غبار خاطر سے اقتباس

عفراء نے 'نثری ادب' میں ‏مئی 21, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    یہاں زندگی بسر کرنے کے دو ہی طریقے تھے جنہيں ابو طالب کلیم نے دو مصرعوں میں بتلا دیا ہے:
    طبعے بہم رساں کہ بسازی بعالمے
    یا ہمتے کہ از سر عالم تواں گزشت
    پہلا طریقہ اختیار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اس کی طبیعت ہی نہیں لایا تھا۔ ناچار دوسرا اختیار کرنا پڑا:
    کار مشکل بود، ما بر خویش آساں کردہ ایم
    جو نامراد یہ دوسرا طریقہ اختیار کرتے ہیں وہ نہ تو راہ کی مشکلوں اور رکاوٹوں سے ناآشنا ہوتے ہیں نہ اپنی ناتوانیوں اور درماندگیو ں سے بے خبر ہوتے ہیں تاہم وہ قدم اٹھا دیتے ہیں۔ کیونکہ قدم اٹھائے بغیر رہ نہیں سکتے۔ زمانہ اپنی ساری ناموافقتوں اور بے امتیازیوں کے ساتھ بار بار ان کے سامنے آتا ہے اور طبیعت کی خلقی درماندگیاں قدم قدم پر دامن عزم و ہمت سے الجھنا چاہتی ہیں تاہم ان کا سفر جاری رہتا ہے۔ وہ زمانہ کے پیچھے نہیں چل سکتے تھے لیکن زمانہ کے اوپر سے گزر جا سکتے تھے اور بالآخر بے نیازانہ گزر جاتے ہیں-​

    غبار خاطر
    ابوالکلام آزاد​
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  2. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    شیئرنگ کا شکریہ
     
  3. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    زندگی بغیر کسی مقصد کے بسر نہیں کی جاسکتی۔ کوئی اٹکاؤ ، کوئی لگاؤ ، کوئی بندھن ہونا چاہیے جس کی خاطر زندگی کے دن کاٹے جا سکیں۔ یہ مقصد مختلف طبیعتوں کے سامنے مختلف شکلوں میں آتا ہے؛
    زاہد بہ نماز و روزہ ضبطے دارد
    سرمد بہ مئے و پیالہ ربطے دارد​
    کوئی زندگی کی کاربرداریوں ہی کو مقصد زندگی سمجھ کر ان پر قانع ہو جاتا ہے ۔ کوئی ان پر قانع نہیں ہوسکتا۔ جو قانع نہیں ہو سکتے ان کی حالتیں بھی مختلف ہوئیں۔ اکثروں کی پیاس ایسے مقصدوں سے سیراب ہو جاتی ہے جو انہیں مشغول رکھ سکیں۔ لیکن کچھ طبیعتیں ایسی بھی ہو تی ہیں جن کے لیے صرف مشغولیت کافی نہیں ہو سکتی۔ وہ زندگی کا اضطراب بھی چاہتی ہیں:
    نہ داغِ تازہ می کارد، نہ زخم کہنہ می خارد
    بدہ یارب وے، کیں صورت بیخاں نمی خواہم​
    پہلوں کے لیے جو دل بستگی اس میں ہوئی کہ مشغول رہیں ، دوسروں کے لیے اس میں ہوئی کہ مضطرب رہیں:
    دریں چمن کہ ہوا داغ شبنم آرائی ست
    تسلیے بہ ہزار اضطراب می بافند!​
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  4. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    سسٹر عفراء جزاكِ الله خيرا.
    بہت عمدہ شئرنگ
    جو کچھ اردو میں لکھا گيا وہ ہمیں سمجھ میں آگيا۔ اور فارسی والا آپ ، بھائ ابن قاسم ، شیخ رفیق طاہر صاحب اور ام ثوبان کی سمجھ میں آگيا ہوگا۔
     
  5. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    باقی لوگوں کا تو معلوم نہیں البتہ میں فارسی نہیں جانتی۔ اس کتاب میں ہر دو جملوں کے بعد اشعار ہیں، وہ چھوڑ کر بھی اقتباس نہیں شریک کیا جاسکتا۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  6. ابن قاسم

    ابن قاسم محسن

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2011
    پیغامات:
    1,717
    مجھے تھوڑی سمجھ آرہی ہے بھائ۔ جزاک اللہ خیرا
     
  7. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    اردو میں لکھے الفاظ شیئرنگ کا شکریہ :00006:
     
  8. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    بہت خوب
     
  9. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    یوں تو غبار خاطر بڑے مزے کی کتاب ہے لیکن اس میں مولانا نے جو سردی کے مارے ہم جیسے مسکینوں کا مذاق اڑایا ہے نا یہ اچھا نہیں کیا!
    اب ذرا کوئی ڈھونڈ کر وہ اقتباس تو پوسٹ کر دے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  10. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,966
    : ) وہ اقتباس تو یاد نہیں‌ کس صفحہ پر تھا ، لیکن سردی سے بچنے کے لیے چائے پینے کا طریقہ میرے پاس محفوظ ہے

    ''آپ کو معلوم ہے کہ میں چائے کے لیے روسی فنجان کام میں لاتا ہوں ـ یہ چائے کی معمولی پیالیوں سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں ـ اگربے ذوقی کے ساتھ پیجئے تو دو گھونٹ میں ختم ہو جائیں مگرخدانخواستہ میں ایسی بے ذوقی کا مرتکب کیوں ہونے لگا ؟ میں جرعہ کشانِ کُن مشق کی طرح ٹھہر ٹھہر کرپیوں گا اور چھوٹے چھوٹے گھونٹ لوں گا ـ پھر جب پہلا فنجان ختم ہو جائے گا تو کچھ دیر کے لیے رک جاؤں گا اور اس درمیانی وقفہ کو امتداد کیف کے لیے جتنا طول دے سکتا ہوں طول دوں گا ـ پھر دوسرے اور تیسرے کے لیے ہاتھ بڑھاؤں گا اور دنیا کو اور اس کے سارے کارخانہء سودوزیاں کو یک قلم فراموش کردوں گا''
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  11. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    واہ مزیدار!!!
    چلیے فرصت ملنے پر ہم خود ہی اس کو پوسٹ کرتے ہیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  12. ابن قاسم

    ابن قاسم محسن

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2011
    پیغامات:
    1,717
    یہ لیجیے پورا خط نمبر ۱۶ پیش خدمت ہے!


    قلعہ احمد نگر
    ۷/جنوری ۱۹۴۳ء
    صدیق مکرم

    وہی صبح کے چار بجے کا جانفزا وقت ہے۔ سردی اپنے پورے عروج پر ہے۔ کمرہ کا دروازہ اور کھڑکی کھلی چھوڑی ہے۔ ہوا کے برفانی جھونکے دمبدم آرہے ہیں۔ چائے دم دے کے ابھی ابھی رکھی ہے۔ منتظر بیٹھا ہوں کہ پانچ چھ منٹ گزر جائیں اور رنگ وکیف اپنے معیاری درجہ پر آجائے تو دور شروع کروں۔ دو مرتبہ نگاہ گھڑی کی طرف اٹھ چکی ہے مگر پانچ منٹ ہیں کہ کسی طرح ہونے پر نہیں آتے۔ خواجہ شیرازی کا ترانہ صبح گاہی دل و دماغ میں گونج رہا ہے۔ بے اختیار جی چاہتا ہے کہ گنگناؤں مگر ہمسایوں کی نیند میں خلل پڑنے کا اندیشہ لبوں کو کھلنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ناچار نوکِ قلم کے حوالہ کرتا ہوں:

    صبح ست و ژالہ می چکداز ابربہمنی
    برگ صبوح ساز و بزن جام یک منی
    گر صبحدم خمار ترا دردِ سر دہد
    پیشانی خمار ہماں بہ کہ بشکنی
    ساقی، بہوش باش، کہ غم در کمین ماست
    مطرب، نِگاہ دار ہمیں رہ کہ مے زنی
    ساقی بہ بے نیازی یزداں کے مَے بیار
    تابشنوی ز صوتِ مغنی "ہوالغنی"

    اس علاقہ میں عام طور پر سردی بہت ہلکی ہوتی ہے۔ معلوم نہیں، کبھی اس طرف بھی آپ کا گزر ہوا ہے یا نہیں؟ اور اگر ہوا ہے تو کس موسم میں؟ لیکن پونا تو آپ بارہا گئے ہوں گے۔ دسمبر ۱۹۱۵ء کا سفر مجھے یاد ہے، جب مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس کے موقع پر آپ سے وہاں ملاقات ہوئی تھی۔ پونا یہاں سے صرف اسی میل کی مسافت پر واقع ہے اور دکن کا یہ تمام حصہ ایک ہی سطح مرتفع ہے۔ اس لیے یہاں کی موسمی حالت کو پونا پر قیاس کرلیجیے۔ علاوہ بریں وقت کے زندانی کچھ پونا میں رکھے گئے ہیں، کچھ یہاں؛ اس لیے ویسے بھی اہل قیاس کے نزدیک بقول عرفی دونوں کا حکم ایک ہی ہوا:

    یکے ست نسبتِ شیرازی و بدخشانی

    فیضی کو اکبر نے جب سفارت پر یہاں بھیجا تھا تو معاملات کی پیچیدگیوں نے اسے دو سال تک ہلنے نہیں دیا اور یہاں کے ہر موسم کے تجربے کا موقعہ ملا۔ اس نے اپنے مکاتیب میں احمد نگر کی آب و ہوا کے اعتدال کی بہت تعریف کی تھی۔ فیضی سے بہت پہلے کا یہ واقعہ ہے کہ ملک التجار شیرازی نے مولانا جافی کو دکن آنے کی دعوت دی تھی اور لکھا تھا کہ اس ملک میں بارہ مہینے ہوائے معتدل کا لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔ خیر بارہ مہینا کہنا تو صریح مبالغہ تھا، مگر اس میں شک نہیں کہ یہاں گرمی کے دن بہت کم ہوتے ہیں اور یہاں کی برسات مالہ کی برسات کی طرح بہت ہی پرلطف ہوتی ہے۔ غالباً ۱۹۰۵ء کی بات ہے کہ بمبئی میں مرزا فرصت شیرازی صاحب آثار العجم سے ملنے کا اتفاق ہوا تھا۔ وہ برسات کا موسم پونا میں بسر کرکے لوٹے تھے اور کہتے تھے پونا کی ہوا کے اعتدال نے ہوائے شیراز کی یاد تازہ کردی:

    ائے گل بتو خرسندم، تو بوئے کسے داری

    میرا ذاتی تجربہ معاملہ کو یہاں تک نہیں لے جاتا لیکن بہرحال میں شیراز میں مسافر تھا اور مرزائے موصوف صاحب البیت تھے۔ وصاحب البیت ادریٰ بما فِہیا!

    اورنگ زیب جب دکن آیا تھا تو یہاں کے برشگال کا اعتدال اس کی طبع خشک کو بھی تر کیے بغیر نہ رہا تھا۔ آپ نے تاریخ خوانی خاں اورماثر الامراء وغیرہ میں جابجا پڑھا ہوگا کہ برسات کا موسم اکثر احمد نگر یا پونا میں بسر کرتا تھا۔ پونا کا نام اس نے "محی نگر" رکھا تھا مگر زبانوں پر نہیں چڑھا۔ اس کا انتقال احمد نگر ہی میں ہوا تھا۔

    جہاں تک اس اعتدال کا تعلق گرمی اور برست کے موسم سے ہے، اس کے حسن و خوبی میں کلام نہیں۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ یہاں کا سردی کا موسم بھی معتدل ہوتا ہے، حالانکہ سردی کا موسم ایک ایسا موسم ہوا کہ اس میں جس قدر بھی زیادتی ہو موسم کا حسن اور زندگی کا عیش ہے۔ اس کی کمی نقص وفتور کا حکم رکھتی ہے؛ اسے اعتدال کہہ کر سراہا نہیں جاسکتا

    درماندہ صلاح و فسادیم الخد
    زیں رسمہا کہ مردم عاقل نہاندہ اند

    شاید آپ کو معلوم نہیں کہ اوائل عمر سے میری طبیعت کا اس بارے میں کچھ عجیب حال رہا ہے۔ گرمی کتنی ہی معتدل ہو، مگر مجھے بہت جلد پریشان کردیتی ہے اور ہمیشہ سرد موسم کا خواستگار رہتا ہوں۔ موسم کی خنکی میرے لیے زندگی کا اصلی سرمایہ ہے۔ یہ پونجھی ختم ہوئی اور گویا زندگی کی ساری کیفیتیں ختم ہوگئیں۔ چونکہ زندگی بہر حال بسر کرنی ہے اس لیے کوشش کرتا رہتا ہوں کہ ہر موسم سے سازگار رہوں لیکن طبیعت کے اصلی تقاٖہ پر غالب نہیں آسکتا۔ افسوس یہ ہے کہ ہندوستان کا موسم سرما اس درجہ تنگ مایہ ہے کہ ابھی آیا نہیں کہ جانا شروع کردیتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہوجاتا ہے۔ میری طبع سراسیمہ کے لیے اس صورت حال میں صبر و شکیب کی ایک عجیب آزمائش پیدا ہوگئی ہے۔ جب تک وہ آتا نہیں، اس کے انتظار میں دن کاٹتا ہوں، جب آتا ہے تو اس کی آمد کی خوشیوں میں محو ہوجاتا ہوں لیکن اس کا قیام اتنا مختصر ہوتا ہے کہ ابھی اس کی پذیرائیوں سے سروبرگ سے فارغ نہیں ہوا کہ اچانک ہجران و وداع کا ماتم سر پر آکھڑا ہوتا ہے۔

    ہمچو عید ے کہ در ایام بہار آمد و رفت

    میں آپ کو بتلاؤں، میرے تخیل میں عیش زندگی کا سب سے بہتر تصور کیا ہوسکتا ہے؟ جاڑے کا موسم ہو اور جاڑا بھی قریب قریب درجہ انجماد کا؛ رات کا وقت ہو، آتشدان میں اونچے اونچے شعلے بھڑک رہے ہوں اور میں کمرے کی ساریں مسندیں چھوڑ کر اس کے قریب بیٹھا ہوں اور پڑھنے یا لکھنے میں مشغول ہوں

    من ایں مقام بدنیا و عاقبت ندہم
    اگرچہ درپیم افتد خلق انجمنے

    معلوم نہیں بہشت کے موسم کا کیا حال ہوگا؟ وہاں کی نہروں کا ذکر بہت سننے میں آیا ہے۔ ڈرتا ہوں کہ کہیں گرمی کا موسم نہ رہتا ہو:
    سنتے ہیں ج بہشت کی تعریف سب درست
    لیکن خدا کرے وہ تری جلوہ گاہ ہو!

    عجیب معاملہ ہے میں نے بارہا غور کیا کہ میرے تصور میں آتش دان کی موجودگی کو اتنی اہمیت کیوں مل گئی ہے؟ لیکن کچھ بتلا نہیں سکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ سردی اور آتش دان کا رشتہ چولی دامن کا رشتہ ہوا۔ ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کرسکتے۔ میں سردی کے موسم کا نقشہ اپنے ذہن میں کھینچ ہی نہیں سکتا اگر آتش دان نہ سُلگ رہا ہو۔ پھر آتش دان بھی وہی پرانی روش کا ہونا چاہیے جس میں لکڑیوں کے بڑے بڑے گندے جلائے جاسکیں۔ بچلی کے ہیٹر سے میری تسکین نہیں ہوتی بلکہ اسے دیکھ کر طبیعت چڑ سی جاتی ہے۔ ہاں گیس کے آتش دان کی ترکیب اتنی بے معنی محسوس نہیں ہوتی کیوں کہ پتھر کے ٹکڑے رکھ کر انگاروں کے ڈھیر کی سی شکل بنادیتے ہیں اور اس کے نیچے سے شعلے نکلتے رہتے ہیں۔ کم از کم شعلوں کی نوعیت باقی رہتی ہے۔ پھر بھی میں اسے ترجیح دینے کے لیے تیار نہیں۔ دراصل میں صرف گرمی ہی کے لیے آتش دان کا شیدائی نہیں ہوں، مجھے شعلوں کا منظر چاہیے۔ جب تک شعلے بھڑکتے نظر نہ آئیں دل کی پیاس بجھتی نہیں۔ بے دردوں کو جو دل کی جگہ برف کی سل سینہ میں جھپائے پھرتے ہیں، ان معاملات کی کیا خبر؟

    سینہ گرم نداری مطلب صحبت عشق
    آتشے نیست چودر مجمرہ ات، عُودمخر!

    آپ سن کر ہنسیں گے۔ بارہا ایسا ہوا کہ اس خیال سے کہ سردی کا زیادہ سے زیادہ احساس پیدا کروں جنوری کی راتوں میں آسمان کے نیچے بیٹھ کر صبح کی چائے پیتا رہا، اور اپنے آپ کو اس دھوکے میں ڈالتا رہا کہ آج سردی خوب پڑ رہی ہے؛

    از یک حدیثِ لطف کہ آن ہم دروغ بود
    امشب زدفترِ گلہ صد باب شستہ ایم

    میری طبیعت کا بھی عجیب حال ہے۔ دوسروں سے پہلے خود اپنی حالت پر ہنستا ہوں۔ بچپنے میں چند مہینے چنسورہ میں بسر کیے تھے کیوں کہ کلکتہ میں طاعون پھیل رہا تھا۔ یہ جگہ عین دریائے ہوگلی پر واقع ہے۔ میں نے یہیں سب سے پہلے تیرنا سیکھا۔ صبح شام گھنٹوں دریا میں تیرتا رہتا پھر بھی جی سیر نہ ہوتا۔ اب بھی تیراکی کے لیے طبیعت ہمیشہ ترستی رہتی ہے۔ سبحان اللہ، طبع بولموں کی نیرنگ آرائیاں دیکھیے۔ ایک طرف دریا سے ہم عنانی کا یہ ذوق و شوق، دوسری طرف آگ کے شعلوں سے سیراب ہونے کی تشنگی! شاید یہ اس لیے ہو کہ اقلیم زندگی کی سطح پر پانی بہتا ہے، تہہ میں آگ بھڑکتی رہتی ہے۔ اسی لیے نکتہ سرایانِ حقیقت کو کہنا پڑا کہ:

    ہم سمندر باش و ہم ماہی کہ دراقلیم عشق
    روئے دریا سلسبیل وقعر دریا آتش است

    لوگ گرمیوں میں پہاڑ جاتے ہیں کہ وہاں گرمیوں کا موسم بسر کریں۔ میں نے کئی بار جاڑوں میں پہاڑوں کی راہ لی کہ وہاں جانے کا اصلی موسم یہی ہے۔ منتبی بھی کیا بدذوق تھا کہ لبنان کے موسم کی قدر نہ کرسکا۔ میری زندگی کے چند بہترین ہفتے لبنان میں بسر ہوئے ہیں۔

    وجبال لبنان و کیف بقطعھا
    وھی الشتاء و صیفھن شتاء!

    زندگی کا ایک جاڑا جو موصل میں بسر ہوا تھا مجھے نہیں بھولتا۔ موصل اگرچہ جغرافیہ کی لکیروں میں معتدل خطہ سے باہر نہیں ہے لیکن گرد و پیش نے اسے سرد سیر حدود میں داخل کردیا ہے اور کبھی کبھی تو دیار بکر میں ایسی سخت طرف پڑتی ہے کہ جب تک سڑکوں پہ کھدائی نہ ہولے، گھروں کے کواڑ کُھل نہیں سکتے۔ جس سال میں گیا تھا، غیر معمولی برف پڑی تھی۔ برف باری کے بعد جب آسمان کھلتا اور آرمینیا کے پہاڑوں کی ہوائیں چلتیں تو کیا عرض کروں، ٹھنڈک کا کیا عالم ہوتا؟ مجھے یاد ہے کہ کبھی کبھی سردی کی شدت کا یہ عالم ہوتا کہ مٹکوں کا ڈھکلنا ہٹاتے تو پانی کی جگہ برف کی سل دکھائی دیتی لیکن میں پھر بھی سردی کی بے اعتدالیں کا گلہ مند نہ تھا۔ جس شیخ کے گھر مہمان تھا، اس کے بچے دن بھر برف کے گولوں سے کھیلتے رہتے اور کبھی کبھی کوئی چھوٹی سی گولی منہ میں بھی ڈال لیتے۔ سِتی کبیرہ یعنی شیخ کی ماں کا لونڈیوں کو حکم تھا کہ میرا آتش دان چوبیس گھنٹے روشن رکھیں۔ خود بھی دن میں دو تین مرتبہ پکار کے مجھ سے پوچھ لیا کرتیں کہ مجمرہ کا کیا حال ہے؟ ایک لوہے کی کیتلی آتش دان کی محراب میں زنجیر سے لٹکتی رہتی اور پانی ہر وقت جوش کھاتا رہتا جس وقت چاہو، قہوہ بنا کر گرم پی لو۔ چونکہ دیر تک جوش کھائے ہوئے پانی میں چائے بنانا ٹھیک نہیں۔ اس لیے میں اسے اُتار کر رکھا دیا کرتا، لیکن لونڈی پھر لٹکا دیتی اور کہتی کہ سِتی کا حکم ایسا ہی ہے۔ چائے بنانے کا یہی طریقہ میں نے شمالی ایران کے عام گھروں میں بھی دیکھا۔ آتش دان کی آگ صرف کمرہ گرم کرنے ہی کے کام نہیں لائی جاتی بلکہ باورچی خانہ کا بھی آدھا کام دے دیتی ہے۔ لوگ آتش دان کی آگ پر چائے کا پانی بھی گرم کرلیتے ہیں اور کھانا بھی پکا لیتے ہیں۔ اگر شمالی ایران کے لوگ ایسا نہ کریں تو اتنا ایندھن کہاں سے لائیں کہ کمروں کو بھی گرم رکھیں اور باورچی خانہ کا چولھا بھی سلگتا رہے؟ وہاں کے مکانوں میں آتش دان اتنے کشادہ ہوتے ہیں کہ کئی کئی دیگچیاں ان میں بیک وقت لٹک سکتی ہیں۔ آتشدان کی محراب میں تعمیر کے وقت حلقے ڈال دیے جاتے ہیں، ٹھیک اسی طرح کے جیسے ہمارے مکانوں کی چھتوں میں پڑے ہوتے ہیں۔ انہی حلقوں میں زنجیر ڈال دی اور کیتلی یا دیگچی لٹکا دی۔ بعض شہروں کی سرایوں کے ہر کمرہ میں آتشدان بنا ہے۔ جاڑوں میں سرائچی اَسی آتش دان پر پُلاؤ دم دے کر آپ کو کھلادے گا اور کہے گا"جائے گرم مگذارید و بخودرید"۔!
    اگست کے مہینے میں جب ہم یہاں لائے گئے تو بارش کا موسم عروج پر تھا اور ہوا خوشگوار تھی۔ بالکل ایسی فضا رہتی تھی، جیسی آپ نے جولائی اور اگست میں پونا کی دیکھی ہوگی۔ پانی یہاں عام طور پر بیس پچیس انچ سے زیادہ نہیں برستا لیکن پانی کی دوچار بوندیں بھی کافی خوشگواری پیدا کردیتی ہے۔ اُمس بہت کم ہوہوتی ہے۔ ہوا برابر چلتی رہتی ہے۔

    ستمبر اور اکتوبر اِسی عالم میں گزرا لیکن جب نومبر شروع ہوا تو طبیعت اس خیال سے افسردہ رہنے لگی کہ یہاں سردی کا موسم بہت ہلکا ہوتا ہے۔ چھاؤنی کا کمانڈنگ افسر جو پچھلا جاڑہ یہاں بسر کرچکا ہے، کہتا تھا کہ پونا سے کچھ زیادہ سردی تھی لیکن وہ بھی بہ مشکل دس بارہ دن تک رہی ہوگی۔ عام طور پر دسمبر اور جنوری کا موسم یہاں ایسا رہتا ہے جیسا دہلی اور پنجاب میں جاڑے کے ابتدائی دنوں کا ہوتا ہے۔ ان خبروں نے طبیعت کو بالکل مایوس کردیا تھا، لیکن جونہی دسمبر شروع ہوا، موسم نے اچانک کروٹ لی۔ دو دِن تک بادل چھایا رہا اور پھر جو مطلع کھلا، تو کچھ نہ پوچھیے موسم کی فیاضیوں کا کیا عالم ہوا؟ دہلی اور لاہور کے چلہ کا مزہ یاد آگیا۔ یہاں کے کمروں میں بھلا آتش دان کہاں؟ لیکن اگر ہوتا تو موسم ضرور ہوگیا تھا کہ میں لکڑیاں چننی شروع کردیتا۔ چیتہ خان جو ہر وقت خاکی تخفیہ (یعنی شارٹ) پہنے رہتا تھا، یکایک گرم سوٹ پہن کر آنے لگا اور کہنے لگا کہ سردی سے میرے گھٹنوں میں درد ہونے لگا ہے۔ چھاؤنی سے خبر آئی کہ ایک انگریز سپاہی جو رات کے پہرہ پر تھا، صبح نمونیا میں مبتلا پایا گیا اور شام ہوتے ہوتے ختم ہوگیا۔ ہمارے قافلہ کے زندانیوں کا یہ حال ہوا کہ دوپہر کے وقت بھی چادر جسم سے چمٹی رہنے لگی۔ جسے دیکھو، سردی کی بے جا ستانیوں کا شاکی ہے، اور دھوپ میں بیٹھ کر تیل کی مالش کرا رہا ہے کہ تمام جسم پھٹ کر چھلنی ہوگیا۔ حتیٰ کہ جو صاحب دہلی اور یوپی کے رہنے والے ہیں اور نینی تال کے موسم کے عادی رہ چکے ہیں، وہ بھی یہاں کے جاڑے کے قائل ہوگئے۔

    چناں قحط سالے شاد اندر دمشق
    کہ یاراں فراموش کرند عشق

    ضلع کا کلکٹر اسی علاقہ کا باشندہ ہے۔ وہ آیا تو کہنے لگا کہ سالہا سال گزر گئے میں نے ایسا جاڑہ اس علاقہ میں نہیں دیکھا۔ پارا چالیس درجہ سے بھی نیچے اتر چکا ہے۔ یہاں سب حیران ہیں کہ اس سال کونسی نئی بات ہوگئی ہے کہ اچانک پنجاب کی سردی احمد نگر پہنچ گئی۔ میں نے جی میں کہا: ان بے خبروں کو کیا معلوم کہ ہم زندانیوں اور خراباتیوں کی دعائیں کیا اثر رکھتی ہیں۔ رب اشعت مدفوع بالا بواب، لواقسم علی اللہ لا ابرہ۔

    فِدائے شیوہ رحمت کہ در لباسِ بہار
    بعذر خواہی زندانِ بادہ نوش آمد

    یہاں کے لوگ تو سردی کی سختیوں کی شکایت کر رہے ہیں، اور میرے دلِ آرزو مند سے اب بھی صدائے ہل مِن مزید اٹھ رہی ہے کلکتہ سے گرم کپڑے آئے پڑے ہیں، میں نے ابھی تک انہیں چھوا بھی نہیں۔ اس ڈر سے کہ اگر گرم کپڑے پہنوں گا تو سردی کا احساس کم ہوجائے گا اور تخیل کو جولانیوں کا موقع نہیں ملے گا، ابھی تک گرمیوں ہی کے لباس میں وقت نکال رہا ہوں۔ البتہ صبح اٹھتا ہوں تو اُونی چادر دُہری کرکے کاندھوں پر ڈال لیتا ہوں۔ میرا اور سردی کے موسم کا معاملہ تو وہ ہوگیا جو نظیری نیشاپوری کو پیش آیا تھا:

    اُد در وداع دمن بجزع، کزمئے و بہاد
    رطلے سہ چار ماندہ دروزے سہ چار خوش

    یہاں تک لکھ چکا تھا کہ خیال ہوا، تمہید ہی میں گیارہ صفحے سیاہ ہوگئے اور ابھی تک حرفِ مدعا زبان ِ قلم پر نہیں آیا۔ تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ ایک ماہ کی محرومی و انتظار کے بعد پرسوں چیتہ خان نےئ مژدہ کامرانی سنایا کہ بمبئی کہ آرمی اینڈ نیوی اسٹور نے وہائٹ جیسمین چائے کہیں سے ڈھونڈ نکالی ہے، اور ایک پونڈ کا پارسل وی پی کردیا ہے۔ چنانچہ کل پارسل پہنچا۔ چیتہ خاں نے اس کی قیمت کا گلہ کرنا شروع کردیا کہ تمہیں ایک پونڈ چائے کے لیے اتنی قیمت دینی پڑی۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ مجھے اس کی ارزانی نے حیران کردیا ہے۔ اس نایابی کے زمانے میں اگر اسٹور اس سے دوگنی رقم کا طلبگار ہوتا، جب بھی یہ جنس گرانمایہ ارزاں بھی:

    اے کہ می گوئی"چاجمے،بجانے می خری؟"
    ایں سخن باساقی ماگوکہ ارزاں کردہ است

    حسن ا دیکھیے کہ ادھر یہ پارسل پہنچا ادھر بمبئی سے بعض دوستوں نے بھی چند ڈبے چینی دوستوں سے لے کر بھجوا دیے۔ اب گرفتاری کا زمانہ جتنا بھی طول کھینچے، چائے کی کمی کا اندیشہ باقی نہیں رہا۔

    بہر حال جو بات کہنی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس ایک واقعہ نے صُبح کے معاملہ کی پوری فضا بدل دی ، اور جوئے طبع افسردہ کا آبِ رفتہ پھر واپس آگیا۔ اب پھر وہی صُبح کی مجلس طرب آراستہ ہے، وہی طبعِ سیہ مست کی عالم فراموشیاں ہیں، اور وہی فکر درماندہ کار کی آسماں پیمائیاں:

    گوہرِ فخزنِ اسرار ہما نست کہ بود
    حقہ مہر بداں مہر و نشانست کہ بود
    حافظا !باز نما قِصہ خونا بہ چشم
    کردریں چشمہ ہماں آب روانست کہ بود۔
    ابوالکلام​
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  13. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    مولانا کے عیش زندگی کا تصور بھی بہت خوب ہے۔ لیکن اگر اس میں آتشدان ، ہیٹر وغیرہ وغیرہ غائب کر دیا جائے نا تو پھر لگ پتہ جائے! اور پاکستانیوں کے ساتھ یہی مسئلہ ہے لہذا نو عیش! : )
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  14. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    "ترک و اختیار ، دونوں کا نقش عمل اس طرح ایک ساتھ بٹھائیے کہ آلودگیاں دامن تر کریں مگر دامن پکڑ نہ سکیں۔ اس راہ میں کانٹوں کا دامن سے الجھنا مخل نہیں ہوتا دامن گیر ہونا مخل ہوتا ہے۔ کچھ ضروری نہیں کہ آپ اس ڈر سے ہمیشہ اپنا دامن سمیٹتے رہیں کہ کہیں بھیگ نہ جائے۔ بھیگتا ہے تو بھیگنے دیجیے لیکن آپ کے دست و بازو میں یہ طاقت ضرور ہونی چاہیے کہ جب چاہا اس طرح نچوڑ کے رکھ دیا کہ آلودگی کی ایک بوند بھی باقی نہ رہی۔"
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  15. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    "لوگ ہمیشہ اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو بڑے بڑے کاموں کے لیے کام میں لائیں لیکن نہیں جانتے کہ یہاں ایک سب سے بڑا کام خود زندگی ہوئی یعنی زندگی کو ہنسی خوشی کاٹ دینا۔ یہاں اس سے زیادہ سہل کام کوئی نہ ہوا کہ مر جائیے ، اور اس سے زیادہ مشکل کام کوئی نہ ہوا کہ زندہ رہیے۔ جس نے یہ مشکل حل کر لی اس نے زندگی کا سب سے بڑا کام انجام دے دیا۔"
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  16. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    "یہ سچ ہے کہ جن مسئلوں کو دنیا سیکڑوں برس کی کاوشوں سے بھی حل نہ کر سکی ، آج ہم اپنی خوش طبعی کے چند لطیفوں سے انہیں حل نہیں کر سکتے تھے۔ تاہم یہ ماننا پڑے گا کہ یہاں ایک حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ایک فلسفی ، ایک زاہد ، ایک سادھو کا خشک چہرہ بنا کر ہم اس مرقع میں کھپ نہیں سکتے جو نقاش فطرت کے موقلم نے یہاں کھینچ دیا ہے۔ جس مرقع میں سورج کی چمکتی ہوئی پیشانی ، چاند کا ہنستا ہوا چہرہ ، ستاروں کی چشمک ، درختوں کا رقص ، پرندوں کا نغمہ ، آب رواں کا ترنم اور پھولوں کی رنگین ادائیں اپنی اپنی جلوہ طرازیاں رکھتی ہوں اس میں ہم ایک بجھے ہوئے دل اور سوکھے ہوئے چہرے کے ساتھ جگہ پانے کے یقیناً مستحق نہیں ہوسکتے ۔ فطرت کی اس بزم نشاط میں تو وہی زندگی سج سکتی ہے جو ایک دہکتا ہوا دل پہلو میں اور چمکتی ہوئی پیشانی چہرے پر رکھتی ہو اور چاندنی میں چاند کی طرح نکھر کر ، ستاروں کی چھاؤں میں ستاروں کی طرح چمک کر ، پھولوں کی صنف میں پھولوں کی طرح کھل کر اپنی جگہ نکال لے سکتی ہو۔"
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  17. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,966
    انسان کی زندگی اور احساسات
    "غور کیجیے تو انسان کی زندگی اور اس کے احساسات کا بھی کچھ عجیب حال ہے۔ تین برس کی مدت ہو یا تین دن کی، مگر جب گزرنے پر آتی ہے تو گزر ہی جاتی ہے۔ گزرنے سے پہلے سوچیے تو حیرانی ہوتی ہے کہ یہ پہاڑ سی مدت کیونکر کٹے گی؟ گزرنے کے بعد سوچیے تو تعجب ہوتا ہے کہ جو کچھ گزر چکا، وہ چند لمحوں سے زیادہ نہ تھا۔"
    مولانا ابوالکلام آزاد

    منقول ــ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  18. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    اس اقتباس کی بڑی ضرورت ہے آجکل دنیا کو!
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  19. مریم جمیلہ

    مریم جمیلہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مارچ 26, 2015
    پیغامات:
    111
    کھانے پینے اور ساز و سامان کی تکلیفیں ان لوگوں کو پریشان نہیں کر سکتیں جو جسم کی جگہ دماغ کی زندگی بسر کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ آدمی اپنے آپ کو احساسات کی عام سطح سے ذرا بھی اونچا کر لے، تو پھر جسم کی آسایشوں کا فقدان اسے پریشان نہیں کر سکے گا۔ ہر طرح کی جسمانی راحتوں سے محروم رہ کر بھی ایک مطمئن زندگی بسر کر دی جا سکتی ہے؛ اور زندگی بہرحال بسر ہو ہی جاتی ہے۔
    رغبت جاہ چہ و نفرت اسباب کدام!
    زیں ہو سہا بگذر یا نگذر، می گذرد
    (#حکمت آزاد)
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 4
  20. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    واقعی!!
    بہت عمدہ!
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں