سلطنت عثمانیہ ح

زبیراحمد نے 'تاریخ اسلام / اسلامی واقعات' میں ‏نومبر 16, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    ترجیح دی اورنہیں کی وجہ سے سلیمان کو موسیٰ کے مقابلے میں شکست فاش حاصل ہوئی سلیمان شکست یاب اورمفرور ہوکر قسطنطنیہ کے قیصر کی خدمت میں جارہا تھا کہ راستے میں ۱۸۱۳ھ میں گرفتار ہوکر مقتول ہوا،اب صرف دو بھائی باقی رہ گئے یعنی محمد اورموسیٰ ،سلطنت عثمانیہ کا یورپی حصہ موسیٰ کے قبضے میں آگیا اورایشیائی حصے پر محمد قابض رہا۔

    موسیٰ کو چونکہ یہ معلوم تھا کہ قیصر مینو ٹل پلیولوگس فرماں روائے قسطنطنیہ سلیمان کی طرف داری کرتا تھا اوراسی لئے سلیمان اُس کے پاس بھاگ کر جانا چاہتا تھا لہذا اُس نے ارادہ کرلیا کہ قیصر قسطنطنیہ کو بھی سزادے مگر اس سے پہلے اس کے لئے ضروری ہوگیا تھا کہ وہ اسٹیفن حاکم سرویا کو سزا دے کیونکہ حاکم سرویا اسٹیفن نے علانیہ سلیمان کی حمایت کی تھی لہذا اُس نے اوّل سردیا پر چڑھائی کی اور سرویا کی فوج کو میدانِ جنگ میں ایسی شکست فاش دی کہ اُس کی کمر ٹوٹ گئی اور پھر سرحدی اضلاع میں عثمانیوں کا رعب اور عیسائیوں کے دلوں میں خوف طاری ہوگیا، موسیٰ کا یہ حملہ جو اس نے سرویا پر کیا سلطنت عثمانیہ کے لئے بہت ہی مفید ثابت ہوا کیونکہ اس سے یورپ کے عیسائیوں کا وہ خیال کہ اب عثمانی بہت کمزور ہوگئے ہیں بدل گیا، اس کے بعد موسیٰ نے قسطنطنیہ پر چڑھائی کرکے محاصرہ کرلیا اورقیصر قسطنطنیہ کو سزا دینا ضروری سمجھا قیصر نیوٹل بھی بہت ہوشیار اورچوکس آدمی تھا اُس نے اس فرصت میں محمد خان کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھالئے تھے جو ایشیائے کوچک میں تنہا قابض و فرماں روا ہوکر کافی طور پر مضبوط ہوچکا تھا اوراُن چھوٹ چھوٹی ریاستوں کو جو تیمور نے قائم کردی تھیں،اپنی حکومت میں شامل کررہا تھا، بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ موسیٰ و محمد دونوں بھای اس تقسیم پررضا مند ہیں کہ موسیٰ یورپی علاقے پر قابض رہے اورمحمد ایشیائی علاقے میں حکومت کرے اگرچہ اس کے متعلق کوئی معاہدہ اورباقاعدہ فیصلہ نہ ہوا تھا،مگر قیصر کی رشیہ دوانیوں اور چالاکیوں نے بہت ہی جلد ایک پیچیدگی پیدا کردی،جب موسیٰ نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا تو قیصر نے محمد خان سے امداد اعانت طلب کی اورمحمد خان نے بلا تامل اس محاصرہ کے اٹھانے کے لئے یورپ کے ساحل پر فوج لے کر جانا ضروری سمجھا،اس طرح قسطنطنیہ کے محاذ جنگ پر یورپی ترک اورایشیائی ترک آپس میں مصروفِ جنگ ہوئی اوردونوں بھائیوں میں مخالفت کی بنیاد رکھی گئی، ابھی موسیٰ کا محاصرہ بدستور قائم تھا کہ محمد خان کو اپنے ایشیائی علاقے میں ایک ماتحت رئیس کے باغی ہونے کی خبر پہنچی اورفوراً ایشیائے کوچک میں بغاوت کرنے چلا گیا، یہ بغاوت موسیٰ کے اشارے سے ہوئی تھی تاکہ محمد خان ایک عیسائی بادشاہ کی مدد نہ کرسکے، محمدخان بہت جلدبغاوت کے فرو کرنے میں کامیاب ہوا،اُدھر اُس کی غیر موجودگی میں موسیٰ نے محاصرہ میں سختی کی اورقیصر قسطنطنیہ کا حال بہت ہی پتلا ہونے لگا، محمد خان فارغ ہوکر دوبارہ قسطنطنیہ پہنچ گیا اوراُس نے اسٹیفن شاہ سرویا کو لکھا کہ تم موسیٰ کے خلاف خروج کرو ہم تمہاری مدد کریں گے ،محمد خان کا سہاراپاکر شاہ سرویا جو پہلے ہی سے موسیٰ کے ذریعہ آزار رسیدہ تھا اُٹھ کھڑا ہوا، موسیٰ کو جب شاہ سرویا کے خروج کا حال معلوم ہوا تو وہ قسطنطنیہ سے محاصرہ اٹھا کر سرویہ کی طرف متوجہ ہوا، ادھر سے اُس کے متعاقب محمد خان اپنی فوج لے کر پہنچا، سرودیہ کی جنوبی سرحد پر مقام جرلی کے میدان میں دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا، اور نتیجہ یہ ہوا کہ موسیٰ لڑائی میں مارا گیا اور محمد خان ابن بایزید یلدرم مظفر و منصور ہوکر ایڈریا نوپل میں تخت نشین ہوا اور تمام عثمانیہ مقبوضات میں وہی تنہا فرماں روا تسلیم کیا گیا،چونکہ اب بایزید کی اولاد میں وہی تنہا قابل حکومت شخص رہ گیا تھا،لہذا خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا، محمد خان نے ایڈریا نوپل میں تخت نشین ہوکر اپنی رعایا،فوج اورسرداروں سے وفاداری کا حلف لیا اورسلیمان کے بیٹے کو جس سے بغاوت کا قوی اندیشہ تھا نیز اپنے بھائی قاسم کو جو بروصہ میں مقیم تھا محض اس لئے کہ آئندہ فتنہ برپانہ ہوسکے اندھا کرادیا اورنابینا کرانے کے بعد اُن کو نہایت آرام و عزت وآسائش سے رکھا، یہ واقعات ۸۱۶ھ میں وقوع پذیر ہوئے، اس طرح جنگِ انگورہ کے بعد گیارہ سال تک خاندانِ عثمانیہ میں خانہ جنگی کا سلسلہ جاری رہا، اس گیارہ سال کی خانہ جنگی میں سلطنتِ عثمانیہ کا قائم رہنا اورپھر ایک شان دار مضبوط شہنشاہی کی شکل میں نمودار ہوجانا دنیا کے عجائیبات میں سے شمار ہوتا ہے ،تاریخ عالم میں بہت ہی کم ایسی مثالیں نظر آسکتی ہیں کہ اتنے بڑے دھکے کو سہہ کر اورایسے خطرناک حالات میں گذر کر اتنی جلد کسی خاندان یا کسی قوم نے اپنی حالت کو سنبھال لیا ہو۔
    جنگ انگورہ کے بعد سلطنت عثمانیہ کے تباہ وبرباد ہوجانے میں بظاہر کوئی کسر باقی نہیں معلوم ہوتی تھی کیونکہ تیمور نے ایشیائے کوچک کے بہت سے علاقے ان سلجوقی خاندانوں کے رئیسوں کو دے دئے تھے جو سلطنت عثمانیہ سے پہلے ایشیا ئے کوچک میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں رکھتےتھے بعض علاقوں میں اس نے اپنی طرف سے نئی ریاستین قائم کردی تھیں، بایزید یلدرم جب ایشیائے کوچک کی طرف تیمور کے مقابلے کے لئے آیا تھا تو اپنے سب سے بڑے بیٹے سلیمان کو ایڈریانوپل میں اپنا قائم مقام بنا آیا تھا،جنگ انگورہ کے نتیجہ سے مطلع ہوکر عیسائیوں نے اپنے علاقوں کو پھر واپس لینے کی جرأت کی اور ایڈریانوپل اور اُس کے نواحی علاقوں کے سوا پاقی حصہ یورپی مقبوضات کا سلطنت عثمانیہ سے نکل گیا،قیصر قسطنطنیہ نے بھی جواس جنگ کے نتیجے کا بے صبری سے انتظار کررہا تھا اپنے مقبوضات کو وسیع کیا اوریورپ کے عیسائیوں کو اطمینان کا سانس لینا نصیب ہوا،مگر عثمانیوں کے ساتھ گذشتہ زمانے میں جو لڑائیاں ہوچکی تھیں اُن کا رُعب پھر بھی عیسائیوں کے دلوں پر اس قدر غالب تھا کہ وہ عثمانیوں کو ایڈر یا نوپل سے خارج کرنے پر فوراً آمادہ نہ ہوسکے،سلطنتِ عثمانیہ کا رقبہ بہت ہی محدود ومختصر رہ گیا تھا جس میں ایک چھوٹا سا ٹکڑا یورپ کا اورایک چھوٹا سا حصہ ایشیائے کوچک کا شامل تھا،پھر سب سے بڑی مصیبت یہ پیش آئی کہ بایزید یلدرم کےبیٹوں میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔

    بایزید یلدرم کے ساتھ یا آٹھ بیٹے تھے جن میں سے پانچ چھ جنگ انگورہ کے بعد باقی رہے جن کے نام یہ ہیں،سلیمان خاں جو ایڈر یا نوپل میں باپ کا قائم مقام تھا،موسیٰ جو باپ کے ہمراہ قید تھا،عیسیٰ جو جنگ انگورہ سے بچ کر بروصہ کی طرف بھاگ آیا اوریہاں کا حاکم بن بیٹھا تھا، مجھ جو بایزید کا سب سے چھوٹا اور سب سے زیادہ لائق بیٹا یہ ایشیائے کوچک ہی کے ایک دوسرے شہر میں حکومت کرنے لگا، قاسم جو کوئی حوصلہ نہ رکھتا تھا اور محمد یا عیسیٰ کے ساتھ رہتا تھا،اس طرح بایزید کی گرفتاری کے بعد ایشیا کے بچے ہوئے عثمانی علاقے میں محمد اور عیسیٰ دونوں الگ فرماں روائی کرنے لگے اوریورپی علاقے پر سلیمان قابض رہا بہت ہی جلد عیسیٰ اورمحمد میں لڑائی ہوئی تاکہ اس بات کا فیصلہ ہوسکے کہ ایشیائے کوچک کے عثمانی مقبوضہ پر ان دونوں میں سے کون فرما نروائی کرے گا سخت خونخوار جنگ کے بعد محمد نے عیسیٰ کوشکست دے کر بروصہ پر قبضہ کرلیا اورعیسیٰ ایشیائے کوچک سے بھاگ کر اپنے بھائی سلیمان کے پاس ایڈریا نوپل میں پہنچا کہ اُس کو محمد کے اوپر ایشیائے کوچک سے بھاگ کر اپنے بھیا سلیمان کے پاس ایڈریا نوپل میں پہنچکا کہ اُس کو محمد کے اوپر ایشیائے کوچک میں چڑھا کر لائے؛چنانچہ سلیمان اپنی فوج کو لیکر ایشیائے کوچک میں آیا اوربروصہ وانگورہ کو فتح کرلیا،کس قدر عبرت کا مقام ہے کہ بایزید یلدرم تیمور کی قید میں سختی وذلت برداشت کررہا تھا اوراس کے بیٹے آپس میں مصروفِ جنگ تھے کہ سلطنت کے بچے ہوئے چھوٹے سے ٹکڑے پر کون فرماں روائی کرے،وہ جس وقت آپس میں چھری کٹاری ہورہے تھے تو اُن کو یقیناً اپنے باپ کا مطلق خیال نہ آتا تھا اور وہ اُس کی تکلیفوں اورذلتوں کا کوئی تصور نہ کرتے تھے ورنہ اس طرح آپس میں ایک دوسرے کے خون کی خواہش نہ کرتے، انہیں ایام میں جبکہ سلیمان ایشیائے کوچک میں آکر محمد سےلڑرہا تھا جنگِ انگورہ کے آٹھ ماہ بعد بایزید یلدرم نے قید میں وفات پائی اور تیمور نے اُس کے بیٹے موسیٰ کو قید سے رہا کرکے باپ کی لاش کے لے جانے کی اجازت دی، موسیٰ باپ کی لاش لئے ہوئے آرہا تھا کہ راستہ میں قرمانیہ کے سلجوقی رئیس نے موسیٰ کو گرفتار کرلیا، موسیٰ نے جو سلیمان سے شکست کھا کر ملک میں آوارہ اورسلیمان کے مقابلے کے لئے طاقت بہم پہنچانے کی فکر میں تھا اس خبر کو سُن کر فرماں روائے قرمانیہ کو لکھا کہ آپ براہِ کرم میرے بھائی موسیٰ کو رہا کردیجئے تاکہ میں اور وہ دونوں مل کر سلیمان کا کچھ تدارک کرسکیں، حاکم قرمانیہ نے سلیمان اوراُس کے بھائیوں میں معرکہ آرائی کو اس لئے غنیمت سمجھا کہ عثمانی سلطنت کی رہی سہی طاقت اس خانہ جنگی سے زائل ہوسکے گی؛چنانچہ اُس نے محمد خان کی سفارش کو فوراً قبول کرکے اُس کے بھائی موسیٰ کو رہا کردیا جو باپ کی تدفین سے فارغ ہوتے ہی فوراً اپنے بھائی محمد خان سے آملا ،موسیٰ چونکہ باپ کے ساتھ قید میں رہا تھا اُس لئے اُس کی قبولیت عثمانی امرا اورسپاہیوں میں قدرتاً زیادہ تھی،اُس کے شریک ہوتے ہی محمد خان کی طاقت بڑھ گئی اور بڑے زور شور سے ایشیائے کوچک کے میدانوں میں لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہوا، ایک طرف محمد و موسیٰ اوردوسری طرف سلیمان وعیسیٰ تھے،آخر عیسیٰ تو نہ ہونے دیا، کئی مرتبہ محمد و موسیٰ کو شکست بھی ہوئی، آخر موسیٰ نے اپنے بھائی سے کہا کہ آپ مجھ کو تھوڑی سے فوج دے کر یورپی علاقےمیں بھیج دیجئے تاکہ میں وہاں جاکر قبضہ کروں اورسلیمان کو مجبوراً ایشیائے کوچک چھوڑ کر اُس طرف متوجہ ہونا پڑے، محمد کو بھائی کی یہ رائے بہت پسند آئی؛چنانچہ موسیٰ فوج لے کر ایڈریا نوپل پہنچ گیا، یہ خبر سنتے ہی سلیمان بھی اُس طرف متوجہ ہوا اورموسیٰ وسلیمان میں ایک خونخوار جنگ ہوئی، سلیمان چونکہ بڑا بیٹا تھا اوراپنے آپ کو تمام سلطنتِ عثمانیہ کا واحد فرماں روا سمجھتا تھا،لہذا اُس کو فوجی سرداروں کے ساتھ غیر معمولی رعایتیں کرنے اوراُن کو خوش رکھنے کا زیادہ خیال نہ آتا تھا،لیکن موسیٰ ومحمد چونکہ سلیمان سے حکومت چھیننا چاہتے تھے اورچھوٹا ہونے کی وجہ سے اپنے ھق کو خود بھی پست ترجانتے تھے لہذا ان کا برتاؤ اپنی فوج کے ساتھ بہت ہی اچھا تھا اوریہ اپنے فوجی سرداروں کو خوش رکھنے اوراُن کی عزتیں بڑھانے میں کسی موقع کو فروگذاشت نہ ہونے دیتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فوجی سرداروں نے سلیمان پر موسیٰ کو ترجیح دی اورنہیں کی وجہ سے سلیمان کو موسیٰ کے مقابلے میں شکست فاش حاصل ہوئی سلیمان شکست یاب اورمفرور ہوکر قسطنطنیہ کے قیصر کی خدمت میں جارہا تھا کہ راستے میں ۱۸۱۳ھ میں گرفتار ہوکر مقتول ہوا،اب صرف دو بھائی باقی رہ گئے یعنی محمد اورموسیٰ ،سلطنت عثمانیہ کا یورپی حصہ موسیٰ کے قبضے میں آگیا اورایشیائی حصے پر محمد قابض رہا۔

    موسیٰ کو چونکہ یہ معلوم تھا کہ قیصر مینو ٹل پلیولوگس فرماں روائے قسطنطنیہ سلیمان کی طرف داری کرتا تھا اوراسی لئے سلیمان اُس کے پاس بھاگ کر جانا چاہتا تھا لہذا اُس نے ارادہ کرلیا کہ قیصر قسطنطنیہ کو بھی سزادے مگر اس سے پہلے اس کے لئے ضروری ہوگیا تھا کہ وہ اسٹیفن حاکم سرویا کو سزا دے کیونکہ حاکم سرویا اسٹیفن نے علانیہ سلیمان کی حمایت کی تھی لہذا اُس نے اوّل سردیا پر چڑھائی کی اور سرویا کی فوج کو میدانِ جنگ میں ایسی شکست فاش دی کہ اُس کی کمر ٹوٹ گئی اور پھر سرحدی اضلاع میں عثمانیوں کا رعب اور عیسائیوں کے دلوں میں خوف طاری ہوگیا، موسیٰ کا یہ حملہ جو اس نے سرویا پر کیا سلطنت عثمانیہ کے لئے بہت ہی مفید ثابت ہوا کیونکہ اس سے یورپ کے عیسائیوں کا وہ خیال کہ اب عثمانی بہت کمزور ہوگئے ہیں بدل گیا، اس کے بعد موسیٰ نے قسطنطنیہ پر چڑھائی کرکے محاصرہ کرلیا اورقیصر قسطنطنیہ کو سزا دینا ضروری سمجھا قیصر نیوٹل بھی بہت ہوشیار اورچوکس آدمی تھا اُس نے اس فرصت میں محمد خان کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھالئے تھے جو ایشیائے کوچک میں تنہا قابض و فرماں روا ہوکر کافی طور پر مضبوط ہوچکا تھا اوراُن چھوٹ چھوٹی ریاستوں کو جو تیمور نے قائم کردی تھیں،اپنی حکومت میں شامل کررہا تھا، بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ موسیٰ و محمد دونوں بھای اس تقسیم پررضا مند ہیں کہ موسیٰ یورپی علاقے پر قابض رہے اورمحمد ایشیائی علاقے میں حکومت کرے اگرچہ اس کے متعلق کوئی معاہدہ اورباقاعدہ فیصلہ نہ ہوا تھا،مگر قیصر کی رشیہ دوانیوں اور چالاکیوں نے بہت ہی جلد ایک پیچیدگی پیدا کردی،جب موسیٰ نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا تو قیصر نے محمد خان سے امداد اعانت طلب کی اورمحمد خان نے بلا تامل اس محاصرہ کے اٹھانے کے لئے یورپ کے ساحل پر فوج لے کر جانا ضروری سمجھا،اس طرح قسطنطنیہ کے محاذ جنگ پر یورپی ترک اورایشیائی ترک آپس میں مصروفِ جنگ ہوئی اوردونوں بھائیوں میں مخالفت کی بنیاد رکھی گئی، ابھی موسیٰ کا محاصرہ بدستور قائم تھا کہ محمد خان کو اپنے ایشیائی علاقے میں ایک ماتحت رئیس کے باغی ہونے کی خبر پہنچی اورفوراً ایشیائے کوچک میں بغاوت کرنے چلا گیا، یہ بغاوت موسیٰ کے اشارے سے ہوئی تھی تاکہ محمد خان ایک عیسائی بادشاہ کی مدد نہ کرسکے، محمدخان بہت جلدبغاوت کے فرو کرنے میں کامیاب ہوا،اُدھر اُس کی غیر موجودگی میں موسیٰ نے محاصرہ میں سختی کی اورقیصر قسطنطنیہ کا حال بہت ہی پتلا ہونے لگا، محمد خان فارغ ہوکر دوبارہ قسطنطنیہ پہنچ گیا اوراُس نے اسٹیفن شاہ سرویا کو لکھا کہ تم موسیٰ کے خلاف خروج کرو ہم تمہاری مدد کریں گے ،محمد خان کا سہاراپاکر شاہ سرویا جو پہلے ہی سے موسیٰ کے ذریعہ آزار رسیدہ تھا اُٹھ کھڑا ہوا، موسیٰ کو جب شاہ سرویا کے خروج کا حال معلوم ہوا تو وہ قسطنطنیہ سے محاصرہ اٹھا کر سرویہ کی طرف متوجہ ہوا، ادھر سے اُس کے متعاقب محمد خان اپنی فوج لے کر پہنچا، سرودیہ کی جنوبی سرحد پر مقام جرلی کے میدان میں دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا، اور نتیجہ یہ ہوا کہ موسیٰ لڑائی میں مارا گیا اور محمد خان ابن بایزید یلدرم مظفر و منصور ہوکر ایڈریا نوپل میں تخت نشین ہوا اور تمام عثمانیہ مقبوضات میں وہی تنہا فرماں روا تسلیم کیا گیا،چونکہ اب بایزید کی اولاد میں وہی تنہا قابل حکومت شخص رہ گیا تھا،لہذا خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا، محمد خان نے ایڈریا نوپل میں تخت نشین ہوکر اپنی رعایا،فوج اورسرداروں سے وفاداری کا حلف لیا اورسلیمان کے بیٹے کو جس سے بغاوت کا قوی اندیشہ تھا نیز اپنے بھائی قاسم کو جو بروصہ میں مقیم تھا محض اس لئے کہ آئندہ فتنہ برپانہ ہوسکے اندھا کرادیا اورنابینا کرانے کے بعد اُن کو نہایت آرام و عزت وآسائش سے رکھا، یہ واقعات ۸۱۶ھ میں وقوع پذیر ہوئے، اس طرح جنگِ انگورہ کے بعد گیارہ سال تک خاندانِ عثمانیہ میں خانہ جنگی کا سلسلہ جاری رہا، اس گیارہ سال کی خانہ جنگی میں سلطنتِ عثمانیہ کا قائم رہنا اورپھر ایک شان دار مضبوط شہنشاہی کی شکل میں نمودار ہوجانا دنیا کے عجائیبات میں سے شمار ہوتا ہے ،تاریخ عالم میں بہت ہی کم ایسی مثالیں نظر آسکتی ہیں کہ اتنے بڑے دھکے کو سہہ کر اورایسے خطرناک حالات میں گذر کر اتنی جلد کسی خاندان یا کسی قوم نے اپنی حالت کو سنبھال لیا ہو۔
    سلطان محمد خان ابن بایزید یلدرم نے ۸۱۶ ھ میں بمقام ایڈریا نوپل تخت نشین ہوکر نہایت ہوشیاری اوردانائی کے ساتھ امورِ سلطنت کو انجام دینا شروع کیا،قسطنطنیہ کے عیسائی قیصر اورعیسائی بادشاہ سے پہلے ہی اُس کی صلح ہوگئی تھی، اب اُس کے تخت نشین ہونے پر ان دونوں نے اُس کو مبارکبادی اورقیمتی تحف وہدایا بھیجے، محمد خان نے اس کے جواب میں اپنی طرف سے اپنی آشتی پسند ہونے کا اس طرح ثبوت دیا کہ اُس نے شاہ سرویا کے لئے بہت سی رعایتیں منظور کیں اورشاہ قسطنطنیہ کو بھی تھسلی کے وہ قلعے جو ترکوں کے قبضے میں چلے آتے تھے اوربحیرہ اسود کے ساحل پر بعض ،مقامات جن کے نکل جانے سے قیصر قسطنطنیہ سخت بے چین تھا اُس کو دیجئے،وینس کی جمہوری ریاست جو ایک زبردست بحری طاقت تھی،ترکوں سے برسرِ پُر خاش رہتی تھی،سلطان محمد خاں کی سلامت روی اورصلح پسندی کا شہرہ سُن کر اُنہوں نے بھی صلح کی درخواست پیش کی اور سلطان انگورہ کی خبر سنتے ہی خود مختار ہوگئے تھے اورہر ملک میں عیسائیوں نے اپنی سلطنتیں قائم کرلی تھیں،ان سب کو اندیشہ تھا کہ عثمانی سلطان تکت نشینی کے بعد مطمئن ہوکر اپنے باپ کے صوبوں کو پھر اپنی سلطنت میں شامل کرنا چاہے گا اورہمارے اوپر حملہ آور ہوگا سلطان محمد خان کی اس کامیابی کا حال سُن کر اُن سب نے ڈرتے ڈرتے اپنے اپنے سفیر دربار سلطانی میں مبارکباد کے لئے روانہ کئے،سلطان محمد خان نے ان سفیروں سے نہایت تپاک کے ساتھ ملاقات کی اوررُخصت کرتے وقت اُن سفیروں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم اپنے آقاؤں سے جاکر میری طرف سے یہ ضرور کہہ دینا، میں سب کو امن دیتا ہوں اورسب سے امن قبول کرتا ہوں،خدائے تعالیٰ امن وامان کو سپند کرتا اورفساد کو بُرا جانتا ہے،سلطان محمد خان کے اس طرز عمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ میں امن وامان قائم ہوگیا، حقیقت یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ جو ابھی ایک مہلک اورخطرناک بیماری سے اٹھی تھی اس کے لئے حرکت اور جسمانی ریاضت بے حد مضر تھی اُس کو چند روز آرام کرنے اورپرہیزی غذا کھانے کی سخت ضرورت تھی،یہ خدائے تعالیٰ کا فضل تھا کہ سلطان محمد خان نہایت ہی موزوں سلطان تختِ عثمانی پر متمکن ہوا اوراُس کا طرز عمل ہر ایک اعتبار سے سلطنت کی تقویت اورآئندہ ترقیات کا موجب ثابت ہوا۔

    یورپ میں اس طرح سلطان محمد خان نے امن وامان قائم کرلیا مگر ایشیائے کوچک میں بغاوتوں کا سلسلہ موجود تھا،؛چنانچہ سلطان کو مع فوج خود ایشیائے کوچک میں جانا پڑا وہاں اُس نے اوّل سمرنا کی بغاوت فرو کی،اس کے بعد فرمانیہ کے باغیوں کو طاقت کے ذریعہ خاموش ومحکوم بنایا گیا پھر سلطان نے یہ عاقلانہ تدبیر کی کہ ایشیائے کوچک کی مشرقی حدود کے متصل جو ریاستیں یا سلطنتیں تیمور کی وفات کے بعد قائم ہوئیں،اُن سب سے دوستانہ تعلقات قائم کئے اورتمام ایشیائے کوچک کو اپنے قبضے میں لے کر اطمینان حاصل کیا کہ پھر کوئی حملہ تیموری حملہ کی مانند نہ ہوسکے۔

    ۸۲۰ ھ میں جبکہ سلطان محمد خان ایشیائے کوچک ایڈریا نوپل میں آچکا تھا تو دردانیال کے قریب بحیرہ ایجین میں وینس کے جنگی بیڑہ سے سلطان کے جنگی بیڑہ کی سخت لڑائی ہوئی جس میں ترکی کی بیڑہ کو سخت نقصان برداشت کرنا پڑا، اس لڑائی کا باعث یہ تھا کہ بحیرہ ایجبین کے جزیروں کے رہنے والے برائے نام وینس کی جمہوری حکومت کے ماتحت تھے، یہ لوگ سلطان کے ساحلی علاقے مثلا گیلی پولی وغیرہ پر چھاپے مارتے رہتے تھے،سلطان نے ان کی سرکوبی کے لئے اپنے جنگی بیڑہ کو حکم دیا لیکن اس کا مقابلہ وینس کے بیڑہ سے ہوگیا جو بہت طاقتور تھا لہذا سلطان کی بحری فوج کو نقصان اٹھانا پڑا، اس بحری لڑائی کے بعد بہت جلد پھر وینس کے ساتھ عہد نامہ صلح کی تجدید ہوگئی،وینس ایک بہت چھوٹی سی ریاست تھی جو جمہوری اصول پر قائم تھی،لیکن بحر روم میں اُس کی بحری طاقت سب پر فائق تھی، اس کے بعد سلطان کے لئے کوئی خطرہ اورکوئی جنگ بظاہر موجود نہ تھی اور سلطان اپنی مملکت کو وسیع کرنے کے مقابلے میں اندرونی طور پر اس کو مضبوط کرنا چاہتا تھا ؛چنانچہ سلطان نے جا بجا شہروں اور قصبوں میں مدرسے قائم کئے،علما کی قدر دانی کی راستوں کے امن وامان اورتجارت کی گرم بازاری کا بندوبست کیا، غرض کہ سلطان نے وہ طرزِ عمل اختیار کیا جس کی وجہ سے دوستوں اور دشمنوں دونوں میں اُس کی قبولیت بڑھ گئی اور سب کو اُس کی تعریف کرنی پڑی، اُس کی رعایا نے اُس کو چلپی یعنی بہادر وسنجیدہ مزاج کا خطاب دیا اور تمام ملکوں میں وہ سلطانِ صلح جو، مشہور ہوا مگر باوجود اس کے اُس کی عمل داری میں ایک فتنہ برپا ہوا جو اُس کی فوج کے قاضی بدرالدین نے برپا کیا۔

    تفصیل اس اجمالی کی یہ ہے کہ ایک نو مسلم یہودی مرتد ہوکر اس بات کا محرک ہوا کہ سلطان کو معزول کرکے جمہوری ریاست قائم کرنی چاہئے، قاضی بدر الدین اُس کا ہم خیال ہوگیا اوراُن دونوں نے ایک ترک مصطفیٰ نامی کو جو کوئی تعلیم یافتہ شخص نہ تھا اپنا مذہبی پیشوا بنایا اوریورپ وایشیا دونوں علاقوں میں اپنے خیالات کی اشاعت شروع کرکے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانا شروع کیا،اس بغاوت نے ترقی کرکے خطرناک صورت اختیار کرلی اورسلطان محمد خان کو بڑی فکر پیدا ہوئی،اس بغاوت نے اندر ہی اندر اس کی رعایا کو معاؤف کرنا شروع کردیا،یہ بغاوت اس لئے اور بھی جلد اورزیادہ کامیاب ہوسکی کہ سلطان محمد خا ن نے عیسائی سلاطین سے دوستی کے عہد نامے کرکے اچھے تعلقات قائم کئے تھے اُس کا دوستانہ برتاؤ جو عیسائیوں کے ساتھ تھا عام طور پر اُس کی مسلمان رعایا کو ناپسند اورگراں گذرتا تھا، عوام اس بات کو نہیں سمجھ سکتے تھے کہ اس زمانے میں صلح و آشتی ہی کی حکمتِ عملی سلطنت عثمانیہ کے لئے زیادہ مفید ہے؛چنانچہ جب اُن کو مذکورہ باغیوں نے بھڑکا یا تو وہ فوراً اُن کی باتوں میں آگئے،آخر سلطان محمد خان نے اس بغاوت کے فرو کرنے میں پوری ہمت اور مستعدی سے کام لے کر چند ہی روز میں اُس کا خاتمہ کردیا اور تینوں باغی مارے گئے،اس خطرہ سے نجات پاکر سلطان محمد خان کو ایک اورخطرناک باغی کا مقابلہ کرنا پڑا، جنگ انگورہ میں سلطان بایزید خاں یلدرم کا ایک بیٹا مصطفیٰ نامی مارا گیا تھا مگر جنگ کے بعد اُس کی لاش کا کوئی پتہ نہ چلا،تیمور نے بھی جنگ کے بعد مصطفی کی لاش کو تلاش کرایا مگر کہیں دستیاب نہ ہوئی اس لئے مصطفی کا مارا جانا مشتبہ رہا تھا، اب سلطان محمد خان کے آخر عہدِ حکومت یعنی ۸۲۴ھ میں ایک شخص نے ایشیائے کوچک میں اس بات کا دعویٰ کیا کہ میں مصطفیٰ ابن بایزید یلدرم ہوں وہ صورت و شکل میں بھی مصطفیٰ سے مشابہ تھا اس لئے بہت سے ترکوں نے اُس کے اس دعوے کو تسلیم کرلیا اور سمرنا کے عامل جنید اور صوبہ دار والیشیا نے اُس کے اس دعوے کی اس لئے اور بھی تصدیق کی کہ وہ محمد خان سے کوش نہ تھے؛چنانچہ مصطفی مذکور ان صوبہ داروں کی امداد سے گیلی پولی میں پہنچ کر تھسلی کے قریبی علاقے پر قابض ہوگیا،سلطان محمد خان اس خبر کو سنتے ہی فوراً فوج لے کر مقابلے پر پہنچا اورسالونیکا کے قریب ایک سخت لڑائی کے بعد مصطفی مذکور شکست فاش کھا کر بھاگا اورقیصر قسطنطنیہ کے پاس پہنچ کر پناہ گزیں ہوا، سلطان محمد خان نے قسطنطنیہ کے بادشاہ کو لکھا کہ مصطفی ہمارا باغی ہے، اُس کو ہمارے پاس بھیج دو، لیکن قیصر نے اُس کے واپس دینے سے انکار کرکے اس بات کا وعدہ کیا کہ میں اُس کو نہایت احتیاط کے ساتھ قید اورنظر بند رکھوں گا بشرطیکہ آپ اُس کے نان ونفقہ اوراخراجات کے معاوضہ میں ایک رقم میرے پاس بھجواتے رہیں؛چونکہ ان دنوں مسلسل بغاوتوں سے سلطان محمد خان زیادہ فکر مند ہوگیا تھا اوراسی لئے وہ اور بھی زیادہ اس حکمتِ عملی پر عمل کرنا ضروری سمجھتا تھا کہ قیصر یادوسرے عیسائیوں سے لڑائیاں نہ چھیڑی جائیں؛چنانچہ اُس نے قیصر کی بات کو منظور کرلیا اور مصطفی باغی کے قید و نظر بند رکھنے کے معاوضہ میں ایک مناسب رقم بھجوانی بھی منظور کرلی،اس بغاوت کے فرو ہونے کے بعد بھی سلطان محمد خان کو مصطفیٰ باغی کا زیادہ خیال رہا اور اُس نے قسطنطنیہ کے قیصر سے اپنے تعلقات کو زیادہ خوشگوار واستوار بنانا ضروری سمجھ کر خود قسطنطنیہ جانے کا قصد کیا جب کہ وہ ایشیائے کوچک سے درد انیال کو عبور کرکے گیلی پولی ہوتا ہوا ایڈریانوپل کو آرہا تھا، قیصر قسطنطنیہ نے سلطان محمد خان کی آمد کا حال سُن کر بڑی آؤ بھگت کی اوراُس کا نہایت شانداار استقبال کرکے قسطنطنیہ میں لایا، یہاں سلطان وقیصر میں دوبارہ عہد نامہ دوستی کی تجدید ہوئی اس کے بعد سلطان کو پھر گیلی پولی کی طرف جانا پڑا جہاں ۸۲۵ھ میں سلطان محمد خان کا سکتہ کے مرض میں مبتلا ہوکر انتقال ہوا۔
    سلطان محمد خان جنگ انگورہ کے وقت ۲۷ سال کی عمر رکھتا تھا،جنگ انگورہ کے بعد وہ ایشیائے کوچک کے قصبہ امیسیہ میں کود مختار حاکم بنا اوربھائیوں سے لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہوا، گیارہ سال تک وہ بھائیوں کے ساتھ زور آزمائی میں مصروف رہ کر سب پر غالب اور مطلق العنان فرماں روا عثمانی سلطنت کا بن گیا، آٹھ سال تک اُس نے بحیثیت سلطان حکومت وفرماں روائی کی ،اُس کا عہدِ حکومت فتنوں اورفسادیوں سے لبریز تھا، اُس نے ایسی معتدل اورمفید حکمت عملی اختیار کی جس سے سلطنت عثمانیہ جو قریب المرگ ہوچکی تھی پھر تندرست اور مضبوط ہوگئی،اسی لئےبعض مؤرخین نے اُس کو نوح کا کطاب بھی دیا ہے یعنی اپس نے سلطنتِ عثمانیہ کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچا کر نجات کے ساحل پر لگادیا۔

    سلطان محمد خان اول سب سے پہلا عثمانی سلطان ہے جس نے اپنے شاہی خزانہ سے ایک معقول رقم خانہ کعبہ اورمکہ معظمہ کے باشندوں کے لئے مخصوص کی جو سالانہ برابر مکہ معظمہ میں پہنچ کر مستحقین میں تقسیم اورخانہ کعبہ کی حفاظت ونگرانی کے کاموں میں صرف ہوتی تھی،اس لئے معتضد باللہ عباسی خلیفہ مصر نے اس سلطان کو کادم الحرمین شریفین کا خطاب دیا جس کو اس سلطان نے اپنے لئے موجب عزّ وافتخار تصوّر کیا،اسی خطاب نے آئندہ ایک زمانے میں ترقی کرکے عثمانیوں کو خلیفۃ المسلمین بناکر چھوڑا۔

    وفات کے وقت سلطان محمد خان کی عمر ۴۷ سال کی تھی،اُس کا بڑا بیٹا مراد خان ثانی جس کی عمر اٹھارہ سال کی تھی،ایشیائے کوچک مین ایک فوج کی سپہ سالاری پر مامور تھا،وزرائے سلطنت نے چالیس روز تک سلطان محمد خان کی وفات کو چھپایا اورمراد کان ثانی کے پاس فوراً خبر بھیجی کہ تم بلا تامل دارالسلطنت میں پہنچ کر مراسم تکت نشینی ادا کرو،چالیس روز کے بعد سلطان کی لاش کو گیلی پولی سے بروصہ میں لاکر دفن کیا گیا۔
    سلطان محمد خان ابن بایزید یلدرم نے ۸۱۶ ھ میں بمقام ایڈریا نوپل تخت نشین ہوکر نہایت ہوشیاری اوردانائی کے ساتھ امورِ سلطنت کو انجام دینا شروع کیا،قسطنطنیہ کے عیسائی قیصر اورعیسائی بادشاہ سے پہلے ہی اُس کی صلح ہوگئی تھی، اب اُس کے تخت نشین ہونے پر ان دونوں نے اُس کو مبارکبادی اورقیمتی تحف وہدایا بھیجے، محمد خان نے اس کے جواب میں اپنی طرف سے اپنی آشتی پسند ہونے کا اس طرح ثبوت دیا کہ اُس نے شاہ سرویا کے لئے بہت سی رعایتیں منظور کیں اورشاہ قسطنطنیہ کو بھی تھسلی کے وہ قلعے جو ترکوں کے قبضے میں چلے آتے تھے اوربحیرہ اسود کے ساحل پر بعض ،مقامات جن کے نکل جانے سے قیصر قسطنطنیہ سخت بے چین تھا اُس کو دیجئے،وینس کی جمہوری ریاست جو ایک زبردست بحری طاقت تھی،ترکوں سے برسرِ پُر خاش رہتی تھی،سلطان محمد خاں کی سلامت روی اورصلح پسندی کا شہرہ سُن کر اُنہوں نے بھی صلح کی درخواست پیش کی اور سلطان انگورہ کی خبر سنتے ہی خود مختار ہوگئے تھے اورہر ملک میں عیسائیوں نے اپنی سلطنتیں قائم کرلی تھیں،ان سب کو اندیشہ تھا کہ عثمانی سلطان تکت نشینی کے بعد مطمئن ہوکر اپنے باپ کے صوبوں کو پھر اپنی سلطنت میں شامل کرنا چاہے گا اورہمارے اوپر حملہ آور ہوگا سلطان محمد خان کی اس کامیابی کا حال سُن کر اُن سب نے ڈرتے ڈرتے اپنے اپنے سفیر دربار سلطانی میں مبارکباد کے لئے روانہ کئے،سلطان محمد خان نے ان سفیروں سے نہایت تپاک کے ساتھ ملاقات کی اوررُخصت کرتے وقت اُن سفیروں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم اپنے آقاؤں سے جاکر میری طرف سے یہ ضرور کہہ دینا، میں سب کو امن دیتا ہوں اورسب سے امن قبول کرتا ہوں،خدائے تعالیٰ امن وامان کو سپند کرتا اورفساد کو بُرا جانتا ہے،سلطان محمد خان کے اس طرز عمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ میں امن وامان قائم ہوگیا، حقیقت یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ جو ابھی ایک مہلک اورخطرناک بیماری سے اٹھی تھی اس کے لئے حرکت اور جسمانی ریاضت بے حد مضر تھی اُس کو چند روز آرام کرنے اورپرہیزی غذا کھانے کی سخت ضرورت تھی،یہ خدائے تعالیٰ کا فضل تھا کہ سلطان محمد خان نہایت ہی موزوں سلطان تختِ عثمانی پر متمکن ہوا اوراُس کا طرز عمل ہر ایک اعتبار سے سلطنت کی تقویت اورآئندہ ترقیات کا موجب ثابت ہوا۔

    یورپ میں اس طرح سلطان محمد خان نے امن وامان قائم کرلیا مگر ایشیائے کوچک میں بغاوتوں کا سلسلہ موجود تھا،؛چنانچہ سلطان کو مع فوج خود ایشیائے کوچک میں جانا پڑا وہاں اُس نے اوّل سمرنا کی بغاوت فرو کی،اس کے بعد فرمانیہ کے باغیوں کو طاقت کے ذریعہ خاموش ومحکوم بنایا گیا پھر سلطان نے یہ عاقلانہ تدبیر کی کہ ایشیائے کوچک کی مشرقی حدود کے متصل جو ریاستیں یا سلطنتیں تیمور کی وفات کے بعد قائم ہوئیں،اُن سب سے دوستانہ تعلقات قائم کئے اورتمام ایشیائے کوچک کو اپنے قبضے میں لے کر اطمینان حاصل کیا کہ پھر کوئی حملہ تیموری حملہ کی مانند نہ ہوسکے۔

    ۸۲۰ ھ میں جبکہ سلطان محمد خان ایشیائے کوچک ایڈریا نوپل میں آچکا تھا تو دردانیال کے قریب بحیرہ ایجین میں وینس کے جنگی بیڑہ سے سلطان کے جنگی بیڑہ کی سخت لڑائی ہوئی جس میں ترکی کی بیڑہ کو سخت نقصان برداشت کرنا پڑا، اس لڑائی کا باعث یہ تھا کہ بحیرہ ایجبین کے جزیروں کے رہنے والے برائے نام وینس کی جمہوری حکومت کے ماتحت تھے، یہ لوگ سلطان کے ساحلی علاقے مثلا گیلی پولی وغیرہ پر چھاپے مارتے رہتے تھے،سلطان نے ان کی سرکوبی کے لئے اپنے جنگی بیڑہ کو حکم دیا لیکن اس کا مقابلہ وینس کے بیڑہ سے ہوگیا جو بہت طاقتور تھا لہذا سلطان کی بحری فوج کو نقصان اٹھانا پڑا، اس بحری لڑائی کے بعد بہت جلد پھر وینس کے ساتھ عہد نامہ صلح کی تجدید ہوگئی،وینس ایک بہت چھوٹی سی ریاست تھی جو جمہوری اصول پر قائم تھی،لیکن بحر روم میں اُس کی بحری طاقت سب پر فائق تھی، اس کے بعد سلطان کے لئے کوئی خطرہ اورکوئی جنگ بظاہر موجود نہ تھی اور سلطان اپنی مملکت کو وسیع کرنے کے مقابلے میں اندرونی طور پر اس کو مضبوط کرنا چاہتا تھا ؛چنانچہ سلطان نے جا بجا شہروں اور قصبوں میں مدرسے قائم کئے،علما کی قدر دانی کی راستوں کے امن وامان اورتجارت کی گرم بازاری کا بندوبست کیا، غرض کہ سلطان نے وہ طرزِ عمل اختیار کیا جس کی وجہ سے دوستوں اور دشمنوں دونوں میں اُس کی قبولیت بڑھ گئی اور سب کو اُس کی تعریف کرنی پڑی، اُس کی رعایا نے اُس کو چلپی یعنی بہادر وسنجیدہ مزاج کا خطاب دیا اور تمام ملکوں میں وہ سلطانِ صلح جو، مشہور ہوا مگر باوجود اس کے اُس کی عمل داری میں ایک فتنہ برپا ہوا جو اُس کی فوج کے قاضی بدرالدین نے برپا کیا۔

    تفصیل اس اجمالی کی یہ ہے کہ ایک نو مسلم یہودی مرتد ہوکر اس بات کا محرک ہوا کہ سلطان کو معزول کرکے جمہوری ریاست قائم کرنی چاہئے، قاضی بدر الدین اُس کا ہم خیال ہوگیا اوراُن دونوں نے ایک ترک مصطفیٰ نامی کو جو کوئی تعلیم یافتہ شخص نہ تھا اپنا مذہبی پیشوا بنایا اوریورپ وایشیا دونوں علاقوں میں اپنے خیالات کی اشاعت شروع کرکے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانا شروع کیا،اس بغاوت نے ترقی کرکے خطرناک صورت اختیار کرلی اورسلطان محمد خان کو بڑی فکر پیدا ہوئی،اس بغاوت نے اندر ہی اندر اس کی رعایا کو معاؤف کرنا شروع کردیا،یہ بغاوت اس لئے اور بھی جلد اورزیادہ کامیاب ہوسکی کہ سلطان محمد خا ن نے عیسائی سلاطین سے دوستی کے عہد نامے کرکے اچھے تعلقات قائم کئے تھے اُس کا دوستانہ برتاؤ جو عیسائیوں کے ساتھ تھا عام طور پر اُس کی مسلمان رعایا کو ناپسند اورگراں گذرتا تھا، عوام اس بات کو نہیں سمجھ سکتے تھے کہ اس زمانے میں صلح و آشتی ہی کی حکمتِ عملی سلطنت عثمانیہ کے لئے زیادہ مفید ہے؛چنانچہ جب اُن کو مذکورہ باغیوں نے بھڑکا یا تو وہ فوراً اُن کی باتوں میں آگئے،آخر سلطان محمد خان نے اس بغاوت کے فرو کرنے میں پوری ہمت اور مستعدی سے کام لے کر چند ہی روز میں اُس کا خاتمہ کردیا اور تینوں باغی مارے گئے،اس خطرہ سے نجات پاکر سلطان محمد خان کو ایک اورخطرناک باغی کا مقابلہ کرنا پڑا، جنگ انگورہ میں سلطان بایزید خاں یلدرم کا ایک بیٹا مصطفیٰ نامی مارا گیا تھا مگر جنگ کے بعد اُس کی لاش کا کوئی پتہ نہ چلا،تیمور نے بھی جنگ کے بعد مصطفی کی لاش کو تلاش کرایا مگر کہیں دستیاب نہ ہوئی اس لئے مصطفی کا مارا جانا مشتبہ رہا تھا، اب سلطان محمد خان کے آخر عہدِ حکومت یعنی ۸۲۴ھ میں ایک شخص نے ایشیائے کوچک میں اس بات کا دعویٰ کیا کہ میں مصطفیٰ ابن بایزید یلدرم ہوں وہ صورت و شکل میں بھی مصطفیٰ سے مشابہ تھا اس لئے بہت سے ترکوں نے اُس کے اس دعوے کو تسلیم کرلیا اور سمرنا کے عامل جنید اور صوبہ دار والیشیا نے اُس کے اس دعوے کی اس لئے اور بھی تصدیق کی کہ وہ محمد خان سے کوش نہ تھے؛چنانچہ مصطفی مذکور ان صوبہ داروں کی امداد سے گیلی پولی میں پہنچ کر تھسلی کے قریبی علاقے پر قابض ہوگیا،سلطان محمد خان اس خبر کو سنتے ہی فوراً فوج لے کر مقابلے پر پہنچا اورسالونیکا کے قریب ایک سخت لڑائی کے بعد مصطفی مذکور شکست فاش کھا کر بھاگا اورقیصر قسطنطنیہ کے پاس پہنچ کر پناہ گزیں ہوا، سلطان محمد خان نے قسطنطنیہ کے بادشاہ کو لکھا کہ مصطفی ہمارا باغی ہے، اُس کو ہمارے پاس بھیج دو، لیکن قیصر نے اُس کے واپس دینے سے انکار کرکے اس بات کا وعدہ کیا کہ میں اُس کو نہایت احتیاط کے ساتھ قید اورنظر بند رکھوں گا بشرطیکہ آپ اُس کے نان ونفقہ اوراخراجات کے معاوضہ میں ایک رقم میرے پاس بھجواتے رہیں؛چونکہ ان دنوں مسلسل بغاوتوں سے سلطان محمد خان زیادہ فکر مند ہوگیا تھا اوراسی لئے وہ اور بھی زیادہ اس حکمتِ عملی پر عمل کرنا ضروری سمجھتا تھا کہ قیصر یادوسرے عیسائیوں سے لڑائیاں نہ چھیڑی جائیں؛چنانچہ اُس نے قیصر کی بات کو منظور کرلیا اور مصطفی باغی کے قید و نظر بند رکھنے کے معاوضہ میں ایک مناسب رقم بھجوانی بھی منظور کرلی،اس بغاوت کے فرو ہونے کے بعد بھی سلطان محمد خان کو مصطفیٰ باغی کا زیادہ خیال رہا اور اُس نے قسطنطنیہ کے قیصر سے اپنے تعلقات کو زیادہ خوشگوار واستوار بنانا ضروری سمجھ کر خود قسطنطنیہ جانے کا قصد کیا جب کہ وہ ایشیائے کوچک سے درد انیال کو عبور کرکے گیلی پولی ہوتا ہوا ایڈریانوپل کو آرہا تھا، قیصر قسطنطنیہ نے سلطان محمد خان کی آمد کا حال سُن کر بڑی آؤ بھگت کی اوراُس کا نہایت شانداار استقبال کرکے قسطنطنیہ میں لایا، یہاں سلطان وقیصر میں دوبارہ عہد نامہ دوستی کی تجدید ہوئی اس کے بعد سلطان کو پھر گیلی پولی کی طرف جانا پڑا جہاں ۸۲۵ھ میں سلطان محمد خان کا سکتہ کے مرض میں مبتلا ہوکر انتقال ہوا۔
    سلطان محمد خان جنگ انگورہ کے وقت ۲۷ سال کی عمر رکھتا تھا،جنگ انگورہ کے بعد وہ ایشیائے کوچک کے قصبہ امیسیہ میں کود مختار حاکم بنا اوربھائیوں سے لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہوا، گیارہ سال تک وہ بھائیوں کے ساتھ زور آزمائی میں مصروف رہ کر سب پر غالب اور مطلق العنان فرماں روا عثمانی سلطنت کا بن گیا، آٹھ سال تک اُس نے بحیثیت سلطان حکومت وفرماں روائی کی ،اُس کا عہدِ حکومت فتنوں اورفسادیوں سے لبریز تھا، اُس نے ایسی معتدل اورمفید حکمت عملی اختیار کی جس سے سلطنت عثمانیہ جو قریب المرگ ہوچکی تھی پھر تندرست اور مضبوط ہوگئی،اسی لئےبعض مؤرخین نے اُس کو نوح کا کطاب بھی دیا ہے یعنی اپس نے سلطنتِ عثمانیہ کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچا کر نجات کے ساحل پر لگادیا۔

    سلطان محمد خان اول سب سے پہلا عثمانی سلطان ہے جس نے اپنے شاہی خزانہ سے ایک معقول رقم خانہ کعبہ اورمکہ معظمہ کے باشندوں کے لئے مخصوص کی جو سالانہ برابر مکہ معظمہ میں پہنچ کر مستحقین میں تقسیم اورخانہ کعبہ کی حفاظت ونگرانی کے کاموں میں صرف ہوتی تھی،اس لئے معتضد باللہ عباسی خلیفہ مصر نے اس سلطان کو کادم الحرمین شریفین کا خطاب دیا جس کو اس سلطان نے اپنے لئے موجب عزّ وافتخار تصوّر کیا،اسی خطاب نے آئندہ ایک زمانے میں ترقی کرکے عثمانیوں کو خلیفۃ المسلمین بناکر چھوڑا۔

    وفات کے وقت سلطان محمد خان کی عمر ۴۷ سال کی تھی،اُس کا بڑا بیٹا مراد خان ثانی جس کی عمر اٹھارہ سال کی تھی،ایشیائے کوچک مین ایک فوج کی سپہ سالاری پر مامور تھا،وزرائے سلطنت نے چالیس روز تک سلطان محمد خان کی وفات کو چھپایا اورمراد کان ثانی کے پاس فوراً خبر بھیجی کہ تم بلا تامل دارالسلطنت میں پہنچ کر مراسم تکت نشینی ادا کرو،چالیس روز کے بعد سلطان کی لاش کو گیلی پولی سے بروصہ میں لاکر دفن کیا گیا۔
    سلطان مراد خان ثانی ۸۰۶ ھ میں پیدا ہوا تھا، اٹھارہ سال کی عمر میں بمقام دارالسلطنت ایڈریانوپل(اورنہ)باقاعدہ تختِ سلطنت پر جلوس کیا اور اراکین سلطنت نے اطاعت وفرماں برداری کی بیعت کی اس نوجوان سلطان کو تخت نشین ہوتے ہی مشکلات وخطرات سے سابقہ پڑا، یعنی قسطنطنیہ کے عیسائی بادشاہ نے سلطان محمد خان کے فوت ہونے کی خبر سنتے ہی اپنے قیدی مصطفیٰ کو اپنے سامنے بُلاکر اُس سے اس بات کا اقرار نامہ لکھا یا کہ اگر میں سلطنت عثمانیہ کا مالک ہوگیا تو بہت سے مضبوط قلعے اورصوبے (جن کی اقرار نامہ میں تفصیل درج تھی) قیصر قسطنطنیہ کے سپرد کردوں گا اورہمیشہ قیصر کا ہوا خواہ رہوں گا، اس کے بعد قیصر قسطنطنیہ نے اپنے جہازوں میں اُس کے ساتھ ایک فوج سوار کراکر سب کو سلطنت عثمانیہ کے یورپی علاقے میں اُتار دیا تاکہ وہ سلطان مراد کان کے خلاف ملک پر قبضہ کرے ؛چونکہ یہ مصطفیٰ اپنے آپ کو سلطان محمد خان کا بھائی اور بایزید یلدرم کا بیٹا بتاتا تھا اوراُس کے اس دعوے کی تصدیق یا تکذیب میں ترک متردد تھے لہذا بہت سے عثمانی سپاہی اُس سے آملے اوراُس کی طاقت بہت بڑھ گئی اُس نے شہروں شہر فتح کرنے شروع کردیئے ،مراد خاں نے جو فوج اُس کے مقابلہ کو بھیجی اُس کا اکثر حصہ مصطفی سے آملا اورباقی شکست کھا کر بھاگ آیا، اس کے بعد سلطان مراد نے اپنے سپہ سالار بایزید پاشا کو ایک معقول جمعیت کے ساتھ اس باغی کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا لیکن معرکہ جنگ میں بایزید پاشا مارا گیا اور مراد کی فوج کو شکست فاش حاصل ہوئی اس فتح و فیروزی کے بعد مصطفیٰ کی ہمت بڑھ گئی اوراُس نے یہی مناسب سمجھا کہ میں پہلے تمام ایشائے کوچک پر قابض ہوجاؤں؛کیونکہ یورپی علاقے میں اس کو توقع تھی کہ قیصر قسطنطنیہ اورمغربی حدود کے عیسائی سلاطین سے مجھ کو مراد خاں کے خلاف ضروری امداد ملے گی اورایشیاپرقابض ہونے کے بعد یورپی علاقے سے مراد خان کا بے دخل کرنا بہت آسان ہوگا؛چنانچہ اُس نے آبنائے کو عبور کرکے ایشیائے کوچک میں تاخت وتاراج شروع کردی،مراد خان ثانی نے ان خطرناک حالات کو دیکھ کر تامل کرنا مناسب نہ سمجھ کر بذاتِ :خود مصطفی کا تعاقب کرنا ضروری سمجھا اور فوراً ایشیائے کوچک میں پہنچ کر اُس کو شکست دینے میں کامیاب ہوا، مراد خان کے میدانِ جنگ میں آتے ہی ترکی سپاہی جن کو اس عرصہ میں مصطفی کے دعوے میں جھوٹ اور افترا کا یقین ہوگیا تھا اُس کا ساتھ چھوڑ چھوڑ کر مرادخان کے پاس آنے لگے،مصطفیٰ اپنی حالت نازک دیکھ کر ایشیائے کوچک سے بھاگا اورگیلی پولی میں آکر تھسلی وغیرہ پر قابض ہوگیا، مراد خان بھی اُس کے پیچھے گیلی پول پہنچا، یہاں معرکہ میں اُس کو شکست فاش دے کر اُس کی طاقت کا کاتمہ کردیا، مصطفی یہاں سے ایڈریا نوپل کی طرف بھاگا تاکہ دارالسلطنت پر قابض ہوجائے مگر ایڈر یا نوپل میں وہ گرفتار کرلیا گیاا ور شہر کے ایک برج میں پھانسی پر لٹکا کر اُس کا خاتمہ کردیا گیا۔

    اس کے بعد سلطان مراد خان نے جنبیوا کی ریاست سے جو قیصر قسطنطنیہ سے رقابت رکھتی تھی،دوستی کا عہد نامہ کیا اور قسطنطنیہ پر اس لئے چڑھائی کی تیاریاں کیں کہ قیصر قسطنطنیہ نے ہی مصطفیٰ باغی سے یہ فتنہ برپا کرایا تھا،قیصر پلیولوگس والی قسطنطنیہ نے جب یہ سنا کہ سلطان مراد خان ثانی قسطنطنیہ پر حملہ کی تیاریاں کرہا ہے تو اُس کو بہت فکر پیدا ہوئی اور اُس نے اس فوری مصیبت کو ملتوی کرنے کے لئے قسم قسم کی تدابیر سوچیں؟ مینڈھے لڑانے اور سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوتیں براپا کرادینے میں اُس کو بہت کمال حاصل تھا اوراسی تدبیر سے وہ عثمانیہ سلطنت کو مشکلات میں مبتلا رکھ کر اپنی حکومت کو اب تک بچائے ہوئے تھا مگر اس مرتبہ وہ بجز اس کے اورکچھ نہ کرسکا کہ اس نے اپنے سفیر سلطان کی خدمت میں روانہ کئے تاکہ قصور کی معافی طلب کرکے آئندہ صلح نامہ دب کر کرے،لیکن سلطان کی خدمت میں روانہ کئے تاکہ قصور کی معاف طلب کرکے آئندہ صلح نامہ دب کرکرے لیکن سلطان مراد خان نے ان سفیروں کو نہایت حقارت کے ساتھ واپس کردیا اوراپنے دربار میں باریاب نہ ہونے دیا۔

    اس کے بعد شروع جون ۱۴۲۲ء مطابق ۸۲۶ھ میں بیس ہزار انتخابی فوج لے کر سلطان مراد خان ثانی قسطنطنیہ کے سامنے آموجود ہوا،بڑی سختی اورشدت سے شہر کا محاصرہ کیا گیا،خلیج قسطنطنیہ پر لکڑی کا ایک پل تیار کرکے محاصرہ کو مکمل کیا،شہر قسطنطنیہ کا فتح کرنا کوئی آسان کام نہ تھا مگر سلطان مراد کان نے ایسے عزم وہمت سے کام لیا اورمھاصرہ میں سرنگون،منجنیقوں ،دمدموں،متحرک میناروں کو اس طرح کام میں لایا کہ دم بدم فتح کی امید یقین سے تبدیل ہونے لگی،اس دوران محاصرہ میں قیصر بھی بے فکر نہ تھا،اُس نے ایک طرف تو مدافعت میں ہر قسم کی کوشش شروع کی اور دوسری طرف ایشیائے کوچک میں فساد برپا کرانے اورمرادخان ثانی کے لئے مشکلات پیدا کرنے کی ریشہ دوانیوں میں مصروف رہا قسطنطنیہ کے فتح ہونے میں ہفتوں نہیں ؛بلکہ دنوں اورگھنٹوں کی دیر رہ گئی تھی کہ مراد خان ثانی کو محاصرہ اٹھا کر اوراب تک کی تمام کوشش کو بلا نتیجہ چھوڑ کر اسی طرح ایشیائے کوچک کی طرف جانا پڑا جس طرح کہ اُس کا داد بایزید خاں یلدرم عین وقت پر قسطنطنیہ سے محاصرہ اٹھا کر ایشائے کوچک کی طرف تیمور کے مقابلہ کو روانہ ہوگیا تھا۔

    تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ سلطان محمد خان جب فوت ہوا ہے تو اُس نے چار بیٹے چھوڑے تھے جن میں دو تو بہت ہی کم عمر اور چھوٹے بچے تھے اوردونوجوان کہے جاسکتے تھے جن میں ایک سب سے بڑا مراد خان ثانی تھا جس کی ۱۸ سال کی عمر اور دوسرا مصطفی نامی تھا جس کی عمر باپ کی وفات کے وقت پندرہ سال تھی،مراد خان ثانی نے تخت نشین ہوکر اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں کو تو بروصہ میں پرورش پانے کے لئے بھیج دیا تھا،جہاں اُن کے لئے تعلیم و تربیت اورراحت وآرام کا ہر ایک سامان موجود کردیا تھا اور تیسرے بھائی مصطفی کو جو مراد ثانی سے تین سال عمر میں چھوٹا تھا ایشیائے کوچک میں بطور عامل یا بطور سپہ سالار عزت کے ساتھ مامور کیا تھا،مراد ثانی جب اپنے فرضی چچا مصطفی کے فتنے کو فرو کرچکا اور مصطفیٰ ایڈریا نوپل میں پھانسی پاچکا تو قیصر پلیولوگس نے اس دوسرے مصطفی پر ڈورے ڈالنے شروع کئے اوراپنے جاسوسوں اورلائق سفیروں کے ذریعہ مراد ثانی کے بھائی مصطفی کو مسلسل یہ توقع دلاتا رہا کہ میں تم کو زیادہ مستحق سلطنت سمجھتا ہوں اوراگر تم سلطنت کے مدعی بن کر کھڑے ہوجاؤ تو تمہاری ہر ایک قسم کی امداد کوموجود ہوں،اُدھر اُس نے ایشیائے کوچک کے سلجوقی سرداروں کو جواب تک قونیہ اور دوسرے شہروں میں سلطنت عثمانیہ کے جاگیر داروں کی حیثیت سے موجود اورخاندانِ سلطنت سے رشتہ داریاں بھی رکھتے تھے،مراد ثانی کے خلاف اورمصطفیٰ خاں برادرِ مراد خان کی اعانت پر آمادہ کرنے کی خفیہ تدبیریں جاری کردی تھیں، آخر وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوا۔

    مصطفیٰ خان نے سلجوقی امیروں کی امداد سے خروج کرکے علم بغاوت بلند کیا اورٹھیک اُس وقت جب کہ ادھر مراد خان قسطنطنیہ کو فتح کرنے والا تھا،مصطفیٰ خان نے ایشیائے کوچک کے بہت ​
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں