جامع ترمذی کی شروح ومختصرات اور جامع سے متعلق دوسری مؤلفات

اُم تیمیہ نے 'نقطۂ نظر' میں ‏ستمبر 20, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اُم تیمیہ

    اُم تیمیہ -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2013
    پیغامات:
    2,723
    جامع ترمذی کی شروح ومختصرات اور جامع سے متعلق دوسری مؤلفات

    جامع ترمذی حدیث کی ایک جامع اور مفیدکتاب ہے جس میں روایت و درایت اور فقہ حدیث سبھی کچھ جمع کیا گیا ہے اس کے علاوہ اس میں بہت سی خوبیاں ہیں اور یہ اہم کتب حدیث میں سے ایک ہے اس کی بہت ساری خوبیوں کے سبب بعض اہل علم نے اس کو کتب حدیث میں تیسرا مقام دیا ہے، بہت سارے لوگوں نے سنن ترمذی کی شرحیں لکھی ہیں اور اس پر تعلیقات چڑھائی گئیں اور اس کی مختصرات اور مستخرجات بھی لکھی گئیں جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

    أ- شروح جامع ترمذی:
    (۱) شرح جامع الترمذی للإ مام حسین بن مسعود البغوی ( م:۵۱۶ھ)، (تاریخ الادب العربی: بروکلمان ۱/۱۹۰، تاریخ التراث العربی: فواد سزکین ۱/۳۰۲)، ان لوگوں نے لکھا ہے کہ اس شرح کا آخری حصہ مکتبہ محمودیہ، مدینہ میں (۳۵) نمبرکے تحت موجودہے۔

    (۲) عارضۃ الأحوذی فی شرح جامع الترمذی للقاضی ابی بکر بن العربی المالکی (۴۶۸ - ۵۴۳ ھ)۔(مطبوع)

    (۳) النفح الشذيفی شرح جامع الترمذی لابن سید الناس فتح الدین ابو الفتح الیعمری ( م: ۷۳۴ ھ)۔ یہ شرح مکمل نہ ہو سکی۔اس کی تکمیل حافظ زین الدین عراقی نے فرمائی ، حافظ سیوطی کہتے ہیں کہ عراقی نے بھی اس کو مکمل نہ کیا،یہ المنقح الشذی کے نام سے بھی معروف ہے۔(مقدمۃ تحفۃ الأحوذی)،ابن طولون نے اس کا نام الفوح الشذيلکھاہے، ابن سید الناس نے کتاب الطہارۃ، باب ماجاء أن الأرض کلہا مسجد إلا المقبرۃ والحمام کے باب کی آٹھویں نمبر کی حدیث تک یہ شرح لکھی اور موت کی وجہ سے پوری نہ کرسکے، اس کے بعد اس کا تکملہ حافظ عراقی نے کیا ۔

    (۴) شرح جامع الترمذی للإ مام ابن رجب البغدادی الحنبلی (۷۰۶ - ۷۹۵ ھ) ۔یہ شرح بعض حادثات میں جل گئی، صرف شرح العلل موجود اورمطبوع ہے۔

    (۵) شرح علل الترمذی لابن رجب (ت: ۷۹۵ھ) (مطبوع)

    (۶) إنجاز الوعد الوفی بشرح جامع الترمذی ، تالیف: عمر بن علی ابن الملقن (ت: ۷۲۳- ۸۰۴ھ)اس کتاب میں صحیحین اور ابوداود پر ترمذی کے زوائد کی شرح ہے ، لیکن نامکمل ہے، اور یہ کتاب ابھی تک غیر مطبوع ہے، اور اس کا ایک نسخہ چسٹر پٹی لائبریری ،جرمن میں موجودہے۔

    (۷) العرف الشذی علی جامع الترمذی للحافظ عمر بن رسلان البلقینی (۷۲۴ - ۸۰۵ ھ) ۔یہ صرف ایک قطعے کی شرح تھی اور ناتمام۔

    (۸) تکملۃ النفح الشذی فی شرح الجامع الترمذی لابن سید الناس للامام زین الدین عبد الرحیم بن حسین العراقی (م:۸۰۶ ھ)۔ عراقی نے اس شرح کی تبییض کتاب اللباس کے آخر تک کی اور اصل کتاب کا مسودہ عراقی کے خط سے کتاب المناقب تک دار الکتب المصریہ میں ( ۲۵۰۴ حدیث) میں موجود ہے ( نیز ملاخطہ ہو: المعجم المفہرس لابن حجر)۔

    (۹) شرح جامع الترمذی للحافظ ابن حجر عسقلانی (۸۷۳ - ۸۵۲ ھ) (فتح الباری ۱/۲۳۰)۔

    (۱۰) العجاب فی تخریج مایقول فیہ الترمذی : وفی الباب للحافظ ابن حجر ، اس کا نام اللباب بھی ہے ، حافظ سخاوی کہتے ہیں: حافظ ابن حجر نے شروع کے ابواب پر چھ دفتر لکھے ۔اگریہ کتاب مکمل ہوجاتی تو ایک ضخیم جلدمیں آتی ۔(الجواہر والدرر۲/۶۶۶)۔

    (۱۱) قوت المغتذی علی جامع الترمذی للحافظ جلال الدین عبد الرحمن بن کمال السیوطی (۸۴۹ -۹۱۱ ھ) ۔

    (۱۲) نفع قوت المغتذی علی جامع الترمذی لعلی بن سلیمان البجمعوی المغربی المالکی (۱۲۹۸ ھ) (مطبوع قاہرہ ، دہلی)۔

    یہ سیوطی کی شرح کی تلخیص ہے۔

    (۱۳) شرح جامع الترمذی لعبد القادر بن اسماعیل الحسنی القادری الحنفی(ت: ۱۱۸۷ھ) ۔

    (۱۴) منہاج السنن شرح جامع السنن للامام الترمذی ، تالیف: محمد فرید زربوری (اس کی ایک جلد مطبوع ہے)

    (۱۵) تحقیق وشرح وتعلیق العلامہ احمد محمد شاکر (مطبوع ) علامہ احمد شاکر نے صرف شروع کی (۶۱۶) احادیث کی تحقیق فرمائی تھی ، اور ایک علمی مقدمہ تحریر کیاتھا۔

    ب: جامع الترمذی کے مختصرات ومستخرجات ورجال سے متعلق مؤلفات:

    (۱) مختصر الأحکام المستخرج علی جامع الترمذی ، تالیف: ابوعلی حسن بن علی الخراسانی (ت: ۳۱۲ھ) (مستخرج الطوسی علی جامع الترمذی ) (تدریب الراوی)۔(مطبوع) ۔

    (۲) مستخرج أبی بکر احمد بن علی بن منجویہ النیسابوری (ت: ۴۲۸ھ)

    (۳) فضائل الکتاب الجامع لأبی عیسیٰ الترمذی ، تالیف: ابوالقاسم الاسعردی عبیدبن محمد بن عباس (ت: ۶۹۲ھ)

    (۴) مختصر جامع الترمذی لنجم الدین سلیمان بن عبد القوی الطوفی الحنبلی ( م: ۷۱۰ھ) (مخطوط)۔

    (۵) مختصر جامع الترمذی لنجم الدین محمد بن عقیل البالسی الشافعی ( م: ۷۲۹ھ) (مخطوط)۔

    (۶) استدراک الصحاح الواقعۃ فی الترمذی علی البخاری ومسلم ، تالیف: محمد بن عبدالرحمن الکرسوطی الفاسی (ت: ۷۵۵ھ)۔

    (۷) مأئۃ حدیث منتقاۃ منہ عوال( أی من سنن الترمذی) للحافظ صلاح الدین خلیل الکیکلدی العلائی (ت: ۷۶۱ھ) (اس میں سو منتخب احادیث ہیں) (کشف الظنون ۱/ ۵۵۹) ۔
    (۸) الکوکب المضیٔ المنتزع من جامع الترمذی تالیف: یحیی بن حسن بن احمد بن عثمان (ت: بعد ۷۶۹ھ)(مخطوط،صنعاء یمن)

    (۹) الأحادیث المستغربۃ فی الجامع الصحیح للترمذی تالیف: احمد بن العلائی الشافعی من رجال القرن الثامن (مخطوط)

    (۱۰) ختم جامع الترمذی للشیخ عبداللہ بن سالم البصری المکی (۱۱۳۴ھ)

    (۱۱) مختصر سنن الترمذی ، تالیف: ابوالفضل تاج الدین محمد بن عبدالمحسن القلعی (کان حیا سنۃ : ۱۱۳۴ھ)۔

    (۱۲) علل الترمذی الکبیر: ترتیب أبی طالب القاضی (مطبوع)۔

    (۱۳) صحیح سنن الترمذی للألبانی ۔

    (۱۴) ضعیف سنن الترمذی للألبانی۔دونوں کتابیں سندحذف کرکے اورہرحدیث پر حکم لگاکر الگ الگ شائع ہوئیں، اور بعد میں مکتبۃ المعارف ، ریاض سے البانی صاحب کے حکم کے ساتھ اصل سنن الترمذی شیخ ابوعبیدہ مشہور بن حسن آل سلمان کی نگرانی میں شائع ہوئی ۔

    (۱۵) تہذیب جامع الترمذی ، تالیف: عبداللہ بن عبدالقادر التلیدی(مطبوع)

    (۱۶) مختصر سنن الترمذی: مصطفی دیب البغا (مطبوع)۔

    (۱۷) التصریح بزوائدالجامع الصحیح (سنن الترمذی) : محمود نصار (مطبوع)

    (۱۸) نزہۃ الالباب فی قول الترمذی: وفی الباب : تالیف: حسن بن محمد بن حیدر الوائلی (۶) اجزاء ۔ط، دار ابن الجوزی (۱۴۲۶ھ)اس کتاب میں مولف کے احادیث کے دیئے ہوئے نمبرات کے اعتبار سے سنن الترمذی میں موجود مافی الباب کے عنوان سے (۴۱۰۴) احادیث کی تخریج موجود ہے ، اب تک کی شائع ہونے والی اس موضوع پریہ سب سے جامع کتاب ہے ، علامہ مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی میں اپنے طور پر مختصرا ان احادیث کی تخریج کی تھی لیکن بہت ساری احادیث کی تخریج باقی تھی ، احمد شاکر نے بھی اس باب کی احادیث کی تخریج کو موضوع بحث نہیں بنایا، اور اوپر گزرا کہ حافظ ابن حجر نے اس موضوع پر ایک کتاب تالیف فرمائی تھی لیکن وہ ابھی تک مفقود کے حکم میں ہے ۔

    (۱۹) اللباب فی تخریج المبارکفوری لقول الترمذی: وفی الباب جمع وترتیب محمد صبحی حسن حلاق (مطبوع) ۔
     
  2. اُم تیمیہ

    اُم تیمیہ -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2013
    پیغامات:
    2,723
    سنن ترمذی کی خدمت میں برصغیر کے علما ء کی مساعی:

    (۱) شرح جامع الترمذی: تألیف محمد بن طاہر بن علی الفتنی (۹۱۴ - ۹۸۶ ھ) ۔

    (۲) شرح جامع الترمذی : تألیف أبی الطیب محمد بن الطیب السندي ( م: ۱۱۰۹ھ)۔اس کا ایک قطعہ نظامی پریس میں شائع ہوا (سیرۃ البخاری ۲/۷۲۵)۔

    (۳) شرح جامع الترمذی: تألیف أبی الحسن بن عبد الہادی السندي المدنی (م: ۱۱۳۹ ھ) مصرمیں طبع ہوئی۔

    (۴) شرح جامع الترمذی : تألیف سراج احمد السرہندی (م: ۱۲۳۰ ھ) یہ شرح فارسی میں ہے، اور کانپور میں شائع ہوئی (تاریخ التراث العربی ۱/۲۴۴)۔

    (۵) ھدیۃ اللوذعی بنکات الترمذی : تألیف علامہ شمس الحق العظیم آبادی (۱۳۲۹ ھ) نامکمل۔(سیرۃ البخاری ۲/۷۲۷)۔

    (۶) الکوکب الدری علی جامع الترمذی أمالی الشیخ رشید احمد الگنگوہی(ت: ۱۳۲۳ھ) ، ترتیب وتالیف: الشیخ محمد یحییٰ بن محمد اسماعیل الکاندھلوی الحنفی(۱۳۳۴ ھ) ، یہ کتاب شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی کے حواشی کے ساتھ چارجلدوں میں ندوۃ العلماء لکھنؤسے (۱۳۹۵ھ=۱۹۷۵ء) شائع ہوئی)۔

    (۷) تقریرات علی جامع الترمذی لمحمود الحسن بن ذو الفقار الحنفی(۱۳۳۹ ھ) (علی بن سلیمان بجمعاوی نے ان فوائد کو اپنی کتاب نفع قوۃ المغتذی میں شامل کیاہے۔

    (۸) العرف الشذی علی جامع الترمذی لمحمد انور شاہ کشمیری الحنفی(۱۳۵۲ ھ) ۔ اس امالی کو مولف کے شاگرد مولانا محمد چراغ پنجابی نے جمع کیا، اور یہ ایک جلد میں شائع ہوئی ۔

    (۹) الطیب الشذی شرح جامع الترمذی لاشفاق الرحمن الکاندھلوی الحنفی، دہلی سے اس شرح کی پہلی جلد (۱۳۴۳ھ) میں شائع ہوئی ۔

    (۱۰) حاشیۃ علی جامع الترمذی لاحمد بن علی بن لطف اللہ السہارنفوری الحنفی(ت: ۱۲۹۷)۔

    (۱۱) تحفۃ الأحوذی بشرح جامع الترمذی للعلامہ الشیخ الحافظ ابی العلا محمد عبد الرحمان بن عبد الرحیم المبارکفوری (۱۲۸۲ - ۱۳۵۲ ھ)۔

    (۱۲) مقدمہ تحفۃ الأحوذی للمبارکفوری ، یہ علوم حدیث ، محدثین اور مؤلفات حدیث نیز امام ترمذی اور سنن سے متعلق ایک جامع کتاب ہے۔

    (۱۳) قواعدفی علوم الحدیث وکتبہ وأہلہ للمبارکفوری : ڈاکٹرعبدالعلیم بن عبدالعظیم بستوی نے علوم حدیث کتب حدیث اور محدثین سے متعلق مقدمہ تحفہ کے مباحث کی فاضلانہ تحقیق (۱۰۳۹) صفحے میں دار المنہاج ، ریاض سے شائع فرمائی ہے۔

    (۱۴) ہدیۃ المجتبی للحبر المدنی أمالی الشیخ حسین احمد المدنی (ت: ۱۳۷۷ھ) اس کا ایک جزء شائع ہواہے۔

    (۱۵) الرد والتعقیب علی بعض الشارحین من المعاصرین لجامع الترمذی ، تالیف: الشیخ عبدالرحمن بن یحیی المعلمی (ت: ۱۳۸۶ھ) ، تحقیق ماجد الزیادی ، نشر المکتبۃ المکیۃ ، مکہ۔

    (۱۶) معارف السنن شرح جامع الترمذی لمحمد یوسف البنوری الحنفی (۱۳۹۷ ھ) یہ (۶) جلدوں میں کتاب الحج تک مطبوع ہے ، اور نامکمل ہے ۔

    (۱۷) کشف النقاب عمایقولہ الترمذی: ''و فی الباب'' تالیف: ڈاکٹرمحمدحبیب اللہ مختار- رحمہ اللہ- شیخ الحدیث جامعہ بنوریہ (مولف رحمہ اللہ نے (۲۶)سال پہلے (ربیع الاول ۱۴۰۸ھ) میں کراچی میں ایک مختصر سی ملاقات میں اس کتاب کا ایک نسخہ تین جلدوں میں مجھے ہدیہ کیا تھا اور یہ کتاب اس وقت غیر مکمل تھی ، کچھ دنوں کے بعد ان کا قتل ہوگیا تھا ،اللہ تعالیٰ ان کو شہادت کا درجہ دے ،بعد میں اس کی دوجلدیں اورشائع ہوئیں اس طرح سے یہ کتاب پانچ جلدوں میں ہے، اور اس میں باب ماجاء فی کثرۃ الرکوع والسجود(حدیث نمبر: ۳۸۹) تک کی احادیث کی تخریج ہے (نامکمل) ۔

    (۱۸) جائزۃ الأحوذی فی التعلیقات علی سنن الترمذی فی اختصار تحفۃ الأحوذی : تالیف : حافظ ثناء اللہ بن عیسیٰ خان ، یہ شرح جمعیت احیاء التراث الاسلامی (کویت) کے تعاون سے چار جلدوں میں جامعہ سلفیہ ، بنارس سے شائع ہوئی ہے ، جس کے صفحات (۴۸۲۸)ہیں ، اور در اصل یہ تحفۃ الأحوذی کا جامع اختصار مع اضافات مفیدہ ہے ۔
    سنن الترمذی کے اردو تراجم وشروح:

    (۱۹) جائزۃ الشعوذی شرح الجامع الترمذی : تألیف بدیع الزمان بن مسیح الزمان حیدر آبادی (م: ۱۳۱۰ ھ) یہ یہ ترجمہ وشرح اردو میں ہے۔

    (۲۰) تکملۃ شرح جامع الترمذی لبدیع الزمان لوحید الزمان بن مسیح الزمان حیدر آبادی (م: ۱۳۳۸ ھ) ۔

    (۲۱) سنن الترمذی (تیارکردہ: مجلس علمی ، دارالدعوۃ، نئی دہلی)۔
     
  3. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    جزاک الله خیرا
     
  4. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    جزاک اللہ خیر
     
  5. اُم تیمیہ

    اُم تیمیہ -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2013
    پیغامات:
    2,723
    اسلامی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ کی سنن سے متعلق خدمات:

    (۱) الأحادیث التی انفر بہا الترمذی عن سائر الکتب الستۃ :قابل عبداللہ قابل ، جامعۃ ام درمان الإسلامیۃ ، سوڈان، ۱۴۱۸ھ)

    (۲) الأحادیث التی حسنہاأبوعیسی الترمذی وانفرد بإخراجہا عن أصحاب الکتب الستۃ : دراسۃ حدیثیۃ، تالیف: ڈاکٹر عبدالرحمن بن صالح محی الدین ،استاذ حدیث (جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ ) (مقالہ برائے ایم اے) (مطبوع، دار الفضیلۃ ، ریاض ، ۱۴۱۹ھ)۔

    (۳) الأحادیث التی حکم علیہا الترمذی بالنکارۃ، جمعا ودراسۃ، تالیف: ڈاکٹر محمد بن ترکی الترکی (جامعۃ الملک سعود ، ریاض)

    (۴) الأحادیث التی ذکر الترمذی أن العمل علیہا عند أہل العلم : دراسۃ وتخریجا، تالیف: ڈاکٹرابراہیم بن حمود التویجری (مقالہ برائے ایم اے جامعۃ الامام ) شروع کتاب سے آخر کتاب الدیات تک ۔

    (۵) الأحادیث التی ذکر الترمذی أنہا أصح شیء فی الباب : ڈاکٹر عبداللہ خثلان (مقالہ برائے پی ایچ ڈی ، جامعۃ الإمام )۔

    (۶) الأحادیث التی علقہا الترمذی فی جامعہ : البندری أباالخیل: (مقالہ برائے ایم اے جامعۃ الإمام)

    (۷) الأحادیث الحسان الغرائب فی جامع الإمام الترمذی: جمعا ودراسۃ حدیثیۃ، تالیف: ڈاکٹرعبدالباری بن حماد الأنصاری ، (مقالہ برائے ڈاکٹریٹ ، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ) ۔

    (۸) الأحادیث الغریبۃ فی جامع الترمذی، تالیف: ڈاکٹرمحمد علی محمد صالح محمدنور، (مقالہ برائے ڈاکٹریٹ ، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ) ، شروع کتاب الطہارۃ سے آخر کتاب الزہد تک ۔

    (۹) الإمام الترمذي والموازنۃ بین جامعہ وبین الصحیحین : تالیف: ڈاکٹر نورالدین عتر۔

    (۱۰) الأحادیث التی ذکر فیہا الترمذي اختلافا ولیست فی العلل الکبیر: اس موضوع پر جامعۃ الإمام کے کلیۃ أصول الدین کے شعبہ تخصص فی الحدیث سے پانچ فضلاء نے ایم اے کے تھیسس (مقالے) تیار کیے جن کے نام یہ ہیں:۱- ڈاکٹرخالد بن محمد باسمح :شروع کتاب سے کتاب الزکاۃ تک ۔

    (۱۱) ۲- ڈاکٹربندربن عبداللہ الشویقی : کتاب الصیام سے کتاب البیوع تک ۔

    (۱۲) ۳- ڈاکٹرعبدالعزیز بن عبداللہ الہلیل :کتاب الاستئذان کے شروع سے کتاب التفسیر میں حدیث نمبر(۳۱۷۱) تک ۔

    (۱۳) ۴- ڈاکٹر عبدالعزیز بن عبداللہ الشایع :کتا ب الفرائض کے شروع سے کتاب العلم کے آخرتک ۔

    (۱۴) ۵- ڈاکٹربکر بن محمد البخاری : کتاب الأحکام سے کتاب الطب تک ۔

    (۱۵) ۶- ڈاکٹراحمد بن محمد المنیعی

    (۱۶) تراث الترمذی العلمي ،تالیف: الدکتور اکرم ضیا ء العمری (مطبوع)۔

    (۱۷) جامع الترمذی فی الدراسات المغربیۃ : روایۃ ودرایۃ ، تالیف: محمد حسینی صقلی (مقالہ برائے ڈبلومہ ، جامعۃ محمد الخامس ، کلیۃ الآداب ، رباط ، ۱۴۰۹ھ )۔

    (۱۸) الحدیث الحسن مطلقا عندالإمام الترمذی : عمر حسن فلاتہ ۔

    (۱۹) الحدیث المنکرودلالتہ عند الإمام الترمذی ، تالیف: ڈاکٹر محمد بن ترکی الترکی (مطبوع)

    (۲۰) حکم العمل بالحدیث الضعیف وأثرہ الأحکام: دراسۃ تطبیقیۃ علی ما ورد فی قسم العبادات من جامع الترمذی من أحادیث ضعیفۃ علیہا العمل ، تالیف:ڈاکٹر محمد ابراہیم السعیدی ، (مقالہ برائے ایم اے ، ام القری یونیورسٹی ، مکہ مکرمہ)

    (۲۱) دراسات حول ما یقول الترمذي فیہ حدیث صحیح: محمد علی محمد صالح (مقالہ برائے ایم اے ، جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ ، ۱۴۰۱ھ)

    (۲۲) دراسات في سنن الترمذي (الأحادیث التي انفرد بہا الترمذي عن الکتب الستۃ) تالیف: ڈاکٹریوسف ابراہیم النور(مقالہ برائے ڈاکٹریٹ ، ام درمان یونیورسٹی )

    (۲۳) دراسۃ مسائل العقیدۃ في سنن الترمذي ، تالیف:ڈاکٹر یوسف بن علی الطریف(مقالہ برائے ایم اے جامعۃ الامام ، القسم الثانی)

    (۲۴) دراسۃ مسائل العقیدۃ في سنن الترمذي، تالیف:ڈاکٹر فہد بن سلیمان الفہید (مقالہ برائے ایم اے ، جامعۃ الامام ) دراسۃ القسم الاول : الاعتصام بالکتاب والسنۃ ، والإیمان باللہ ، وبالملائکۃ وبالکتب ، وبالرسل۔

    (۲۵) الرجال الذین تفرد الترمذي بالروایۃ عنہم ، تالیف: یوسف النور عبدالرحمن ابراہیم (مقالہ برائے ایم ایے جامعۃ القرآن ، أم درمان، سوڈان)

    (۲۶) الرجال الذین تکلم فیہم الترمذی فی جامعہ: تجریدا وتحقیقا، تالیف:ڈاکٹر حسن بن غانم الغانم (مقالہ برائے ایم اے، جامعۃ الإمام ، ریاض )۔

    (۲۷) زوائد الإمام الترمذی علی الأصول الثمانیۃ ، تالیف: ڈاکٹرفیصل محمد العقیل ( جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ )

    (۲۸) السلسبیل فیمن ذکر ہم الترمذي بجرح أو تعدیل ، تالیف: محمد عبداللہ بن الشیخ محمد الشنقیطی (مطبوع)

    (۲۹) سؤالات الترمذي للبخاري حول أحادیث في جامع الترمذي ، تالیف: ڈاکٹریوسف محمد الدخیل-رحمہ اللہ- (مقالہ برائے ایم اے، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ) ۔

    (۳۰) غرائب الترمذي في الجامع: جمعا وتحقیقا وتخریجا ودراسۃ ، تالیف: ڈاکٹرمحمدعلی محمد صالح ، (مقالہ برائے ڈاکٹریٹ ، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ) ۔

    (۳۱) الغریب المطلق عندالإمام الترمذی دراسۃ نقدیۃ استقرائیۃ لمدلول المصطلح في جامعہ الکبیر : تالیف: ڈاکٹر یحیی بن عبداللہ الثمالی (مطبوع)

    (۳۲) فقہ الإمام الترمذي في سننہ: ودراسۃ نقولہ للمذاہب، تالیف: مطلق سرحان الصہیبی (مقالہ برائے ایم اے ، ام القریٰ یونیورسٹی ، مکہ مکرمہ) شروع کتاب الطہارۃ سے باب ماجاء فی بدایۃ الأذان ۔

    (۳۳) فقہ الإمام الترمذي في سننہ ، ودراسۃ نقولہ للمذاہب، تالیف:ڈاکٹر مازن عبدالعزیز الحارثی ، (مقالہ برائے ایم اے ، ام القریٰ یونیورسٹی ، مکہ مکرمہ)شروع کتاب النکاح سے آخر کتا ب الطلاق واللعان تک ۔

    (۳۴) فقہ الحدیث عندأئمۃ السلف بروایۃ الإمام الترمذي،تالیف: محمد بن أحمد کنعان (مطبوع)۔

    (۳۵) المتروکون ومرویاتہم في کتاب الجامع للإمام الترمذي، تالیف: ڈاکٹرموسیٰ سکر بوتس(مقالہ برائے ایم اے ام القریٰ یونیورسٹی ، مکہ مکرمہ)

    (۳۶) منہج التعلیل عندالإمام الترمذي من خلال کتابہ الجامع، تالیف: طارق أسعد حلمی( مقالہ برائے ایم اے ، اردن یونیورسٹی)۔

    (۳۷) منہج العلامۃ الجلیل الشیخ المبارکفوری في کتابہ: تحفۃ الأحوذي ، تالیف: ڈاکٹرعبداللہ بن رفدان الشہرانی ، استاذ حدیث، جامعہ ام القری (مطبوع) یہ دراصل ایم اے کا مقالہ تھا جسے موصوف نے ام القریٰ یونیورسٹی میں پیش کیا۔

    فہارس سنن الترمذی:

    ۱- فہارس سنن الترمذی ، بیروت دار الکتب العلمیۃ ، علی طبعۃ الشیخ أحمد شاکر (مطبوع)

    ۲- المرشد إلی أحادیث سنن الترمذی، صدقی البیک (مطبوع)
     
  6. اُم تیمیہ

    اُم تیمیہ -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2013
    پیغامات:
    2,723
    کتاب الشمائل کی شروح ومختصرات:

    امام ترمذی کی سنن کی طرح کتا ب الشمائل بھی بڑی مقبول عام کتاب ہے ، اور علماء نے اس کی بھی کئی شرحیں لکھیں ہیں، جن کا ذکر فائدے سے خالی نہ ہوگا :

    ۱- شرح القسطلانی

    ۲- شرح السیوطی

    ۳- شرح ابن حجر الہیتمی المکی

    ۴- شرح ملا علی القاری

    ۵- شرح عبدالرؤو ف المناوی

    ۶- شرح سلیمان الجمل

    ۷- المواہب اللدنیۃ علی الشمائل المحمدیۃ : تالیف ابراہیم مصری باجوری

    ۸- درر الفضائل فی شرح علیم الدین قریشی قنوجی (ت: ۱۲۲۳ھ)

    ۹- اردو ترجمہ شمائل ترمذی : ازمولانا محمد زکریا کاندھلوی

    ۱۰- شرح الوصائل فی شرح الشمائل ، از شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ بن عیسیٰ خان (ولادت : ۱۳۶۰= ۱۹۴۰م)

    ۱۱- مختصر الشمائل المحمدیہ از علامہ البانی ۔
     
  7. اُم تیمیہ

    اُم تیمیہ -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2013
    پیغامات:
    2,723
    وفات

    امام صاحب کی وفات جیسا کہ امام مزی نے اپنی کتاب تہذیب الکمال کے اندر بیان کیا ہے کہ آپ کی وفات (۱۳) رجب المرجب کو سوموار کی رات میں ۲۷۹؁ھ کے اندر (۷۰)برس کی عمر میں ہوئی،رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ واسعۃ۔
     
  8. اُم تیمیہ

    اُم تیمیہ -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2013
    پیغامات:
    2,723
    مصادر سیرت امام ترمذی:

    ۱-الإرشاد إلی معرفۃ علماء الحدیث للخلیلی (ت: ۴۴۶ھ) (۳/۴۰۹)

    ۲-الأنساب للسمعانی (ت: ۵۶۲ھ)

    ۳-البدایۃ والنہایۃ: تالیف الحافظ ابن کثیر (ت: ۷۷۴ھ) (۱۱/ ۶۶)

    ۴- بستان المحدثین تالیف : شاہ عبدالعزیز دہلوی (ت: ۱۲۳۹ھ)

    ۵-تاریخ التراث العربی : تالیف فؤاد سزکین ۔

    ۶-تذکرۃ الحفاظ : تالیف الذھبی( ت: ۷۴۸ھ) (۲؍۶۳۳)

    ۷-تقریب التہذیب لابن حجر (ت: ۸۵۲ھ)

    ۸-التقییدلمعرفۃ الرواۃ والسنن والمسانید لابن نقطہ ( ت: ۶۲۹ھ) (۱/۹۲-۹۳)

    ۹-تہذیب التہذیب: تالیف ا بن حجر العسقلانی (ت: ۸۵۲ھ) (۹/۳۸۷)

    ۱۰-تہذیب الکمال: تالیف المزی ( ت: ۷۴۲ھ) (۲۶؍ ۲۵۰)

    ۱۱-الثقات لابن حبان (ت: ۳۵۴ھ) (۹/۱۵۳)

    ۱۲-جامع الأصول لابن الأثیر الجزری (ت: ۶۰۶ھ)

    ۱۳-حجۃ اللہ البالغہ : تالیف : شاہ ولی اللہ دہلوی (ت: ۱۱۷۶ھ)

    ۱۴-الحطۃ فی ذکر الصحاح الستہ: تالیف نواب صدیق حسن القنوجی (ت: ۱۳۰۷ھ) (۳۷۰)

    ۱۵-الخلاصہ للخزرجی (ت : ) (۳۵۵)

    ۱۶-سیر اعلام النبلاء: تالیف الذھبی ( ت: ۷۴۸ھ) (۱۳؍۲۰۳-۲۲۱)

    ۱۷- سیرۃ البخاری :تالیف: علامہ عبدالسلام مبارکپوری (ت: ۱۳۴۲ھ)

    ۱۸-شذرات الذہب لابن العماد الحنبلی (ت: ۱۰۸۹ھ) (۲/۱۷۴)

    ۱۹-شروط الأئمہ الستۃ لمحمدبن طاہر المقدسی (ت: ۵۰۷ھ)

    ۲۰-شروط الأئمہ لابن مندۃ (ت: ۳۹۵ھ) تحقیق ڈاکٹرعبدالرحمن بن عبدالجبار الفریوائی

    ۲۱-شروط الأئمۃ الخمسۃ لأبی بکر محمد بن موسیٰ الحازمی (ت: ۵۸۴ھ)

    ۲۲-طبقات الحفاظ: للسیوطی (ت: ۹۱۱ھ) (۲۷۸)

    ۲۳-العبرللذہبی ( ت: ۷۴۸ھ) (۱/۴۰۲)

    ۲۴-فوائد فی علوم الحدیث وکتبہ وأہلہ : تالیف : علامہ عبدالرحمن مبارکپوری (اختیار وتعلیق : ڈاکٹر عبدالعلیم بن عبدالعظیم بستوی ) ط۔ مکتبہ دار المنہاج ، ریاض ۔

    ۲۵-الکاشف للذہبی( ت: ۷۴۸ھ) (۳/۷۷)

    ۲۶-الکتب الستۃ وما لحقہا من أعمال ، تالیف: ڈاکٹر یحییٰ بن عبداللہ الثمالی، طائف، سعودی عرب ۔

    ۲۷-کشف الظنون: تالیف حاجی خلیفہ ملا کاتب چلپی (ت: ۱۰۶۷ھ)۔

    ۲۸-معجم البلدان للحموی

    ۲۹- مقدمہ تحفۃ الأحوذی :تالیف: علامہ عبدالرحمن مبارکپوری (ت: ۱۳۵۳ھ)

    ۳۰-مقدمہ جامع الترمذی للعلامہ احمد شاکر

    ۳۱-مقدمۃ سنن ترمذی : (اردو) : مترجم مولانا وحید الزماں حیدرآبادی۔

    ۳۲-مناہج المحدثین ، تالیف: ڈاکٹر عبدالعزیز شائع ، استاذ حدیث ، جامعۃ الإمام ، سعودی عرب۔

    ۳۳-میزان الاعتدال للذہبی ( ت: ۷۴۸ھ) (۳/۶۷۸)

    ۳۴-النجوم الزاہرۃ لابن تغری بردی ( ۸۷۴ھ) (۳/۸۱)

    ۳۵-نکت الہمیان فی نُکت العمیان للصفدی (ت: ۷۶۴ھ) (ص: ۲۶۴)

    ۳۶-الوافی بالوفیات للصفدی (ت: ۷۶۴ھ)

    ۳۷-وفیات الا ٔعیان : تالیف ابن خلکان (ت: ۶۸۱ھ) ، (۴؍۲۷۸)

    ۳۸-ہدیۃ العارفین :تالیف اسماعیل پاشا۔

    (مرتبہ: ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبدالجبارالفریوائی)
     
  9. اُم تیمیہ

    اُم تیمیہ -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2013
    پیغامات:
    2,723
    اصطلاحاتِ حدیث

    ( شیخ احمد مجتبیٰ بن نذیرعالم السلفی استاذ حدیث جامعہ ابی ہریرہ الاسلامیہ ورکن مجلس علمی ، دارالدعوۃ ، دہلی )
     
  10. اُم تیمیہ

    اُم تیمیہ -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2013
    پیغامات:
    2,723
    سنن ترمذی کے حواشی میں استعمال ہونے والے رموز وعلامات

    خ

    صحیح البخاری
    م

    صحیح مسلم

    ت

    سنن الترمذی

    ن

    سنن النسائی

    ق

    سنن ابن ماجہ

    حم

    مسند احمد

    ط

    موطا امام مالک

    دی

    سنن الدارمی

    الصحیحۃ

    سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، للالبانی

    الضعیفۃ

    سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ، للالبانی

    تفرد بہ الترمذی

    یعنی یہ حدیث صرف سنن الترمذی میں ہے اور صحاح ستہ کے بقیہ مؤلفین کے یہاں نہیں ہے

    انظر ما قبلہ

    اس سے پہلے کی حدیث ملاحظہ ہو

    انظر حدیث رقم (۔۔۔۔)

    حدیث نمبر (۔۔۔۔) ملاحظہ ہو

    * تخريج: خ/الاعتکاف ۵ (۲۰۳۲)

    (خ) سے مراد صحیح البخاری، (الاعتکاف) یعنی صحیح البخاری کی کتاب الاعتکاف، (۵) یعنی باب نمبر، (۲۰۳۲) یعنی حدیث نمبر
     
  11. اُم تیمیہ

    اُم تیمیہ -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2013
    پیغامات:
    2,723
    1- كِتَاب الطَّهَارَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ

    ۱-کتاب: طہارت کے احکام ومسائل ۱؎


    1- بَاب مَا جَاءَ لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ

    ۱-باب: وضو( طہارت) کے بغیر صلاۃ مقبول نہ ہونے کابیان

    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]1- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، ح و حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ، وَلاَ صَدَقَةٌ مِنْ غُلُولٍ" قَالَ هَنَّادٌ فِي حَدِيثِهِ: "إِلاَّ بِطُهُورٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا الْحَدِيثُ أَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ.
    وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ أَبِيهِ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسٍ، وَأَبُو الْمَلِيحِ بْنُ أُسَامَةَ - اسْمُهُ عَامِرٌ، وَيُقَالُ زَيْدُ بْنُ أُسَامَةَ بْنِ عُمَيْرٍ الْهُذَلِيُّ -۔
    * تخريج: م/الطہارۃ ۲ (۲۲۴) ق/الطہارۃ ۲ (۲۷۲) (تحفۃ الأشراف: ۷۴۵۷) حم (۲۰۲،۳۹، ۵۱، ۵۷، ۷۳) (صحیح)


    ۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : '' صلاۃبغیر وضو کے قبول نہیں کی جاتی ۲؎ اور نہ صدقہ حرام مال سے قبول کیاجاتاہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں یہ حدیث سب سے صحیح اورحسن ہے۳؎ ۔

    ۲- اس باب میں ابو الملیح کے والد اُسامہ ،ابوہریرہ اورانس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

    وضاحت ۱؎ : طہارت کالفظ عام ہے وضواورغسل دونوں کو شامل ہے، یعنی صلاۃکے لیے حدث اکبر اوراصغردونوں سے پاکی ضروری ہے، نیزیہ بھی واضح ہے کہ دونوں حدَثوں سے پاکی (معنوی پاکی)کے ساتھ ساتھ حسّی پاکی(مکان، بدن اورکپڑاکی پاکی)بھی ضروری ہے،نیزدیگرشرائط صلاۃبھی ،جیسے روبقبلہ ہونا، یہ نہیں کہ صرف حدث اصغرواکبرسے پاکی کے بعد مذکورہ شرائط کے پورے کئے بغیرصلاۃہوجائیگی۔

    وضاحت ۲؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صلاۃ کی صحت کے لیے وضو شرط ہے خواہ نفل ہو یافرض ، یاصلاۃجنازہ۔

    وضاحت ۳؎ : ''یہ حدیث اس باب میں سب سے صحیح اورحسن ہے ''اس عبارت سے حدیث کی صحت بتانامقصودنہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ اس باب میں یہ روایت سب سے بہترہے خواہ اس میں ضعف ہی کیوں نہ ہو، یہ حدیث صحیح مسلم میں ہے اس باب میں سب سے صحیح حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہے جوصحیحین میں ہے (بخاری: الوضوء باب ۲، (۱۳۵)ومسلم : الطہارۃ ۲(۲۷۵)اورمولف کے یہاں بھی آرہی ہے (رقم۷۶)نیزیہ بھی واضح رہے کہ امام ترمذی کے اس قول ''اس باب میں فلاں فلاں سے بھی حدیث آئی ہے'' کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اِس باب میں اس صحابی سے جن الفاظ کے ساتھ روایت ہے ٹھیک انہی الفاظ کے ساتھ اُن صحابہ سے بھی روایت ہے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس مضمون ومعنی کی حدیث فی الجملہ اُن صحابہ سے بھی ہے۔
    [/font]
     
  12. اُم تیمیہ

    اُم تیمیہ -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2013
    پیغامات:
    2,723
    2- بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الطُّهُورِ

    ۲-باب: طہارت کی فضیلت کابیان


    قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَثَوْبَانَ، وَالصُّنَابِحِيِّ، وَعَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ، وَسَلْمَانَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. وَالصُّنَابِحِيُّ الَّذِي رَوَى عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ لَيْسَ لَهُ سَمَاعٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَاسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُسَيْلَةَ، وَيُكْنَى أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، رَحَلَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقُبِضَ النَّبِيُّ ﷺ وَهُوَ فِي الطَّرِيقِ، وَقَدْ رَوَى عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَحَادِيثَ. وَالصُّنَابِحُ بْنُ الاَعْسَرِ الأحْمَسِيُّ صَا حِبُ النَّبِيِّ ﷺ يُقَالُ لَهُ الصُّنَابِحِيُّ أَيْضًا، وَإِنَّمَا حَدِيثُهُ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: " إِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمْ الأمَمَ فَلاَ تَقْتَتِلُنَّ بَعْدِي "۔
    * تخريج: م/الطہارۃ ۱۱(۲۴۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۴۲) ط/الطہارۃ ۶(۳۱) (صحیح)
    2- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَ نْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى الْقَزَّازُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، ح و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ أَوْ الْمُؤْمِنُ فَغَسَلَ وَجْهَهُ، خَرَجَتْ مِنْ وَجْهِهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ نَظَرَ إِلَيْهَا بِعَيْنَيْهِ مَعَ الْمَاءِ، أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ، أَوْ نَحْوَ هَذَا، وَإِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ خَرَجَتْ مِنْ يَدَيْهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ بَطَشَتْهَا يَدَاهُ مَعَ الْمَاءِ، أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ، حَتَّى يَخْرُجَ نَقِيًّا مِنْ الذُّنُوبِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

    وَهُوَ حَدِيثُ مَالِكٍ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. وَأَبُو صَالِحٍ وَالِدُ سُهَيْلٍ - هُوَ أَبُوصَالِحٍ السَّمَّانُ - وَاسْمُهُ ذَكْوَانُ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ اخْتُلِفَ فِي اسْمِهِ، فَقَالُوا: عَبْدُ شَمْسٍ، وَقَالُوا: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، وَهَكَذَا قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، وَهُوَ الأَصَحُّ.

    ۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' جب مسلمان یامومن بندہ وضوکرتا اوراپنا چہرہ دھوتا ہے توپانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے چہرے سے وہ تمام گناہ جھڑجاتے ہیں ۱؎ ، جو اس کی آنکھوں نے کئے تھے یااسی طرح کی کوئی اور بات فرمائی، پھرجب وہ اپنے ہاتھوں کو دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یاپانی کے آخری قطرے کے ساتھ وہ تمام گناہ جھڑجاتے ہیں جو اس کے ہاتھوں سے ہوئے ہیں،یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک وصاف ہوکرنکلتاہے ۲؎ ۔

    امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۳؎ ، ۲- اس باب میں عثمان بن عفان ، ثوبان، صنابحی ، عمروبن عبسہ،سلمان اورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صنابحی جنہوں نے ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ،ان کا سماع رسول اللہ ﷺ سے نہیں ہے، ان کا نام عبدالرحمن بن عسیلہ، اورکنیت ابوعبداللہ ہے، انہوں نے رسول اللہﷺ کے پاس سفرکیا ،راستے ہی میں تھے کہ رسول اللہﷺ کا انتقال ہوگیا ،انہوں نے نبی اکرمﷺ سے متعدد احادیث روایت کی ہیں ۔

    اورصنابح بن اعسراحمسی صحابی رسول ہیں، ان کو صنابحی بھی کہاجاتاہے، انہی کی حدیث ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : ''میں تمہارے ذریعہ سے دوسری امتوں میں اپنی اکثریت پرفخرکروں گا تومیرے بعدتم ہرگز ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا''۔

    وضاحت ۱؎ : گناہ جھڑجاتے ہیں کا مطلب گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں، اور گناہ سے مراد صغیرہ گناہ ہیں کیو نکہ کبیرہ گناہ خالص توبہ کے بغیرمعاف نہیں ہوتے۔

    وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے معلوم ہو اکہ وضوجسمانی نظافت کے ساتھ ساتھ باطنی طہارت کا بھی ذریعہ ہے۔

    وضاحت ۳؎ : بظاہریہ ایک مشکل عبارت ہے کیو نکہ اصطلاحی طورپرحسن کامرتبہ صحیح سے کم ہے، تو اس فرق کے باوجودان دونوں کو ایک ہی جگہ میں کیسے جمع کیا جاسکتاہے؟ اس سلسلہ میں مختلف جوابات دیئے گئے ہیں، سب سے عمدہ توجیہ حافظ ابن حجرنے کی ہے (الف)اگرحدیث کی دویادوسے زائد سندیں ہوں تومطلب یہ ہوگاکہ یہ حدیث ایک سند کے لحاظ سے حسن اوردوسری سندکے لحاظ سے صحیح ہے، اوراگرحدیث کی ایک ہی سند ہو تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک طبقہ کے یہاں یہ حدیث حسن ہے اوردوسرے کے یہاں صحیح ہے، یعنی محدث کے طرف سے اس حدیث کے بارے میں شک کا اظہارکیاگیا ہے کہ یہ حسن ہے یاصحیح ۔
     
  13. اُم تیمیہ

    اُم تیمیہ -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2013
    پیغامات:
    2,723
    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]
    3- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ مِفْتَاحَ الصَّلاَةِ الطُّهُورُ

    ۳-باب: وضو صلاۃ کی کنجی ہے

    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]3- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَهَنَّادٌ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مِفْتَاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُورُ، وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ، وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ".
    قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا الْحَدِيثُ أَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ. وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ هُوَ صَدُوقٌ، وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يَقُولُ: كَانَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَالْحُمَيْدِيُّ يَحْتَجُّونَ بِحَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَهُوَ مُقَارَبُ الْحَدِيثِ. قَالَ أَبُوعِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ۔
    * تخريج: د/الطہارۃ۳۱ (۶۱) ق/الطہارۃ۳ (۲۷۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۶۵) حم (۱/۱۲۳،۱۲۹) دی الطہارۃ ۲۲ (۷۱۴) (حسن صحیح)
    [/font]

    ۳- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''صلاۃ کی کنجی وضو ہے، اور اس کا تحریمہ صرف اللہ اکبر کہنا ہے ۱ ؎ اورصلاۃ میں جوچیز یں حرام تھیں وہ ''السلام علیکم ورحمۃ اللہ'' کہنے ہی سے حلال ہوتی ہیں'' ۲؎ ۔

    امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں یہ حدیث سب سے صحیح اور حسن ہے، ۲- عبداللہ بن محمد بن عقیل صدوق ہیں۳؎ ، بعض اہل علم نے ان کے حافظہ کے تعلق سے ان پر کلام کیاہے،میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ احمدبن حنبل ،اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ اورحمیدی: عبداللہ بن محمدبن عقیل کی روایت سے حجت پکڑتے تھے، اور وہ مقارب الحدیث ۴؎ ہیں، ۳- اس باب میں جابر اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

    وضاحت ۱؎ : یعنی اللہ اکبرہی کہہ کرصلاۃ میں داخل ہونے سے وہ سارے کام حرام ہوتے ہیں جنہیں اللہ نے صلاۃ میں حرام کیا ہے، ''اللہ اکبر''کہہ کرصلاۃ میں داخل ہونا نبی اکرمﷺ کا دائمی عمل تھا، اس لیے کسی دوسرے عربی لفظ یا عجمی لفظ سے صلاۃ کی ابتداء صحیح نہیں ہے۔

    وضاحت ۲؎ : یعنی صرف السلام علیکم ورحمۃ اللہ ہی کے ذریعہ صلاۃ سے نکلا جاسکتا ہے ۔دوسرے کسی اورلفظ یا عمل کے ذریعہ نہیں۔

    وضاحت ۳؎ : یہ کلمات تعدیل میں سے ہے اورجمہورکے نزدیک یہ کلمہ راوی کے تعدیل کے چوتھے مرتبے پردلالت کرتا ہے جس میں راوی کی عدالت تو واضح ہوتی ہے لیکن ضبط واضح نہیںہوتا ،امام بخا ری جب کسی کو صدوق کہتے ہیں تو اس سے مراد ثقہ ہوتا ہے جوتعدیل کا تیسرامرتبہ ہے ۔

    وضاحت۴؎ : مقارب الحدیث حفظ و تعدیل کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے، لفظ مقارب دوطرح پڑھاجاتا ہے: راء پرزبرکے ساتھ، اورراء کے زیرکے ساتھ، زبرکے ساتھ مقارَب الحدیث کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کی حدیث اس کی حدیث سے قریب ہے، اور زیرکے ساتھ مقارِب الحدیث سے یہ مراد ہے کہ اس کی حدیث دیگرثقہ راویوں کی حدیث سے قریب ترہے، یعنی اس میں کوئی شاذیا منکرروایت نہیں ہے، امام ترمذی نے یہ صیغہ ولیدبن رباح اورعبداللہ بن محمد بن عقیل کے بارے میں استعمال کیا ہے۔

    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]4- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ زَنْجَوَيْهِ الْبَغْدَادِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوُا: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ قَرْمٍ، عَنْ أَبِي يَحْيَى الْقَتَّاتِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مِفْتَاحُ الْجَنَّةِ الصَّلاَةُ، وَمِفْتَاحُ الصَّلاَةِ الْوُضُوءُ"۔
    * تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۵۷۶) وانظر حم (۳/۳۳۰) (ضعیف)
    [/font]

    (سندمیں سلیمان بن قرم اورأبویحیی القتات دونوں ضعیف ہیں، مگرآخری ٹکڑا'' مفتاح الصلاة الوضوء ''پچھلی حدیث کی بنا پر صحیح لغیرہ ہے)

    ۴- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' صلاۃ جنت کی کنجی ہے، اور صلاۃ کی کنجی وضو ہے'' ۔
    [/font]
     
  14. اُم تیمیہ

    اُم تیمیہ -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2013
    پیغامات:
    2,723
    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]
    4-بَاب مَا يَقُولُ إِذَا دَخَلَ الْخَلاَءَ

    ۴-باب: بیت الخلاء (پاخانہ) میں داخل ہونے کے وقت کی دعا

    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]5- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَهَنَّادٌ قَالاَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا دَخَلَ الْخَلاَءَ قَالَ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ - قَالَ شُعْبَةُ: وَقَدْ قَالَ مَرَّةً أُخْرَى: أَعُوذُ بِاللّهِ - مِنْ الْخُبْثِ وَالْخَبِيثِ أَوْ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ".
    قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ وَجَابِرٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ.
    قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ أَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ. وَحَدِيثُ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ فِي إِسْنَادِهِ اضْطِرَابٌ: رَوَى هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ وَسَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، فَقَالَ سَعِيدٌ: عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَوْفٍ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، وقَالَ هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ: عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ. وَرَوَاهُ شُعْبَةُ وَمَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، فَقَالَ شُعْبَةُ: عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، وَقَالَ مَعْمَرٌ: عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: يُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ قَتَادَةُ رَوَى عَنْهُمَا جَمِيعًا۔
    * تخريج: خ/الوضوء ۹(۱۴۲) والدعوات ۱۵ (۶۳۲۲) م/الحیض ۳۲ (۳۷۵) د/الطہارۃ ۳ (۴) ن/الطہارۃ ۱۸(۱۹) ق/الطہارۃ ۹(۲۹۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۲) حم (۳/۱۰۱/۲۸۲) دی/الطہارۃ۹(۶۹۶) (صحیح)
    [/font]

    ۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺجب قضائے حاجت کے لیے پاخانہ میں داخل ہوتے تویہ دعاء پڑھتے:''اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْخُبْثِ وَالْخَبِيثِ أَوْ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ'' (اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ناپاکی سے اورناپاک شخص سے، یا ناپاک جنوں سے اورناپاک جنیوں سے) '' ۱؎ ۔

    شعبہ کہتے ہیں: عبدالعزیزنے دوسری بار''اللهم إني أعوذبك'' کے بجائے ''أعوذ بالله'' کہا ۔

    امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں علی ، زیدبن ارقم، جابراورابن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- انس رضی اللہ عنہ کی حدیث اس باب میں سب سے صحیح اورعمدہ ہے ،۳- زیدبن ارقم کی سند میں اضطراب ہے ، امام بخاری کہتے ہیں: کہ ہوسکتا ہے قتادہ نے اسے (زیدبن ارقم سے اورنضربن انس عن أبیہ ) دونوں سے ایک ساتھ روایت کیا ہو۔

    وضاحت ۱؎ : مذکورہ دعاپاخانہ میں داخل ہو نے سے پہلے پڑھنی چاہئے، اور اگر کوئی کھلی فضامیں قضائے حاجت کرنے جارہا ہوتو رفع حاجت کے لیے بیٹھتے ہوئے کپڑااٹھانے سے پہلے یہ دعاپڑھے۔

    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]6- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا دَخَلَ الْخَلاَءَ قَالَ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ۔
    * تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۱) (صحیح)
    [/font]
    ۶- انس بن مالک کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب قضائے حاجت کے لئے بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو پڑھتے:''اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ'' (اے اللہ میں تیری پناہ چاہتاہوں ناپاک جنوں اور ناپاک جنیوں سے) ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

    وضاحت ۱؎ : گندی جگہوں میں گندگی سے انس رکھنے والے جن بسیراکرتے ہیں، اسی لیے نبیﷺ قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت ناپاک جنوں اور جنیوں سے پناہ مانگتے تھے، انسان کی مقعدبھی قضاء حاجت کے وقت گندی ہوتی ہے اس لیے ایسے مواقع پر خبیث جن انسان کواذیت پہنچاتے ہیں، اس سے محفوظ رہنے کے لیے یہ دعاپڑھی جاتی ہیں۔
    [/font]
     
  15. اُم تیمیہ

    اُم تیمیہ -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2013
    پیغامات:
    2,723
    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]
    5- بَاب مَا يَقُولُ إِذَا خَرَجَ مِنْ الْخَلاءِ

    ۵-باب: بیت الخلاء (پاخانہ) سے نکلتے وقت کی دعا

    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]7- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ بْنِ يُونُسَ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا خَرَجَ مِنْ الْخَلاَءِ قَالَ: "غُفْرَانَكَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ عَنْ يُوسُفَ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ. وَأَبُو بُرْدَةَ بْنُ أَبِي مُوسَى - اسْمُهُ عَامِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ الأشْعَرِيُّ -. وَلاَ نَعْرِفُ فِي هَذَا الْبَابِ إِلاَّ حَدِيثَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.
    * تخريج: د/الطہارۃ ۱۷(۳۰) ق/الطہارۃ۱۰(۳۰۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۴) دي/الطہارۃ ۱۷(۷۰۷) (صحیح)
    [/font]
    ۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم ﷺ قضائے حاجت کے بعدجب پاخانہ سے نکلتے توکہتے: ''غفرانك'' (یعنی اے اللہ : میں تیری بخشش کا طلب گارہوں ۱؎ )۔
    امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ۲؎ ،۲- اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کی حدیث معروف ہے ۳؎ ۔

    وضاحت ۱؎ : ایسے موقع پراستغفارطلب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ''کھانا کھانے کے بعد اس کے فضلے کے نکلنے تک کی ساری باتیں اللہ تعالیٰ کے بے انتہاانعامات میں سے ہیں جن کا شکریہ اداکرنے سے انسان قاصرہے ،اس لیے قضائے حاجت کے بعد انسان اس کوتاہی کااعتراف کرے، اس موقع کی دوسری دعا(سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھ سے تکلیف دہ چیزکودورکردیااورمجھے عافیت دی)کے معنی سے اس معنی کی تائیدہوتی ہے۔

    وضاحت ۲؎ : یہ حدیث حسن غریب ہے ، یہ ایک مشکل اصطلاح ہے کیو نکہ حدیث حسن میں ایک سے زائد سندبھی ہوسکتی ہے جب کہ غریب سے مراد وہ روایت ہے جو صرف ایک سند سے آئی ہو، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث اپنے رتبے کے لحاظ سے حسن ہے اور کسی خارجی تقویت وتائید کی محتاج نہیں، اس بات کو امام ترمذی نے غریب کے لفظ سے تعبیر کیا ہے یعنی اسے حسن لذاتہ بھی کہہ سکتے ہیں، واضح رہے کہ امام ترمذی حسن غریب کے ساتھ کبھی کبھی دوطرح کے جملے استعمال کرتے ہیں، ایک '' لانعرفه إلامن هذا الوجه '' ہے، اور دوسرا '' وإسناده ليس بمتصل'' پہلے جملہ سے یہ بتانامقصود ہوتا ہے کہ یہ حدیث صرف ایک طریق سے واردہوئی ہے اور دوسرے سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے، یہاں حسن سے مراد وہ حسن ہے جس میں راوی متہم بالکذب نہ ہو، اور غریب سے مراد یہاں اس کا ضعف ظاہرکرنا ہے اور '' إسناده ليس بمتصل'' کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ سندمیں انقطاع ہے یعنی اس کاضعف خفیف ہے ۔

    وضاحت ۳؎ : یعنی اس باب میں اگرچہ اوربھی احادیث آئی ہیں لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ بالا حدیث کے سوا کوئی حدیث قوی سندسے ثابت نہیں۔
    [/font]
     
  16. اُم تیمیہ

    اُم تیمیہ -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2013
    پیغامات:
    2,723
    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]
    6-بَاب فِي النَّهْيِ عَنْ اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَةِ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ

    ۶-باب: پیشاب یاپاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے کی ممانعت

    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]8- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءَ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِذَا أَتَيْتُمْ الْغَائِطَ فَلاَ تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ وَلاَ بَوْلٍ، وَلاَ تَسْتَدْبِرُوهَا، وَلَكِنْ شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا" قَالَ أَبُو أَيُّوبَ: فَقَدِمْنَا الشَّامَ، فَوَجَدْنَا مَرَاحِيضَ قَدْ بُنِيَتْ مُسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةِ، فَنَنْحَرِفُ عَنْهَا وَنَسْتَغْفِرُ اللَّهَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْئٍ الزُّبَيْدِيِّ، وَمَعْقِلِ بْنِ أَبِي الْهَيْثَمِ، (وَيُقَالُ مَعْقِلُ بْنُ أَبِي مَعْقِلٍ)، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَسَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي أَيُّوبَ أَحْسَنُ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَصَحُّ. وَأَبُو أَيُّوبَ - اسْمُهُ خَالِدُ بْنُ زَيْدٍ - وَالزُّهْرِيُّ - اسْمُهُ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيُّ - وَكُنْيَتُهُ أَبُو بَكْرٍ. قَالَ أَبُو الْوَلِيدِ الْمَكِّيُّ: قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيُّ: إِنَّمَا مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: "لاَتَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ وَلاَ بِبَوْلٍ، وَلاَ تَسْتَدْبِرُوهَا" إِنَّمَا هَذَا فِي الْفَيَافِي، وَأَمَّا فِي الْكُنُفِ الْمَبْنِيَّةِ لَهُ رُخْصَةٌ فِي أَنْ يَسْتَقْبِلَهَا، وَهَكَذَا قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ. و قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ: إِنَّمَا الرُّخْصَةُ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي اسْتِدْبَارِ الْقِبْلَةِ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ، وَأَمَّا اسْتِقْبَالُ الْقِبْلَةِ فَلاَ يَسْتَقْبِلُهَا، كَأَنَّهُ لَمْ يَرَ فِي الصَّحْرَاءِ وَلاَ فِي الْكُنُفِ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ.
    * تخريج: خ الوضوء ۱۱(۱۴۴) والصلاۃ ۲۹(۳۹۴) م/الطہارۃ ۱۷ (۲۶۴) د/الطہارۃ ۴(۹) ن/الطہارۃ ۱۹،۲۰،۲۱(۲۰،۲۱،۲۲) ق/الطہارۃ ۱۷(۱۸) (تحفۃ الأشراف: ۲۴۷۸) ط/القبلۃ ۱ (۱) حم (۵/۴۱۶، ۴۱۷، ۴۲۱) دی/ الطہارۃ۶(۶۹۲) (صحیح)
    [/font]
    ۸- ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤتوپاخانہ یا پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کرواورنہ پیٹھ، بلکہ منہ کو پورب یا پچھم کی طرف کرو'' ۱؎ ۔

    ابوایوب انصاری کہتے ہیں: ہم شام آئے تو ہم نے دیکھاکہ پاخانے قبلہ رخ بنائے گئے ہیں توقبلہ کی سمت سے ترچھے مڑجاتے اورہم اللہ سے مغفرت طلب کرتے۔

    امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی ، معقل بن ابی ہیشم ( معقل بن ابی معقل ) ابوامامہ ، ابوہریرہ اورسہل بن حنیف رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- ابوایوب کی حدیث اس باب میں سب سے عمدہ اورسب سے صحیح ہے،۳- ابوالولیدمکی کہتے ہیں:ابوعبداللہ محمدبن ادریس شافعی کاکہناہے کہ نبی اکرمﷺ نے جویہ فرمایاہے کہ پاخانہ یاپیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کرواورنہ پیٹھ، اس سے مرادصرف صحراء (میدان) میں نہ کرنا ہے، رہے بنے بنائے پاخانہ گھر توان میں قبلہ کی طرف منہ کرنا جائزہے، اسی طرح اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ نے بھی کہا ہے، احمدبن حنبل کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے پاخانہ یاپیشاب کے وقت قبلہ کی طرف صرف پیٹھ کرنے کی رخصت ہے، رہا قبلہ کی طرف منہ کرنا تو یہ کسی بھی طرح جائزنہیں،گویاکہ (امام احمد) قبلہ کی طرف منہ کرنے کونہ صحراء میں جائزقراردیتے ہیں اورنہ ہی بنے بنائے پاخانہ گھر میں(البتہ پیٹھ کرنے کوبیت الخلاء میں جائزسمجھتے ہیں)۔

    وضاحت ۱؎ : یہ خطاب اہل مدینہ سے اوران لوگوں سے ہے جن کا قبلہ مدینہ کی سمت میں مکہ مکرمہ اوربیت اللہ الحرام سے شمال والی جانب واقع ہے، اوراسی طرح مکہ مکرمہ سے جنوب والی جانب جن کا قبلہ مشرق (پورب) یامغرب (پچھم) کی طرف ہے وہ قضائے حاجت کے وقت شمال یاجنوب کی طرف منہ یاپیٹھ کرکے بیٹھیں ۔
    [/font]
     
  17. اُم تیمیہ

    اُم تیمیہ -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2013
    پیغامات:
    2,723
    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]
    7- بَاب مَا جَاءَ مِنْ الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ

    ۷-باب: قبلہ کی طرف منہ کرکے پیشاب یا پاخانہ کرنے کی رخصت

    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]9- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالاَ: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: نَهَى النَّبِيُّ ﷺ أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ بِبَوْلٍ، فَرَأَيْتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ بِعَامٍ يَسْتَقْبِلُهَا. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي قَتَادَةَ وَعَائِشَةَ وَعَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ.
    قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
    * تخريج: د/الطہارۃ (۱۳) ق/الطہارۃ ۱۸ (۳۲۵) (تحفۃ الأشراف: ۲۵۷۴) (صحیح)
    [/font]

    (سند میں محمد بن اسحاق صدوق ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حدیث صحیح ہے )

    ۹- جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایاکہ ہم پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ کریں ،پھر میں نے وفات سے ایک سال پہلے آپ کو قبلہ کی طرف منہ کرکے پیشاب کرتے ہوئے دیکھا ۔

    امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں ابوقتادہ ، عائشہ ، اورعمار بن یاسر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]10- وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ ﷺ يَبُولُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ.
    وَحَدِيثُ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَهِيعَةَ، وَابْنُ لَهِيعَةَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَغَيْرُهُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
    * تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۸۱) (ضعیف الإسناد)
    [/font]

    ۱۰- عبداللہ بن لہیعہ نے یہ حدیث ابوالزبیرسے اورابوالزبیرنے جابر رضی اللہ عنہ سے کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺکو قبلہ کی طرف منہ کرکے پیشاب کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔
    جابر رضی اللہ عنہ کی نبی اکرمﷺسے یہ حدیث ابن لہیعہ کی حدیث(جس میں جابرکے بعد ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کا واسطہ ہے) سے زیادہ صحیح ہے، ابن لہیعہ محدّثین کے نزدیک ضعیف ہیں،یحییٰ بن سعیدالقطان وغیرہ نے ان کی حفظ کے اعتبارسے تضعیف کی ہے ۔

    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]11- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَمِّهِ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: رَقِيتُ يَوْمًا عَلَى بَيْتِ حَفْصَةَ، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ عَلَى حَاجَتِهِ مُسْتَقْبِلَ الشَّامِ، مُسْتَدْبِرَ الْكَعْبَةِ.
    قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ۔
    * تخريج: خ/الوضوء ۱۲(۱۴۵) م/الطہارۃ ۱۷(۶۱۱) د/الطہارۃ ۵ (۱۲) ن/الطہارۃ ۲۲ (۲۳) ق/الطہارۃ ۱۸ (۳۲۲) (تحفۃ الأشراف: ۸۵۵۲) ط/القبلۃ ۲ (۳) حم (۲/۱۲،۱۳) دي/الطہارۃ ۸(۶۹۴) (صحیح)
    [/font]

    ۱۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک روزمیں (اپنی بہن) حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی چھت پر چڑھا تو نبی اکرم ﷺ کو دیکھاکہ آپ شام کی طرف منہ اور کعبہ کی طرف پیٹھ کرکے قضائے حاجت فرمارہے ہیں ۱ ؎ ۔

    امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔

    وضاحت ۱ ؎ : احتمال یہ ہے کہ نبی اکرمﷺکا یہ فعل خاص آپ کے لیے کسی عذر کی بناپرتھا اوراُمّت کے لیے خاص حکم کے ساتھ آپ ﷺ کا یہ فعل قطعاً معارض ہے ، اورپھریہ کہ آپ اوٹ تھے۔(تحفۃ الأحوذی: ۱/۲۲، ونیل الأوطارللشوکانی)
    [/font]
     
  18. اُم تیمیہ

    اُم تیمیہ -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2013
    پیغامات:
    2,723
    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]
    8 - بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنْ الْبَوْلِ قَائِمًا

    ۸-باب: کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی ممانعت

    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]12- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَنْ حَدَّثَكُمْ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَبُولُ قَائِمًا فَلاَ تُصَدِّقُوهُ، مَا كَانَ يَبُولُ إِلاَّ قَاعِدًا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَبُرَيْدَةَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَسَنَةَ.
    قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ أَحْسَنُ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَصَحُّ. وَحَدِيثُ عُمَرَ إِنَّمَا رُوِيَ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ أَبِي الْمُخَارِقِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ قَالَ: رَآنِي النَّبِيُّ ﷺ - وَأَنَا أَبُولُ قَائِمًا - فَقَالَ: "يَا عُمَرُ، لاَ تَبُلْ قَائِمًا، فَمَا بُلْتُ قَائِمًا بَعْدُ".
    قَالَ أَبُوعِيسَى: وَإِنَّمَا رَفَعَ هَذَا الْحَدِيثَ عَبْدُ الْكَرِيمِ بْنُ أَبِي الْمُخَارِقِ، وَهُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ: ضَعَّفَهُ أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ وَتَكَلَّمَ فِيهِ. وَرَوَى عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: مَا بُلْتُ قَائِمًا مُنْذُ أَسْلَمْتُ. وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْكَرِيمِ. وَحَدِيثُ بُرَيْدَةَ فِي هَذَا غَيْرُ مَحْفُوظٍ.
    وَمَعْنَى النَّهْيِ عَنْ الْبَوْلِ قَائِمًا: عَلَى التَّأْدِيبِ لاَ عَلَى التَّحْرِيمِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: إِنَّ مِنْ الْجَفَاءِ أَنْ تَبُولَ وَأَنْتَ قَائِمٌ۔
    * تخريج: ن/الطہارۃ ۲۵ (۲۹)، ق/الطہارۃ ۱۴ (۳۰۷)، (تحفۃ الأشراف:۱۶۱۴۷)، حم (۶/۱۳۶، ۱۹۲، ۲۱۳) (صحیح) (تراجع الالبانی /۱۲، الصحیحہ : ۲۰۱)
    [/font]

    ۱۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : جوتم سے یہ کہے کہ نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوکر پیشاب کرتے تھے تو تم اس کی تصدیق نہ کرنا، آپ بیٹھ کرہی پیشاب کرتے تھے ۱؎ ۔

    امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں عمر، بریدہ،عبدالرحمن بن حسنہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲- اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث سب سے زیادہ عمدہ اورصحیح ہے،۳- عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ مجھے نبی اکرم ﷺ نے کھڑے ہوکر پیشاب کرتے ہوئے دیکھاتو فرمایا: ''عمر! کھڑے ہوکر پیشاب نہ کرو''، چنانچہ اس کے بعد سے میں نے کبھی بھی کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو عبدالکریم ابن ابی المخارق نے مرفوعاً روایت کیاہے اور وہ محدّثین کے نزدیک ضعیف ہیں، ایوب سختیانی نے ان کی تضعیف کی ہے اور ان پر کلام کیاہے، نیزیہ حدیث عبیداللہ نے نافع سے اور نافع نے ابن عمر سے کہ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے جب سے اسلام قبول کیاکبھی کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کیا۔ یہ حدیث عبدالکریم بن ابی المخارق کی حدیث سے (روایت کے اعتبارسے) زیادہ صحیح ہے ۲؎ ، ۴- اس باب میں بریدۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث محفوظ نہیں ہے،۵- کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی ممانعت ادب کے اعتبارسے ہے حرام نہیں ہے ۳؎ ،۶- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ تم کھڑے ہوکر پیشاب کرو یہ پھوہڑپن ہے ۴؎ ۔

    وضاحت ۱؎ : ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کایہ دعویٰ اپنے علم کے لحاظ سے ہے ، ورنہ بوقت ضرورت نبی اکرمﷺنے کھڑے ہوکربھی پیشاب کیا ہے جیساکہ اگلی حدیث میں آرہاہے، ہاں آپ کی عادت مبارکہ عام طورپربیٹھ ہی کرپیشاب کرنے کی تھی ، اورگھرمیں کھڑے ہوکرپیشاب کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی ہے۔

    وضاحت ۲؎ : یعنی عبدالکریم کی مرفوع روایت کہ (نبی اکرمﷺنے کھڑے ہوکرپیشاب سے روکا) ضعیف ہے، جبکہ عبیداللہ العمری کی موقوف روایت صحیح ہے۔

    وضاحت ۳؎ : یعنی کھڑے ہوکرپیشاب کرناحرام نہیں بلکہ منع ہے۔

    وضاحت ۴؎ : دونوں (مرفوع و موقوف) حدیثوں میں فرق یوں ہے کہ مرفوع کا مطلب ہے : نبی اکرم ﷺنے عمر رضی اللہ عنہ کو جب سے منع کیا تب سے انہوں نے کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کیا، اور موقوف روایت کا مطلب ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ اپنی عادت بیان کررہے ہیں کہ اسلام لانے کے بعد میں نے کبھی کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کیا۔
    [/font]
     
  19. اُم تیمیہ

    اُم تیمیہ -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2013
    پیغامات:
    2,723
    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]
    9- بَاب الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ

    [
    size="5"]۹-باب: کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی اجازت کابیان
    [/size]​
    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]13- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الاَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَتَى سُبَاطَةَ قَوْمٍ، فَبَالَ عَلَيْهَا قَائِمًا، فَأَتَيْتُهُ بِوَضُوئٍ فَذَهَبْتُ لاِتَأَخَّرَ عَنْهُ، فَدَعَانِي حَتَّى كُنْتُ عِنْدَ عَقِبَيْهِ، فَتَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ.
    قَالَ أَبُو عِيسَى: و سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْ الأعْمَشِ، ثُمَّ قَالَ وَكِيعٌ: هَذَا أَصَحُّ حَدِيثٍ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْمَسْحِ، و سَمِعْت أَبَاعَمَّارٍ الْحُسَيْنَ بْنَ حُرَيْثٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا، فَذَكَرَ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى مَنْصُورٌ وَعُبَيْدَةُ الضَّبِّيُّ عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ مِثْلَ رِوَايَةِ الأْعمَشِ. وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ وَعَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَحَدِيثُ أَبِي وَائِلٍ عَنْ حُذَيْفَةَ أَصَحُّ. وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْبَوْلِ قَائِمًا.
    قَالَ أَبُو عِيسَى: وَعَبِيدَةُ بْنُ عَمْرٍو السَّلْمَانِيُّ رَوَى عَنْهُ إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ، وَعَبِيدَةُ مِنْ كِبَارِ التَّابِعِينَ، يُرْوَى عَنْ عَبِيدَةَ أَنَّهُ قَالَ: أَسْلَمْتُ قَبْلَ وَفَاةِ النَّبِيِّ ﷺ بِسَنَتَيْنِ، وَعُبَيْدَةُ الضَّبِّيُّ، صَاحِبُ إِبْرَاهِيمَ: هُوَ عُبَيْدَةُ بْنُ مُعَتِّبٍ الضَّبِّيُّ وَيُكْنَى أَبَا عَبْدِ الْكَرِيمِ۔
    * تخريج: خ/الوضوء ۶۰(۲۲۴) و۶۱(۲۲۵) و۶۲(۲۲۶) والمظالم ۲۷ (۲۴۷۱) م/الطہارۃ۲۲(۲۷۳) د/الطہارۃ۱۲(۲۳) ن/الطہارۃ۱۷،۲۴(۱۸،۲۶،۲۷،۲۸) ق/الطہارۃ ۱۳(۳۰۵) (تحفۃ الأشراف: ۳۳۳۵) حم ( ۵/۳۹۴) دي/الطہارۃ ۹ (۶۹۵) (صحیح)
    [/font]

    ۱۳- حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا گزر ایک قوم کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پرسے ہوا تو آپ نے اس پر کھڑے ہوکر پیشاب کیا، میں آپ کے لیے وضو کا پانی لایا،اسے رکھ کرمیں پیچھے ہٹنے لگا،تو آپ نے مجھے اشارے سے بلایا ، میں (آکر)آپ کی ایڑیوں کے پاس کھڑاہوگیا، آپ نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔

    امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- وکیع کہتے ہیں: یہ حدیث مسح کے سلسلہ میں نبی اکرم ﷺ سے مروی حدیثوں میں سب سے زیادہ صحیح ہے ۔۲- یہ حدیث بروایت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بھی نبی اکرمﷺ سے مروی ہے ۱؎ ابووائل کی حدیث جسے انہوں نے حذیفہ سے روایت کیا (مغیرہ کی روایت سے)زیادہ صحیح ہے ۲؎ ، ۳- محدّثین میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے کھڑے ہوکرپیشاب کرنے کی اجازت دی ہے۔

    وضاحت ۱؎ : یعنی حماداورعاصم نے بھی ابووائل ہی سے روایت کی ہے مگر ابووائل نے حذیفہ کے علاوہ ''مغیرہ بن شعبہ'' رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا ہے ،ایسااکثر ہوتا ہے کہ ایک راوی نے ایک حدیث دودوراویوں سے روایت ہوتی ہے اس لیے ممکن ہے کہ ابووائل نے دونوں صحابیوں سے سناہو۔

    وضاحت ۲؎ : کیونکہ اعمش والی روایت صحیحین میں بھی ہے جبکہ عام والی روایت صرف ابن ماجہ میں ہے گرچہ وہ بھی صحیح ہے ، (معاملہ صرف ''زیادہ صحیح'' ہونے کا ہے)۔
    [/font]
     
  20. اُم تیمیہ

    اُم تیمیہ -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2013
    پیغامات:
    2,723
    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]
    10- بَاب مَا جَاءَ فِي الاسْتِتَارِ عِنْدَ الْحَاجَةِ

    ۱۰-باب: قضائے حاجت کے وقت پردہ کرنے کابیان

    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]14- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ الْمُلاَئِيُّ، عَنْ الاَعْمَشِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا أَرَادَ الْحَاجَةَ لَمْ يَرْفَعْ ثَوْبَهُ حَتَّى يَدْنُوَ مِنْ الأرْضِ.
    قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ الأعْمَشِ، عَنْ أَنَسٍ هَذَا الْحَدِيثَ.
    وَرَوَى وَكِيعٌ وَأَبُو يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ عَنْ الأعْمَشِ قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا أَرَادَ الْحَاجَةَ لَمْ يَرْفَعْ ثَوْبَهُ حَتَّى يَدْنُوَ مِنْ الأرْضِ . وَكِلاَالْحَدِيثَيْنِ مُرْسَلٌ، وَيُقَالُ: لَمْ يَسْمَعْ الأعْمَشُ مِنْ أَنَسٍ وَلاَ مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ. وَقَدْ نَظَرَ إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: رَأَيْتُهُ يُصَلِّي، فَذَكَرَ عَنْهُ حِكَايَةً فِي الصَّلاَةِ. وَالأَعْمَشُ اسْمُهُ - سُلَيْمَانُ بْنُ مِهْرَانَ أَبُومُحَمَّدٍ الْكَاهِلِيُّ - وَهُوَ مَوْلًى لَهُمْ. قَالَ الأَعْمَشُ: كَانَ أَبِي حَمِيلاً فَوَرَّثَهُ مَسْرُوقٌ۔
    * تخريج: د/الطہارۃ ۶ (۱۴) (تحفۃ الأشراف:۸۹۲) دی الطہارۃ۷ (۶۹۳) (صحیح)
    [/font]

    ۱۴- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تو جب تک زمین سے بالکل قریب نہ ہوجاتے اپنے کپڑے نہیں اٹھاتے تھے۔
    دوسری سندمیں اعمش سے روایت ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تواپنے کپڑے جب تک زمین سے قریب نہیں ہوجاتے نہیں اٹھاتے تھے ۱؎ ۔

    امام ترمذی کہتے ہیں: یہ دونوں احادیث مرسل ہیں، اس لیے کہ کہاجاتاہے: دونوں احادیث کے راوی سلیمان بن مہران الأعمش نے نہ ہی تو انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سماعت کی ہے اور نہ ہی کسی اورصحابی سے ، صرف اتناہے کہ انس کوصرف انہوں نے دیکھا ہے، اعمش کہتے ہیں کہ میں نے انہیں صلاۃپڑھتے دیکھاہے پھر ان کی صلاۃ کی کیفیت بیان کی ۔

    وضاحت ۱؎ : یہاں مرسل سے ''منقطع مراد ہے ، اس کی تشریح خود امام ترمذی نے کردی ہے کہ اعمش کا انس رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے، ویسے عام اصطلاحی مرسل: وہ حدیث ہوتی ہے جس کی سند کے آخرسے تابعی کے بعدوالاراوی ساقط ہو، ایسی روایت ضعیف ہوتی ہے کیونکہ اس میں اتصال سندمفقودہوتا ہے جوصحیح حدیث کی ایک لازمی شرط ہے، اسی طرح محذوف راوی کاکوئی تعین نہیں ہوتا، ممکن ہے وہ کوئی غیرصحابی ہو، اس صورت میں اس کے ضعیف ہو نے کااحتمال بڑھ جاتا ہے ۔اورانقطاع کا مطلب یہ ہے کہ سند میں کوئی راوی چھوٹا ہواہے۔
    [/font]
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں