عبادت کی اقسام - (5)رغبت (6) رہبت (7) خشوع

بابر تنویر نے 'دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح' میں ‏ستمبر 25, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    ودليل الرغبة (35) والرهبة (36) والخشوع (37) قوله تعالى:(إنهم كانوا يسارعون في الخيرات ويدعوننا رغبا ورهباً وكانوا لنا خاشعين)(38)(سورة الأنبياء: 90)
    “اور رغبت و رہبت اور خشوع کے عبادت ہونے کی دلیل یہ فرمان باری تعالی ہے: “یہ لوگ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے تھے اور رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے اور ہمارے آگے (پوری فروتنی کے ساتھ) جھکے ہوئے تھے۔”


    (35) الرغبة: کسی محبوب (پسندیدہ) چیز کو محبت سمیت پالینا (اس تک رسائی پانا)

    (36) الرهبة: خوف کی وہ بارآور نوع جو مخوف (جس ذات سے ڈراجاتا ہے) سے راہ فرار اختیار کرنے یعنی بچنے (کا باعث) ہو نیز یہ وہ “خوف” ہے، جو عمل سے ملاہوا ہوتا ہے۔

    (37) الخشوع: اللہ تعالی کی عظمت و کبریائی کے سامنے انتہا درجے کی عاجزی و انکساری، اس طرح کہ بندہ اللہ جل جلالہ کے کونی و شرعی ہر طرح کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کردے۔

    (38) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے اپنے مخلص بندوں کے اوصاف بیان کئے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کو پوری رغبت، رہبت، اور خشوع و خضوع میں ڈوب کر اللہ تعالی کی عبادت کرتے اور اس سے دعائیں مانگتے ہیں وار یہاں “دعاء” (دعاء کی ہر دوقسموں) “دعائے محبت” اور “دعائے مسئلہ” کو شامل ہے (یعنی اس دعاء سے مراد دونوں قسم کی دعائیں ہوسکتی ہیں جن کا تذکرہ پہلے گزر چکا ہے)...تو یہ لوگ اللہ تعالی کو، جو اس کے پاس ہے ان میں پوری) رغبت رکھتے ہوئے اور ذات سے اجرو ثواب کا طمع کرتے ہوئے، اس کی سزا اور اپنے گناہوں کی شامت سے لرزہ براندام ہوتے ہوئے پکارتے ہیں...اور مؤمن کو چاہئے کہ وہ “خوف” (اللہ تعالی کے ڈر) اور رجاء (اللہ تعالی سے ثواب کی امید) کے درمیان رہتے ہوئے اللہ تعالی کی طرف پلٹنے کی کوشش کرے، نیز وہ اللہ تعالی کی اطاعت میں “رجاء” (امید) کا پہلو غالب رکھے، تاکہ اس فرمانبرداری پر وہ اور زیادہ چست، مستعد اور اس (اللہ تعالی کی بارگاہ میں) قبولیت پر مزید پر امید ہوسکے، اور جب اسے اللہ کی نافرمانیوں میں سے کسی نافرمانی کے فعل کا خیال آئے تو ایسے وقت میں وہ اللہ کے خوف کا پہلو غالب رکھے تاکہ وہ اس خوف کی بناء پر اس نافرمانی کے ارتکاب سے بچ نکلے اور اس طرح اس کی سزا سے بھی نجات پاجائے۔”
    • بعض اہل علم یہ کہتے ہیں: کہ انسان بیماری کی حالت میں رجاء (امید) کا پہلو غالب رکھے، اور صحت و تندرسی میں خوف کے پہلو کو، اس لئے کہ بیمار (اپنی بیماری کے سبب) نرم، مزاج اور کمزور دل ہوجاتا ہے اور یہ بھی بہت ممکن ہوتا ہے کہ اس کا آخری وقت قریب آگیا ہو، تو وہ مرجائے اور اللہ عزوجل کےساتھ وہ اچھا گمان رکھتا ہو۔ جبکہ صحت و تندرستی کی حالت میں انسان بہت زیادہ ہوشیار، تیز ، اور درازی عمر کی امید رکھتا ہے، اور یہ سوچ اس کو اکثر غرور، اکڑ اور کبر پر اکساتی رہتی ہے تو ایسے میں وہ اللہ تعالی کے خوف کا پہلو غالب رکھے تاکہ ان مذموم حالات و خیالات سے وہ محفوظ رہ سکے۔
    • اور اس بارے میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ اس کی رجاء اور خوف کے دونوں پہلو (بیک وقت) برابر کی سطح پر ہونے چاہئیں، تاکہ زیادہ پر امید ہونا اس کو اللہ تعالی کی سزا اور پکڑ سے بے خوف نہ کردے اور زیادہ خوف زدہ ہونا، اس کو اللہ کی رحمت سے بالکل مایوس ہی نہ کردے، اور یہ دونوں طرف کی انتہائیں قبیح(بری) اور اپنانے والے کو ہلاکت میں ڈالنے والی ہیں۔ (والعياذ بالله)
     
  2. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    جزاک اللہ خیرا
     
  3. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    جزاکم اللہ خیرا
     
  4. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    جزاک اللہ خیرا
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں