اچھی اور بری، تقدیر ، پر ایمان اور یہ بھی چار امور کو شامل ہے-1

بابر تنویر نے 'دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح' میں ‏نومبر 5, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    وتؤمن بالقدر خيره وشره (48) والدليل على هذه الأركان الستة قوله تعالى: } )لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ) (البقرة:177) ودليل القدر قوله تعالى: )إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ) (القمر:49)
    " اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لانا " اور ایمان کے ان چھ ارکان میں سے پہلے پانچ کی دلیل اللہ تعالی کا یہ ارشاد گرامی ہے:" نیکی (محض) یہ نہیں کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیۓ یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے، کہ آدمی اللہ پر، اور یوم آخرت پر ملائکہ (فرشتوں) پر اور اللہ کی نازل کی ہوئ کتاب اور اس کے پیغمبروں پر ایمان و یقین رکھے"۔۔۔۔۔۔۔ اور چھٹے رکن 'تقدیر خیر و شر' (یعنی اچھی اور بری تقدیر) کی دلیل یہ فرمان الہی ہے :" بے شک ہم نے ہر چیز ایک تقدیر (اندازے) کے ساتھ پیدا کی ہے۔"
    --------------------------------------------------


    (48) : کلمہ (القدر) قاف کے فتحہ ، یعنی زبر کے ساتھ پڑھا گیا ہے، جس سے مراد اللہ تعالی کی، کائنات کے لیۓ، اپنے کامل اور سبقت لے جانے والے علم کے مطابق، تقدیر (فیصلے اور احکام کا نفاذ) ہے، جس کا اس (حق تعالی) کی حکمت تقاضا کرتی ہے۔
    تقدیر پر ایمان چار امور کو متضمن (یعنی شامل ہے اور ان کا تقاضا کرتی) ہے۔
    پہلی بات : یہ ہے کہ ایمان رکھنا کہ بلا شک و شبہ اللہ تعالی کائنات میں موجود ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے اور اس کا یہ کامل علم ازلی و ابدی ہر اعتبار سے ہے، خواہ اس علم کا تعلق اس ذات کے اپنے افعال سے ہو یا اس کے بندوں کے افعال سے( یا پھر دیگر تمام مخلوقات کے امور سے)
    دوسری بات یہ ایمان رکھنا کہ اللہ جل شانہ نے یہ سب کچھ (پہلے سے ہی)، لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے اور ان دونوں باتوں کی تائید میں یہ فرمان باری تعالی ہے :
    (أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاءِ وَالأَرْضِ إِنَّ ذَلِكَ فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ) (الحج:70)
    " کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالی وہ سب کچھ جانتا ہے، جو آسمانوں اور زمین میں ہے، بلا شبہ یہ سب کچھ ایک کتاب (لوح محفوظ) میں درج ہے، اللہ کے لیۓ بالکل آسان ہے۔"

    صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ :" اللہ تعالی نے ساری مخلوقات کی تقدیریں، آسمانوں اور زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار برس پہلے لکھ دی تھی۔" (54)

    تیسری بات : اس بات پر ایمان کہ پوری کائنات اللہ جل شانہ کی مشیت اور مرضی سے معرض وجود میں آئ ہے، خواہ اس کے وجود میں آنے کا تعلق اللہ جل شانہ کے اپنے فعل سے ہو یا پھر اس ذات باری تعالی کی مخلوق کے فعل سے۔"

    ارشاد باری تعالی ہے (وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ)(القصص:الآية68)
    " اور آپ کا پروردگار جو چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہے (اپنے کام کے لیۓ) منتخب کرلیتا ہے۔"

    اور سورہ ابراھیم میں یہ ارشاد ہوا ہے : ) وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ)(إبراهيم:الآية27)
    " اور اللہ تعالی جو چاہتا ہے کرتا ہے۔"

    سورہ آل عمران میں یہ ارشاد باری تعالی ہے : (هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ (آل عمران:الآية6)
    " وہی اللہ تعالی، جیسے چاہتا ہے، تمہاری ماؤں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں بناتا ہے۔"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اور سورہ النساء میں اللہ کا ارشاد ہے: ) وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقَاتَلُوكُمْ فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ )(النساء:الآية90)
    " اگر اللہ (تعالی) چاہتا تو انہیں (یعنی تمہارے مخالفین کو) ) تم پر مسلط کر دیتا ، پھر وہ تمہارے خلاف لڑائ کرتے ۔"

    سورہ الانعام میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :( وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ)(الأنعام:الآية112)
    " اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے، سو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجیۓ اور ان باتوں کو بھی جو وہ افتراء کرتے ہیں۔"

    چوتھی بات: یہ ہے کہ انسان یہ ایمان رکھے کہ ساری کائنات اورجو کچھ اس میں ہے اپنی ذات و صفات اور حرکات سمیت اللہ تعالی کی مخلوق ہے۔
    ارشاد باری تعالی ہے (اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ) (الزمر:62)
    " کہ اللہ ہر چیز کا خالق (پیدا کرنے والا) ہے اور وہ ہر چیز پر وکیل (کارساز) ہے"

    اور سورہ الفرقان میں حق تعالی کا ارشاد ہے: (وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيراً)(الفرقان:الآية2)
    اور اس (اللہ) نے ہر چیز کو پیدا کیا ( اور پھر) ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کیا۔"

    اللہ کے بنی حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے بارے میں، جو انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا، ارشاد فرمایا: (وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ) (الصافات:96)
    " اور اللہ نے تم کو پیدا کیا ہے اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو اس کو بھی (اس نے پیدا کیا ہے)"

    اور تقدیر ایمان کا وصف جو ہم نے بیان کیا ہے وہ اس بات کے منافی نہیں کہ بندہ۔۔۔۔ اپنے اختیاری کاموں میں اپنی مرضی اور قدرت رکھتا ہے، اس لیۓ شرعی و واقعاتی ہر دو اعتبار سے دلائل اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ انسان کو اس کے اختیاری کاموں میں مرضی اور قدرت تفویض کیۓ گۓ ہیں۔

    شرعی دلالت : انسان کی مشیت (مرضی) کے اثبات میں حق تعالی کا ارشاد ہے: ( فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ مَآباً)(النبأ:الآية39)
    " تو جو شخص چاہے، اپنے پرودگار کی طرف واپس جانے کا راہ اختیار کرے۔"

    اور سورہ البقرہ میں یہ الفاظ ارشاد فرماۓ :(فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ )(البقرة:الآية223)
    " پس تم اپنی کھیتیوں (یعنی عورتوں) کو جہاں سے آؤ۔" (اپنی عورتوں سے مجامعت کی طرف اشارہ ہے)

    اور انسان کو عطا کردہ قدرت (واختیار) کے بارے میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا
    :(فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا )(التغابن:الآية16)
    " پس تم اپنی استطاعت (طاقت) کے مطابق اللہ (تعالی) کی نافرماتی سے بچو (یا اللہ کی سزا سے ڈرو) جتنی تم طاقت رکھتے ہو۔"

    اور سورہ البقرہ آیت نمبر 286 می یہ الفاظ ارشاد فرماۓ: (لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ )(البقرة:الآية286)
    " اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، اکر کوئ شخص اچھا کام کرے گا تو اسے اس کا اجر ملے گا، اور اگر کوئ برا کام کرے گا تو اس کا وبال بھی اسی پر ہے۔"

    واقعاتی دلالت: ہر انسان یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ انسان کی اپنی مرضی اور قدرت (اختیار) ہے، انہیں کے ساتھ وہ کام سر انجام دیتا ہے اور انہی کی بدولت و کسی کام کو ترک کرتا ہے اور ان دو قسم کے امور میں واضح فرق کیا جاتا ہے کہ ایک وہ کام جو انسان کے ذاتی ارادے سے واقع ہوتا ہے جیسے چلنا، اٹھنا بیٹھنا وغیرہ اور دوسرا وہ جو بغیر اس کے ارادے اور مرضی کے واقع ہو جاتا ہے، جیسے اچانک اس پر لرزہ طاری ہو جانا وغیرہ، مگر یہ بات ضرور ہے کہ بندے کی مرضی اور اس کا اختیار یہ اللہ تعالی کی مشیت (مرضی) اور قدرت کے تابع ہیں اور اسی کی مرضی و قدرت سسے ہی وقوع پذیر ہوتے ہیں

    اور اس کی دلیل اللہ تعالی عزوجل کا یہ فرمان ہے۔ (لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ * وَمَا تَشَاءُونَ إِلا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ) (التكوير:28 - 29)
    " اور ہر اس شخص کے لیۓ بھی (قران ایک نصیحت ہے) جو تم میں سے سیدھی راہ پر چلنا چاہتا ہو، اور تم چاہ نہیں سکتے، مگر وہی کچھ، جو اللہ رب العالمین (سارے جہانوں کا پروردگار) چاہتا ہو۔"

    اور یہ اس لیۓ بھی کہ چونکہ کائنات ساری کی ساری اللہ تعالی کی ملکیت ہے اور یہ ناممکن ہے کہ کوئ چیز اس کی ملکیت میں ہوتے ہو‎ۓ اس کے علم اور مشیت (مرضی) سے باہر ہو۔
    دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح(شرح اصول الثلاثة) - URDU MAJLIS FORUM
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    بارک اللہ فیک یا شیخ
    اللہ جزائے خیر دے۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں