جمال عبد الناصرکی بیگم تحیہ کاظم ایرانی نژاد اور اصل اًشیعہ تھیں!؟

محمد آصف مغل نے 'خبریں' میں ‏جولائی 23, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    مصر کے سابق صدر مرحوم جمال عبدالناصر کی اہلیہ بیگم تحیہ کاظم ایرانی نژاد اور اصلا شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی تھی اور کیا انہوں نے اپنا مسلک تبدیل کر کے جمال عبدالناصر کے ساتھ شادی کی تھی؟۔ یہ وہ سوالات ہیں جو مرحومہ کے دنیا سے چلے جانے کے کئی سال کے بعد ایک مرتبہ پھر میڈیا کی شہ سرخیوں کا موضوع بنے ہیں۔

    مرحومہ تحیہ کاظم کے شیعہ مسلک سے تعلق کے بارے میں لندن میں "العربیہ ڈاٹ نیٹ" کے ایک باوثوق ذریعے نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بعض اہم انکشافات کیے ہیں۔

    اخباری ذریعے کا کہنا ہے کہ سابق مصری صدر جمال عبدالناصر کے لبنانی شیعہ رہ نما موسیٰ الصدر کے ساتھ گہرے دوستانہ مراسم تھے۔ ایک مرتبہ قاہرہ میں جمال عبدالناصر کی جانب سے اپنے ہم دم دیرینہ موسیٰ الصدر کو بھی کھانے پر مدعو کیا گیا۔ دستر خوان پر انواع واقسام کے کھانے چنے گئے۔ ان میں"الجمبری" نامی ایک پھل میں رکھا گیا۔

    یہ سنہ 1969ء کا واقعہ ہے جب لبنانی شیعہ مذہبی رہ نما موسیٰ الصدر قاہرہ میں اسلامک ریسرچ آڈیٹوریم کے دورے پر آئے تھے۔ کھانے کے دوران جمال عبدالناصر نے محسوس کیا کہ ان کے مہمان موسیٰ الصدر "الجمبری" کھانے سے گریز برت رہے ہیں۔ اس پر وہ پھل نہ کھانے کی وجہ پوچھ بیٹھے، تو موسیٰ الصدر نے کہا کہ ہمارے یعنی اہل تشیع کے ہاں حلال وحرام اور کچھ مکروہات بھی ہوتی ہیں۔ یہ پھل ہمارے ہاں کھانا حرام اشیاء میں آتا ہے اس لیے ہم اسے نہیں کھاتے ہیں۔ جمال عبدالناصر اس بات پر مسکرائے اور کہنے لگے، "اچھا ! تو آپ کا طرز عمل اور ہمارے گھر والوں کا طرز عمل ایک جیسا ہے"۔

    العربیہ کے جس ذریعے نے یہ واقعہ بیان کیا ہے، وہ غالبا اس ملاقات میں دعوت پر بھی موجود تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے تو ہم یہ سمجھے کہ جمال عبدالناصر اپنے بیٹیوں منیٰ، ھدیٰ، یا بیٹوں عبدالحمید اور عبدالحکیم کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ وہ بھی یہ پھل نہیں کھاتے ہیں لیکن بعد میں خود جمال عبدالناصر نے بتایا کہ ان کی مراد بیگم تحیہ کاظم تھی جو الجمبری کھانے سے اجتناب کرتی ہے۔ چنانچہ سابق صدر کے اس جملے سے یہ بات منکشف ہوئی کی ان کی بیگم اصلا شیعہ تھی جس نے بعد میں اپنا مسلک تبدیل کیا تھا۔

    العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق سابق مصری صدر جمال عبدالناصر کی اہلیہ تحیہ کاظم کے شیعہ ہونے اور بعد ازاں شافعی یا حنفی مسلک اختیار کرنے کے بارے میں کئی دیگر تجزیہ نگار بھی اپنے پاس معلومات رکھتے ہیں۔ تاہم یہ بات حیران کن ہے کہ مصر کے ایک مکمل عربی تشخص کے حامل ملک کے سربراہ کی بیگم کے اصلا شیعہ ہونے کے بارے میں کامل اٹھارہ سال تک کسی کو علم نہیں تھا اور تمام لوگ انہیں ایک شافعی مسلمان سمجھتے رہے۔

    اسی سلسلے میں اردن کی خاتون تجزیہ نگار اور مصنفہ ڈاکٹر حکمت القطاونہ نےبھی ایک مقالے میں لکھا ہے کہ جمال عبدالناصر کی اہلیہ تحیہ کاظم معروف شیعہ رہ نما علامہ جعفر کاظم رشتی کی پوتی تھیں۔ ان کا خاندان ایران کے ھاشمی شیعہ خاندانوں میں سے ایک ہے جن کے آباؤ اجداد نے ایران کے شہر "رشت" کو اپنا مسکن بنایا۔ اسی نسبت سے علامہ الجعفری بھی رشتی ہی کہلائے۔ بعد ازاں تحیہ کے والدین وہاں سے مصر کے شہر حلوان منتقل ہو گئے۔ علامہ الجعفری کی پوتیوں میں تحیہ کاظم اور قاہرہ یونیورسٹی کی سابق چانسلر اور مشہور صحافیہ ڈاکٹر صافی ناز کے نام نمایاں ہیں۔

    العربیہ ڈاٹ نیٹ نے اردنی صحافیہ سے تحیہ کاظم کے شیعہ ہونے کے بارے میں لکھے مضمون پر تبصرے اور معلومات کے ذریعے کے بارے میں جاننا چاہا،تو انہوں نے ٹیلیفون پر بتایا کہ ان کے تحیہ کے بارے میں لکھے گئے مضمون کو کئی سال گذر چکے ہیں اور اب انہیں صحیح طور پر یاد نہیں کہ ان کی معلومات کا ذریعہ کیا تھا تاہم انہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ درست ہی لکھا ہے۔

    جمال عبدالناصر اور تحیہ کاظم جب رشتہ ازدوج میں منسلک ہوئے تو اس وقت جمال کی عمر پچیس سال اور تحیہ کی بائیس سال تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جمال عبدالناصر کے اہل خانہ کو تحیہ کا رشتہ مانگتے ہوئے دو مرتبہ انکار بھی ہوا تھا تاہم بعد ازاں اس کے اہل خانہ مان گئے تھے۔

    العربیہ ڈاٹ نیٹ نے سابق خاتون اول تحیہ کے مسلک اور اصل قومیت کے بارے میں ان کی ایک قریبی عزیزہ صافی ناز کاظم سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تو صافی ناز نے کہا کہ اس کا تحیہ کے ساتھ خونی رشتے کے قرابت داری کے علاوہ اور کوئی قریب یا دور کا تعلق نہیں رہا ہے اور نہ ہی وہ اس کے مسلک کے بارے میں کچھ جانتی ہے۔

    تاہم تحیہ کی ایک بھتیجی عائدہ الرزق کا کہنا ہے کہ تحیہ کے والد ایک غیر مذہبی شخص تھے گو کہ ان کا اپنا مسلک اہل تشیع تھا لیکن انہیں کبھی بھی اپنے مسلک کے مطابق عمل کرتے دیکھا نہیں کیا گیا۔ وہ چائے اور قالینوں کی تجارت کرتے تھے اور یہی ان کی وجہ شہرت تھی۔


    میری "ماما" شیعہ تھی اور نہ ہی شافعی
    جمال عندالناصر کی بیگم اور سابق خاتون اول کے شیعہ مسلک کے بارے میں سامنے آنے والی اطلاعات نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کا رابطہ مرحومہ کی ایک بیٹی اور اشرف مروان کی بیوہ "منیٰ" سے بھی کرایا۔ وہ ان دنوں اسپین کے دورے پر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ روزے سے ہیں اور اتنے دور سے زیادہ تفصیل میں بیان نہیں کر سکتیں۔ البتہ انہوں نے اپنی والدہ کے بارے میں ان اطلاعات کی سختی سے تردید کی کہ وہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی تھیں اور بعد میں انہوں نے شافعی مسلک اختیار کرل یا تھا۔ منٰی نے بتایا کہ میری امی نہ تو شیعہ تھیں اور نہ ہی شافعی تھیں۔

    ایک سوال کے جواب میں منیٰ نے کہا کہ میری والدہ کے دادا کا نام مصطفیٰ کاظم تھا جو ایران کے شہر اصفہان سے ھجرت کر کے قاہرہ آ گئے تھے، میری والدہ اور والد کی پیدائش مصر کی ہے۔

    منٰی نے بتایا کہ میری والدہ نے اپنی زندگی میں اپنی خود نوشت تحریر کی تھی۔ اگر وہ اصلا شیعہ اور فارسی ہوتیں تو وہ اپنی کتاب میں فارسی کا کوئی لفظ ضرور استعمال کرتیں لیکن انہوں نے اپنی پوری کتاب فرانسیسی زبان میں تحریر کی ہے، جس سے ان کے ایرانی الاصل ہونے کے تمام شبہات دور ہو جاتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارا پوار خاندان حنفی مسلک سے تعلق رکھتا ہے۔ میری والدہ جب ہم بہن بھائیوں کو نماز سکھاتی تھیں تو حنفی مسلک کے طریقے مطابق سکھاتی تھیں حالانکہ ہمارے ملک میں اکثریت شافعی مسلک کے پیروکاروں کی ہے۔

    العربیہ ڈاٹ کام
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    ویسے اس بحث کا مجھے کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔ اگر آپ کے نزدیک اس میں کوئی انتہائی اہم نکتہ یا تاریخی حقیقت کی طرف اشارہ ہو تو بیان فرما دیں۔
    نوازش ہو گی
     
  3. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    لا حاصل اور بے فائدہ!
     
  4. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    بہت مفيد اور عمدہ ۔
     
  5. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    فائدہ مند نکتہ بھی بیان فرما دیں
     
  6. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063
    السلام علیکم

    ویسے کئی ایسے نکات ہوتے جہاں‌افادیت تو درکنار ، نقصان ہی نقصان ہوتا ہے، لیکن پھر بھی بے شمار مباحثے ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

    جمال عبدالناصر کے حوالے سے یہ باتیں‌منظر عام پر آئیں‌تو واقعی مفید انفو ہی متصور ہوگی کہ جب اہل خانہ اہل تشیع میں سے ہو تو ان کے دور میں‌اخوان جیسی تنظیم کے ساتھ صفاک مظالم کرنا کوئی عجب بات نہیں‌رہی ہوگی ایسے کہ اہل تشیع تو نان اہل تشیع سے ہمیشہ کا بیر رکھتے ہیں۔۔۔اور جمال عبدالناصر کے ذہن اہل تشیع کے لئے نرم اور گرم ہو تب نان اہل تشیع کے لئے وہاں‌صفاکیت سے پر ہی ہوگا۔، جہاں‌جہاں باطل کے لئے نرم گوشہ ہو وہاں‌وہاں‌اہل حق کے لئے مشاکل کا دور دیکھنے میں‌آتا ہے۔

    جمال عبدالناصر کا دور اسکی ایک زندہ جاوید مثال ہے۔

    تھینک فار انفو۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  7. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    بہت شکریہ ابومصعب بھائی۔ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین
     
  8. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    فائدہ مند نکتہ تو کسی بھی تحریر میں نکل سکتا ہے ۔ جیسے آج تک یہ معمہ ہی ہے کہ جمال عبدالناصر نے تمام وسائل ہونے کے باوجود عرب اسرائیل جنگ 1967 کے فیصلہ کن معرکے میں تاخیرکیوں کی تھی ؟ نتیجتا ، اسرائیل کی جوابی کاروائی سے مصر کا ائربیس تباہ ہوگیا اور آخری امید بھی جاتی رہی ۔
     
  9. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    جی بالکل فائدے ہی فائدے ہیں ذرا غور فرمائیں!
    جمال عبدالناصر، اس سے پہلے اور اس کے بعد والے ادوار میں یہودی و شیعہ وغیرہ عورتیں بہت زحمت اُٹھا کر کسی ’’ایماندار حاکم‘‘ کی بیوی بنتی، پھر وہ بچے جنتی اور پھر کہیں جا کر وہ اس قابل ہوتی کہ اپنے ایماندار حاکم پر اثر و رسوخ استعمال کر سکیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان جیسی عورتوں سے بچنے کا حکم دیا ہے
    وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ۰ۭ وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْكُمْ۰
    اور آج کوئی بھی یہودی و نصرانی اور شیعہ عورت ایسی نہیں جو شرکیہ اُمور میں ملوث نہیں۔ الا ماشاء اللہ۔
    اس آیت میں غور کرنے سے نوجوانوں کو اور بھی بہت سے فائدے حاصل ہوں گے۔ اور دل لگی کرنے والے ’’ایمانداروں‘‘ کو بھی فائدہ حاصل ہو گا۔ اور سب سے بڑھ کر اسلام کو یہ فائدہ حاصل ہو گا کہ غریب مسلم بیٹی والدین کے گھر بیٹھے بیٹھے ہی سر میں چاندی نہیں سجائے گی۔ بلکہ جہیز و بارات جیسی لعنتوں سے بچ بچا کر اپنے گھر روانہ ہو گی اور معاشرہ بدکاری سے محفوظ رہے گا۔
    دوسرا پہلو: آج کل انٹر نیٹ کا دور ہے، آج کل کی یہودی و شیعہ عورتیں شادی کر کے بچے جننے کی زحمت کئے بغیر ہی ’’نیٹ پر بیٹھے بیٹھے‘‘ حاکم و غیر حاکم پر کسی بھی وقت، کسی بھی حالت میں اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ انہی کی دیکھا دیکھی کچھ ’’ماڈریٹ خواتین‘‘ بھی جو بظاہر تو ’’مسلم‘‘ ہیں، انہوں نے بھی چھوٹے بڑے ’’حاکم‘‘ اور غیر حاکم کے علاوہ ’’شریک چیئرپرسن‘‘ وغیرہ وغیرہ جیسے لوگوں پر ’’اثر انداز‘‘ ہونا شروع کر دیا ہے۔ بقول مفتیان کے گناہ کبیرہ میں خود ملوث ہونے کے بعد دیگر ’’ایمان والے مردوں‘‘ کو بھی اپنی چکنی چپڑی باتوں سے اپنا حمایتی بنا کر انہیں بھی گناہِ کبیرہ کے ’’سرپرست‘‘ بنا رہی ہیں۔ حالانکہ ’’ایمان والی عورتوں‘‘ سے اللہ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
    فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ
    کسی (اجنبی شخص سے) نرم نرم باتیں نہ کیا کرو
    اگر ان آیات پر غور کیا جائے تو عقل والے بہت سے فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔
     
    Last edited by a moderator: ‏جولائی 27, 2012
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  10. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    ويسے تو ’ تفصیل پھر کبھی ‘ والا ٹوٹکا یاد آ رہا ہے ۔
    جمال عبدالناصر کے سیاسی فلسفے کو ایک لفظ میں بیان کیا جاتا ہے ’ الناصریہ‘ یا ناصرازم۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ اس بدبخت نے سقوطِ خلافت عثمانیہ اور فرانسیسی استعمار کے دفع ہونے کے بعد ٹکڑیوں میں بٹی امت کے شیرازے کو عرب قومیت ( عرب نیشنلزم ) کے نعرے سے مزید بکھیرا۔ اسی نے نوآزاد مصر کا تعلق فاتح مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اور اسلام سے توڑ کر فراعنہ مصرکی عریاں و مردہ ، اخلاق سے گری ہوئی تہذیب و ثقافت سے جوڑا۔ (یاد رہے کہ اس وقت اس کے سسرال میں شاہ ایران کا فلسفہء آزادئ نفس پرستی عام تھا اور اہل ایران اباحیت و بے حیائی میں موجودہ فرانس اور امریکا سے کہیں آگے تھے۔ سارکوزی اپنے مختصر عرصہء اقتدار میں شاہ ایران کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکا۔ ) عرب نیشنلزم کا نظریہ مصر تک محدود نہیں رہا اس نے کینسر کی مانند باقی مشرق وسطی کو جکڑ لیا آج تک اس کا زہر عرب ممالک میں موجود ہے اور مسلم اخوت کے احیاء کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ، اسی قومیتی تفاخر نے نو آزاد مسلم ریاستوں کو مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر پر مشترکہ موقف اختیار کرنے سے روک دیا ۔ خود ناصر کا کشمیر پر انتہائی متعصبانہ بیان موجود ہے۔ اس کی موت کے بعد یہ نظریہ ناصری پارٹی کی میراث بنا ۔ حالیہ مصری انتخابات میں بھی ناصری پارٹی کا نیم جان گھوڑا موجود تھا۔ یہ اس کے نامہء اعمال کی ایک سطر ہے ۔ مستزاد اس نے بھیک میں ملی جمہوریت میں اشتراکیت کا تڑکا لگا کر رہی سہی کسر پوری کر دی ۔ آپ کو اس کے عہد کے اہم اقدامات کی ایک طویل فہرست ملے گی جس نے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیا ۔ نہر سویزکے دفاع میں غفلت ، اخوان المسلمون کی اصلاحی و تعلیمی تحریک پر بلا جواز ظلم ، جو سید قطب کے قتل پرمنتج ہوا ، جس نے بالآخر اخوان کو پرتشدد مزاحمت کی جانب دھکیلا، شام اور مصر کا اتحاد جس نے برسوں شام کے ساحل پر دبکے رہنے والے اقلیتی رافضی نصیری فرقے کو شام کی سنی اکثریت کے سیاہ و سفید کا مالک بنانے میں پوری مدد کی۔ ( اس بات کی توضیح کے لئے فرنچ کالونی بننے سے پہلے اور بعد کے شام کا نقشہ دیکھیے) آج ساری دنیا پر شامی حکمران طبقے کی خونخواری آشکار ہو رہی ہے لیکن حقائق اس سے کہیں زیادہ سنگین ہیں ۔ یہ ظلم صرف آج کی بات نہیں اس کی تاریخ ۵۰ کی دہائی میں فرانسیسی استعمار کے جاتے ہی شروع ہو جاتی ہے ۔

    جمال عبدالناصر نامی آمر کا عرصہ تسلط ۵۰ سے ۷۰ کی دہائی تک ہے ۔ قریب قریب اسی دور میں انہی نظریات کے ساتھ ایک نفس پرست گروہ ہم پر مسلط ہوا تھا ۔ یحیی خان ، سکندر مرزا، بھٹو ان سب کی شخصیت پر تاریخی حقائق سامنے رکھ کر غور کریں آپ کو نظریات سے لے کر خانگی زندگی تک کئی حیران کن مماثلتیں نظر آئیں گی ، ان سب کی بیگمات ایرانی نژاد اباحیت پسند طبقے سے تھیں ۔ یحیی خان خود ایرانی النسل تھا اور اس کے کردار کی پستی محتاج بیان نہیں۔ سقوط ڈھاکہ کا عذاب اسی کے عرصہ اقتدار میں آیا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی ملاقات اور ایک دوسرے کی ستائش بھی آن ریکارڈ ہے۔ بھٹو کا سوشلزم اور جمال ناصر کی جمہوری اشتراکیت ، اس کا اخوان پر ظلم اور اس کا اسلامی جماعتوں پر قہر، کیا یہ سب آن ریکارڈ نہیں ؟ لیکن ہمارے ہاں آج بھی اس نقال کے نظریاتی رہنما ہؤنے کے نعرے لگتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایسی کٹھ پتلیوں کو انقلابی عوامی لیڈر مان کر ہمارے لوگوں نے کئی عشرے برباد کیے ہیں۔

    مختصرا یہ کہ مصر ۸۰ سال بعد بدترین آمریت سے نیم آزادی حاصل کر پایا ہے ۔ بہت سے تاریخی حقائق رفتہ رفتہ کھلیں گے۔ اس سے زیادہ کیا کہوں کہ کاش ہم تاریخ کا مطالعہ کریں اور چہروں کو ان کے ماسک سمیت شناخت کرنے کی عادت ڈالیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  11. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    ایرانی خمینی کے انقلاب کے بعد بھی شاہ ایران کے زمانے جیسے بےحیا ھیں۔ نام بدل کر متعہ رکھ لیا ھے۔ ایرانی سید زادے پاکستان میں اسے پھیلانے کی کوشش کر رہے ھیں۔ ایرانی مبلغہ عورتیں اردو فورموں پر متعہ کی بحث قادیانی اور منکرین حدیث کے ساتھ مل کر بار بار کیوں چھیڑتی ہیں سب کو پتا ھے۔
    نکاح المتعہ کا تعارف (حصہ دوم) | اردو محفل فورم
    اختلاف قراءات اور متعہ: حقائق - پاکستان کی آواز
    متعہ کے بارے میں ایک تحقیقی موضوع۔ - پاکستان کی آواز
    شوخی ءتحریر: مائ ڈیئر مولانا صاحب
     
  12. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    دانی بھائی باقی باتیں‌ تو بعد میں، پہلے یہ بتلائیں کہ یہ مہوش واقعی خاتون ہیں یا پردے کی اوٹ میں‌کوئی اور "لگا بیٹھا" ہے
     
  13. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    اس جنگ میں عرب نیشنلزم کا تفاخر ہی عربوں کی جڑوں میں بیٹھ گیا تھا اگر چہ اس جنگ کے ہیروز میں پاکستانی ’’عجمی ‘‘ بھی شامل تھے ۔ جمال عبدالناصر کے بعد انور السادات نے بظاہر اسلام پسند بن کر ۱۹۷۳ کی عرب اسرائیل جنگ میں جہاد کا نعرہ لگایا لیکن بے سود ۔ نقصان ہو چکا تھا اور تلافی آج تک نہیں ہو سکی ۔
     
  14. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    جو بھی ہے سنی جوانوں کو رج کے بیوقوف بنایا ہوا ہے :00003: ٹیوے چھڈو کنفرم گل اے کاپی پیسٹ سروس عقد متعہ انسائیکلوپیڈیا :00003:
     
  15. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    شاید نیٹ کی خرابی کے باعث لنک اوپن نہیں ہو رہا
     
  16. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    کونسا والا لنک؟
     
  17. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    پھر مختلف سوالات کے ذریعے جو کہانی سامنے آئی وہ یہ ہے ”مرحوم بھٹو ایک تیز طرار اور ذہین نوجوان تھا۔ دو ایرانی خواتین کی معرفت مرحوم صدر سکندر مرزا کے نزدیک آیا، وزیر بنا۔ پھر مرحوم جنرل محمد ایوب خان کے اندرونی حلقے میں داخل ہوا۔ صدر جنرل محمد ایوب خان کے اتنا قریب ہواکہ اُسے ڈیڈی کے لقب سے پکارتا۔ وزیر خارجہ کے عہدے پر متمکن ہوا۔ آہستہ آہستہ خود پاکستان کی صدارت کے خواب دیکھنے لگا جس وجہ سے مرحوم صدر محمد ایوب خان سے کچھ اختلافات ہوئے۔ دلوں کے بھید تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور نہ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں لیکن کچھ لوگوں کا اس وقت بھی یہی خیال تھا کہ بھٹو صاحب نے صدر محمد ایوب خان کو سبق سکھانے کےلئے اتنا بڑا جنگی منصوبہ بنایا۔ G.H.Q کی مخالفت کے باوجود صدر صاحب کو کشمیر میں مجاہدین بھیجنے پر مجبور کیا۔ ایوب خان کو سبق سکھانے کیلئے فوج کو بھی سبق سکھانا ضروری تھا۔ بھٹو صاحب کو یقین تھا کہ فوج کو برے طریقے سے مار پڑےگی۔ عوام اور فوج صدر کےخلاف ہو جائیں گے اور وہ غیر متنازعہ لیڈر بن کر اُبھرے گا۔ پھر فوج ہمیشہ کیلئے اس کے آگے لگی رہے گی“۔
    اقتباس از جنگ ِ ستمبر : تاثرات و مشاہدات .... (آخری قسط) | NAWAIWAQT
     
  18. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    ''اقتباس'' سے کچھ زیادہ بھی لکھیے تاکہ کچھ اور حقائق بھی سامنے آئیں

    شکریہ
     
  19. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    یہ کچھ بھی نہیں ۔ ایرانی شاہی خاندان ، شاہ ایران،ملکہ ثریا، یحیی خان، سکندر مرزا اور ناہید سکندر کے بارے میں قدرت اللہ شہاب اور مختار مسعود نے تفصیلا لکھا ہے ۔
     
  20. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    انکل جی روزی روٹی کمانی ہوتی ہے :) میرے کو ٹیم کم ہوتا ہے۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں