غزہ:سروں سے جبر کا موسم کبھی ٹلے تو سہی۔ ڈاکٹر سلیم خان

ابومصعب نے 'مضامين ، كالم ، تجزئیے' میں ‏نومبر 20, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063
    غزہ:سروں سے جبر کا موسم کبھی ٹلے تو سہی​


    ڈاکٹر سلیم خان -

    محرم الحرام میں اس سال غزہ کے دلیر مسلمانوں نے عملاً شہدائے کربلا کی یا تازہ کر دی ۔غزہ پھر ایک بار اسرائیلی بمباری کی زد میں ہے ۔؁۲۰۰۸ کے بعد یہ اسرائیل کا سب سےبڑا حملہ ہے لیکن ان چار سالوں میں مختلف سطح پرجو تبدیلی واقع ہوئی اس کا اندازہ اس دوران رونما ہونے والے مختلف واقعات سے لگایا جاسکتا ہے مثلاًبمباری کے پانچویں دن جبکہ ۶۵ مسلمان شہید ہوچکے ہیں اور ان میں اکثر نہتے شہری ہیں غزہ شہر کے اندر اپنے بچوں کی خاطر انڈے اور چاکلیٹ لے کر لوٹتے ہوئے ایک عام آدمی علی الاحمدسے جب اخبارنویس نے پوچھا کہ تمہیں کیسا لگتا ہے تو اس کا جواب تھا ‘‘دہشت ناک،ایسا مجھے محسوس ہوتا ہے۔ لیکن سرحد کی دوسری جانب وہ لوگ بھی خوفزدہ ہیں ’’ اس نے اعتماد کے ساتھ کہا ‘‘ سچ تو یہ ہے کہ میں یہ سمجھنے لگا تھا حماس اسرائیل کے ساتھ جنگ و جدال بھول چکی ہے مگر وہ میری غلطی تھی ’’۔ بمباری کی گونج کے درمیان علی کے اس رد عمل کے ذریعہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے غزہ کا ماحول کیسا ہے اور عام لوگ کیا سوچتے ہیں ؟علی آگے کہتا ہے کہ اگر اسرائیل نے حملہ کردیا تو سیکڑوں شہری مارے جائیں گے لیکن جن وہ واپس لوٹیں گے تو ہمارے راکٹ ان کا پیچھا کریں گے اس طرح بالآخر وہی ناکام ہوں گے ۔
    تلال اوکال ایک مصری دانشور ہیں جو ماضی میں حماس سے برگشتہ رہاکرتے تھے لیکن اب ان کا کہنا کہ ہم حماس کو سلام کرتے ہیں اس لئے کہ اس بار وہ منظم نظر آرہے ہیں ۔ وہ اپنے مقاصد میں کامیابی کی قیمت چکانے کیلئے تیار ہیں اورآج ہرشخص ان کی ستائش کرنے پر مجبور ہے ۔ یہاں تک کہ محمود عباس نےجو حماس کے سیاسی حریف ہیں اور موقع بے موقع حماس پر برستے رہتے ہیں اس بار حماس کے رہنماوں سے رابطہ قائم کیا اور ان کو اپنی حمایت کا یقین دلایا اسی کے ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ فوری جنگ بندی کی بھرپور کوشش کریں گے ۔ حماس کے ترجمان سامی ابو زہری کے مطابق ہمیں اپنی مزاحمت اور اعلیٰ درجہ کی صلاحیت پر ناز ہے جس نے دشمن کو مبہوت کردیا اور اندر گھس کر حملہ کیا ۔اگر اسرائیل ؁۲۰۰۹ کی طرح فوج کشی کرتا ہے تو اس کا جواب دینے کیلئے حماس کے پاس ٹینک اور بکتربند گاڑی نہیں لیکن اس اس کے پاس ٹینک شکن میزائل ضرور ہیں جو دشمن کو حیرت زدہ کردیں گے ۔ حماس کے مسلح بازو القسام بریگیڈ کے ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ ہم نے گزشتہ مرتبہ ۲۲ دنوں تک مزاحمت کی اس بار ہم اسے مزید طول دے سکتے ہیں مگر اسرائیلی فوجی دیر تک مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ یہ صہیونیوں کے خلاف آخری لڑائی نہیں ہے ہم نے ان کے اس دعوے کو غلط ثابت کردیا ہے کہ وہ ہماری فوجی طاقت کو پوری طرح ختم کرچکے ہیں ۔
    غزہ کے مجاہدین نے اس بار جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ غیر معمولی ہیں ۔ پہلے یروشلم اور پھر تل ابیب پر گولہ باری جس ایک گولہ امریکی سفارتخانے سے صرف ۲۰۰ میٹر دوری پر گرا اور اسرائیل کے بلند بانگ دعووں کا بھید کھل گیا ۔ اس کے بعد اسرائیل کے ایک ایف ۱۶،ایک اپاچی ہیلی کاپٹر اور دو ڈرونزبمباروں کا مارگرایاجانا اور اسرائیلی بحریہ کے ایک جنگی جہاز کو نشانہ بنانا ایسی باتیں ہیں جو اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ و یوروپ کے خواب و خیال سے پرے ہیں ۔ حماس کے عسکری شعبہ عزالدین القسام کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس کے جنگجوؤں نے تل ابیب اور بیت المقدس سمیت اسرائیل کے مختلف شہروں پر ۹۰۰ حملے کئے۔ ترجمان ابوعبیدہ نے دعوی کیا کہ ان کے القسام ائر ڈیفنس یونٹ نے اسرائیلی لڑاکا طیارہ بھی مار گرایا جو غزہ سے متصل سمندر میں جا گرا۔ نیز دو اسرائیلی ڈرونز بھی مار گرانے کا دعوی کیا ہے۔ ابوعبیدہ کا کہنا ہے کہ ہم نے اسرائیل کے اہم اور حساس مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔ ان میں بری اور فضائی فوج کی چھاونی اور ہیلی پیڈز شامل ہیں۔ ہمارے حملوں کے خوف سے پانچ ملین اسرائیلی شہری زیر زمین بنکروں اور محفوظ پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ نیز القسام نے غوش عتصیون کے اہم فوجی مرکز پر بھی میزائل سے حملہ کیا ۔ مجاہدین نے غزہ سے تین کلومیٹر دور ایک فوجی جیپ گھات لگا کر تباہ کی۔ حملے کے بعد اسرائیلی امدادی کمک کئی گھنٹے بعد جائے حادثہ پر پہنچ سکی۔

    اس سےقبل؁۲۰۰۸کی اسرائیلی جارحیت میں ۱۴۰۰ فلسطینی شہید ہوئے تھے اور صرف ۱۳ اسرائیلی مارے گئے تھے اس کے باوجود کئی مسلم ممالک نے الٹا حماس کی گولہ باری کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا ۔مصر کے حسنی مبارک نے اسرائیل کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے رفاہ کی شاہراہ بند کر دی تھی لیکن اس بار دوران جنگ اسی شاہراہ پر سفر کرکے مصر کے وزیر اعظم ہشام قندیل نے غزہ کا دورہ کیا ۔اس کے بعد تیونس اور مصر کے وزرائے خارجہ اور ان کے پیچھے ترکی کے وزیر خارجہ احمد دفغلو بھی غزہ کی جانب نکل کھڑے ہوئے ۔عرب لیگ کا ایک وفد بہت جلد غزہ کا دورہ کرنے والاہے اور تو اور سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے بھی اسرائیل کی سخت مذمت کی ۔سعودی وزیر ِخارجہ ڈاکٹر نزار بن عبید مدنی نے قاہرہ میں عرب لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی حالیہ دہشت گردی پر خاموش تماشائی رہنے کا کوئی جواز نہیں ۔ جارحیت کے مرتکب صہیونیوں کو اپنے جرائم کی سزا ملنی چاہیے۔سعودی وزیر نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ حملوں کا سلسلہ جاری رہا تو اس کے سنگین نتائج نکلیں گے اور ان کی تمام تر ذمہ داری صہیونی حکومت پر عائد ہو گی۔یہ مثبت تبدیلی اس بات کی غماز ہے کہ جبر کا سور ج کے ڈھلنے کا وقت قریب آلگا ہے بقول شاعر ؎
    جو روشنی نہیں ہوتی نہ ہو بلا سے مگر
    سروں سے جبر کا سورج کبھی ڈھلے تو سہی
    مراکشی فرمانروا شاہ محمد ششم نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کو نہایت المناک اور افسوسناک قرار دیتے ہوئے انہیں فوری طور پر رکوانے کا مطالبہ کیا ہےاور غزہ کے جنگ سے متاثرہ محصور عوام کی ہنگامی مدد کے لیے شہر میں فیلڈ اسپتال قائم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ مراکشی فوج کے زیر انتظام مجوزہ ہسپتال میں زخمیوں کی فوری سرجری، ہنگامی علاج اور ابتدائی طبی امداد سمیت عام مریضوں کو بھی علاج کی سہولت فراہم کی جائے گی۔اس کے علاوہ مصر سے ۵۵۰ رضاکاروں پر مشتمل ایک کل جماعتی یکجہتی وفد جس میں مختلف نظریات کی حامل جماعتوں کے لوگ شامل ہیں غزہ کے لوگوں کی مدد کیلئے پہنچ گیا ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے مصر کی مختلف سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات سے علی الرغم فلسطینیوں کی حامی ہیں لیکن ان پر مسلط غلام ذہنیت کے فرمانروا نے انہیں روک رکھا تھا اب جبکہ اسلام پسندوں اس جبر کو ختم کردیا امت محمدیہ کے اندر دبا ہوا جذبۂ اخوت و محبت ابل پڑا اور مسلمانوں ایک جسم کی طرح سرحد پار کے اپنے بھائیوں کا درد محسوس کیا اور اپنا دستِ تعاون دراز کیا بقول اقبال ؎
    نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا
    بناء ہمارے حصارِ ملت کی اتحادِ وطن نہیں ہے
    قاہرہ فی الحال سفارتی کوششوں مرکز بنا ہوا ہے ۔ ابتدا عرب لیگ کا اجلاس سے ہوی اس کے بعد رجب طیب اردغان قاہرہ پہنچ گئے جہاں انہوں نے اسرائیل کی مذمت کرتے ہوئےکہاکہ اسرائیل کو معصوم عوام کی ہلاکت کا خراج چکانا ہوگا ۔ وزیر اعظم اردغان نے قاہرہ یونیورسٹی میں اپنے خطاب کے دوران اعلان کیا کہ فلسطینی نہ کبھی جھکے ہیں اور نہ جھکیں گے ۔ اس تقریرکو براہِ راست ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا۔قاہرہ آتے ہوئے انہوں نے کہا تھا اسرائیل نے پہلے جنگ بندی کو پامال کیا اب اس کی دہائی دے رہا ہے ۔اس کے بعد غزہ کے دورے سے قبل ترکی وزیر خارجہ احمد دفغلو نے قاہرہ میں حماس کے رہنما خالد مشعل سے ملاقات کی ۔ اس بیچ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون بھی صدر محمدموسی سے ملاقات کی غرض سے قا ہرہ پہنچ گئے ۔ درایں اثنا اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان غزہ کی پٹی میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کا جائزہ لینے کے لئے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا بند کمرے میں اجلاس میں اسرائیل اور فلسطینی نمائندے شریک ہوئے۔احمد دفغلو نے امریکہ کی خارجہ سکریٹری ہیلری کلنٹن سے بھی رابطہ قائم کیا تاکہ اس جارحیت پر روک لگائی جاسکے ۔ اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ اسرائیل اپنی من مانی کرتا رہتا تھا اور ساری دنیا خوابِ غفلت میں پڑی رہتی تھی لیکن اس بار صورتحال مختلف ہے ۔ اس گفتگو میں اسرائیل کا مطالبہ ہے کہ جنگ بندی سے قبل حماس گولہ باری بند کرے لیکن حماس نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا چونکہ حملہ کی ابتدا اسرائیل نے کی تھی اس لئے پہلے وہ اپنی بمباری بند کرے اس کے بغیر گولہ باری بند نہیں ہوگی ۔
    ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا وہ اپنے بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے مغرب نے عرصہ دراز تک اسرائیلی جارحیت کا دفاع کیا لیکن اب اسے چاہئے کہ وہ فلسطینیوں کواپنی مقدر کافیصلہ خود کرنے دے ۔ایران کے نائب وزیرخارجہ حسین امیر عبدل لیہان نے ان کی تائید میں کہا کہ اگر اسرائیل اپنے فوجی حملے بند نہیں کرتا تو حماس سخت تر اقدامات کرے گا اور مجاہدین اسرائیل کا ناطقہ بند کردیں گے ۔ تل اببیب پر حملے نے اسرائیل کے اندازوں کوغلط ثابت کردیا ہے ۔ اسلامی بیداری نے اس خطے کے حالات بدل کر رکھ دئیے ہیں ۔حماس کے رہنما خالد مشعل نے قاہرہ آنے سے قبل سوڈان میں فرمایا اسرائیلی حملہ کا مقصد مصر اور دیگر مسلم ممالک کی نبض ٹٹولنا ہے۔وہ جاننا چاہتاہے کہ کیا اب بھی اس کیلئےماضی کی طرح اپنی بات منوا نا ممکن ہے یا نئے رہنماؤں کا نقطۂ نظر مختلف ہے ۔ ویسےاسرائیل کی اس حماقت نے ساری دنیا پر یہ واضح کردیا ہے کہ دنیا کس قدر بدل گئی ہے ۔ خالد مشعل نے فلسطینی قیادت پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کی جنگ کا ہوشیاری اور دلیر دلی کے ساتھ سامنا کریں کیونکہ اسرائیل کے ساتھ مڈبھیڑ طول پکڑ سکتی ہے۔مشعل کے مطابق اسرائیلی مہم کے نتائج یہ ثابت کرتے ہیں کہ صہیونی اہالیاں غزہ کے حوصلے پست نہیں کر سکتے۔ کمزور دشمن غزہ کو زیر نگین نہیں کر سکتا۔ ہم انہیں مار بھگائیں گے کیونکہ غاصب اسرائیل فلسطین کے اصل وارثوں کو دھمکا نہیں سکتا۔ وہ دور لد گیا جب اسرائیل، فلسطینیوں پر مظالم سے انہیں رخت سفر باندھنے پر مجبور کرتا تھا۔ جبری بے دخلی کا دور ختم ہو گیا۔ اب اسرائیل کے خاتمے کا وقت آن پہنچا ہے۔
    حماس کے ترجمان سامی ابو زہری نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل، غزہ کے خلاف اپنی جارحیت کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ کھلی جنگ میں آہستہ آہستہ تیزی آئے گی۔ ہم قابض اسرائیلیوں کے دھوکے میں مزید نہیں آئیں گے کیونکہ موجودہ حالات میں جنگ بندی کا ذکر دراصل غزہ پر اسرائیلی چڑھائی کو جاری رکھنے میں ڈھال کا کام کرے گا۔ اس بیان میں اسرائیلی حکمرانوں پر اس حملے کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا جو الزام لگایا گیا ہے وہ خاصہ سنگین ہے۔ اس سے پہلے اسرائیلی حملہ عین انتخاب سے قبل ہوا تھا اور اس بار بھی یہی ہو رہا ہے ۔پہلے جلاد شالط کی رہائی کا بہانہ بنایا گیا تھا اب ان کو قبضہ میں رکھنے والے اور پھر ایک معاہدے کے تحت واپس کرنے والے احمد الجعبری کو شہید کیا گیا ہے ۔ یہ دراصل امریکی انتخاب کی بھونڈی نقل ہے۔ جارج بش نے انتخاب جیتنے کی خاطر عراق پر حملہ کیا اور کامیاب ہوگیا لیکن یہود اولمرٹ نے یہی کیا اور ناکام ہوگیا ۔ اوبامہ نے اسامہ کے ہم شکل کی ہلاکت کا ناٹک کیا وہ بھی کامیاب ہوگیا اب نتن یاہو احمد الجعبری کی شہادت کو انتخاب میں کامیابی کا ذریعہ بنانے کی کوشش کرے گا اور قوی امکان ہے کہ وہ بھی منھ کی کھائے گا۔ دراصل یہودیوں اور عیسائیوں میں ایک فرق یہ ہے کہ عیسائی بہت پہلے سوچتا ہے اس لئے کم سے کم نقصان سے بڑی سیاسی شعبدہ بازی دکھانے میں میں کامیاب ہو جاتا ہےاس کے برعکس یہودی آخری وقت میں ہاتھ پیر مارتا ہے اور بڑا نقصان کرکے بھی ناکام و نامراد ہو جاتا ہے ۔ مغرب کا اب یہ وطیرہ بن گیا ہے کہ جب وہ سنگین داخلی مسائل میں گھر جاتے ہیں یا انہیں سیاسی و انتخابی فوائد حاصل کرنے ہوتے ہیں توا سلام اور مسلمانوں کے خلاف کسی نہ کسی بہانے سے جہاد چھیڑ دیتے ہیں بقول شاعر ؎
    کبھی جو ان کے جشن میں سیاہیاں بکھر گئیں
    تو روشنی کے واسطے جلا لیا گیا مجھے


    اسلامی تحریک مزاحمت حماس کا مطالبہ ہے کہ غزہ کے خلاف جارحیت کا آغاز تو اسرائیل نے کیا لیکن اب اس جنگ کو ختم کرنے کا فیصلہ تل ابیب کے اختیار میں نہیں رہا۔ فلسطینی قومی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان سیکیورٹی کوارڈی نیشن فی الفور ختم کیا جائے۔ عرب اور اسلامی ممالک مصر کے نقش قدم پر چلیں۔ یاد رہے کہ القسام بریگیڈ کے کمانڈر احمد الجعبری کی اسرائیلی میزائل حملے میں شہادت کے بعد بطور احتجاج قاہرہ نے تل ابیب سے اپنے سفیر عاطف سالم کو فوری طور پر واپس بلا لیا تھا۔ مصری صدر نے وزارت خارجہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ قاہرہ میں اسرائیلی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کریں اور ان سے نہتے فلسطینیوں پر بلا اشتعال حملوں پر شدید احتجاج کریں۔ مصر نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر صورتحال پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو اس خطے کی سیکیورٹی کے لئے اس کے مضمرات اچھے نہیں ہوں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی اس طرح کی جارحانہ مہم کبھی بھی لمبے عرصے تک مؤثر نہیں رہی ہے۔ حماس کے بانی اور روحانی رہنماء شیخ احمد یاسین کی اسرائیل کے ہاتھوں شہادت اور اس کے فوراً بعد ڈاکٹر رنتیسی کے جامِ شہادت نوش فرمانے کے باوجودتنظیم نے ہتھیار نہیں ڈالے اور اب بھی حماس کی جانب سے اسرائیل پر اس وقت تک راکٹ داغے جائیں جب تک کہ جنگ بندی کے معاہدہ نہیں ہو جاتا۔
    اسرائیل کی تازہ جارحیت کا آغاز حماس کے عسکری بازوالقسام کے سربراہ احمد الجعبری پر اسرائیلی میزائل حملے سے ہوا۔ شہید احمد الجعبری ایک ہفتہ قبل حجاز سے مناسک حج ادا کر کے لوٹے تھے۔احمدشہید ؁۱۹۶۰ میں مشرقی غزہ کی الشجاعیہ کالونی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے غزہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا تھا۔ باون سالہ القسام کمانڈر احمد الجعبری شہید کئی برس غزہ بیس کیمپ سے صہیونی فوج کے خلاف بر سر پیکار رہے اس دوران ان کا اپنا خاندان الخلیل شہر میں قیام پذیر تھا۔ فلسطین میں آج بھی دینی اور سیاسی اعتبارسے الجعبری خاندان اثرو نفوذ رکھنے والا گھرانہ ماناہے۔ اس کے متعدد افراد حماس اور الفتح سے وابستہ ہیں۔ فلسطین میں ؁۲۰۰۰ میں دوسری تحریک انتفاضہ کے آغاز میں احمد الجعبری نے حماس کے عسکری ونگ کے لیے ایک نہایت منظم فورس تشکیل دی، جس کے ذریعے اسرائیلی فوج پر حملے کیے گئے۔ احمد الجعبری کے چچا زاد سمیر الجعبری مغربی کنارے میں فلسطینی پولیس میں کرنل کے عہدے پر تعینات ہیں۔کرنل سمیر نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا بچپن ایک ساتھ گذرا،وہ بچپن ہی سے انقلابی سوچ رکھتا تھا ۔ احمد ہمارے خاندان ہی نہیں بلکہ پوری قوم کا اثاثہ تھا۔ اس کی شہادت پوری قوم کے لیے ایک المناک واقعہ اور ناقابل تلافی نقصان ہے لیکن ہمیں اس بات پر خوشی بھی ہے کہ اس نے شہادت کا مرتبہ حاصل کیا۔
    احمد الجعبری اپنی عسکری کارروائیوں کی وجہ سے زیادہ تر میڈیا کی چکا چوند سے دور رہتے تھے۔ ان کا میڈیا سے پہلا رابطہ گزشتہ برس اس وقت ہوا جب وہ اسرائیلی سپاہی جلاد شالیط کو مصری خفیہ ایجنسی کے حوالے کرنے مصر گئے۔ احمدالجعبری کی شہادت کے بعد حماس کے جوابی حملہ سے صہیونی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی لیکن دوسری جانب شہید الجعبری کا قبیلہ نے اپنے مایہ ناز سپوت کی عظیم قربانی پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے شیرنی تقسیم کی۔ مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر الخلیل میں شہید کمانڈر احمد الجعبری کے اہل خانہ اپنے بہادر بیٹے کی شہادت پر اہل علاقہ سے مبارکباد وصول کرتے رہے۔ پرسہ دینے والوں کی تواضع مٹھائی سے کی گئی۔الجعبری کے بچھڑ جانے اور صہیونی دہشت گردی کا نشانہ بننے پر شہید کے عزیزو اقارب مغموم ضرور تھے، البتہ انہیں الجعبری کے شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے کی خوشی بھی تھی۔ یہی وہ جذبۂ شہادت ہے جس کا مظاہرہ امام حسین ؓ نے کربلا میں کیا تھا اور احمس الجعبری نے پھر ایک بار اقوامِ عالم کے سامنے شہادت دی ہے
     
    Last edited by a moderator: ‏نومبر 20, 2012
  2. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    جزاک اللہ خیرا ابو مصعب بھائی.
    اللہ تعالی مسلمین کو فتح و کامرانی عطا کرے اور کفار کو عبرتناک شکست سے دوچار کرے. آمین.
     
    Last edited by a moderator: ‏نومبر 20, 2012
  3. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063
    درست۔
    اصل میں‌یہ مضمون کا حصہ ہے، اب مضمون نگار ، حالات پر تجزیہ کرتے کرتے ، ہوسکتا ہے کہ کہیں‌بھی چوک بھی سکتا ہو۔
    بہرحال میں‌اس شعر کو مضمون سے نکال دیتا ہوں، آپ بھی اپنی پوسٹ پھر ایڈٹ کرلیں۔
    جزاک اللہ خیرا۔ بھائی
     
  4. ام احمد

    ام احمد محسن

    شمولیت:
    ‏جنوری 7, 2008
    پیغامات:
    1,333
    جزاک اللہ خیرا
     
  5. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    جزاک اللہ خیر
     
  6. عبد الرحمن یحیی

    عبد الرحمن یحیی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 25, 2011
    پیغامات:
    2,312
    الحمد للہ

    مسلمان مادی وسائل سے زیادہ

    اللہ مالک الملک کی غیبی مدد پر یقین رکھتا ہے

    اور اللہ اپنے بندوں کی مدد کیا کرتا ہے

    اے اللہ ہمارے مظلوم بھائیوں کی مدد فرما

    اللھم آمین
     
  7. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063
    بالکل درست۔
    ایک طرف تو دشمنان اسلام کے وسائل ہیں۔
    تو دوسری طرف ایمانی جذبوں‌سے لبریز کوششیں، البتہ مسلمانوں کے اپنے ایررز سے بھی ہم واقف ہیں، سو اللہ کی جانب سے بعض دفعہ ، آزمائشیں طویل بھی ہوجاتی ہیں۔، ورنہ اللہ کی مدد و نصرت بعض اوقات بہت جلد جوش میں‌آجاتی ہے۔
    بہرحال اللہ ہرجگہ کے حالات جانتا ہے، اور جہاں‌جہاں‌ایمانی جذبوں‌سے لبریز خالص اللہ کے لئے جینا اور مرنا مقصد ہے وہاں‌یہ دشمنان اسلام کتنا بھی سرپھوڑی کرلیں، فتح ہماری ہے الحمدللہ جئے بھی تو ہماری فتح اور مریں تو بھی ہماری۔۔۔ ان شااللہ
     
  8. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    جزاک اللہ خیرا ابو مصعب بھائی.
     
  9. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063
    غزہ:شکست و فتح مرا مسئلہ نہیں ہے فراز
    (دوسری قسط)
    ڈاکٹر سلیم خان

    اسرائیل اپنے آپ کو دنیا کی دسویں فوجی قوت سمجھتا ہے اور اس حیثیت سے اپنے ناقابل تسخیر ہونے کا گھمنڈ اس کے پراگندہ ذہن میں سمایا ہوا ہے لیکن فلسطینی میزائلوں نے آٹھ روزہ جنگ کے دوران صہیونی فوج کے اس دعوے کی قلعی کھول دی ۔ہوا یوں کہ اسرائیل کے مقبول عبرانی چینل ۲ کا ایک نامہ نگار براہِ راست خبر رسانی کرتے ہوئےاپنے عقب میں نصب آئرن ڈوم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کی دفاعی صلاحیت کے گن گارہا تھا اسی دوران خطرے کے سائرن بج اٹھے اور اگلے لمحے آئرن ڈوم بیٹری سے راکٹ شکن میزائل فائر ہوا لیکن شومئی قسمت وہ فلسطینی راکٹ کو فضا میں روکنے کے بجائے زمین بوس ہو گیا اور یہ مناظر یکلخت سارے عالم میں ہوگئے۔صہیونی نامہ نگار نے اس مضحکہ خیز صورتحال میں اپنی خجالت مٹانے کے لئے اس ناکامی کو تکنیکی خرابی کا نام دے دیا۔ جو کچھ آئرن ڈوم کے ساتھ اس وقت ہوا وہی معاملہ اسرائیل کی حالیہ مہم کے ساتھ بھی ہوا کہ گئے تو تھے نماز بخشوانے اوپر سے روزے گلے پڑ گئے۔

    اسرائیل کی فوجی مہم کے تین مقاصد تھے ۔ اول تو اپنی فوجی برتری کا سکہ جمانا جوآ ہنی گنبدکے بجائے روئی گالہ نظر آئی بلکہ اس کے برعکس حماس نے تل ابیب اور یروشلم تک پہنچ کر اپنا بول بالا کردیا ۔ دوسرا مقصد تھا حماس کی حربی طاقت کا خاتمہ کرنا تھاجس میں وہ بھی وہ بری طرح ناکام رہا اس لئے کہ آخری دن بھی حماس نے ۴۰ راکٹ داغے اس سے قبل منگل کو۲۰۰ گولے پھینکے اور اس میں سے صرف پچاس کو اسرائیل روکنے میں کامیاب ہوسکا۔اس سےثابت ہوگیا کہ کروڈوں کی لاگت سے تیار کئے جانے والے آہنی گنبد(آئرن ڈوم) میں اب بھی بے شمار سوراخ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ پانچ یہودیوں کی ہلاکت کے علاوہ ۱۲۰ لوگ ان حملوں سے زخمی ہوئےاور جو مالی نقصان ہوا سو ہوا ۔جنگ سے قبل یہ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ کامیابی کی شرح۹۰ فیصد ہے ابتدائے جنگ میں بتایا گیا صرف ۵۴ فیصد اور اواخر میں اعتراف کیا گیا کہ یہ صرف ۲۵ فیصد ہے گویا دشمنوں کی ہوا اکھاڑنے والوں کی اپنی ہوا اکھڑ گئی ۔تیسرا مقصدفلسطینیوں کے حوصلے پست کرنا تھالیکن جس پامردی اور استقامت کا مظاہرہ غزہ کے عوام نے کیا اس سے مغربی کنارے میں رہنے والے عافیت پسند فلسطینیوں کے حوصلے بھی بلند ہو گئے ہیں اوریہ ثابت ہو گیا کہ ؎

    یہ نفرتوں کی فصیلیں جہالتوں کے حصار
    نہ ٹک سکیں گے ہماری صدا کے رستے میں

    یہودی ساری دنیا میں اپنی زر پرستی اور کنجوسی کیلئے مشہور ہیں۔ غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے باعث فلسطینیوں کا بے پناہ جانی اور مالی نقصان تو ہوا لیکن یہ جنگ خود صہیونی ریاست کی معاشی تباہی کا بھی موجب بنی۔ اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ غزہ جنگ کی وجہ سے ملکی معیشت کو یومیہ چالیس کروڑ ڈالر کا نقصان ہو ا۔رپورٹس کے مطابق ان میں سے نصف رقم فلسطینیوں کے راکٹ حملوں کے دفاع کے لیے نصب کردہ میزائل شیلڈ پر خرچ ہوئی ۔مجموعی طور پر ان کی تنصیب میں ۲۰۰ ملین ڈالرخرچ ہوئے ہیں جبکہ القسام بریگیڈ کے مقامی سطح پر تیارکردہ راکٹوں پر تقریباً سو ڈالر کی لاگت آتی ہے۔ مزاحمت کاروں کے پاس سب سے مہنگا راکٹ گراڈ ہے جو تقریبا گیارہ سو ڈالرمیں تیار ہوتا ہے جبکہ اسرائیل کو انہیں تباہ کرنے کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کرنا پڑ تے ہیں۔ غزہ میں حماس کے خلاف تازہ جنگ میں اسرائیل نے چالیس ہزار ریزرو فوج طلب کر رکھی تھی جس پر یومیہ فوج کو سات لاکھ ساٹھ ہزار ڈالر پھونکنا پڑ رہے تھے۔ اس کے علاوہ ڈرون دیگرجنگی جہاز پر فی گھنٹہ۱۵۰۰ ڈالر کے اخراجات ہیں۔ اس درمیان مصر نے ترکی سے عنقا نامی دس ڈرون طیارے خریدنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اس بار ہمارا اسلحہ کسی دشمن کے کارخانے سے نہیں بلکہ اپنے بھائی کے گھر سے آئیگااور کوئی بعید نہیں کہ اگلی جنگ میں اسرائیل کا الفجر کے ساتھ عنقا سے بھی پالا پڑے۔

    حماس کا اولین مقصد اپنی فوج کو مجتمع رکھنا تھا تاکہ وہ حملوں کا سلسلہ جاری رکھ سکیں اور ایسا ہی ہوا گوکہ اسرائیل کی جانب سے ۱۵۰۰ حملے ہوئے لیکن حماس نے بھی ۱۴۰۰ راکٹ داغے گئے ۔عوام کا حوصلہ بھی بلند رکھا گیا اور جنوبی اسرائیل سے جس طرح یہودی بھاگ کھڑے ہوئے ویسا منظر غزہ میں نظر نہیں آیا۔ اسرائیل کے بری حملے کی دھمکی کے باوجودلوگ اپنی جگہ جمے رہے انہوں نے ماضی کی طرح اس بار صحرائے سینا کی جانب کوچ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ۔حماس نے جنگ بندی کی جو شرائط لگائی تھیں وہ سب کی سب تسلیم کی گئیں اول تو چونکہ جنگ کی ابتدا اسرائیل کی جانب سےہوئی ہے اس لئے وہی جنگ بندی کی تعمیل شروع کرے ۔بمباری اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بند ہو اور سب سے اہم غزہ کی ناکہ بندی کا خاتمہ ہو۔ صہیونی ریاست غزہ کے شہریوں کی دوسرے علاقوں میں آمد ورفت اور باہمی تجارتی سرگرمیوں پر پابندیاں ختم کرے ۔ اسرائیل کو بالآخر اس شرط کے آگے بھی گھٹنے ٹیکنے پڑے اور یہی اس جنگ میں فلسطینیوں کی سب سے اہم کامیابی ہے۔ اس عظیم فتح کو حاصل کرنے کیلئے غزہ کے جیالوں نے۱۶۴ شہداء کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

    جنگ بندی کے بعد فلسطین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔حکومت نے جمعرات کوعوامی تعطیل کا اعلان کیا تاکہ لوگ فتح کا جشن اور شہیدوں کے گھر جاکر تعزیت کر سکیں۔ غزہ اور مغربی کنارے کی عوام نے جنگ بندی کو مجاہدین کی فتح قرار دیتے ہوئے مزاحمت کی کامیابی پر مبارکباد پیش کی۔ادھر شکست خوردہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نیتن یاہو نے بھی جنگ بندی کے معاہدے کو امریکی صدر براک اوباما سے مشاورت کے بعدتسلیم کرنے کااعلان کیا اور کہا کہ ہم مصری سفارتکاری کو ایک اور موقع دے رہے ہیں ۔ نتن یاہو کے انداز سے ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا وہ کوئی زہر کا گھونٹ پی رہا ہے اس لئے کہ جن شرائط کو قبول کرنے پر وہ مجبور ہوا ہے اس کے چلتے آئندہ انتخاب میں اس کی کامیابی کے امکانات مفقود ہوگئے ہیں ۔ کہاں تو ۶ کروڈ کی آبادی والے ایران سے جنگ کا خواب اور کہاں ۱۶ لاکھ کی آبادی والی محصور ریاست غزہ کے ذریعہ چٹائی گئی دھول ایسے ذلیل و خوار رہنما کو اسرائیلی دوبارہ منتخب کرنے کی حماقت نہیں کریں گے ۔ اسرائیل حزب اختلاف کے رہنما شاؤل مفاذ نے تسلیم کیا کہ اس موقع پر جنگ بندی میں حماس کا پلہ بھاری ہے ۔ ان کی مزاحمت مضبوط ہوئی ہے اور ہم کمزور پڑے ہیں۔

    جنگ بندی سے قبل نہایت دلچسپ حالات رونما ہورہے تھے ۔ دس اسلامی ممالک کے وزراء تمام تر خطرات کے باوجودغزہ کی عوام کے ساتھ اپنی یکجہتی کاا ظہارکرنے کیلئے نکل کھڑے ہوئے تھے جبکہ اسرائیل کی جانب اس کی حلیفوں میں سے کسی نےرخ نہیں کیا تھا ۔ یوروپی ممالک اسرائیل کو دفاع کا حق ہے کا نعرہ لگا نے پر اکتفا کرنے کے بجائےغزہ میں شہری ہلاکتوں کی مذمت بھی کررہے تھے ۔ اس صورتحال میں جنگ بندی کی ساری تفصیلات طہ ہوجانے کے بعد امریکی خارجہ سکریٹری ہیلری کلنٹن اپنے دیرینہ رفیق کو پرسہ دینے کی غرض سےتل اببیب پہنچیں اوراپنی مکمل حمایت کا اعلان کیا ۔ا س بیچ دو اور واقعات رونما ہوئے ۔ جنگ بندی کےاعلان سے چند گھنٹے قبل تل ابیب کی ایک بس میں دھماکے کے نتیجے میں سترہ یہودی زخمی ہو گئے۔؁۲۰۰۶ کے بعد اسرائیل کے اندر پہلا حملہ تھا۔ اسرائیل نے اسےعام شہریوں کے خلاف دہشت گردانہ حملہ قرار دیا لیکن اسرائیل جہاں فوجی تعلیم لازمی ہے اورکسی بھی شخص کو جنگ کیلئے طلب کیا جاسکتا ہے یہ حملہ نہتے شہریوں پرنہیں بلکہ متوقع فوجیوں پر تھا ۔اسرائیل کے اس الزام نے غزہ میں اس کی بمباری کو آپ سے آپ دہشت گردی کے زمرے میں ڈال دیا جہاں مہلوکین کی بڑی تعداد عورتوں اور بچوں پر مشتمل ہے ۔اس کے ردعمل میں اسرائیل نے غزہ پر فضائی حملوں میں تیزی پیدا کردی ۔تشدد کی اس لہرنےجنگ بندی کے امکانات بظاہرمعدوم ہوگئے تھےلیکن بس پریہ حملہ چونکہ ممکنہ طورپر مغربی کنارے سے ہوا تھا اس لئے صہیونی دہشت زدہ ہوکرلامحالہ جنگ بندی کیلئے آمادہ ہوگئے۔ حماس نے اس کی ذمہ داری تو قبول نہیں کی مگر اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسرائیلی بربریت کا فطری ردعمل ہے ۔ چونکہ عالمی برادری اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کررہی ہے اس لئےفلسطینی تنظیمیں اپنے عوام کے تحفظ کی خاطر سارے ذرائع اختیار کریں گے ۔ بقول مظفر حنفی ؎

    چاہتا يہ ہوں کہ دنيا ظلم کو پہچان جائے
    خواہ اس کرب و بلا کے معرکے ميں جان جائے

    اس واقعہ سے قبل دارالحکومت تل ابیب میں ایک یہودی نے امریکی سفارت خانے کے ایک سکیورٹی محافظ کو چاقو گھونپ دیا ہے جبکہ دوسرے محافظوں کی فائرنگ کے بعد اس حملہ آور یہودی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس کی عمر اکتالیس ہے اور اس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ مجرمانہ ریکارڈ کا حامل ہے۔ مشتبہ حملہ آور منگل کو دن گیارہ بجے کے قریب امریکی سفارت خانے کی جانب چاقو اور خنجر سے مسلح ہو کر آیا۔ اس نے ایک سکیورٹی گارڈ پر چاقو سے حملہ کردیا اور اس کی ٹانگ پر زخم آئے ۔اس کے بعد محافظین نے حملہ آور پر فائرنگ کردی۔ترجمان کے مطابق وہ عرب نہیں ہےاور تل ابیب کے جنوب میں واقع قصبے بیت یام رہتا ہے۔ اس حملہ کی محرک بظاہریہودیوں کا امریکہ سے وابستہ توقعات کو پورا نہ ہونا ہو سکتا ہے ۔ پولیس نے حملہ آور کو حراست میں لے لیااور تفتیش شروع کردی جسے گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر ہنوز صیغہ ٔراز میں رکھا گیا گیا ہے۔ ان واقعات نے جنگ بندی کے نفاذ میں یقیناً مثبت کردار ادا کیا ہے۔

    ہیلری کلنٹن نے تل ابیب کے بعد راملاّ پہونچیں اور اپنے پٹھو محمود عباس سے ملاقات کی جسے ان حالات نے پوری طرح حاشیہ پر پہنچا دیا تھا ۔ لوگ سلمان خورشید کی طرح جو ہندوستان کا ایک مسلم وزیرخارجہ ہے یہ بھول ہی گئے تھے کہ محمود عباس نام کا کوئی فلسطینی رہنما بھی پایا جاتا ہے اور نازک وقت میں قوم کے کسی کام آسکتا ہے ۔ ساری دنیا کی نگاہیں جلاوطن رہنماخالد مشعل پر لگی ہوئی تھیں جنھیں کل تک دہشت گرد قرار دیا جاتا تھا ۔ راندۂ درگاہ محمود عباس سے ملاقات کرکے ہیلری نے انہیں اقوام متحدہ میں فلسطین کیلئے غیر رکن درجہ کی تجویز واپس لینے کیلئے کہا اور سمجھایا کہ ایسا کرنے سے امن کی پیش ر فت رک جائیگی لیکن نام نہاد امن پسند محمود عباس نے اسے مسترد کردیا اس لئے کہ اب اپنی ڈوبتی ہوئی ساکھ کو بچانے کیلئے اس کے پاس یہی ایک سہارا ہے لیکن یہ محمود عباس کی غلط فہمی ہے کہ اس کے سہارے ان کی نیا پار لگ جائیگی ۔ فلسطینی عوام یہ دیکھ چکے ہیں مغرب کے ان سہاروں کی حیثیت مکڑی کے جال سے زیادہ نہیں ہے ۔ ایک ہوا کا جھونکا اسے اکھاڑ پھینکنے کیلئے کافی ہوتا ہے ۔اسرائیلی اہلکار مغربی کنارے میں دندناتے پھرتے ہیں اور جب چاہتے ہیں جسے چاہتے ہیں گرفتار کرکے لے جاتے ہیں جبکہ اسرائیل کی فوج اپنے سارے لاؤلشکر کے ساتھ بھی غزہ میں داخل ہونے کی جرأت نہیں کرسکتی ۔اس لئے اگر عزت و وقار کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو حماس کی مانند دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے آپ کو مضبوط بنانا پڑے گا اور یہ عیش پسند بدعنوان الفتح کی قیادت کے بس کی بات نہیں ہے ۔

    حماس کی قیادت کو اس حقیقت کا ادراک ہے اس لئے خالد مشعل نے عرب ممالک سے فلسطینیوں کے فوجی معاونت کا مطالبہ کیا ہے۔ کتابِ الٰہی میں دشمنوں پر اپنارعب قائم رکھنے کی خاطر جنگی گھوڑوں کو تیار رکھنے کی تلقین کا یہی تقاضہ ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطین میں اس وقت ایک ایسے قومی سیاسی پروگرام کی ضرورت ہے جو مزاحمت کی بنیاد پر قائم کیا جائے۔ گویا فلسطین کے مسئلہ کا حل فی الحال مصالحت میں نہیں بلکہ مزاحمت میں مضمر ہے۔ انہوں نے ذرائع ابلاغ کے سامنے اعتراف کیا کہ جنگ بندی معاہدے میں کامیاب ہونے کا یہ مطلب نہیں ہےکہ فلسطینیوں کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں بلکہ اسرائیل سے فائر بندی کے بعد اگلے مرحلے میں ہم قومی وحدت اور آپسی مصالحت کا سفر شروع کریں گے لیکن ملی اتحاد اور مصالحت کی بنیاد مسلح مزاحمت پر ہونی ہوگی۔ یہی وہ مومنانہ فراست ہے جس سے باطل کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہوتا ہے ۔ انہوں نے یاددلایا کہ اسرائیل تمام تر جارحیت کے باوجود غزہ میں مزاحمتی انفراسٹرکچر کو تباہ کرنےمیں ناکام رہا ہے۔ اس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ صہیونی ریاست میں فلسطینیوں کی قوت مزاحمت کو کچلنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ آٹھ روزہ جارحیت کے بعد اسرائیل کاہماری شرائط کو تسلیم کرنادشمن کی شکست اور ہماری فتح ہے۔ اس اعلان کے وقت خالد مشعل کے ساتھ فلسطین کی عسکری تنظیم اسلامی جہاد کے مرکزی رہنما رمضان شلح بھی موجود تھے جنھوں نے اعلان کیا کہ وہ جنگ بندی سمجھوتے کی پابندی اسی وقت تک کریں گے جب تک اسرائیل اس کا پابندہو گا۔ اسرائیل کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں ہمیں جوابی کارروائی کا حق ہو گا۔بقول فراز ؎

    جو حرفِ حق تھا وہی جا بجا کہا سو کہا بلا سے شہر میں میرا لہو بہا سو بہا
    شکست و فتح مرا مسئلہ نہیں ہے فراز میں زندگی سے نبرد آزما رہا سو رہا

    نتن یاہو نے ہیلری کلنٹن سے کہا کہ بینڈ ایڈ کے ذریعہ اگر مسئلہ حل کرنے کی کوشش جائیگی تو ایک نئے تشدد کا دور پھر شروع ہو جائیگا اس لئے طویل المدتی حل ضروری ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طویل المدتی حل کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب عرب لیگ کے سربراہ نبیل العربی نے غزہ کے اپنے یکجہتی دورے سے قبل دیا ۔ انہوں نے کہاعرب اور اسلامی دنیا کا اصل مسئلہ نا جنگ معاہدہ یاکشت خون کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ دنیا کے سارے دوست ممالک کو چاہئے کہ اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کے خاتمے پر توجہ دیں ۔ یقیناً یہی اصل مسئلہ ہے اور اس پر حماس کے سربراہ خالد مشعل نے قطر کے امیر، ترکی کے وزیر اعظم اور مصر کے صدر کے درمیان چار فریقی مذاکرات بھی ضرور گفتگو کی ہوگی۔

    ایک طرف جہاں مصر کے عوام اور دیگرمسلم وزرائے خارجہ اپنے مظلوم بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے نظر آرہے تھے وہیں دوسری جانب امریکی یہودی اسرائیل سے فرار ہونے کا منصوبہ بنا رہے تھے ۔ ایک خبر کے مطابق امریکا نے بڑھتی ہوئی فلسطین ۔ اسرائیل کشیدگی کے باعث اپنے شہریوں کو علاقے سے بہ حفاظت نکالنے کے لئے تین جنگی بحری جہاز اسرائیل روانہ کر دیئے تھے۔ 'سی این این' نے وزارت دفاع پینٹاگون کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل سے امریکی شہریوں کے فوری انخلاء کا امکان نہیں ہے البتہ بحری جہازوں کی روانگی احتیاطی نوعیت کی ہے۔پینٹاگون نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ یہ جنگی جہازکشیدگی میں اضافے کی صورت میں تل ابیب کو فوجی مدد دیں گے۔ اس کے مطابق ان بحری جہازوں کی روانگی کا مقصد صرف امریکی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔اسی کے ساتھ اسرائیل میں موجود امریکی باشندوں کو محتاط رہنے اور کشیدگی کی صورت میں ملک چھوڑنے کی ہدایات بھی جاری کی گئی تھیں۔اس خبر میں ایک تو اسرائیلی اور امریکی شہریوں کی تخصیص اور انہیں اسرائیل سے نکالنے کی تیاری قرآنِ مجید میں بیان کردہ یہودیوں کی موت سے خوف کھانے والی نفسیات کی غماز ہے اور مسلمانوں کا جذبہ جہادغزوۂ احزاب کے اس منظر کی یاد دلاتا ہے کہ ؎

    اور سچے مومنوں (کا حال اُس وقت یہ تھا کہ) جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ ‘‘یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اللہ اور اُس کے رسولؐ کی بات بالکل سچّی تھی‘‘ اِس واقعہ نے اُن کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا۔ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔(الاحزاب)
     
  10. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    مجھے اس مضمون کے ان الفاظ کی سمجھ نہیں آئی ۔
     
  11. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063
    میں‌نے موصوف سے اس جملے کی وضاحت طلب کرلی ہے، جیسے ہی مجھے ریپلائی ملے میں‌ یہاں‌شئیر کردونگا۔
    نوٹ: مصنف کے ہر خیال سے خود میں‌بھی متفق نہیں‌ہوں، البتہ استفسار کبھی بھی کیا جاسکتا ہے۔
    جزاک اللہ خیرا۔
     
  12. عبد الرحمن یحیی

    عبد الرحمن یحیی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 25, 2011
    پیغامات:
    2,312
    [FONT="Al_Mushaf"]الحمد للہ[/FONT]
     
  13. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063
    ڈاکٹر سلیم صاحب مندرجہ بالا عبارت کے بارے کچھ اسطرح رقمطراز ہیں۔۔۔

    "بھائی ابومصعب
    السلام علیکم و رحمت اللہ
    احمد الجعبری کی شہادت کے بعد جو کچھ ہوا ہے وہ یہاں درج ہے۔ اس میں کسی
    سوال کی کوئی گنجائش نہیں ۔ امام حسین کربلا میں شہید ہوئے یہ بھی ایک
    حقیقت ہے۔ ان دونوں قربانیوں کے درمیان کسی کومماثلت نظر آسکتی ہے کسی
    کو نہیں ۔مجھے یہ مماثل لگتی ہیں لیکن اگر کسی کو نہیں لگتی تو میں ان کے
    اختلاف کا احترام کرتا ہوں۔سوال جواب سے ایسے مسائل حل نہیں ہوتے۔
    والسلام
    سلیم
    "
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں