اسامہ بن لادن کی نظر میں ’قیادت‘ کی صفات

محمد آصف مغل نے 'مضامين ، كالم ، تجزئیے' میں ‏جولائی 2, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    گزشتہ سال پاکستان میں اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ سے ملنے والے دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ القاعدہ کے سربراہ افریقہ میں تنظیم سے وابستہ مسلح گروہ کو ’گُڈ گورننس‘ یعنی بہتر حکومتی اقدار کے بارے میں تجاویز دے رہے تھے۔

    حال ہی میں امریکی فوج کے انسدادِ دہشتگردی کے مرکز (کومبیٹنگ ٹیرر ازم سنٹر) نے برآمد ہونے والے چھ ہزار دستاویزات میں سے سترہ کو آن لائن شائع کیا ہے۔ ان میں سے ایک صومالی مذہبی مسلح گروہ الشہاب کے سربراہ احمد عابدی محمود گودان المعروف مختار ابو زبیر کے نام خط ہے۔

    سات اگست سنہ دو ہزار دس کی تاریخ والے اس خط میں بن لادن الشہاب کے سربراہ کو بہتر قیادت کے بارے میں تجاویز پیش کرتے ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ انہیں ’نیک کردار‘ برقرار رکھنا چاہیے جو کہ ’رحم دلی، انصاف، صبر و تحمل اور شہریوں کے ساتھ بہتر تعلقات‘ سے واضح ہوتا ہے۔

    کینیڈا کی میکگل یونیورسٹی میں اسلامی تحریکوں پر تحقیق کرنے والے کرسٹوفر اینزالون کا خیال ہے کہ اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ اسامہ بن لادن کی نظر میں صومالیہ ایک ایسا ملک تھا جہاں مستقبل میں ’مجاہدین‘ ایک جہادی ریاست قائم کر سکتے ہیں۔

    ان دستاویزات پر مبنی ایک رپورٹ ’لیٹرز فرام ایبٹ آباد سائڈ لائنڈ‘ میں کہا گیا ہے کہ اسامہ بن لادن کے مشوروں سے پتا چلتا ہے وہ ابو زبیر کو بتانا چاہتے تھے کہ ان کی قیادت کی کامیابی کا پیمانہ صومالی عوام کی ضروریات کا پورا ہونا ہے۔

    فروری سنہ دو ہزار بارہ میں الشہاب کے سربراہ نے اپنی تنظیم کے القاعدہ سے منسلک ہونے کا اعلان اور ایمن الظواہری کی پیروی کا عہد کیا تھا تاہم اپنی ہلاکت سے پہلے بن لادن نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔

    ان کے خیال میں القاعدہ اور الشہاب کا الحاق منظرِ عام پر آنے سے صومالیہ میں مسلمانوں کے لیے جاری امدادی کارروائیوں پر اثر پڑے گا۔

    شائع ہونے والے دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ ایمن الظواہری اس موقف کے خلاف تھے اور ان کے خیال میں اس اعلان سے القاعدہ کو فائدہ ہوگا۔

    اپنی ہلاکت تک دنیا کے سب سے مطلوب شخص نے صومالیہ میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کرنے کی بھی مخالفت کی۔ ان کے خیال میں اس اقدام سے الشہاب کے مخالفین تیزی سے ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔

    کرسٹوفر اینزالون کا کہنا تھا کہ اسامہ بن لادن الشہاب کے ’جارحانہ رویے‘ کے ممکنہ نقصانات سے بخوبی واقف تھے۔

    اسامہ بن لادن لکھتے ہیں کہ اس رویے میں زیادہ ٹیکس لگانے اور مال مویشیوں کو ضبط کرنے کے ساتھ ساتھ موغادیشو کے واقعات میں الشہاب کے جنگی حربے شامل ہیں۔ موغادیشو میں تنظیم کی کارروائی کے جواب میں افریقی یونین کے صومالیہ میں امن مشن نے اقدامات اٹھائے تھے اور اس کے بعد عوام میں الشہاب کی مخالفت بڑھنے کا امکان تھا۔

    ’صومالی وار مانیٹر‘ کی ویب سائٹ کے ایڈیٹر اے آر سید کا کہنا ہے کہ ان چند دستاویزات کی اشاعت سے القاعدہ اور الشہاب کے تعلقات کو سمجھا نہیں جا سکتا۔

    ان کے مطابق ’سنہ انیس سو ترانوے میں بلیک ہاک ڈاؤن نامی واقعات کے بعد بھی القاعدہ کے لیے صومالیہ کو سازگار ملک تصور نہیں کیا جاتا۔ پھر بھی الشہاب تحریک کے سامنے آنے سے پہلے سے ہی صومالیہ القاعدہ کے لیے ایک اہم ملک ہے۔‘

    بی بی سی اردو ڈاٹ کام

    تبصرہ:

    دل کو بہلانے کے لیے خیال اچھا ہے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. مریم

    مریم -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2012
    پیغامات:
    844
    بہت بہت شکریہ
    جزاک اللہ
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں