ادب میں آسان فہمی / مشکل پسندی

باذوق نے 'نقد و نظر' میں ‏مارچ 13, 2008 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    ادب میں آسان فہمی / مشکل پسندی

    ہم کو ادیبوں / شاعروں سے یہ مطالبہ نہیں کرنا چاہئے کہ آسان زبان میں ادب تخلیق کریں !
    ادب کے ہزارہا پہلو ہوتے ہیں ۔
    آسان فہمی اور مشکل پسندی ... اِن دونوں ہی عمل سے زبان کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا بلکہ زبان ہر اعتبار سے مالا مال ہوتی جاتی ہے ۔
    ساحر لدھیانوی اور مجروح سلطان پوری کی مثالیں اِس ضمن میں پیش کی جا سکتی ہیں ۔
    ==============
    ساحر کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے فلمی زبان کو ادبی روپ کا خزانہ عطا کیا ہے ۔
    ساحر لدھیانوی کے ایک قریبی دوست جاں نثار اختر ( جو صفِ اوّل کے ترقی پسند شاعر تھے )نے ایک جگہ ساحر سے متعلق ایک دلچسپ واقعہ پیش کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ :
    ساحر کو ''ایس۔ڈی۔برمن'' نے فلم ''جال'' کے ایک نغمہ کی دھن سناتے ہوئے کہا تھا کہ اِس پر مکھڑا (یعنی گیت کا پہلا بول ) لکھا جائے ۔ دھن کچھ یوں تھی :
    لا لا / لا لا / لا للا
    اگر کوئی معمولی درجہ کا نغمہ نگار ہوتا تو اِس دھن پر کچھ ایسے بول فِٹ کر دیتا :
    آ جا / آ جا / بالما
    لیکن ساحر لدھیانوی چونکہ نغمہ و شعر کا نکھرا ستھرا شعور رکھتے تھے ۔ لہذا انہوں نے بڑا ہی خوبصورت مکھڑا دیا :
    سُن جا / دل کی / داستاں
    پھر اِس پر بعد میں پورے گیت کی تخلیق عمل میں آئی ، جسے ہیمنت کمار نے گایا تھا ۔ مکھڑے کے ابتدائی بول یہ ہیں :
    یہ رات ، یہ چاندنی ، پھر کہاں ::: سُن جا دل کی داستاں !!
    ==============
    مجروح سلطان پوری ادبی دنیا میں نہایت بلند پایا غزل گو کی حیثیت سے تسلیم کئے جاتے ہیں ۔ حالانکہ انہوں نے فلمی گیت بھی لکھے ہیں ۔ ترقی پسند ادیب ہونے کے ناطے اُن کی وفاداریاں ، ظاہر ہے ، کمیونسٹوں سے رہیں ۔ ایک شعر انہوں نے راست اِس طرح کہہ دیا :
    میری نگاہ میں ہے ارضِ ماسکو مجروح ::: وہ سر زمیں کہ ستارے جسے سلام کریں
    یہاں غور کیجئے کہ کس طرح انتہائی معمولی اور عام فہم انداز میں مجروح نے ''ماسکو'' سے اپنی وابستگی کا اعلان کر دیا ہے ۔
    لیکن جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ اُردو شاعری میں مجروح کی اہمیت اور اُن کی بلند قامتی سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ۔ اور شاعر کا یہی بلند پایا ذوق ، علامتی انداز میں مذکورہ بالا بات ( 'ماسکو' سے اپنی وابستگی ) کو یوں دہراتا ہے :
    تُو اے بہارِ گریزاں ! کسی چمن میں رہے ::: میرے جنوں کی مہک تیرے پیرہن میں رہے
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں