امر

رفی نے 'تسہیل الوصول إلى فہم علم الاصول' میں ‏جنوری 29, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395

    امر:


    امر کا لفظ دو معنوں کےلیے استعمال ہوتا ہے:

    1۔ فعل کو طلب کرنے کےلیے، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    ﴿ وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلاةِ ﴾ [طه:132]
    اور اپنے گھر والوں کو نماز کاحکم دیجئے۔

    اس امر کی جمع ’اوامر‘ آتی ہے۔

    2۔ کام ، حالت اور معاملہ کےلیے ، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    ﴿ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ ﴾ [آل عمران:159]
    اور معاملات میں ان سے مشورہ لیجئے۔

    اس امر کی جمع ’امور‘ آتی ہے۔

    یہاں (اصول فقہ میں) امرپہلے معنی میں ہے کیونکہ اس میں طلب کا معنی پایا جاتا ہے۔

    اصطلاحی تعریف: تحکم کے انداز میں فعل کو اس قول کے ذریعے طلب کرنا جو اس (طلب کرنے) پر دلالت کرے۔

    اکثر اصولیوں نے آمر (حکم دینے والے) میں علو اور استعلاء کی شرط نہیں لگائی اس کےلیے انہوں نے عمرو بن العاصکی بات سے استشہاد کیا ہے جو انہوں نے معاویہسے کہی تھی:

    أمرتك أمرًا جازمًا فعصيتني --- وكان من التوفيق قتل ابن هاشم
    ’میں نے آپ کو بہت پختہ حکم (مشورہ) دیا تھا لیکن آپ نے میری بات نہ مانی حالانکہ ہاشم کے بیٹے کا قتل توفیق میں سے تھا۔‘

    اصل میں ابن ہاشم نے معاویہ پر خروج کیا تھا ، انہوں نے اسے پکڑلیا لیکن پھر معاف کردیا تو اس نے دوسری مرتبہ خروج کردیا۔

    یہ بات معلوم ہے کہ یہاں پر عمروبن العاص کو معاویہ پر کوئی علو اور استعلاء حاصل نہ تھا۔

    اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان بھی ہے فرعون کی اس بات کی حکایت کرتے ہوئے جو اس نے اپنی قوم سے کہی تھی:
    ﴿ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ ﴾ [الأعراف:110]
    تم مجھے کس بات کا حکم (مشورہ) دیتے ہو؟

    ممکن ہے کہ اس بات کا یہ جواب دیا جائے کہ اس نے ان کو اپنی رائے ظاہر کرنے کا اختیار دیا تو یہی ان کےلیے اعلاء بن گیا۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    امر کےلیے استعمال ہونے والے صیغے


    امر کےلیے استعمال ہونے والے صیغے:

    امر کے کچھ صیغے ہیں جو اگر کسی قرینہ صارفہ سے خالی ہوں تو طلب فعل پر دلالت کرتے ہیں ، یہ صیغے چار ہیں:

    1۔ فعل امر: جیسے:
    ﴿ أَقِمِ الصَّلاةَ ﴾ [الإسراء:78]
    نماز قائم کرو۔

    ﴿ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُم ﴾ [نوح:10]
    اپنے رب سے بخشش طلب کرو۔

    ﴿ يا أَيهَا النَّبِي جَاهِدِ الكُفَّارَ وَالمُنَافِقِينَ ﴾ [التوبة:73]
    اے نبیﷺ! کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے۔

    2۔ مضارع مجزوم بلام امر: جیسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:
    ﴿ ثُمَّ لْيقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيطَّوَّفُوا بِالْبَيتِ الْعَتِيقِ ﴾ [الحج:29]
    پھر وه اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اللہ کے قدیم گھر کا طواف کریں۔

    3۔ اسم فعل بمعنی امر: جیسے اللہ رب العالمین کا یہ فرمان ہے:
    ﴿ يا أََيهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيكُمْ أََنفُسَكُمْ ﴾ [المائدة:105]
    اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو۔

    4۔ فعل امر کا نائب مصدر: جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    ﴿ فَضَرْبَ الرِّقَابِ ﴾ [محمد:4]
    تو ان کی گردنیں مارو۔
     
  3. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    امر کے صیغوں کا فائدہ دینے والے چند مزید صیغے


    امر کے صیغوں کا فائدہ دینے والے چند مزید صیغے:


    امر کے اصلی صیغوں کا بیان پیچھے گزرچکا ہے ۔ کچھ اور بھی ایسے صیغے ہیں جو کسی چیز کے حکم اور اس کے پیدا کرنے کی طلب پر دلالت کرتے ہیں۔ وہ صیغ یہ ہیں:

    ۱۔ امرکے لفظ کے ساتھ وضاحت ہو، جیسے:
    «آمركم، وأمرتكم، أنتم مأمورون»
    میں تمہیں حکم دیتا ہوں، میں نے تمہیں حکم دیا تھا، تمہیں حکم دیا گیا تھا وغیرہ۔

    ۲۔ کسی کام کے واجب ہونے کی صراحت کا ہونا۔

    ۳۔ فرض یا لکھے جانے کی وضاحت کا ہونا۔

    ۴۔ حق علی العباد و علی المؤمنین (بندوں اور مؤمنوں پر کام کرنا واجب ہے)کے الفاظ کا ہونا۔

    ۵۔ اسی طرح جن کاموں کے چھوڑنے پر مذمت بیان کی گئی ہو اور سزا کا مستحق ٹھہرایا گیا ہو یا پھر اعمال کے برباد ہونے کی خبر سنائی گئی ہو۔

    مذکورہ بالا بیان جمہور کی رائے ہے اور انہوں نے ان الفاظ کے امر ہونے پر اہل لغت کے اجماع سے استدلال کیا ہے۔ لہٰذاجب مالک اپنے غلام سے کہتا ہے کہ :
    ” «أعطني كذا» “
    مجھے فلاں چیز دو,

    تو اس مالک کو آمر (حکم دینے والا) اور غلام کو اگر وہ یہ کام کرے تو مطیع (حکم کی پیروی کرنے والا) سمجھا جاتا ہے ۔ اور اگر نہ کرے تو اسے نافرمان گردانا جاتا ہے۔

    اشاعرہ اور ان کی پیروکاروں کا مذہب یہ ہے کہ امر کا کوئی لفظی صیغہ ہے ہی نہیں کیونکہ ان کے نزدیک کلام لفظ کی بجائے اس معنی کو کہتے ہیں جو قائم بالنفس (دل میں موجود) ہو اور الفاظ کو تو صرف اس لیے بنایاگیا ہے تاکہ وہ دل میں موجود معنی کی تعبیر کرسکیں اور اس پر دلالت کرسکیں۔لیکن یہ رائے کتاب وسنت کی خلاف ہونے کی وجہ سے باطل ومردود ہے۔

    قرآنی دلیل: ایک تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے جو اللہ رب العزت نے زکریا  سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
    ﴿ آيتُكَ أَلاَّ تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلاثَ لَيالٍ سَوِيا ﴾ [مريم:10]
    تمہارے لیے یہ نشانی مقرر کی گئی ہے کہ تم مسلسل تین راتوں تک لوگوں سے کلام نہیں کرسکو گے۔

    تو یہاں زکریاکے دل میں موجود معنی اور اس اشارے پر جسے قوم نے سمجھ لیا تھا، کلام کا لفظ نہیں بولا گیا۔

    رہی سنت سے دلیل تو وہ نبی کریمﷺ کا یہ فرمان ہے کہ :
    اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے میری امت کے ان گناہوں کو معاف کردیا جو ان کے دلوں میں موجود ہیں ، جب تک وہ ان کے ساتھ کلام نہ کریں یا عمل نہ کریں۔


    تو یہاں پر نبی کریم ﷺ نے دل میں موجود معنی اور کلام کے درمیان فرق کیا ہے اور بتایا ہے کہ اللہ رب العالمین نے پہلے کو تو معاف کیا ہے ، دوسرے کو نہیں۔
     
  4. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    جب مطلق امر کا صیغہ بولا جائے تو اس کا کیا حکم ہوتا ہے؟


    جب مطلق امر کا صیغہ بولا جائے تو اس کا کیا حکم ہوتا ہے؟​


    جب امر کا صیغہ اپنی مراد پر دلالت کرنے والے تمام قرائن سے خالی ہو تو وہ وجوب کا تقاضا کرتا ہے، یہی جمہور کا قول ہے اور اسی پر دلیلیں دلالت کرتی ہیں۔ مثلاً اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ابلیس سے یہ کہنا کہ :
    ﴿ مَا مَنَعَكَ أَلاَّ تَسْجُدَ إذْ أَمَرْتُكَ ﴾ [الأعراف:12]
    جب میں نے تجھے سجدہ کرنے کا حکم دے دیا تھا تو تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا؟

    اسی طرح اللہ رب العالمین کا یہ فرمان کہ:
    ﴿ وَإذَا قِيلَ لَهُمُ ارْكَعُوا لا يرْكَعُونَ ﴾ [المرسلات:48]
    جب انہیں کہا جاتا ہے کہ رکوع کرو تو رکوع نہیں کرتے۔

    اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ :
    ﴿ فَلْيحْذَرِ الَّذِينَ يخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ [النور:63]
    تو جو لوگ رسول اللہﷺ کے حکم کی نافرمانی (مخالفت) کرتے ہیں ، وہ فتنے یا دردناک عذاب کے پہنچنے سے ڈریں۔

    اسی طرح یہ فرمان الہٰی بھی کہ:
    ﴿ أَفَعَصَيتَ أَمْرِي ﴾ [طه:93]
    کیا آپ نے میرے حکم کی نافرمانی کی ہے؟

    اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان عبرت نشان بھی کہ :
    ﴿ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يكُونَ لَهُمُ الْخِيرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ﴾ [الأحزاب:36]
    جب اللہ اور اس کے رسولﷺ کسی معاملہ کا فیصلہ کردیں تو کسی مؤمن مردوعورت کےلیے ان کے معاملے میں کوئی اختیار باقی نہیں رہ جاتا۔

    اس کے علاوہ اور بھی بہت سے فرامین ہیں۔ ان تمام دلائل سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ مامور (جس کو حکم دیا گیا ہو) کےلیے سوائے امر کو سرانجام دینے کے اور کوئی راستہ نہیں ہے جس کے ذریعے وہ وعید سے خلاصی، عذاب اور نافرمانی کی عار (ذلت) سے نجات پاسکے۔
    اسی طرح صحابہ کا بھی امر کے ذریعے وجوب پر استدلال کرنا اس قاعدے کی ایک اور دلیل ہے اور چونکہ اس کے خلاف کوئی دلیل نہیں ہے لہٰذا یہ اجماع ہے۔

    پھر اسی طرح جو غلام اپنے آقا کے حکم کو سرانجام نہ دے اہل لغت کا اس کی مذمت بیان کرنا اور اسے نافرمانی سے موصوف کرنا بھی اس قاعدے کے درست ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ کسی کی مذمت اور اسے نافرمان اسی وقت قرار دیا جاسکتا ہے جب وہ کسی واجب کو ترک کرے۔
     
  5. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    کسی چیز کا حکم نہ صرف اسی چیز کا حکم ہے بلکہ ...

    کسی چیز کا حکم نہ صرف اسی چیز کا حکم ہے بلکہ جس پر وہ چیز موقوف ہو ، اس کا بھی ہے:​


    جب مطلق واجب کا وجود کسی دوسری چیز پر موقوف ہو تو اس واجب کا حکم اس دوسری چیز کو بھی شامل ہوتا ہے جس پر اس واجب کا وجودموقوف ہو، جیسے: وضو، دراصل نماز کا حکم وضو کے حکم کو بھی اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے اور یہی اصولیوں کے اس قول کا مطلب ہے کہ : ”کسی چیز کا حکم نہ صرف اسی چیز کا حکم ہوتا ہے بلکہ اس چیز کا بھی حکم ہوتا ہے جس کے بغیر یہ چیز پوری نہیں ہوسکتی“ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسری چیز کا ذکر چونکہ ضمنی طورپر اس میں آچکا ہے لہٰذا بغیر کسی مستقل دلیل کے وہ چیز واجب ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ اس دوسری چیز کےلیے بھی الگ سے دلائل موجود ہوتے ہیں، باوجود اس کے کہ واجب کےلیے جو خاص حکم ہے وہ اس کے بھی وجوب کا تقاضا کرتا ہے، جس پر یہ واجب موقوف ہے۔

    یہ ساری بحث واجب مطلق (وہ امر جو ہر قسم کی قید سے خالی ہو) کے بارے میں ہے۔اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ نماز کا واجب ہونا ہر قسم کی قید سے ہٹ کر ہے لیکن اس کا حکم درحقیقت اس چیز کے بھی واجب ہونے کاتقاضا کرتا ہے جس کے بغیر یہ حکم پورا نہیں کیا جاسکتا، اور وہ دوسری چیز وضو ہے۔

    باقی رہا مقید واجب تو وہ اس طرح نہیں ہے۔ مثال کے طور پر زکاۃ کا وجوب نصاب کے مالک بننے سے مقید ہے ، لیکن یہاں پر زکاۃ ادا کرنے کا حکم نصاب کے حصول کا تقاضا نہیں کرتا کہ بندہ مال حاصل کرکے اس میں سے زکاۃ نکالے، کیونکہ یہ وجوب کو پورا کرنے کےلیے ہے نہ کہ واجب کو ۔ اسی لیے اصولی کہتےہیں کہ جس چیز کے بغیر واجب مکمل نہ ہو ، وہ چیز بھی واجب ہوتی ہے اور جس چیز کے بغیر وجوب مکمل نہ ہو ، وہ چیز واجب نہیں ہوتی۔ تو جو نماز ہے اس کا وجوب تو ثابت ہے لیکن زکاۃ اس وقت تک واجب نہیں ہوتی جب تک نصاب حاصل نہ ہوجائے۔
     
  6. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    امر کے صیغوں کا اپنے اصلی معنوں کے علاوہ دوسرے معانی میں استعمال


    امر کے صیغوں کا اپنے اصلی معنوں کے علاوہ دوسرے معانی میں استعمال:


    جب قرینہ پایا جائے گا تو امر کا صیغہ اپنے اصلی معنی کی بجائے اسی معنی میں استعمال ہوگا جس پر قرینہ دلالت کرےگا۔ اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:

    1۔ کسی چیز کے مباح ہونے کے بارے میں بتانے کےلیے :
    جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے: ﴿ كُلُوا وَاشْرَبُوا ﴾ [البقرة:60]
    کھاؤ اور پیو۔

    2۔ دھمکی کےلیے: جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ذیشان ہے:
    ﴿ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ ﴾ [فصلت:40]
    جو کرنا ہے ، کرلو۔

    3۔ احسان جتلانے کےلیے: جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان گرامی ہے:
    ﴿ کُلُوْا مِمَّا رَزَقْنَاكُمْ ﴾ [البقرة:254]
    جو ہم نے تمہیں رزق دیا ہے ،اس میں سے کھاؤ۔

    4۔ عزت دینے کےلیے: جیسے فرمان رب العالمین ہے:
    ﴿ ادْخُلُوهَا بِسَلامٍ آمِنِينَ ﴾ [الحجر:46]
    اس جنت میں سلامتی کے ساتھ ، امن والے بن کر داخل ہوجاؤ۔

    5۔ عاجز کرنے کےلیے: جیسے فرمان رب ِ کائنات ہے:
    ﴿ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ ﴾ [البقرة:23]
    (جاؤ) اس جیسی ایک سورت ہی لے آؤ۔

    6۔ برابری ظاہر کرنے کےلیے : جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی مقام ہے:
    ﴿ فَاصْبِرُوا أَوْ لا تَصْبِرُوا ﴾ [الطور:16]
    صبر کرو یا نہ کرو (تمہارے لیے برابر ہے)۔

    7۔ حقارت ظاہر کرنے کےلیے: جیسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
    ﴿ أَلْقُوا مَا أَنتُم مُّلْقُونَ ﴾ [يونس:80]
    جو ڈال سکتے ہو، ڈال لو۔

    8۔ مشورہ کےلیے : جیسے اللہ رب العزت کا یہ فرمان ہے:
    ﴿ فَانظُرْ مَاذَا تَرَى ﴾ [الصافات:102]
    غور کرو (اور بتاؤ) تمہارا کیا خیال (مشورہ) ہے؟

    9۔ عبرت دلانے کےلیے : جیسے اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا:
    ﴿ انظُرُوا إلَى ثَمَرِهِ إذَا أَثْمَرَ ﴾ [الأنعام:99]
    اس کے پھل کی طرف تو دیکھو جب وہ پھلدار ہوتا ہے۔

    10۔ دعا کےلیے: جیسے آپ کہیں کہ:
    ﴿ رَبِّ اغْفِرْ لِي ﴾
    اے میرے رب! مجھے بخش دے۔

    11۔ درخواست کےلیے: جیسے آپ اپنے ساتھی سے کہیں کہ:
    «ناولني القلم»
    مجھے قلم تو پکڑا دیجئے۔

    ان کے علاوہ اور بھی بہت سے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔
     
  7. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    جس کام کا حکم دیا گیا ہو اسے بار بار کیا جائے گا یا نہیں؟


    جس کام کا حکم دیا گیا ہو اسے بار بار کیا جائے گا یا نہیں؟​


    اس مسئلے کی تین صورتیں ہیں، کیونکہ حکم یا تو ایک مرتبہ کرنے کے ساتھ مقید ہوگا یا بارباردہرانے کے ساتھ یا پھر قید سے ہی خالی ہوگا۔

    پہلی صورت: حکم کو اسی چیز پر محمول کیا جائے گا جس کی قید لگائی گئی ہوگی۔قید یا تو صفت کے ذریعے ہوگی یا شرط کے ذریعے۔ جو قید صفت کے ذریعے ہوگی، اس کی مثال اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
    ﴿ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيدِيهُمَا ﴾ [المائدة:38]
    چوری کرنے والے مرد وعورت کا ہاتھ کاٹ دو۔

    تو جب بھی چوری والی صفت پائی جائے گی ، ہاتھ کاٹنا واجب ہوجائے گا، جب تک کہ چوری کا تکرار ہاتھ کاٹنے سے پہلے نہ ہو۔ اور جو قید شرط کے ساتھ ہوگی ، اس کی مثال نبی کریمﷺ کا یہ فرمان ہے:
    «إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما يقول...» إلخ‘
    جب تم مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو ویسے ہی کہو جیسے وہ کہہ رہا ہو۔۔۔

    دوسری صورت: حکم کو اسی چیز پر محمول کیا جائے جس کی قید لگائی گئی ہو گی، جیسے پہلی صورت میں تھا۔ اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان عالیشان ہے:
    ﴿ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إلَيهِ سَبِيلاً ﴾ [ آل عمران:79]
    لوگوں میں سے جو بھی بیت اللہ کے حج کےلیے راستے کی طاقت رکھے ، اس پر اللہ رب العالمین کا یہ حق ہے کہ وہ حج ضرور کرے۔

    تو جب اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیا ہر سال حج کرنا واجب ہے؟ تو آپﷺ نے جو جواب دیا ، وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حج عمر بھر میں صرف ایک ہی مرتبہ کرنا فرض ہے۔ لہٰذا اس قید کی وجہ سے آیت میں حکم کو ایک مرتبہ کرنے پر محمول کیا جائے گا۔

    تیسری صورت: یہ ہر قسم کی قید سے خالی حکم ہوتا ہے ، اسی لیے اکثر اصولیوں کا موقف یہی ہے کہ اس قسم کے حکم کو صرف ایک مرتبہ کرنا پڑے گا،دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ حکم صرف ماہیت (حالت، کیفیت) کو پیدا کرنے کےلیے ہوتا ہے۔اور اسے ایک مرتبہ بجالانا ہی کافی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگرخاوند اپنے وکیل کو کہے کہ میری بیوی کو طلاق کا نوٹس بھجوا دو ، تو وکیل صاحب صرف ایک طلاق کا نوٹس ہی بھجوا سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر مالک اپنے غلام کو گھرمیں داخل ہونے کا حکم دے تو غلام کے ایک مرتبہ داخل ہونے سے ہی حکم پورا ہوجائے گا، اس حکم کو نہ دہرانے پر غلام کی ڈانٹ ڈپٹ درست نہیں ہوگی۔
     
  8. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    امر مطلق کام کے فوری سرانجام دیئے جانے کا تقاضا کرتا ہے


    امر مطلق کام کے فوری سرانجام دیئے جانے کا تقاضا کرتا ہے:​


    جب امر کا صیغہ کام کو جلدی یا دیر سے کرنے کے الفاظ سے خالی ہوتو دراصل وہ امر کام کے جتنا جلد ممکن ہو، سرانجام دیئے جانے کا تقاضا کرتا ہے۔اس پر بہت ساری دلیلیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اللہ رب العالمین کا یہ فرمان:
    ﴿ وَسَارِعُوا إلَى مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ ﴾ [آل عمران:133]
    اپنے رب کی مغفرت کی طرف بھاگ کر آؤ۔

    اسی طرح یہ فرمان الہٰی:
    ﴿ سَابِقُوا إلَى مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ ﴾ [الحديد:21]
    اپنے رب کی مغفرت کی طرف ایک دوسرے سے سبقت لے جاؤ۔

    اور یہ فرمان عالی مقام بھی:
    ﴿ فَاسْتَبِقُوا الْخَيرَاتِ ﴾ [البقرة:148]
    نیکی کے کاموں میں جلدی کرو۔

    اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا جلدی کرنے والوں کی تعریف کرنا بھی اس بات کی ایک دلیل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    ﴿ أُوْلَئِكَ يسَارِعُونَ فِي الْخَيرَاتِ ﴾ [المؤمنون:61]
    یہی لوگ ہیں جو نیکی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں۔

    ان نصوص سے دلیل اس لیے پکڑی گئی ہے کیونکہ سبقت لے جانا، مقابلہ کرنا اور جلدی کرنا کام کے فوری سرانجام دینے پر دلالت کرتا ہے۔

    اسی طرح اللہ رب العزت کا ابلیس کی مذمت اس وجہ سے کرنا کہ اس نے سجدہ کرنے کے حکم پر عمل کرنے میں جلدی نہیں کی تھی، (اس قاعدے کےدرست ہونے کی ایک اور دلیل ہے) اللہ تعالیٰ کا فرمان ذیشان ہے:
    ﴿ مَا مَنَعَكَ أَلاَّ تَسْجُدَ إذْ أَمَرْتُكَ ﴾ [الأعراف:12]
    تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا جبکہ میں تجھے ا س کا حکم دے چکا تھا۔

    یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان گرامی میں سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا:
    ﴿ وَإذْ قُلْنَا لِلْمَلائِكَةِ اسْجُدُوا لآدَمَ فَسَجَدُوا إلاَّ إبْلِيسَ ﴾ [البقرة:34]
    اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے کیاسوائے ابلیس کے۔

    تو اگر کام فوری سرانجام دینا ضروری نہ ہوتا تو شیطان بھی مذمت کا مستحق نہ ٹھہرتا۔

    لغت بھی زیر بحث قاعدے کے درست ہونے پر دلالت کرتی ہے ، وہ اس طرح کہ اگر مالک اپنے غلام کو کسی کام کے کرنے کا حکم دے اور غلام اس کی تعمیل نہ کرے ، جس پر مالک اسے ڈانٹے تواگر اس پر غلام یہ عذر پیش کرے کہ حکم مؤخر ہے, تو اس غلام کا یہ عذر قابل قبول نہ ہوگا۔

    رہی بات تاخیر پر اصرار کرنے والوں کے دلائل کی تو ان کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے حج فرض ہوجانے کے باوجود اسے دس(10) ہجری میں ادا کیا۔لیکن ان لوگوں کی دلیل اس لیے باطل اور مردود ہے کہ ہوسکتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے حج کو چند اغراض کے پیش نظر مؤخر کیا ہو، مثلاً مشرک بیت اللہ جو خلاف شریعت کام کرتے تھے ، ان کو دیکھنے سے بچنے کےلیے۔ تو جب نو (9)ہجری میں نبی کریمﷺ کے منادی نے مشرکوں سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی برأت کا اعلان کردیا اور اس کے ساتھ ہی انہیں بیت اللہ کے قریب آنے سے بھی روک دیا اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مکہ کو شرک کی گندگی اور پلیدی سے پاک کردیا ، تب اللہ کے نبیﷺ نے حج کیا۔
     
  9. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    شریعت کے احکامات کا مکلف کون ہے اور کون نہیں ہے


    شریعت کے احکامات کا مکلف کون ہے اور کون نہیں ہے:


    لوگوں کی دوقسمیں ہوتی ہیں:

    1۔ ایک تو وہ لوگ جن کا ادراک مکمل نہیں ہوتا، خواہ نابالغ ہونے کی بناء پرجیسے بچے ہیں، یا عقل کے نہ ہونے کی وجہ سے جیسے پاگل ہیں , یا عقل پر پردہ پڑا ہونے کی بناء پر جیسے نشہ میں چورشخص , یا ذہن کے منتشر ہونیکی وجہ سے جیسے بھلکڑ ۔

    2۔ جن کی عقل مکمل ہوچکی ہوتی ہے اور وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو عاقل، بالغ اور شق نمبر ایک میں بیان کردہ تمام چیزوں سے سلامت ہوتے ہیں۔

    تو جو پہلی قسم کے لوگ ہیں ، وہ کام کرنے اور ترک کرنے یا بالفاظ دیگر شریعت کے مکلف نہیں ہوتے۔ اس بات کی درستی پرعقلی اور نقلی دلیلیں موجود ہیں۔

    ۱۔ عقل کی رُو سے تو وہ لوگ اس لیے پابند نہیں کیے جاسکتے کہ حکم تو چاہتا ہے کہ اس کو بجا لایا جائے اور جو بندہ حکم کا ہی ادراک نہ کرسکے ،وہ اس حکم کو سرانجام نہیں دے سکتا ۔

    ۲۔ باقی رہی بات نقلی دلیل کی تو وہ نبی کریمﷺ کی یہ حدیث مبارکہ ہے:
    «رفع القلم عن ثلاث...» الحديث۔
    تین قسم کے بندوں سے قلم کو اُٹھا لیا گیا ہے یعنی وہ مرفوع القلم ہیں۔

    یہاں پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ پھر تو مرفوع القلم کو چٹی بھی نہیں بھرنی پڑے گی ۔کیونکہ یہ تو دوسرے کا حق ہے اور اس میں عاقل اور غیر عاقل بلکہ جانور تک شامل ہیں کیونکہ اگر وہ بھی کسی کا نقصان کردیں تو ان کے مالکوں کو تاوان بھرنا پڑے گا۔

    دوسری قسم کے لوگ مسلمان بھی ہوسکتے ہیں اور غیر مسلم بھی۔ اور شریعت کا خطاب یا تو اصل کے متعلق ہوتا ہے ،مثلاً عقائد وغیرہ یا پھر فرع کے بارے میں ہوتا ہے ، مثلاً نماز اور روزہ وغیرہ۔

    ۱۔ اصل کے بارے میں جو خطاب ہوتا ہے ، اس میں باتفاق علماء سبھی شامل ہوتے ہیں۔

    ۲۔ اور جو حکم فرع کے بارے میں ہوتا ہے ، اس میں اختلاف ہے۔ صحیح قول کے مطابق کفاراس خطاب میں بھی شامل ہیں۔ اس بات کی دلائل میں سے ایک دلیل تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا کفار کے بارے میں یہ فرمان ہے کہ:
    ﴿ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ (42) قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ (43) وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ (44) وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ (45) وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيوْمِ الـدِّينِ ﴾ [المدثر:42_46]
    ترجمہ: تمہیں کس چیز نے جہنم میں داخل کردیا ہے ؟ وہ (کفار) کہیں گے: ہم نمازیوں میں سے نہ تھے ، مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے بلکہ باطل کے ساتھ مشغول ہونے والوں کے ساتھ ہم بھی مشغول ہوجایا کرتے تھے اور آخرت کے دن کو جھٹلاتے تھے۔

    تو یہاں پر کفار نے اپنے عذاب دیئے جانے کے اسباب میں ان چیزوں کو پہلے ذکر کیا ہے جو فروعات میں سے ہیں جیسے نماز اور زکاۃ ادا نہ کرنا اور بحث مباحثہ کرنا جس سے انہیں روکا گیا تھا، اور انہوں نے اپنے سب سے بڑے قصور یعنی قیامت کے دن کو جھٹلانے کے ذکر اکتفا نہیں کیا۔

    اس زیر بحث مسئلہ کی دوسری دلیل نبی ﷺ کا یہودیوں کو رجم کرنا ہے۔

    اس کی تیسری دلیل اللہ رب العالمین کا یہ فرمان ہے:
    ﴿ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ زِدْنَاهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ ﴾ [النحل:88]
    ترجمہ: وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے روکا، ہم ان کےلیے عذاب پر عذاب کا اضافہ کریں گے۔

    جس طرح مؤمن کو ایمان لانے ، جن کاموں کا حکم دیا گیاہے ان کی بجاآوری ,اور جن سے روکاگیا ان سے رکنے پر ثواب دیا جاتا ہے ، اسی طرح کافر کی بھی توحید چھوڑنے، منہیات کے ارتکاب اور اوامر کی بجاآوری نہ کرنے پر گرفت کی جائے گی۔
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں