غیرمسلم ممالک میں سفر اور اقامت کا حکم -

ابوبکرالسلفی نے 'اتباعِ قرآن و سنت' میں ‏جنوری 4, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    غیرمسلم ممالک میں سفر اور اقامت کا حکم

    شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ

    یہاں ہم شہر کفر کی طرف سفر کا حکم بیان کر رہے ہیں :

    ہم کہتے ہیں کہ کافروں کے ملک کا سفر صرف تین شرطوں کے ساتھ جائز ہے:

    شرط اول: انسان کے پاس اتنا علم ہو کہ جس سے وہ شکوک و شبہات دفع کر سکے۔
    شرط دوم: اس کے پاس دین داری ہو جو اسے نفسانی خواہشات سے روک سکے۔
    شرط سوم: وہاں تک سفر کی ضرورت ہو۔


    اگر یہ شرطیں پوری نہ ہوتی ہوں تو کافروں کے ملک کا سفر جائز نہیں ہوگا ،کیوں کہ اس میں فتنہ یا فتنے کا خوف اور دولت کی بربادی ہے کیوں کہ انسان ایسے سفروں میں بے تحاشہ دولت خرچ کرتا ہے۔
    لیکن اگر کسی کو علاج یا کسی ایسے علم کے حصول کی غرض سے کہ جس کا انتظام اس کے شہر میں نہیں ہے سفر کی ضرورت پیش آجائے اور اس کے پاس مطلوبہ علم و دین داری ہو تو یہ کچھ حرج کی بات نہیں ہے۔
    کافر ملک کی طرف بغرض سیاحت جو سفر ہوتا ہے وہ کوئی ضرورت نہیں ہے، اس غرض سے کسی ایسے اسلامی ملک کی طرف سفر کیا جا سکتا ہے جس کے باشندے شعائر اسلام کے پابند ہوں۔ الحمدللہ اس وقت ہمارے ملک کے بعض علاقے تفریحی مقامات کی شکل اختیار کر چکے ہیں جہاں جا کر اپنی تعطیلات کے ایام گزارے جا سکتے ہیں۔

    کافروں کے ملک میں اقامت گزیں ہوجانا کسی مسلم کے دین، اخلاق ،سیرت اور کردار کے لئے زبردست خطرہ ہے۔ ہم نے اور دوسروں نے بہت سےلوگوں کا انحراف دیکھا ہے جنہوں نے وہاں جا کر قیام کیا تھا۔ وہ جو کچھ ساتھ لے کر گئے تھے اس کے بغیر واپس ہوئے اور فاسق بن کر آئے۔ بعض تو نعوذ باللہ اپنے دین سے پھر کر، اپنے دین بلکہ تمام ادیان کے منکر بن کرواپس ہوئے۔ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ دین کا ایک دم انکار کر دیا، دین کا مذاق اڑانے لگے، دین سے تعلق رکھنے والوں کا چاہے زندہ ہوں یا گزر چکے ہوں استہزاء کرنے لگے۔ اس لئے مناسب ہی نہیں بلکہ لازم ہو جاتا ہے کہ اس سے دامن بچایا جائے اور سفر کے لئے ایسی شرطیں رکھی جائیں جو اس طرح کی ہلاکت خیزیوں میں واقع ہونے کی خواہش کو لگام دے سکیں۔

    لہٰذا کافر ملک میں اقامت کی دو بنیادی اور لازمی شرطیں ہیں:

    شرط اول: قیام کرنے والا اپنی دین داری سے مطمئن ہو۔ اس طرح کہ اس کے پاس علم، ایمان اور عظیمت کی ایسی قوت ہو، جس کی وجہ سے اس کو اطمینان ہو کہ وہ اپنے دین پر ثابت قدم رہ جائے گا، انحراف اور گمراہی سے بچ جائے گا، کافروں سے دشمنی اور ان سے بغض کو اپنے دل میں زندہ رکھے گا ،اور ان سے دوستی اور محبت کرنے سے دور رہے گا۔ کیوں کہ ان سے دوستی اور محبت ایمان کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

    ﴿ لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ﴾
    (المجادلۃ: 22)
    (جو لوگ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں آپ ان کو نہ دیکھیں گے کہ ایسے لوگوں سے دوستی رکھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کے بر خلاف ہیں ،گو وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبہ ہی کیوں نہ ہوں)​

    اور فرمایا:

    [font="al_mushaf"]﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ. فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَى أَن تُصِيبَنَا دَآئِرَةٌ فَعَسَى اللّهُ أَن يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِ فَيُصْبِحُواْ عَلَى مَا أَسَرُّواْ فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ﴾
    (المائدۃ: 51۔52)
    (اے ایمان والو! تم یہو د و نصاریٰ کو دوست مت بنانا، وہ ایک دوسرےکے دوست ہیں ، اور جو شخص تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے گا بے شک وہ ان ہی میں سے ہوگا۔ یقیناً اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ اسی لئے تم ایسے لوگوں کو جن کے دل میں مرض ہے دیکھتے ہو کہ دوڑ دوڑ کر ان میں گھستے ہیں، کہتے ہیں کہ ہم کو اندیشہ ہے کہ ہم پر کوئی حادثہ پڑ جائے۔ سو قریب امید ہے کہ اللہ کامل فتح کا ظہور فرما دے یا کسی اور بات کا خاص اپنی طرف سے ،پھر وہ اپنے پوشیدہ خیالات پر شرمسار ہوں گے)​

    صحیح حدیث میں نبی کریم ﷺ سے مروی ہے:‘‘[font="al_mushaf"]أَنَّ مَنْ أَحَبَّ قَوْمًا فَهُوَ مِنْهُمْ وَأَنَّ الْمَرْءَ مَعَ مَنْ أَحَبَّ[/font]’’ [font="al_mushaf"](رواه البخاري ، كتاب الأدب ، باب : علامة حب الله عز و جل ومسلم ، كتاب الصلة، باب : المرء مع من أحب.)[/font] (جو شخص کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو وہ انہیں میں سے ہے، اور یہ کہ آدمی اسی کے ساتھ ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے)۔

    اللہ کے دشمنوں سے محبت سب سے عظیم خطرہ ہے جو کسی مسلمان کے لئے ہو سکتا ہے۔کیوں کہ ان سے محبت رکھنا لا محالہ ان کی موافقت اور اتباع تک لے جائے گا ،یا کم سے کم یہ محبت اسے ان کا انکار کرنے سے باز رکھے گی۔ اسی لئے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: ‘‘جو شخص کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو وہ انہیں میں سے ہے’’۔

    شرط ِ دوم: یہ ہے کہ اسے اپنی دین داری کے اظہار پر پوری قدرت حاصل ہو، شعائر اسلام آزادی کے ساتھ بغیر کسی روک ٹوک کے ادا کر سکتا ہو، نماز قائم کرنے پر اور اگر دوسرے نماز پڑھنے والے اور جمعہ قائم کرنے والے موجود ہوں تو جماعت اور جمعہ قائم کرنے پر اس پر پابندی عائد نہ کی جاتی ہو۔ زکوة ، روزہ،اورحج وغیرہ اسلامی شعائر سے اسے روکانہ جاتاہو۔ اگر قیام کرنے والا یہ ساری چیزیں نہ کر پاتا ہو تو اقامت جائز نہیں ہے۔کیوں کہ اب اس پر ہجرت واجب ہے۔

    المغنی 457/8میں ہجرت کے سلسلے میں لوگوں کی قسموں کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرمایا ہے:‘‘پہلی قسم: وہ لوگ جن پر ہجرت واجب ہے، اور وہ ایسے لوگ ہیں جو ہجرت کرنے کی طاقت رکھتے ہوں ،جو نہ اپنے دین کو ظاہر کر سکتے ہوں اور نہ کافروں میں رہ کر اپنے دینی واجبات ادا کر سکتے ہوں ۔ایسے لوگوں پر ہجرت واجب ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

    [font="al_mushaf"]﴿إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلآئِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُواْ فِيمَ كُنتُمْ قَالُواْ كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الأَرْضِ قَالْوَاْ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُواْ فِيهَا فَأُوْلَـئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءتْ مَصِيرًا﴾ [/font]
    (النساء:97)
    (بے شک جب ایسے لوگوں کی جان فرشتے قبض کرتے ہیں جنہوں نے اپنے کو گنہگار کر رکھا تھا تو وہ ان سے کہتے ہیں کہ تم کس کام میں تھے؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم سر زمین میں مغلوب تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم ترک وطن کر کے اس میں چلے جاتے ؟سو ان لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور جانے کے لئے وہ بری جگہ ہے)​

    یہ ایک سخت وعید ہے جو وجوب پر دلالت کرتی ہے ،وجوب کی دلیل یہ بھی ہے کہ دینی واجبات کی ادائیگی بھی اس شخص پر واجب ہوتی ہے جو ادائیگی کر سکتا ہو۔ ہجرت واجب کی ضرورت اور اس کا تتمہ ہے۔ اور جس سے واجب پورا ہوتو ہو وہ بھی واجب ہوتا ہے۔المغنی کا کلام ختم ہوا)

    ان دونوں بنیادی شرطوں کے بعد(ہم یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ) دار الکفر میں اقامت کی کئی نو عیتیں ہیں:

    پہلی نوعیت: یہ ہے کہ اگر قیام کرنے والا وہاں اسلام کی دعوت اور اسلام کی طرف راغب کرنے کی غرض سے قیام کرتا ہے تو یہ ایک طرح کا جہاد ہے۔ یہ اقامت ان لوگوں کے لئے فرضِ کفایہ ہے جو کہ ایسا کر سکتے ہوں، بشرطیکہ دعوت کے اثرات ظاہر ہوتے ہوں اور کوئی دعوت دینے یا دعوت قبول کرنے سے منع کرنے والا نہ ہو۔ اسلام کی دعوت ایک دینی فریضہ اور پیغمبرانہ وظیفہ ہے۔ نبی ﷺ نے زمان و مکان کی قید کے بغیر اپنی طرف سے تبلیغ کرنے کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ فرمایا:‘‘[font="al_mushaf"] بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً[/font]’’ [font="al_mushaf"](رواه البخاري ، كتاب الأنبياء ، باب: ما ذكر عن بني إسرائيل .)[/font] (میری طرف سے ایک آیت ہی کی سہی تبلیغ کرو)۔

    دوسری نوعیت: یہ ہے کہ اگر قیام کرنے والا کافروں کے حالات کا مطالعہ کرنے، اور عقیدہ کے جس فساد، عبادت کی جس خطا، اخلاق کی جس تہی دستی اور کردار کے جس بگاڑ میں وہ مبتلا ہیں ان کی جانکاری حاصل کرنے کی غرض سے اقامت کرتا ہے تاکہ لوگوں کو خبردار کر سکے کہ وہ ان سے دھوکہ نہ کھائیں اور جو لوگ ان سے متاثر ہیں ان کو بتلا سکے کہ حقیقت حال کیا ہے، تو یہ اقامت بھی ایک طرح کا جہاد ہے ۔اس لئے کہ اس قیام کا مقصد یہی تو ہے کہ کفر اور اہل کفر سے ایسے انداز میں خبردار کیا جائے کہ وہ اسلام اور ہدایتِ اسلام کی ترغیب بن جائے کہ کفر کا بگاڑ ہی اسلام کا سدھار ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے:

    [font="al_mushaf"]وبضدها تتبين الأشياء[/font]
    (نمایاں اپنی ضد کے سامنے ہر چیز ہوتی ہے)​

    لیکن ایک ضروری شرط یہ ہے کہ اس کا مقصد پورا ہوتا ہو اور سامنے کوئی خطرہ نہ ہو جومقصد پر حاوی ہوتا ہو۔ اگر اس کا مقصد پورا نہ ہوتا ہو، بایں طور کہ اسے ان کے حالات سے پردہ اٹھانے اور آگاہ کرنے سے منع کر دیا جائے تواقامت کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اور اگر اس کی مراد پوری ہوتی ہو لیکن ساتھ ہی ساتھ کوئی بڑا خطرہ بھی ہو۔ جیسے یہ کہ کافر اس کے مقابلہ پر اتر آئیں ،اسلام، رسول اسلام اور ائمہ اسلام کو گالیاں دینے لگیں اور برا بھلا کہنے لگیں تو خاموشی اختیار کر لینا واجب ہے۔ کیوں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

    [font="al_mushaf"]﴿وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ فَيَسُبُّواْ اللّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ﴾[/font]
    (الانعام: 108)
    (اور گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں پھر وہ براہ جہل حد سے گزر کر اللہ کو گالی دیں ہم نے اسی طرح ہر طریقہ والوں کو ان کا عمل مرغوب بنا رکھا ہے ،پھر اپنے رب ہی کے پاس ان کو جانا ہے سو وہ جتلادے گا جو کچھ بھی وہ کیا کرتے تھے)​

    کافر ملک میں اسی طرح آدمی کی اقامت بھی درست ہے جو مسلمانوں کی طرف سے جاسوس بن کر وہاں اقامت کرنا چاہتا ہو تاکہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والی سازشوں کے بارے میں آگاہی حاصل کرے اور مسلمان ان سے ہوشیار رہیں۔ جس طرح نبی ﷺنے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو مشرکین کے درمیان بھیجا تھا کہ آپ ان کے حالات سے آگاہ رہیں۔[font="al_mushaf"]( صحيح مسلم، كتاب الجهاد ، باب غزوة الأحزاب.)[/font]

    تیسری نوعیت: یہ ہے کہ مسلم حکومت کی کسی ضرورت، اور کافر ملک کے ساتھ تعلقات کو منظّم کرنے کی غرض سے اقامت اختیار کی جائے، جیسے سفارت کے اہل کار، تو اس کا حکم اقامت کی غرض و غایت کے تابع ہے۔مثلاً ملحق ثقافی: جس کا قیام اس غرض سے ہوتا ہے کہ طلبہ کے معاملات کی دیکھ بھال اور ان کی نگرانی ہو، انہیں اسلام اور اسلامی اخلاق و آداب پر کار بند رکھا جائے۔ تو ایسی اقامت سے ایک بڑی مصلحت حاصل ہوتی ہے اور شر دفعیہ ہوتا ہے۔

    چوتھی نوعیت: یہ ہے کہ اقامت تجارت اور علاج جیسی کسی خاص اور جائز ضرورت کی غرض سے ہو، تو ضرورت کے مطابق یہ اقامت درست ہے۔ علماء رحمہم اللہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے بغرض تجارت کافر ملک میں جانے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔

    پانچویں نوعیت: یہ ہے کہ تعلیم کی غرض سے وہاں اقامت کی جائے۔ یہ اقامت بھی سابق اقامت کی طرح اقامت برائے ضرورت ہی کی قسم ہے۔ لیکن اس سے زیادہ خطرناک اور قیام کرنے والے کے دین و اخلاق کے حق میں سخت تباہ کن ہے۔ وجہ یہ ہے کہ طالب علم شعوری طو پر اپنے رتبہ کی پستی اور استاذ کے مرتبہ کی بلندی کی احساس رکھتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کی تعظیم، ان کے افکار و خیالات اور ان کے کردار سے متاثر ہونے لگتا ہے، اور انہیں کا راستہ اپنا لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی جس کو بچالے بچالے، لیکن ایسے طالب علموں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ طالب علم کو اس بات کا احساس رہتا ہے کہ اسے اپنے استاذ کی ضرورت ہے ،اور یہ احساس اس کو استاذ کی محبت تک ہی نہیں بلکہ استاذ کے انحراف اور گمراہی کے سلسلے میں مداہنت اختیار کر لینے تک پہنچادیتا ہے ۔ درس گاہ میں اس طاب علم کے ساتھی حضرات بھی ہوتے ہیں جن میں سے کچھ سے اس کی دوستی ہو جاتی ہے، پیارو محبت کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے اور ان سے فائدہ بھی پہنچنے لگتا ہے۔

    سابقہ اقامتوں کی بہ نسبت اس اقامت میں چونکہ خطرات زیادہ ہیں اس لئے احتیاط کچھ زیادہ ہی ضروری ہو جاتی ہے۔ چنانچہ دونوں بنیادی شرطوں کے ساتھ مزید چند شرطیں عائد کی جاتی ہیں:

    شرط اول: طالب علم عقل کی پختگی کے ایسے مقام پر پہنچ چکا ہو کہ سیاہ وسفید میں تمیز کر سکے اور آگے دور تک سوچ سکے۔ نو عمروں اور کوتاہ عقلوں کو بھیجنا ان کے دین، اخلاق اور کردار کے لئے خطرناک ہے۔ پھر وہ خود اپنی امت کے لئے بھی خطرہ ہیں جن میں کہ وہ واپس آئیں گے اور ان میں بھی وہی زہر گھولیں گے جسے کافروں کے ہاتھوں پی آئے ہیں۔ واقعات اس کی گواہی دے چکے ہیں اور دے رہے ہیں۔ بہت سے طالب علم جنہوں نے حصول علم کے لئے کافر ملکوں میں اقامت اختیار کی ہے جب لوٹے ہیں تو اپنا سب کچھ لٹا کر لوٹے ہیں، اپنے دین، اخلاق اور کردار سے منحرف ہو کر آئے ہیں۔ ان کو اور ان کے معاشرے کو اس تعلق سے جو نقصان پہنچا ہے وہ ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی ہے۔ ایسے لوگوں کو بھیجنا بکریوں کو خونخوار کتوں کے حوالہ کر دینے کے مترادف ہے۔

    شرط دوم: طالب علم کے پاس شریعت کا اتنا علم ہو کہ وہ حق اور باطل کے درمیان تمیز اور باطل کا حق سے توڑ کر سکے۔ تاکہ کافروں کے افکار و اعمال سے دھوکہ میں مبتلا نہ ہو جائے جو ظاہر ہے کہ باطل ہیں۔ اگر طالب علم اس معیار کا نہیں ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ ان کے افکار و اعمال کو حق سمجھ بیٹھے، یا پس و پیش میں پڑ جائے ،یا ان کا دفعیہ کرنے میں عاجزی کا شکار ہونے لگے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ حیران ہو جائے گا یا باطل کو گلے لگالے گا۔دعائے ماثور ہے:

    ‘‘[font="al_mushaf"]اَللَّھُمَّ اَرِنِي الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنِیْ اتِّبَاعَہُ ۔وَاَرِنِي الْبَاطِلَ بَاطِلاً وَارْزُقْنِیْ اجْتِنَابَہُ ۔وَلَا تَجْعَلْہُ مُلْتَبِسًا عَلَیَّ فَاٴَضَلُّ[/font]’’
    (اے اللہ !مجھے حق کو حق دکھا اور اس کی اتباع کی توفیق دے۔ اور مجھے باطل کو باطل دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق دے۔ میرے لئے اس کو الجھا ہوا نہ بنادے کہ میں گمراہ ہو جاؤں)​

    شرط سوم: طالب علم کے پاس ایسی دین داری ہو جو اسے کفر اور فسق سے محفوط اور مامون رکھ سکے۔ کیوں کہ دین میں نا پختہ کار وہاں اقامت اختیار کر کےصحیح سالم نہیں رہ سکتا۔ الا ماشاء اللہ۔ وجہ یہ ہے کہ حملہ آور سخت ہوگا اور دفاع کرنے والا کمزور ،وہاں کفر و فسق کے اسباب قوی ہوں گے اور طرح طرح کے ہوں گے۔ جب ایسے محاذ پر حملہ آور ہوں گے جہاں کا دفاع کمزور ہو تو اپنا عمل کر جائیں گے ۔

    شرط چہارم: اس علم کی حاجت ہو جس کی وجہ سے قیام ہوا ہے، مثلاً اس علم کے حصول میں مسلمانوں کی کوئی مصلحت پوشیدہ ہو اور ان کے اپنے ملک کی تعلیم گاہوں میں اس طرز کی تعلیم کا وجود نہ ہو۔ اگر ایسا فضول علم ہے جس میں مسلمانوں کی کوئی بھلائی نہ ہو، یا اسلامی ملک میں ایسے مدارس کا وجود ہو جہاں اس طرح کی تعلیم کا انتظام ہے تو اس علم کے لئے کافر ملک میں اقامت جائز نہیں ہوگی۔ کیوں کہ اقامت میں دین و اخلاق کو خطرہ اور بلا وجہ کثیر دولت کا زیاں ہے۔

    چھٹی نوعیت: یہ ہے کہ سکونت اختیار کرنے کے لئے قیام ہو۔ یہ سب سے زیادہ خطرناک ہے ۔کیوں کہ کافروں کے ساتھ مکمل میل جول سے بڑے بڑے مفاسد جنم لیں گے ۔اس کے شعور میں یہ بات بیٹھ جائے گی کہ وہ بھی اہل وطن میں سے ہے۔ اس لئے لازماً اس کی طرف سے اسیے کاموں کا صدور ہوگا جن کا کہ وطن پرستی تقاضہ کرتی ہے۔ جیسے میل جول، دوستی اور جماعت کافرین میں اضافہ۔ اس کے اہل و عیال کافروں کے درمیان رہ کر تربیت حاصل کر یں گے اور ان کی عادات و اخلاق کو اپنا لیں گے ۔ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ عقیدہ اور عبادت میں بھی ان کا طرز اپنا لیں ۔اسی لئے حدیث میں نبی کریم ﷺ سے مروی ہے:‘‘[font="al_mushaf"]مَنْ جَامَعَ المُشْرِكَ، وَسَكَنَ مَعَهُ فَإِنَّهُ مِثْلُهُ[/font]’’ [font="al_mushaf"](رواه أبو داود ، كتاب الجهاد ، باب: الإقامة بأرض المشركين.)[/font] (جو مشرک کے ساتھ بودوباش رکھتا ہے وہ اسی جیسا ہے)۔ حدیث اگرچہ ضعیف السند ہے لیکن ایک نظریہ فراہم کرتی ہے کہ بودو باش گھل مل جانے کی اپیل کرتے ہیں۔ قیس بن ابی حازم جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:‘‘[font="al_mushaf"]أَنَا بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ يُقِيمُ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُشْرِكِينَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلِمَ؟ قَالَ: لَا تَرَايَا نَارَاهُمَا[/font]’’[font="al_mushaf"] (أخرجه أبو داود ، كتاب الجهاد ، باب: النهي عن قتل من اعتصم بالسجود. والترمذي كتاب السير، باب: ما جاء في كراهية المقام بين أظهر المشركين.)[/font] (میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا سہتا ہے۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! کیوں؟ فرمایا: دونوں کی آگ ایک دوسرے کو دکھائی نہیں دینی چاہئے)۔ اس حدیث کو ابو داؤد اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور اکثر راویوں نے اسے(قیس بن ابی حازم عن النبی ﷺ) مرسلاً ہی روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے کہا کہ میں نے محمد یعنی امام بخاری سے سنا ہے ان کا کہنا ہے کہ حدیث قیس عن النبی ﷺ مرسل ہی درست ہے۔آپ کا کلاختم ہوا)۔

    کسی مومن کی طبیعت کیسے گوارہ کرے گی کہ وہ کافر ملک میں سکونت اختیار کرے جہاں شعائر کفر علی الاعلان ادا کئے جاتے ہوں۔ غیراللہ اور غیر رسول کا حکم چلتا ہو، وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور اپنے کانوں سے سنتا ہو اور اس پر راضی ہو؟ یا اس ملک کی طرف منسوب ہو یا اپنے اہل و عیال کے ساتھ وہاں سکونت پذیر ہو یا وہاں اپنے اہل و عیال کے دین و اخلاق کے لئے زبردست خطرے کے باوجود ایسا ہی سکون و اطمینان محسوس کرتا ہو جیسا کہ وہ کسی مسلم ملک میں محسوس کرسکتا ہے۔

    جہاں تک ہماری رسائی ہو سکی ہے ہم نے کافر ملک میں اقامت کا حکم بیان کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حق اور صواب کے موافق ہو۔

    [font="al_mushaf"](ماخوذ من شرح الاصول الثلاثۃ)[/font]​
    [/font]
     
  2. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    جزاک اللہ خیرا.
     
  3. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    جزاک اللہ خیرا.
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں