علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ از عمر فاروق قدوسی

اہل الحدیث نے 'مسلم شخصیات' میں ‏جولائی 3, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    علامہ ناصر الدین البانی
    (حیات و خدمات)


    از عمر فاروق قدوسی​


    علامہ ناصر الدین البانی کا شمار ان عظیم المرتبت شخصیات میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے علمی تاریخ کے دھارے کا رخ بدل دیا۔ شیخ البانی نے اپنی خدماتِ حدیث سے امت میں احادیث کی جانچ پرکھ کا شعور زندہ کیا۔ یہ بات نہیں کہ امت مسلمہ میں وہ اس اسلوب کے موجد تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس اسلوب کے مجدد تھے۔ امام بخارینے خواب میں دیکھا کہ وہ نبی کریم کے جسد اطہر پر موجود مکھیوں کو اڑا رہے ہیں۔ انہوں نے الجامع الصحیح مرتب کر کے اپنے اس خواب کو تعبیر کا روپ دیا۔ بارہ سو سال بعد علامہ ناصر الدین البانی نے حدیث رسول پر ایک وقیع کام سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ اور سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ کی شکل میں انجام دیا اور کھوٹے اور کھرے کو الگ الگ کر دیا۔ ان کی تالیفات‘ ان کے دروس و مواعظ اور ان کے جلیل القدر تلامذہ نے لوگوں کی سوچوں کے انداز بدل کر رکھ دیے۔ اب لوگ حدیث شریف کے صرف متن پر مطمئن نہیں ہوتے بلکہ جب ان کے سامنے کوئی حدیث پیش کی جائے تو وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں بتایا جائے کہ یہ حدیث صحیح ہے یا حسن یا ضعیف۔
    احادیث کے متعلق فکر کا یہ شعور درحقیقت علامہ البانی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ ان کے دیگر علمی کارنامے بلاشبہ لائق تحسین ہیں اور بعض تو بے مثال ہیں۔
    آیندہ سطور میں اس عالم ربانی کے مختصر حالات درج کیے جاتے ہیں۔
    علامہ ناصر الدین البانی چھ بھائی تھے اور آپ کے والد نے سب کا نام محمد ہی رکھا تھا۔ البتہ ان میں امتیاز کرنے کے لیے ہر ایک کے نام کے ساتھ ایک نام اور لگا دیا تھا۔ شیخ کا پورا نام محمد ناصر الدین تھا۔ آپ ۱۹۱۴ء میں البانیہ کے دارالحکومت اشقودر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نوح نجاتی البانی ایک بڑے حنفی فقیہ تھے۔
    شاہ احمد زوغ البانیہ کا بادشاہ تھا۔ اس نے عثمانی سلطنت سے آزاد ہو کر ملک میں مغربی تہذیب و ثقافت کو پروان چڑھانا شروع کر دیا اور اہل دین کے لیے مشکلات پیدا کرنا شروع کر دیں۔ علامہ البانی کے دوراندیش والد نے دمشق کی جانب ہجرت میں عافیت سمجھی اور وہ البانیہ سے شام چلے آئے۔ اس بادشاہ کے پھیلائے ہوئے اس شر سے امت مسلمہ کو بہت بڑی خیر نصیب ہوئی۔ علامہ البانی فرماتے تھے کہ ’’اللہ تعالیٰ میرے والد محترم کو جزائے خیر دے کہ وہ مجھے البانیا سے ملک شام ہجرت کر کے لائے۔ ورنہ میں اگر وہاں رہا ہوتا تو من اجھل الجاھلین ہوتا۔ شیخ البانی نے ابتدائی تعلیم جمعیۃ اسعاف الخیریہ کے سکول سے حاصل کی۔ پھر ان کے والد نے اپنے بیٹے کے لیے ایک خصوصی نصاب مرتب کیا۔ علامہ البانی نے اپنے والد سے دینی تعلیم حاصل کی۔ بعض اور اساتذہ سے بھی انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ علامہ البانی کے والد انہیں ایک حنفی عالم بنانا چاہتے تھے لیکن قدرت الٰہی کو کچھ اور منظور تھا۔ شیخ البانی کو بچپن سے ہی مطالعے کا شوق تھا۔ بیس برس کی عمر میں انہوں نے علامہ رشید رضا مصری کا المنار پڑھا۔ اس کے مطالعے نے ان کے دل میں علم حدیث کے حصول کی تڑپ پیدا کی۔ اس دور میں انہوں نے امام غزالی کی احیاء العلوم کی تخریج کی جو کہ علامہ عراقی نے کی تھی۔ اس کو نقل کیا اور اس پر تحقیق کی۔ یہ دو ہزار سے زیادہ صفحات کا کام تھا جو کہ شیخ البانی نے مکمل کیا۔ یہ علامہ البانی کی علم حدیث کی پہلی خدمت تھی۔ شیخ البانی کو طعنے بھی سننے پڑے اور اس کا آغاز ان کے اپنے والد کی ہی جانب سے ہوا جنہوں نے علم حدیث کو مفلس لوگوں کا پیشہ قرار دیا۔ علامہ البانی کے والد نے انہیں صاف صاف کہہ دیا کہ یا تو حنفی مقلد بن کر رہو ورنہ گھر چھوڑ دو۔ چنانچہ علامہ البانی کو گھر بار سے دستبردار ہونا پڑا۔ لیکن انہوں نے اپنے پایہ استقامت میں کسی طرح کی کوئی لغزش نہ آنے دی۔
    علامہ ناصر الدین البانی نے حصول علم کے لیے جس جگہ سے سب سے زیادہ استفادہ کیا وہ دمشق کا مکتبہ الظاہریہ تھا۔ علامہ البانی کا اکثر وقت الظاہریہ لائبریری میں گزرتا۔ ان کے والد گھڑی ساز تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو گھڑی سازی کا فن سکھایا اور اس میں طاق کر دیا۔ علامہ دن میں صرف ۳ گھنٹے کام کرتے اور بقیہ وقت مکتبہ الظاہریہ میں چلے آتے۔ وہاں وہ گھنٹوں مطالعے میں مصروف رہتے۔ لائبریری میں ان کے لیے ایک علیحدہ کمرہ مخصوص تھا۔ لائبریری انتظامیہ نے انہیں لائبریری کی ایک چابی بھی دے رکھی تھی‘ چنانچہ علامہ البانی لائبریری کے عملے سے پہلے آتے اور ان کے جانے کے بعد تھکاوٹ سے چور ہو جاتے تو گھر کا رخ فرماتے۔ علامہ البانی نے اس مکتبہ میں موجود دس ہزار کے لگ بھگ مخطوطات کی فہرست مرتب کی۔ اس فہرست کی تیاری ایک مشکل اور جان جوکھوں کا کام تھا جو کہ علامہ البانی نے تنہا انجام دیا۔۱؎
    علامہ البانی نے صرف تصنیف و تالیف نہیں کی بلکہ وہ بہت بڑے داعی بھی تھے۔ باطل عقائد و افکار کے حامل افراد سے انہوں نے درجنوں مناظرے کیے۔ دمشق کے قرب و جوار میں بھی اور دور دراز کے علاقوں میں بھی انہوں نے تبلیغی دورے کیے‘ وہاں دروس دیے۔ آج شیخ البانی کے دروس و مواعظ ہزاروں کی تعداد میں دستیاب ہیں جو کہ ان کی دعوتی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
    علامہ البانی کا درس و تدریس کا ایک مخصوص حلقہ تھا۔ جس میں طلبہ و اساتذہ شرکت کرتے تھے۔ اس حلقے میں پڑھائی جانے والی کتب میں فتح المجید شرح کتاب التوحید‘ الروضۃ الندیہ‘ الالمام فی احادیث الاحکام‘ اصول الفقہ وغیرہ کتب شامل تھیں۔ خواتین کے لیے شیخ البانی نے الادب المفرد کے درس کا اہتمام فرمایا تھا۔
    علامہ ناصر الدین البانی جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں بھی تین سال تک استاد رہے۔ وہاں انہیں تلامذہ کا ایک وسیع حلقہ میسر آیا۔ جن میں سے بعض بہت نامور ہوئے‘ اور وہ بین الاقوامی شہرت کے حامل ٹھہرے مثلاً : علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید‘ شیخ مقبل بن ہادی‘ شیخ ربیع بن ہادی مدخلی اور شیخ عبدالرحمن عبدالخالق۔
    علامہ البانی نے بھی کلمہ حق کہنے کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ حکومت شام نے انہیں دو مرتبہ جیل بھیجا۔ جیل میں بھی اس داعی کتاب و سنت نے تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیا اور قیدیوں کے عقائد کی اصلاح کی۔ شیخ البانی کو ایک مرتبہ دمشق کی ’’القلعہ‘‘ نامی جیل میں ڈالا گیا۔ یہ وہی جیل تھی کہ جس میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ بھی رہے تھے۔
    شیخ ناصر الدین البانی کی ساری زندگی درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں گزری۔ ان کی مؤلفات اور تعلیقات کی تعداد دو سو سے زائد ہے۔ ان میں وہ کتب بھی شامل ہیں کہ جن پر شیخ نے تحقیق و تخریج کی ہے۔ ان میں سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ اور سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ علامہ البانی کی کچھ معروف کتب درج ذیل ہیں۔
    مختصر صحیح بخاری۔ صحیح و ضعیف سنن اربعہ۔ التوسل انواعہ و احکامہ۔ تحذیر الساجد من اتخاذ القبور مساجد۔ ارواء الغلیل۔ صحیح الجامع الصغیر۔ صحیح الترغیب و الترھیب۔ آداب الزفاف۔ غایۃ المرام فی تخریج احادیث الحلال و الحرام۔ جلباب المرأۃ المسلمۃ۔ تمام المنۃ۔ تحریم آلات الطرب۔
    شیخ البانی کی ایک خوبی جو انہیں بہت ممتاز کرتی ہے‘ وہ ان کا اپنی غلطی تسلیم کرنا اور اپنے مؤقف سے رجوع کرنا ہے۔ شیخ البانی سے بعض مقامات پر سرزد ہونے والی علمی خطائوں کی ان کے ناقدین نے نشان دہی کی تو انہوں نے بلا تامل نہ صرف اپنے مؤقف سے رجوع کیا بلکہ اس کا اعلان بھی کیا۔ اس کی کئی ایک مثالیں ان کی کتب میں ملتی ہیں۔ طوالفت کے خوف سے ان کے ذکر سے اجتناب کرتا ہوں۔
    شیخ البانی نے اپنی تمام تر مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتب و لائبریری جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے لیے وقف فرما دی۔ وہاں شیخ نے ۳ سال تک تعلیم دی تھی۔ دنیا بھر سے وہاں طالب علم آتے ہیں‘ اس لیے شیخ کو یقین تھا کہ وہ طلباء ضرور ان کتب و مخطوطات سے مستفید ہوں گے۔
    شیخ البانی نے ۲۲ جمادی الاخریٰ ۱۴۲۰ھ کو اردن کے شہر عمان میں وفات پائی۔ انہیں ان کی وصیت کے مطابق وفات کے بعد بہت جلد دفن کر دیا گیا۔ نماز عصر اور مغرب کے درمیان شیخ نے وفات پائی اور نماز عشاء کے بعد ان کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی۔ شیخ نے وصیت فرمائی تھی کہ ان کی وفات کی اطلاع ان کے اعزہ و اقارب کو نہ دی جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی آمد کے انتظار میں تدفین میں تاخیر ہو‘ چنانچہ شیخ کی وصیت پر عمل کیا گیا۔ انہیں ان کی وصیت کے مطابق قریبی قبرستان لے جایا گیا۔ جنازہ کسی گاڑی میں رکھنے کے بجائے کندھوں پر اٹھایا گیا اور لوگ جنازے کے ہمراہ پیدل تھے۔ یہ بھی شیخ کی وصیت تھی کہ میری تدفین انتہائی قریبی قبرستان میں ہو تا کہ لوگوں کو جنازے کے ساتھ سفر کرنے کی تکلیف نہ ہو۔

    ------------------------------------------------
    ۱؎ ذرا دس ہزار مخطوطات کو اپنے حاشیہ خیال میں لائیے اور پھر ان کی فہرست کی ترتیب کے کام کا تصور کیجیے۔ پھر اندازہ ہو گا کہ علامہ البانی نے کس مشقت اور جاں فشانی سے یہ کام مکمل کیا۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 4
  2. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
  3. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاک اللہ خیرا وبارک فیک
     
  4. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    جزاک اللہ خیرا اہل الحدیث بھائی
     
  5. انا

    انا -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 4, 2014
    پیغامات:
    1,400
    جزاک اللہ خیرا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں