امّ المؤمنین حضرت صفیہ بنت حُیی رضی اللہ عنہا

mahajawad1 نے 'سیرتِ سلف الصالحین' میں ‏مارچ 6, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. mahajawad1

    mahajawad1 محسن

    شمولیت:
    ‏اگست 5, 2008
    پیغامات:
    473

    امّ المؤمنین حضرت صفیہ بنت حُیی​


    صفیّہ نام تھا اور حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد سے تھیں۔ سلسلہ نسب یہ ہے:
    صفیہ بن حُیی بن اخطب بن سعید بن عامر بن عبید بن خزرع بن ابی حبیب بن نضیر بن نحام بن میخوم۔
    ماں کا نام برّہ یا (ضرّہ) تھا جو بنو قریظہ کے ایک نامور سردار سموئیل کی بیٹی تھیں۔ زرقانی کا بیان ہے کہ حضرت صفیہ کا اصل نام زینب تھا ، عرب میں مال غنیمت کا جو حصہ فاتح سردار کے حصے میں آئے وہ صفیہ کہلاتا ہے، چونکہ وہ غزوہ خیبر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد نکاح میں آئیں اسلئے صفیہ کے نام سے مشہور ہوئیں لیکن یہ روایت چنداں معتبر نہیں کیونکہ عرب میں صفیہ نام کی اور بھی کئی خواتین تھیں۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پھوپھی کا نام صفیہ تھا۔
    حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا باپ حُیی بن اخطب یہودیوں کے نامور قبیلے بنو نضیر کا سردار تھا۔ حُیی نبی کی اولاد ہونے کی وجہ سے اپنی قوم میں بیحد معزز تھا اور تمام قوم اسکی وجاہت کے آگے سر جھکاتی تھی۔
    چودہ برس کی عمر میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی شادی یہود کے ایک نامور شہسوار اسلام بن مشکم القرظی سے ہوئی، لیکن دونوں میاں بیوی میں بن نہ پائی، نتیجتاً اسلام بن مشکم نے طلاق دے دی۔ اس طلاق کے بعد حُیی بن اخطب نے ان کا نکاح بنی قریظہ کے ایک مقتدر سردار کنانہ بن ابی الحُقیق سے کر دیا۔ وہ خیبر کے رئیس ابو رافع کا بھتیجا تھا اور خیبر کے قلعہ القموس کا حاکم تھا۔
    اوئل سنہ ۷ ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی روز روز کی شرارتوں کا قلع قمع کرنے کیلئے ان کے مرکز خیبر پر چڑھائی کی۔ خیبر مدینہ کا شمال مغرب میں ایک نہایت زرخیز مقام تھا جہاں یہودیوں نے چند بہت مضبوط قلعے بنا رکھے تھے۔ ان کا ارادہ تھا کہ وہ مدینہ پر قبضہ کرکے اسلام کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکیں چنانچہ اس مقصد کیلئے وہ مدت سے لشکر اور آلات حرب جمع کر رہے تھے۔ اپنی تیاری مکمل کر لینے کے بعد انہوں نے دو اور قبائل بنو غطفان اور بنی اسد کو بھی اس وعدہ پر اپنے ساتھ ملا لیا کہ مدینہ کی فتح کے بعد نصف نخلستان انہیں دے دیا جائیگا۔
    جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہودیوں کی اس تیاری کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سباع بن عرفطہ غفاری رضی اللہ عنہا کو مدینہ کا حاکم مقرر کیا اور خود چودہ سو صحابہ کے ہمراہ خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔ منافقوں کے سرادر عبداللہ بن اُبئ نے مسلمانوں کی روانگی کی اطلاع یہودیوں کو دے دی چنانچہ وہ مقابلے کیلئے تیار ہو کر کھلے میدان میں نکل آئے۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو خیبر پہنچنے میں کافی دن لگیں گے، لیکن اسلامی لشکر نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر قیادت نہایت تیزی سے مسافت طے کی اور دن رات سفر کرتے ہوئے ایک دن صبح کے وقت خیبر کے نواح میں پہنچ گیا۔ انہیں دیکھ کر یہودی ششدر رہ گئے، ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ مسلمان اتنی جلدی آ پہنچیں گے۔ کھلے میدان میں لڑنا انہوں نے مناسب نہ سمجھا اور قلعہ بند ہو کر مسلمانوں پر تیر اور پتھر برسانے لگے۔ مجاہدین اسلام نے نہایت پامردی سے تیروں اور پتھروں کا مقابلہ کیا اور جنبازانہ لڑتے ہوئے یہودیوں کے تین قلعوں پر قابض ہو گئے۔ یہودیوں کا سب سے بڑا قلعہ القموص تھا۔ کئی روز گزر گئے لیکن سرتوڑ کوششوں کے باوجود یہ قلعہ فتح نہ ہوا۔ آخر ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا۔ وہ آشوب چشم کے عارضے میں مبتلا تھے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب دہن کی برکت اور دعا سے انہیں صحت ہو گئی۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عَلَم دے کر انہیں القموص کی تسخیر پر فرمایا۔ وہ نامور جنگجو تھے اور ان کی قوت اور شجاعت کی زمانے بھر میں دھوم تھی۔ سب سے پہلے حارث حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے آیا اور فنون جنگ میں اپنی بے مثال مہارت کے باوجود ذوالفقار حیدر کا شکار ہو گیا۔ اس کے بعد اسکا بھائی مرحب غضبناک ہو کر حضرت علی رضی اللہ عنہ پر جھپٹا، لیکن اس کا حشر بھی اپنے بھائی جیسا ہوا۔ حیدر کرّار کی اس عدیم النظیر بہادری سے مسلمانوں میں بے پناہ جوش پیدا ہوا اور انہوں نے تکبیر کے فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے پوری قوت سے یہودیوں پر حملہ کیا۔ یہودی سراسیمہ ہو کر قلعہ کے اندر گھس گئے۔ حیدر کرّار نے جوش شجاعت میں قلعہ القموص کے پھاٹک کو زور سے ہلایا اور پھر اسے اکھاڑ کر پرے پھینک دیا۔ اب مسلمان قلعہ کے اندر گھس گئے اور یہودیوں کو اپنی تلواروں پر رکھ لیا۔ انہوں نے بہت جلد ہتھیار پھینک دئیے اور عاجزی کے ساتھ صلح کرلی کہ زمین انہی کے پاس رہے۔ البتہ پیداوار کا نصف حصہ وہ مسلمانوں کو دینگے۔

    جنگ خیبر میں ۹۳ یہودی مارے گئے اور ۱۵ مسلمان شہید ہوئے۔ یہ لڑائی یہودیوں کیلئے نہایت تباہ کن ثابت ہوئی۔ ان کے کئی نامور بہادر اور سردار اس لڑائی میں مارے گئے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے خاندان کے سارے افراد میدان جنگ میں کام آئے یا جنگی قیدی بنا لئے گئے۔۔ مقتولوں میں انکے باپ بھائی اور شوہر بھی تھے۔ اس طرح وہ نہایت قابل رحم حالت میں تھیں۔
    جنگ کے بعد تمام قیدی اور مال غنیمت ایک جگہ جمع کئے گئے۔ سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اور انکے رشتہ کی ایک بہن کو پکڑ لائے۔ رستے میں یہودی مقتولین کی لاشیں خاک و خون لتھڑی پڑی تھیں۔ ان میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کے محبوب والد، بھائی اور شوہر کی لاشیں بھی تھیں اور خاندان کے بعض دوسرے بزرگ بھی کٹے پڑے تھے۔ حضرت صفیہ نے حسرت سے ان لاشوں پر نظر ڈالی اور چپ کی چپ رہ گئیں۔ البتہ ان کی ساتھی بہن بے قابو ہو گئیں اور نہایت شدت سے گریہ و زاری اور سینہ کوبی شروع کردی۔ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو سرکار دوعالم اس عورت کی گریہ و زاری سے متاثر ہوئے۔ بیبی صفیہ خاموشی سے ایک طرف بیٹھ گئیں۔ اس عورت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری طرف جانے کا حکم دیا اور پھر بلال رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’ بلال تمہارے دل میں رحم نہیں ہے کہ ان عورتوں کو اس راستے سے لائے ہو جہاں ان کے باپ اور بھائی خاک و خون میں لتھڑے پڑے ہیں۔‘‘

    جب مال غنیمت تقسیم ہونے لگا تو حضرت وحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو اپنے لیے پسند فرمایا۔ کیونکہ وہ تمام اسیران جنگ میں ذی وقعت تھیں اسلئے بعض صحابہ نے عرض کیا: ’’ یارسول اللہ! صفیہ بنی قریظہ اور بنو نضیر کی رئیسہ پے، خاندانی وقار اسکے بشرے سے عیاں ہے، وہ ہمارے سردار (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم) کیلئے موزوں ہے‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مشورہ قبول فرما لیا۔ وحیہ بن کلبی رضی اللہ عنہ کو دوسری لونڈی عطا فرما کر حضرت صفیہ کو آزاد کردیا اور انہیں یہ اختیار دیا کہ وہ چاہے اپنے گھر چلی جائیں یا پسند کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آجائیں۔ حضرت صفیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آنا پسند کیا اور ان کے حسب منشاء حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا۔ صہبا کے مقام پر رسم عروسی ادا کی گئی اور وہیں دعوت ولیمہ بھی ہوئی۔ صہبا سے چلتے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خود اپنے اونٹ پر سوار فرمایا اور خود اپنی عبا سے ان پر پردہ کیا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی عمر اس وقت سترہ برس کی تھی۔ اس نکاح کے بعد یہودی پھر مسلمانوں کے خلاف کسی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے۔ مدینہ پہنچ کر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حارث بن نعمان انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان پر اتارا۔ ان کے حسن و جمال کا شہرہ سن کر انصار کی عورتیں اور دوسری ازواج مطہّرات انہیں دیکھنے آئیں۔ جب دیکھ کر جانے لگیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے چلے اور حضرت عائشہ صدیقہ سے پوچھا: ’’ عائشہ تم نے اس کو کیسا پایا؟‘‘ جواب دیا: ’’ یہودیہ ہے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ یہ نہ کہو وہ مسلمان ہو گئی ہے اور اس کا اسلام اچھا اور بہتر ہے۔‘‘

    حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے چہرے پر چند ابھرے ہوئے نشانات تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا یہ کیسے نشانات ہیں؟ حضرت صفیہ نے عرض کی۔ ’’ میں نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ آسمان سے چاند ٹوٹا اور میری گود میں آن گرا۔ میں نے یہ خواب اپنے باپ کہ سنایا، جس سے وہ غضبناک ہوا اور اتنے زور سے میرے منہ پر تھپڑ مارا کہ چہرے پر اسکی انگلیوں کے نشانات ابھر آئے۔ پھر اس نے کہا۔’’ کیا تو ملکہ عرب بننے کے خواب دیکھتی ہے؟‘‘
    حضرت صفیہ نہایت حلیم الطبع، خلیق، کشادہ دل، سیر چشم اور صابر تھیں۔ جب وہ امّ المؤمنین کی حیثیت سے مدینہ تشریف لائیں اور حضرت فاطمہ الزّہراء انہیں دیکھنے آئیں تو انہوں نے اپنے بیش قیمت طلائی جھمکے کانوں سے اتار کر حضرت فاطمہ الزّہراء کو دے دیے اور ان کی ساتھی خواتین کو بھی کوئی نہ کوئی زیور دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں بہت عزیز رکھتے تھے اور ان کی دل جوئی کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ سفر میں ازواج کے ساتھ تھیں، اتفاق سے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ بیمار ہو گیا۔ وہ بہت غمگین اور پریشان ہوئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود آکر ان کی دل جوئی کی اور حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ ’’ زینب تم صفیہ کو ایک اونٹ دے دو۔‘‘
    حضرت زینب رضی اللہ عنہا بہت سخی اور بامروّت تھیں لیکن نہ معلوم کیوں ان کی زبان سے نکل گیا۔ ’’ یا رسول اللہ! کیا میں اس یہودیہ کو اپنا اونٹ دے دوں؟‘‘ یہ کلمہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین ماہ تک حضرت زینب سے کلام تک نہیں کیا۔ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بمشکل ان کا قصور معاف کروایا۔ حضرت زینب بنت جحش کا بیان ہے کہ: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی نے مجھے قریب قریب مایوس کر دیا تھا اور میں نے عہد کیا کہ آئندہ کبھی ایسی بات نہ کہوں گی۔‘‘

    قبول اسلام کے بعد یہودیت کا طعنہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کیلئے بہت دل آزاری کا مؤجب ہوتا تھا لیکن وہ نہایت صبروتحمل صے کام لیتی تھیں اور کبھی کسی کو سخت جواب نہیں دیتی تھیں۔ ایک بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا رو رہی تھیں۔ وجہ دریافت کی تو کہا۔ ’’ عائشہ اور زینب کہتی ہیں کہ ہم تمام ازواج میں افضل ہیں کیونکہ بیوی ہونے کے علاوہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار بھی ہیں۔ لیکن تم یہودن ہو۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی دلجوئی کیلئے فرمایا: ’’ اگر عائشہ اور زینب کہتی ہیں کہ ان کا خاندان نبوّت سے تعلق ہے تو تم نے کیوں نہ کہہ دیا کہ میرے باپ ہارون علیہ السلام، اور میرے چچا موسیٰ علیہ السلام اور میرے شوہر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی بات پر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے ناخوش ہو گئے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں اور کہا۔’’ آپ جانتی ہیں کہ میں اپنی باری دوسری کسی چیز کے معاوضے میں نہیں دے سکتی لیکن اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ سے راضی کردیں تو میں اپنی باری کا دن آپ کو دیتی ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کام کے لئے راضی ہو گئیں اور زعفران کی رنگی ہوئی ایک اوڑھنی لے کر اس پر پانی چھڑکا تاکہ اس کی خوشبو مہک جائے۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف لے گئیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ عائشہ یہ تمہاری باری کا دن نہیں۔‘‘ بولیں۔ ’’ یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے۔‘‘ پھر تمام واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے راضی ہو گئے۔

    حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیحد محبت تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات میں تمام ازواج مطہّرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عیادت کیلئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں تشریف لائیں۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بے چین دیکھا تو عرض کیا: ’’ یا رسول اللہ ! کاش آپ کی بیماری مجھے ہو جاتی۔‘‘ دوسری ازواج نے ان کی طرف دیکھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’واللہ وہ سچّی ہے۔‘‘ یعنی ان کا اظہار عقیدت نمائشی نہیں بلکہ سچے دل سے وہ یہی چاہتی ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ: ’’میں نے کوئی عورت صفیہ سے اچھا کھانا پکانے والی نہیں دیکھی۔‘‘

    حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی ایک لونڈی نے امیر المؤمنین سے شکایت کی کہ امّ المؤمنین میں ابھی تک یہودیت کی بو پائی جاتی ہے۔ کیونکہ وہ اب بھی ہفتہ (سبت) کو اچھا سمجھتی ہیں اور یہودیوں سے دلی لگاؤ رکھتی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تحقیق قحوال کیلئے خود امّ المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے۔ انہوں نے جواب دیا۔’’ جب سے اللہ نے مجھے (سبت (ہفتہ) کے بدلے جمعہ عنایت فرمایا تو ہفتہ کو دوست رکھنے کی ضرورت نہیں رہی، ہاں یہودیوں سے مجھے بیشک لگاؤ ہے کہ وہ میرے قرابتدار ہیں اور مجھے صلہ رحمی کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ امّ المؤمنین کی حق گوئی سے بہے خوش ہوئے اور واپس تشریف لے گئے۔
    اس کے بعد حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے لونڈی کو بلا کر پوچھا: ’’ تجھے امیر امؤمنین کے پاس میری شکایت کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا؟‘‘ اس نے کہا: ’’ مجھے شیطان نے بہکایا تھا۔‘‘
    امّ المؤمنین نے فرمایا: ’’ جا میں نے تجھے راہ خدا میں آزاد کیا۔‘‘

    علم و فضل میں بھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ کوفہ کی عورتیں اکثر ان کے پاس مسائل دریافت کرنے آتی تھیں۔ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ، اسحاق بن عبداللہ رحمہ اللہ، یزید بن معتب رحمہ اللہ اور مسلم بن صفوان سے چند احادیث بھی مروی ہیں۔
    بیحد دردمند تھیں۔ جب سنہ ۳۵ ہجری میں خلیفہ سوم حضرت عثمان ذوالنّورین کے مکان کا مفسدوں نے محاصرہ کر لیا تو ان کو بہت رنج ہوا، ضعیف العمر امیر المؤمنین کی مصیبت نے انہیں بے چین کردیا۔ انہوں نے ایک غلام کو ساتھ لیا اور اپنے خچر پر سوار ہو کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مکان کی طرف روانہ ہوئیں۔ اشتر نخعی نے ان کے غلام کو دیکھ کر پہچان لیا اور آگے بڑھ کر خچر کو مارنا شروع کردیا چونکہ حالات بگڑے ہوئے تھے اور اشتر نخعی کے مقابلے میں کامیابی مشکل تھی اس لئے وہ مصلحتاً واپس چلی گئیں اور حضرت حسن بن علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو کھانا بھیجا۔ (الاصابہ ج:۱، ص۲۷)۔

    حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے رمضان المبارک سنہ ۵۰ ہجری میں ساٹھ سال کی عمر میں وفات پائی۔ جنّت البقیع میں دفن ہوئیں۔ انہوں نے اپنا ذاتی مکان اپنی زندگی میں ہی اللہ کی راہ میں دے دیا تھا البتہ ترکہ میں ایک لاکھ درہم چھوڑے اور اسکے ایک تہائی کی وصیّت اپنے یہودی بھانجے کیلئے کی۔ لوگوں نے اسکا حصہ دینے میں تامّل کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سنا تو کہلا بھیجا۔ ’’ لوگو اللہ سے ڈرو اور صفیہ کی وصیت پوری کرو۔‘‘ ان کے ارشاد کے مطابق وصیت کی تعمیل کردی گئی۔
    رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔
     
  2. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    جزاک اللہ خیرا
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں