شروحات بخاری کا بیان از محدث نور پوری رحمہ اللہ

آزاد نے 'حدیث - شریعت کا دوسرا اہم ستون' میں ‏مارچ 11, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. آزاد

    آزاد ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 21, 2007
    پیغامات:
    4,558
    شروحات بخاری:

    جامع بخاری کی علماء نے بہت سی شرحیں لکھی ہیں۔ کشف الظنون میں ان کی تفصیل موجود ہے۔ مقدمہ تحفۃ الاحوذی میں بخاری کی چند شرحوں کا تعارف کروایا گیا ہے۔
    بیان کیا جاتا ہے کہ بخاری کی پچاس سے زائد شرحیں ہیں۔ اور یہ بات بھی مشہور ہے کہ حنفی علماء کرام کی تصنیف کردہ بخاری کی جتنی شرحیں ہیں، ان تمام سے اعلیٰ ترین عمدۃ القاری ہے۔ اور شافعی علماء کرام کی شروحات بخاری سے اعلیٰ ترین فتح الباری ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ بخاری کی جتنی بھی شرحیں ہیں، ان میں سے اعلیٰ ترین عمدۃ القاری اور فتح الباری ہیں تو یہ کہنا بےجا نہ ہوگا۔ پھر ان دونوں میں سے فتح الباری عمدہ اور اعلیٰ شرح ہے۔ اس طرح تمام شروحات بخاری سے اعلیٰ اور عمدہ ترین شرح فتح الباری ہوئی۔ اور یہ بھی مشہور ہے کہ عمدۃ القاری خود فتح الباری سے ہی ماخوذ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ فتح الباری کے مؤلف حافظ ابن حجر اور عمدۃ القاری کے مؤلف مولانا بدر الدین عینی دونوں آپس میں رشتہ دار تھے۔ تو فتح الباری کے اجزاء کسی طرح علامہ عینی کو حاصل ہوجاتے تھے۔ تو وہ ان سے مواد لے کر اپنی شرح کی زینت بنا لیتے تھے۔ چنانچہ عمدۃ القاری کی عبارات اور الفاظ اس بات کا شاہد عدل ہیں کہ کئی ایک مقامات پر عمدۃ القاری میں من وعن عبارت وہ درج ہوتی ہے جو فتح الباری میں ہے۔ پھر عمدۃ القاری کے اندر جو اعرابی ، معانی اور لغوی مباحث ہیں، وہ صرف ابتدائی اجزاء میں ہیں۔ بعد میں ان کا نام ونشان بھی نہیں ملتا۔ مولانا انور شاہ صاحب نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ فتح الباری عمدۃ القاری سے عمدہ اور اعلیٰ شرح ہے۔ اور مرادی معنیٰ بیان کرنے میں فتح الباری عمدۃ القاری سے بلند پایہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان دو شرحوں کے بعد جتنی بھی شرحیں لکھی گئیں، وہ سب ان دو شرحوں سے ماخوذ ہیں۔ مولانا کی اس بات سے یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں رہا کہ فتح الباری کے بعد عمدۃ القاری سمیت جتنی شرحیں لکھی گئیں، وہ سب فتح الباری سے ماخوذ ہیں۔ ہاں علامہ عینی نے چند ایک مقامات پر فتح الباری پر اعتراضات کیے ہیں۔ جب حافظ ابن حجر کو پتہ چلا تو حافظ ابن حجر نے علامہ عینی کے اعتراضات جمع کیے۔ جمع کے بعد جو اعتراضات دقیق اور مشکل تھے، ان کے جوابات دے دیے، اور جن اعتراضات کا جواب بالکل واضح تھا، ان کا جواب نہیں دیا، بلکہ اعتراض کے بعد جگہ خالی چھوڑ دی۔ حافظ ابن حجر نے اپنی اس کتاب کا نام انتقاض الاعتراض رکھا ہے۔ آج کل وہ چھپ چکی ہے۔
    مولانا انور شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ انتقاض الاعتراض میں علامہ عینی کے اعتراضات نقل کیے لیکن کئی ایک کا جواب نہیں دیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اعتراض سن کر متحیر ہوگئے۔
    مگر ان کی یہ بات غلط ہے کیونکہ حافظ ابن حجر خود تحریر کرچکے ہیں کہ ’’[font="al_mushaf"]وترکت البیاض لظہور الجواب۔
    ‘‘ اس وجہ سے ان کو متحیر بنانا ناانصافی ہے۔ تو مجموعی لحاظ سے فتح الباری بخاری کی اعلیٰ ترین شرح ہے۔
    فتح الباری کی خوبی یہ ہے کہ ضرورت سے زائد بات نہیں کرتے کہ خوامخواہ بات کو کھینچتے چلے جائیں۔
    محدث وفقیہ بنانے والی چار کتب:​

    ہمارے شیخ حافظ محمد صاحب محدث گوندلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آدمی چار کتب ازبر کرلینے سے اعلیٰ درجے کا محدث وفقیہ بن جاتا ہے۔ وہ چار کتابیں: فتح الباری ، نیل الاوطار، زاد المعاد اور محلی ابن حزم ہیں۔
    بیان کرتے ہیں کہ امام شوکانی سے کسی نے سوال کیا کہ بخاری کی شرح لکھیں۔ تو انہوں نے جواب دیا: ’’[font="al_mushaf"]لا ہجرۃ بعد الفتح[/font]۔‘‘ جیسے فتح مکہ کے بعد کوئی ہجرت نہیں، اس طرح فتح الباری کے بعد کسی شرح کی ضرورت نہیں۔
    مرآۃ البخاری از محدث نور پوری رحمہ اللہ
    ص: 160 تا 162
    کمپوزنگ: آزاد​
    [/FONT]
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں