ہے۔
    4) آیت ((وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ)) کا تعلق سورہ فاتحہ کے ساتھ نہیں ہے، تحقیق کے لئے دیکھئے جزء القراءة للبخاری (تحت ح ۳۶) اور مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ کی شہرہ آفاق کتاب "تحقیق الکلام" وغیرہ بلکہ اس آیت کریمہ کا تعلق کفار کی تردید سے ہے۔ (دیکھئے تفسیر قرطبی ۱۲۱/۱، تفسیر البحر المحیط ۴۴۸/۴، الکلام الحسن ۲۱۲/۲)
    5) حدیث "[font="al_mushaf"]إذا قرأ فأنصتوا[/font]" (جزء القراءت: ح ۲۶۳) ماعداالفاتحة پر محمول ہے کیونکہ اس کے راوی صحابی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فاتحہ خلف الامام کا جہری نماز میں حکم دیا ہے۔ (دیکھئے حدیث نمبر ۱۲ فائدہ:۴ وآثارالسنن:۳۵۸، وقال: اسنادہ حسن)
    جو لوگ اسے ماعداالفاتحہ پر محمول نہیں سمجھتے ان کے نزدیک یہ روایت منسوخ ہے کیونکہ اس کے راوی کا یہ فتویٰ ہے کہ امام کے پیچھے (جہری نمازوں میں بھی) سورہ فاتحہ پڑھو، حنفیوں کے نزدیک اگر راوی اپنی روایت کے خلاف فتویٰ دے تو وہ روایت منسوخ ہوتی ہے۔ (دیکھئے جزء القراءت للبخاری بتحقیقي:۲۶۳)
    6) جمہور صحابہ کرام سے سورہ فاتحہ خلف الامام ثابت ہے دیکھئے راقم الحروف (حافظ زبیرعلی زئی) کی کتاب "[font="al_mushaf"]الکواکب الدریة في وجوب الفاتحة خلف الإمام فی الصلٰوة الجھریة[/font]"
    7) انصات کا مطلب مکمل خاموشی نہیں ہوتا بلکہ سکوت مع الاستماع ہے۔ سراً پڑھنا انصات کے منافی نہیں ہے جیسا کہ ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں تفصیلاً لکھا ہے۔ (ج ۳ ص ۳۵ بعد ح ۱۵۷۸) اور نسائی (ج ۱ ص ۲۰۸ ح ۱۴۰۴) کی حدیث : "پھرخاموش رہے (اور جمعہ کا خطبہ سنے) حتٰی کہ امام نماز سے فارغ ہو جائے" بھی اس کی تائید کرتی ہے۔
    8) سورہ فاتحہ کی اتنی اہمیت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز قرار دیا ہے، حدیث قدسی کے مطابق اللہ تعالٰی فرماتا ہےکہ "میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کر لیا ہے، جب بندہ کہتا ہے: (([font="al_mushaf"]الحمد للہ رب العالمین[/font])) تو اللہ فرماتا ہے: حمدني عبدي میرے بندے نے میری تعریف بیان کی" اسی طرح ہر آیت کے بعد اس کی مناسبت سے اللہ تعالٰی جواب دیتا ہے، یعنی سورہ فاتحہ کے ذریعے سے بندہ اپنے رب کے ساتھ مناجات کرتا ہے۔
    [/FONT]
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  17. ابو طلحہ السلفی

    ابو طلحہ السلفی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    555
    فاتحہ خلف الامام

    حدیث [15] [font="al_mushaf"]عن عبادة بن الصامت عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
    : (([font="al_mushaf"]ھل تقرؤن معي[/font]؟)) [font="al_mushaf"]قالوا[/font] :[font="al_mushaf"] نعم[/font]! [font="al_mushaf"]قال[/font] : (([font="al_mushaf"]لا تفعلوا إلا بأم القرآن فإنہ لا صلٰوة لمن لم یقرأ بھا[/font]))
    سیدنا عبادة بن الصامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے کہا: کیا تم میرے ساتھ (یعنی امام کے پیچھے) قراءت کرتے ہو؟ تو انھوں (صحابہ) نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورہ فاتحہ کے سوا کچھ بھی نہ پڑھو، کیونکہ جو شخص اس (فاتحہ) کو نہیں پڑھتا اس کی نماز ہی نہیں ہوتی۔
    (کتاب القراءة للبیہقی: ص۶۴، ح ۱۲۱ وسندہ حسن، طبع بیروت لبنان وقال البیہقی: [font="al_mushaf"]ھذااسناد صحیح رواتہ ثقات[/font])
    اس حدیث کو امام بیہقی کے علاوہ دارقطنی نے حسن (سنن دارقطنی ۳۲۰/۱ ح ۱۲۰۷) ضیاء مقدسی نے صحیح (المختارہ ۳۴۶/۸) قرار دیا ہے۔

    فوائد:
    1) اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ جہری و سری نمازوں میں مقتدی کا وظیفہ، فاتحہ خلف الامام سراً پڑھنا ہے۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی جہری و سری نمازوں میں قراءت خلف الامام پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ (المستدرک علی الصححیین ج ۱ ص۲۳۹ ح ۸۷۳، مصنف ابن ابی شیبہ ۳۷۳/۱ ح ۳۷۴۸ وسندہ حسن، شرح معانی الآثار للطحاوی ۲۱۸/۱)
    اسے حاکم، ذہبی اور دارقطنی نے صحیح کہا ہے۔
    2) دیوبندیوں اور بریلویوں کے نزدیک امام و منفرد دونوں پر سورہ فاتحہ فرض نہیں بلکہ صرف (پہلی) دو رکعتوں میں واجب ہے، آخری دو رکعتوں میں اگر جان بوجھ کر فاتحہ نہ پڑھے تو نماز بالکل صحیح ہے۔
    (دیکھئے قدوری ص۲۲،۲۳، ہدایہ اولین، ج ۱ ص ۱۴۸، فتح القدیر لابن ہمام ج ۱ ص۳۹۵، بہشتی زیور ص ۱۶۳ حصہ دوم ص ۱۹، باب ہفتم مسئلہ ۱۷، بہار شریعت حصہ سوم ص۴۱)
    3) سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا اثر: "[font="al_mushaf"]لا قراءة مع الإمام في شئي[/font]" (مسلم ۲۱۵/۱ ح ۵۷۷) قراءة المقتدی بالجہر پر محمول ہے اور فاتحہ اس کے عموم سے مخصوص ہے، مع الامام کا مطلب جہراً مع الامام ہے۔ یہی جواب سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کے آثار کا ہے ([font="al_mushaf"]من صلّی وراء الإمام کفاة قراءة الإمام [/font]/ اثر) یعنی: مقتدی کے لئے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے اور اس کے علاوہ باقی قراءت میں امام کی قراءت کافی ہے۔
    4) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا اثر مرفوع حدیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے قابلِ قبول نہیں۔
    ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب کہتے ہیں:
    "[font="al_mushaf"]ولا حجة في قول الصحابي في معارضة المرفوع[/font]" مرفوع حدیث کے مقابلے میں صحابی کا قول حجت نہیں ہوتا۔ (اعلاء السنن ۴۳۸/۱ ح ۴۳۲ دیکھئے ص۳۷)
    خود دیوبندیوں کے نزدیک دو رکعتیں فاتحہ کے بغیر ہو جاتی ہیں جیسا کہ نمبر:۲ میں گزر چکا ہے جبکہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے نزدیک ایک رکعت بھی فاتحہ کے بغیر نہیں ہوتی لہذا اس اثر سے دیوبندیوں و بریلویوں کا استدلال، خود ان کے مسلک کی رو سے بھی صحیح نہیں ہے۔
    5) فاتحہ خلف الامام کی دوسری مرفوع احادیث کے لئے تحقیق الکلام، الکواکب الدریہ وغیرہما کا مطالعہ کریں، نیز حدیث نمبر ۱۴ دیکھیں۔
    6) امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: کسی آدمی کی نماز جائز نہیں ہے جب تک وہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ نہ پڑھ لے، چاہے وہ امام ہو یا مقتدی، امام جہری قراءت کر رہا ہو یا سری، مقتدی پر لازم ہے کہ سری اور جہری (دونوں نمازوں) میں سورہ فاتحہ پڑھے۔ ربیع بن سلیمان المرادی نے کہا: یہ امام شافعی کا آخری قول ہے جو ان سے سنا گیا۔ (معرفة السنن و الآثار للبیہقی ۵۸/۲ ح ۹۲۸ وسندہ صحیح)
    [/FONT]
     
  18. ابو طلحہ السلفی

    ابو طلحہ السلفی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    555
    فاتحہ خلف الامام

    حدیث [15] [font="al_mushaf"]عن عبادة بن الصامت عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
    : (([font="al_mushaf"]ھل تقرؤن معي[/font]؟)) [font="al_mushaf"]قالوا[/font] :[font="al_mushaf"] نعم[/font]! [font="al_mushaf"]قال[/font] : (([font="al_mushaf"]لا تفعلوا إلا بأم القرآن فإنہ لا صلٰوة لمن لم یقرأ بھا[/font]))
    سیدنا عبادة بن الصامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے کہا: کیا تم میرے ساتھ (یعنی امام کے پیچھے) قراءت کرتے ہو؟ تو انھوں (صحابہ) نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورہ فاتحہ کے سوا کچھ بھی نہ پڑھو، کیونکہ جو شخص اس (فاتحہ) کو نہیں پڑھتا اس کی نماز ہی نہیں ہوتی۔
    (کتاب القراءة للبیہقی: ص۶۴، ح ۱۲۱ وسندہ حسن، طبع بیروت لبنان وقال البیہقی: [font="al_mushaf"]ھذااسناد صحیح رواتہ ثقات[/font])
    اس حدیث کو امام بیہقی کے علاوہ دارقطنی نے حسن (سنن دارقطنی ۳۲۰/۱ ح ۱۲۰۷) ضیاء مقدسی نے صحیح (المختارہ ۳۴۶/۸) قرار دیا ہے۔

    فوائد:
    1) اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ جہری و سری نمازوں میں مقتدی کا وظیفہ، فاتحہ خلف الامام سراً پڑھنا ہے۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی جہری و سری نمازوں میں قراءت خلف الامام پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ (المستدرک علی الصححیین ج ۱ ص۲۳۹ ح ۸۷۳، مصنف ابن ابی شیبہ ۳۷۳/۱ ح ۳۷۴۸ وسندہ حسن، شرح معانی الآثار للطحاوی ۲۱۸/۱)
    اسے حاکم، ذہبی اور دارقطنی نے صحیح کہا ہے۔
    2) دیوبندیوں اور بریلویوں کے نزدیک امام و منفرد دونوں پر سورہ فاتحہ فرض نہیں بلکہ صرف (پہلی) دو رکعتوں میں واجب ہے، آخری دو رکعتوں میں اگر جان بوجھ کر فاتحہ نہ پڑھے تو نماز بالکل صحیح ہے۔
    (دیکھئے قدوری ص۲۲،۲۳، ہدایہ اولین، ج ۱ ص ۱۴۸، فتح القدیر لابن ہمام ج ۱ ص۳۹۵، بہشتی زیور ص ۱۶۳ حصہ دوم ص ۱۹، باب ہفتم مسئلہ ۱۷، بہار شریعت حصہ سوم ص۴۱)
    3) سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا اثر: "[font="al_mushaf"]لا قراءة مع الإمام في شئي[/font]" (مسلم ۲۱۵/۱ ح ۵۷۷) قراءة المقتدی بالجہر پر محمول ہے اور فاتحہ اس کے عموم سے مخصوص ہے، مع الامام کا مطلب جہراً مع الامام ہے۔ یہی جواب سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کے آثار کا ہے ([font="al_mushaf"]من صلّی وراء الإمام کفاة قراءة الإمام [/font]/ اثر) یعنی: مقتدی کے لئے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے اور اس کے علاوہ باقی قراءت میں امام کی قراءت کافی ہے۔
    4) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا اثر مرفوع حدیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے قابلِ قبول نہیں۔
    ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب کہتے ہیں:
    "[font="al_mushaf"]ولا حجة في قول الصحابي في معارضة المرفوع[/font]" مرفوع حدیث کے مقابلے میں صحابی کا قول حجت نہیں ہوتا۔ (اعلاء السنن ۴۳۸/۱ ح ۴۳۲ دیکھئے ص۳۷)
    خود دیوبندیوں کے نزدیک دو رکعتیں فاتحہ کے بغیر ہو جاتی ہیں جیسا کہ نمبر:۲ میں گزر چکا ہے جبکہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے نزدیک ایک رکعت بھی فاتحہ کے بغیر نہیں ہوتی لہذا اس اثر سے دیوبندیوں و بریلویوں کا استدلال، خود ان کے مسلک کی رو سے بھی صحیح نہیں ہے۔
    5) فاتحہ خلف الامام کی دوسری مرفوع احادیث کے لئے تحقیق الکلام، الکواکب الدریہ وغیرہما کا مطالعہ کریں، نیز حدیث نمبر ۱۴ دیکھیں۔
    6) امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: کسی آدمی کی نماز جائز نہیں ہے جب تک وہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ نہ پڑھ لے، چاہے وہ امام ہو یا مقتدی، امام جہری قراءت کر رہا ہو یا سری، مقتدی پر لازم ہے کہ سری اور جہری (دونوں نمازوں) میں سورہ فاتحہ پڑھے۔ ربیع بن سلیمان المرادی نے کہا: یہ امام شافعی کا آخری قول ہے جو ان سے سنا گیا۔ (معرفة السنن و الآثار للبیہقی ۵۸/۲ ح ۹۲۸ وسندہ صحیح)
    [/FONT]
     
  19. ابو طلحہ السلفی

    ابو طلحہ السلفی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    555
    آمین بالجہر​

    حدیث [16] [font="al_mushaf"]عن وائل بن حجر أنہ صلّی خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجھر بآمین
    ۔۔۔[font="al_mushaf"]إلخ[/font]
    وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین بالجہر کہی۔۔۔الخ
    (سنن ابی داود ۱۴۲/۱ ح ۹۳۳، مع العون ۳۵۲/۱ وسندہ حسن)
    اس روایت کے بارے میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: سندہ صحیح (التلخیص الحبیر ۲۳۶/۱)

    فوائد:
    1) اس حدیث اور دیگر احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جہری نماز میں امام و مقتدی دونوں آمین بالجہر کہیں گے۔
    2) آمین بالجہر کی حدیث متواتر ہے۔ (دیکھئے کتاب الاول من کتاب التمییز للامام مسلم بن الحجاج النیسابوری رحمہ اللہ، صاحب الصحیح ص۴۰)
    3) جس روایت میں (سراً) آمین کا ذکر آیا ہے، امام شعبہ کے وہم کی وجہ سے ضعیف ہے۔
    4) اگر امام شعبہ کے وہم والی روایت کو صحیح بھی تسلیم کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سری نماز میں خفیہ آمین کہنی چاہئے۔
    5) عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے اونچی آواز کیساتھ آمین کہنا ثابت ہے۔ (صحیح البخاری قبل ح ۷۸۰) کسی صحابی سے باسند صحیح، عبداللہ بن زبیر رضي اللہ عنہ کا رد کرنا ثابت نہیں ہے لٰہذا آمین بالجہر کی مشروعیت پر صحابہ کا اجماع ہے۔
    (دیوبندی تبلیغی مرکز رائے ونڈ میں اونچی آواز سے لاؤڈ سپیکر میں دعا اور اونچی آمین کہنے والے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آمین دعا ہے اور دعا آہستہ کہنی چاہئے۔ اسے کہتے ہیں "اوروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت"!)
    6) صحیح مسلم والی حدیث "جب امام آمین کہے تو تم آمین کہو" آمین بالجہر کی دلیل ہے، دیکھئے تبویب صحیح ابن خزیمہ (۲۸۶/۱ ح ۵۶۹) وغیرہ، کسی محدث نے اس سے آمین بالسر کا مسئلہ کشید نہیں کیا ظاہر ہے محدثین کرام اپنی روایات کو سب سے زیادہ جانتے ہیں۔
    [/FONT]
     
  20. ابو طلحہ السلفی

    ابو طلحہ السلفی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    555
    رفع یدین قبل الرکوع و بعدہ​

    حدیث [17] "[font="al_mushaf"]عن أبي قلابة أنہ رأی مالک بن الحویرث إذا صلّی کبّر ثم رفع یدیہ
    ، [font="al_mushaf"]وإذا أراد أن یرکع رفع یدیہ وإذا رفع رأسہ من الرکوع رفع یدیہ وحدّث أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یفعل ھٰکذا[/font]"
    "ابو قلابہ (تابعی رحمہ اللہ) نے مالک بن حویرث صحابی رضی اللہ عنہ کو دیکھا، آپ جب نماز پڑھتے اللہ اکبر کہتے پھر اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور حدیث بیان کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے۔"
    (صحیح البخاری ۱۰۲/۱ ح ۷۳۷، صحیح مسلم ۱۶۸/۱ ح ۳۹۱ واللفظ لہ)

    فوائد:
    1) اس حدیث اور دوسری احادیث سے ثابت ہے کہ نماز میں رکوع سے پہلے اور بعد رفع یدین کرنا چاہئے۔
    2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین متواتر ہے۔
    (دیکھئے قطف الازہار المتناثرہ للسیوطی ص ۹۵، نظم المتناثر ص۹۲ ح ۶۷ وغیرہما)
    3) ترک رفع یدین کی کوئی روایت صحیح نہیں ہے، مثلاً دیکھئے سنن ترمذی (ج ۱ ص ۵۹ ح ۲۵۷ وحسنہ و صححہ ابن حزم ۱۱۶/۱ ح ۷۴۸-۷۵۲) اور سنن ابی داود (۷۴۸) وغیرہما کی روایت سفیان الثوری کے "عن" کی وجہ سے ضعیف ہے، سفیان الثوری مشہور مدلس ہیں۔ دیکھئے عمدة القاری للعینی (۲۲۳/۱) ابن الترکمانی کی الجواہر النقی (۲۶۲/۸) سرفراز خان صفدر کی خزائن السنن (۷۷/۲) ماسٹر امین اکاڑوی کی مجموعہ رسائل (ج ۳ ص ۴۳۱) اور آئینہ تسکین الصدور (ص ۹۰،۹۲) فقہ الفقیہ (ص ۱۳۴) آثار السنن (ص۱۲۶، تحت ح ۳۸۴ و فی نسخة اُخریٰ ص ۱۹۴) وغیرہ
    اور مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے جیسا کہ اصولِ حدیث میں مقرر ہے۔
    4) صحیح مسلم (ح ۴۳۰) میں سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ والی روایت میں رفع یدین عندالرکوع و بعدہ کا ذکر قطعاً موجود نہیں ہے بلکہ یہ روایت تشھد میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی دوسری حدیث سے ثابت ہے۔ مسند احمد میں "[font="al_mushaf"]وھم قعود[/font]" اور وہ بیٹھے ہوئے تھے، کے الفاظ بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ (دیکھئے ج ۵ ص ۹۳ ح ۲۱۱۶۶)
    محدثین نے اس پر سلام کے ابواب باندھے ہیں، اس پر علماء کا اجماع ہے کہ اس روایت کا تعلق رکوع والے رفع یدین سے نہیں ہے۔ (جزء رفع یدین للبخاری:۳۷، التلخیص الحبیر ۲۴۱/۱) خود دیوبندی حضرات نے بھی اس روایت کو رفع یدین کے خلاف پیش کرنے کو ناانصافی قرار دیا ہے، دیکھئے محمد تقی عثمانی کی درس ترمذی (۳۶/۴) محمودحسن کی الورد الشذی علٰی جامع الترمذی ص ۶۳ اور تقاریر شیخ الہند ص ۶۵
    5) رفع یدین کندھوں تک کرنا صحیح ہے اور کانوں تک بھی صحیح ہے، دونوں طریقوں میں سے جس پر عمل کیا جائے جائز ہے۔ بعض لوگ سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی حدیث (صحیح مسلم ۱۶۸/۱ ح ۳۹۱) سے کانوں تک رفع یدین ثابت کرتے ہیں (مثلاً محمد الیاس تقلیدی کی چالیس حدیثیں ص ۹ ح ۹) اوراس حدیث کا باقی حصہ دانستہ حذف کر دیتے ہیں، جس سے رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین ثابت ہوتا ہے۔
    6) صحابہ سے رفع یدین کا کرنا ثابت ہے ، نہ کرنا ثابت نہیں ہے، دیکھئے امام بخاری کی جزء رفع الیدین (ح ۲۹) ، بعض لوگوں کا سنن بیہقی (۸۰،۸۱/۲) سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا غیر ثابت شدہ اثر نقل کرنا صحیح نہیں ہے، سنن بیہقی کے محولہ صفحہ پر ہی اس اثر پر جرح موجود ہے۔
    7) ابوبکر بن عیاش نے ابن عمر سے ترکِ رفع یدین والی جو روایت نقل کی ہے وہ کئی لحاظ سے مردود ہے:
    اول: امام احمد نے اس روایت کو باطل قرار دیا ہے۔ (مسائل احمد روایت ابن ہانی ج ۱ ص ۵۰)
    دوم: امام یحیٰی بن معین نے فرمایا: ابو بکر (بن عیاش) کی حصین سے روایت اس کا وہم ہے، اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے۔ (جزء رفع الیدین:۱۶)
    سوم: یہ روایت شاذ ہے۔
    تنبیہ: ابو بکر بن عیاش کے بارے میں راجح یہی ہے کہ وہ جمہور کے نزدیک ثقہ و صدوق راوی ہیں لٰہذا ان کی حدیث حسن ہوتی ہے جیسا کہ راقم الحروف (حافظ زبیر علی زئی) نے اپنی سابقہ تحقیق سے رجوع کرتے ہوئے تفصیل کیساتھ نور العینین میں لکھا ہے لیکن یہ خاص روایت امام احمد اور امام ابن معین کی جرح کی وجہ سے ضعیف ہے، اس روایت کو کسی محدث نے بھی صحیح قرار نہیں دیا۔ تفصیل کے لئے دیکھئے نورالعینین طبع جدید (۱۶۸ تا ۱۷۲)
    سلیمان الشیبانی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سالم بن عبداللہ (بن عمر) کو دیکھا، جب وہ نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے تھے، پھر جب رکوع کرتے تھے تو رفع یدین کرتے تھے پھر جب (رکوع سے) سر اٹھاتے تو رفع یدین کرتے تھے میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: میں نے اپنے ابا (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ) کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے اور انھوں (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (حدیث السراج ج ۲ ص ۳۴،۳۵ ح ۱۱۵، وسندہ صحیح)
    اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ رفع یدین پر مسلسل عمل جاری رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رفع یدین کرتے تھے پھر آپ کے بعد صحابہ رفع یدین کرتے تھے، صحابہ کے بعد تابعین رفع یدین کرتے تھے لٰہذا رفع یدین کو منسوخ یا متروک قرار دینا باطل ہے۔
    [/FONT]
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں