معرکۂ عظیم از رضی الدین سیّد

ابو عبیدہ نے 'نقطۂ نظر' میں ‏مارچ 13, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001


    ’’آرمیگاڈون ‘‘کی تیاریاں عروج پر​


    آج کل مغرب خصوصاً امریکہ میں آرمیگاڈون (Armegaddon) کا نظریہ بہت مقبول ہو رہا ہے، بلکہ اب اس کی مقبولیت نظرئیے سے بڑھ کر ایک تحریک کی سی ہو گئی ہے۔ عیسائیوں کے نزدیک یہ ایک مقدس جنگ ہے جس کی کمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود کریں گے۔ ان کے مطابق اس جنگ میں کم از کم تین ارب انسان ختم ہو جائیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ خیر اور شر کے درمیان یہ خوفناک جنگ فلسطین کے علاقے میں واقع ہو گی۔ ان کے پادری کہتے ہیں کہ خدا کی ہدایت کے مطابق ہمیں اس دنیا کو کلی طور پر ختم کر دینا چاہئے، ان کا عقیدہ ہے کہ یہ جنگ بت پرستوں اور حق پرستوں یعنی عیسائیوں کے درمیان واقع ہو گی۔ واضح رہے کہ بت پرستوں سے عیسائی مبلغین کی مراد مسلمان اور یہودی دونوں ہیں۔ اس ضمن میں امریکا کے سابق صدر ریگن کے الفاظ قابل غور ہیں۔ انہوں نے ایک چرچ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’کم سے کم بیس کروڑ سپاہی مشرق یعنی مسلم ممالک سے آئیں گے جب کہ کروڑوں سپاہی مغربی طاقتوں کے ہوں گے، سلطنت روماکی تجدید و قیام کے بعد پھر عیسیٰ مسیح ؑان مشرقی افواج پر حملہ کریں گے، جنہوں نے ان کے یروشلم کو غارت کر دیا ہے‘‘۔ (ہال لینڈ سے کتاب دی لیٹ گریٹ پلینٹ ارتھ) وہ کہتے ہیں کہ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ یروشلم سے دو سو میل تک اتنا خون بہے گا کہ وہ زمین سے گھوڑوں کی باگ کی بلندی تک پہنچ جائے گا اور یہ ساری وادی انسانوں اور جانوروں کے خون سے بھر جائے گی۔‘‘ (ہال سیل۔ کتاب خوفناک جدید صلیبی جنگ)۔
     
  2. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001

    صدر ریگن گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اگرچہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی، لیکن اس دن خدا انسانی فطرت کو یہ اجازت دے دے گا کہ وہ اپنے آپ کو پوری طرح ظاہر کر دے۔ دنیا کے سارے شہر لندن، پیرس، ٹوکیو، نیویارک اور شکاگو وغیرہ سب کے سب اس دن صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہو جائیں گے۔‘‘ (ایضاً)۔ امریکا کے ایک اور صدر جمی کارٹر آرمیگاڈون کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اسرائیل کا قیام، بائبل کی پیشین گوئی کی تکمیل اور بائبل کے بیان کا حاصل ہے۔‘‘ (ایضاً: صفحہ۶۹) ایک عیسائی بنیاد پرست اوول کہتا ہے کہ ’’کٹر یہودی مسجد اقصیٰ کو بم سے اڑا دیں گے جس سے مسلم دنیا بھڑک اٹھے گی، یہ اسرائیل کے ساتھ ایک مقدس جنگ ہو گی اور اس کے نتیجے میں مسیح علیہ السلام مجبورہو جائیں گے کہ درمیان میں مداخلت کریں۔‘‘ (ایضاً ص:۷۵)۔ ایک اور بڑا مبلغ ڈیلوک علی الاعلان کہتا ہے کہ ’’اسرائیل اپنے ہمسائے کے خلاف جنگ کرتے ہوئے خدا کی رضا پوری کر رہا ہے۔‘‘(ایضاً:صفحہ۸۰)۔

    1990ء میں جب خلیج کی جنگ جاری تھی اور حالیہ عراق جنگ میں بھی عالمی ذرائع ابلاغ سے آرمیگاڈون کا ذکر بڑے زور و شور سے ہو رہا تھا، امریکا کے سب سے زیادہ سنے جانے والے مبلغ جیری فال ویل اعلانیہ کہتے ہیں کہ آخری جنگ ایک خوفناک حقیقت ہے اور ہم سب آخری نسل کا حصہ ہیں۔ فال ویل کہتے ہیں کہ ایک آخری جھڑپ ہو گی اور پھر خدا تعالیٰ اس کرئہ ارض کو ٹھکانے لگا دے گا۔ (ایضاً صفحہ:۸)۔

    فال ویل کے ساتھ ایک اور بنیاد پرست مبلغ Lindsey کہتا ہے کہ ’’اس وقت ایک درجن ممالک کے پاس ایٹمی اسلحے موجود ہیں، چنانچہ ہم یقینی طور پردنیا کو ختم کر سکتے ہیں۔‘‘ (ایضاً۔ صفحہ۷)۔آخری جنگ عظیم کے نظرئیے پر کاربند مقبول عام پادری نہ صرف بڑے بڑے ہجوموں کو متاثر کرتے ہیں بلکہ بہت دولت بھی کماتے ہیں۔ ایک پادری اوول نے اپنے سننے والوں سے اسی لاکھ ڈالر طلب کئے تو وہ رقم انہیں اسی وقت فراہم کر دی گئی۔
     
  3. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001

    آرمیگاڈون کی جنگ کے موضوع پر اس وقت لاکھوں نہیں کروڑوںکے حساب سے کتابیں فروخت ہو رہی ہیں۔ ’’آنجہانی کرئہ ارض‘‘ (The Late Great Plannet) نامی کتاب مصنفہ ’’ہال لینڈسے‘‘ کی اب تک دو کروڑ پچاس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ ایک اور بڑے مصنف Tim Lahaye کی کتاب کی تیس لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ ایک ہفت روزہ اخبار کے ایڈیٹر نے بتایا کہ ان کتابوں کی مقبولیت سے اندازہ ہو تا ہے کہ وہ مسیحیوں سے نکل کر سیکولر افراد میں بھی پہنچ گئی ہیں۔ اس نے لکھا ہے کہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتابیں ہمارے کلچر پر بھی حاوی ہو گئی ہیں۔

    امریکہ کی نامور مصنفہ گریس ہالسیلز نے ایک بار ایک ممتاز مذہبی اسکالر ’’براڈ‘‘ سے دریافت کیا کہ کیا یہ جنگ عظیم فلسطین میں ہو گی؟ تو انہوں نے جواب دیا، ہاں یہیں ہو گی۔ جب مصنفہ نے مزید سوال کیا کہ آرمیگاڈون کی فتح کے بعد کیا ہو گا؟ تو براڈ نے جواب دیا ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے اور بادشاہ دائود علیہ السلام کے تخت پر بیٹھ کر حکومت کریں گے۔‘‘ (ایضاً صفحہ:۵۴) اس نے سوال کیا کہ کیا یہودی عبادت گاہ (ہیکل) میں؟ (واضح رہے کہ یہودیوں کے نزدیک حضرت دائود علیہ السلام ہیکل میں بیٹھ کر عبادت کیا کرتے تھے)۔ براڈ نے جواب دیا کہ ہاں وہ بادشاہ دائود کے تخت پر بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت کریں گے۔ (ایضاً صفحہ۵۴)۔ ایک امریکی بنیاد پرست پادری نے کسی سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’میں بائبل کا عالم ہوں اور علوم دینی کا ماہر۔ میری اپنی بصیرت کے مطابق خدا کا قانون امریکی حکومت اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے قانون سے بالاتر ہے۔‘‘ (ایضاً صفحہ۱۰۲)۔

    ایک اور نمایاں عیسائی مذہبی مبلغ Cloyd تبلیغ کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ پہلا وار حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود کریں گے۔ وہ ایک نیا ہتھیار استعمال کریں گے جس کے وہی اثرات ہوں گے جو نیوٹرون بم کے ہوتے ہیں۔ لوگ اپنے قدموں پر کھڑے رہیں گے لیکن ان کا سارا گوشت گل چکا ہو گا، ان کی آنکھیں اپنے خولوں میں ختم ہو چکی ہوں گی اور زبانیں منہ کے اندر گل چکیں ہوں گی۔ وہ کہتے ہیں کہ تم انہیں محض ایک مذہبی رہنما نہ سمجھو بلکہ وہ ایک فائیو اسٹار جنرل ہوں گے۔ (ایضاً صفحہ۲۵)۔

    اس وقت سارے امریکہ میں بنیاد پرستی کو فروغ دیا جا رہا ہے اور حکومت امریکا اس میں خود پیش پیش ہے، جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا کہ بنیاد پرست عیسائی مبلغین کو نہ صرف عام افراد پوری توجہ سے سنتے ہیں بلکہ امریکہ صدر بھی ان کی باتوں پر مِن و عَن ایمان لاتے ہیں۔ انہیں ان کی طلب کے مطابق بھاری عطیات بھی فوری طور پر دئیے جاتے ہیں، دوسری طرف بنیاد پرستی اور جنگی جنون کے نظرئیے پر مبنی کتابیں بھی لاکھوں، کروڑوں کی تعداد میں فروخت ہو رہی ہیں۔
     
  4. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001

    اب ایک طرف تو آرمیگاڈون کو آگے بڑھانے اور اس کی تیاری کے لئے یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف پوری اسلامی دنیا میں بنیاد پرستی کو ایک گناہ اور گھنائونا جرم بنا کر اسے جڑ سے نکالا جا رہا ہے۔ علماء اور تحریکی افراد کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال مسلم دنیا کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔

    واضح رہے کہ آرمیگاڈون جیسی خوفناک خونی جنگوں سے بچنے کے لئے عیسائی مبلغین نے ایک نیا عقیدہ اپنے عوام کو دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس جنگ کے وقوع سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر آکر تمام عیسائیوں کو بادلوں پر بلا لیں گے اور وہاں انہیں نجات عطا کریں گے۔ عیسائی اس عقیدے کو Rapture یعنی فضائی نجات کہہ کر پکارتے ہیں، ان کو یقین ہے کہ اس ایٹمی و جراثیمی جنگ میں نزول مسیح ہو گا اور ایمان والے عیسائی ان کے ساتھ بادلوں میں اوپر چلے جائیں گے۔ اس کے بعد دنیا سے بت پرستوں اور مشرکوںکا خاتمہ ہو جائے گا۔ اور اوپر آسمان سے وہ خیر و شر کا آخری معرکہ دیکھیں گے۔ واضح رہے کہ آج کی مسیحی دنیا میں تیزی سے پھیلنے والی تحریک یہی ہے۔ (ایضاً صفحہ ۳۷)۔

    ان کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک بار پھر اپنے ماننے والوں کو لینے کے لئے زمین پر آئیں گے اور اس کے بعد وہ آخری جنگ عظیم لڑنے کے لئے دوبارہ فلسطین (یروشلم)میں آئیں گے۔ (ایضاً صفحہ:۴۲)۔ ایک ممتاز دانشور کارل ملین ٹائر لکھتا ہے کہ ’’خدا کا شکر ہے کہ میں جنت کی بلند و بالا نشست سے آرمیگاڈون کی جنگ کا منظر دیکھوں گا۔‘‘ (ایک ممتاز ایونجلسٹ کارل میلنٹائر۔ جدید صلیبی جنگ۔ گریس ہالسیل صفحہ ۴۲)۔

    عیسائیوں کے یہ عقائد و خیالات جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ نہیں ہیں، لیکن اوپر سے لے کر نیچے تک وہ سب کے سب اس میں مگن ہیں بلکہ وہ ان کو حقیقت بنانے کے لئے انتھک محنت کر رہے ہیں۔ ان کی نظر میں ہر آنے والا دن عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کا دن ہے۔ دوسری طرف جب نظر مسلمانوں کے حالات پر جاتی ہے تو دل خوف سے بیٹھ جاتا ہے۔ پوری مسلم دنیا پر بے حسی طاری ہے۔ کسی کو خبر ہی نہیں ہے کہ کتنے خوفناک لمحات ان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان کی بودوباش، چلنا پھرنا، گفت و شنید، شب و روز کی سرگرمیاں اور شادی و بیاہ کی تقریبات سب کی سب یہی کہہ رہی ہیں کہ انہیں اپنے ذبح کئے جانے کا احساس بھی نہیں ہے۔ حالانکہ ہر طرف ’’ہماری بربادیوں کے مشورے ہیں‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا میں کسی کو بھی خوفناک آرمیگاڈون کی آمد کی کوئی فکر نہیں ہے۔

     
  5. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001


    یہودیو! ہمارا فلسطین چھوڑ دو​

    یہودیوں سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ ہماری ارض مقدس فلسطین سے نکل جائیں۔ یہ سرزمین ہماری ہے۔ اس پر ان کا کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ بیت المقدس کو سب سے پہلے حضرت سلیمان u نے تعمیر کیا تھا جو ایک سچے اور مسلمان نبی تھے۔ اس کے بعد اسے حضرت عمر فاروق t نے اپنے دور خلافت میں ۶۳۸ عیسوی میں عیسائیوں سے حاصل کیا اور پھر وہاں مسلمان رہنے بسنے لگے۔ نو سو سال قبل ۱۱۸۷ء میں مسلمانوں کے عظیم اور دلیر سپہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے ایک بار پھر عیسائی سپہ سالار رچرڈ سے حاصل کیا۔ اس سرزمین مقدس پر مسلمان حضرت عمر فاروق tؓ کے دور ہی سے رہتے چلے آرہے تھے جسے آج ۱۴۰۰ سال سے زائد عرصہ گزر گیا ہے۔ اس عرصے میں یہودی اس سرزمین پر کبھی موجود نہیں رہے۔ وہ مصر سے نکلنے کے بعد سزا کے طور پر ساری دنیا میں پھیلا دیئے گئے تھے۔ اب سے چار ہزار سال پہلے حضرت موسیٰ u کے زمانے میں البتہ وہ چالیس سال کے لئے یہاں رہے بسے تھے لیکن مسلمانوں کے مقابلے میں ان کا عرصہ رہائش نہ ہونے کے برابر ہے چنانچہ فلسطین پر ان کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ وہ تو یوں بھی اللہ تعالیٰ کی پھٹکاری ہوئی قوم ہے۔ یہ بات صرف قرآن مجید ہی میں نہیں بلکہ عیسائیوں اور یہودیوں کی اپنی کتابوں انجیل اور توریت میں بھی موجود ہے۔ انہوں نے اللہ کے ساتھ دھوکے بازی کی اس کا تمسخر اڑایا، اسے اپنے آپ سے چھوٹا قرار دیا، انہوں نے اس کے بھیجے ہوئے نبیوں کے ساتھ فریب کا سلوک کیا، انہیں قتل کیا، کنویں میں لٹکایا، پتھر مارے اور صلیب پر چڑھایا۔
     
  6. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001

    اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر پے در پے عذاب بھیجے۔ کبھی پسوؤں کا، کبھی مینڈکوں کا، کبھی خون کا اور کبھی بندر کی شکل میں تبدیل ہوجانے کا۔ آج بھی یہودی قوم سرزمین فلسطین پر قبضہ کرنے کے باوجود عذاب سے دوچار ہیں۔ پوری طرح زرہ و بکتر میں ڈوبی ہوئی اس قوم پر ننھے معصوم فلسطینی اور نوجوان عرب مسلمان سنگ باری کررہے ہیں اور خودکش حملے کر کے انہیں زندگی سے ہاتھ دھونے پر مجبور کررہے ہیں۔ یہودیوں کی زندگی کی آج کوئی ضمانت نہیں ہے۔ ان کی جان، مال، آبرو سب کچھ خطرے سے دوچار ہے۔ وہ جہاں جاتے ہیں، ذلت ان کا پیچھا کرتی ہے۔ ان کے ’’وطن‘‘ کا کوئی گوشہ اور کوئی کونہ محفوظ نہیں ہے۔ وہ آج سے چار ہزار سال قبل بھی غیر محفوظ تھے اور آج چار ہزار سال کے بعد بھی غیر محفوظ ہیں۔ موت کے خوف سے ان کی آنکھیں ابل پڑی ہیں اور چہرے زرد پڑ گئے ہیں۔ فلسطینی نوجوانوں کے خودکش حملوں نے جن میں کبھی چھ چھ اور کبھی بیس بیس یہودی جانیں ایک ساتھ جہنم رسید ہوتی ہیں، ان کی زندگی کو دردناک بنا دیا ہے۔ ان کی سیاحت، معیشت اور روزمرہ کے کاروبار سخت انجام سے دوچار ہیں۔

    پہلے وہ اپنے مقدس وطن کی طرف دنیا بھر سے اُڑ اُڑ کر پہنچتے تھے لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ اب وہ دوبارہ اپنے اصل ممالک کی طرف لوٹ رہے ہیں۔وہ فلسطین خالی کررہے ہیں۔ ان کے اعصاب پر بیماریاں سوار ہیں ان کے دن کا چین اور راتوں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔ حماس کے سربراہ شیخ یاسین (مرحوم) نے جو ایک معذور شخص تھے اور وہیل چیئر پر بیٹھ کر اتنی عظیم الشان تحریک چلا رہے تھے ، اعلان کیا تھا کہ وہ خودکش حملے کبھی بند نہیں کریں گے۔ سڑکوںپر، بازاروں میں، نائٹ کلبوں میں اور بس اسٹاپوں پر وہ یہ حملے کرتے رہیں گے۔ انہوں نے یہودیوں کو تنبیہ کی تھی کہ صیہونی اگر اپنی زندگی چاہتے ہیں تو فلسطین سے نکل جائیں ورنہ وہ اسی طرح سسک کر مارے جائیں گے
     
  7. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001

    دنیا کی یہ واحد ریاست ہے جو دہشت گردی اور بدمعاشی کی بنیاد پر وجود میں آئی ہے۔ کل بھی اسکا فلسفہ یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ یہودی قائدین چاہے سول ہوں یا فوجی، ایہود بارک ہو یا ایریل شیرون، یہ سب دہشت گردی کی یکساں سوچ رکھتے ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جسے دنیا کی ہر قوم نے تباہ کیا ہے۔ ۵۸۶ قبل مسیح میں شاہ بابل نے اپنی پوری طاقت سے اس کی سرزمین پر قبضہ کیا اور یروشلم میں ان کے عبادت خانے کو تباہ کردیا۔ ۷۰ء میں رومی بادشاہ Titus نے بھی یروشلم پر حملہ کر کے انہیں بالکل تباہ و برباد کردیا۔ ۱۳۵ء میں رومی عیسائیوں بادشاہ ہیڈ ریان نے بیت المقدس کو ایک بار پھر تباہ و برباد کیا اور سارے یہودی قید کرلئے۔ ہٹلر نے بھی پہلی جنگ عظیم میں ان پر دردناک ظلم توڑے۔ اس سے قبل ۴۷۲ قبل مسیح میں بھی یونانی بادشاہ انہولینس نے بیت المقدس پر حملہ کر کے نوتعمیر ہیکل سلیمانی کا ایک بار پھر نام و نشان مٹا دیاتھا اور اسے بت خانے میں تبدیل کردیاتھا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاعراف آیت نمبر ۱۶۷ میں پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ ’’وہ قیامت تک ایسے لوگ بنی اسرائیل پر مسلط کرتا رہے گا جو انہیں بدترین عذاب دیں گے۔‘‘

    چنانچہ یہ قوم تو اپنے کرتوتوں کی بنیاد پر ہمیشہ ساری قوموں کی ٹھوکروں پر پڑی رہی۔ یہ صرف مسلمان ہی تھے جنہوں نے اسے تحفظ اور امان دیا۔ اس کے باوجود ان کی ریشہ دوانیاں اور سازشیں جاری رہیں۔ انہوں نے اپنے عبرتناک انجام سے کبھی سبق نہ سیکھا۔ اب اس دور میں نہتے معصوم فلسطینی ان کے لئے طیطوس، ہٹلر اور ہیڈریان ثابت ہو رہے ہیں۔

    یہودیوں کو ہم بتانا چاہتے ہیں کہ تم وہ قوم ہو کہ محض امریکہ کی سرپرستی سے تمہارا وجود قائم ہے ورنہ دنیا کی ہر قوم تم سے نفرت کرتی ہے۔ چند سال قبل افریقہ کے شہر ڈربن میں ہونے والی ایک کانفرنس میں تمہارے ملک کو ’’نسل پرست‘‘ اور ’’نفرت انگیز ریاست‘‘کے خطاب سے نوازا گیا۔ (روزنامہ نوائے وقت کراچی:(4-9-01 عظیم عربی مسلمان مفکر ڈاکٹر سفر عبدالرحمان الحوالی نے تو تمہاری موجودہ ذلت و تباہی کی ایک تاریخ تک متعین کردی ہے۔ انہوں نے انجیل اور توریت کی بے شمار پیشن گوئیوں کو کھنگالنے کے بعد نتیجہ نکالا ہے کہ یہودی قوم ۲۰۱۲ء تک اسرائیل سے ذلت و رسوائی کے ساتھ نکال باہر کی جائے گی۔ (کتاب یوم الغضب۔ ترجمہ راقم صفحہ174) اس لئے یہودیو! تم کو ہمارا پیغام ہے کہ تم اپنے انجام کو سامنے رکھو اور اسرائیل سے بھاگ جاؤ۔ ورنہ مرتے مرتے تمہاری قلیل آبادی یونہی ختم ہو جائے گی۔
     
  8. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001

    اسرائیل اپنے محسنوں کو بھی نہیںبخشتا

    ظاہری طو رپر اسرائیل کی دہشت گردی ہمیں بس اتنی نظر آتی ہے کہ وہ فلسطینیوں پر تشدد کررہا ہے۔ ان کی جان، مال، آبرو اور زمین کسی چیز کی کوئی قدر و قیمت اسرائیل کے نزدیک باقی نہیں ہے۔ دوسری طرف آس پاس کے عرب ممالک بھی اس کی دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہیں۔ عرب ممالک میں کون سا ایسا ملک ہے جو اس کے ظلم و تشدد سے بچا ہوا ہے لیکن اسرائیل کی جارحیت کا یہ محض ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ وہ اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں خود برطانیہ، امریکہ اور اقوام متحدہ کے خلاف بھی جاری رکھتا ہے۔ قارئین کے لئے یہ شاید اچنبھے کی بات ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل اپنے ان محسن ممالک و اداروں پر بھی تشدد کرنے سے باز نہیں آتا۔ اسرائیل کی فطرت ہی میں محسن کشی داخل ہے۔ یہودیوں نے تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی سازشیں اور دغا بازی کی اور اپنے مہربان پیغمبروں پر بے پناہ تشدد کیا تو امریکہ، برطانیہ اور اقوام متحدہ آخر کیا شے ہیں؟ ذیل میں ہم وہ چند اہم تاریخی حقائق بیان کرتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ان ممالک کے خلاف اسرائیل نے کس کس طرح دہشت گردی کی؟
    برطانوی تسلط سے اسرائیل کو آزاد کرانے کی خاطر صیہونیوں نے خوفناک کارروائیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جس میں ایک کنگ ڈیوڈ ہوٹل پر ان کی بمباری تھی۔ ۱۹۴۶ء میں اس بمباری سے مجموعی طور پر ۹۳ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے برطانوی سپاہیوں اور افسران کو بھی جو اس ہوٹل میں مقیم تھے، بے رحمی کے ساتھ قتل کردیا تھا۔ ان بے رحم اور سخت دل یہودیوں کا ایک اور طریقہ واردات یہ بھی تھا کہ وہ برطانوی سپاہیوں کو اغوا کرلیتے اور انہیں آہستہ آہستہ سزا دیتے یہاں تک کہ وہ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ اس دہشتگردانہ کاروائی کا مقصد یہ تھا کہ برطانیہ جلد از جلد فلسطین سے نکل جائے۔
    ۱۹۵۴ء میں اسرائیلی حکومت نے امریکہ کے خلاف دہشت گردی کے لئے خفیہ آپریشن کیا جس کا نام اس نے ’’آپریشن سوزّنا‘‘ رکھا۔ اس کا منصوبہ تھا کہ آپریشن کے بعد ایسی جھوٹی گواہیاں سامنے لائی جائیں جن سے یہ محسوس ہو کہ یہ کارروائی مصریوں نے کی ہے تاکہ اس طرح امریکہ کا ٹکراؤ براہ راست مصر سے ہوجائے۔ یہودی ایجنٹوں نے قاہرہ اور اسکندریہ میں چند ڈاک خانے اور امریکی لائبریریاں دھماکے سے اڑادیں۔ تاہم ایک امریکی سینما گھر کو دھماکے سے اڑانے سے قبل ہی اسرائیلی ایجنٹ کے ہاتھوں وہ بم پھٹ گیا اس طرح سارا منصوبہ طشت از بام ہو گیا اور روبہ عمل آنے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔ اسرائیلی ایجنٹ پکڑا گیا اور اسی کے نتیجے میں اسرائیلی وزیر خارجہ پہناس لیون کو استعفیٰ دینا پڑا۔ بہت سے یہودی گرفتار ہوئے اور ان میں سے کچھ لوگوں کو پھانسی پر بھی لٹکایا گیا تھا۔
     
  9. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001

    ۱۹۶۷ء کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے امریکہ کے خلاف مزید ہولناک کارروائی کی۔ ۸ جون ۱۹۶۷ء کو اسرائیل نے امریکی بحری جہاز ’’یو ایس ایس لبرٹی‘‘ پر فائٹرز اور تارپیڈو کشتیاں استعمال کر کے حملہ کیا جس کے باعث ۳۴ امریکی ہلاک اور ۱۷۱ زخمی ہوئے۔ اسرائیلیوں نے سب سے پہلے لبرٹی کے ریڈیو ٹاور پر حملہ کیا تاکہ امریکہ کا چھٹا بحری بیڑا واقف نہ ہو سکے کہ !حملہ آور اسرائیل ہے۔ زندہ بچ رہنے والے امریکی سپاہیوں کو بھی، جو حفاظتی کشتیوں کے ذریعے فرار ہو رہے تھے، اسرائیل نے مشین گن چلا کر بھون دیا تاکہ دنیا کو اس حملے کا سراغ نہ مل سکے، تاہم کسی نہ کسی وجہ سے اس کا یہ منصوبہ بھی طشت از بام ہو گیا اور اسرائیل نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ یہ حادثہ شناخت کی غلطی کے باعث ہوا۔ اسرائیل نے کہا وہ یہ سمجھا تھا کہ یہ کوئی مصری بحری جہاز ہے جس پر جنگ کے دوران حملہ جائز ہے۔ تاہم امریکہ کے اس وقت کے وزیر مملکت ڈین رسک اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی ایڈمرل تھومس مورر نے واضح بیان دیا کہ یہ حملہ ہرگز اتفاقی نہیں تھا بلکہ اسرائیل نے جان بوجھ کر یو ایس ایس لبرٹی پر حملہ کیا تھا کیونکہ جہاز پر امریکی پرچم لہرا رہا تھا۔

    ایک امریکی یہودی جوناتھن پولارڈ نے امریکہ کے خلاف جاسوسی کی اور امریکہ کے ایٹمی راز سوویت یونین کو فراہم کئے۔ پولارڈ کی فراہم کردہ معلومات نے نہ صرف یہ کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی انٹیلی جنس کے کاموں کو برباد کیا بلکہ سوویت روس اور مشرقی بلاک میں بھی اسے نقصان پہنچایا۔ پولارڈ کی فراہم کردہ معلومات کے بعد کمیونسٹ دنیا میں امریکہ کے کئی وفادار ایجنٹوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ اسی طرح لاس اینجلس ٹائمز نے ۲۰ فروری ۱۹۹۷ء کی اشاعت میں اطلاع دی کہ ایک امریکی یہودی اے ٹیننے ہام نے اقرار کیا تھا کہ وہ اسرائیل کے لئے جاسوسی کرتا رہا ہے۔ ایرل شیرون نے ایک اخباری رپورٹر کو انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ہر بار جب ہم کچھ کارروائی کرتے ہیں تو تم بتاتے ہو کہ امریکہ یہ کردے گا اور امریکہ وہ کردے گا۔ میں تمہیں ایک بات بہت واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ اسرائیل پر امریکی دباؤ کی کبھی پرواہ نہ کرو۔ ہم یہودی امریکہ پر اپنا تسلط رکھتے ہیں اور امریکہ اسے جانتا بھی ہے۔ (روسی اخبار پراودا ۔ ۳ اکتوبر ۲۰۰۱ء)

    اسرائیلی دہشت گردی کی ایک اور مثال ۱۹۹۶ء میں ’’قانا‘‘ لبنان میں اقوام متحدہ کے مر کز پر بمباری تھی۔ یہ اقوام متحدہ کی جانب سے لبنانیوں کے لئے ایک پناہ گاہ تھی۔ ایک مشہور انگریز صحافی رابرٹ فِسک نے اس بمباری اور قتل عام کا نقشہ خود کھینچا ہے۔ ’’قانا، جنوبی لبنان میں معصوم افراد کی جو قربانی میں نے دیکھی وہ صابرہ اور شتیلا کے بعد کہیںنہیں دیکھی۔ لبنانی پناہ گزین مرد، عورتیں اور بچے ایک دوسرے پر ڈھیر کی صورت میں پڑے ہوئے تھے جن کے یا تو بازو و ٹانگیں غائب تھیں یا ان کے سرجدا ہوچکے تھے یا ان کی آنتیں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ اسرائیلی بموں نے انہیں اس وقت ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا جب کہ وہ اقوام متحدہ کی پناہ میں آئے ہوئے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ وہ عالمی ادارے کی حفاظت میں آگئے ہیں۔‘‘ بعد میں اسرائیل نے اسے ایک غلطی اور صدر کلنٹن نے اسے ایک حادثہ قرار دیا۔ واضح رہے کہ آج کا وزیر اعظم ایرل شیرون صابرہ و شتیلا کیمپوں کی خوں آشام دہشت گردی کی وجہ سے عالمی عدالت انصاف ہیگ ٹریبونل کو بھی مطلوب ہے۔

    یہ ہے اسرائیل کی چند محسن کش کارروائیاں، اس کے باوجود امریکی صدور اس کے وزیراعظموں کو گلے لگاتے، مصافحہ کرتے اور ان پر ہر قسم کی امداد روا رکھتے ہیں۔ اسرائیلی دنیا میں کبھی کسی کے وفادار نہیں رہے۔ بدقسمتی کہ آج سعودی عرب، پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک اسی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں کررہے ہیں۔ (حوالہ کے لئے دیکھیں کتاب: سازشیں۔ ڈیوڈ ڈیوک ترجمہ راقم)۔
     
  10. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001


    مسئلہ فلسطین اور ہماری ذمہ داریاں


    دنیا کی جس سرزمین سے بھی اسلام وابستہ ہو یا جہاں مسلمان کفر سے پنجہ آزما ہوں، وہ زمین درحقیقت ہماری ہی ہے۔ اس کے لئے بے قرار رہنا، دعائیں مانگنا اور مادی و اخلاقی تعاون کرنا ہمارے دین کا ایک حصہ ہے۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کروڑوں مسلمان آج دین اسلام کے احیاء اور اپنی سرزمین کو کفر کی قوتوں سے آزاد کرانے کی خاطر مصروف جدوجہد ہیں اور اس جرم میں یہ قوتیں ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہیں۔ ایسے پہاڑ کہ جنہیں کفر کی یہ طاقتیں خود بھی نہ برداشت کرسکیں۔

    سرزمین فلسطین بھی ہماری ایک ایسی ہی سرزمین ہے۔ اس خطے کو دنیا میں مقدس مقام کا درجہ حاصل ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں جلیل القدر انبیاء ایک طویل عرصے تک دنیا کے فساد زدہ لوگوں کو اللہ کی طرف پلٹ آنے کی دعوت دیتے رہے۔ یہاں مسلمانوں کا مقدس قبلہ اول بھی واقع ہے۔ اللہ کے نبیوں کی یہ سرزمین آج یہودیوں کے ناپاک قدموں تلے مسلسل روندی جارہی ہے۔ خود بیت المقدس، حضرت سلیمان علیہ السلام کی مسجد، بھی ان کی درندگی سے محفوظ نہیں ہے۔ وہ مسلم فلسطینی جو تقریباً ایک ہزار سال سے وہاں آباد تھے، عیسائیوں اور یہودیوں کی شرمناک سازش کے نتیجے میں وہاں سے نکال باہر کئے گئے ہیں اور ان کے دیرینہ گھروں کو مسمار کرکے ان پر یہودیوں کو آباد کیا جا رہا ہے۔ ناجائز طور پر آباد کیا جانے والا ملک اسرائیل آج اس اسرائیل سے کئی گنا زیادہ وسیع ہوچکا ہے جو ۱۹۴۸ء میں موجود تھا۔

    امریکہ اور اس کے حلقوں نے دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودیوں کو زبردستی لا لا کر اسرائیل میں بسایا ہے جب کہ ان بیرونی یہودیوں کے پاس آج بھی اپنے اصلی ملک کے پاسپورٹ موجود ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ بازی کسی بھی وقت پلٹ سکتی ہے۔ انہیں فلسطین سے نکلنا پڑسکتا ہے۔ اس لئے اپنے اصلی ملک کا پاسپورٹ ان کی جیب میں موجود رہنا چاہئے تاکہ جب چاہیں یہاں سے پرواز کرجائیں۔ اسرائیل کی ریاست کے ناجائز ہونے کا یہ ایک واضح ثبوت ہے۔ نیز یہ بھی اس کے ثبوت کی نشانی ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ڈیڑھ کروڑ یہودیوںمیں سے محض ۵۰ لاکھ یہودی ہی اسرائیل جانے پر رضامند ہوسکے ہیں ورنہ ایک کروڑ یہودی تاحال اپنے اپنے ممالک میں بدستور مقیم ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ اسرائیل کے مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔
     
  11. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001

    فلسطینی برادران پر بہیمانہ ظلم و تشدد کی خبریں ساری دنیا میں پھیل رہی ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب انہیں خاک و خون میں نہ نہلایا جاتا ہو۔ عالمی ضمیر تو اس وقت بے حس ہے ہی کیونکہ یہ محض اپنے مفاد کے تحت ہی کچھ اثر قبول کرتا ہے لیکن اصل سوال امت مسلمہ کے ضمیر کا ہے۔ دنیا کا ضمیر بے شک خراٹے لیتا رہے لیکن امت مسلمہ کا ضمیر آخر کیوں سویا ہوا ہے؟ کیوں ان میں بیداری نہیں پائی جاتی؟ کیوں ان میں دکھ اور تڑپ نہیں پیدا ہوتی اور کیوں وہ ایسا کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھاتے جس سے دشمنوں پر کوئی ہیبت بیٹھ سکے؟ مسجد اقصیٰ کیوں آج فریاد کناں ہے؟ اور کیوں وہ پکار رہی ہے کہ’’ امت مسلم سوتی ہے۔ مسجد اقصیٰ روتی ہے‘‘؟

    عالمی طور پر مسلمانوں کے کم و بیش ۵۶ آزاد ممالک موجود ہیں جہاں دنیا بھر کے خزانے پائے جاتے ہیں۔ دنیا میں مسلمانوں کی کل تعداد سوا ارب کے لگ بھگ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس دنیا میں ہر پانچواں آدمی مسلمان ہے۔ دنیا کا کوئی کاروبار اور فضائی، بری و بحری نقل و حرکت اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ مسلم ممالک کی مربوط زنجیر پار نہ کر !!لی جائے جیسا کہ اس کتاب کے ٹائیٹل پر موجود نقشے سے واضح ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ ذلت و بربادی اور استحصال کا شکار ہیں تو اس کی وجہ خود ان کی اپنی کوتاہی اور بزدلی ہے ورنہ اتنی بڑی حیثیت کی قوم کو تو تمام دنیا کو خود اپنے پیچھے چلنے پر مجبور کردینا چاہئے۔

    آج اسرائیل دس عرب ممالک کے وسط میں واقع ہونے کے باوجود انہیں تباہ و برباد کررہا ہے تو اس میں عرب ممالک کی اپنی کوتاہی اور ان کی مغربی طاقتوں کی کاسہ لیسی شامل ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان کے درمیان باہمی اتحاد ہو اور مسجد اقصیٰ کے مسئلے پر جرأت مندانہ کردار ہو۔ عرب ممالک اپنی تیل کی بلین ڈالرز سالانہ کی آمدنی سے جو وہ مغربی بینکوں میں جمع کراتے ہیں اور جس کی وجہ سے خود مغرب کی معیشت مضبوط ہو رہی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ پر دباؤ ڈالیں تو ان کا دماغ محض چھ ماہ میں درست ہوسکتا ہے۔

    دوسرا بڑا ہتھیار خود تیل کا ہے۔ اسی تیل سے استحصال پسند سامراجی ممالک کے ہر قسم کے پہئے چل رہے ہیں اور اسی تیل کے باعث اسرائیل کے طیارے اور توپیں آگ اُگل رہی ہیں۔ حیرت ہے کہ تیل کے پچاسی فیصد کنوئیں مسلم ممالک میں موجود ہیں لیکن پھر بھی ہم اس تیل کو مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کررہے ہیں۔ حالیہ عراق امریکہ جنگ میں عرب لیگ نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ وہ اس جنگ میں تیل کا ہتھیار استعمال نہیں کرے گی۔ اگر ہم پیٹرول کے مسئلے پر اقوام متحدہ اور امریکہ سے محض سودے بازی کریں۔ تب بھی صرف ایک دو ہفتوں کے بعد ہی یہ قوتیں عرب ممالک کے آگے گھٹنے ٹیک سکتی ہیں۔ اس ضمن میں صرف ایک مجاہد اللہ تعالیٰ نے مسلم ممالک میں پیدا کیا تھا جس کا نام شاہ فیصل مرحوم تھا۔ اس کے اس اقدامات نے پورے مغرب کو بری طرح ہلادیا تھا۔ مغرب اس زمانے میں فی الحقیقت رو پڑا تھا۔
     
  12. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001

    عرب ممالک استحصال پسند قوتوں کی پیداوار کی ایک بڑی منڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہاں سے وہ ایک بڑا زرمبادلہ ہر روز اپنے ممالک میں منتقل کررہے ہیں جس کے ذریعے وہ اسرائیل کو نہتے فلسطینیوں کے جسموں کو گولیوں سے چھلنی کرنے کا سامان فراہم کررہے ہیں۔ چنانچہ عالمی منڈی کی اپنی اسی قدر و قیمت کو محسوس کرتے ہوئے بھی عرب ممالک مغرب سے جرأت مندانہ سودے بازی کرسکتے ہیں۔ فلسطین کے ضمن میں مسلم امت کی ایک اور بڑی ذمہ داری فلسطینیوں کی عسکری امداد ہے۔ اس وقت تک وہ محض غلیلوں اور پتھروں کے ذریعے صیہونیوں سے جہاد جاری رکھتے ہوئے ہیں۔ ان کی جرأت و شجاعت پر داد دیئے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔

    اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
    لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
    تاہم اسلحی امداد اب وقت کا تقاضا ہے۔ اگر قریب کے عرب ممالک فلسطینی مجاہدوں کو اسلحے کی فراہمی شروع کردیں تو یہودی اپنی تمام بربریت بھول جائیں گے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ اسرائیل کی بربادی ہی میں تمام عرب ممالک کی زندگی ہے۔ اسی اسلحے کی جدوجہد نے افغانستان سے روس کو نکال باہر کیا تھا۔ فلسطینیوں کو اسلحہ فراہم کرنا اسلام کی ایک بہت بڑی خدمت ہو گی۔ اس جہاد میں عرب ممالک کو بیس کیمپ کا کردار ادا کرنا چاہئے۔

    اسلامی ممالک کی عالمی تنظیم او۔ آئی۔سی کو بھی اب اپنی مصلحتوں کو ایک کنارے رکھ کر بیدار ہونا پڑے گا۔ انہیں بہتے لہو اور جلتے مکانوں کے درمیان اپنی مدہوش نیندوں سے بیدار ہونا پڑے گا۔ انہیں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے اور بعض اقدامی Offensive کردار اختیار کرنے ہوں گے۔

    حماس اور دوسری جہادی تنظیموں کا کھلے عام ساتھ دینا پڑے گا۔ او۔آئی۔سی مسلمانوں کی عالمی تنظیم ہے مگر افسوس کہ اس کے ذمہ داران مغرب سے بے انتہا مرعوب ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ فلسطینیوں کی مؤثر آواز بنیں۔
     
  13. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001

    دوسری طرف عوام الناس کو بھی اپنی غفلتوں سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔ انہیں راگ رنگ اور شراب و کباب سے باہر آ کر اپنے ممالک میں بے حس حکمرانوں کو جھنجھوڑنا ہو گا اور انہیں امریکہ سے دو ٹوک گفتگو پر اکسانا ہو گا۔ ارض فلسطین انبیاء کی مقدس سرزمین ہے اور اس پر قبضہ گویا خود اپنے وطن پر قبضے کے برابر ہے۔ اس لئے عام افراد کو بھی صیہونیوں سے نجات کی اس جدوجہد میں اپنے حصے کا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا۔

    صحافیوں اور دانشوروں کو چاہئے کہ وہ اپنے قلم کے ذریعے فلسطین کے جہاد کو مضبوط تر کریں اور امریکی و یورپی میڈیا میں اپنے احتجاج مسلسل ریکارڈ کروائیں تاکہ وہاں کے عوام بھی اصل ظلم سے آگاہ ہوسکیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں ہم کشمیر، افغانستان اور فلسطین کے بارے میں اگرچہ بہت کچھ جانتے ہیں لیکن مغرب کے عوام ان مسائل کی تفصیل سے اتنے آگاہ نہیں ہوتے اس لئے مغربی میڈیا میں بھی مسئلوں کی تفصیلات بھیجی جاتی رہنی چاہئیں۔

    ہماری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ یہودی اداروں کی تیار کردہ مصنوعات جو اس وقت دنیا پر حاوی ہیں اور جن سے ہم بھی بہت مرعوب ہیں، ان کی خریداری سے اجتناب برتیں۔ ان مصنوعات کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ صیہونیوں کی عسکری امداد پر خرچ کیا جاتا ہے جس سے اسرائیل کو ہر لحظہ تقویت پہنچتی ہے۔ ان مصنوعات میں مشروبات، صابن، کھانے پینے کی اشیاء اور کاسمیٹکس وغیرہ شامل ہیں۔ اگر ہمیں اپنے ان فلسطینی بھائیوں کا لہو بچانا ہے تو ان اشیاء کا بھی بائیکاٹ کرنا لازم ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ بعض یہودی صنعتوں کے مالکان بذات خود سرگرم یہودی ہیں۔

    مسلم ممالک کے سربراہوں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، ان کی حیثیت امت مسلمہ کے ترجمان کی ہے۔ اس وقت اقوام متحدہ میں ایک بڑی اکثریت مسلم ممالک کی ہے۔ ان سربراہوں کو اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں میں یہودی و امریکی اقدامات کی مذمت کرنی چاہئے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ نہتے طلبہ و معصوم بچے گولیوں سے چھلنی کئے جا رہے ہیں اور خواتین کی بے حرمتی کی جا رہی ہے مگر ہمارے سربراہاں محض اپنے اقتدار کی توسیع و استحکام ہی میں مگن ہیں۔
     
  14. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001

    مسئلہ فلسطین کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ الفتح خود ہے۔ عزم و حوصلے کی کمی اور مغرب سے مرعوبیت نے اس کی گذشتہ تمام جدوجہد پر پانی پھیر دیا ہے اور اب وہ اسرائیل سے ہر آن ذلت آمیز معاہدے کررہی ہے۔ ایک طرف وہ یہودیوں سے دوستی کا ہاتھ بڑھاتی ہے تو دوسری طرف وہ خود حماس کے مجاہدوں کو قید و بند کی صعوبتوں سے گزارتی ہے۔ مسلم ممالک پر یہ بھی لازم ہے کہ فلسطینیوں کی اپنی مرضی سے قائم کردہ حماس کی حکومت کو مکمل قانونی، اخلاقی اور مالی تعاون پیش کریں تاکہ وہ اسرائیل پر حاوی ہو سکے۔

    معاملہ یہ ہے کہ فلسطین کے لحاظ سے مسلمانان عالم پر محض دو چار نہیں بلکہ دسیوں ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ یہ وقت خاموش بیٹھنے اور میٹھی نیند سونے کا نہیں بلکہ کچھ کر گزرنے کا ہے۔ یہ ہم سوا ارب سے زائد مسلمانوں کی خاموشی ہی ہے جس نے ظلم و ستم کے لئے یہودیوں کے حوصلے بلند کئے ہیں۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ ارض مقدس محض تمنائیں کرنے اور دعائیں مانگنے سے آزاد نہیں ہوسکتا۔ اس کے لئے ہمیں لازوال قربانیاں رقم کرنی پڑیں گی۔

    ایک طرف مسجد اقصیٰ یہودیوں کے ناپاک قدموں تلے روندی جا رہی ہے دوسری طرف امت مسلمہ خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔

    نہ جانے غیب سے وہ مردِ مجاہد، سلطان صلاح الدین ایوبی، کب برآمد ہو گا جو یہودیوں کو فلسطین سے نکال باہر کرے گا اور مسجد اقصیٰ کی آزاد حیثیت بحال کرے گا؟
     
  15. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001

    عیسائیت آخر کار یہودیت کے آگے ڈھیر ہوگئی ​


    یہودیوں اور عیسائیوں کی دشمنی ہزاروں سال پرانی ہے ۔ یہ حضرت عیسیٰ ؑ کے دور سے شروع ہوئی تھی اور اب سے تقریباً سو سال پہلے تک شد و مد سے جاری تھی ۔ عیسائیوں کے نزدیک یہودیوں کے دو بڑے جرائم تھے جن کی بنیاد پر بہ قابل گردن زدنی سمجھے جاتے تھے ۔

    ۱۔ عیسائیوں کے خیال کے مطابق یہودی حضرت عیسیٰ کے قاتل ہیں۔

    ۲۔ وہ دوبارہ آنے والے حضرت عیسیٰ کو نعوذ باللہ دجال قرار دیتے ہیں۔

    چنانچہ انہی دو بڑے جرائم کی بنیاد پر عیسائیوں کے نزدیک یہودی قوم انتہائی قابل نفرت رہی ہے ۔ وہ انہیں روئے زمین پر سب سے شریر اور خبیث مخلوق قرار دیتے تھے اور جہاں پاتے تھے قتل کردیتے تھے ۔ حال یہ تھا کہ ابتدائی دور میں جب یورپ میں طاعون (یا کالی وبا ) پھیلی جس کے باعث لاتعداد ہلاکتیں ہوئیں تو عیسائیوں نے اس کا سبب یہودیوں کو ٹہرایا حالانکہ خودیہودی بھی اس مرض میں ہلاک ہورہے تھے ۔

    یہودی کس طرح پوری تاریخ میں عیسائیوں کے ہاتھوں دہشت اور بربریت کا شکار رہے ۔ یہودیوں کی نفسیات اور تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں کیلئے ان تفصیلات کو جاننا بے حد دلچسپی کا حامل رہے گا ۔
    یہودیوں کی جلاوطنی اور بربادی ’’صلیب کے سائے سائے ‘‘

    586ق م میں شاہ بابل (بخت نصر) نے یروشلم پر قبضہ کیا اور عبادت خانے کو تباہ کردیا۔

    472ق م میں یونانی بادشاہ انہولنس نے یروشلم پر حملہ کرکے نو تعمیر سلیمانی ہیکل کا نام و نشان مٹادیا اور اسے بت خانے میں تبدیل کردیا ۔

    70ء میں رومی بادشاہ Titusنے یروشلم کو تباہ و برباد کردیا ۔

    135ء میں رومی بادشاہ ہیڈریان نے یروشلم کو ایک بار پھر تباہ و برباد کردیا ۔
    (حوالہ : ویب سائٹ اور دیگر بیرونی رسائل )
     
  16. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001

    مختلف ادوار میں یہودیوں کے ساتھ عیسائیوں کا رویہ

    1100ء ۔ 1500یہودی جرمنی سے فرار کئے گئے ۔

    1228ء۔ اسپین میں یہودیوں کو قانونی طور پر لباس کے اوپر نمایاں نشان آویزاں کرنے کا حکم دیا گیا ۔

    1266ء ۔ پولینڈ کے گرجائوں نے فیصلے صادر کئے کہ یہودی عیسائیوں کے ساتھ اکھٹے نہیں رہ سکتے ۔

    1279ء ۔ ہنگری کے گرجائوں نے حکمنامہ جاری کیا کہ یہودی اپنے لباس پر بائیں جانب سرخ کپڑا ڈالیں ۔

    1321ء۔ فرانس: ایک گڑھے میں 160یہودی دفن کئے گئے ۔

    1355ء ۔ اسپین میں ا یک مشتعل ہجوم نے بارہ ہزار یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔

    1391ء۔ میجور کا کے جزیرے میں پچاس ہزار یہودی تہہ تیغ کئے گئے ۔

    1391ء ۔ سسلی میں بڑے پیمانے پر یہودیوں کا قتل عام کیا گیا ۔

    1399ء۔ پولینڈ : پہلی بار یہودیوں کے خلاف تعزیری کاروائیاں کی گئیں ۔

    1422ء ۔’ ’کیسٹائل ‘‘میں یہودیوں کو علیحدہ علاقے میں رہنے اور امتیازی پٹی پہننے پر مجبور کیا گیا ۔

    1420ء ۔ لیئون : فرانس سے یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا ۔

    1420ء ۔طولوس : فرانس میں یہودی طبقوں کا صفایا کردیا گیا ۔

    1474ء۔ سسلی میں یہودیوں کا ایک بار پھر بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا

    1492ء ۔ اسپین میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار یہودی ملک بد ر کئے گئے ۔

    1492ء۔ اسپین میں ملک بدری کے دوران 20ہزار سے زیادہ یہودی ایک ساتھ یا تو ہلاک ہوگئے یا انہیں ہلاک کیا گیا ۔

    1492ء۔ سسلی اور مالٹا سے یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا ۔

    1494ء۔ ’’کراکائو‘‘میں یہودیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ صرف مخصوص علاقوں تک خود کو محدود رکھیں ۔ پولینڈ نے پہلی یہودی حد بندی کا آغاز کیا (یہودیوں کو ایک مخصوص علاقہ میں محدود کرنے کو یورپ میں ghetto کی اصطلاح سے پکارا جاتا ہے۔)

    1498ء ۔ پرتگال میں ایک بھی یہودی باقی نہ رہنے دیا گیا ۔

    1541ء۔ ’’ نیپلز‘‘ سے یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا ۔

    1550ء۔ ’’گینوآ‘‘ سے یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا۔

    1935ء تا 1941ء۔ ہٹلر نے لاکھوں یہودیوں کو انسانیت سوز سلوک سے دوچار کرکے عظیم تباہی مچائی۔ (یہودی اس سانحے کو ہولوکاسٹ holocaust کہہ کر پکارتے اور بے حد مبالغے سے کام لے کر دنیا کی ہمدردیاں سمیٹتے ہیں )
    (حوالہ کتاب: عرب اور اسرائیل ‘ ازرون ڈیوڈ صفحہ 75اور صفحہ 108) ​
     
  17. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001

    مندرجہ بالا تفصیل سے ہمیں یہودیوں کے خلاف عیسائیوں کے بد ترین انتقا م و حقارت کے جذبات سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔

    چونکہ اس صورتحال میں یہودیوں کو زمین سے اپنے فنا ہوجانے اور مٹ جانے کے خطرات پیدا ہوگئے تھے لہٰذا انہوں نے عیسائیوں کو زیر کرنے کے لئے تدبیریں شروع کردیں ۔ اقتدار تو چونکہ انہیں کہیں بھی حاصل نہ تھا لہٰذا انہوں نے فتنہ پروری اور سازشوں سے کام لینا شروع کردیا ۔ واضح رہے کہ یہودیوں کی کتاب ’’ دی پرٹوکولز ‘‘ بھی اسی دور کی اہم کتاب ہے جس میں انہوں نے دنیا کو اپنے حق میں مسخر کرنے کے ہر پہلو سے تفصیلی روشنی ڈالی ہے ۔ اس کتاب کو انہوں نے ایک طویل عرصے تک خفیہ رکھا تاہم کسی نہ کسی طرح یہ کتا ب فاش ہوگئی اور آج یہ ہر جگہ دستیاب ہے ۔

    تشدد اور بربریت کے اس طویل دور میں یہودیوں کو اگر کہیں پناہ ملی تو وہ صرف مسلمان مملکتیں ہی تھیں جہاں اسلامی قوانین کے تحت جزیہ لیکر انہیں ہر طرح کی ضمانت دی جاتی تھی لہٰذا اس دور میں جبکہ تمام عیسائی دنیا میں ان کے لئے دروازے بند تھے مسلم ممالک ان کے لئے راحت جان محسوس ہوا کرتے تھے۔ ابتداء میں بھی جب یہودی فلسطین آتے تھے تو اسے اپنے مقدس شہر سمجھ کر نہیں بلکہ ایک عمدہ پناہ گاہ سمجھ کر آئے تھے ۔ اس وقت شاید یہودیوں کے ذہن میں کبھی خیال بھی نہ آیا ہوگا کہ مسلمانوں کے ساتھ انہیں دشمنی اختیار کرنی ہے ۔ اس وقت یہودیوں کے دشمن عیسائی تھے ۔ چنانچہ انہیں زیر کرنے کے لئے انہوں نے ظلم و تشدد اور خونی راستوں سے ہٹ کر (جس کی قوت ان کے پاس اس وقت دستیاب نہ تھی )۔ دیگر غیر تشدد پسندانہ راستے اختیار کئے ۔ سب سے پہلی ضرب انہوں نے عیسائی مذہب کی کُلیّت یا وحدانیت پر لگائی ۔ عیسائیوں کا اصل مذہب کیتھولک ہے لیکن یہودیوں نے اپنی سازشوں سے اس کے اندر ایک نیا بدعتی فرقہ ’’پروٹسٹنٹ ‘‘ ایجاد کیا ۔ جس کے بعد عیسائیت دو بڑے ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی ۔ کیتھولک عیسائی اور پروٹسٹنٹ عیسائی ‘ پھر کیتھولک عیسائی پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے بھی اسی طرح جانی دشمن بن گئے جیسے وہ یہودیوں کے جانی دشمن تھے۔ انتشار کے بعد عیسائیت مزید تقسیم در تقسیم ہوتی چلی گئی اور اس کے بیپٹسٹ اور میتھوڈیسٹ وغیرہ فرقے پیدا ہوئے ۔
     
  18. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001

    چنانچہ پروٹسٹنٹ طبقے ہی کی وجہ سے عیسائی طلبہ کو بائبل کی اولڈ اور نیو ٹیسٹامنٹ ایک ساتھ پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔ واضح رہے کہ ’ ’ عہد نامہ قدیم ‘‘ توریت سے متعلق کتاب ہے جبکہ ’’عہد نامہ جدید ‘‘ انجیل سے متعلق کتاب ہے ۔ عیسائی طالب علم عہد نامہ قدیم سے اپنی تعلیم کا آغاز کرکے عہد نامہ جدید پر پہنچتے تھے ۔ چنانچہ رفتہ رفتہ ان میں یہودی عقائد جگہ بنانے لگے ۔

    دوسرا حملہ یہودیوں نے 1908ء میں ’’اسکو فیلڈ‘‘ نامی ایک نئی بائبل ایجاد کرکے کیا۔ انہوں نے عیسائیوں کے ایک ذہین فرد ’’ اسکو فیلڈ‘‘ کو خرید کر گوسپل پر اس سے اپنی مطلب کے حاشیے اور تفسیر لکھوائی اور اس کی بڑے پیمانے پر اشاعت کروائی ۔ اس بائبل کی خصوصیت یہ تھی کہ اس حاشیوں میں جگہ جگہ یہودی عقائد داخل کردیئے گئے تھے۔ حاشیوں کی زبان آسان جبکہ اصل متن قدیم انگلش کا تھا ۔ جسے سمجھنے میں مشکل پیش آتی تھی۔ یوں مشکل متن کے بجائے آسان حاشیئے کا چلن عام ہوا اور یہودی عقائد عیسائیوں کے دلوں میں گھر کرتے چلے گئے ۔ انہی ساری کاروائیوں کی وجہ سے عیسائی بطریق اور پادری بھی یہودیوں کے ہمنوا بن گئے ۔ حتیٰ کہ ساٹھ کی دہائی میں کیتھولک گرجائوں سے یہودیوں کے سابقہ جرائم کی معافی کا باقاعدہ سرکاری اعلان جاری کیا گیا

    ایک اور حربہ عیسائی دنیا کو اپنا ہم خیال بنانے کے لئے یہ اختیار کیا گیا کہ عالمی سطح پر علمی و فکری تحریکیں شروع کی گئیں ۔ یعنی سوشلزم ‘ نیشنلزم ‘ کمیونزم اور نظریہ آبادی وغیرہ ۔ان سب کے بانی عموماً یہودی تھے ۔ چنانچہ عیسائی دنیا میں جہاں مذہب کی گرفت برائے نام ہے یہ نظریئے بہت مقبول ہوئے اور انہوں نے مذہب کا اثر کمزور سے کمزور تر کیا ۔

    اسی کے ساتھ انہوں نے فحاشی و عریانی کو بھی فروغ دیا ۔ دنیا میں کوئی بھی مذہب معاشرے میں بے حیائی کی اجازت نہیں دیتا ۔ عیسائیت بھی ایسا نہیں چاہتی ۔لیکن یہودیوں نے اپنی طرف سے توجہ ہٹانے کی خاطر ان میں جنس کے نظریئے کو فروغ دیا۔ حتیٰ کہ امریکہ میں دنیا کی مشہور عریاں فلمی صنعت ہالی وڈ کا آغاز ہوا ۔ انہوں نے عیسائیوں میں سیکس اور کھلی فحاشی کو فروغ دیا ۔ انہیں نائٹ کلبوں اور اوپیرائوں پر لگایا ۔ جس سے ان کی اخلاقیات کھوکھلی ہوتی چلی گئیں ۔ یہی حال انہوں نے میڈیا کا بھی کیا ۔ تمام بڑے رسائل و جرائد ‘ ٹائمز ‘ نیوز ویک ‘ بی بی سی ‘ رائٹر وغیرہ یہ سارے نشری و اشاعتی ادارے یہودی ہیں یا ان کی کلیدی جگہوں پر یہودی فائز ہیں۔ جہاں سے وہ عیسائیوں ( اور باقی دنیا کو بھی ) اپنی مرضی کی خبریں سناتے اور نشر کرواتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائیوں کو یہودیوں کی سازشوں کے بارے میں عام طور پر آگاہی نہیںہونے پاتی ۔ اس حقیقت کو کئی اہل ِ علم عیسائی مفکرین مثلاً ڈیوڈ ڈیوک اور رَون ڈیوڈ بھی تسلیم کرتے ہیں۔
     
  19. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001

    جنگ عظیم اول اور دوم میں جب یورپی حکومتیں آپس میں ٹکراکر ختم ہورہی تھیں‘ بعض مضبوط یہودی سرمایہ کاروں نے ان مملکتوں کو بڑے بڑے قرضے فراہم کرکے انہیں اپنی مٹھی میں جکڑنے کی کوشش کی ۔ اس دور میں آئی ا یم ایف اور ورلڈ بینک طرز کے ادارے موجود نہ تھے۔ چنانچہ ان کی کسر یہودی ساہوکاروں نے انفرادی طور پر پوری کی ۔ مثال کے طور پر روتھ شیلڈ جو گذشتہ دور میں یہودیوں کا ایک بہت بڑا سرمایہ دار تھا، اس نے امریکی نوآبادیوں کے خلاف جنگ کی غرض سے ’’ہیسٹین‘‘ کے فوجی دستوں کو سب سے پہلے 20 ملین ڈالر کی ادائیگی کی تھی۔ (حوالہ کتاب: دی انٹرنیشنل جیو۔ از: ہنری فورڈ)۔ اسی طرح برطانیہ کے ولیم آف آرٹیج (1689ء) نے جسے یہودی برسراقتدار لائے تھے، اولین دور میں بادشاہ بنتے ہی یہودی سود خوروں سے 12 1/2 لاکھ پونڈ کا قرضہ لیا تھا۔ (کتاب: پاکستان اور ہشت پا۔ از خورشید وارثی)۔ دوسری طرف ایک بڑی یہودی شخصیت ’’ہرٹزمین‘‘ کے ترکی یہودی نمائندے حافام صوآفندی نے سلطان ترکی عبدالحمید خان کو پیشکش کی تھی کہ اگر وہ فلسطین کا علاقہ یہودیوں کو دے دے تو ترکی کا تمام قرضہ یہودی ادا کرنے کو تیار ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سلطان نے اس کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا۔ (حوالہ کتابچہ: بیت المقدس۔ ازمولانا مودودی۱۵)۔

    یہودیوں کے ایک اور مفکرہ چیمز وائز مین نے انگلستان کی حکومت کو یقین دلایا تھا کہ جنگ عظیم اول کے نقصان کو پورا کرنے کے لئے انگلستان کو تمام دنیا کے یہودیوں کا سرمایہ مل سکتا ہے بشرطیکہ وہ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنا دے۔ (کتابچہ: بیت المقدس۔ از مولانا مودودی۔ صفحہ۱۷)۔

    انہوں نے بڑے بڑے بین الاقوامی کاروبار مثلاً لیور برادرز‘ پیپسی ‘ کوک اور مکڈونلڈ وغیرہ عالمی طور پر پھیلائے ۔ جس کی وجہ سے عیسائی افراد معاشی طور پر ان کے غلام بنتے چلے گئے ۔ دوسرے اس طرح انہوں نے عیسائی اسکولوں کے نصاب میں بھی تبدیلیاں کیں اور ان میں اپنے مقاصد شامل کرکے اپنے لئے نرم جذبات پیدا کئے اسی لئے عیسائیوں کی موجودہ نسل یہودیوں کو عام طور پر اپنا دشمن نہیں سمجھتی ہے۔

    یہ ہے وہ طویل داستان کہ کس طرح یہودی جیسی شاطر قوم نے اپنے خونی دشمن عیسائیوں کو اپنے دائرہ اختیار میں قید کرلیا ہے اور ان سے وہی کچھ کہلوانے لگے ہیںجو کچھ وہ چاہتے تھے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عیسائی عوام اپنے پادریوں سے محض واجبی سا رابطہ رکھتے ہیں۔ اس کے باعث مذہب سے ان کی گرفت ڈھیلی ہوتی چلی گئی ۔ فادرس ان کے لئے کوئی قابل توجہ ہستیاں نہیں رہے جبکہ یہودی اپنے ربائیوں سے آج بھی گہری وابستگی رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مذہبی جذبات اس اکیسویں صدی میں بھی شدت سے پائے جاتے ہیں ۔ وہ آج بھی نمازیں پڑھنے ‘ روزے رکھنے اور حلال گوشت کھانے میں شدت پسندی کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں ۔
     
  20. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001

    عیسائیوں کو ہر لحاظ سے ڈھیر کرنے کے بعد پھر کہیں جاکر یہودی مسلمانوں کی طرف متوجہ ہوئے ۔ ایک دشمن پر قابو پانے کے بعد انہیں محسوس ہوا کہ بہرحال مسلمان بھی ان کے لئے دشمن ثابت ہوں گے ۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ یہودی صرف اپنے مذہب ہی کو اعلیٰ ترین مذہب جانتے ہیں ۔ دوسری طرف انہوں نے حضور اکرم e کی دجال اور اپنے بارے میں احادیث پڑھی ہوئی ہیں ( ہوشیار دشمن ہر حال میں چوکنا رہتا ہے) نیز اپنے مسیحا (دجال ) کی آمد کی شرائط میں سے ان کے نزدیک ایک یہ بھی ہے کہ دنیا سے غیر یہودی مذاہب سرے سے ختم ہوجائیں ۔ لہٰذا اب انہوں نے مسلمانوں سے جنگ کا آغاز کردیا اور آج وہ بعینیہ تمام طریقے استعمال کررہے ہیں جو انہوں نے اپنے دشمن نمبر ایک کے لئے کبھی استعمال کئے تھے۔ یعنی فحاشی و عریانی کا فروغ ‘ مملکتوں کو قرضوں کی فراہمی، نصاب میں تبدیلی ‘ مذہب میں دراڑیں‘ میڈیا پر گرفت ‘ علمی و فکری تحریکیں ‘ حکمرانوں کی خریداری اور بین الاقوامی کاروبار پر گرفت وغیرہ ۔ اس وقت عیسائیوں اور یہودیوں نے ایک دوسرے کے گناہ معاف کرکے صرف ایک بات پر اتفاق کیا ہے کہ مسلمانوں کو مارو جہاں پائو اور یہ کہ ان نسلیں تباہ کردو ۔ آپس کے جھگڑوں سے ہم اس وقت نمٹیں گے جب حضرت عیسیٰ ؑ تشریف لے آئیں گے ۔

    البتہ مسلم دنیا میںانہیں ایک بالکل ہی مختلف قسم کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ۔ عیسائی چونکہ برائے نام مذہبی ہوتے ہیں اس لئے یہودیوں کے آگے وہ بالکل ڈھیر ہو گئے۔ اسلام چونکہ متحرک ‘ زندہ اور عملی مذہب ہے اور اس میں عوام کا اپنے علماء ‘ مساجد اور قرآن پاک سے مستقل رابطہ رہتا ہے ۔ اس لئے یہودیت کو مسلمانوں کے خلاف سخت مزاحمت کاسامنا کرنا پڑا بلکہ انہیں اس کے برعکس مسلمانوں کے جہاد سے سابقہ پیش آگیا ۔ جو ان کے لئے انتہائی اچنبھے کی بات تھی ۔ عوام پر ان کے اقدامات سے تھوڑے بہت تو اثرات قائم ہوئے لیکن مجموعی طور پر امت مسلمہ ان کے خلاف غم‘ وغصہ سے بھر گئی ۔ اور انہوں نے یہودیوں کے ساتھ اپنے مذہب پر صلح کرنے سے واضح طور پر انکار کردیا ۔

    یہ تھی وہ طویل داستان کہ کس طرح عیسائیت یہودیوں کے آگے ڈھیر ہوگئی ۔ کل بھی ان کے حربے وہی تھے اور آج بھی ان کے حربے وہی ہیں ۔ صدر واشنگٹن کے الفاظ میں’’ یہ لوگ خون آشام چمگادڑیں (VAMPIRES) ہیں اور یہ عیسائیوں اور دوسری قوموں کا خون چوستے ہیں۔‘‘ (حوالہ کتاب: اینٹی زائن از ولیئم گرمسٹارڈ)۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں