کثرت سے قسم اٹھانا مذموم ہے

فاروق نے 'غاية المريد فی شرح کتاب التوحید' میں ‏جولائی 10, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. فاروق

    فاروق --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏مئی 13, 2009
    پیغامات:
    5,127
    باب:61-- کثرت سے قسم اٹھانا مذموم ہے۔(1)
    اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
    [qh](وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ (سورة المائدة5: 89))[/qh]
    “اور تم اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔” یعنی جب قسم اٹھاؤ تو اسے پورا کرو۔

    ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
    [qh](الحَلِفُ مُنَفِّقَةٌ لِلسِّلْعَةِ، مُمْحِقَةٌ لِلْبَرَكَةِ)[/qh](صحیح البخاری، البیوع، باب “یمحق اللہ الربوا ویربی الصدقات”، ح:2087 و صحیح مسلم، المساقاۃ، باب النھی عن الحلف فی البیع، ح:1606)
    “قسم ، اشیاء کی فروحت کا ذریعہ تو ہے مگر اس سے برکت اٹھ جاتی ہے۔”(2)

    سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    [qh](ثَلاَثَةٌ لا يُكَلِّمُهُمُ الله وَلاَ يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: أُشَيْمِطٌ زَانٍ، وَّعَائِلٌ مُّسْتَكْبرٌ، وَّرَجُلٌ جَعَلَ الله بِضَاعَتَهُ، لا يَشْتَرِي إِلاَّ بِيَمِينِهِ، وَلاَ يَبِيعُ إِلاًّ بِيَمِينِهِ) معجم الطبراني، رقم:6111)[/qh]
    “تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے (قیامت کے دن)اللہ تعالی نہ تو بات کرے گا اور نہ انہیں(گناہوں سے)پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا:
    (1) بوڑھا زانی۔ (2) متکبر فقیر۔ (3) اور وہ شخص جس نے اللہ تعالی کو اپنی تجارت کا سامان سمجھا ہوا ہے کہ اس کی قسم ہی خرید تا ہے اور اس کی قسم ہی سے بیچتا ہے۔”(3)

    عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    [qh](خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ قَالَ عِمْرَانُ فَلاَ أَدْرِي: أَذَكَرَ بَعْدَ قَرْنِهِ قَرْنَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا - ثُمَّ إِنَّ بَعْدَكُمْ قَوْمًا يَشْهَدُونَ وَلاَ يُسْتَشْهَدُونَ، وَيَخُونُونَ وَلاَ يُؤْتَمَنُونَ، وَيَنْذُرُونَ وَلاَ يَفُونَ، وَيَظْهَرُ فِيهِمُ السِّمَنُ)[/qh](صحیح البخاری، فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، باب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ومن صحب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ...،ح:3650 وصحیح مسلم، فضائل الصحابۃ، باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونھم، ح:2535)
    “میری امت کا سب سے بہتر زمانہ ، میرا زمانہ ہے ۔ پھر وہ جو اس کے بعد ہوگا، پھر وہ جو اس کے بعد ہوگا۔” (حضرت عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، مجھے یاد نہیں پڑتھا کہ آپ نے اپنے زمانے کے بعد دو زمانوں کا ذکر کیا تھا، یا تین کا ؟) پھر آپ نے فرمایا “پھر تمہارے بعد ایسے لوگ ہوں گے جو بلا طلب گواہی دیں گے، خائن ہوں گے، امانت دار نہیں ہوں گے، نذر مانیں گے تو پوری نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہوگا۔”

    عبد اللہ بن مسعود رضی للہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    [qh](خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَجِيءُ قْوَمٌ تَسْبِقُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ يَمِينَهُ، وَيَمِينُهُ شَهَادَتَهُ)[/qh](صحیح البخاری، فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم باب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم و من صحب النبی...، ح:3651 و صحیح مسلم، فضائل الصحابۃ، باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم، ح:2533)
    “سب سے بہتر لوگ میرے زمانے کے ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد ہوں گے، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے، پھر ایسے لوگ آئیں گے جن کی گواہی، قسم پر اور ان کی قسم، گواہی پر سبقت لے جائے گی۔”

    (یعنی وہ لوگ گواہی اور قسم کے بارے میں ازحد غیر محتاط ہوں گے اور وہ آنا فانا بغیرسوچے سمجھے قسم اور گواہی کے لیے تیار ہو جائیں گے)
    ابراھیم نخعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارے بچپن میں ہمارے بزرگ گواہی اور عہد پر قائم رہنے کی تربیت کی خاطر ہمیں سزا دیا کرتے تھے۔(4)


    مسائل
    1) باب کے آغاز میں سورۂ مائدہ کی مذکورہ آیت کریمہ 89 میں قسموں کی حفاظت اور انہیں پورا کرنے کا تاکیدی حکم ہے۔
    2) حدیث سے ثابت ہوا کہ قسم اشیاء کی فروخت کا ایک ذریعہ تو ہے مگر اس سے برکت ختم ہو جاتی ہے۔
    3) دوسری حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص مال خریدتے اور بیچتے وقت خواہ مخواہ قسمیں اٹھائے اس کے لیے سخت وعید ہے۔
    4) یہ تنبیہ بھی ہے کہ اگرچہ اسباب گناہ صغیرہ ہی کے ہوں مگر میلان کے سبب صغیرہ گناہ بھی کبیرہ بن جاتے ہیں۔
    5) حدیث میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو قسم اٹھوائے بغیر، ازخود خواہ مخواہ قسمیں اٹھاتے ہیں۔
    6) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرون ثلاثہ یا قرون اربعہ کی مدح فرمائی ہے اور ان کے بعد جو حالات پیدا ہونے والے تھے، آپ نے ان کی پیش گوئی بھی فرمادی۔
    7) اور ان لوگوں کی مذمت بھی فرمائی جو گواہی طلب کیے بغیر گواہی دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
    8) ابراھیم نخعی رحمتہ اللہ علیہ کے اثر سے ثابت ہوا کہ امت کے اسلاف، اولاد کی اسلامی تربیت کی خاطر انہیں گواہی اور عہد پر قائم رکھنے کے لیے سزا دیا کرتے تھے۔

    نوٹ:-
    (1) بہت زیادہ قسمیں اٹھانا تو حید کے خلاف ہے۔ جس شخص کا عقیدۂ توحید پختہ اور راسخ ہو وہ قسم اٹھاتے وقت اللہ تعالی کو درمیان میں نہیں لاتا۔ لغو قسم اگرچہ معاف ہے اور اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں تاہم مستحب یہ ہے کہ موحد آدمی اپنی زبان اور دل کو قسم کی کثرت سے محفوظ رکھے۔
    (2) یہ گویا ایک قسم کی سزا ہے کیونکہ اشیاء کی فروخت میں قسمیں اٹھانا اور اللہ تعالی کے نام کو درمیان میں لانا اس کی عظمت کے خلاف ہے۔
    (3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خریدو فروخت کے وقت بے جا اللہ کی قسمیں اٹھاتے رہنا کبیرہ گناہ ہے۔
    (4) یعنی اسلاف، اللہ تعالی کی تعظیم دلوں میں راسخ کرنے کے لیے اپنی اولاد کی اس انداز سے تربیت کیا کرتے تھے۔
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں