ھدایہ میں غیر ثابت مسائل علامہ ابن العز حنفی کی زبانی

رضا حسن نے 'غیر اسلامی افکار و نظریات' میں ‏ستمبر 30, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. رضا حسن

    رضا حسن رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2011
    پیغامات:
    111
    ۱: ’’مرغینانی حنفی صاحب نے کہا ہے کہ مرغی کی بیٹ ناپاک ہے ‘‘۔۔
    علامہ ابن ابی العز حنفی نے کہا کہ مرغی اور ماکول اللحم جانوروں کی بیٹ(گوبر) پاک ھے (التنبیہ ۱/۴۴۲،۴۴۷)
    ۲: مرغینانی حنفی صاحب نے کھا کہ درھم کے برابر گندگی کپڑے کو لگ جائے تو نماز پڑھنی جائز ھے ۔
    علامہ ابن ابی العز حنفی نے کھا کہ درھم سے اندازہ لگانے کے بارے میں شریعت میں کوئی چیز وارد نہیں (التنبیہ ۱/۴۴۱)
    ۳: مرغینانی حنفی صاحب نے کھا کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس بات کی شرط نہیں لگائی جائے گی کہ جس مٹی سے تیمم کرنا ہے اس مٹی پر غبار ھو۔
    علامہ ابن ابی العز حنفی نے کھا کہ آیت مٹی سے کچھ چمٹنے کے شرط ہونے پر دلالت کرتی ھے (التنبیہ ۱/۳۸۹)
    ۴: مرغینانی حنفی صاحب نے کھا کہ پانی کو تلاش کرنے میں ایک میل مقرر کرنا پسندیدہ ھے ۔
    علامہ ابن ابی العز حنفی کھا کہ ایک میل مقرر کرنے میں کوئی شرعی نص نہیں ھے (التنبیہ ۱/۳۸۱)
    ۵: مرغینانی حنفی صاحب نے کھا کہ نبیذ سے وضو کرنا درست ھے ۔
    علامہ ابن ابی العز حنفی کھا کہ کھجور کی بنی ھوئی نبیذ سے وضو کرنے والی حدیث ثابت نہیں ہے (التنبیہ ۱/۳۷۵)
    ۶: مرغینانی حنفی صاحب نے کھا کہ سر کے مسح میں فرض سر کا چوتھائی حصہ ھے ۔
    علامہ ابن ابی العز حنفی کھا کہ صرف سر کا چوتھائی حصہ مسح کرنا ثابت نہیں ہے (التنبیہ ۱/۲۴۵،۲۵۳)
    ۷: مرغینانی حنفی صاحب نے کھا کہ وضو میں مسواک کرنا مستحب ھے ۔
    علامہ ابن ابی العز حنفی نے کھا کہ صحیح ثابت یہ ھے کہ یہ سنت موکدہ ھے (التنبیہ ۱/۲۵۵،۲۵۷)
    ۸: مرغینانی حنفی صاحب نے کھا کہ وضو میں ترتیب سنت ھے ۔
    علامہ ابن ابی العز حنفی کھا کہ وضو میں ترتیب واجب ھے (التنبیہ ۱/۲۷۷،۲۷۹)
    ۹: مرغینانی حنفی صاحب نے کھا کہ نماز میں قہقہ لگانے سے نماز اور وضو دونوں ٹوٹ جاتے ہیں ۔
    علامہ ابن ابی العز حنفی نے کھا کہ اس روایت کی تمام سندیں ضعیف ہیں (التنبیہ ۱/۲۹۴)
    ۱۰: مرغینانی حنفی: کپڑے کو گائے کا گوبر درھم کی مقدار سے زیادہ لگ جائے تو اس کپڑے میں نماز پڑھنا جائز ھے ۔
    علامہ ابن ابی العز حنفی :ماکول اللحم کا گوبر پاک ھے (التنبیہ ۱/۴۴۴،۴۴۷)
    ۱۱: مرغینانی حنفی: درھم کی مقدار کے برابر یا اس سے کم نجاست کپڑے کو لگ جائے تو اس میں نماز جائز ہے ۔
    علامہ ابن ابی العز حنفی : درھم کی مقدار کے بارے میں شارع علیہ السلام سے کوئی نص ثابت نہیں ہوئی (التنبیہ ۱/۴۴۱)
    ۱۲: مرغینانی حنفی: نجاست مغلظہ جیسے مرغی کی بیٹ ۔۔۔
    علامہ ابن ابی العز حنفی : مرغی کی بیٹ کے نجس ھونے پر دلیل قطعی کہاں ہے (التنبیہ ۱/۴۴۰،۴۴۳)
    ۱۳: مرغینانی حنفی: ایسی مٹی سے تیمم کرنا درست نہیں جہاں پر گندگی ھو اور سورج کی گرمی کی وجہ سے وہ خشک ھو گئی ھو۔
    علامہ ابن ابی العز حنفی : ایسی مٹی سے تیمم کرنا جائز ھے وہاں پر جب نماز جائز ھے تو تیمم بھی جائز ھے (التنبیہ ۱/۴۳۸،۴۴۰)
    ۱۴: مرغینانی حنفی : منی نجس ھے
    علامہ ابن ابی العز حنفی : رسول اللہ سے منی کے متعلق کوئی ایسی حدیث ثابت نہیںٖ جو منی کے نجس ھونے پر دلالت کرے (التنبیہ ۱/۴۳۲،۴۳۶)
    ۱۵: مرغینانی حنفی : استخاضہ والی عورت سے وطی کرنے پر اجماع ھے ۔
    علامہ ابن ابی العز حنفی : اس میں علماء کا اختلاف ھے اجماع نہیں ھے (التنبیہ ۱/۴۱۷،۴۱۹)
    ۱۶: مرغینانی حنفی : حیض کے ختم ھونے کے غسل کرنے سے پہلے جماع کرنا درست ھے ۔
    علامہ ابن ابی العز حنفی : حیض کے ختم ھونے کے غسل کرنے سے پہلے جماع نہ کرنا زیادہ قوی بات ھے (التنبیہ ۱/۴۱۵،۴۱۶)
    ۱۷: مرغینانی حنفی : حیض کی کم ازکم مدت تین دن اور تین راتیں اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن اور دس راتیں ھے ۔
    علامہ ابن ابی العز حنفی : حیض کی کم ازکم اور زیادہ سے زیادہ مدت مقرر کرنے میں کوئی حدیث رسول اللہ سے نہیں ھے (التنبیہ ۱/۴۰۳،۴۰۹)
    ۱۸: مرغینانی حنفی : پگڑی پر مسح کرنا جائز نہیں ھے ۔
    علامہ ابن ابی العز حنفی : رسول اللہ سے پگڑی پر مسح کرنا ثابت ھے اور ھم بھی یہی کہتے ھیں (التنبیہ ۱/۳۹۸،۴۰۱)
    ۹: مرغینانی حنفی : جس موزوں پر مسح جائز سمجھتے ھوئے عزیمت سمجھتے ھوئے ان پر مسح نہ کیا وہ ماجور ھو گا ۔
    علامہ ابن ابی العز حنفی :اس میں نظر ھے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بے شک اللہ تعالی پسند کرتے ھیں کہ اس کی رخصتوں کو لیا جائے جس طرح ناپسند کرتے ھیں کہ نافرمانی کے کاموں کو کیا جائے (مسند احمد ۲/۱۴۵،۱۴۶اتفق ألأئمۃ علی صحتہ ،صحیح ابن خزیمہ ۲/۷۳)
    ۲۰: مرغینانی حنفی :ٖپامی کے ملنے کی امید ہو تو نماز کو مؤخر کرنا درست ہے
    علامہ ابن ابی العز حنفی :اس میں نظر ہے کیونکہ تیمم کے ساتھ نماز پڑھنا پانی کے نہ ملنے کی حالت میں وضو کے ساتھ نماز پڑھنے کی طرح ہے پانی پر قدرت ہونے کی حالت میں نماز کو اول وقت پڑھنے کی فضیلت حاصل کرنا اولی ہے(التنبیہ:۱/۳۹۴)
    ۲۱: مرغینانی حنفی :جس نے موزوں پر مسح کو جائزسمجھا لیکن عزیمت پر عمل کرتے ہوئے تو اس کو اجر دیا جائے گا۔
    :علامہ ابن ابی العز حنفی :اس میں نظر ہے کیونکہ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بے شک اللہ تعالی پسند کرتے ھیں کہ اس کی رخصتوں کو لیا جائے جس طرح ناپسند کرتے ھیں کہ نافرمانی کے کاموں کو کیا جائے (مسند احمد ۲/۱۴۵،۱۴۶اتفق ألأئمۃ علی صحتہ ،صحیح ابن خزیمہ ۲/۷۳)
    ۲۲: مرغینانی حنفی :خنزیر کے علاوہ باقی غیر ماکول اللحم جانوروں کو ذبح کرنے سے ان کا گوشت پاک ہوجاتا ہے
    :علامہ ابن ابی العز حنفی :مشائخ ایک جماعت سے صحیح ثابت ہے کہ وہ غیر ماکول اللحم جانوروں کے ذبح کے بعد گوشت کے پاک ہونے کے قائل نہیں تھے اور یہی بات صحیح ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن ان ہانڈیوں کے متعلق فرمایا جن میں گھریلو گدھوں کاگوشت تھا کہ ان کو انڈیل دو اور ان کو توڑ دو تو ایک آدمی نے کہا :یا ہم ان کو انڈیل ان کو دھو لیں آپ ﷺ نے فرمایا :ایسے کر لو۔(صحیح البخاری:۴۱۹۶،صحیح مسلم:۱۲۳)اگر ذبح کرنے سے وہ پاک ہو جاتے تو ھانڈیوں کو دھونے کی طرف دلیل قائم نہ کی جاتی(التنبیہ:۱/۳۴۵)
    ۲۳: مرغینانی حنفی :کیونکہ ذبح کرنا چمڑے کو رنگنے کی طرح ہے نجاست والی رطوبتوں کو زائل کرنے میں
    علامہ ابن ابی العز الحنفی:اس میں نظر ہے کیونکہ رطوبتیں ذبح کرنے سے زائل نہیں ہوتیں بے شک ذبح کرنے سے دم مسفوح نکلتا ہے صرف دم مسفوح کو نکالنا ذبح کی وجہ سے اس کو پاک کرنے والا نہیں ہے اور اسی وجہ سے مجوسی کا ذبیحہ جائز نہیں ہے (التنبیہ:۱/۳۴۵۔۳۴۶)

    www.Albisharah.com - ھدایہ میں غیر ثابت مسائل علامہ ابن العز حنفی کی زبانی :1

    www.Albisharah.com - ھدایہ میں غیر ثابت مسائل علامہ ابن العز حنفی کی زبانی قسط2
     
  2. آفتاب علی

    آفتاب علی -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏جون 25, 2012
    پیغامات:
    36
    السلام علیکم
    ھدایہ کے مسائل اور ان کا جواب

    مولانا محمد ابو بکر صاحب غازیپوری


    محترم مولانا محمد ابو بکر صاحب غازیپوری دامت برکاتہم

    السلام علیکم و رحمة اﷲ و برکاتہ،

    الحمد ﷲ و کفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی

    گذارش خدمت میں یہ ہے کہ ریاض سعودی عرب سے ایک پمفلٹ مولانا انظر صاحب قاسمی بنگلور کے نام آیا ہے، اس پمفلٹ کو اور اس جیسے دوسرے پمفلٹ کو غیر مقلدین ریاض اور سعودی عرب کے دوسرے شہروں میں شائع کر کے عوام میں فتنہ پھیلاتے ہیں اور فقہ حنفی کے خلاف جذبات بھڑکاتے ہیں، مولانا انظر صاحب نے گذارش کی ہے کہ میں اس پمفلٹ کو آپ کے پاس بھیج دو آپ ان مسا ئل کے بارے میں روشنی ڈالیں تاکہ آپکاجو اب ریا ض بھیج دیا جائے نیز زمزم میں بھی شائع کر دیں تاکہ عام لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھائیں۔

    والسلام

    سید محمود قادری بیجا پور

    زمزم !

    زمزم رسالہ میں اس کا اعلان کیا جا چکا ہے کہ "بلا نام" یا "فرضی نام" سے کسی شائع کردہ تحریر کا کوئی جواب نہیں دیا جائے گا۔آپ نے جو پمفلٹ بھیجا ہے اس کا حال بھی یہی ہے کہ تحریر شائع کرنے والے کو یہ ہمت نہ ہو سکی کہ اپنا نام اور پورا پتہ ذکر کرتا،ایسی بے وزن اور غیر سنجیدہ تحریر کا کیا جواب دیا جائے۔

    ۲ - اعتراض اگر برائے اعتراض ہو تو اس کا سلسلہ ختم نہیں ہو سکتا، آپ جواب دیتے رہیں گے اور معترضین اعتراضات کرتے رہیں گے، پھر جواب دینے کا فائدہ کیا۔

    ۳ - سوال اگر سنجیدہ ہو اور سوال کرنے کا مقصود بھی مسئلہ کو سمجھنا ہو تو اس کا جواب دیا جا سکتا ہے لیکن اگر سوالات سے مقصود محض فتنہ انگیزی ہو اور اس کا محرک خباثت نفس ہو تو اس کا جواب دینا محض وقت کا برباد کرنا ہے۔

    ۴- مسائل کے ساتھ اگر دلائل بھی مذکور ہوں تو مسائل پر اعتراض کرنا جہالت ہے، اہل علم دلائل کو دیکھتے ہیں، اگر کسی کو اعتراض ہی کرنا ہے تو وہ دلائل پر اعتراض کرے اور ان کی کمزوری کو واضح کرے، آج کل غیر مقلدین کا حال یہی ہے کہ چونکہ ان کا مقصد محض فتنہ انگیزی و شر انگیزی ہوتا ہے، اس وجہ سے وہ مسائل کے دلائل پر اعتراض نہیں کرتے صرف مسائل ذکر کر دیتے ہیں تاکہ عوام ان مسائل کی ظاہری شکل سے پریشان ہوں، آپ کے پمفلٹ کا حال بھی یہی ہے کہ عوام کو ورغلانے اور فقہ سے نفرت دلانے کےلئے ہدایہ سے چند مسائل ذکر کر دیئے، اور ان کی شکل گھنانی بنا کر دکھلائی ان مسائل کے دلائل پر اعتراض کرنے کی معترض کو ہمت نہ ہو سکی۔

    ۵- اگر مسائل کے ساتھ دلائل بھی مذکور ہوں تو صرف مسائل کو ذکر کرنا اور ان کے دلائل کو ذکر نہ کرنا خباثت نفس ہے، اور صریح خباثت ہے، موجودہ وقت کے غیر مقلدین افسوس اس قسم کی خباثتوں کا ارتکاب کر کے اپنی خباثت نفس کو ظاہر کرتے ہیں، اس پمفلٹ کا حال بھی یہی ہے کہ ہدایہ سے صرف مسئلوں کو ذکر کر دیا صاحب ہدایہ نے جو عقلی و نقلی دلائل ذکر کئے ہیں ان کا کسی مسئلہ کے ضمن میں اشارہ تک نہیں ہے۔

    ۶- اگر کسی کا مقصود محض فتنہ انگیزی نہ ہو اور وہ دین و دیانت سے بالکل محروم نہ ہو تو وہ کتاب کا پورا مسئلہ ذکر کرے گا، مسئلہ میں کاٹ چھانٹ نہیں کرے گا، آپ کے پمفلٹ والے کا حال یہ ہےکہ ہدایہ سے مسائل تو ذکر کرتا ہے مگر دیانت سے کام نہیں لیتا، خیانت کرتا ہے، اور پورا مسئلہ نقل نہیں کرتا، خیانت کے اس ارتکاب کی وجہ سے مسئلہ کی صحیح شکل سامنے نہیں آتی۔

    ۷- ان مسائل پر اعتراض کرنا جو خود غیر مقلدوں کی کتابوں میں مذکور ہیں حد درجہ کی جہالت ہے، پہلے غیر مقلدوں کو اپنے گھر کی خبر لینی چاہئے، اور اپنی کتابوں کو ان مسائل سے پاک و صاف کر لینا چاہئے جو فقہ اہلحدیث میں تالیف کی گئی ہیں۔

    غیر مقلدوں کی جہالت و سفاہت کا عجیب حال ہے کہ جو مسئلے خو دان کی کتابوں میں مذکور ہیں اور جن کو وہ فقہ اہلحدیث کہتے ہیں وہی مسائل اگر فقہائے احناف کی کتابوں میں بھی مذکور ہوں تو ان پر بھی وہ اعتراض کرتے ہیں، احناف دشمنی میں ان کو اس کا بھی خیال نہیں رہتا کہ اس طرح وہ خود اپنے فقہ اہلحدیث کا بھی مذاق اڑاتے ہیں اور اپنی کتابوں سے جاہل ہونےکا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔

    ۸- مسائل شرعیہ کا مذاق اڑانا اتنا بڑا دینی جرم ہے کہ اس سے ایمان جانے کا خطرہ ہے، غیر مقلدین چونکہ ایمان سے محروم ہیں اور ان کی مسلمانی محض نام کی ہے، اس وجہ سے وہ دینی و شرعی مسائل کا مذاق اڑاتے ہیں اور وہ اس بارے میں بہت بے باک ہو چکے ہیں۔

    قرآن میں ہے نساءکم حرث لکم فاتو احرثکم انی شئتم اگر کوئی بد بخت اس آیت کا مذاق بنائے تو اس کا ایمان محفوظ نہیں رہے گا۔

    حدیث میں ہے۔ آنحضورﷺ حالت صوم میں ازواج کا بوسہ لیتے تھے، اگر کوئی اس کا مذاق بنائے اور آنحضورﷺ کے اس فعل پر اعتراض کرے تو اس کا ایمان جاتا رہے گا۔

    بیوی اگر حالت حیض میں ہو تو مباشرت فاحشہ کے علاوہ اس کے بدن کے ہر حصہ سے تلذذ حاصل کیا جا سکتا ہے، اس کا بیان احادیث میں ہے، اگر کوئی بدبخت عورت کے بدن کے ایک ایک حصہ کا نام لے کر نبوی تعلیمات و ہدایات کو مذاق بنائے تو اس کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہئے۔

    غرض ایسے مسائل جن کا ذکر کتاب و سنت میں ہے اور انہی کی روشنی میں ان جیسے دوسرے مسائل کو بھی فقہاءنے اپنی کتابوں میں ذکر کر کے ان کا حکم کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کیا ہے، ان کا مذاق وہی شخص اڑائے گا جو ایمان کی دولت سے محروم ہے غیر مقلدین کا مسائل فقہیہ و شرعیہ کے ساتھ تمسخر اور مذاق اڑانے کا موجودہ انداز بتلا رہا ہے کہ وہ ایمان کی دولت سے محروم ہو چکے ہیں۔

    ۹- فقہ میں ان تمام مسائل سے گفتگو کی جاتی ہے جو انسان کی زندگی میں پیش آتے ہیں ، اور ان کا شرعی حکم بتلایا جاتا ہے، ان میں ایسے مسائل بھی ہوتے ہیں جن کا عام حالات میں زبان پر لانا اچھا نہیں سمجھا جاتا مگر شرعی ضرورت کے تحت ان مسائل کا بھی ذکر فقہ کی کتابوں میں ہوتا ہے، اور فقہ اسلامی کی یہ عین خوبی ہے کہ وہ زندگی میں پیش آنے والے تمام مسائل کو محیط ہوتا ہے۔

    اب جن کا نفس خبیث ہوتا ہے اور جن کی سرشت زبوں ہوتی ہے وہ اپنی خباثت نفس کا اظہار کرنے کے لئے فقہ کی کتابوں سے ان مسائل کو چن چن کر جمع کر کے شائع کرتے ہیں جن کا ذکر کرنا عام حالات میں مناسب نہیں ہوتا ہے اور جاہل لوگ اس طرح مسلمانوں میں فقہ کی دشمنی میں خود اسلام دشمنی اور شریعت دشمنی کا اظہار کرتے ہیں، یہ کہنا تو درست ہے کہ اﷲ ہر چیز کا خالق ہے مگر یہ کہنا کہ کیا وہ بندر کا بھی خالق ہے سور کا بھی خالق ہے، مکھی مچھر کا بھی خالق ہے اور اس کو مذاق بنا لینا قطعاً حرام ہے، ضرورتاً تو اس کا اظہار کیا جا سکتا ہے مگر مذاق کے طور پر اس طرح کی باتیں کرنا قطعاً جائز نہ ہو گا۔

    ۰ ۱- پمفلٹ میں جن مسائل کو بہت مکروہ سمجھ کر ہدایہ سے نقل کیا گیا ہے وہ اور اس طرح کے مسائل زمانہ نبوت و زمانہ خیرالقرون میں واقع اور پیش آ چکے ہیں اور ان کا ذکر خو دحدیث کی کتابوں میں ہے، صحابہ کرام میں سے بعض حضرات سے زنا کا صدور ہوا، آنحضور اکرم ﷺ نے خود ان کا فیصلہ فرمایا، بعض عورتوں سے بھی زنا کا صدور ہوا، ان کا بھی فیصلہ حضورﷺ نے فرمایا۔

    آنحضورﷺ کے زمانہ میں بعض، ہجڑے تھے ان کا ذکر اور ان کا حکم بھی احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ آنحضورﷺ کے زمانہ میں ایسا بھی واقعہ پیش آیا کہ چوپایہ کے ساتھ کسی آدمی نے اپنی خواہش پوری کی آپ نے ایسے شخص کو حکم بیان فرمایا آنحضور کو اس کی اطلاع ملی کہ کچھ لوگ اپنی بیویوں سے پاخانہ کے راستہ میں خواہش پوری کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ وہ شخص ملعون ہے جو یہ کام کرے غرض اس کا بھی آپ نے حکم بیان فرمایا ہے خود حدیث میں اس کا ذکر ہے کہ آپ نے حالت حیض میں بیویوں سے مقام خاص کے علاوہ جگہوں پر مباشرت کرنےکی اجازت دی ہے، حضرت ابوبکر صدیق کے زمانہ میں اےک شخص کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس کے ساتھ لوگ وہ فعل کرتے ہیں جو عورتوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے باقاعدہ صحابہ کرام کی جماعت کو بلایا اور مشورہ کیا، حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اس کو جلا کر مار ڈالا جائے۔

    غرض اس طرح کے مسائل انسان کی زندگی میں پیش آتے ہیں، یہ نئے مسائل نہیں ہیں کہ فقہ کی کتابوں میں ان کا ذکر بطور تفریح کر دیا گیا ہے، جب سے انسان پیدا ہوا ان جیسے مسائل سے اس کو سابقہ پیش آتا رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہ کی کتابوں میں ان تمام مسائل کے کتاب و سنت ہی کی روشنی میں شرعی حکم بیان کیا گیا ہے، اب اگر کوئی ان کا استہزا کرتا ہے تو وہ فی الاصل شریعت اسلامیہ پر حملہ آور ہوتا ہے اور فقہ اسلامی کی جامعیت پر طعنہ زن ہے۔ یہ علم کی بات نہیں ہے بے علمی اور جہالت کی بات ہے۔

    آپ نے جو پمفلٹ بھیجا ہے اس کا ہرگز جواب نہیں دیتا، اس وجہ سے کہ وہ بلا نام یا فرضی نام سے ہے دوسرے یہ کہ اس میں شریعت اسلامیہ کا بھر پور مذاق اڑایا گیا ہے، تیسرے یہ کہ پمفلٹ والے نے خیانت سے کام لے کر کئی مسئلوں میں پورا مسئلہ نہیں ذکر کیا ہے چوتھے یہ ہے کہ اس نے مسا ئل پر اعترا ض کئے ہیں دلا ئل کی روشنی پر نہیں، پانچویں یہ کہ سارے مسائل کچھ مزید زیادتی کے ساتھ خود غیر مقلدین علماءکی کتابوں میں موجود ہیں تو پھر فقہ حنفیہ پر اعتراض کیا معنی رکھتا ہے، یہ مسائل اگر ان کی کتابوں میں ہوں تو فقہ اہلحدیث کے مسائل کہلائیں اور قابل تعریف پائیں اور اگر ان کا ذکر حنفی کتابوں میں ہو تو وہ قابل اعتراض و استہزا ہوں کیا یہ عقلمندوں کی بات ہے؟

    مگر میں جواب اس کا اس لئے دے رہا ہوں کہ جواب نہ دینے کی شکل میں مخلصین میں سے کئی کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی جس کی بازگشت سعودیہ میں بھی سنائی دے گی یہ پمفلٹ سعودیہ سے آیا ہے اس وجہ سے ہمیں اپنے ریاض اور سعودیہ میں رہنے والے ہندوستانی و پاکستانی مخلصین کے جذبات کی بھی رعایت کرنی ہے۔
    مزید آیندہ۔۔۔۔
     
  3. آفتاب علی

    آفتاب علی -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏جون 25, 2012
    پیغامات:
    36
    - پہلا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی نے حالت روزہ میں مشت زنی کی تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا اس مسئلہ کو کتابچہ والے نے صاحب ہدایہ کی یہ عبارت نقل کر کے کالمستمنی بالکف علی ما قالوا اس طرح ذکر کیا ہے۔ یعنی مشت زنی کرنے والے کا روزہ نہیں ٹوٹتا حنفی فقہاءنے یہی کہا ہے گو روزہ کی حالت میں یہ کام کیا ہو۔

    اس مسئلہ میں معترض نے جہالت و خیانت کے کئی گل کھلائے ہیں، پہلے تو اس نے علی ما قالوا کا ترجمہ چھوڑ دیا ہے۔ حالانکہ صاحب ہدایہ کی یہ عبارت بتلا رہی ہے کہ صاحب ہدایہ کے نزدیک مسئلہ اس طرح نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک حالت روزہ میں یہ کام روزہ کو باطل کرنے والا ہے۔ صاحب ہدایہ نے بعض دوسرے فقہاءکی یہ بات نقل کی ہے، خو داپنا اور حنفی مذہب کا مختار اور مفتی بہ مسئلہ نہیں بیان کیا ہے، ہدایہ کے حاشیہ میں خود اس پر حاشیہ لگا کر کے مسئلہ صاف کر دیا ہے، حاشیہ میں علی ماقالوا پر حاشیہ لگا کر لکھا ہے۔

    عادتہ فی مثلہ افادة الضعف مع الخلاف و عامة المشائخ علی ان الا ستمتاعءمفطر و قال المصنف فی التجنیس انہ المختار۔

    یعنی صاحب ہدایہ جہاں اس طرح کی عبارت لکھتے ہیں تو ان کا مقصد یہ بتلانا ہوتا ہے کہ یہ ضعیف قول ہے اور عام مشائخ احناف کا مسلک یہ ہے کہ منی نکالنا روزہ کو باطل کر دیتا ہے، تجنیس میں اسی قول کو مختار بتلایا ہے۔

    آپ بتلائیں کہ اس مسئلہ میں فقہ حنفی اور علماءاحناف کی اس وضاحت کے بعد بھی اس میں کسی اعتراض کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔ اندازہ لگایئے کہ غیر مقلدین کس طرح فتنہ جگا رہے ہیں اور فقہ حنفی اور فقہاءاحناف کی دشمنی میں وہ انسانیت سے کتنے دور ہو چکے ہیں، علم و دیانت سے تہی دامنی ان کا مقدر بن چکی ہے۔

    اور پھرغیر مقلدین کو کس طرح جرات ہوئی کہ وہ صاحب ہدایہ پر اس مسئلہ کو لے کر اعتراض کریں، اور فقہ حنفی اور فقہائے احناف کا مذاق اڑائیں، کیا ان کو اپنے گھر کی خبر نہیں کہ فقہ اہلحدیث کا کیا مذہب ہے۔

    عرف الجادی میں نواب صاحب فرماتے ہیں :

    وبالجملہ استنزال منی بکف یا بچیزے از جمادات نزد دعائے حاجت مباح ست .... ....بلکہ گاہے واجب گردو.... ....در مثل ایں کار حرجے نیست بلکہ ہمچواستخراج دیگر فضلات موذیہ بدن است -ص۷ ۰ ۲

    یعنی حاصل کلام یہ ہے کہ ہاتھ سے یا کسی اور جماداتی چیز سی منی نکالنے میں کوئی حرج نہیں ہے،بلکہ کبھی یہ عمل واجب ہو جاتا ہے.... اس طرح کا کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے: منی نکالنا اسی طرح کا عمل ہے جیسے بدن کے دوسرے تکلیف دہ فضلات کا خارج کرنا۔

    منی نکالنے کے بارے میں جس کے گھر کا یہ مسئلہ ہو وہ بیچارہ فقہ حنفی پر اعتراض کرے۔

    ۲- کتابچہ کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہدایہ میں ہے پاخانہ کی جگہ میں وطی کرنے سے روزہ کا کفارہ واجب نہیں ہوتا ہے۔ پمفلٹ والے صاحب لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کا یہی فتویٰ ہے :

    پمفلٹ والے اس غیر مقلد نے اس مسئلہ میں بھی اپنی جہالت کا پورا ثبوت دیا ہے عن ابی حنیفہ کا وہ ترجمہ کرتا ہے کہ امام ابو حنیفہ کا فتوی یہی ہے۔ اس جہالت کا کوئی ٹھکانہ ہے، جو لوگ فقہ کی کتابیں پڑھتے پڑھاتے ہیں، وہ تو اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ سے ایک روایت یہ بھی ہے نہ کہ امام ابو حنیفہ کا یہی فتوی ہے اس علم کے بل بوتے پر فقہ حنفی پر اعتراض کا شوق ہو گیا ہے۔

    دوسری بات یہ ہے کہ پمفلٹ والے نے زبردست خیانت سے کام لیا ہے اور جو اصل مسئلہ ہے اس کو ذکر نہیں کیا جب کہ پورا مسئلہ اسی ہدایہ کی اسی سطر میں مذکور ہے اور اس میں صاف صاف لکھا ہے۔والاصح انھا تجب یعنی صحیح تر بات یہ ہے کہ کفارہ واجب ہو گا، اس اندھے کو یہ نظر نہیں آیا کہ جو امام ابو حنیفہ کی صحیح تر روایت اور فقہ حنفی کا اصل مسئلہ ہے، اور عن ابی حنیفة انہ لایجب الکفارة نظر آ گیا ۔

    جب یہ غیر مقلدین اس طرح کی خیانتوں پر اتر آئیں تو ان کا جواب آپ کہاں کہاں دیتے پھریں گے۔

    عینی میں صاف صاف لکھا ہے کہ مغنی میں جو امام ابو حنیفہ سے اس بارے میں مشہور روایت کہہ کر ذکر کیا گیا ہے صحیح نہیں امام ابو حنیفہ کی صحیح ترین روایت وہی ہے کہ اس صورت میں کفارہ واجب ہو گا -ج۳ ص۰ ۷ ۲

    اب ذرہ غیر مقلدین اپنے گھر کا بھی مسئلہ سن لیں، فقہ اہلحدیث والی کتاب نزل الابرار میں لکھا ہے :

    وان جامع المسافر عمدا فی سفرہ و ھو صائم اوجا مع فی غیر الفرج و انزل لذمہ القضہاءفقط۔فصل فی الکفارة ص ۱ ۳ ۲

    یعنی اگر مسافر جو روزہ سے ہو اور جان بوجھ کر بھی جماع کرے تو اس پر صرف قضا واجب ہو گی کفارہ واجب نہیں ہوگا، اسی طرح جو آدمی عورت کی شرمگاہ کے علاوہ میں جماع کرے (خواہ وہ بدن کا کوئی حصہ ہو) تو اس پر بھی صرف قضا لازم آئے گی کفارہ نہیں ہے۔

    جن کے گھر کا یہ مسئلہ ہو وہ فقہ حنفی پر اعتراض کریں یہ خباثت نفس اور شرارت نفس اور فتنہ انگیزی نہیں تو اور کیا ہے۔

    ۳- تیسرا مسئلہ یہ ذکر کیا ہی کہ مردہ عورت سے یا چوپائے سے بدفعلی کرنے سے کفارہ واجب نہیں ہوتا، انزال ہو تب بھی اور نہ ہو تب بھی۔

    اس بیجارے کو اس مسئلہ میں اپنے گھر کی بھی خبر نہیں کہ فقہ اہلحدیث میں کیا لکھا ہے نزل الابرار میں لکھا ہے

    وکذالک لا کفارة علی من جامع بھیمة او میتتہ اوصبیا اور صغیرة۔ص۱ ۳ ۳

    یعنی اس پر روزہ کا کفارہ نہیں ہے جو کسی چوپایہ سے جماع کرے یا کسی مردہ عورت سے جماع کرے، یا بچے سے جماع کرے یا چھوٹی لڑکی سے جماع کرے۔

    ہدایہ میں جو مسئلہ ذکر کیا ہے اس کے ساتھ صاحب ہدایہ نے دلیل بھی ذکر کی ہے اور فقہ اہلحدیث میں بلا دلیل ہی مسئلہ مذکور ہے، اس کے باوجود فقہ حنفی پر اعتراض اور اپنی فقہ اہلحدیث پر پھولوں کی بارش۔

    فقہائے احناف کے یہاں کفارہ واجب اس شکل میں ہوتا ہے کہ جب جنایت اپنے حقیقی معنی اور حقیقی صورت کے ساتھ پائی جائے، غیر مقلد معترض بتلائے کہ صورت مذکورہ میں جنابت کا حقیقی معنی اور حقیقی صورت کا وجود ہے یا پھر وہ حدیث پیش کرے یا قرآن کی آیت جس سے ہدایہ کا یہ مسئلہ غلط ثابت ہو۔

    ۴- ایک مسئلہ یہ ذکر کیا ہے کہ ہدایہ میں ہے کہ شرمگاہ کے علاوہ میں اگر کسی نے جماع کیا تو اس پر کفارہ نہیں ہے۔

    یہ مسئلہ بھی غیر مقلدین کے گھر ہی کا ہے۔ نزل الابرار فقہ اہلحدیث میں لکھا ہے۔

    اوجامع فی غیر الفرج و انزل لزمہ القضاءفقط- ص۱ ۳ ۲

    یعنی کسی نے شرمگاہ کے علاوہ میں جماع کیا تو صرف قضا واجب ہو گی کفارہ نہیں اگرچہ انزال ہو جائے۔

    غیر مقلد معترض قرآن کی آیت یا حدیث پیش کرے جس سے یہ مسئلہ غلط ثابت ہو۔

    اوپر بتلایا جا چکا ہے کہ جماع کا معنی جب معنی و صورة کامل طور پر متحقق ہو گا تب ہی کفارہ واجب ہو گا، غیر مقلد معترض بتلائے کہ صورت مذکورہ میں جماع کا معنی صورة و معنی کامل طور پر متحقق ہے، غیر مقلد معترض کے لئے بہتر یہ ہے کہ قرآن و حدیث سے اس مسئلہ کو غلط ثابت کرے۔ ان بیچاروں کو اس کا بھی پتہ نہیں ہے کہ جس طرح شبہات سے حددود مرتفع ہو جاتے ہیں اسی طرح شبہات سے کفارہ بھی، مندفع ہو جاتا ہے، کفارہ اس وقت واجب ہو گا جب جنایت کے صورة و معنی واقع ہونے میں ادنی شبہ نہ ہو، اگر ادنی شبہ بھی پایا جائے گا تو کفارہ واجب نہ ہو گا۔
    مزید آئندہ۔۔۔
     
  4. آفتاب علی

    آفتاب علی -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏جون 25, 2012
    پیغامات:
    36
    - ایک مسئلہ یہ ذکر کیاہے کہ محرمات سے نکاح اگر کوئی کرے اور اس سے وطی بھی کرے تو اس پر حد زنا لاگو نہیں ہو گی۔ ہدایہ میں ایسا ہی لکھا ہے۔

    پمفلٹ والے نے یہاں بھی سخت خیانت سے کام لیا ہے، اس نے یہ نہیں بتلایا ہے کہ احناف کے یہاں یہ فعل سخت گناہ اور حرام اور بہت بڑا جرم ہے، خود صاحب ہدایہ نے اس مسئلہ میں اسی سطر میں یہ بھی لکھا ہے۔ لکنہ یوجب عقوبة یعنی اس کو اس جرم میں سخت ترین سزا دی جائے گی۔



    زنا پر شرعی حد اسی وقت واجب ہو گی جب زنا کا شرعی و اصطلاحی معنی پایا جائے گا، زنا کے وجود میں ذرا بھی شبہ ہوا تو پھر خواہ وہ فعل حرام ہو اور شرعی جرم قرار پائے مگر اس پر حد زنا نہیں لاگو کی جائے گی، اﷲ کے رسول کا ارشاد ہے کہ شبہات کی وجہ سے حدود کو رفع کرو، ہاں اس کو امام وقت سخت ترین سزا دے گا حتی کہ وہ اس کو اس جرم میں قتل بھی کر سکتا ہے۔

    احناف نے حد والی سزا ایسے شخص پر اس لئے نافذ نہیں کی کہ حدیث کا حکم یہی ہے کہ حدود کو شبہات پیدا ہونے کی وجہ سے رفع کرو، خواہ زنا کے ثبوت میںشبہ ہو خواہ زنا کے معنی پائے جانے میں شبہ ہو۔بہر حال شبہات کی وجہ سے حدودی سزا نہیں لاگو کی جائے گی۔ زنا اس فعل کو کہتے ہیں جو بلا کسی عقد کسی عورت سے مباشرة فاحشہ کی شکل میں ظہور پذیر ہو، صورت مذکورہ میں محرمہ عورت سے نکاح ہوا ہے، اگرچہ یہ فعل حرام ہے مگر زنا کے معنی میں شبہ پیدا ہو گیا ہے اس وجہ سے حدوالی سزا ایسے شخص پر نافذ نہیں کی جائے گی ہاں چونکہ یہ فعل حرام ہے اور بہت برا جرم ہے تو اس لئے امام وقت ایسے شخص کو بخشے گا بھی نہیں بلکہ اس کو سخت سے سخت سزا دے گا، حتی کہ اسے قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔

    فقہ حنفی کا یہ مسئلہ آنحضور اکرم ﷺ اور صحابہ کرام کے افعال سے ماخوذ ہے، یہ احناف کے گھر کا گھڑا ہوا مسئلہ نہیں ہے۔

    حضرت براءبن عاذب فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ میرے ماموں کہیں جا رہے ہیں، میں نے ان سے پوچھا آپ کہاں جا رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے اپنی باپ کی منکوحہ سے نکاح کر لیا ہے، آنحضورﷺ نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اس کو قتل کر آں اور اس کا مال لے لوں۔

    اگر محرمات سے نکاح کرنا زنا ہوتا یعنی زنا شرعی تو آنحضورﷺاس پر زنا کی جو شرعی حد ہے وہ جاری کرتے، مگر جب آپ ﷺنے ایسے شخص پر زنا کی حد جاری نہیں کی تو معلوم ہوا کہ زنا شرعی بھی نہیں ہے، اگرچہ بہت بڑا گناہ ہے۔

    مصنف عبدالرزاق میں ہے۔عن ابن عباس من اتٰی ذات محرم فاقتلوہ یعنی حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جو شخص محرم عورت سے (نکاح کرے اور اس سے) جماع کرے تو اس کو قتل کر دو (ص۵ ۶ ۳ ج۷) ابن ماجہ میں یہ روایت حضرت ابن عباس سے مرفوعاً منقول ہے، اگرچہ اس کی سند ضعیف ہے۔

    غرض احناف کا یہ مسئلہ کتاب و سنت کی روشنی میں ہے، اور اس پر غیر مقلدوں کا اعتراض بلا وجہ محض جہالت ہے۔

    ہر باطل نکاح کو زنا شرعی نہیں کہا جاتا اور نہ ہر باطل نکاح پر حد واجب ہوتی ہے، اﷲ کے رسول کا ارشاد ہے، جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، یہ بالکل صحیح حدیث ہے ایسے نکاح کو آپ نے تین دفعہ باطل کہکر اس کے بالکل باطل ہونے پر مہر لگا دی، مگر کسی کا یہ مذہب نہیں ہے کہ اگر کوئی عورت اس طرح کا نکاح کرے تو اس پر حد زنا لاگو کی جائے گی۔ حدزنا وہی واجب ہو گی جہاں زنا کا کامل معنی پایا جائے گا اور اس کے زنا ہونے میں کسی طرح کا کوئی شبہ نہ ہو گا۔

    امام ابو حنیفہ رحمة اﷲ علیہ کی فقہی بصیرت کا یہی کمال ہے کہ ان کے سامنے شرعی مسئلہ کے تمام پہلو ہوتے ہیں اور اس بارے میں کتاب اللہ سنت رسول اللہ اور صحابہ کرام کے فیصلے یہ سب چیزیں ان کے سامنے ہوتی ہیں پھر وہ ایک فیصلہ فرماتے ہیں، اب جن کے علم و خرد کی رسائی وہاں تک نہیں ہو پاتی انہیں تو اعتراض سوجھتا ہے مگر ماہرین کتاب و سنت اور ائمہ شریعت امام ابو حنفیہ کے مدارک اجتہاد کے سامنے اپنا سر جھکا دیتے ہیں ،خواہ مسائل میں ان سے اتفاق ہو یا اختلاف ،ہمیں پھر یہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ غیر مقلدین خود اپنی کتابوں سے ناواقف اور جاہل ہیں ،ان کی فقہ اہلحدیث والی کتابوں میں بھی یہی لکھا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر اپنے محرم سے نکاح کرے اور اس سے وطی کرے اس کی سزا یہ بھی ہے کہ اس کو امام تعزیر کرے گا اور اسے تعزیرً اقتل کر دے گا۔ نزل الابرارص ۸ ۹ ۲،کنز الحقائق ص ۲ ۰ ۱



    اگر یہ فعل زنا حقیقی و شرعی ہوتا تو پھر اس پر صرف حد جاری کی جاتی ،حد کی متعین شکل ہے یا کوڑے مارنا یا رجم کرنا قتل کی سزا دینا حد شرعی نہیں ہے ،معلوم ہوا کہ غیر مقلد علما، بھی محرم کے ساتھ نکاح کو زنا شرعی نہیں سمجھتے ورنہ ایسے مجرم کی سزا ان کے یہاں صرف حد ہوتی قتل کرنا نہیں۔

    چونکہ اس مسئلہ کو غیر مقلدین بہت اچھا لتے ہیں اس وجہ سے میں نے ذرا تفصیل سے کلام کیا تا کہ غیر مقلدوں کی جہالت واضح ہو جائے ۔

    ناظرین یاد رکھیں چونکہ یہ مسئلہ بڑا نازک ہے اس وجہ سے احناف کی کتابوں میں حالات و زمانہ کی رعایت کرتے ہوئے یہ بھی مذکو ر ہے کہ فتویٰ صاجین کے قول پر ہے یعنی ایسے شخص کو زنا کامر تکب قرار دیا جائے گا اور اس پر حد زنا ہی لگائی جائے گی۔ عینی میں صاف لکھا ہے ۔ لکن فی الخلاصة قال الفتویٰ علی قولھما ۔( ۹ ۴ ۲ج۵) یعنی خلاصہ میں مذکور ہے کہ فتویٰ صاجین کے قول پر ہے ۔

    پمفلٹ والے نے فقہ حنفی سے عوام کو برگشتہ کرنے کے لئے پمفلٹ تو لکھ مارا مگر اسے اس کا پتہ ہی نہیں چل سکا کہ احناف کے یہاں مفتی بہ قول کون ہے ،مفتی بہ قول کو چھوڑ کر غیر مفتی بہ قول کو ذکر کرنا جاہلانہ حرکت ہے۔

    ۶- ایک مسئلہ یہ ذکر کیا ہے کہ ہدایہ میں ہے کہ جو شخص کسی عورت سے پاخانہ کی جگہ میں وطی کرے یا قوم لوط والا عمل کرے تو اس پر حد نہیں ہے۔

    اس مسئلہ کے نقل کرنے میں بھی سخت خیانت کی ہے اس لئے کہ فلاحد علیہ عندابی حنفیہ کے بعد بھی ہدایہ ہے کہ ویعزر یعنی اس کو سزا دی جائے گی یہ لفظ بالکل اسی سطر میں اور اسی جگہ ہے مگر پمفلٹ والے غیر مقلد صاحب نے یہ لفظ چھوڑ کر کے اپنا ایمان برباد کیا۔ امام ابو حنیفہ رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر یہ عمل حد والی سزا کا ہوتا تو آپ ﷺ سے حد والی سزا منقول ہوتی مگر، آپ ﷺ کا تو ارشا یہ منقول ہے اقتلو الفاعل والمفعول بہ یعنی جو ایسا کام کرے فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو، کیا اس سزا کو حد کہیں گے، یا اس کا تعلق تعزیر سے ہے یعنی اس سزا سے ہے جو امام اور حاکم وقت کی رائے پر محمول ہے؟ اور یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام کی رائے اس بارے میں الگ الگ رہی ہے کوئی کہتا ہے کہ اس کو جلا دیا جائے، کوئی کہتا ہے کہ اس کے اوپر دیوار گرا دی جائے گی، کوئی کہتا ہے کہ ایسے شخص کو اونچی جگہ سے نیچے گراکر اس پر پتھر برسایا جائے گا، غرض کہ زنا والی حد اگر متعین ہوتی تو صحابہ کرام کا اس مسئلہ میں اختلاف نہ ہوتا اور آنحضور ﷺسے بھی قتل وغیرہ کا حکم منقول نہ ہوتا۔ اسلئیے کہ زنا کی حد تو شریعت میںمتعین شکل ہے، اس وجہ سے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اﷲ علیہ نے آنحضورﷺکے ارشادات اور صحابہ کرام کے فتووں کی روشنی میں یہ فرمایا کہ اگر اس جرم کا کوئی مرتکب ہوتا ہے تو اس کے بارے میں حاکم وقت فیصلہ کرے گا کہ اس کو کون سی سزا دی جائے حد کی سزا نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کو معاف کر دیا جائے گا۔

    غیر مقلدین کو فقہ احناف کا پورا مسئلہ ہی معلوم نہیں یا معلوم ہے مگر فتنہ انگیزی چونکہ ان کا مقصود ہے اس وجہ سے پورا مسئلہ ذکر نہیں کرتے۔ عینی میں لکھا ہے۔

    ولکنة یعذرو یسجن حتی یموت او یتوب ولو اعتاد اللوا طة قتلہ الا مام

    یعنی ایسے کام کرنے والے کو سزا دی جائے گی اور اسے تازندگی قید میں رکھا جائے گا الا یہ کہ وہ توبہ کر لے اور اگر وہ فعل کا عادی ہے تو امام اس کو قتل کر دے گا۔

    یہ ہے اس مسئلہ میں فقہ حنفی کا پورا مسئلہ مگر پمفلٹ والے نے خیانت کر کے اس کو نہایت مکروہ شکل میں پیش کیا ہے، دین و دیانت کے اپنے اس کردار و مظاہرہ پر غیر مقلدین ثواب دارین کی امید رکھتے ہیں۔

    ۷- ایک مسئلہ یہ بھی ذکر کیا ہےکہ ہدایہ میں ہے کہ جو چوپایہ سے وطی کرے اس اور پر حد نہیں ہے۔

    تو کیا غیر مقلدین کے مذہب میں اس پر حد ہے؟ ذرا وہ اپنی کتابوں سے ایسے شخص پر حد کی سزا دکھلاویں۔ نزل الابرار میں لکھا ہے۔ویعزر من نکح بھیمة و یجوز للامام ان یقتلہ۔یعنی جو چوپایہ سے وطی کرے امام اس کی تعزیر کرے گا۔ اور اس کو قتل بھی کر سکتا ہے، اور یہی بات کنز الحقائق میں لکھی ہے، تو پھر ہدایہ اور آپ کی کتابوں کا مسئلہ الگ الگ ہوا یا ایک؟

    اچھا ذرا غیر مقلدین وہ حدیث تو پیش کر دیں یا قرآن کی کوئی آیت جس سے ہدایہ کے مسئلہ کا غلط ہونا ثابت ہو۔

    یہاں بھی پمفلٹ والے غیر مقلد نے خیانت سے کام لیا ہے اور ہدایہ کا پورا مسئلہ نہیں بیان کیا ہے، پورا مسئلہ یہ ہے الا انہ یعزر یعنی اس کی تعزیر ہو گی یعنی امام اپنی صواب دید سے جو مناسب سمجھے گا اس کو سزا دے گا۔

    حضرت امام ابو حنیفہ جو فرماتے ہیں اور ہدایہ کا جو مسئلہ ہے وہی حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے۔ مصنف عبدالرزاق میں ہے۔

    عن ابن عباس فی الذی یقع علی البھیمة قال لیس علیہ الحد (ص ۰ ۶ ۶ ۲ ج۷) یعنی حضرت عبداﷲ بن عباس کا فتوی یہ تھا کہ جو شخص جانوروں سے بد فعلی کرے اس پر حد نہیں ہے۔

    غیر مقلدوں کے پاس اتنی عقل ہی نہیں کہ ان کو یہ سمجھایا جائے کہ زنا شرعی کس کو کہا جاتا ہے اور حد شرعی کب واجب ہوتی ہے۔ اس کےلئے فقہی بصیرت کی ضرورت ہے اور غیر مقلدین کو یہ دولت گرا نما یہ حاصل نہیں اس وجہ سے میںصرف اتنا عرض کرتا ہوں کہ اگر امام ابو حنیفہ نے اپنے فتوی کی بنیاد حضرت عبداﷲ بن عباس کے فتوی پر رکھی ہے تو غیر مقلدوں کو اعتراض کیوں ہے، کیا صحابی کے فتوی کی روشنی میں فتوی دینا حرام ہے؟ یا وہ اتنے بد دین ہو گئے ہیں کہ صحابی رسول ﷺ کے فتوی کا بھی مذاق اڑائیں گے؟

    اس مسئلہ میں حضرت عطاءسے پوچھا گیا کہ اگر کوئی جانور سے بد فعلی کرے تو اس کا کیا حکم ہے، تو انہوں نے فرمایا، اﷲ تو بھولنے والا نہیں ہے اگر اس بارے میں شریعت کی متعین سزا ہوتی تو اﷲ اس کو نازل کرتا، البتہ یہ فعل ہے بہت برا تو جو برا ہے اس کو برا سمجھو،

    مصنف ص۶ ۶ ۳ ج۷

    دیکھئے حضرت عطاءجیسا جلیل القدر تابعی بھی یہی کہتا ہے کہ اس بارے میں کوئی حد شرعی نہیں ہے، چونکہ یہ عمل قبیح ہے اس لئے اس کا معاملہ امام کی صواب دید پر ہو گا وہ جیسی چاہے سزا دے، اسی کو تعزیر کہتے ہیں اور اسی کا بیان ہدایہ میں بھی ہے۔

    آنحضورﷺکا ارشاد بھی جو اس بارے میں منقول ہے اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص کو حد شرعی زنا والی سزا نہیں جاری کی جائے گی، آپ نے فرمایا کہ چوپایہ اور چوپایہ کے ساتھ جو فعل کرے دونوں کو قتل کر دو۔ مصنف ج۷ ص۴ ۶ ۲

    غرض امام ابو حنیفہ کا اس مسئلہ میں جو فتوی ہے وہ پوری طرح عقل و نقل کی روشنی میں ہے، اور امام کی بے پناہ فقہی بصیرت کو اجاگر کرنے والا ہے، ہاں البتہ ان کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا جن کا مقصد محض اعتراض ہو اور جو علم اور بصیرت سے محروم ہوں۔

    ۸- ایک مسئلہ میں پمفلٹ میں یہ ذکر کیا ہے کہ ہدایہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی عورت اپنی خوشی اور رضا مندی سے کسی بے وقوف یا بچے سے زنا کرائے تو نہ بیوقوف اور بچے پر حد ہے اور نہ عورت پر۔

    اس مسئلہ پمفلٹ والے غیر مقلد صاحب نے ایک خیانت تو یہ کی ہے کہ ہدایہ میں مجنون کا لفظ ہے، اس کے معنی پاگل کے ہیں اس کا ترجمہ انہوں نے بیوقوف کیا ہے، معلوم نہیں مجنون کا ترجمہ بے وقوف کس لغت میں ہے، یا غیر مقلدوں کے یہاں مجنون کا ترجمہ بے وقوف ہوتا ہے۔؟ واﷲ اعلم بالصواب۔

    اس مسئلہ پر اعتراض بھی غیر مقلدوں کی دانشمندی کی انتہا ہے، کیا پاگل اور بچے پر بھی شرعی احکام کا اجراءہوتا ہے؟ حدیث میں ہے کہ بچوں اور پاگلوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے کسی امام اور کسی محدث کے نزدیک بچے اور پاگل احکام شرعیہ کے مخاطب نہیں ہیں کہ ان پر حدود شرعیہ جاری ہوں، تو پھر اعتراض کیا؟ عورت پر اس لئے حد نہیں ہے کہ جنایت کاملہ جو حد کو واجب کرے نہیں پائی گئی اور زنا کا معنی پورے طور پر متحقق نہیں ہوا،پس بحکم حدیث شریف حدود کو شبہات سے دفع کرو، اس عورت پر بھی حد نہیں لگائی جائے گی، البتہ اس کو تعزیر کی جائےگی۔

    براہ کرم غیر مقلدین وہ حدیث پیش کریں جس سے معلوم ہو کہ جس عورت کے ساتھ کوئی پاگل یا بچہ زنا کرے اس پر حد شرعی لگائی جائے گی؟ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے اور یقینا نہیں کر سکتے تو پھر فقہ حنفی اور ہدایہ کتاب کے خلاف یہ شورو ہنگامہ کیوں؟

    غیر مقلدین کو غالباً اس کا بڑا شوق رہتا ہے کہ مسلمان مرد اور عورت پر حدود موقع بموقع ضرور نافذ کئے جائیں، حالانکہ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جہاں تک ہو سکے حدود کو دفع کرو، اور یہی وجہ ہے کہ ادنی شبہ سے بھی حدود مندفع ہو جاتے ہیں، احادیث کی روشنی میں امام ابو حنیفہ اس کا پورا لحاظ رکھتے ہیں کہ شرعی حدود سے جہاں تک ہو سکے مسلمانوں کو محفوظ رکھا جائے، رسول اکرم ﷺ کا یہی طریقہ تھا، اور مسلمانوں کےلئے آپ کی یہی تعلیم تھی، آنحضورﷺکے ان ارشادات کو ملاحظہ فرمایا جائے۔

    حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آنحضورﷺکا ارشاد ہے کہ مسلمانوں سے جہاں تک ہو سکے حدود کو دفع کرو، ذرا بھی اس کا راستہ پاتو درگذر کرو، پھر آپﷺ نے فرمایا کہ حاکم معاف کرنے میں غلطی کرے یہ زیادہ بہتر ہے کہ وہ سزا دینے میں غلطی کرے۔

    حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ حدود کو دفع کرو، حضرت ابوہریرہ ؓکی روایت ہے کہ آنحضورﷺنے فرمایا کہ جہاں تک ہو سکے حدود کو دفع کرو، ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ذرا بھی گنجائش دیکھو تو حدود کو دفع کرو، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اور حضرت علی اور حضرت ابن مسعود رضی اﷲ عنہما کا ارشاد اور مسلمانوں کو تاکید تھی کہ مسلمانوں سے قتل کو جہاں تک ہو سکے دفع کرو۔

    حضرت ماعزؓ آپ ﷺکے پاس تشریف لائے اور کہا کہ مجھ سے زنا کا صدور ہو گیا ہے۔ آپ ﷺنے منہ پھیر لیا پھر انہوں نے کہا پھر آپ ﷺنے منہ پھیر لیا، پھر انہوں نے کہا، پھر آپﷺنے منہ پھیر لیا، چوتھی دفعہ جب انہوں نے کہا تو آپﷺنے فرمایا کہ تم نے بوسہ لیا ہو گا،تم نے چھوا ہو گا، غرض آپﷺنے حضرت ماعزؓپر حد جاری کرنے سے حتی الامکان پرہیز کیا اور جب حضرت ماعزؓکا اصرار بہت بڑھ گیا تب آپ ﷺنے ان پر حد نافذ کرنے کا حکم دیا۔

    آپﷺ کے اس عمل سے معلوم ہوا کہ حدود کا جاری اور نافذ کرنا حالت مجبوری کی بات ہے ورنہ حتی الامکان حدود کو دفع ہی کیا جائے گا۔

    فقہ حنفی میں اس کا بہت لحاظ رکھا گیا ہے، مگر فقہ حنفی کا یہی امتیاز اور ہنر اور احادیث کی روشنی میں احکام شرعیہ کا بیان غیر مقلدین کو برا لگا۔ اور انہوں نے حضرت ﷺ کے قول و عمل کو بالکل نظر انداز کر دیا اور فقہ حنفی کے خلاف اپنے دل کا بخار نکالا۔ فالی اﷲ المشتکی۔
    برائے مہربانی ذرا توجہ سے پڑھیں،
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں