شیخ فیاض صاحب تقریبا 35 سال سے طائف میں مقیم ہیں اور اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فضل الہی ، حافظ عابد الہی اور عبد المالک مجاہد صاحب کے دوستوں میں سے ہیں۔ کاروبار تو اب ان کے بچے سنبھالتے ہیں اور شیخ صاحب اپنا زیادہ تر وقت دینی سرگرمیوں میں صرف کرتے ہیں۔ ان کے ایک صاحبزادے کی شادی ہمارے ایک دوست کی بیٹی سے ہوئ۔ اسی سلسلہ میں پچھلے دنوں طائف جانا ہوا اور ان سے ملاقات ہوئ۔ کافی دلچسپ شخصیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے اپنے بچپن کا ایک واقعہ ہمیں سنایا جسے آپ دوستوں کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہوں۔ شیخ صاحب کے والد کی گاؤں میں سائکل مرمت وغیرہ کرنے کی دکان تھی۔ ایک دن سکول سے واپسی پر انہوں نے دیکھا کہ ان کے سکول کے استاد اپنی سائکل مرمت کرا رہے ہیں۔ دکان پر پہنچ کر انہوں نے والد صاحب سے پوچھا کے استاد جی کو کتنے پیسے بتائے ہیں۔ والد صاحب نے کہا کہ ڈیڑھ روپیہ بتایا تھا مگر تم سے پہلے تمہارا بڑا بھائ آیا تھا اس نے ایک چونی کم کرا دی ہے۔ میں نے والد صاحب سے کہا کہ ایک چونی میرے کہنے پر بھی کم کر دیں۔ والد صاحب نے کہا کہ چلو تمہارے کہنے پر ایک چونی اور کم کر دیتا ہوں۔ شیخ صاحب کے جانے کے بعد ان سے چھوٹا بھائ آیا اور اسی طرح اس نے بھی ایک چونی کم کرادی۔ اسی اثنا میں سائکل ٹھیک ہو گئی۔ استاد جی نے والد صاحب سے پوچھا کہ کتنے پیسے ہو گئے۔ والد صاحب نے کہا کہ میری مزدوری تو ڈیڑھ روپیہ تھی مگر آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ دیر پہلے میرے تین بیٹے ایک ایک کرکے آئے تھے ان تینوں نے ایک ایک چونی کم کرا دی ہے۔ ابھی میرے دو بیٹے باقی ہیں دو چونیاں ان کے حصہ بھی کم کردیں ۔ باقی بچی ایک چونی وہ میں اپنی طرف سے چھوڑ دیتا ہوں۔ آپ کی سائکل ٹھیک ہو چکی ہے اسے لے جائیے۔
سبق تو بہرحال ہے کہ استاد جو روحانی باپ ہوتا ہے اس کا احترام کیسے کیا جائے اور شاگردی کا حق ادا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے!