انقلابیات خالی برتنوں کے شور سے انقلاب نہیں آتا ۔ خالی برتنوں کا بلند آہنگ شور دلیل کے علاوہ "کچھ بھی" ہو سکتا ہے۔ خالی برتنوں کے ٹکراو سے ہونے والی توڑ پھوڑ نہ قربانی ہوتی ہے نہ شہادت ، اسے تخریب کہتے ہیں جس کے ملبے کو تعمیر ِ نومیں استعمال کرنا بھی مشکل ہوتا ہے ۔ امت کے نعمت خانے میں خالی برتنوں کے تسلط کو خلافت نہیں ویرانی کہہ سکتے ہیں ۔ دلیل کے جواب میں بہرے بن کر زور زور سے بجنے والے خالی برتن ایک دن سچ مچ بہرے ہو جاتے ہیں کیوں کہ شور ثقل سماعت کا عارضہ ضرور لاتا ہے ۔ دنیا کینسر اور طاعون سے ہونے والی اموات میں کمی لانے پر محنت کر رہی ہے اور خالی برتنوں کے قائد میدانِ انقلاب میں جانوں کی قربانی مانگ رہے ہیں جب کہ خود صرف داڑھیوں کی قربانی دے کر روپوش ہو جاتے ہیں ۔ نئیرلی مائنڈ لیس لیڈرز ۔ خالی برتنوں کو ردعمل میں کھل کر بجنے کی اجازت ہے ۔ تحریر : ناچیز
کیا لفظ انقلاب کا اسلام سے کوئی تعلق ہے؟ رہنمائی فرمائیں ، اور یہ بھی کہ یہ "لفظ انقلاب" مسلم دنیا میں کب سے مستعمل ہے؟
دراصل قصور خالی بھانڈوں کا نہیں، ان کا تو کام ہی شور مچانا ہے، قصور ان کا ہے جو ان کو ترتیب سے سنبھال نہیں پاتے ۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ ان کے بار بار گرنے لڑھکنے اور شور مچانے سے سمجھتے ہیں کہ شاید اب یہ اپنی مناسب جگہ پر جم کر بیٹھ گئے ہیں۔
نجانے کیون صبح سے ہی یہ مصرعہ کچھ تبدیلی کے ساتھ ذہن میں گونج رہا ہے۔ " جن کی قسمت میں ہو بجنا و بجا کرتے ہیں" اب برتن اپنی مرضی سے تو بج نہیں سکتا۔ ظاہر ہے اسے بجانا پڑتا ہے۔ اب جس کے بجنے میں اس کی اپنی مرضی شامل نہیں اسے کیوں مورد الزام ٹھہرائیں؟ اب جو کسی اور کی مرضی بجنا چاہتا ہے وہ بجتا رہے۔ کیا فرق پڑے گآ۔ اور اگر اس برتن میں اس کی اپنی سمجھ بوجھ کا سامان ڈال دیا گيا تو وہ کسی اور کی مرضی سے نہیں بجے گا۔ اور میرے خیال میں اب اسی کی ضرورت ہے۔
مسلمانوں کی اموات تو اس ناکام انقلاب میں بھی ہوئی ہیں جس کی ناکامی پر ماضی کے پرجوش انقلابی خوشی سے بے حال ہیں؟ کیا ان اموات پر کسی کو افسوس یاد نہیں رہا۔
آج کل ہم ایک اور انقلاب کی گت بنتے دیکھ رہے ہیں جہاں سائیکل چلانے کے دعوے تھے اور اقتدار ملتے ہی ہیلی کاپٹر سے نیچے اترنے کو تیار نہیں۔
بات یہ ہے کہ اس حکومت کے مخالفین انہیں کوئ موقع دینے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جن باتوں کا اس حکومت نے عوام سے وعدہ کیا تھا۔ وہ راتوں رات پوری ہو جائیں۔ جو کہ ایک ناممکن سی بات ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ اب تک ختم نہیں ہوئ، ڈالر ابھی تک 20 روپے کا نہیں ہوا۔ ہر پاکستانی کو ابھی تک صحت کی سہولیات حاصل نہیں ہوئیں۔ تمام بچے ابھی تک اسکولوں سے محروم کیوں ہیں۔ انصاف ابھی تک دسترس سے دور کیوں ہے۔ ملک کے قرضے ابھی تک کیوں نہیں اتارے گۓ۔ یہ اور بہت سی اسی طرح کی باتیں ہیں جن کی توقع اس حکومت سے کی جارہی ہے کہ جب رات کو سو کر صبح اٹھیں تو سب کچھ ہو چکا ہو۔ جو کہ نا ممکن سی بات ہے۔ بہت سی خامیاں ہیں ان لوگوں میں۔ جہاں دوسروں کو اتنے عرصے تک سہا ہے۔ ان لوگوں کو بھی تھوڑا موقع دے دیں، اور اگر یہ ڈیلیور نہ کر سکے تو پھر ہم سب احتجاج میں شامل ہوں گے۔ ان شاء اللہ
ایک ماہ اوردس دن کم رہ گۓ۔ ویسے ہم آپ کے ذخیرہ الفاظ اور وسعت خیالات کے ہمیشہ سے ہی قائل رہے ہیں۔ شکریہ