پانچواں رکن: آخرت کے دن پر ایمان اور یہ تین امور کو شامل ہے-2

بابر تنویر نے 'دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح' میں ‏نومبر 2, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
     اور کفار نے موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کا انکار کیا ہے، ان کا دعوی ہے کہ ایسا ہونا ناممکن ہے، لیکن ان کا یہ گمان اور دعوی باطل ہے، جس کے بطلان پر شریعت طاہرہ، انسانی حس اور عقل سلیم تینوں ایک ساتھ دلالت کرتی ہیں۔

    أ‌- شرعی اعتبار سے دلالت : تواس بارے میں اللہ جل شانہ کا فرمان ہے
    (زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلَى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ) (التغابن:7)
    " اور آخرت کا انکار کرنے والوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ قطعا اٹھاۓ نہیں جائیں گے، آپ ان سے کہیۓ، کیون نہیں، میرے پرودگار کی قسم! تم ضرور اٹھائے جاؤ گے، پھر جو کچھ تم کرتے رہے اس سے تمہیں آگاہ کیا جاۓ گا، اور یہ بات اللہ تعالی کے لیۓ آسان ہے۔" نیز تمام آسمانی کتابیں اس بات پر متفق ہیں۔

    ب‌- حسی اعتبار سے دلالت : اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اس دنیا میں ہی مردوں کو زندہ کرنا دکھا دیا ہے، صرف سورہ البقرہ میں اس کی پانچ مثالیں موجود ہیں۔ جو درج ذیل ذکر کی جاتی ہیں:

    پہلی مثال: قوم موسی علیہ السلام کی ہے: ( لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً )(البقرة:الآية55)
    " ہم ہر گز تجھ پر ایمان نہ لائیں گے، یہاں تک کہ ہم واضح طور پر نہ دیکھ لیں گے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اس پر اللہ تعالی نے انہیں موت دے دی ، پھر ان کو زندہ کیا"

    اسی واقعہ کے بارے میں اللہ تعالی بنی اسرائیل کو مخاطب ہو کر فرماتا ہے : (وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ * ثُمَّ بَعَثْنَاكُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ) (البقرة:55 - 56)
    " اور (وہ واقعہ بھی یاد کرو) . جب تم نے موسی علیہ السلام سے کہا : کہ ہم تو جب تک اللہ کو علانیہ دیکھ نہ لیں، تمہاری بات نہ مانیں گے، پھر تمہارے دیکھتے ہی دیکھتے تم پر بجلی گری ( جس نے تمہیں ختم کردیا) پھر تمہاری موت کے بعد ہم نے تمہیں زندہ کر اٹھایا کہ شائد اب ہی تم شکر گزار بن جاؤ۔"

    دوسری مثال اس مقتول شخص کا قصہ ہے، جس کے بارے میں بنی اسرائیل نے آپس میں جھگڑا کیا تھا، تو اللہ تعالی نے اس کے اس جھگڑے کو نمٹانے کے لیۓ ان کو حکم دیا کہ وہ کوئ ایک گاۓ ذبح کریں، پھر اس کا کوئ حصہ لے کر اس مقتول کو ماریں، تاکہ وہ ان کو اپنے قاتل کی بابت خبر دے سکے،
    اس بارے میں اللہ تعالی یوں ارشاد فرماتا ہے: (وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْساً فَادَّارَأْتُمْ فِي توهَا وَاللَّهُ مُخْرِجٌ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ * فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا كَذَلِكَ يُحْيِي اللَّهُ الْمَوْتَى وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ) (البقرة:72 - 73) .
    اور (اے بنی اسرائیل! وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب تم نے ایک آدمی کو مار ڈالا تھا، پھر تم یہ الزام ایک دوسرے کے سرتھوپ کر جھگڑا کر رہے تھے اورجو کچھ تم چھپانا چاہتے تھے اللہ تعالی اسے ظاہر کرنے والا تھا، سو ہم نے حکم دیا کہ اس ذبح شدہ گاۓ کے گوشت کا ایک ٹکڑا مقتول کی لاش پر مارو (چنانچہ مقتول نے بول کر اپنے قاتل کا پتہ بتلا دیا) اللہ تعالی اس طرح سے مردوں کو زندہ کرے گا اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھلاتا ہے تاکہ تم (حقیقت کو) سمجھو۔"

    تیسری مثال: قوم یہود کا قصہ ہے، جو موت سے بھاگتے ہوئے اپنے گھروں سے نکلے تھے اور ان کی تعداد ہزاروں تھی، تو اللہ تعالی نے انہیں وہیں پر موت سے دوچار کردیا، پھران کو زندہ کیا
    اسی واقعہ کے بارے میں حق تعالی جل شانہ کا فرمان ہے : (أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَشْكُرُونَ) (البقرة:243)
    " کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے حال پر بھی غور کیا، جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل گۓ تھے، حالانکہ وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے، اللہ تعالی انہیں کہا کر مرجاؤ (چنانچہ وہ راستہ ہی میں مر گۓ) پھر اللہ تعالی نے انہیں (پیغمبروں کی دعاء کی وجہ سے زندہ کردیا) اور اللہ تو یقینا لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے، لیکن لوگوں کی اکثریت ایسی ہے جو اللہ کا شکر ادا نہیں کرتی۔"

    چوتھی مثال اس شخص کا قصہ ہے، جو ایک تباہ شدہ کھنڈر نما (اور ویران) بستی کے قریب سے گذرا اور اس بات کو بہت بعید (بلکہ ناممکن) خیال کیا کہ اللہ تعالی اس ویران اور اجاڑ بستی کو دوبارہ بساۓ گا، تو اللہ جل شانہ نے اسی جگہ اس کو ایک سو سال تک کے لیۓ موت دے دی، بعد ازاں اس کو زندہ کیا،
    اس بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: : (أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّى يُحْيِي هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْماً أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانْظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ وَانْظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْماً فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ) (البقرة:259)
    ” یا (آپ نے اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا؟) جو ایک بستی کے پاس سے گزرا، اور وہ بستی اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی، وہ کہنے لگا :" اس بستی کی موت کے بعد دوبارہ اللہ اسے کیسے زندہ کرے گا" (یعنی کیسے آباد کرے گا) اس پر اللہ تعالی نے اسے سو سال تک موت کی نیند سلا دیا، پھر اسے زندہ کر کے اس سے پوچھا:" بھلا کتنی مدت تم یہاں پڑے رہے؟ وہ بولا کہ "یہی بس ایک دن یا اس کا کچھ حصہ ٹھرا ہوں گا۔ اللہ تعالی نے فرمایا : بات یوں نہیں، بلکہ تم یہاں سو سال تک پڑے رہے ہو، اچھا اب اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں کو تو دیکھو، یہ ابھی تک باسی نہیں ہوئیں، اور اپنے گدھے کی طرف دیکھو (اس کا پنجر تک بوسیدہ ہوچکا ہے) اور ہم نے یہ اس لیۓ کیا ہے کہ تجھے لوگوں کے لیۓ ایک معجزہ بنا دیں ( کہ جو شخص سو برس پیشتر مر چکا تھا وہ دوبارہ زندہ ہو کر آگيا) اور اب گدھے کی ہڈیوں کی طرف دیکھو کہ ہم کیسے انہیں جوڑتے ، اٹھاتے اور اس پر گوشت چڑھا دیتے ہیں۔ جب یہ سب باتیں واضح ہوگئیں تو وہ کہنے لگا: اب مجھے خوب معلوم ہو گيا کہ اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔"

    پانچویں مثال :حضرت ابراھیم علیہ السلام کے قصہ میں ہے، جب انھوں نے اللہ تعالی سے استدعا کی کہ وہ انہیں مشاہدہ کرائیں کہ وہ (اللہ تعالی) مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے؟ تو اللہ تعالی نے آپ کو حکم دیا کہ چار (مختلف اقسام کے) پرندے لے کر انہیں ذبح کرو، پھر ان کے گوشت کے ٹکڑوں کو آپس میں ملا کر اپنے قریب کے پہاڑ کے الگ الگ حصوں مں رکھ دو، پر ان میں سے ہر ایک کا باری باری نام لے کر انہیں بلاؤ، وہ مختلف گوشت کے اجزاء آپس میں مل کر اور پھر ایک مکمل اور زندہ پرندہ بن کر دوڑتا ہوا آپ کے پاس آۓ گا،
    اسی قصہ کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے: (وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءاً ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْياً وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ) (البقرة:260) .
    " اور جب حضرت ابراھیم علیہ السلام نے کہا تھا کہ اے میرے پروردگار! مجھے دکھلا دے کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ اللہ تعالی نے پوچھا کہ کیا تجھے اس کا یقین نہیں‏؟ ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا: کیوں نہیں؟ لیکن میں اپنے دل کا اطمینان چاہتا ہوں، اللہ تعالی نے فرمایا: اچھا تو چار پرندے لو اور انہیں اپنے ساتھ مانوس کرلو، پھر ان کا ایک ایک جزء ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو، پھر انہیں پکارو، وہ تمہارے پاس دوڑے چلے آئیں گے، اور جان لو کہ اللہ تعالی ہر چیز پر غالب اور حکمت والا ہے۔"

    تو یہ وہ حسی، شعوری اور حقیقت پر مبنی مثالیں ہیں، جو مردوں کو زندہ کرنے پر واضح دلالت کرتی ہیں اور اس طرح قبل ازیں، حضرت عیسی بن مریم علیہما السلام کے معجزات کے ضمن میں یہ معجزہ بھی ذکر ہو چکا ہے کہ آپ " اللہ تعالی کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیتے اور انہیں ان کی قبروں سے نکال باہر کرتے تھے۔:
    اور مردوں کو زندہ کرنے پر عقلی اعتبار سے دو طرح کی دلیلیں ہیں :

    پہلی دلیل : بلاشبہ اللہ تعالی آسمانوں ، زمینوں اور جو کچھ ان کے اندر ہے سب کا خالق (پیدا کرنے والاہے) اور اس نے یہ سب کچھ ابتداء سے پیدا کیا ہے ( جس کی کوئ سابقہ مثال نہیں نہ تھی) تو مخلوق کی پیدائش پر، بغیر کسی سابقہ مثال کے قدرت رکھنے والی ذات، اس مخلوق کو دوبارہ پیدا کرنے سے عاجز نہیں آسکتی۔
    اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (وَهُوَ الَّذِي يَبْدأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْه)(الروم:الآية27)
    "اور وہی ذات ہے، جو خلقت کی ابتداء کرتا ہے، پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا، اور یہ (دوسری بار پیدائش) اس پر زیادہ آسان ہے۔"

    سورہ الانبیاء میں ارشاد باری تعالی ہے: ( كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْداً عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ)(الأنبياء:الآية104)
    " جس طرح ہم نے تمہاری پیدائش کی ابتداء کی تھی، اسی طرح اس کا اعادہ کریں گے، یہ ہمارے ذمہ ایک وعدہ ہے اور یہ ہم کرکے رہیں گے"۔

    اور اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو اس کافر کی تردید کا حکم دیتے ہوۓ فرمایا: جس کافر نے بوسیدہ اور جلی ھڈی کے دوبارہ زندہ ہونے کا انکار کر دیا تھا:
    ارشاد باری تعالی ہے : (قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ) (يّـس:79)
    " (اے نبی!) آپ اسے کہہ دیجیۓ کہ : اسے وہی دوبارہ زندہ کرے گا، جس نے پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ ہر قسم کا پیدا کرنا جانتا ہے۔"

    دوسری دلیل : کہ زمین ایک وقت میں بالکل مردہ (بنجر اور بے آباد) سیاہ خشک ہوتی ہے، اس میں کوئ پودا ہوتا ہے نہ سبزہ، کہ اس پر ایسی حالت میں باران رحمت برستی ہے، تو ناگہان وہ زمین ہر قسم کے پھلوں اور سر سبزی و شادابی میں لہلہانے لگتی ہے، تو اس مردہ زمین کو زندہ کرنے پر قادر مطلق ذات، مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قدرت رکھتی ہے۔
    اللہ تعال ارشاد فرماتا ہے : (وَمِنْ آيَاتِهِ أَنَّكَ تَرَى الأَرْضَ خَاشِعَةً فَإِذَا أَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ إِنَّ الَّذِي أَحْيَاهَا لَمُحْيِي الْمَوْتَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ) (فصلت:39)
    " اور اس (اللہ تعالی) کی نشانیوں میں سے ایک ہے کہ تم دیکھتے ہو کہ زمین سونی (بے آباد) پڑی ہوئ ہے، پھر ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ حرکت میں آتی ہے اور پھول جاتی ہے، جس (اللہ) نے اس زمین کو پیدا کیا ہے وہ یقینا مردوں کو بھی زندہ کرسکتا ہے، کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے،
    اور سورہ ق میں حق تعالی کا ارشاد ہے: (وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَكاً فَأَنْبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ * وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَهَا طَلْعٌ نَضِيدٌ* رِزْقاً لِلْعِبَادِ وَأَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً كَذَلِكَ الْخُرُوجُ) (قّ:9 - 11).
    " اور ہم نے آسمان سے برکت والا پانی اتارا، جس سے ہم نے باغات اگاۓ اور اناج بھی جو کاٹا جاتا ہے، اور کھجوروں کے بلند و بالا درخت بھی، جن پر تہ بہ تہ خوشے لگتے ہیں۔ یہ بندوں کے لیۓ رزق ہے، اور اس پانی سے ہم ایک مردہ زمین زندہ کردیتے ہیں (تمہارا زمین سے دوبارہ) نکلنا بھی اسی طرح ہوگا۔"
    اور حقیقی راہ سے بھٹکے ہوۓ لوگوں میں سے ایک گمراہ قوم نے عذاب قبر اور اس کی راحتوں اور آسائشوں کا یا گمان کرتے ہوۓ سرے سے انکار ہی کردیا" کہ یہ واقعاتی و مشاہداتی امور کے خلاف ہونے کی بناء پر ایسا ہونا ناممکن ہے، وہ یہ بھی کہتے ہیں:" کہ اگر قبر میں مدفون میت کو کھولا جاۓ تو وہ اسی حالت میں ملے گي جیسے وہ تدفین کے وقت تھی اور قبر بھی نہ پہلے سے کشادہ دکھائ دیتی ہے اور نہ تنگ۔" لیکن ان لوگوں کا یہ گمان شرعی، حسی اور عقلی اعتبار سے باطل ہے۔

    شرعی اعتبار سے: تو اس کے رد میں قبل ازیں چند نصوص میں ذکر ہوچکی ہیں جو عذاب قبر اور اس کی راحتوں اور نعمتوں پر واضح دلالت کرتی ہیں۔(52)
    دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح(شرح اصول الثلاثة) - URDU MAJLIS FORUM
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    جزاک اللہ خیرا
    وبارک اللہ فی جھودک
     
  3. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    اللہ تعالی جزائے خیر دے۔
    اللہ تعالی دنیا و آخرت میں اس کا اجر دے۔ آمین
     
  4. اخت طیب

    اخت طیب -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2013
    پیغامات:
    769
    جزاك الله خيرا
     
  5. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    جزاک اللہ خیرا بھائی
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں