لَو اور ارینج میریج - شرعی حیثیت

ساجد تاج نے 'مثالی معاشرہ' میں ‏اپریل 19, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063


    "انتہائی ذلیل حرکت ہے یہ لو میرج ، پوری عمر زنا کاری میں گذرتی ہے اوراولاد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
    اللہ ہدایت دے۔
    "

    ارے ساجد بھائی، بات کہاں‌تھی اور کہاں‌لیکر چلے گئے آپ کی یہ بات "کسی بھی بات کو سمجھنے کا ایک نظریہ نہیں‌رکھنا چاہیے۔" اچھی بات ہے۔

    اور ہمارا کہنا ہے کہ لو میریج پر تحقیق کئے بنا زنا کی شق نہیں لگا سکتے۔۔۔!!! (ہاں‌وہ جو اس بدبختی کے تحت آتےہوں‌وہ ایک الگ مسئلہ ہے)

    جیسا کہ کنعان بھائی نے بھی سمجھایا، میں‌نے بھی ایک مثال دی کہ لو میریج میں‌ بعض اوقات، بڑوں‌کی سرپرستی میں جو شادی ہوجاتی ہے، اسکو آپ زنا کہینگے۔۔

    (حالانکہ میں‌جانتا ہوں‌کہ کفایت بھائی کا جو کنسرن ہے، وہ مختلف ہے، اور میں‌بھی اس کنسرن سے اتفاق کرتا ہوں، الفاظ کے استعمال میں‌احتیاط کی ضرورت ہے بس
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. کفایت اللہ

    کفایت اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 23, 2008
    پیغامات:
    2,017
    السلام علیکم
    میں‌ اب تک صرف اس لئے خاموش تھا کہ عکاشہ بھائی نے مزید بحث نہ کرنے کی امید ظاہر کی تھی ، لیکن دیکھ رہا ہوں کی پوسٹ پر پوسٹ‌ کی جارہی ہے اور کوئی بندش نہیں ہے تو میں بھی معذرت کے ساتھ کچھ باتیں کہنے کی جسارت کررہاہوں۔

    شادی نہ صرف یہ کہ دینی کام بلکہ اسے آدھا دین کہا گیا ہے۔

    عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا تزوج العبد فقد كمل نصف الدين، فليتق الله في النصف الباقي "

    [شعب الإيمان 7/ 340 رقم 5100 حسنہ الالبانی]

    اور’’لومیرج‘‘ ایک غیرشرعی اوراہل مغرب کے جنسی درندوں کی گندی اصطلاح ہے انسانوں میں محبت کا جذبہ تبھی سے ہے جب سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے ، لیکن ابتدائے خلق سے لے کراہل مغرب کے جنسی عروج تک کیا کسی دور میں اورکسی بھی زبان میں یہ اصطلاح دکھلائی جاسکتی ہے؟

    جب کوئی اصطلاحی لفظ اپنے سیاق میں مستعمل ہوتو اس کا اصطلاحی معنی ہی پیش نظر رہنا چاہئے۔

    اگرمیں نے ’’لومیرج ‘‘ کو ذلیل حرکت اورزناکاری قراردیا ہے توآپ ان لوگوں کا گریبان کیوں نہیں پکڑتے جو دہشت گردی کو درندگی ، سفاکیت ، حیوانیت ، اور دہشت گردوں کو کافرتک قراردیتے ہیں۔
    جبکہ جب معروف عالمی مبلغ‌ ڈاکٹر ذاکرنائیک صاحب فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان کو دہشت گرد ہونا چاہئے اورایک مسلمان اچھا مسلمان تب تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ دہشت گرد نہ بن جائے، لیکن وہ دہشت گردی سے الگ مفہوم مراد لیتے ہیں۔
    سوال یہ ہے کہ اگردہشت گردی کی ایک محمود قسم بھی موجود ہے تو ان مفتیان عظام اورعلمائے کرام کے بارے میں کیا رائے ہے جو دہشت گردی کی مذمت میں فتوی صادر کرتے ہیں اوراسے درندگی ، حیوانیت اورغیرانسانی فعل قرار دیتے ہیں ، اوراس سلسلے میں کسی استثناء کا ذکرنہیں کرتے۔

    صرف یہی نہیں ڈاکٹر ذاکرنائیک صاحب فرماتے ہیں کہ میں ہندو کے جغرافیائی معنی کے لحاظ سے’’ ہندو‘‘ ہوں اوراس معنی میں بھارت کا ہرمسلمان’’ ہندو‘‘ہے۔
    تو پھران لوگوں کی گرفت کون کرے گا جو ہندؤں کے خلاف مطلقا زہریلے جملے استعمال کرتے ہیں اورکوئی وضاحت نہیں‌ کرتے۔

    اس سے بھی آگے بڑھئے ڈاکٹرذاکرنائیک صاحب فرماتے ہیں کہ میں فلاں اعتبار سے ’’یہودی ‘‘ ہوں ۔
    اب جب یہودی کا بھی ایک ناقابل اعتراض لغوی معنی موجود ہے تو ان غیورمسلمانوں کی زبان کون پکڑے گا جو رات دن یہودیوں کو مطلقا سازشی ، مکار ، ذلیل قوم اورنہ جانے کیا کیا کہتے ہیں اورکوئی وضاحت نہیں کرتے۔

    دراصل مشکل یہ ہے کہ مصطلحات کو ان کے اصطلاحی معنی میں لینے کے بجائے لغوی معنی میں لیا جارہا ہے پھر اس کی تائید میں اسلامی تعلیمات پیش کی جارہی ہیں۔
    حالانکہ جن اسلامی تعلیمات کی طرف بھائیوں کا اشارہ ہے اسے ’’لومیرج ‘‘ کسی بھی صورت میں نہیں کہا جاسکتا۔

    ’’لومیرج‘‘ جس جنس پرست اورذلیل قوم کی اصطلاح ہے ہم نے ان ہی کی اصطلاح میں اس کے معنی کو لیتے ہوئے اس پرتبصرہ کیا ہے۔
    اورجب ہم اصطلاحی معنی میں کوئی لفظ استعمال کررہے ہیں تو ہمیں کسی بھی وضاحت کی ضرورت نہیں جس طرح جولوگ دہشت گردی جیسی مصطلح کی مذمت کرتے ہیں توانہیں کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔

    ہمیں ذرابھی شک نہیں ہے کہ ’’لومیرج‘‘ اہل مغرب کے جنسی درندوں کی اصلاح خاص ہے اوراس کے ہرہر لفظ سے غلاظت کی بو آتی ہے اس کی گندگیاں نا قابل شمارہیں صرف دو کا تذکرہ کرتاہوں:

    1: لومیرج کا سب سے بڑا محرک عورت کی عریانیت پسندی ہے اور اظہارحسن کی آزادی ہے ، وہ سراپا معطرہوگرسیروتفریح کے لئے نکلتی ہے اورکسی کے ’’لو‘‘ کا نشانہ بنتی ہے،اس سلسلے میں معلم اخلاق صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان یہ ہے:

    عَنْ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ عَلَى قَوْمٍ لِيَجِدُوا مِنْ رِيحِهَا فَهِيَ زَانِيَةٌ»
    [سنن النسائي 8/ 153 رقم 5126]
    الاشعری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو خاتون عطر (یا خوشبو) لگائے اور پھر وہ لوگوں کے پاس جائے اس لیے کہ وہ اس کی خوشبو سونگھیں تو وہ زانیہ ہے۔


    2: جب بات میرج تک پہنچتی ہے تو لڑکی اپنے فیصلہ کوحرف آخرسمجھتی ہے اگراس کا ولی مداخلت کرے توبغاوت پراترجاتی ہے، اس سلسلے میں معلم اخلاق صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان یہ ہے:

    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا، فَإِنَّ الزَّانِيَةَ هِيَ الَّتِي تُزَوِّجُ نَفْسَهَا»
    [سنن ابن ماجه 1/ 606 رقم 1882]
    صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! عورت دوسری عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ اپنا نکاح خود کرے اس لئے کہ زنا کار عورت ہی اپنا نکاح خود کرتی ہے۔

    مجھ سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ میں‌ اپنے تبصرہ سے زنا کاری کے الفاظ نکال دوں ، میں بصد احترام پوچھتاہوں کہ کیا آپ مذکورہ دونوں احادیث سے ’’زنا کاری‘‘ کے الفاظ نکا ل سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو ان احادیث میں زنا کاری کے لفظ کا جوبھی محمل آپ طے کریں اسی پر میرے الفاظ کو بھی محمول کرلیں۔

    عکاشہ بھائی فرماتے ہیں :

    میں کہتاہوں اسلام کیا دنیا کے کسی مذہب میں بھی اس ’’لومیرج‘‘ کی گنجائش نہیں ہے بلکہ ’’لو‘‘ یہ بجائے خود چودھویں صدی کا ایک نیا مذہب ہے جس میں داخلے کے لئے تمام مذاہب سے مرتد ہونا پڑتاہے اور یہ کوئی معمولی مذہب نہیں ہے ، اس کا اپنا ایک ’’کلمہء عشقیہ ‘‘ بھی ہے جب تک کوئی اس ’’کلمہ‘‘ کو زبان سے ادانہیں کرے گا تب تک وہ اس مذہب میں داخل نہیں ہوسکتا اوروہ کلمہ ہے:

    i love you​



    جی ہاں ! اگردو مرد و عورت جنسی بے حیائی کے تمام حدود بھی پار کرجائیں لیکن یہ ’’کلمہء عشقیہ‘‘ ادا نہ کریں تو کبھی اس مذہب میں داخل نہیں ہوسکتے ۔

    اورہاں صرف زبان سے یہ کلمہ عشقیہ ادا کرنا کافی نہ ہوگا ، بلکہ دل سے اس کی تصدیق بھی ضروری ہے ورنہ آپ پرمنافقت کا الزام لگ جائے گا۔ یہی وجہ ہے جو لوگ اس کلمہ کو دل سے ادانہیں کرتے وہ وضاحت بھی کردیتے ہیں تاکہ ان پرمنافقت کا الزام نہ لگے ، یعنی اس طرح وضاحت کرتے ہیں :

    i love you​

    but as a friend​



    بھائیو!
    یہ ہے ’’لو‘‘ اور ’’لومیرج ‘‘ کی اصطلاحی تعریف ۔
    اورہم نے اسی پر تبصرہ کیا تھا اوراپنے تبصرہ پر کوئی پچھتاوانہیں ، شادی جسے ہمارے اسلام نے آدھا دین کہا ہے ہمارایہ آدھا دین دشمنان دین کی جنسی مصطلحہ’’ لو میرج ‘‘ کا محتاج نہیں ہم اس مقدس رشتہ کو لومیرج کی غلاظت سے آلودہ نہیں کرسکتے۔
    والسلام۔
     
    Last edited by a moderator: ‏اپریل 20, 2011
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  3. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ ۔
    جزاکم اللہ خیرا وبارک فیکم

    شیخ آپ کو لکھنے کی اجازت ہے ۔عام لوگ لکھ رہے ہیں تو اہل علم کو لکھنے سے کیسے منع کیا جا سکتا ۔

    جی یہی عورت کے وہ افعال ہیں جو کہ لو میرج کی وجہ بنتے ہیں‌۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر اقوام جیسے یہودیوں ،عیسائیوں اور ہندوؤں و دیگر اقوام کے ساتھ زندگی گزارنا ہے ۔ اس لیے جب آپ کسی مسلمان کو لومیریج ، داڑھی ، برقعہ یا چہرے کے پردے کی پابندی کا کہیں گئے تو وہ نہ صرف قبول کرنے سے انکار کرے دے گا بلکہ ایسے جملے استعمال کرے گا جیسے داڑھی میں اسلام نہیں ۔ کیا برقعے اور چہرے کے پردے میں‌ ہی اسلام ہے؟ ، وغیرہ - اگر لا علمی ہے تو اللہ معاف فرمائے ، اگرمعلوم ہوتے ہوئے بھی ایسا کر رہا ہے تو یقننا گناہ مرتکب ہو رہا ہے ۔

    یہ سب دین سے دوری اور جہالت ہے ۔ جب کہ مسلمان تو وہ ہے جو اللہ کے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات پر ایمان لانے والا اور اس پر عمل کرنے والا ہوتا ہے ۔لیکن آج کا اسلام صرف نام میں رہ گیا ہے اکثریت وہی سب کچھ کر رہی ہے جو کہ غیر اقوام کر رہی ہیں‌۔ اور مسلمانوں کی حالت زار پر سب سے زیادہ افسردہ بھی یہ لوگ نظر آتے ہیں ۔

    وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
    یہ مسلم ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

    اللہ تمام مسلمانوں کوہدایت نصیب فرمائے ۔ آمین ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  4. کنعان

    کنعان محسن

    شمولیت:
    ‏مئی 18, 2009
    پیغامات:
    2,852
    کیا شادی سے قبل محبت کرنا افضل ہے


    یہ ادارہ اور شیخ ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں، صحیح احادیث کی روشنی میں۔

    ---------------------

    کیا شادی سے قبل محبت کرنا افضل ہے

    کیا اسلام میں محبت کی شادی زيادہ کامیاب ہے یا والدین کا اختیار کردہ رشتہ ؟

    الحمد للہ
    محبت کی شادی مختلف ہے ، اگرتو طرفین کی محبت میں اللہ تعالی کی شرعی حدود نہیں توڑی گئيں اور محبت کرنے والوں نے کسی معصیت کا ارتکاب نہیں کیا تو امید کی جا سکتی ہے کہ ایسی محبت سے انجام پانے والی شادی زيادہ کامیاب ہوگي ، کیونکہ یہ دونوں کی ایک دوسرے میں رغبت کی وجہ سے انجام پائي ہے ۔

    جب کسی مرد کا دل کسی لڑکی سے معلق ہو جس کا اس کا نکاح کرنا جائز ہے یا کسی لڑکی نے کسی لڑکے کو پسند کرلیا ہو تو اس کا حل شادی کے علاوہ کچھ نہيں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

    ( دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے ) ۔

    سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1847 ) بوصیری رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح کہا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے بھی السلسلۃ الصحیحۃ ( 624 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

    سنن ابن ماجہ کے حاشیہ میں سندھی رحمہ اللہ تعالی کا کہتے ہیں :

    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان :

    ( دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے )

    یہاں پر لفظ " متحابین " تثنیہ اورجمع دونوں کا احتمال رکھتا ہے ، اورمنعی یہ ہوگا : اگرمحبت دو کے مابین ہو تو نکاح جیسے تعلق کے علاوہ ان کے مابین کوئي اورتعلق اوردائمی قرب نہیں ہوسکتا ، اس لیے اگر اس محبت کے ساتھ ان کے مابین نکاح ہو تو یہ محبت ہر دن قوی اور زيادہ ہوگی ۔ انتھی ۔

    اور اگر محبت کی شادی ایسی محبت کے نتیجہ میں انجام پائي ہو جو غیرشرعی تعلقات کی بنا پر ہو مثلا اس میں لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے سے ملاقاتیں کریں ایک دوسرے سے خلوت کرتے رہیں اوربوس وکنار کریں اوراس طرح کے دوسرے حرام کام کے مرتکب ہوں ، تویہ اس کا انجام برا ہی ہوگا اور یہ شادی زيادہ دیر نہیں چل پائے گی ۔

    کیونکہ ایسی محبت کرنے والوں نے شرعی مخالفات کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنی زندگی کی بنیاد ہی اس مخالفت پر رکھی ہے جس کا ان کی ازدواجی زندگي پر اثر ہوگا اور اللہ تعالی کی طرف سے برکت اورتوفیق نہیں ہوگی ، کیونکہ معاصی کی وجہ سے برکت جاتی رہتی ہے ۔

    اگرچہ شیطان نے بہت سے لوگوں کو یہ سبز باغ دکھا رکھے ہیں کہ اس طرح کی محبت جس میں شرعی مخالفات پائي جائيں کرنے سے شادی زيادہ کامیاب اور دیرپا ثابت ہوتی ہے ۔

    پھر یہ بھی ہے کہ دونوں کے مابین شادی سے قبل جو حرام تعلقات قائم تھے وہ ایک دوسرے کو شک اورشبہ میں ڈالیں گے ، توخاوند یہ سوچے گا کہ ہوسکتا ہے جس طرح اس نے میرے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے کسی اورسے بھی تعلقات رکتھی ہو کیونکہ ایسا اس کے ساتھ ہوچکا ہے ۔

    اوراسی طرح بیوی بھی یہ سوچے اور شک کرے گی کہ جس طرح میرے ساتھ اس کے تعلقات تھے کسی اورکسی لڑکی کے ساتھ بھی ہو سکتے ہیں اور ایسا اس کے ساتھ ہوچکا ہے ۔

    تو اس طرح خاوند اور بیوی دونوں ہی شک وشبہ اور سوء ظن میں زندگی بسر کریں گے جس کی بنا پر جلد یا دیر سے ان کے ازدواجی تعلقتا کشیدہ ہو کر رہیں گے ۔

    اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خاوند اپنی بیوی پریہ عیب لگائے اور اسے عار دلائے اوراس پر طعن کرے کہ شادی سے قبل اس نے میرے ساتھ تعلقات قائم کیے اور اس پر راضي رہی جو اس پر طعن وتشنیع اورعار کا باعث ہو گا اوراس وجہ سے ان کے مابین حسن معاشرت کی بجائے سوء معاشرت پیدا ہوگی۔

    اس لیے ہمارے خیال میں جو بھی شادی غیر شرعی تعلقات کی بنا پر انجام پائے گي وہ غالبا اور زيادہ دیر کامیاب نہیں رہے گی اور اس میں استقرار نہیں ہوسکتا ۔

    اور والدین کا اختیار کردہ رشتہ نہ تو سارے کا سارا بہتر ہے اور نہ ہی مکمل طور پربرا ہے ، لیکن اگر گھر والے رشتہ اختیار کرتے ہوئے اچھے اور بہتر انداز کا مظاہرہ کریں اور عورت بھی دین اور خوبصورتی کی مالک ہو اور خاوند کی رضامندی سے یہ رشتہ طے ہو کہ وہ اس لڑکی سے رشتہ کرنا چاہے تو پھر یہ امید ہے کہ یہ شادی کامیاب اور دیرپا ہوگی ۔

    اور اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے کو یہ اجازت دی اور وصیت کی ہے کہ اپنی ہونے والی منگیتر کو دیکھے :

    مغیرہ بن شعبہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے منگنی کی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :

    ( اسے دیکھ لو کیونکہ ایسا کرنا تم دونوں کے مابین زيادہ استقرار کا با‏عث بنے گا )

    سنن ترمذي حديث نمبر ( 1087 ) سنن نسائي حدیث نمبر ( 3235 ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اسے حسن کہا ہے ۔

    امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں کہ ( ایسا کرنا تمہارے درمیان زيادہ استقرار کا با‏عث ہوگا ) کا معنی یہ ہے کہ اس سے تمہارے درمیان محبت میں استقرار پیدا ہوگا اور زيادہ ہوگي ۔

    اور اگر گھروالوں نے رشتہ اختیار کرتے وقت غلطی کی اور صحیح رشتہ اختیار نہ کیا یا پھر رشتہ اختیار کرنے میں تو اچھا کام کیا لیکن خاوند اس پر رضامند نہیں تو یہ شادی بھی غالب طور پر ناکام رہے گی اوراس میں استقرار نہیں ہوگا ، کیونکہ جس کی بنیاد ہی مرغوب نہیں یعنی وہ شروع سے ہی اس میں رغبت نہیں رکھتا تو وہ چيز غالبا دیرپا ثابت نہیں گی۔


    واللہ اعلم .

    ح
     
  5. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    السلام علیکم ۔
    شکریہ ۔ برادران عکاشہ و کفایت اللہ ۔
    جزاکم اللہ خیر ا ۔ کفایت اللہ برادر کا جواب پڑھ کر خوشی ہوئی ۔ ماشاء اللہ آپ کا انداز بہت اچھا ہے ۔ اللہ علم میں برکت دے ۔آمین

    کونان برادر ۔ آپ کی دونوں پوسٹس میں فرق کیوں ؟ پہلی پوسٹ میں آپ فرما رہے ہیں کہ دلیل کی ضرورت نہیں‌۔ میں کچھ باتیں کرتا ہوں ۔ دوسری پوسٹ میں ادارہ اور شیخ کی اتھارٹی پیش کر رہے ہیں ۔ جب کہ اگر
    ابھی انہی شیخ کی ویب سائیٹ سے حوالہ پیش کیا جائے تو آپ قبول نہیں فرمائیں گئے ۔ افتؤمنون ببعض الکتاب و تکفروں ببعض والی بات تو نہیں‌۔ آپ نے ایک اتھارٹی کا ذکر کیا ہے ۔ بحثیت مسلمان ہماری اتھارٹی اللہ اور اس کے محبوب کا فرمان ہے ۔ کالی کملے والا نے خود کوئی بات نہیں کہی بلکہ اللہ کی بات پہنچائی ۔ لہذا نبی کی بات کو اولیت حاصل ہے ۔ یہ علماء یہ مشائخ اتھارٹیاں نہیں‌ ۔ یہ ایک بات صحیح کرتے ہیں تو دوسری میں‌ غلطی کر سکتے ہیں ۔ معصوم عن الخطاء نہیں‌ -آپ دل پر نہ لینا ۔ مجبوری ہے اتھارٹی والی بات ہضم نہیں ہوئی اس لیے لکھ دیا ۔ اللہ تمام مسلمانوں کو ہدایت دے ۔ آمین یا رب العالمین ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  6. کنعان

    کنعان محسن

    شمولیت:
    ‏مئی 18, 2009
    پیغامات:
    2,852
    السلام علیکم!

    محترم برادر مجاھد، پوسٹ کا مطالعہ فرمائیں اگر اس میں کچھ غلط ہو تو بتائیں، بلاجواز وکالت و بحث والی عادت چھوڑ دیں۔ آپ کا بحث مراسلہ میں ایسا کچھ نہیں جس کا جواب دیا جائے ماسوائے وقت ضائع کرنے کے۔

    والسلام
     
  7. ابو یاسر

    ابو یاسر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    2,413
    صحیح یا غلط کو کچھ دیر کے لیے الگ رکھیں تو اس حقیقت کو سب کو ماننا پڑے گا کہ کاغذی شادی کم خرچیلی ہوتی ہے مگر اس میں دم بھی کاغذوالا ہی ہوتا ہے یعنی جلد ہی ایسی شادیاں ختم ہوجاتی ہیں، عموما۔
    رہا سوال "لومیرج" کا تو، یہ میرے خیال سے سراسر نا انصافی ہے والدین کے ساتھ
    بنا ولی کے شادی کیسی ؟؟؟
     
  8. کفایت اللہ

    کفایت اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 23, 2008
    پیغامات:
    2,017



    امام ابوداؤد فرماتے ہیں:
    حدثنا محمد بن قدامة بن أعين، حدثنا أبو عبيدة الحداد، عن يونس، وإسرائيل، عن أبي إسحاق، عن أبي بردة، عن أبي موسى، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا نكاح إلا بولي» . قال أبو داود: وهو يونس، عن أبي بردة، وإسرائيل، عن أبي إسحاق، عن أبي بردة

    [سنن أبي داود 2/ 229 رقم 2085 :صحيح]

    صحابی رسول ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہو سکتا ۔

    امام ابن ماجہ فرماتے ہیں:
    حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذٌ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ لَمْ يُنْكِحْهَا الْوَلِيُّ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، ۔۔۔۔۔الحدیث [سنن ابن ماجه 1/ 605 رقم 1879 ،صحیح]


    اماں عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! جس عورت کا نکاح ولی نہ کرایا ہو تو اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے ۔۔۔الحدیث۔

     
  9. ابو یاسر

    ابو یاسر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    2,413
    Code:
    اماں عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! جس عورت کا نکاح ولی نہ کرایا ہو تو اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے ۔۔۔الحدیث۔
    ایسے باطل رشتوں کی وجہ سے جو اولاد ہوگی اسے مذکورہ بالا فرمان عالی مقام کی رو سے کس درجے میں رکھا جائے گا؟ اب اگر میں اسے حرام زادے کا درجہ دوں تو مجھے تو کوئی تردد نہیں۔ جب کوئی نکاح نکاح ہی نہیں رہا تو وہ زنا ہی ہوا نا؟
    یا اس میں بھی کوئی اشکال یا بیچ والی راہ نکال لی گئی ہے؟؟
    دوڑنے والے دوڑا کریں اپنے اماموں کے اقوال کے پیچھے
    ہمیں مدینے والے کا فرمان کافی ہے۔
    مع السلامہ
     
  10. حرب

    حرب -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 14, 2009
    پیغامات:
    1,082
    یعنی لووو میرج اُس وقت تک رہے گی جب تک لڑکی کا ولی راضی نہیں ہوجاتا۔۔۔ اور ولی کے موافق ہونے کی صورت میں لووو میرج کو شرعی ڈگری مل جائے گی تو اس طرح‌ نکاح جائز ہے؟؟؟۔۔۔
     
  11. کفایت اللہ

    کفایت اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 23, 2008
    پیغامات:
    2,017
    بغیرولی کے صرف اپنی ہی مرضی سے لڑکی کا شادی کرنا یہ ’’لومیرج ‘‘ کی منجملہ برائیوں میں‌ سے ایک برائی ہے ۔ صرف اس کے ختم ہوجانے سے اسے شرعی ڈگری نہیں مل سکتی۔

    نیزولی کے اقدامات شریعت کے دائرہ میں‌ ہونے چاہئے، ورنہ بعض خود کو مسلم کہنے والے ولی اپنی بیٹی کا ہاتھ خوشی خوشی غیرمسلم کے ہاتھ میں دیے دیتے ہیں ، میرے سامنے اس کی مثال موجود ہے ۔

    اوربعض لومیرج توانسان کو کفراکبر تک پہنچا کردائمی جہنمی بنا دیتا ہے بھلے وہ اولیاء کی سرپرستی میں انجام پایا ہو ، کیونکہ وہ کہلواتا ہے کہ :

    پیارکا کوئی مذہب نہیں ہوتا​


    میرے سامنے ان گنت مثالیں ہیں کہ یہی جملہ بولتے ہوئے بہت سی مسلم لڑکیوں نے دشمنان اسلام اور کھلے کفارکے ساتھ اپنا گھربسالیا۔

    بلکہ جیسا کہ میں‌ پہلے ہی کہہ چکا ہوں‌ کہ ’’لو‘‘ بذات خود ایک مذہب بن جاتاہے، اوریہ مذہب کبھی اس طرح کی عبادتوں کا حکم دیتاہے:


    تجھ میں‌ رب دکھتا ہے ، سجدے کو دل کرتاہے۔​


    یہ مذہب عیاشی کوزندگی کا مقصد قراردیتاہے:

    تیرے لئے جینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیرے لئے مرنا ہے​



    کیا یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی صرف ولی کی رضامندی سے ہوس کے ان پجاریوں کو شرعی ڈگری مل جائے گی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

     
  12. کنعان

    کنعان محسن

    شمولیت:
    ‏مئی 18, 2009
    پیغامات:
    2,852
    السلام علیکم! ابویاسر بھائی

    آپ نے جو کاغذی شادی کا ذکر کیا ھے آپ کاغذی شادی معلوم نہیں کسے سمجھتے ہیں۔ کاغذی شادی کسی سفید کاغذ پر کوئی خاص قسم کا اگریمنٹ نہیں ہوتا بلکہ نکاح نامہ ہوتا ھے،

    جو شادی دو برادریوں کے اتفاق سے شادی ہوتی ہیں اس میں نکاح نامہ/کاغذ استعمال ہوتا ھے، ویسے ہی کورٹ میں بھی نکاح نامہ/کاغذ ہی استعمال ہوتا ھے۔

    والسلام
     
  13. حرب

    حرب -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 14, 2009
    پیغامات:
    1,082
    کیسے؟؟؟
    حالانکہ نکاح کے لئے صرف ولی کا راضی ہونا ضروری ہے۔۔۔ کیونکہ اس میں یہ شرط کہیں نہیں‌ ہے کے لڑکی لڑکے کو پہلے سے جانتی ہے یا نہیں‌ جانتی ہے۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔

    لیکن اگر ان تمام باتوں کا جو کسی---- فلم سے لی گئی ہیں‌ کا احتمال سرے سے موجود ہی نہ ہو تو پھر ایسی صورت میں‌ کیا حکم ہوگا؟؟؟۔۔۔

    ہم کو یہ بات ذہن میں‌ رکھنی چاہئے کے ہم بحث مثالوں‌ پر نہیں بلکہ ایک نقطے پر کررہے ہیں۔۔۔ لوو میرج اگر ہم مسلمانوں‌ کے اوصاف گنوانے پر آجائیں تو اس گنتی میں اوپر سے لیکر نیچے تک سب لیپٹ میں آجائیں‌ گے۔۔۔ اگر کوئی کہتا ہے کے پیار کا کوئی مذہب نہیں تو کیا ضروری ہے میں اُس کی اس بات کو تسلیم کروں؟؟؟۔۔۔۔ اگر فرض کیجئے مجھے کوئی لڑکی پسند آجاتی ہے یا مجھے اس سے محبت ہوجاتی ہے اور میں اپنا یہ خیال والدین کے سامنے ظاہر کرتا ہوں تو کیا یہ رشتہ سرے سے ہی ناجائز قرار پائے گا؟؟؟۔۔۔

    ان تمام باتوں کا کیا لوو میرج سے کوئی بلاواسطہ یا بلواسطہ تعلق ہے۔۔۔ کیا یہ ضروری ہے کے محبت کی شادی کرنے والے کو شاعری سے لگاو کی بناء‌ پر ہڑک اٹھی ہو لوومیرج کرنے کی؟؟؟۔۔۔ شیخ موصوف بات کو اگر ایک نقطے پر رہ کر کیا جائے تو ہوسکتا ہے کچھ سیکھنے سکھانے کا موقع ملے۔۔۔ میرے خیال میں‌ تو اس مسئلے پر بات چیت کو تحمل مزاجی کے دائرے میں‌ رہتے ہوئے کرنا ضروری ہے۔۔۔ کیونکہ جن معاشروں میں دین سے غافل لوگ موجود ہیں‌ وہیں‌ دین کی سمجھ رکھنے والا طبقہ بھی موجود ہے۔۔۔ ضروری نہیں جیس دھارے میں‌ بہہ رہے ہیں‌ اُسی دھارے میں‌ ہر کوئی بہنا پسند کرتا ہوں۔۔۔ اگر ایک فرد رومانوی مزاج رکھتا تو ضروری نہیں‌ کے دوسرا بھی اسی مزاج کا حامل ہو۔۔۔ اس سلسلے میں میرے پاس بھی بہت اچھی اچھی مثالیں موجود ہیں لیکن ساری بات یہ ہے کے میں‌ نے وہ رازوں والی حدیث پڑھ رکھی ہے۔۔۔ ہاں‌ اگر بات کو مثالوں کے خانے میں‌ رکھا جائے تو کریکٹر اسیسینیشن بہت آسانی سے کی جاسکتی ہے۔۔۔ لہذا دعوے وہی درست ہوتے میں جس میں‌ سچ اور حق کا توازن زیادہ ہو۔۔۔
     
    Last edited by a moderator: ‏اپریل 22, 2011
  14. کفایت اللہ

    کفایت اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 23, 2008
    پیغامات:
    2,017
    محترم حرب بن شداد صاحب
    لگتاہے اس موضوع کے تحت آپ نے تمام مراسلات نہیں پڑھے اگرایسا ہے تو ازراہ کرم پہلے میری تمام باتوں کو پڑھ لیں اس کے بعد کوئی تبصرہ کریں۔

    آپ کے تمام شبہات کے جواب میں صرف یہ کہہ دینا کافی ہے کہ:

    ہم نے اہل مغرب کی خاص مصطلحہ ’’لومیرج ‘‘ پرگفتگو کی ہے لیکن آپ ’’پسند کی شادی ‘‘ کو ذہن میں‌ لے کر خلط مبحث‌ کررہے ہیں ۔

    میں بہت پہلے وضاحت کرچکاہوں:

    لیکن شاید یہ مختصر جواب آپ کوآسانی سے سمجھ میں نہ آئے اس لئے کچھ تفصیل کردیتاہوں۔
    سب سے پہلے آپ اپنی ایک پوسٹ کا مطالعہ کرلیں جس میں آپ نے برضاء ورغبت ایک صاحب کی تحریرنقل کی ہے۔

    خط کشیدہ اورملون الفاظ پر غورکریں ۔ ان میں دہشت گردی اوربنیاد پرستی کو اسلام کے منافی بتلایا جارہا ہے ، حالانکہ موجودہ دورکے سب سے مشہور عالمی مبلغ ڈاکڑذاکرنائیک دہشت گردی اوربنیاد پرستی کو عین اسلام کی تعلیم قراردیتے ہیں بلکہ یہاں تک کہتے ہیں کہ کوئی مسلمان اچھا مسلمان تب تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ دھشت گرد اوربنیادپرست نہ بن جائے۔
    ڈاکٹرصاحب کے اس نقطہ نظرکی تائید کرنے والوں کی تعداد ان لوگوں سے کہیں زیادہ ہے جو ’’لومیرج ‘‘ کا ایک الگ معنی مراد لیکر اسے اسلامی تعلیمات کے موافق قراردیتے ہیں۔

    اب سوال یہ ہے کہ جب دہشت گردی اوربنیاد پرستی کی ایسی صورتیں بھی ہیں جواسلام کے عین موافق ہیں ، بلکہ مطلوب اسلام ہیں اورانہیں اپنائے بغیر کوئی اچھا مسلمان بھی نہیں‌ ہوسکتا تو پھرآپ جیسے صاحبان اس کے خلاف اتنی نفرت انگیز زبان کیوں استعمال کرتے ہیں ، بلکہ بعض حضرات تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ دھشت گرد مسلمان ہوہی نہیں سکتا ، یعنی اس کے اسلام ہی کی نفی !!!!!!!!!!!
    یادرہے کہ دہشت گردی بنیادپرستی کی مذمت میں دئے جانے والے بیانات کسی بھی تقیید واستثناء سے خالی ہوتے ہیں ۔

    میں پوچھتا ہوں ایسا کیوں ؟؟؟ دہشت گردی وبیناد پرستی کے خلاف اس قدر شعلہ بیانی کیوں؟؟؟؟؟؟؟
    جب کے ڈاکٹرذاکرنائیک کے بقول یہ چیزیں نہ صرف یہ کہ اسلام کے موافق ہیں بلکہ عین مطلوب اسلام ہیں۔


    دراصل ڈاکٹرصاحب دہشت گردی کواصطلاحی معنی میں نہ لیکراس کے لغوی معنی کو سامنے رکھ کر غلط فہمی کے شکارہیں ، اورپورے اسلام کو بدنام کررہے ہیں اورخود بھی مصیبت میں پھنس رہے ہیں ۔
    ابھی کچھ عرصہ قبل اہل مغرب نے ان کے بیان پرپاندی لگادی اوروجہ یہی بتلائی گئی کہ وہ دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں۔

    ہوبہو یہی غلطی آپ یہاں کررہے ہیں ، ہم اہل مغرب کی ایک خاص اصطلاح ’’لو‘‘ اور’’لومیرج ‘‘ پربات کررہے ہیں ۔ اورآپ ’’لو‘‘ کے لغوی معنی کو دیکھ کو ’’لومیرج‘‘ اور’’پسندکی شادی ‘‘کو ایک سمجھ رہے ہیں ۔
    ہم نے کبھی نہیں کہا کہ اسلام نے پسند کی شادی سے منع کیا ہے ، لیکن اس پسند کی شادی کو آپ اہل مغرب کی غلیظ اصطلاح ’’لومیرج ‘‘ سے تعبیرنہیں کرسکتے۔

    دنیائے عیاشیت کی مصطلحہ ’’لو‘‘ میں اسلام سے ٹکراتی ہوئی ان گنت باتیں‌ ہیں، صرف تین کی وضاحت کرتاہوں۔

    1: اس میں زندگی کا مقصد صرف عیاشی ہوتاہے۔
    دلیل : جینا صرف تیرے لئے۔
    عملی نمونہ : پیارمیں‌ ناکامی پرخودکشی۔

    2:اس میں دوسری شادی کی کوئی گنجائش نہیں ، ایک سے شادی کرنے کے بعددوسری لڑکی کی طرف پیارکی نگاہ سے دیکھنا بھی کفرہے۔
    دلیل: پیارصرف ایک بارہوتاہے۔
    عملی نمونہ:دوسرے کی موت پرزندگی بھربغیرشادی کے گزارنا۔

    3: اس میں عیاشیت کو مذہب پرترجیح دی جاتی ہے۔
    دلیل: پیار نہ دیکھے دھرم ۔
    عملی نمونہ : مسلم لڑکیوں کا ہندوں‌ کے ساتھ شادی کرنا۔

    یادرہے کہ اس وقت میں ہندوستان کے شہرگلبرگہ میں ہوں اوریہاں پچھلے دوسال کے اند رخود کومسلم کہنے والی 85 پچاسی مسلم لڑکیوں نے غیرمسلم ہندؤوں کے ساتھ شادی کی ہے، ممبئی میں تو یہ واقعات آپ گن نہیں سکتے۔

    میں مزید توضیحات اوردلائل سے اپنی تحریرکوآلودہ نہیں‌ کرناچاہتا۔

    صرف اتنی وضاحت بہت ہے لیکن پھربھی میں آپ کی تسلی کے لئے آپ کے اشکالت پرنظرکرلیتاہوں۔

    بات جاننے یہ نہ جاننے کی نہیں ہے ان اسلامی اصولوں کو ٹوڑنے کی ہے جن کی و ضاحت میں اوپرکرچکاہوں۔


    ایسی صورت میں اسے ’’لومیرج‘‘ کہا ہی نہیں جاسکتا۔

    اورمحترم آپ نے جویہ کہا:
    رجما بالغیب کے مرتکب نہ ہوں یہ باتیں جیتے جاگتے معاشرے کی ہیں ، کاش آپ ہمارے ساتھ ہوتے تومیں آپ کو عملی شکل میں یہ چیزیں دکھا دیتا ، کچھ ہی دن پہلے شہرگلبرگہ میں ایک مسلم لڑکی نے ایک غیرمسلم لڑکے کے ساتھ ’’لو‘‘ (پیار) کا اعلان کیا ، اور اپنے ولی یعنی باپ کو بھی راضی کرلیا ، کچھ غیور مسلمانوں نے باپ کو غیرت دلائی کہ تو ایک مسلم لڑکی کو ایک غلیظ کافر کے ہاتھ میں کیوں دے رہا تواس نے کہا مسلمان ہی کہاں بہت اچھے ہیں ڈھونڈ کرشادی کروں‌ گا تو بہت سارے جہیز کے مطالبات ہوں گے، یعنی وہی ساجد بھائی والی بات، لیکن لڑکی کا نظریہ یہ نہیں تھا کیونکہ اس کا فیصلہ محض پیارکی بناپر تھا۔

    اورآپ نے جویہ کہا کہ فلم سے لیا ہے ، تو عرض ہے کہ یہ باتیں بے شک ہر جگہ فلموں میں بھی ہوتی ہیں ،
    ہم توسمجھتے ہیں کہ فلمیں زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ ان میں تمام برائیوں کو اسلام کے حوالےسے انجام دیا جاتاہے ،-
    یہی تو میں بھی کہہ رہاہوں، اوروہ نکتہ ہے ’’لومیرج‘‘ جیسا کہ آپ نے لکھا اس لئے یہاں پسند کی شادی والے معاملے کو الگ ہی رکھیں ۔

    ہم مسلمانوں کے اوصاف نہیں ’’لومیرج‘‘ کی عملی شکل دکھلارہے ہیں ۔

    لیکن یہ توضروری ہے کہ آپ اس کی تردید کریں۔

    مارے گھٹنہ پھوٹے سر ہم نے ’’لومیرج‘‘ کی بات کی ہے ’’پسند کی شادی‘‘ کی نہیں ، اس لئے کم از کم اپنے ہی مشورے پر عمل کریں جو یہ ہے۔


    لومیرج کی اصطلاحی مفہوم کوسامنے رکھیں گے تو سارا تعلق سمجھ میں آجائے گا، اوراگرآپ کی طرح کوئی صرف لغوی معنی دیکھ کرفیصلہ کرے تو ’’دھشت گردی ‘‘ اور’’بنیادپرستی‘‘ عین اسلام ہے۔

    یہ باتیں نثر میں بھی کہی جاتی ہیں ۔


    کاش اس مشورے پرآپ خود عمل کرتے!!!!!!!!!!!!!1

    اس تحمل مزاجی کے نتیجہ میں ڈاکڑاسراراحمد کے بقول ہمارے ملک میں شراب نوشی کوجائزقراردیاگیا اورہمارے اساتذہ کے بقول مصر میں لواطت کو قرانی تعلیمات کے موافق قراردیاگیاہے۔

    کیا یہی دین کی سمجھ ہے کہ جس شادی کو آدھا دین کہا گیا ہو، ہمارا یہ آدھا دین اہل مغرب کی غلیظ مصطلحہ ’’لومیرج ‘‘ کا محتاج ہے۔

    پھراچھے لوگوں کو آپ ’’لومیرج‘‘ کی دلدل میں کیوں پھنسارہے ہیں؟؟؟؟؟؟

    سچ اورحق کا فیصلہ صرف اورصرف کتاب سنت سے ہوگا، اوراصطلاحات کو لغوی معنی پہنا کرموشگافیاں کرنے کی کتاب وسنت میں‌ کوئی گنجائش نہیں ۔



     
    Last edited by a moderator: ‏اپریل 22, 2011
  15. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951


    محترم ۔ کیسی وکالت ۔ ہم نے آپ سے کب بحث کی ہے ۔ اگر اللہ اوراس کے نبی کو اتھارٹی قرار دینا وکالت ہے تو یہ طعنہ بھی قبول ہے ۔ میرے مراسلے میں‌کوئی ایسی بات نہیں جس کو بے کار بحث کہ سکیں ‌۔ ہم نے تو صرف یہ کہا تھا کہ یہ اتھارٹی والی بات صحیح نہیں‌۔ اتھارٹی صرف قرآن و حدیث کی ہے ۔ اس میں ناراض ہونے والی کوئی بات نہیں‌۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے ۔
     
  16. جاسم منیر

    جاسم منیر Web Master

    شمولیت:
    ‏ستمبر 17, 2009
    پیغامات:
    4,636
    جزاک اللہ خیرا کفایت اللہ بھائی۔ ماشاءاللہ آپ نے بہت اچھے انداز میں‌ سمجھایا۔
    صرف بات اتنی سی ہے کہ "لو میریج" کا لفظ جب بھی استعمال ہو گا تو اس سے وہی مراد لیاجائے گا جو کہ ایک بہت ہی غلط حرکت ہے، کہ جس میں نہ لڑکی کی طرف سے کوئی ولی، اور نہ لڑکےکی طرف سے کو ئی رشتہ دار، یا جسے کورٹ میریج کہتے ہیں جہاں‌ لڑکا لڑکی جا کر اپنا نکاح خود پڑھوا لیتے ہیں۔ یہ شادی بالکل حرام ہے، یہی آپ کی بات کا خلاصہ ہے جو آپ نے بہت اچھے انداز میں سمجھایا۔
    ہاں‌ وہ شادی، جو دونوں‌ خاندانوں کی باہمی رضامندی سے ہو، لڑکا اور لڑکی کی پسند بھی شامل ہو، تو اسے "لو میریج" جیسے الفاظ سے تعبیر نہیں دیا جا سکتا۔
    جزاکم اللہ خیرا۔
     
  17. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    :00001: ہم آپ کی بات سے 100پرسنٹ ایگری کرتے ہیں‌
     
  18. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    بھائی جی اسے ارینجڈ میرج بھی نہیں کہتے۔ اگر لڑکا لڑکی نے پہلے ایک دوسرے کو پسند کی ہو اور ان کے گھر والے بعد رشتہ طے کر دیں تو یہ تو لو اینڈ ارینجڈ میرج بن گئی جس میں مرد و زن کا قبل از نکاح اختلاط شامل ہے اور وہ بھی گھر والوں کے علم میں‌لائے بغیر۔
    اگر پہلے خاندان والوں نے رشتہ طے کیا ہو اور بعد میں لڑکا لڑکی ایک دوسرے سے قبل از نکاح "محبت" کرنے لگیں تو موجودہ زمانے کے مطابق یہ ارینجڈ اینڈ لو میرج بن جائے گی۔ جس میں پھر نامحرم سے گفتگو کی قباحت شامل ہے۔
    صحیح طریقہ یہی ہے کہ پہلے گھر والے لڑکی دیکھیں اور پھر لڑکے کو ایک بار دکھا دیں۔ اس کے بعد ان کی گفتگو نکاح کے بعد ہی ہو ورنہ بہت سے کیسز ایسے ہوتے ہیں کہ رشتہ طے ہونے کے بعد اسی گفتگو کے دوران رشتہ ٹوٹ جاتا ہے اور وجہ معمولی ہوتی ہے اور نتیجتا" لڑکے کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا مگر لڑکی منگنی ٹوٹنے کی وجہ سے بدنام ہو جاتی ہے۔ اس لیے جہاں جہاں شادی سے پہلے "لو" کا لفظ آتا ہے، میرے نزدیک اس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
     
  19. کنعان

    کنعان محسن

    شمولیت:
    ‏مئی 18, 2009
    پیغامات:
    2,852
    السلام علیکم!

    شادی کے لئے دو لفظ ہیں لو میرج، ارینجڈ میرج۔

    جو شادی لڑکا، لڑکی اپنی پسند پر گھر والوں کو آگاہ کرتے ہیں اور وہ گھر والوں کی رضامندی سے ہی ہوتی ھے تو پھر بھی اسے " لو میرج" ہی کہا جاتا ھے۔ "لو اینڈ ارینجڈ میرج" کوئی لفظ نہیں ھے۔

    ارینجڈ میرج وہی ہوتی ھے جس میں گھر والے خود اپنی اولاد سے پوچھتے ہیں کہ ہم تمہارا رشتہ فلاں جگہ تہہ کرنا چاہتے ہیں تم اس پر اپنی مرضی بتا دو تو اس پر اولاد اپنے والدین کے اس فیصلہ کو بخوشی قبول کرتے ہیں یا ایسی اولاد اپنے والدین کو خود ہی کہہ دیتی ھے کہ شادی کے معاملے میں اسے والدین کے کسی بھی فیصلہ پر انکار نہیں ہو گا جیسا وہ چاہیں کریں۔

    والسلام
     
  20. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    یہ دور جدید کی نئی اصطلاحات ہیں جن کا یہاں استعمال شروع ہو چکا ہے۔۔۔۔۔ آپ کو نہیں پتا تو اس میں میرا کیا قصور؟؟؟

    حوالہ یہاں ملاحظہ فرمائیں

     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں