کلمہ گو مشرک کو مشرک کہنا کیسا ہے ؟

محمد جابر نے 'آپ کے سوال / ہمارے جواب' میں ‏مارچ 9, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. محمد جابر

    محمد جابر -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 27, 2010
    پیغامات:
    74
    آج کل طاہر القادری کا ایک مقالہ بریلویوں کی طرف سے فیس بک پر بہت زیادہ پیش کیا جارہا ہے ۔ جس میں طاہر القادری نے کلمہ گو کو مشرک کہنے والے کو مشرک ثابت کیا ہے ۔ یہ مقالہ تو طاہر القادری نے ان بریلویوں کے لیے لکھا تھا جو طاہر القادری کو پادری جیسے ناموں سے پکارتے ہیں ۔ لیکن بریلوی ذریت روئے سخن اہل توحید کی جانب پھیر کے سب کو مشرک کہنے پر لگی ہوئی ہے ۔
    آپ سے گزارش ہے کہ اس مقالہ کا علمی محاکمہ پیش فرمائیں اور روایات کی صحت و سقم بھی واضح کر دیں ۔
    سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں،رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
    ان ممااخاف علیکم رجل قرأالقراٰن حتی اذا روئیت بہجتہٗ علیہ وکان ردائہ الاسلام اعتراہ الی ماشآء اللہ انسلخ منہ ونبذہ وراء ظھرہ وسعٰی علی جارہ بالسیف ورماہ بالشرک قال قلت یانبی اللہ ایھما اولیٰ بالشرک المرمی اوالرامی؟قال بل الرامی۔
    ترجمہ:یعنی مجھے تم پر ایک ایسے آدمی کا اندیشہ ہے جو قرآن پڑھے گا حتیٰ کہ اس کی روشنی اس پر دکھائی دینے لگے گی،اور اس کی چادر(ظاہری روپ)اسلام ہوگا۔یہ حالت اس کے پاس رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا،پھر وہ اس سے نکل جائے گا اسے پس پشت ڈال دے گا،اور اپنے(مسلمان)ہمسائے پر تلوار اٹھائے گااور اس پر شرک کا فتویٰ جڑے گا،راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا:یانبی اللہ!دونوں میں شرک کا حقدار کون ہوگا؟جس پر فتویٰ لگا یا فتویٰ لگانے والا،آپ نے فرمایا:فتویٰ لگانے والا (مشرک ہوگا)
    یعنی وہ فتویٰ مسلمان پر چسپاں نہیں ہوگا بلکہ جدھر سے صادر ہواتھاواپس اسی کی طرف لوٹ جائے گا،اور وہ مسلمان کو مشرک کہنے والا خود مشرک بن جائے گا۔
    اس روایت کو حافظ ابن کثیر علیہ الرحمۃ نے پارہ نمبر۹، سورۃ الاعراف ،آیت نمبر ۱۷۵یعنی واتل علیہم نبأالذی اٰتینا ہ آیاتنا فانسلخ منھا …آلایۃ۔کی تفسیر میںنقل کیا اور لکھا ہے:ھذا اسناد جید یعنی اس روایت کی سند جید،عمدہ اور کھری ہے۔
    ملاحظہ ہو!1-تفسیرابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵،امجد اکیڈمی لاہور۔
    2-تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵ دارالفکر، بیروت
    علاوہ ازیں یہ مضمون درج ذیل مقامات پر بھی موجود ہے:
    3…مختصر تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۶۶۔ ۳…مسند ابو یعلی موصلی۔( تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵)
    4-الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان جلد۱صفحہ۱۴۹ برقم ۱۸۔
    5…صحیح ابن حبان،للبلبان جلد اول صفحہ۲۴۸ برقم ۸۱، بیروت۔
    6-المعجم الکبیر للطبرانی،جلد۲۰صفحہ۸۸ برقم ۱۶۹ ،بیروت ۔
    7…شرح مشکل الآثار للطحاوی،جلد۲صفحہ۳۲۴ برقم ۸۶۵، بیروت۔
    8…مسند الشامیین للطبرانی،جلد۲صفحہ۲۵۴برقم ۱۲۹۱، بیروت۔
    9…کشف الاستارعن زوائد البزار للہیثمی جلد۱صفحہ۹۹ برقم ۱۷۵، بیروت۔
    10…جامع المسانید والسنن ،لابن کثیر جلد۳صفحہ۳۵۳،۳۵۴ برقم ۱۸۴۲، بیروت۔
    11…جامع الاحادیث الکبیر،للسیوطی جلد۳صفحہ۱۲۱ برقم ۸۱۳۲،بیروت ۔
    12…کنزالعمال،للمتقی ہندی جلد۳صفحہ۸۷۲ برقم ۸۹۸۵۔
    13…ناصر الدین البانی (غیر مقلدسلفی) نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
    دیکھیئے!سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم الحدیث ۳۲۰۱۔ ۱۴…کتاب المعرفۃ والتاریخ للفسوی جلد۲صفحہ۳۵۸۔
    ثابت ہوگیا کہ مسلمانوں کو مشرک کہنے والا بذات خود مشرک ہے۔
    کیونکہ اصول یہ ہے کہ کسی مسلمان کی طرف کفر،شرک اور بے ایمانی کی نسبت کرنے سے قائل خود ان چیزوں کا حقدار ہوجاتا ہے۔مثلاً:
    ارشاد نبوی ہے:
    من کفر مسلما فقد کفر(مسند احمد جلد۲صفحہ۲۳)
    جس نے کسی مسلمان کو کافر قرار دیا وہ خود کافر ہوگیا۔
    مزید فرمایا:
    من دعا رجلا بالکفر اوقال عد وا للہ ولیس کذلک الا حار علیہ ۔
    ( مسلم جلد۱صفحہ۵۷،مشکوٰۃ صفحہ۴۱۱)
    جس نے کسی (مسلمان) شخص کو کافر یا اللہ تعالیٰ کا دشمن کہا اور وہ ایسا نہیں تھا تو یہ (باتیں) خود اس کی طرف لوٹ جائیں گی۔ یعنی وہ خود کافر اور بے ایمان ہوجائے گا۔
    مزید ارشاد فرمایا:
    اذا قال الرجل لاخیہ یا کافر فقد باء بہٖ احدھما۔
    (بخاری جلد۲صفحہ۹۰۱واللفظ لہٗ مسلم جلد۱صفحہ۵۷)
    جس نے اپنے (مسلمان)بھائی کو کہا:اے کافر!… تو یہ کلمہ دونوں میں سے کوئی ایک لے کر اٹھے گا ۔
    یعنی اگر کہنے والا سچا ہے تو دوسرا کافر ہوگا ورنہ کہنے والا خود کافر ہوجائے گا۔
    امام بخاری علیہ الرحمۃ نے لکھا ہے:
    من اکفر اخاہ بغیر تاویل فھو کما قال۔(بخاری جلد۲صفحہ۹۰۱)
    جس نے بغیر تاویل کے اپنے(اسلامی) بھائی کو کافر قرار دیا تو وہ خود کافر ہوجائے گا۔
     
  2. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    ان روایات کی صحت وسقم کی بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے بھی اگر غور کیا جائے تو پھر بھی ان دلائل سے قادری صاحب کی دال نہیں گلتی !
    کیونکہ :
    ۱۔ یہ دعوى ہی سقم فہم و زوال دانش پر دلالت کرتا ہے کیونکہ
    دعوى میں الفاظ استعمال کیے گئے ہیں " کلمہ گو مشرک کومشرک کہنا جائز نہیں " یعنی خود مان رہے ہیں کہ کلمہ گو مشرک ہے لیکن اسے مشرک کہنے سے گریز کرتے ہیں ۔
    یا دوسرے لفطوں میں یوں سمجھیں کہ کلمہ گو مشرک کو مشرک ہمارے مدعی بھی مانتے ہیں بس فرق صرف اتنا ہے کہ ہم اسے مشرک کہتے ہیں وہ کہتے نہیں !
    یعنی اسے مشرک ماننے میں اتفاق ہے اور کہنے میں اختلاف !
    اس "فقاہت" پہ کون مر نہ جائے اے خدا ......​

    ۲۔ دعوى ہے کہ کلمہ گو مشرک کو مشرک کہنا جائز نہیں ! جبکہ اس موضوع پر کوئی بھی دلیل پیش نہیں کی گئی ۔ دلائل مسلمان کو مشرک کہنے کی حرمت پر دلالت کرتے ہیں نہ کہ کلمہ گو مشرک کو مشرک کہنے کی حرمت پر !
    ۲۔ یہ تمام تر دلائل کسی مسلمان کو کافر یا مشرک کہنے سے متعلق ہیں ۔ کسی کافر کو کافر یا مشرک کو مشرک کہنے سے متعلق نہیں !
    یعنی جب کسی میں کفر یا شرک نہ پایا جائے اور اسے کافر یا مشرک کہا جائے تو یہ باتفاق امت ناجائز ہے اور مذکورہ بالا تمام تر دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہیں ۔
    لیکن
    جب کسی میں کفر یا شرک پایا جائے تو اسے کافر یا مشرک کہا جاسکتا ہے جیسا کہ اللہ نے قرآن میں جابجا مشرکون کافرون کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں اور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رسول صلى اللہ علیہ وسلم بھی اپنی گفتگو میں کافر کو کافر اور مشرک کو مشرک کہتے تھے ۔
    جبکہ طاہر القادری صاحب یہ چاہتے ہیں کہ ہم جتنا مرضی شرک یا کفر کرتے رہیں کوئی ہمیں کافر یا مشرک نہ کہے ۔ تو یہ اسلام کے منافی ہے ! اسلام کافر کو کافر اور مشرک کو مشرک کہتا ہے !
    رہی احادیث کی صحت وسقم کی بات تو یہ حدیث :
    دو صحابہ کرام سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
    معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ والی روایت المعجم الکبیر اور مسند الشامیین کلاہما للطبرانی میں محولہ بالہ مقام پر موجود ہے اور وہ ضعیف ہے کیونکہ :
    کی سند میں مطر بن طہمان الواراق ,ضعیف ہے اور اسکا دادا استاد معدی کرب المشرقی , مجہول ہے ۔ ابن حبان کے سوا اور کسی سے اسکی توثیق ثابت نہیں ۔
    اور سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ والی روایات باقی محولہ بالہ مقامات پر مذکور ہے اور وہ بھی ضعیف ہے کیونکہ :
    اسکی سند میں موجود راوی صلت , صلت بن مہران ہے جو کہ مجہول ہے ۔
    یاد رہے کہ ابن حبان کا اسے صلت بن بہرام کہنا مبنی بر خطأ ہے ۔
    اور علامہ البانی کی جو تصحیح نقل کی گئی ہے وہ بھی مردود ہے ۔
    اور دوسری حدیث :
    مجھے مذکورہ مقام پر ان الفاظ کے ساتھ نہیں ملی ۔ البتہ اس روایت میں یہ الفاظ ہیں :
    حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ حَدَّثَنَا فُضَيْلٌ يَعْنِي ابْنَ غَزْوَانَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّمَا رَجُلٍ كَفَّرَ رَجُلًا فَإِنْ كَانَ كَمَا قَالَ وَإِلَّا فَقَدْ بَاءَ بِالْكُفْرِ
    اور یہ روایت صحیح ہے ۔
    اور باقی روایات بخاری ومسلم کی ہیں جن کی صحت میں کوئی شک نہیں ۔
    اور انکی وضاحت پہلے کی جاچکی ہے کہ یہ کسی مسلمان کو کافر کہنے سے متعلق ہیں نہ کہ " کلمہ گو مشرک " کو کافر کہنے سے متعلق !


     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • مفید مفید x 1
  3. محمد جابر

    محمد جابر -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 27, 2010
    پیغامات:
    74
    دو باتوں کی وضاحت مطلوب ہے :
    1۔ ابن حبان کا قول کہ یہ صلت بن بہرام ہے ‘ غلط ہونے کی کیا دلیل ہے ؟
    ۲۔ علامہ البانی کا کی تصحیح مردود ہے ‘ اس اجمال کی تفصیل کیا ہے؟
    جزاکم اللہ خیرا وبارک فیکم
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  4. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    ۱۔ امام بخاری اپنی کتاب التاریخ الکبیر ج ۴ ص ۳۰۱ اور دوسرا نسخہ ج ۴ ص ۲۵۰ میں صلت بن مہران کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :
    صَلت بْن مِهران: قَالَ لَنَا عليٌ: حدَّثنا مُحَمد بن بَكر، حدَّثنا الصَّلت، حدَّثنا الْحَسَنُ، حدَّثني جُندُب، أَنَّ حُذَيفة حَدَّثَهُ، أَنَّ النَّبيَّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم قَالَ: أَخوَفُ مَا أَتَخَوَّفُ رَجُلٌ قَرَأَ القُرآنَ، خَرَجَ عَلى جارِهِ بِالسَّيفِ، ورَماهُ بِالشِّركِ
    یعنی امام بخاری نے اس حدیث کے روای صلت کوصلت بن مہران کے ساتھ متعین فرمایا ہے ۔ اور ابن حبان اور امام بخاری کا موازنہ انہی لفظوں میں کیا جاسکتا ہے کہ
    چہ نسبت خاک را باعالم پاک ....!
    اسی طرح ابن عساکر الدمشقی اپنی کتاب تبیین کذب المفتری فیما نسب إلى الأشعری میں اس روایت کو یوں نقل فرماتے ہیں :
    وَأَخْبَرَنَا الشُّيُوخُ أَبُو سَعْدٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ النَّيْسَابُورِيُّ الْمَعْرُوفُ بِالْكِرْمَانِيِّ الْفَقِيهُ بِبَغْدَادَ، وَأَبُو الْمُظَفَّرِ عَبْدُ الْمُنْعِمِ بْنُ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ هَوَازِنَ، وَأَبُو الْقَاسِمِ زَاهِرُ بْنُ طَاهِرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الشَّحَّامِيُّ بِنَيْسَابُورَ، قَالُوا: أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورِ بْنِ خَلَفٍ الْقَيْرَوَانِيُّ، قَالَ: نَا أَبُو طَاهِرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ خُزَيْمَةَ، قَالَ: نَا جَدِّي أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: نَا رَجَاءُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعُذْرِيُّ، نَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ، قَالَ: نَا الصَّلْتُ بْنُ مَهْرَانَ، قَالَ: نَا الْحَسَنُ، قَالَ: نَا جُنْدُبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجْلِيُّ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : " إِنَّ مِمَّا أَخَافُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي: رَجُلٌ قَرَأَ كِتَابَ اللَّهِ حَتَّى إِذَا رُؤِيَتْ عَلَيْهِ بَهْجَتُهُ، وَكَانَ رِدْءًا للإِسْلامِ اغْتَرَّهُ ذَلِكَ إِلَى مَا شَاءَ اللَّهُ، فَانْسَلَخَ مِنْهُ وَخَرَجَ عَلَى جَارِهِ بِالسَّيْفِ وَشَهِدَ عَلَيْهِ بِالشِّرْكِ ".قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَوْلَى بِهَا، الْمَرْمِيُّ أَوِ الرَّامِي؟.قَالَ: " بَلِ الرَّامِي "
    اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ یہ صلت نامی راوی صلت بن مہران ہے نہ کہ صلت بن بہرام !
    ۲۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ میں اس حدیث کو صحیح نہیں کہا ! , ہاں البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس حدیث کے بعض معنى کو صحیح قرار دیا ہے ۔ اور وہ خود اس روایت کی سند کی صحت پر عدم اطمینان کا اظہار فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں :
    قلت: وسواء كان هذا أو ذاك، فالحديث حسن إن شاء الله تعالى؛ لأن له شواهد في الجملة، منها حديث عمر مرفوعاً:"إن أخوف ما أخاف على أمتي كل منافق عليم اللسان "رواه أحمد وغيره بسند صحيح عن عمر، وهو مخرج فيما تقدم (٣/١١/١٠١٣) . ورواه البيهقي في "شعب الإيمان " (٢/٢٨٤/٧٧٧ ١) بلفظ:".. منافق يتكلم بالحكمة، ويعمل بالجور". وحديث ابن عمر مرفوعاً بلفظ:"إذا قال الرجل للرجل: "يا كافر! فقد باء به أحدهما إن كان كما قال، وإلا؛ رجعت على الآخر".أخرجه أحمد (2/44) ، ومسلم وغيرهما[سلسلة الأحاديث الصحيحة : 7/ 608]۔
    یعنی شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو چند دیگر روایات کی بناء پر سلسلہ صحیحہ میں نقل فرمایا ہے ۔ جبکہ ان روایات میں وہ الفاظ نہیں ہیں جو اس روایت میں ہیں ۔ اور خود البانی رحمہ اللہ نے بہت سی احادیث کو اسی بناء پر ضعیف قرار دیا ہے کہ ان روایات کے الفاظ بسند صحیح ثابت نہ ہیں ۔
    اور علم اصول میں یہ بات مسلمہ ہے کہ کوئی روایت کسی دوسری روایت کے لیے شاہد تبھی بن سکتی ہے جب اسکے الفاظ اور معنى یا صرف معنى اس دوسری مشہود لہ روایت کے مطابق ہو ۔ جبکہ یہاں ایسا نہیں ہے ۔
    لہذا ہم مکمل اطمینان سے کہہ سکتے ہیں محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ کا اس روایت کو سلسلہ صحیحہ میں نقل فرمانا قرین قیاس کے خلاف ہے ۔ اللہ تعالى انکے اس سہو سے درگزر فرمائے ۔ آمین
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • مفید مفید x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں