قربانی کی شروط اور كيا خصى جانور قربانى كرنا جائز ہے ؟

malik shahzad latif نے 'ماہ ذی الحجہ اور حج' میں ‏اکتوبر، 11, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. malik shahzad latif

    malik shahzad latif رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏دسمبر 9, 2011
    پیغامات:
    33
    الحمد للہ
    قربانی کے لیے چھ شروط کا ہونا ضروری ہے :
    پہلی شرط :

    وہ قربانی بھیمۃ الانعام میں سے ہو جوکہ اونٹ ، گائے ، بھیڑ بکری ہیں کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

    { اورہرامت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تا کہ وہ ان چوپائے جانوروں پراللہ تعالی کا نام لیں }

    اوربھیمۃ الانعام سے مراد اونٹ گائے بھیڑ بکری ہيں عرب کے ہاں بھی یہی معروف ہے اورحسن ، قتادہ وغیرہ نے بھی یہی کہا ہے ۔

    دوسری شرط :

    قربانی کا جانور شرعی محدود عمرکا ہونا ضروری ہے ، وہ اس طرح کہ بھيڑ کی نسل میں جذعہ یا پھر اس کے علاوہ میں سے ثنیہ ہونا ضروری ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

    ( مسنہ ( یعنی دودانت والا ) کے علاوہ کوئي اورذبح نہ کرو لیکن اگر تمہیں مسنہ نہ ملے توبھيڑ کا جذعہ ذبح کرلو ) صحیح مسلم ۔

    مسنہ ثنیہ اوراس سے اوپروالی عمر کا ہوتا ہے اورجذعہ اس سے کم عمر کا ۔

    لھذا اونٹ پورے پانچ برس کا ہو تووہ ثنیہ کہلائے گا ۔

    گائے کی عمر دوبرس ہوتووہ ثنیہ کہلائے گی ۔

    بکری جب ایک برس کی ہوتووہ ثنیہ کہلائے گی ۔

    اورجذعہ ایک سال کے جانور کوکہتے ہیں ، لھذا اونٹ گائے اوربکری میں ثنیہ سے کم عمرکے جانوری کی قربانی نہیں ہوگي ، اوراسی طرح بھيڑ میں سے جذعہ سے کم عمرکے جانور کی قربانی صحیح نہيں ہوگي ۔

    تیسری شرط :

    قربانی کا جانورچار عیوب سے پاک ہونا چاہیے :

    1 - آنکھ میں واضح اورظاہر عیب : یعنی جس کی آنکھ بہہ چکی ہو یا پھر بٹن کی طرح باہر نکلی ہوئي ہو ، یا پھر آنکھ مکمل اورساری سفید ہوجواس کے بھینگے پن پرواضح دلالت کرتا ہے ۔

    2 - واضح بیمار جانور : اس سے مراد وہ بیماریاں ہیں جوجانوروں پرظاہرہوتی ہیں مثلا وہ بخار جس کی بنا پرجانور چرنا ہی ختم کردیتا ہے اوراس کے چرنے کی چاہت ہی ختم ہوجاتی ہے ، اوراسی طرح واضح اورظاہرخارش جواس کے گوشت کوخراب کردینے والی ہو ، یااس کی صحت پراثرانداز ہورہی ہو ، اورگہرا زخم جواس کی صحت پراثرانداز ہوتا ہو وغیرہ دوسری بیماریاں ۔

    3 - واضح طورپرپایا جانے والا لنگڑا پن : وہ لنگڑا پن جواسے سیدھا اورصحیح چلنے سے روکے اورمشکل سے دوچار کرے ۔

    4 - گودے کوزائل کرنے والی کمزوری : کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ پوچھا گيا کہ قربانی کا جانور کن عیوب سے صاف ہونا چاہیے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکےفرمایا چارعیوب سے :

    ( وہ لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن واضح ہو ، اورآنکھ کے عیب والا جانورجس کی آنکھ کا عیب واضح ہو ، اوربیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو، اوروہ کمزور وضعیف جانور جس کا گودا ہی نہ ہو ) ۔اسے امام مالک رحمہ اللہ تعالی نے موطا میں براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے ۔

    اورسنن میں برا‏ء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ ہی سے ایک روایت مروی ہے جس میں ہے وہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے اندر کھڑے ہوئے اورفرمانے لگے :

    ( چارقسم کے جانور قربانی میں جائز نہيں ) اوراسی طرح حدیث ذکر کی ہے ۔

    علامہ البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل میں اسے صحیح قرار دیا ہے ، دیکھیں حدیث نمبر ( 1148 ) ۔

    لھذا یہ چارعیب ایسے ہیں جن کے پائے جانے کی بنا پرقربانی نہيں ہوتی ، اوران چارعیوب کے ساتھ اس طرح کے اوربھی عیوب ملحق ہوتے ہیں یا وہ عیوب جواس سے بھی شدید ہوں توان کے پائے جانے سے بھی قربانی نہيں ہوتی ، ہم انہيں ذيل میں ذکر کرتے ہیں :

    1 - اندھا پن وہ جانور جس کی آنکھوں سے نظرہی نہ آتا ہو ۔

    2 - وہ جانورجسنے اپنی طاقت سےزيادہ چر لیا ہو اس کی قربانی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک وہ صحج نہیں ہوجاتا اوراس سے خطرہ نہيں ٹل جاتا ۔

    3 - وہ جانور جسےجننے میں کوئي مشکل درپیش ہو جب تک اس سے خطرہ زائل نہ ہوجائے ۔

    4 - زخم وغیرہ لگا ہوا جانور جس سے اس کی موت واقع ہونے کا خدشہ ہوگلا گھٹ کر یا بلندی سے نيچے گر کریا اسی طرح کسی اوروجہ سے اس وقت تک ایسے جانورکی قربانی نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس سے خطرہ زائل نہيں ہوجاتا ۔

    5 - کسی آفت کی وجہ سے چلنے کی سکت نہ رکھنے والا جانور ۔

    6 - اگلی یا پچھلی ٹانگوں میں سے کوئي ایک ٹانگ کٹی ہوئي ہو ۔

    جب ان چھ عیوب کوحدیث میں بیان چارعیوب کے ساتھ ملایا جائے توان کی تعداد دس ہوجائے گی ۔

    چوتھی شرط :

    وہ جانور قربانی کرنے والی کی ملکیت ہو یا پھر شریعت یا مالک کی جانب سے اجازت ملی ہو ۔

    لھذا جوجانورملکیتی نہ ہو اس کی قربانی صحیح نہیں ، مثلا غصب یا چوری کردہ جانور اور اسی طرح باطل اورغلط دعوے سے لیا گيا جانور ، کیونکہ اللہ تعالی کی معصیت ونافرمانی کے ساتھ اس کا تقرب حاصل نہيں ہوسکتا ۔

    اورجب عادتا قربانی ہوتی ہواورنہ کرنے سے یتیم کودل آزاری ہوتی ہو تویتیم کےلیے اس کے مال سے والی کی جانب سے قربانی کرنا صحیح ہے ۔

    اوراسی طرح موکل کی جانب سے وکیل اپنے موکل کی اجازت اوراس کے مال سے قربانی کرنی صحیح ہوگي ۔

    پانچویں شرط :

    کہ اس کا کسی دوسرے کے ساتھ تعلق نہ ہو ، لھذا رہن رکھے گئے جانور کے ساتھ قربانی نہيں ہوسکتی ۔

    چھٹی شرط :

    قربانی کوشرعی محدود شرعی وقت کے اندر اندرذبح کیا جائے ، اوریہ وقت دس ذی الحجہ کونماز عید کے بعد سے شروع ہوکرایام تشریق کے آخری دن سورج غروب ہونے تک باقی رہتا ہے ، ایام تشریق کا آخری دن ذی الحجہ کی تیرہ تاریخ بنتا ہے ، تواس طرح ذبح کرنے کے چار دن ہیں ۔

    عید کے دن نماز عید کے بعد ، اوراس کے بعد تین دن یعنی گیارہ ، بارہ اورتیرہ ذی الحجہ کے ایام ، لھذا جس نے بھی نماز عید سے قبل ہی قربانی ذبح کرلی یا پھر تیرہ ذی الحجہ کوغروب شمس کے بعد کوئي شخص قربانی کرتا ہے تواس کی یہ قربانی صحیح نہیں ہوگي ۔

    اس کی دلیل مندرجہ ذيل حدیث ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے :

    وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

    ( جس نے نماز ( عید ) سے قبل ذبح کرلیا وہ صرف گوشت ہے جووہ اپنے اہل عیال کوپیش کررہا ہے اوراس کا قربانی سے کوئي تعلق نہيں ) ۔

    اورجندب بن سفیان البجلی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ حاضرتھا توانہوں نے فرمایا :

    ( جس نے نماز عید سےقبل ذبح کرلیا وہ اس کے بدلے میں دوسرا جانور ذبح کرے ) ۔

    اورنبیشہ ھذیلی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

    ( ایام تشریق کھانے پینے اوراللہ تعالی کے ذکرواذکار کے ایام ہیں ) اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے ۔

    لیکن اگراسے ایام تشریق سے قربانی کوتاخیرکرنے کا کوئي عذر پیش آجائے مثلا اس کی قربانی کا جانور اس سے بھاگ گيا اوراس میں اس کی کوئي کوتاہی نہيں تھی اوروہ جانورایام تشریق کے بعد واپس ملے ، یااس نے کسی کوقربانی ذبح کرنے کا وکیل بنایا تووکیل اسے ذبح کرنا ہی بھول گیا اوروقت گزر گیا ، تواس عذر کی بنا پروقت گزرنے کے بعد ذبح کرنے میں کوئي حرج نہيں ، اورنماز کے وقت میں سوئے ہوئے یابھول جانےوالے شخص پرقیاس کرتے ہوئے کہ وہ جب سوکراٹھے یا جب اسے یاد آئے تونماز ادا کرے گا ۔

    اوروقت محددہ کے اندر دن یا رات میں کسی بھی وقت قربانی ذبح کی جاسکتی ہے ، قربانی دن کے وقت ذبح کرنا اولی اوربہتر ہے ، اورعید والے دن نماز عید کے خطبہ کے بعد ذبح کرنا افضل اوراولی ہے ، اوراسی طرح اس کے بعدوالے دن میں یعنی جتنی جلدی ذبح کی جائے بہتراور افضل ہوگي ، کیونکہ اس میں خیروبھلائي کرنے میں سبقت ہے ۔ انتھی ۔ .


    خصى شدہ جانور كى قربانى كرنے كا حكم كيا ہے ؟

    الحمد للہ:

    خصى جانور كى قربانى كرنے ميں كوئى ممانعت نہيں، ليكن اگر ايسا كرنے سے اس كے گوشت كو ضرر اور نقصان ہوتا ہو تو پھر منع ہے.

    رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قربانى ميں مانع عيوب بيان فرمائے ہيں جن ميں درج ذيل عيب شامل ہيں:

    " واضح كانا، واضح بيمار جانور، لنگڑا، لاغر اور كمزور جس كى ہڈى كا گودہ ہى ختم ہو چكا ہو.

    ان عيوب ان عيوب كو بھى قيا كيا جائيگا جو اس سے بھى زيادہ شديد ہيں، مثلا چلنے پھلنے سے عاجز، اور اندھا، اور اگلى يا پچھلى ايك ٹانگ كٹى ہونا... اس كى تفصيل سوال نمبر ( 36755 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے اس كا مطالعہ كريں.

    ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ خصى جانور كو ان عيوب سے ملحق نہيں كيا جائيگا، ليكن اگر يہ گوشت ميں كسى قسم كا ضرر پيدا كرتا ہو تو پھر جائز نہيں.

    امام نووى رحمہ اللہ سے ايك خصى سانڈھ كى قربانى كرنے كے متعلق دريافت كيا گيا تو انہوں نے جواز كا فتوى ديا تھا.

    ديكھيں: مواھب الجليل ( 3 / 239 ).

    واللہ اعلم .

    Islam Question and Answer - كيا خصى جانور قربانى كرنا جائز ہے ؟
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں