حضرت فاطمہ بنتِ قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا

mahajawad1 نے 'سیرتِ سلف الصالحین' میں ‏مارچ 3, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. mahajawad1

    mahajawad1 محسن

    شمولیت:
    ‏اگست 5, 2008
    پیغامات:
    473
    حضرت فاطمہ بنتِ قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا

    فاطمہ نام۔ نسب نامہ اسطرح ہے۔
    فاطمہ بنتِ قیس بن خالد اکبر بن وہب بن ثعلبہ بن وائلہ بن عمرو بن شیبان محارب بن فہر۔
    والدہ کا نام امیمہ بنتِ ربیعہ تھا جو بنی کنانہ سے تھیں۔ ابو عمرو بن حفص بن مغیرہ سے نکاح ہوا۔ دعوت حق کی ابتدا ہی میں شرف اسلام سے بہرہ ور ہو گئیں اور ہجرت کے دور اوّل میں دوسری خواتین کے ہمراہ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔
    سنہ 10 ہجری میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ، سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل میں ایک لشکر لے کر عازم یمن ہوئے۔ اس لشکر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے شوہر ابو عمرو بن حفص رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ روانگی سے قبل انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی۔(1) وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " تم عدّت کا زمانہ امّ شریک رضی اللہ عنہا کے ہاں گزارو"۔
    لیکن امّ شریک رضی اللہ عنہا کے گھر انکے عزیزو اقارب کے علاوہ دوسرے مہمان بھی بکثرت اآتے تھے اسلیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنت حکم میں ترمیم فرماتے ہوئے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مشورہ دیا کہ تم عدّت کا زمانہ اپنے عمّ ابنِ امّ مکتوم رضی اللہ عنہ کے ہاں گزارو۔ انہوں نے تعمیل ارشاد کی۔ جب عدّت پوری ہو گئی تو حضرت معاویہ بن ابو سفیان، حضرت ابو جہم اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی خواہش کا اظہار کیا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا خیال تھا کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم خود انہیں شرفِ ازدواج بخشیں گے لیکن مصلحتِ خداوندی اس میں نہ تھی۔ چنانچہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے نکاح ثانی کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " معاویہ مفلس ہے، ابو جہم سخت مزاج ہے، تم اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نکاح کرلو"۔
    حضرت فاطمہ کچھ متامّل ہوئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہیں کیوں عُذر ہے۔ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو۔ اسی میں تمہاری بھلائی ہے"۔
    اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکاح کر لیا۔ وہ بڑے جلیل القدر صحابی تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اس قدر عزیز رکھتے تھے کہ وہ حِبّ النّبی ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب) کے لقب سے مشہور ہو گئے تھے۔ صحیح مسلم میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نکاح کے بعد میں لوگوں میں قابلِ رشک بن گئی۔
    سنہ 24 ہجری میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے شہادت پائی تو مجلس شوریٰ کے اجتماع حضرت فاطمہ بنتِ قیس کے مکان ہی میں ہوتے تھے چونکہ وہ نہایت زیرک، معاملہ فہم اور صائب الرائے خاتون تھیں، اسلیے مجلس شوریٰ کے اراکین ان سے مزورہ کرنا بھی مناسب سمجھتے تھے۔
    سنہ 54 ہجری میں حضرت اسامہ بن زید نے وفات پائی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو سخت صدمہ پہنچا اور انہوں نے اسکے بعد تا زندگی دوسرا نکاح نہیں کیا اور اپنے بھائی ضحاک بن قیس کے پاس رہنے لگیں۔ یزید ب معاویہ نے جب انہیں عراق کا گورنر مقرر کیا تو انکے پاس کوفہ چلی گئیں اور وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
    صحیح مسلم میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے متعلق ایک خاص واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ مروان بن الحکم کے عہد حکومت میں حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کو ان کے شوہر عبداللہ بن عمرو بن عثمان نے طلاق دے دی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رشتے میں انکی خالہ ہوتی تھیں، اسلیے انہوں نے بہ تقاضائے ہمدردی ان کو کہلا بھیجا کہ تم میرے گھر آجاؤ، مروان کو اسکا علم ہوا تو اس نے قبیصہ کو ان کے پاس بھیجا اور دریافت کیا کہ آپ ایک مطلقہ خاتون کو اسکی عدّت کا زمانہ پورا ہونے سے پہلے کیوں گھر سے نکالتی ہیں؟
    حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مجھے ایّام عدّت میں اپنے عمّ ابنِ امّ مکتوم رضی اللہ عنہ کے پاس گزارنے کی اجازت دی تھی، اسلیے میں نے بھی اپنی بھانجی کو عدّت پوری ہونے سے پہلے بلا بھیجا ہے۔ مروان نے انکی بات کو کوئی وقعت نہیں دی اور مطلقہ خاتون کو اپنے گھر میں ہی عدّت گزارنے کا حکم دیا۔
    علامہ سیّد سلیمان ندوی نے "سیرت عائشہ رضی اللہ عنہا" میں اس واقعہ کے بارے میں لکھا ہے کہ " اسلام میں حکم ہے کہ مطلّقہ عورتیں عدّت کے دن اپنے شوہر ہی کے گھر میں گزاریں اور اس حکم کے خلاف صرف ایک فاطمہ بنتِ قیس رضی اللہ عنہا کی شہادت ہے کہ ان کے شوہر نے ان کو طلاق دے دی اور وہ آنحضرت صلی اللہہ علیہ وسلم کے ارشاد سے اپنے شوہر کا گھر چھوڑ کر دوسرے گھر میں جا کر رہیں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا اس واقعے کو بیان کر کے اجازتِ انتقال مکان پر استدلال کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے عہد میں اسی واقعہ کی سند سے ایک معزّز باپ نے اپنی مطلّقہ بہٹی کو شوہر کے یہاں سے بلوا لیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس عام حکمِ اسلامی کی مخالفت پر سخت اعتراض کیا۔ مروان اس زمانے میں مدینہ کا گورنرتھا، اسکو کہلا بھیجا کہ تم سرکاری حیثیت سے اس معاملے میں دخل دو اور نفسِ مسئلہ کی نسبت فرمایا کہ اس واقعے سے عام استدلال جائز نہیں۔ واقعہ یہ تھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے شوہر کا گھر شہر کے کنارے پر تھا اور رات کو جانوروں کا خوف رہتا تھا۔اس بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دی تھی۔( بحوالہ صحیح بخاری باب قصہ فاطمہ بنتِ قیس رضی اللہ عنہا)۔
    اہل سیئر نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سال وفات کی صراحت نہیں کی البتہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی خلافت مکہ کے زمانے تک زندہ تھیں۔
    اربابِ سیئر نے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ بنتِ قیس رضی اللہ عنہا صورت اور سیرت ہر لحاظ سے ہمہ صفت موصوف تھیں اور نہایت دانا، ذی علم اور باکمال خاتون تھیں۔ مہمانوں کی تواضع کرنے میں ان کو دلی راحت ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ انکے شاگرد شعبّی حاضر خدمت ہوئے تو انہوں نے چھوہاروں اور ستّوؤں سے انکی تواضع کی۔
    حضرت فاطمہ بنتِ قیس رضی اللہ عنہا سے چونتیس احادیث مروی ہیں، ان کے راویانِ حدیث میں حضرت قاسم بن محمّد، ابو سلمہ، سعید بن مسیّب، عروہ بن زبیر، سلمان بن یسار اور شعبی جیسے اکابر تابعین شامل ہیں۔
    صحیح مسلم اور ابو داؤد کی ایک حدیث جو علماء میں "حدیثِ جسّاسہ" کے نام سے شہرت رکھتی ہے، حضرت فاطمہ بنتِ قیس رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے۔ وہ کہتی ہیں۔
    " ایک مرتبہ میں مسجد نبوی میں گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور حسب عادت مسکرا کر فرمایا کہ سب لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، " جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کیوں جمع کیا۔" صحابہ نے عرض کیا؛ اللہ اور اسکا رسول بہتر جانتے ہیں۔ ارشاد ہوا کہ میں نے کسی ترغیب و ترہیب کیلیے تمہیں جمع نہیں کیا بلکہ ایک واقعہ سنانے کیلیے جمع کیا ہے جو تمیم داری نے بیان کیا ہے۔ وہ پہلے عیسائی تھے، اللہ نے انہیں اسلام سے سرفراز کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے جہاز میں سوار ہو کر سمندر کا سفر اختیار کیا، میرے ساتھ قبیلہ جذام اور لخم کے تیس آدمی بھی تھے۔ اثنائے سفر میں طوفان آگیا اور جہاز ایک ماہ تک سمندری لہروں میں ادھر ادھر بھٹکتا رہا۔ آخر ایک جزیرے کے ساحل کے ساتھ جا لگا۔ ہم جزیرے میں اترے تو عجیب ہیئت کی ایک عورت ملی جس کے بہت لمبے لمبے بال تھے۔ ہم نے اس سے پوچھا، تو کون ہے، اس نے کہا، میں جسّاسہ یعنی مخبر ہوں جو دجّال کو خبریں پہنچاتی ہوں، تم لوگ سامنے والے دیر میں جاؤ، وہاں دجّال کو دیکھو گے، ہم اس دیر میں پہنچے تو وہاں ایک غیر معمولی قدوقامت کا آدمی دیکھا جو زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ ہم نے اس کوہ پیکر آدمی سے پوچھا، تم کون ہو؟ اس نے کہا، پہلے تم بتاؤ کہ تم کون ہو اور یہاں کیسے پہنچے؟
    ہم: ہم عرب کے رہنے والے ہیں، ہمارا جہاز سمندری طوفان میں پھنس گیا اور لہروں نے اسے اس جزیرہ کے قریب لا پھینکا، ایک عجیب الہیئت جساسہ نے ہمیں تیری طرف بھیج دیا۔
    وہ: اچھا تو یہ بتاؤ کہ نخلستان بیسان میں پھل آتا ہے یا نہیں؟
    ہم: بیسان کے نخلستان میں برابر پھل آ رہا ہے۔
    وہ: یاد رکھو وہ وقت آنے والا ہے جب بیسان میں کھجور کے درخت پھل نہیں دیں گے۔ اچھا یہ بتاؤ بحیرہ طبریہ میں پانی موجود ہے یا خشک ہو چکا؟
    ہم: اس میں تو پانی با افراط موجود ہے۔
    وہ: وہ وقت آنے والا ہے کہ اسکا پانی خشک ہو جائیگا۔ یہ بتاؤ کہ کیا چشمہ زغر میں پانی آرہا ہے اور لوگ اس سے اپنے کھیت سیراب کر رہے ہیں؟
    وہ: اچھا یہ بتاؤ کہ امّیوں کے نبی نے ظاہر ہو کر کیا کیا ہے؟
    ہم: وہ اپنی قوم پر غالب آئے اور لوگوں نے انکی اطاعت قبول کرلی ہے۔
    وہ: ہاں انکے لیے اطاعت ہی بہتر تھی۔ اب میری نسبت بھی سن لو کہ میں مسیح (دجّال) ہوں۔ مجھے عنقریب یہاں سے نکلنے کی اجازت ملے گی، میں روئے زمین میں گھوم جاؤنگا اور دنیا میں کوئی مقام ایسا نہ ہوگا جہاں میں چالیس دن کی مدت میں نہ پہنچ جاؤں۔ البتہ مکہ اور طیبہ دو شہروں میں مجھے داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ جب میں ان شہروں میں داخل ہونے کی کوشش کروں گا تو ایک شمشیر بدست فرشتہ مجھے اس سے روک دے گا۔ یہ واقعہ بیان فرما کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عصائے مبارک تین بار منبر پر مارا اور فرمایا یہی طیبہ ہے، یہی طیبہ ہے، یہی طیبہ ہے۔ (یعنی مدینہ منوّرہ)۔"
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    (1)اس واقعے نے تاریخ میں بڑی شہرت پائی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ابو عمرع بن حفص رضی اللہ عنہ روانگی سے کچھ عرصہ پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دو طلاقیں دے چکے تھے۔ آخری طلاق حضرت عیاش میں ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ کے ذریعے روانگی کے وقت دی اور بطور نفقہ 5 صاع جو اور 5 صاع خرمے بھیجے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عیاش سے کھانے اور مکان کا مطالبہ کیا تو انہوں نے کہا: ابو عمرو بن حفص نے صرف یہ جو اور خرمے دیے ہیں، ان کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں، جو کچھ دیا گیا ہے یہ بھی محض احسان اور ہمدردی ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس پر غصہ آگیا اور وہ اپنے کپڑے وغیرہ لے کر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئیں اور سارا واقعہ بیان کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "تم کو ابو عمرو نے کتنی مرتبہ طلاق دی"۔ عرض کیا: تین بار۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اب تمہارا نان نفقہ ابو عمرو پر واجب نہیں ہے"۔
    جمہور فقہاء کا فیصلہ ہے کہ عدت کے زمانے میں عورت کا نان نفقہ طلاق دینے والے مرد کے ذمّے ہے۔ چنانچہ اس روایت کی تشریح و تعبیر کے سلسلے میں کتبِ فقہ میں طویل مباحث ملتے ہیں۔


    رضی اللہ تعالیٰ عنہا
     
  2. Bilal-Madni

    Bilal-Madni -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 14, 2010
    پیغامات:
    2,469
    جزک اللہ خیرا
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں