منشیات کا استعمال )تاریخ کے آئینے میں(

شكيل احمد خان نے 'صحت و طب' میں ‏جولائی 1, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. شكيل احمد خان

    شكيل احمد خان -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏جون 27, 2013
    پیغامات:
    11
    کرۂ ارض آج منشیات کے حصار میں ہے۔ جہاں جہاںتہذیب نو موجود ہے ممکن نہیں کہ وہاں نشہ آور اشیاء موجود نہ ہوں۔ کبھی آپ نے سوچاہے کہ کیا دنیا میں کروڑوں افراد اچانک نشہ کے عادی بن گئے ہیں یاآغاز ہی سے ایسا ہے۔ اگر یہ سلسلہ پرانا ہے تو اقوام متحدہ، امریکہ اور یورپ کو اس پر پہلے کبھی تشویش کیوں نہیں ہوئی اور اگر نیا ہے تو کن حالات نے لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کو دنیا سے فرار کے راستہ کو اختیار کرنے پر مجبور کیا۔
    باتیں دونوں ہی قابل غور ہیں اور اگر آپ ذرا سا دماغ پر زور دے کر سوچیں تو ان کی تہہ میں پنہاں بے شمار وجوہات آپ کے سامنے اظہر من الشمس ہو جائیں گی۔
    منشیات سے مراد ایسی دوائیں ہیں جن کے استعمال سے سرور و انبساط کی کیفیت محسوس ہو۔ دنیا سے بے نیازی اور بے خودی کی کیفیت طاری ہو جائے اور نیند، بے ہوشی، مدہوشی اور بدمستی طاری ہو کر تمام دکھ درد بھول جائیں۔ شروع شروع میں تو سکون کا متلاشی بے انتہا فرحت محسوس کرتا ہے مگر جب نشہ ہرن ہوتا ہے تو اس کی طلب پھر بے چین کر دیتی ہے اور اس کے حصول کےلئے وہ پھر کوشاں ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ اسکی زندگی کا مقصد ہی نشہ کرنا رہ جاتا ہے۔
    دنیا میں پانچ سو سے زائد ایسے مرکبات یا مفردات ہیں جنہیں بطور نشہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ان میں سے معروف نام شراب، بھنگ، چرس، گانجا، افیون، سگریٹ، حقہ، کافی، قہوہ، کوکو،چائے اور ’’افیون‘‘ کے مشتقات میں سے نارکوٹین، نازینین، مارفین، ہیروئن اور کوڈینہیں۔ یہ بات بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ شراب ’’مشروب مغرب‘‘ ہے۔ تمباکو امریکہ اور یورپ والوں کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔ افیون سے اخذ کی جانے والی ان تمام بلاؤں کی ایجاد کا سہرا بھیتقریباً امریکہ کے سر ہےاور اسی نے دنیا کو ان سے متعارف کروایا ہے۔ کیا اسلامی حکومتیں امریکہ سے بااصرار یہ بات منوا سکتی ہیں کہ افیون اور ہیروئن کی طرح شراب اور تمباکو کے تاجران کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے اور ان کے استعمال پر بھی پابندی لگائیجائے۔ اگر کچھ نشوں کو سند جواز بخشا جائے اور کچھ کو قابل نفرت تو آخر اس کی بھی کوئی خاص وجہ ہوگی؟
    شراب ام الخبائث ہے۔ یہ دماغ میں فتور پیدا کرتیہے، عقل و خرد کو قتل کر دیتی ہے، ہوش و حواس سے بیگانہ کر دیتی ہے، برے بھلے کیتمیز مٹا دیتی ہے۔ اسلام ہی میں نہیں عیسائیت اور یہودییت میں بھی اس کا استعمال قطعاً حرام ہے۔ کیا امریکی حکومت نے عالمی سطح پر یا کم از کم اپنے ملک ہی میں اس کے خلاف کوئی مہم شروع کی……آپ کا جواب یقیناًنفی میں ہوگا۔ وجہ بہت واضح ہے، امریکہ درحقیقتدولت کے پجاری ’’یہودیوں‘‘ کے قبضہ میں ہے اور ان کی سب سے بڑی کمزوری پیسہ ہے۔ اگرچہ وہ خود بھی اس کی زلف گرہ گیر کےاسیر ہیں لیکن دیگر ممالک خصوصاً اسلامی دنیا کو شراب برآمد کر کے انہیں اربوں ڈالر ماہوار کی آمدنی ہوتی ہے۔ چونکہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے ایمان پر بھی ڈاکہ پڑتا ہے اور جیبوں پر بھی اور اپنی تجوریاں بھی بھری جاتی ہیں، اس لئے شرابخانہ خراب کا استعمال تہذیب جدید کے عین مطابق ہے اور جو اس کی مخالفت کرے یا محفل میں جام کو ہاتھ نہ لگائے وہ ’’بنیاد پرست‘‘ ہے۔
    امریکہ میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق شراب پی کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد دیگر منشیات سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ دنیا میں ہونے والے ٹریفک کے نصف سے زائد حادثات کا سبب شراب نوشی ہے اور آدھے سے زیادہ جرائم کی وجہ بھی شراب ہے۔
    نصف صدی پہلے ایک جرمن ڈاکٹر نے یہ بات کہی تھی۔ ’’تم شراب کی آدھی دکانیں بند کردو تو میں تمہیں آدھےہسپتال، جرائم کے اڈے اور جیلوں کے بند ہو جانے کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘
    کیا امریکہ اور یورپ کی حکومت نے اپنے ہی ڈاکٹروں، محققین اور سروے رپورٹوں کی روشنی میں شراب کے اڈے تباہ کرنے کی کوئیمہم چلائی؟……ہر گز نہیں……اور اس کا واحد سبب یہ ہے کہ شراب کشید کرنے کے لئے سب کچھ انہیں اپنے ہاں سے ہی مل جاتا ہے اور اس پر زر مبادلہ خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ اس لئے دولت کی ہوس میں مبتلا اس قوم کو شراب کے بارے میں کوئی تشویش نہیں ہے۔
    ایک اور اہم نشہ تمباکو ہے۔ دوسرے تمام نشے استعمال کرنے والے ابتداء تمباکو نوشی سے کرتے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ تمباکو کی پیدائش اور استعمال امریکی ریاستوں میں ہوتا ہے۔ اب بھی سگریٹ اور پائپ کے ذریع امریکہ کھربوں ڈالر سالانہ کا زر مبادلہ کماتا ہے۔ برصغیر میں سگریٹکو متعارف کرانے والے اورلوگوں کو اس کا عادی بنانے والے بھی اہل مغرب ہی ہیں۔ ایک مغربی ماہر نفسیات نے اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ جو افراد سگریٹ پی سکتے ہیں وہ کوکین، مارفین اور ہیروئن کے بھی عادی ہو سکتے ہیں۔
    آج کل دنیا بھر میں ’’کولا‘‘ ٹائپ کے مشروبات کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ ان میں بھی کئی اقسام کے نشوں کی آمیزش ہوتی ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک اپنے قومی مشروبات کو بھلا کر انکے عادی ہو گئے ہیں۔ پوری دنیا میں وسیع پیمانے پر تشہیر کر کے انہیں ہر فرد اور ہر گھر کی ضرورت بنا دیا گیا ہے۔ ان فرموں کےمالکان کہاں کے باشندے ہیں، پوری دنیا سے حاصل ہونے والی ان کی آمدن سمٹ سمٹا کر کہاں جاتی ہے؟ اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔
    اب آئیے اس ’’فتنہ عظیم‘‘کی طرف جسے افیون کہاجاتا ہے۔ اگرچہ یہ برصغیر پاکستان و ہند، ایران، افغانستان وغیرہ کی پیداوار ہے لیکن اس علاقہ میں اس کو لانے والا یونانی فاتح سکندر اعظم تھا۔ انگریزوں نےجب ہندوستان پر قبضہ کیا تو سب سے پہلے افیون کی تجارت کو قابو کیا اور کاشتکاروں پر پابندی لگا دی کہ وہ صرف انگلش سرکار کوتمام کی تمام فصل فروخت کریں۔
    مقامی آبادی کو وہ ڈپوؤں کے ذریعہ لائسنس ہولڈرز کو معمولی مقدار مہیا کر کے باقی چین اوردوسرے ممالک کو برآمد کرتا تھا۔ یہ مقدار بلامبالغہ ٹنوں کے حسابسے چین بھیجی جاتی تھی۔ انگریز حکومت اور امریکی سمگلر مل کر یہ خدمت سر انجام دیتے تھے۔ اس طریقہ سے ہندوستان سے ہونے والی آمدن کا 20 فیصد انگریزوں کو افیون کی تجارت سے حاصل ہوتا تھا۔ تاج برطانیہ اور چین کے درمیان ’’جنگ افیون‘‘ کے نام سے دو معرکے بھی ہوئے جسکے نتیجہ میں چین کو ہانگ کانگ سے ہاتھ دھونا پڑا۔
    انگریزوں کی اس سازش نے چین کو افیون کا اس حد تک نشئی بنا دیا کہ ایک سروے کے مطابق 1913ء میں آبادی کا ہر چوتھا آدمی افیون استعمال کرتا تھا۔ امریکی خود افیون کے دوائی خواص کے اس حد تک مداح تھے کہ انیسویں صدی کے آخر میں شمالی امریکہ میں تیار ہونے والی ادویات میںسے 78فیصد میں افیون شامل ہوتی تھی۔ 1888ء میں بوسٹن کے میڈیکل سٹورز کا ایک سروے کیا گیا تو پتہ چلاکہ 1800 نسخوں میں سے 1481ء میں افیون شامل ہے۔
    انیسویں صدی میں یورپ میں اس کی مقبولیت بے پناہ تھی۔ بڑے بڑے دانشور، زعماء اور طبقائے امراء راحت و سکون حاصل کرنے اور دردوں سے نجات کے لئے فخریہ اس کا استعمال کرتے تھے۔ معروف انگریز مصنف سموئیل کولرج نے اپنی مشہور تصنیف ’’قبلائی خان‘‘ پوری کی پوری افیون کے نشہ میں ڈوب کر لکھی۔
    اہل مغرب کا ایک کارنامہ یہ ہے کہ اس نے افیون کے انتہائی نقصان دہ جوہروں کو اس سے الگ کر کے مسکن درد، مقوی قلب، بے ضرر اور سکون آور قرار دے کر اشتہار بازی کے ذریعہ اس کو فروغ دیا۔ 1813ء میں صارفین کو افیون سے کشید کئے گئے جوہر کو دافع درد سر اور خواب توڑ قرار دے کر خصوصاً جنگ کے زخمی سپاہیوں کو اس صدی کے آخر تک استعمال کرایا گیا۔ جس کی وجہ سے اس کا نام ہی ’’فوجیوں کی دوا‘‘ پڑ گیا حالانکہ یہ افیون سے 10گنا زیادہنقصان پہنچاتا ہے۔ ہیروئن پہلی بار دنیا میں امریکہ میں متعارف کرائی گئی۔ 1890ء میں بہت بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ اسے امراض قلب کے لئے سب سے بہتر دو اقرار دیا گیا اور لوگوں کو یہ باور کرایاگیا ہے کہ اس سے زیادہ بے ضرر مسکن اور خواب آور دوا کوئی نہیںحالانکہ یہ افیون سے 80 گنا زیادہ نشیلی ہے۔
    1898ء میں امریکہ میں اسے ڈائی سیٹائل مارفین(Diacetyl Morphine)کے نام سے باقاعدہ پریکٹس میں شامل کیا گیا۔ انیسویں صدی کے آخر میں ہی جرمنی کی ایک فرم سے تیار کروا کے انتہائی وسیع پیمانےپر مارکیٹ میں یہ کہہ کر متعارف کرایا کہ درد دل سے فوری نجات کے لئے یہ مارفین سے زیادہمؤثر اور نشہ سے بالکلپاک ہے۔ اہل مغرب نے مارفین اور ہیروئن کے علاوہ 25 نشیلے اجزاء نکالے ہیں جن میں گوڈین(Goodain)پاپاویرین(Papaverine)تھی بین(Thebaine)نارمنین(Narcene)اور نار کوٹین(Narcotine)اہم ہیں۔ آخر الذکر کی وجہ سے ہی اب ہر نشہ آور چیز کو نارکوٹک(Narcotics)کہا جاتا ہے۔
    افیون در حقیقت خشخاش کے پودے کے کچے پھل کا منجمد رس ہے۔ خشخاش بذات خود نقصان دہ نہیں ہے۔ طب اسلامی اور ویدک میں بے شمار امراض کے لئے مفید ہے۔بے خوابی کو دور کر کے نیند لاتی ہے لیکن نشیلی نہیں ہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ خشخاش کے پھل کا رس اور اس سے حاصل ہونے والا معمولی سا جزو اگر نشہ آور ہے تو باقی پودے کے اجزاء کو کیوں تلف کیا جائے یا ان کی فصلوں کو جبرا کاٹ پھینکا جائے یا کاشت پر پابندی لگائی جائے۔ اس کی مثال بالکل واضح ہے۔ انگور اور کھجور سے شراب کشید کی جاتی ہے لیکن اسلامی شریعت میں نہ ان کے اگانے پر پابندی ہے۔ نہ دیگر استعمالات پر بلکہ انگورسے سرکہ تک بنانے کی اجازت ہے لیکن جب خمیر پیدا ہو کر نشہ دینے لگے تو پھر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ افیون دنیا بھر میں ہزارہا سال سے مستعمل ہے۔ قدیم یونانی اس دوا سے متعارف تھے۔ بقراط کا ہم عصر ریاگوراس اس کے استعمال سے واقف تھا اور دماغی اور نخاعی امراض کے لئے مریضوںکو دیتا تھا۔ حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے 300 سال قبل حکیم ثاؤفر طس اور دسقیوریدوس نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے۔ جالینوس، پلاٹینی رومی، بو علی سینا اور رازی نےافیون کی افادیت بیان کی ہے۔ چودھویں صدی میںشائع ہونے والی ایورویدککی معروف تصنیف شارنگندھر اور سولہویں صدی میں بھاؤمشر میں اس کے سن کرنے اور نیند لانے کی کیفیت کا تذکرہ موجود ہے۔ برصغیر کے تمام معروف اطبائے کرام اور وید اسے استعمال کراتے تھے۔ کوئی طبیاور ویدک تصنیف ایسی نہیں ہے جس میں تیار ہونے والی ادویہ میں افیون بعض امراض میں مفید نہ تسلیم کی گئی ہو۔ 1979ء میں حدود آرڈیننس کے نفاذ سے پہلے تک پاکستان میں آٹے اور چینی کے ڈپوؤں کی طرح افیون کے ڈپو بھی تھے لیکن کھلے عام ڈپوؤں پر اور سستی ملنے کے باوجود افیونیوں کی تعداددیہاتوں اور قصبوں میں انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔ شہروں کے اندر کسی کسی محلہ میں شاذ ہی کوئی افیمی ہوتا تھا اور اسے بھی لوگ برداشت نہیں کرتے تھے۔ حکماء اور وید جن مریضوں کو ایسی دوا دیتے تھے جن میں افیون شامل ہو، انہیں دودھ اور گھی کثرت سے استعمال کرنے کی تاکید کرتے تھے تاکہ اس کا کوئی منفی اثر نہ ہو اور اس دوا میں افیون کے نشیلے اثر اور خشکی کو دور کرنے والے مصلح بھی ڈالے جاتے تھے۔ وہ اہل مغرب کی طرح اس کے زہریلے اثرات کو شفا بخش ظاہر کر کے لوگوں کو دھوکہ نہیں دیتے تھے۔
    امریکہ اور اقوام مغرب افیون کے نقصانات کی وجہ سے اور منشی ہونے کی بنا پر اس کے خلاف عالمی تحریک نہیں چلا رہے بلکہ
    ؎ سبب کچھ اور ہے جس کو تو خود سمجھتا ہے
    اور وہ سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ امریکی ہپیوں اور یورپی نشہ بازوں کو سکون مغرب کی شراب کے بجائے مشرق کی افیون سے ملتاہے اور جب 400 روپے کلو گرام بکنے والی افیون سے ہیروئن برآمد ہو کر پاکستان ہندوستان کے ڈرگ مافیا کے ایجنٹوں کے پاس پہنچتی ہے تو اس کی قیمت ایک لاکھ روپے کلو گرام اور امریکہ میں بریف کیس کی تبدیلی کے بعد کم از کم پچاس لاکھ روپے فی کلو گرام ہو جاتی ہے۔ مغرب جو اس بات کا عادی تھا کہ مشرق سے انتہائی سستے داموں خام مال خریدتا تھا اور اس سے مصنوعات تیار کر کے انہیں بیسیوں گناقیمت پر بیچ دیتا تھا، اس معاملہ میں مات کھاگیا اور لاکھوں گورے نشئی اس سے ہم وصل ہونے کے لئے اپنا سب کچھ اس پر قربان کرنے کو تیار ہو گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی ڈالر اور برطانوی پاؤنڈ جس کے حصول کے لئے وہ سب کچھ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں، ان کا رخ مشرق کی طرف ہو گیا اور چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے کے مصداق اپنی دولت کو بچانے کے لئے انہوں نے ’’نشہ کے خلاف جہاد‘‘ کا نعرہ لگایا۔ اگر امریکہ میں ہی ہیروئن سازی کے فیکٹریاں رہتیں اور مشرق میں قائم نہ ہوتیں تو 1981ء سے پہلے کی طرح انہیں اب بھی کوئی تکلیف نہ ہوتی۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ مقدار میں افیون بھارت میں پیدا ہوتی ہے۔ سب سے زیادہ مارفین اور ہیروئن وہاں تیار ہوتی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ مطعون پاکستان اور افغانستان کوکیا جاتا ہے۔ جو قوم منشیات میں لتھڑی ہوئی ہو اسے یہ حق کس نے دیا کہ وہ افغانستان اور پاکستان کے غیور عوام پر زبان طعن دراز کرے۔
    دوسری طرف منشیات کے بارے میں اسلام کی ایک واضح پالیسی ہے جس میں نہ مفادات کا کوئی دخل ہے ،نہ اپنی مرضی سے کسی نشے کو حرام یا حلال کیا جا سکتا ہے ،نہ اس میں کسی کے لئے استثنیٰ ہے۔
    حضرت عبداللہ بن عمرؓ راوی ہیں کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’کل مسکر حرام‘‘)ہر نشہ آور چیز حرام ے۔( ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاطیب اعظم صلی اللہ علیہ وسلمکے فرمان کو زیادہ وضاحت کے ساتھ روایت کرتی ہیں۔ ’’کل مسکر خمر و کل خمرحرام‘‘ )ہر نشہ آور چیز عقل کو ڈھانپتی ہے اور عقل کو ڈھانپ لینے والی ہر چیز حرام ہے(۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاطبیب جسمانی و روحانی کا فرمان بیان کرتی ہیں کہ قویٰ میں سستی پیداکرنے اور نشہ پیدا کرنے والی کسی چیز کو استعمال نہ کرو۔ ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا کہ صحت کو نقصان پہنچانے والی، ناخوشگوار اور ہر ناپاک چیز صریحاً حرام ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سید انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس چیز کا زیادہ استعمال نشہ لائے اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے۔ حضرت طارق بن سویدرضی اللہ عنہ نے سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ میں بیمار ہوں اور علاج کے لئے شراب کو بطور دوا استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’یہ دوا نہیں بیماری ہے۔‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک قول روایت کیا ہے جس میں آپ نے خبیث دواؤں کے استعمال سے منع فرمایا ہے۔
    اسلام نے ہر شخص کے لئے پانچ بنیادی ضروریات کی حفاظت کو لازمی قرار دیا ہے۔ دین، مال، جان، عزت اور عقل۔ اس لئے وہ چیزیں جو عقل کو ڈھانپ لیتی ہیں یا نقصان پہنچاتی ہیں، ان سے بچانا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا جہان کے لئے رحمت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خون کے پیاسوں پر بھی کبھی لعنت نہیں فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے حقیقی چچا سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتلین پر بھی لعنت نہیں فرمائی لیکن شراب خانہ خراب اتنی بڑی چیز ہے کہ اس کے ساتھ نسبت رکھنے والی ہر چیز پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے لعنت فرمائی ہے۔
    حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ابو القاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شراب پر، اس کے پینے والے پر، پلانے والے پر، بیچنے والے پر، خریدنے والے پر، اٹھانے والے پر، جس کی طرف اٹھا کر لے جائی جا رہی ہو اس پر، نچوڑنے والے پر، نچڑوانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنی روایت میں مزید اضافہ کرتے ہیں ’’جس کے لئے خریدی گئی اس پر بھی لعنت اور اس کی قیمت کھانے والے پر بھی لعنت۔‘
    از محسن فن حکیم عبدالوحید سلیمانى‘
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں