کھیتران، زاہدحنا اور سعد رفیق کے ماموں: انوار احمد کی تحریر

زبیراحمد نے 'متفرقات' میں ‏اگست 22, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    شیخ رشید احمد کی اکلوتی شہرت کے علاوہ ، انہیں کئی واقعات،کرداروں اور فقروں نے بھی مشہور کیا ہے، پر یہاں مجھے ان کی شاید اکلوتی کتاب فرزندِ پاکستان یاد آرہی ہے،جس کے پورے سرِ ورق پر ان کی تصویر چھپی ہے اور نیچے کمال معصومیت سے لکھ دیا گیا ہے،قیمت۶۰۰ روپے، لیکن اسی کتاب میں بہاولپور جیل کے ایک قیدی کا تاریخی قول درج ہے کہ پاکستان میں کوئی وکیل کرنے کی بجائے ایک جج ہی کر لینا چاہیئے۔

    اگر ان کے ایک اور پیٹی بھائی محمد علی درانی کی جگہ بہاولپور جیل کا یہ قیدی ریاست بحالی کی تحریک چلا رہا ہوتا تو میں بھی اپنے بعض دوستوں اور شاگردوں کی طرح قائل ہو جاتا کہ سرائیکی صوبہ بھی بنے اور ریاست بہاولپور بھی بحال ہو جائے یا آیندہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والے سرائیکی صوبے کا دارالحکومت میرے ملتان کی بجائے،مولوی لطف علی ، محمد خالد اختر ،اور نصراللہ ناصرکا بہاولپور بن جائے۔ بہرطور اسی فرزندِ پاکستان نے کسی سوتیلی ماں جیسی دوہری کرب انگیز آواز میں کہا ہے کہ اپنے خود کے لئے درد اور مقتولین کے خاندان کی ایک نشانی کے لئے حسرت موجود ہے ’’نواز شریف کی بے وقوفی نے زرداری کو ساڑھے تین سال دے دئیے ہیں‘‘۔

    اسی طرح نظریہ پاکستان کے نام پر قائم املاک کے ٹرسٹی جناب مجید نظامی نے کہا ہے’’افسوس،نواز شریف نے اپنا ووٹ بینک برباد کر لیا ہے‘‘۔ یہ بھی یاد رہے کہ موصوف نے ایک سال قبل وزیراعظم گیلانی سے اپنے اسی ٹرسٹ کے نام پر دس کڑور کا چندہ بھی لیا تھا۔

    مجھے یاد ہے کہ دو برس پہلے جب میں ہیروشیما کے تاریخی میوزیم سے پر نم آنکھوں سے نکلا تھا،جس میں سینکڑوں نہ لوٹ سکنے والے بچوں کی ماؤں کی کرلاتی روحوں کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں،جنہیں اپنے بچوں کے جھلسے ہوئے بستے،کتابیں،چھاگلیں،سکارف اور جوتے پہچاننے کے درد ناک تجربے سے گزرنا پڑا تھا،تبھی میَں نے ہیروشیما امن کمیٹی کے ایک محضرنامے پر دستخط کئے تھے،جس میں مستقبل کے بچوں کو ایٹم کی تباہ کاریوں سے بچانے کی اپیل کی گئی تھی۔ البتہ جب اس کمیٹی کی ایک رکن نے میرے نام کے ساتھ میرے ملک کا نام پڑھ کر انہی محترم صحافی کے بیان کا جاپانی اخبار میں چھپنے والاتراشہ پیش کیا تھا،جس میں خود کُش حملوں سے نڈھال ملک کے ’نظرئیے ‘ کے بزعمِ خیال محافظ کی اس آرزو کا ذکر تھا کہ وہ ایٹم بم گلے میں باندھ کر بھارت کے کسی شہر پر کودنے کے لئے تیار ہیں۔ میری جاپانی زبان پر اتنی دسترس نہیں تھی کہ انہیں بتا سکتا کہ ہمارے اس بزرگوار کے پاس ابھی کودنے اور اوپر گرنے کے لئے اپنا بھتیجا عارف نظامی توہے ہی،اگر انہیں پاکستان کے کمزور جمہوری نظام پر کودنے کا موقع نہ مل سکے تو، یہ وہی حق شناس صحافی ہیں،جو نواز شریف کے لئے جابر سلطان سے مصالحت کا پیغام لے گئے تھے،جب وہ سعودی عرب میں جلاوطنی کے آیام کاٹ رہے تھے۔

    اسی مقام پر مجھے آنجہانی نظام اسلام پارٹی کے سربراہ مرحوم مولوی فرید احمد کی کتابThe Sun behind the clouds یاد آ رہی ہے جو ان کی ڈائری میں لکھی یاداشتیں ہیں جو پاکستان میں جیوتشیوں اور نجومیوں کی پیش گوئیوں پر بھروسہ کرنے والوں کے عبرت ناک انجام کو بھی ظاہر کرتی ہے۔مولوی فرید احمد کو کسی جیوتشی نے کہا تھا کہ بہت جلد قدرت نہ صرف ایک اہم کام ان سے لینے والی ہے،بلکہ ذمہ داری بھی تفویض کرنے والی ہے۔ کاش مولوی صاحب کی سیاسی بصیرت انہیں بتا سکتی کہ اس کتاب کو لکھنے اور’مکتی باہنی‘ کے ہاتھوں اذیت ناک موت کے سوا ان سے اور کوئی کام نہیں لیا جائے گا۔ تاہم انہوں نے فرض کر لیا کہ وہ پاکستان کے آیندہ سیاسی حکمران ہوں گے کیونکہ پاکستان کے پہلے مردِ آہن ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک کے دوران کم و بیش یہ طے ہو گیا تھا کہ اب ملک کی آیندہ قیادت مشرقی پاکستان سے ہوگی،سو اسی خوش خیالی میں یہ کتاب لکھی گئی۔ کچھ ہفتوں کے اندراج ظاہر کرتے ہیں کہ انہیں بنگالی نوجوانوں میں اصغر خان کی روز افزوں مقبولیت کا دھڑکا تھا، مگر ایک روز انہوں نے بڑی سرشاری سے لکھا’خدا کاشکر ہے کہ زیڈ، اے،سلہری نے اصغر خان کے حق میں لکھنا شروع کر دیا ہے،اب طوفانی لہریں کناروں سے بھی پیچھے ہٹ رہی ہیں‘

    بہر طور جنرل حمید گل اور جنرل اسلم بیگ کی جانب سے پاکستان کے جمہوری نظام کو باندھے ٹائم بم کے زائد المیعاد ہونے کے اندیشے نے کرائے کے بے روزگار قاتلوں کو تو افسردہ بلکہ سراسیمہ کر ہی دیا ہے۔ اسی غریب جمہوریت کے سہارے اختیار اور اقتدار کے مزے لوٹنے والوں میں سے بھی بعض کو دل شکستہ کر دیا ہے۔ میاں شہباز شریف،جب حبیب جالب کے یہ مصرعے بہت جذب اور سوزسے پڑھتے ہیں،

    ’ایسے دستور کو،صبحِ بے نور کو، میں نہیں مانتا،میں نہیں جانتا‘

    تو جانے کیوں یہ خیال آتا ہے کہ ان کا اشارہ موجودہ آئین کی طرف ہے،ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے صوبے کی چھ یونیورسٹیوں میں وائس چانسلروں کے تقرر میں ایک ناروا تاخیر کے مرتکب ہوتے،بلکہ ملتان اور سرگودھا کی یونیورسٹیاں تو ۶ ماہ سے ایک بے دانش انتظامی بحران کا سامنا کر رہی ہیں اور خادمِ اعلیٰ دانش سکول کا جال ویسے بچھانا چاہتے ہیں،جیسے حاکمین خان نے کبھی جیلوں کا جال بچھانے کی تمنا ظاہر کی تھی اور ملتان کے ایک ایم این اے ریاض قریشی نے کہا تھا کہ ہم برسرِ اقتدار آ کر غریوں کی تجہیز و تکفین مفت کریں گے۔

    اور تو اور چودھری نثار علی خاں بھی واپس آ کر درد کے اس رشتے سے جڑ گئے ہیں،انہوں نے یومِ آزادی پر سول ایوارڈز پر اپنے تلخ اسلوب میں اعتراضات کر دیئے ہیں حالانکہ ان ایوارڈز میں وہوا، تحصیل تونسہ کے سعداللہ خان کھیتران بھی شامل ہیں،جو ایک بزرگ گوشہ نشیں عالم ہیں،جنہوں نے خاموشی سے ایک جامع سرائیکی لغت مرتب کی ہے، ان ایوارڈ میں تو انقرہ یونیورسٹی میں ۸ برس اردو زبان پڑھانے کے بعد اب وہاں کے ایک سکول میں اردو پڑھانے والے استاد اے بی اشرف بھی ہیں،جنہوں نے اپنی ایک درجن کتب کے علاوہ ترکی اردو لغت بھی جلال صوئیدان کے ساتھ مل کر مرتب کی ہے

    یہ انعام تو جنرل مشرف ایسے ڈکٹیٹر کے دور میں ایسے ایوارڈ کو وصول کرنے سے انکار کرنے والی روشن ضمیر زاہدہ حنا کو بھی ملا ہے،یہ ڈاکٹر سہیل احمد خان، پروفیسر وارث میر اور ڈاکٹر ظہور احمد اعوان جیسے مرحومین کو بھی ملا ہے اور تو اور استادوں کے استاد ،اورینٹل کالج لاہور کے سابق پرنسپل اور پیناج یونیورسٹی کے پروفیسر ایمریطس ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کو بھی ملا ہے جن کا محض ثانوی حوالہ یہ ہے کہ وہ ایم این اے خواجہ سعد رفیق کے ماموں ہیں اور جنہیں میاں صاحب کے کسی دور میں اس طرح کے اعزاز کا حق دار کبھی خیال نہیں کیا گیا۔
    بشکریہ میڈیا
     

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں