سلطنت عثمانیہ حصہ 12

زبیراحمد نے 'تاریخ اسلام / اسلامی واقعات' میں ‏نومبر 16, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    تو اندلس میں اسلامی حکومت دم توڑ رہی تھی،کاش سلطان فاتح اورچند سال زندہ رہتا اوراٹلی کا ملک فتح ہوکر سلطنت عثمانیہ میں شامل ہوجاتا تو پھر یقیناً عیسائیوں کو یہ موقعہ نہیں مل سکتا تھا کہ وہ غرنامہ کی اسلامی سلطنت کا نام ونشان مٹا سکتے ؛بلکہ غرناطہ کی اسلامی سلطنت جو دم بدم کمزور ہوتی چلی جاتی تھی ،عثمانیہ سلطنت سے امداد پاکر یکایک تمام جزیرہ نمائے اسپین پر چھاجاتی اورپھر تمام براعظم یورپ اسلامی جھنڈے کے سایہ میں ہوتا،غرض کہ سلطان فاتح کی وفات عالمِ اسلام کے لئے مصیبت عظمیٰ تھی۔
    انا للہ وانا الیہ راجعون
    سلطان محمد خان ثانی فاتح قسطنطنہ کا عہد حکومت مسلسل جنگ و پیکار کے ہنگاموں سے پُر ہے اُس نے اپنے عہد سلطنت میں بارہ ریاستیں ااور دوسو سے زیادہ شہر و قلعے فتح کرکے سلطنتِ عثمانیہ میں شامل کئے، سلطان فاتح کے عہد سلطنت میں آٹھ لاکھ مسلمان سپاہی شہید ہوئے مگر اُس کی باقاعدہ فوج کی تعداد سوالاکھ سے زیادہ کبھی نہیں ہوئی،اُس نے ینگ چری یعنی فوج جاں نثار کی ترتیب و تنظیم کی طرف بھی خصوصی توجہ مبذول کی جو سلطان کی باڈی گارڈ کی فوج کہلاتی تھی اوراُس کی تعداد عموماً بارہ ہزار کے قریب ہوتی تھی،اُس نے ایسے قوانین جاری کئے جس سے ہر قسم کی بد نظمی فوجی اورانتظامی محکموں سے دور ہوگئی،سلطان فاتح نے جو قوانین جاری کئے اُن سے سلطنت عثمانیہ کو بہت نفع پہنچا، ایک ایسے سلطان سے جس کا تمام عہدِ حکومت لڑائیوں اور چڑھائیوں میں گذرا ہو ہرگز یہ توقع نہیں ہوسکتی تھی کہ ایک اعلیٰ درجہ کا مقنن بھی ہوگا،مگر اس حقیقت سے ہرگز انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سلطان محمد خان فاتح ایک اعلیٰ درجہ کا مقنن تھا اُس نے اپنے دربار میں وزراء سپہ سالار پیش کار وغیرہ اراکین سلطنت کے ساتھ علماء دین کی ایک جماعت کو لازمی قرار دے کر اُن کا مرتبہ اراکین سلطنت میں سب سے بالا قرار دیا۔

    تمام ممالکِ محروسہ میں شہروں، قصبوں اور گاؤں کے اندر مدرسے جاری کئے ان مدارس کے تمام مصارف سلطنت کے خزانے سے پورے کئے جاتے تھے،ان مدرسوں کا نصابِ تعلیم بھی خود سلطان فاتح ہی نے مقرر وتجویز کیا،ہر مدرسہ میں باقاعدہ امتھان ہوتے تھے اورکامیاب طلباء کو سندیں دی جاتی تھیں،ا ن سندوں کے ذریعہ سے ہر شخص کی قابلیت کا اندازہ کیا جاتا تھا اوراُس کی قابلیت کے موافق ہی اس کو نوکری یا جاگیر دی جاتی تھی،نصاب تعلیم میں تمام ضروری اوردین و دنیا کے لئے مفید ونفع رساں علوم شامل تھے،سلطان محمد خاں خود ایک زبردست اورجید عالم تھا، قرآن و حدیث اورتاریخ و سیرنیز ریاضی و طبیعات میں اُس کو دست گاہ کامل حاصل تھی، اسی لئے اُس نے بہترین نصاب تعلیم مداراس میں جاری کیا، عربی ،فارسی، ترکی، لاطینی، یونانی، بلگیرین وغیرہ بہت سی زبانوں میں سلطان فاتح بلا تکلف نہایت فصاحت کے ساتھ گفتگو کرسکتا تھا۔

    اس نے اپنی قلم رو کے اندر جو قانون جاری کیا تھا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ سب سے پہلے قرآن مجید کے موافق عمل درآماد ہو،اُس کے بعد سنت ثابتہ اوراحادیث صحیحہ کی پیروی کی جائے،اس کے بعد فقہائے اربعہ سے امداد لی جائے، ان تینوں مرحلوں کے بعد چوتھا مرتبہ احکام سلطانی کا تھا، سلطان اگر کوئی حکم جاری کرتا اوروہ حکم قرآن وحدیث کے خلاف ہوتا تو علماء کو اجازت تھی کہ وہ بلا تامل اُس حکم کا خلاف شروع ہونا ثابت کردیں تاکہ سلطان فوراً اپنے حکم کو واپس لے لے۔

    اس نے اپنے ممالک مقبوضہ کو صوبوں ،کمشنریوں اورضلعوں میں تقسیم کردیا تھا، ضلع کے کلکٹر کو بیلر بیگ اورکمشنر کو سنجق اورصوبہ دار کو پاشا کا لقب دیا گیا تھا، اسی سلطان نے قسطنطنیہ یعنی دربار سلطنت کو باب عالی کے نام سے موسوم کیا جو اس ہمارے زمانے تک باب عالی کے نام سے مشہور رہا، سخت حیرت ہوتی ہے کہ ایک ایسا جنگ جُو اورفاتح سلطان علمی مشاغل کے لئے کسی طرح وقت نکال لیتا تھا،سلطان فاتح کو اپنے وقار اور رعب کے قائم رکھنے کا یہاں تک خیال تھا کہ اپنے وزیر اعظم سے بھی کبھی خوش طبعی یا بے تکلیفی کی گفتگو نہ کرتا تھا،ضرورت کے بغیر کبھی دربار یا مجلس جما کر نہیں بیٹھتا تھا ؛بلکہ اُس کو اپنی فرصت کے اوقات کابالکل تنہائی میں گذارنا بہت محبوب تھا،اُس کی کوئی بات لغو اورحکمت سے خالی نہ ہوتی تھی، ایک طرف وہ علماء کا بے حد قدر دان اور اُن کی عزت ووقار کے بڑھانے کا خواہاں تھا لیکن دوسری طرف وہ عالم نما جاہلوں اور کٹھ ملاّؤں سے سخت متنفر تھا،نماز روزے کا سخت پابند اورباجماعت نمازیں ادا کرتا تھا،قرآن مجید سے اُس کو بے حد محبت تھی،عیسائیوں اور دوسرے غیر مذاہب والوں کے ساتھ اُس کا برتاؤ نہایت کریمانہ اور روادارانہ تھا،پابندی شرع میں بے جا سکتی اس کو پسند نہ تھی اَلدیْنُ یُسْر اُس کا خصوصی عقیدہ تھا۔

    وہ اس راز سے واقف تھا کہ کٹھ ملاؤں نے دین کے معاملہ میں بے جا سختی اور تشدّد کو کام میں لاکر اورذرا ذرا سی بے حقیقت باتوں پر نامناسب زور دے کر دین اسلام کو لوگوں کے لئے موجب وحشت بنادیا ہے اس لئے وہ دین اسلام کی ہر ایک رخصت سے فائدہ اٹھالینے کو جائز جانتا تھا؛چنانچہ اُس کے دربار میں وینس سے ایک مشہور مصور ونقاش آیا اوراپنے کمال کا اظہار کرنے کے لئے سلطان کے دربار کی کئی تصویریں تیار کیں سلطان نے اُس کو اجازت دے دی اورپھر اُس کی تصویروں کو دیکھ کر اُن کے نقائص اُس کو بتائے اس قسم کی معمولی آزاد خیالیوں کو دیکھ کر اس زمانے کی فتوے باز پیدا وار یعنی پیشہ ور مولویوں نے سلطان محمد خان ثانی فاتح قسطنطنیہ پر کفر کا فتویٰ لگایا اورسلطان کو لامذہب اور دہریہ ٹھہرایا،ان تنگ خیال پست حوصلہ، تہی ظرف، دشمن اسلام فتوے بازوں کی نسل بہت پُرانی ہے،یہ لوگ کچھ اس زمانے یا سلطان فاتح ہی کے زمانے میں نہ تھے ؛بلکہ اس سے بہت پہلے بھی دنیا میں موجود تھے جن کا ذکر اسی تاریخ کی گذشتہ جلد میں غالباً آچکا ہے سلطان فاتح کی نظر اپنی سلطنت کے ہر ایک صیغے اور ہر محکمے پر رہتی تھی،مجرموں کو سزا دینے میں وہ بہت چست اورکار گذار اہل کاروں کی قدر دانی میں بہت مستعد تھا، اوپر بیان ہوچکا ہے کہ سلطان فاتح کو اپنا وقار قائم رکھنے اور تنہائی میں رہنے کا بہت شوق تھا لیکن لڑائی کے ہنگامے میں وہ اپنے معمولی سپاہیوں کی مدد کرنے اوردل سوزی کے ساتھ اُن کا ہاتھ بٹانے میں بالکل بے تکلف دوست اورمعمولی لشکری کی مانند نظر آتا تھا، اُس کے سپاہی اُس پر جان قربان کرتے اوراُس کو اپنا شفیق باپ جانتے تھے۔

    سلطان فاتح کا قدردرمیانہ، رنگ گندمی اورچہرہ عموماً اُداس نظر آتا تھا ،مگر غصہ وغضب کے وقت نہایت وحشت ناک ہوتا تھا، دیانت وامانت اور عدل وانصاف کے خلاف کوئی حرکت کسی اہل کار سے سرزد ہوتی تو اس کو عبرت ناک سزادیتا،سلطان فاتح کی حدود سلطنت میں چوری اور ڈاکہ زنی کا نام ونشان تک باقی نہ تھا،اس قدر عظیم الشان سلطنت اوروسیع مملکت میں سرکشی و بغاوت کے تمام فاسد مادّوں اوربدامنی وبدچلنی کے تمام امکانات کا فنا ہوجانا سلطان فاتح کو ایک اعلیٰ درجہ کا مد برو ملک دار فرماں روا ثابت کرتا ہے حالانکہ وہ ایک اعلی درجہ کا فاتح اورجنگ جو سپہ سالار بھی تھا،پھر تعجب اوربھی بڑھ جاتا ہے جب معلوم ہوتا ہے کہ سلطان فاتح کو شعر وشاعری کا بھی شوق تھا اوروہ مختلف ومتعدد زبانوں میں بلند پایہ اشعار کہہ لیتا تھا۔
    سلطان فاتح کی وفات کے وقت اس کے دو بیٹے بایزید وجمشید تھے،بایزید ایشیائے کوچک کے صوبہ کا گورنر اورمقام اماسیہ میں مقیم تھا،جمشید کریمیا کی گورنری پر مامور تھا،سلطان فاتح کی وفات کے وقت بایزید کی عمر ۳۵ سال کی اورجمشید کی ۲۲ سال کی تھی،بایزید کسی قدر سست اور دھیمی طبیعت رکھتا تھا بخلاف اس کے جمشید نہایت چست اور مستعد جفا کش شہزادہ تھا سلطان فاتح کی وفات کے وقت ان دونوں شہزادوں میں سے ایک بھی قسطنطنیہ میں موجود نہ تھا،سلطان فاتح نے اپنے وزیر اعظم احمد قیدوق فاتح کریمیا کو اٹلی کی جانب فوج کشی کرنے سے پیشتر سپہ سالار پر مامور کرکے اس جگہ محمد بپاشا کو وزیر اعظم بنالیا تھا محمد باشا اوزیراعظم کی خواہش تھی کہ سلطان فاتح کے بعد شہزادہ جمشدی کو تخت پر بٹھایا جائے؛چنانچہ اس نے سلطان فاتح کی وفات کا حال پوشیدہ رکھنا چاہا اورحمشید کے پاس خبر بھیجی کہ فورا قسطنطنیہ کی طرف آؤ، مگر یہ خبر پوشیدہ نہ رہ سکی،جاں نثار فوج نے فوراً بغاوت کرکے وزیر اعظم محمد پاشا کو قتل کردیا اور اس کی جگہ اسحاق پاشا کو وزیر اعظم بنایا اور بایزید کے پاس خبر بھیجی کہ سلطان فاتح کا انتقال ہوچکا ہے ،فوراً قسنطنیہ کی طرف روانہ ہوجاؤ، اس ینگ چری یعنی جاں نثاری فوج نے خود سری کی راہ سے قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوجاؤ، اس نیگ چری یعنی جاں نثاری فوج نے خود سری کی راہ سے قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوجاؤ،اس ینگ چری یعنی جاں نثاری فوج نے خود سری کی راہ سے قسطنطنیہ میں بڑی بد نظمی پیدا کردی، سوداگروں اورمال دار لوگوں سے زبردستی روپیہ حاصل کیا اور تمام محکموں پر قابض ومتصرف ہوگئے،ادھر سپہ سالار احمد قید وق جوائلی کے شہر اوٹرانٹو پر قابض و متصر ہوکر آئندہ موسم بہار میں روما پر فوج کشی کی تیاریاں کرچکا ، اور اوٹرانٹو کو ہر طرح قلعہ بند اورمضبوط بناچکا تھا تاکہ آئندہ چڑھائیوں اور لڑائیوں کے وقت یہ شہر ایک مستقل اورمضبوط مرکز مقام کا کام دے سکے، سلطان کی خبرِ وفات کو سُن کر بہت مغموم ہوا،ا س نے فوراً اوٹرانٹوا میں ہر قسم کی ضروریات فراہم کرکے اپنے ایک ماتحت سردار کو اوٹرانٹو کا حاکم اوروہاں کی فوج کا سپہ سالار بنایا،مناسب ہدایات کیں اورخود قسطنطنیہ کی جانب روانہ ہواتا کہ وہاں کے لئے سلطان کی خدمت میں اٹلی کی فتح کے متعلق تمام باتیں عرض کرکے اوراجازت لے کر واپس آئے یاخود سلطان ہی کو اٹلی کی طرف لائے سلطان فاتح کی وفات کا حال بایزید کو اماسیہ میں پہلے معلوم ہوگیا اوروہاں سے صرف چار ہزار فوج لے کر دو منزلہ اور سہ منزلہ یلغارکرتا ہوا قسطنطنیہ پہنچ گیا، یہاں آتے ہی تختِ سلطنت پر جلوس کیا مگر جاں نثاری فوج نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور اس کے سرداروں کے سُلطان سے عرض کیا کہ ہماری تنخواہوں اور جاگیروں میں بیش قرار اضافہ کیا جائے اور خوب انعام واکرام دلوائیے ورنہ ہم ابھی آپ کو قتل کردیں گے بایزید فوج کے اس خود سرانہ رویہ مرعوب ہوگیا اوراس نے جان نثاری فوج کے مطالبات کو منظورکرکے آئندہ کے لئے اس رسم کی بنیاد رکھ دی کہ جب کوئی نیا سلطان تخت نشین ہو تو فوج کو انعام واکرام دے کر خزانہ شاہی کا ایک بڑا حصہ اس طرح ضایع کردے بایزید کی اس پہلی کمزوری نے بتادیا تھا کہ وہ کوئی زبردست اور قوی بازو سلطان اور اپنے باپ کا نمونہ نہ ہوسکے گا، لیکن ایک طرف اس کا اپنا بھائی جمشید سے عمر میں بڑا ہونا دوسرے وزیر اسحٰق پاشا اورجان نثاری فوج کا طرف دار ہونا باعث اس کا ہوا کہ اراکین سلطنت کو باوجود اس احساس کے کہ وہ قوی دل سلطان نہیں ہے اس کی مخالفت کی جرأت نہ ہوسکی،چند ہی روز کے بعد سپہ سالار احمد قیدوق بھی اٹلی سے قسطنطنیہ پہنچ گیا، چونکہ اس کا رقیب وزیر اعظم محمد پاشاہ بایزید کا مخالف اورجمشید کا طرف دار تھا،لہذا احمد قیدوق نے بھی بلا پس و پیش آتے ہی سلطان بایزید ثانی کی بیعت کرلی۔

    جمشید کو باپ کے مرنے کی خبر کسی قدر دیر سے پہنچی اس وقت بایزید ثانی قسطنطنیہ میں آکر تخت نشین ہوچکا تھا،جمشید نے ایشیائے کوچک میں شہروں پر قبضہ کرنا شروع کیا اورشہر بروصہ پر قابض ہوکر اپنے بھائی بایزید کو لکھا کہ سلطان فاتح نے آپ کو اپنا ولی عہد نہیں بنایا تھا اس لئے آپ کا تنہا کوئی حق نہیں ہے کہ تمام سلطنت کے مالک اورفرماں روا بن جائیں،مناسب یہ ہے کہ ایشیائی مقبوضات میرے تخت حکومت میں رہیں اور یورپی ملکوں پر آپ حکمرانی کریں،بایزید نے اس درخواست کو رد کردیا اور جواباً کہا کہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں،قسطنطنیہ میں سلطان فاتح کی بہن اوران دونوں بھائیوں کی پھوپی موجود تھی، اس نے اپنے بھتیجے سلطان اور مناسب یہی ہے کہ جمشید کو ایشیائے کوچک کا تمام علاقے دے دیا جائے مگر بایزید نے پھوپھی کی نصیحت پر کوئی التفاقت نہ کیا اوریہی جواب دیا کہ میں زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتا ہوں کہ جمشید معہ اہل وعیال بیت المقدس میں جاکر سکونت اختیار کرے اور میں اس کے پاس صوبۂ کریمیا کی آمدنی کا ایک حصہ اس کے گذارہ کے لئے بھجواتا رہوں رہوں گا،بہرحال مصالحت کی کوئی شکل پیدا نہ ہوسکی جمشید اس بات سے واقف تھا کہ اگر میں تخت سلطنت حاصل نہ کرسکا تو بایزید مجھ کو ہرگز زندہ نہ چھوڑے گا لہذا وہ اپنی جان کی حفاظت کے لئے بھی مجبور ہوگیا کہ بایزید کا مقابلہ کرے اور تختِ سلطنت کے حصول کی کوشش میں کوئی کوتاہی نہ کرے غرض سلطان بایزید نے اپنے سپہ سالار احمد قیدوق کی قابلیت و تجربہ کاری سے فائدہ اٹھایا اوراپنے بھائی جمشید کے مقابلے پر مستعد ہوگیا؛چنانچہ ۸۸۶ ھ مطابق ۲۰ جون ۱۴۸۱ ء دونوں فوجوںکا مقابلہ ہوا جمشید کی فوج کے اکثر سردار معہ اپنی جمیعتوں کے عین معرکہ جنگ میں بایزید کی طرف چلے آئے اوراس طرح جمشید کو بایزید کی فوج سے شکست کھانی پڑی۔

    ادھر یہ دونوں بھائی ایشیائے کوچک میں مصروفِ جنگ تھے ادھر روما کا پوپ جو روما سے بھاگنے کی تیاریاں کرچکا تھا سلطان فاتح کی خبرِ وفات سن کر روما میں ٹھہرا رہا اورپوپ کے عیسائی ملکوں سے صلیبی مجاہدین کو دعوت دی کہ آکر اٹلی کو بچاؤ اور اس فرصت کو غنیمت سمجھ کر اٹرانٹو سے ترکوں کو نکال دو؛چنانچہ سپانیہ اور فرانس اورآسٹریا تک کے عیسائی دوڑ پڑے اور عیسائی فوجوں نے اٹرانٹو پر چڑھائی کرکے اس کا محاصرہ کرلیا، ایشیائے کوچک میں جب بایزید وجمشید کی فوجیں ایک دوسرے کے مدّ مقابل پہنچ چکی تھیں تو اس زمانہ میں انٹر انٹو پر حملہ آوری کی تیاریاں عیسائیوں نے کرلی تھیں قسطنطنیہ سے کوئی مدد انٹرانٹو کی فوج کو نہ مل سکی،ترکوں نے خوب جمکر عیسائی فوجوں کا مقابلہ کیا لیکن جب ان کو قسطنطنیہ کی طرف سے مایوسی ہوگئی تو انہوں عیسائیوں کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم مدافعت کی پوری طاقت رکھتے ہیں اور ہم کو مغلوب کرنا تمہارے لئے آسان کام نہیں ہے مگر ہم اب دیر تک لڑنا اورخون بہانا مناسب نہیں سمجھتے اگر تم صلاح کے ساتھ اس شہر کو لینا چاہتے ہو تو ہم تمہارے سپرد کرنے تیار ہیں،بشرطیکہ ہم کو یہاں سے عزت واطمینان کے ساتھ قسطنطنیہ کی طرف چلے جانے کی اجازت دو، عیسائیوں نے فوراً اس پیغا م کو منظور کرکے شرائط صلح کو دستاویز لکھ کر ترکی سردار کھ پاس بھیج دی، جس کی رو سے عثمانیہ لشکر کے ہر فرد کی جان و مال کو امن دی گئی تھی، اس طرح صلح نامہ کی تکمیل کے بعد ترکوں نے شہر کا دروازہ کھول دیا اورعیسائیوں کا قبضہ شہر پر کراکر خود وہاں سے روانہ ہونے کی تیاریاں کرنے لگے،لیکن عیسائیں کا قبضہ شہر پر کراکر خود وہاں سے روانہ ہونے کی تیاریاں کرنے لگے،لیکن عیسائی سرداروں نے بد عہدی کرکے تمام اسلامی فوج کو قتل کرنا شروع کردیا شہر کی گلیاں میدان جنگ بن گئیں اور عیسائیوں نے ہر طرف سے گھیر کر نہایت ہی ظالمانہ اور غیر شریفانہ طور پر قریباً تمام ترکوں کو قتل کرڈالا اوراٹرانٹو کی گلیاں ترکوں کے خون سے سے لالہ زار بن گئیں بایزید ثانی کی تخت نشینی کے بعد ہی سلطنت عثمانیہ کو یہ نہایت سخت و شید نقصان پہنچا کہ جومیخ ملک اٹلی میں گڑ گئی تھی وہ اکھڑ گئی اورملکِ اٹلی کی فتح کا دروازہ جو ترکوں نے کھول لیا تھا وہ پھر بند ہوگیا اورروما کے گرجے پر جو حسرت و مایوسی کے بادل چھاگئے تھے وہ یک لخت دور ہوگئے، اوراندلس کے ضعیف مسلمانوں کو جو زبردست امداد پہنچنے والی تھی اس کا امکان جاتا رہا ،احمد قیدوق کو پھر اتنی فرصت ہی نہ ملی کہ وہ بایزید سے رخصت ہوکر اس طرف آتا اوراٹلی والوں سے اپنے مقتول سپاہیوں کا انتقام لیتا ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

    جمشید شکست کھاکر ایشیائے کوچک کے کسی ترکی سردار وصوبہ دار پر بھی اعتماد کرنا مناسب نہیں سمجھا ؛بلکہ اس کی مآل اندیش نظر نے اپنی حفاظت اورآئندہ مقابلہ پر مستعد ہونے کے لئے سلطنتِ مصر کو سب سے بہتر خیال کیا،مصر میں مملوکیوں کی حکومت تھی اور خاندان چراکسہ کا بادشاہ ابو سعید قائد بیگ حکمران تھا،چوں کہ مصر میں عباسی خلیفہ بھی رہتا تھا اس لئے عالم اسلام میں مصر کی سلطنت خاص طور پر تعظیم وتکریم کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی ،بایزید سے شکست کھا کر چند جان نثار ہمراہیوں اوراپنی والدہ اوربیوی کے ساتھ جمشید مصر کی جانب روانہ ہوا، ابھی حدود سلطنت عثمانیہ سے باہر نہیں نکلا تھا کہ ایک ترک سردار نے اس کے قافلے پر چھاپہ مارا اور تمام سازو سامان جو جمشید کے ساتھ تھا لوٹ لیا،جمشید اپنا سامان لٹواکر جلد حدودِ عثمانیہ سے نکل گیا اور وہ ترک سردار اس کا لوٹا ہوا سامان لے کر اس امید پر قسطنطنیہ پہنچا کہ بایزید خوش ہوگا، اس نے جب بایزید کی خدمت میں لوٹا ہوا سامان پیش کیا تو بایزید نے اس ترک سردار کو جس نے ایک شکست خوردہ اورتباہ حال قافلہ کو لوٹا تھا قتل کرادیا،جمشید چار مہینے ابو سعید قائد بیگ کا مہمان رہا،اس کے بعد وہ مصر سے حج بیت اللہ کے لئے روانہ ہوا، حج بیت اللہ سے فارغ ہوکر اورمکہ ومدینہ کی حاضری سے سعادت اندوز ہوکر جمشید مصر میں آیا، اس عرصہ میں بایزید اور سلطان مصر کے درمیان خط وکتابت کا سلسلہ جاری تھا اورسلطان مصر اپنے مہمان شہزادہ کے خلاف کوئی حرکت کرنے پر مطلق رضا مند نہ ہوا ؛بلکہ اس نے جمشید کو ہر قسم کی امداد دینا اپنا اخلاقی فرض سمجھا،آخر جمشید اپنی ھالت درست کرکے اپنی ماں اور بیوی و مصر ہی میں چھوڑ کر بایزیدکے مقابلے کو روانہ ہوا،فلسطین اورشام کے ملک میں ہوتا ہوا ایشیائے کوچک کے جنوبی و مغربی حصہ سے داخل ہوا، بایزید خبر سنتے ہی اپنے تجربہ کار سپہ سالار احمد قیدوق کو ہمراہ لے کر مقابلہ کے لئے روانہ ہوا،اس مرتبہ خوب زور شور کی لڑائی ہوئی مگر جمشید کو پھر شکست اٹھانی پڑی، یہ لڑائی ۸۸۷ھ مطابق جون ۱۴۸۲ء میں ہوئی،اس لڑائی میں بھی جمشید کو ایشیائے کوچکی ہی کے بعض سرداروں کی وجہ سے شکست ہوئی،ان لوگوں نے جمشید کے ساتھ مل کر بایزید سے لڑنے کا وعدہ کرکے جمشید کو مصر سے بلایا تھا اوراس کے ساتھ مل کر میدان جنگ میں آئے تھے، لیکن لڑائی کے وقت بایزید سے جاملے اور اس طرح اس کی باقی فوج کو بھی بددل کرکے بایزید کی فتح کا موجب ہوگئے، اس مرتبہ شکست کھا کر جمشید کو مصر کی طرف جاتے ہوئے شرم دامن گیر ہوئی اوراس نے کہاکہ اب سلطان مصر اوراپنی بیوی اور والدہ کو منہ دکھانے کا موقع نہیں رہا، اگر وہ مصر چلا جاتا تو یقیناً چند ہی روز کے بعد ایسا وقت آجاتا کہ سلطنتِ عثمانیہ کے تمام سپہ سالار ان افواج متفقہ طور پر اس کو مصر سے قسطنطنیہ لے جانے کی کوشش کرتے اور تختِ سلطنت پر بٹھاتے مگر قضا وقدر کو کچھ اورہی منظور تھا جمشید نے بجائے مصر کے اس بات کی کوشش کی کہ کسی طرح سلطنت عثمانیہ کے یوروپی حسہ میں پہنچ کر اوروہاں کے سرداروں نیز سرحد کے عیسائی سلاطین سے امداد حاصل کرکے جنگ وپیکار کا سلسلہ جاری کروں،اس شکست کے بعد بھی اس کی حالت بہت نازک ہوگئی تھی اور تیس چالیس سے زیادہ رفیق اس کے ساتھ نہ تھے،اس لئے وہ چاہتا تھا کہ کسی جگہ دم لینے اوراپنی حالت کے درست کرنے کا موقع ملے، یہ موقع اس کو مصر ہی میں خوب مل سکتا تھا جہاں سلطان مصر اس کی ہرطرح مدد کرنے کو تیار تھا مگر اس نے روڈس کے حکمران عیسائیوں کی پارلیمنٹ کو لکھا کہ کیا تم اس بات کی اجازت دے سکتے ہو کہ اس تمہارے جزیرے میں چند روز قیام کرکے پھر یونان اورالبانیہ کی طرف چلا جاؤں اوراپنے ملک کو حاصل کرنے کی کوشش کروں، اس پیغام کو سنتے ہی روڈس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

    اوران مقدس عیسائیوں نے جمشید کے اس ارادہ کو نعمتِ غیر مترقبہ سمجھ کر عیسائی سلاطین کے چہروں پر رذالت وکمنگی کا سیاہ پوڈر ملنے کے لئے ایک شیطانی منصوبہ سوچا،جمشید ممکن تھا کہ اپنے روڈدس جانے کے ارادا سے پر نظر ثانی کرتا اورملک شام میں مقیم رہ کر چند روز انجام اور عواقب امور کو سوچتا اور اس عرصہ میں سلطانِ مصر با صرار اس کو مصر بلاتا اوراس کی ماں اور بیوی کی محبت اس کو مصر کی طرف کھینچتی لیکن روڈس کی پارلیمنٹ کے صدر مسمی ڈابسن نے فوراً جمشید کو لکھا کہ ہم آپ کو سلطنتِ عثمانیہ کا سلطان تسلیم کرتے ہیں اورآپ کی تشریف آوری ہمارے لئے موجبِ عزت وافتخار ہوگی اورمیں اپنی پارلیمنٹ کی جانب سے آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ ہماری عزت افزائی کے لئے ضرور روڈس میں قدم رنجہ فرمائیں ہماری تمام فوج،تمام جہاز،تمام خزانہ اور تمام طاقتیں آپ کی خدمت گزاری اوراعانت کے لئے وقف ہیں اوریہاں آپ کے لئے ہر قسم کا ضروری سامان اورطاقت موجود ومہیا کردی جائے گی،اس جواب کو سن کر جمشید تامل نہیں کرسکتا تھا،وہ بلا توقف تیس آدمیوں کو ہمراہ لے کر روڈس کی طرف چل دیا،جزیرہ کے ساحل پر اتر کر اس نے دیکھا کہ استقبال کے لئے آدمی موجود ہیں، وہاں سے وہ تزک واحتشام کے ساتھ دار السلطنت میں پہنچایا گیا،ڈی،آبس یاڈابسن نے جو پارلیمنٹ کا پریسڈنٹ تھا فوج کے ساتھ شان دار استقبال کی اورشاہی مہمان کی حیثیت سے ٹھہرایا،لیکن بہت جلد شہزادہ جمشید کو معلوم ہوگیا کہ وہ مہمان نہیں ؛بلکہ ایک قیدی ہے،ڈابسن نے سب سے پہلے جمشید سے ایک اقرار نامہ اس مضمون کا لکھا یا کہ اگر میں سلطنت عثمانیہ کا سلطان ہوگیا تو فرقۂ نائٹس یعنی روڈس کے حاکموں کو ہرقسم کی مراعات عطا کروں گا، اس کے بعد اس نے سلطان بایزید کو لکھا کہ جمشید تو ہمارے قبضہ میں موجود ہے،اگر آپ ہم سے صلح رکھنا چاہتے ہیں تو ہم کو اپنے تمام بندرگاہوں میں آنے جانے اور تجارت کرنے کی آزادی دیجئے، ہر قسم کے محسول ہم کو معاف کئے جائیں اورآپ کا کوئی اہل کار ہم سے کسی جگہ،کا محصول طلب نہ کرے،نیزپینتالیس ہزار عثمانی سکے سالانہ ہمارے پاس بھیجتی رہوگی تو ہم تمہارے بیٹے جمشید کو بایزید کے سپرد نہ کریں گے اوراس کو بہ حفاظت آرام سے اپنے پاس رکھیں گے ورنہ سلطان بایزید اس سے بھی زیادہ روپیہ ہم کو دینا چاہتا ہے،ہم مجبوراً اس کے سپرد کردیں گے اور ظاہر ہے کہ وہ جمشید کو قتل کرکے اطمینان حاصل کرے گا،اس پیغام کو سنتے ہی جمشید کی ماں نے جس طرح ممکن ہو سکا ڈیڑ لاکھ روپیہ ڈی آبسن کے پاس بھیج دیا اورلکھا کہ میں ہمیشہ یہ رقم بھیجتی رہوں گی، غرض کہ رودس والوں نے جمشید کو جلب منفعت کا بہترین ذریعہ بنایا اورا کے ذریعہ سے فائدہ اٹھانے میں جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے سے مطلق پرہیز نہ کیا اس طرح جلب منفعت کی تدابیر کام میں لاکر روڈس والوں نے سوچا کہ کہیں ایسا نہ ہو بایزید یا سلطانِ مصر جمشید کے حاصل کرنے کے لئے ہمارے ملک پر حملہ کردیں اور یہ سونے کی چڑیا ہاتھ سے جاتی رہے، لہذا انہوں نے جمشید کو روڈس میں رکھنا مناسب سمجھا اوراس کو سلطنتِ فرانس کی حدود میں شہر نائس کی طرف روانہ کردیا اورایک جمیعت اس کی نگرانی اور دیکھ بھال پر مامور کردی، نائس سے پھر دوسرے مختلف شہروں میں اس کو تبدیل کرتے رہے اوراس عرصہ میں شہزادہ کے ہمراہیوں کو یکے بعد دیگرے جداکرتے رہے، یہاں تک کہ جمشید تنہا رہ گیا،فرانس کے ایک شہر میں جب جمشید کو ٹھہرایا گیا تو اتفاقاً حاکم شہر کی لڑکی فلپائن ہلنیا اس پر عاشق ہوگئی چند روز کے بعد اس شہر سے بھی اس کو جدا کرکے اس کو ایک خاص مکان میں جو اسی کے لئے فرانس کے بادشاہ نے تعمیر کرایا تھا لے جاکر رکھا، اب گویا شہزادہ پر بادشاہ فرانس نے اپنا قبضہ کرلیا کیونکہ وہ ایک نہایت قیمتی مال تھا اور ہر شخص اس پر قبضہ جمانا چاہتا تھا،یہ مکان کئی منزل کا تھا،نیچے اور اوپر کی منزل میں تو محافظ اور چوکیدار رہتے تھے،بیچ کی منزل میں شہزادے کو رکھا جاتا تھا، اس عرصہ میں شان فرانس ،پوپ روما اور دوسرے عیسائی سلاطین نے ڈی، آبسن چونکہ شہزادہ کے ذریعہ خوب نفع اٹھا رہا تھا اور وہ اس کو اپنے قبضہ میں رکھنے کی قیمت پہنچانتا تھا لہذا اس نے نہ تو کسی کو صاف جواب دیا نہ اس کے دینے پر رضا مند ہوا ؛بلکہ خط و کتابت کے طویل دینے اور شرائط کے طے کرنے میں وقت کو ٹالتارہا، ۸۹۵ ھ تک شہزادہ جمشید ملک فرانس میں رہا اور روڈس والے برابر سلطان بایزید ظانی سے روپیہ وصول کرتے رہے ،جب ڈی ،آیسن کو یقین ہوگیا کہ عیسائی سلاطین بالخصوص فرانس کا بادشاہ جمشید پر قبضہ کرلے گا کیونکہ وہ اسی کے ملک میں فروکش ہے تو اس نے جمشید کو بلا لینے کی تجویز کی اورادھر جمشید کی ماں کو لکھا کہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ سفر کے لئے بھیج دو تو میں تمہارے بیٹے کو فرانس سے بلا کر تمہارے پاس مصر میں پہنچا دوں گا اس بے چاری نے فوراً یہ روپیہ بھجوادیا اور ڈآبسن نے اپنے آدمیوں کو لکھا کہ جمشید کو فرانس کے ملک سے اب اٹلی میں لے آؤ،یہ حال جب فرانس کے با دشاہ چارلس ہفتم کو معلوم ہوا تو اس نے مخالفت کی اورکہا میں جمشید کو ہرگزا پنی محل داری سے باہر نہ جانے دوں گا،آخر بڑی ردّود کد کے بعد چارلس ہشتم نے اس شرطپر جمشید کو اٹلی جانے کی اجازت دی کہ پوپ دس ہزار روپیہ بطورِ ضمانت جمع کرے کہ اگر دربار فرانس کی اجازت کے بغیر جمشید کو اٹلی سے باہر جانے دیا تو یہ دس ہزار روپیہ ضبط ہوجائیں،ادھر پوپ نے ایک ضمانت روڈس کے حاکموں کو دی جس کا منشاء یہ تھا کہ اگر وہ فوائد جو روڈس کی حکومت کو جمشید کو ذریعہ پہنچ رہے ہیں جمشید کے اٹلی آنے سے رک گئے توپوپ ان نقصانات کی تلافی کرے گا۔

    غرض ۸۹۵ ھ میں شہزادہ جمشید شہر روما داخل ہ ہوا اس کا شان داراستقبال کیا گیا اور پوپ کے شاہی محجل میں اس کو ٹھہرایا گیا،فرانسیسی سفیر شہزادہ کے ہمراہ تھا جب فرنسیسی سفیر اور جمشید ی؎پوپ سے ملنے گئے تو وہاں پوپ کے نائبوں نے جو دربار میں تھے شہزادہ کو پوپ کے سامنے اسی طرح جھکنے کے لئے بار بار کہا جس طرح فرانسیسی سفیر اور دوسرے عیسائی سردار پوپ کے سامنے جھکتے تھے،لیکن سلطان فاتح کے بیٹے نے یہ ذلت کسی طرح گوارانہ کی اوروہ نہایت بے پرواہی اورفاتحانہ انداز سے پوپ کے پاس جابیٹھا اورنہایت بے پرواہی اورشاہانہ جرأت کے ساتھ پوپ سے گفتگو کی اوراسی گفتگو میں کہا کہ میں آپ سے کچھ باتیں تخلیہ میں بھی کرنی چاہتا ہوں،پوپ نے اس بات کو منظور کیا اور جب تخلیہ ہوگیا تو جمشید نے عیسائی سرداروں کی بد عہدی اورغیر شریفانہ برتاؤ کی شکایت اوراپنے مصائب کی ساستان سنائی اوراپنی ماں اور بیوی کی جدائی کا ذکر کرتے ہوئے ا س کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے،اس داستانِ غم کو سن کر پوپ کے دل پر بھی بڑا اثر ہوا، اور وہ بھی چشم پُر آب ہوگیامگر کچھ سوچ کر اس نے کہا کہ تمہارا مصر جانانا تمہارے لئے مفید نہ ہوگا اور تم اپنے باپ کا تخت حاصل نہ کرسکو گے تم کو شاہ ہنگری نے بھی بلایا ہے تم اگر ہنگری کی طرف چلے جاؤ گے تو تمہارا مقصد بآسانی پورا ہوسکے گا اورسب سے بہتر تو تمہارے لئے یہ بات ہے کہ تم دینِ اسلام کو چھوڑ کر دین عیسوی قبول کرلو پھر تمام یوروپ تمہارےساتھ ہوگا اورنہایت آسانی سے تم قسطنطنیہ کے تخت پر جلوس کرکے سلطنتِ عثمانیہ کے شہنشاہ بن جاؤ گے،پوپ اسی قدر کہنے پایا تھا کہ جمشید نے فوراً اس کو روک کر کہا کہ ایک سلطنتِ عثمانیہ کیا اگر ساریدنیا کی حکومت و شہنشاہی بھی مجھ کو ملنے والی ہو تو میں اس پر ٹھوکر ماردوں گا،لیکن دینِ اسلام کے ترک کرنے کا خیال تک بھی دل میں نہ لاؤں گا،پوپ نے یہ سنتے ہی اپنے کلام کاپیرایہ بدل دیا اور معمولی دل جوئی کی باتیں کرکے جمشید کو رخصت کردیا اوروہ جس طرح فرانس میں زیر حراست رہتا تھا اسی طرح روما میں بطورِ قیدی رہنے لگا، جمشید کے روما میں آجانے کا حال سن کر سلطان مصر نے اپنا ایلیچی روما میں بھیجا، اس کو یقین تھا کہ روما سے جمشید اب مصر پہنچایا جائے،اس لئے یہ ایلیچی استقبال کے لئے بھیجا گیا تھا،ادھر سلطان بایزید ثانی جمشید کے اٹلی آنے کی خبر سں کر اپنا سفیر تھائف و نذرانے کے ساتھ پوپ کی خدمت میں روانہ کیا پوپ سے معاملہ طے کرے،کیونکہ پوپ کی نسبت خیال تھا کہ کہ وہ اختیار سے جمشید کو جہاں چاہے بھیج سکتا ہے، اور روڈس والوں کے منشاء کو پورا کرنا پوپ کے لئے ضروری نہیں ہے، شاہ مصر کے سفیر نے روما میں داخل ہوکر اوّل جمشید کو تلاش کیا اورجب اس کی خدمت میں پہنچا تو اسی طرح آداب بجا لایا جیسے کہ سلطان قسطنطنیہ کی خدمت میں حاضر ہوکر آداب بجالاتا،اس سفیر نے جمشید کو یہ حال بھی سنایا کہ آپ کی والدہ سے کسی قدر روپیہ سفر خرچ کے لئے ڈی آبسن نے منگایاہے، یہ سن کر جمشید پوپ کی خدمت میں مع سفیر پہنچا اوراس دھوکہ بازی کا استغاثہ کیا، پوپ نے بہت ہی تھو ڑے سے روپے ڈی آبسن کے وکیل سے جمشید کو دلواکر اس قصے کو ختم کردیا، مصر کا سفیر ناکام مصر کو واپس جلا گیا، بایزید کے سفیر نے پوپ سے مل کر قریباً اسی قدر رقم آبسن کو بایزید دیا کرتا تھا معاملہ طے کرلیا اوراس طرف سے اطمینان حاصل کرکے قسطنطنیہ کو واپس چلا گیا اور پوپ نے جمشید کی نگرانی کا معقول انتظام کردیا اوروہ بدستور قیدیوں کی طرح رہنے لگا، اس کے تین سال بعد پوپ جس کا نام شینوس تھا فوت ہوگیا اوراس کی جگہ اسکندر نامی پوپ مقرر ہوا، یہ جدید پوپ پہلے پوپ سے شرارت میں درجہا فائق تھا،اس نے تخت نشین ہوتے ہی سلطان بایزید کے دربار میں ایلیچی روانہ کیا اور پیغام بھیجا کہ چالیس ہزار ڈاکٹ سالانہ جو پہلے سے مقرر ہے وہ آپ بدستور بھیجتے رہیں اور تین لاکھ ڈاکٹ یک مشت اب بھیج دیں تو میں ہمیشہ کے لئے آپ کو جمشید کے خطرے سے نجات دے سکتا ہوں یعنی اس کو ہلاک کرسکتا ہوں ،پوپ اسکندر کے اس سفیر کا نام جارج تھا جارج نے دربارِ قسطنطنیہ میں بڑے سلیقے کے ساتھ گفتگو کی اوراپنی قابلیت کا اس خوبی کے ساتھ اظہار کیا کہ سلطان بایزید نے پوپ کو اس سفیر کی سفارش لکھی کہ یہ ایسا لائق ہے کہ اس کو اپنا نائب بنائیں، یہ سفیر ابھی قسطنطنیہ ہی میں مقیم تھا کہ ۹۰۱ھ میں فرانس کے بادشاہ چارلس ہشتم نے اٹلی پر حملہ کیا اس حملہ آوری کا سبب بھی بجز اس کے اورکچھ نہ تھا کہ شہزادہ جمشید کو اب جدید پوپ اسکندر کے قبضے میں نہ رہنے دیا جائے اوراس گوہر گراں مایہ کو اپنے قبضے میں لے لیا جائے چارلس ہشتم کے حملہ آور ہونے پر پوپ اسکندر نے روما سے بھاگ کر سینٹ اینجلو کے قلعہ میں پناہ لی اور بھاگتے ہوئے شہزادہ جمشید کو بھی جسے وہ خزانہ سے زیادہ قیمتی سمجھتا تھا پنے ساتھ لیتا گیا ،گیارہ روز کے بعد پوپ اورشاہ فرانس کے درمیان شرائط صلح نامہ کے طے کرنے کے لئے ایک مجلس منعقد ہوئی،سب سے پہلے شرط جو چارلس نے پیش کی وہ یہ تھی کہ جمشید میرے قبضے میں رہے گا، آخر ایک مکان میں پوپ،چارلس اورجمشید صرف تین شخص جمع ہوئے اورپوپ نے جمشید کو مخاطب کرکے دریافت کیا کہ کیوں شہزادے تم یہاں رہنا چاہتے ہو یا بادشاہ فرانس کے پاس جمشید نے کہا میں شہزادہ نہیں رہا ؛بلکہ ایک قیدی ہوں مجھ کو جہاں چاہو رکھو، میں کچھ نہیں کہتا، بہر حال چارلس ہشتم شاہ فرانس جمشید کو اپنے ساتھ نیلپز میں لے آیا اور وہاں اس کو رکھ کر ایک سردار مناسب جمعیت کے ساتھ اس کا نگراں مقرر کیا گیا،اب پوپ اسکندر کی تمام امیدیں بایزید سے روپیہ وصول کرنے کی خاک میں مل گئیں؛حالانکہ سلطان بایزید تین لاکھ ڈاکٹ ادا کرنے پر آمادہ ہوچکا تھا اور پوپ کے سفیر سے معاملہ طے کرلیا تھا،پوپ کو چونکہ روپیہ کا لالچ تھا اس لئے اس نے سلطان کو لکھا کہ اگرچہ جمشید یہاں سے نیلپنر چلا گیا ہے مگر میں ضرور اس کا کام تمام کرادوں گا، اورآپ سے روپیہ پانے کا مستحق ہون گا جیسا کہ طے ہوچکا ہے،اس کے بعد پوپ اسکندر نے ایک یونانی حجام کو اس کا م کے لئے انتخاب کیا،یہ یونانی حجام اول مسلمان ہوچکا تھا اوراس کا نام مصطفیٰ رکھا گیا تھا، اس کے بعد وہ مرتد ہوگیا اوراٹلی میں آکر اپنے پیشہ حجامی کی بدولت پوپ تک پہنچ گیا،پوپ نے اس مصطفیٰ حجام کو نیلپنر کی جانب روانہ کیا اور زہر کی ایک پڑیادی کہ کسی طرح یہ پڑیا جمشید کو کھلادی جائے، اس زہر کا اثر یہ تھا کہ آدمی فوراً نہیں مرتا تھا ؛بلکہ چند روز کے بعد بیمار ہوکر مرتا تھا اورکوئی دوا کا رگر نہ ہوسکتی تھی، مصطفیٰ نیلپنزر میں پہنچا اور رفتہ رفتہ رسوخ پیدا کرکے شہزادہ جمشید تک پہنچنے لگا، ایک حجام کو ایسے معزز قیدی تک پہنچنے سے پاسبانوں نے بھی روکنا ضروری نہیں سمجھا کیونکہ اس سے کسی قسم کا اندیشہ نہیں ہوسکتا تھا،آخر مصطفیٰ نے موقع پاکر وہ زہر کی پڑیا شہزادہ جمشید کو کسی طرح دھوکے سے کھلادی اورشہزادہ لاعلاج بیماری میں مبتلا ہوگیا اوراس قدر کمزور وناتوان ہوگیا کہ اس حالت میں مصر سے اس کی ماں کا خط اس کے پاس پہنچا تو وہ اس خط کو کھول کر پڑھ بھی نہ سکا اوراس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے کہ ‘‘الہیٰ اگر یہ کفار میرے ذریعہ سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں تو تو مجھ کو آج ہی اٹھالے اورمسلمانوں کو ان کے شر سے بچالے’’ مصطفیٰ اگرچہ نامعلوم طریقے سے زہر کھلا چکا تھا مگر اس نے اس پر اکتفا نہ کرکے اوریہ بھی مزید کاروائی کی کہ زہر میں بجھے ہوئے استرے سے جمشید کی حجامت بنائی اوراس طرح بھی اس کی جلد کے نیچے زہر کا اثر پہنچا دیا تھا، جس روز جمشید کی حجامت بنائی اوراس طرح بھی اس کی جلد کے نیچے زہر کا اثر پہنچادیا تھا جس روز جمشید نے یہ مذکورہ دعا مانگی اسی روز اس کی روح نے اس جسم خاکی کو چھوڑ کر عالم باقی کی طرف پرواز کی،یہ واقعہ ۹۰۱ھ کا ہے جمشید نے ۳۶ سال کی عمر میں تیرہ برس قیدِ فرنگ کے مصائب جھیل کر وفات پائی، اس کی لاش بایزید کی درخواست کے موافق عیسائیوں نے بایزید کے پاس بھیج دی اور بایزید نے اس کو بروصہ میں دفن کرایا، سلطان بایزید نے پوپ اسکندر کو بھی وعدہ کے موافق روپیہ ادا کردیا اوراس حجام مصطفی نامی کو بلا کر اپنے یہاں رکھا اورپھر ترقی دے کر اس کو وزارت کے عہدۂ جلیلہ تک پہنچادیا، تعجب ہے کہ بایزید نے ابتدائی ایام میں تو اس ترکی سردارکو قتل کرادیا تھا جس نے جمشید کو راستے میں لوٹ لیا تھا مگر اب بارہ تیرہ سال کے بعد اس نے اس حجام کی ایسی قدر وعزت بڑھائی جس نے جمشید کو قتل کرکے اس ترکی سردار سے زیادہ سنگین جرم کا ارتکاب کیا تھا، سلاطین عثمانیہ کے سلسلے میں شہزادہ جمشید کی دلخراش داستان کو اس لئے مناسب تفصیل کے ساتھ اس جگہ درج کردیا گیا ہے کہ اس داستان سے اس زمانے کے عیسائی بادشاہوں کی اخلاقی حالت پر ایک تیز روشنی پڑتی ہے اور صاف طور پر ان عیسائی فرماں رواؤں کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ کس طرح شہزادہ جمشید پر انہوں نے قبضہ کیا اورکس طرح اس سے فوائد حاصل کئے اور کس طرح اس کے قابو میں رکھنے پر حریص تھے اوراپنے ان مادی اورنفسانی اغراض کے پورا کرنے میں کسی کو شرافت انسانیت اوراپنے شاہانہ مرتبہ کے وقار کی پرواہ نہ تھی،ان کے دل میں رحم کا مادہ بھی نہ تھا اوران پر سلطنتِ عثمانیہ کا اس قدر رعب طاری تھا اوروہ ایسے خائف وترساں تھے کہ شہزادہ جمشید کے ذریعہ سلطان عثمانی کو اپنے اوپر فوج کشی کرنے سے روکنے کی ذلت آمیز کوشش میں لگے ہوئے تھے،شہزادہ جمشید کی داستان کو یہاں ختم کرکے اب ہم کو سلطان بایزید ثانی کی طرف متوجہ ہونا چاہئے جو اپنے باپ سلطان کاں ثانی فاتح قسطنطنیہ کے بعد تخت نشین ہوا۔
    سلطان بایزید ثانی کی تخت نشینی کا حال اوپر بیان ہوچکا ہے، اس سلطان نے ۸۸۶ھ میں تخت نشین ہوکر ۹۱۸ھ تک یعنی ۳۲ سال حکومت کی، اس کو تخت نشیں ہوتے ہی اپنے بھائی جمشید کا مقابلہ کرنا پڑا، دو مرتبہ جمشید سے لڑائی ہوئی اور دونوں مرتبہ یزید کامیاب ہوا لیکن یہ کامیاب سلطنت عثمانیہ کے لئے کچھ مفید ثابت نہیں ہوئی، جمشید کا عیسائیوں کی قید اور قبضہ میں چلا جانا باعث اس کا ہوا کہ بایزید ثانی کو ملک اٹلی اورروڈس پر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی، ادھر مصر کی مملوکی سلطنت سے تعلقات کشیدہ ہوگئے،شہزادہ جمشید چونکہ اول مصر ہی کی سلطنت میں پناہ گزیں ہوا تھا اورجمشید کے متعلقین آخر تک مصر میں موجود تھے لہذا مملوکیوں نے ایشیائے کوچک کے جنوبی و مشرقی حصہ پر حملہ آوری کا سلسلہ جاری کردیا اور ۸۹۰ ھ میں بایزید کی فوج کو شکست فاش دے کر بعض سرحدی مقامات پر قبضہ کرلیا،آخر بایزید نے مملوکیوں سے متواتر شکستیں کھانے کے بعد صلح کی اوراس صلح میں بایزید کا دب جانا اس طرح ثابت ہوا کہ اس نے وہ قلعے اور وہ شہر جن پر مملوکی قبضہ کرچکے تھے انہیں کے قبضے میں رہنے دیئے مگر یہ اقرار مملوکیوں سے ضرور لے لیا کہ اس نو مفتوحہ علاقے کی تمام آمدنی حرمین شریفین کی خدمت گزاری میں صرف کی جائے گی سلطان بایزید کے پاس احمد قیدوق ایک نہایت قیمتی اور تجربہ کار سپہ سالار تھا اگر بایزید چاہتا تو اس سے خوب کام لے سکتا تھا،مگر اس نے اس جوہر قابل سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا، احمد قیدوق فوج میں بہت ہر دل عزیز تھا اوربایزید ثانی کو اس کی غلط کاریوں پر نصیحت کرتا رہتا تھا،وہ اپنی صاف بیانی اورفاش گفتاری میں کسی شاہی سطوت اورسلطانی رعب کی مطلق پرواہ نہ کرتا تھا حقیقتاً ایسا نصیحت گرجو محبت کی وجہ سے غلطیوں پر تنبیہ کرے بہت ہی غنیمت ہوتا ہے،لیکن بایزید زیادہ برداشت نہ کرسکا، ۸۹۵ھ میں بایزید ثانی نے جان نثاری فوج کے بڑھے ہوئے زور کو توڑنا چاہا اور اس فوج کے خلاف سخت احکام صادر کرنے پر آمادہ ہوا ،فوج میں چونکہ پہلے ہی سے شورش برپا تھی احمد قیدوق نے بایزید کو برسردربار سمجھا یا کہ آپ اس زمانہ میں جب کہ ہر طرف ہم کو فوج سے کام لینے کی ضرورت ہے فوج کو بددل اور افسردہ خاطر نہ کریں،اس کام کو کسی دوسرے وقت پر ملتوی رکھیں ورنہ پھر اندیشہ ہے کہ مشکلات پر قابو پانا دشوار ہوگا اوراپنی سلطنت کا بچانا آپ کے لئے آسان نہ رہے گا، بظاہر بایزید نے احمد قیدوق کی بات کو مان لیا، مگر اس کو احمد قیدوق کا اس طرح دخل در معقولات ہونا سخت گراں گزرا، اس نے چند روز کے بعد احمد قیدوق کا اس طرح دخل در معقولات ہونا سخت گراں گزرا، اس نے چند روز کے بعد احمد قیدوق کے قتل کا ارادہ کیا ؛چنانچہ احمد قیدوق کو اسی لئے گرفتار کرلیا گیا،فوج نے اپنے ہر دل عزیز سردار کے قتل کی خبرسُن کر ایوانِ سلطانی کا محاصرہ کرلیا اورسلطان کو دھمکی دی کہ اگر ہمارے سردار احمد قیدوق کو قتل کردیا گیا ہے،جاں نثاری فوج کے سپرد کردیا اوربظاہر اس کی عزت وتکریم بھی کی مگر چند ہی روز کے بعد تمام جان نثاری فوج کو کسی مہم کے بہانے سے دور دراز کے سرحدی مقام پر بھیج کر اور دارالسلطنت کو فوج سے خالی پاکر احمد قیدوق کو قتل کردیا، اس سردار کا قتل ہونا سلطنت عثمانیہ کے لئے نہایت مضر ثابت ہوا۔

    ۸۹۶ ھ میں سلطنت عثمانیہ اورسلطنتِ روس کے درمیان تعلقات قائم ہوئے،یعنی زارِ ماسکو نے اپنا سفیر مناسب تحفہ وہدایا کے ساتھ سلطان کی خدمت میں قسطنطنیہ کی جانب روانہ کیا، اس سفیر کے ساتھ دربارِ قسطنطنیہ میں معمولی برتاؤ ہوا اوروہ چند روزرہ کر ماسکو کی جانب رخصت ہوا،سلطان بایزید کے عہد حکومت میں سلطنتِ عثمانیہ کی بحری طاقت میں بہت ترقی ہوئی،سلطان کی توجہ بحری طاقت کے بڑھانے کی طرف اس لئے زیادہ منعطف ہوئی کہ اس کو شہزادہ جمشید کی طرف سے اندیشہ تھا کہ روڈس واٹلی و فرانس کی حکومتیں مل کر بحری حملہ کی تیاری پر آمادہ ہوں گی، ایک طرف اس نے ان سلطنتوں اوردوسری عیسائی حکومتوں سے صلح قائم کر رکھی اوردوسری طرف ان کے حملہ سے محفوظ رہنے کی تدابیر سے بھی غافل نہ رہا اور اپنی بحیر طاقت کو بڑھانے میں مصروف رہا۔

    جس زمانے میں جمشید عیسائیوں کے قبضے میں پہنچ چکا تھا، اندلس کے مسلمانوں یعنی شاہ غرناطہ نے سلطان بایزید سے امداد طلب کی کہ بحری فوج اورجنگی بیڑے سے ہماری مدد کی جائے،بایزید اندلسی مسلمانوں کی درخواست پر ان کو بہت بڑی مدد دے سکتا تھا لیکن وہ محض اس وجہ سے کہ کہیں پوپ اوردوسرے عیسائی سلاطین جمشید کو آزاد کرکے میرے مقابلے پر کھڑا نہ کردیں متامل رہا اورجیسی چاہئے تھی ویسی مدد اندلس والوں کی نہ کرسکا بایزید کی یہ کوتاہی ضرور قابلِ شکایت اورموجب افسوس ہے تاہم ہم کو یہ بات بھی فراموش نہ کرنی چاہئے کہ اس نے ایک معمولی سابیڑہ جس میں چند جنگی جہاز شامل تھے اپنے امیر البحر کمال نامی کی قیادت میں اسپین کی طرف روانہ کیا تھا،اس بیڑہ نے ساحل اسپین پر پہنچ کر عیسائیوں کا تھوڑا سا نقصان کیا مگر کوئی ایسا کار نمایاں انجام نہ دے سکا جس سے اسپین کے مسلمانوں کوکوئی قابل تذکرہ امداد پہنچتی،جب جمشید کا کام تمام ہوگیا اوربایزید کو اس کی طرف سے کوئی خطرہ باقی نہ رہا تو اس نے اُن جزیروں اوران ساحلی مقاموں پر جویونان اوراٹلی کے درمیان ریاست وینس کے تصرف میں تھے قبضہ کرنے کی کوشش کی اور وینس کے ساتھ بحری لڑائیوں کا سلسلہ جاری م ہوا، ۵۰۵ھ میں وینس کی بحری طاقت کو ترکی کی بیڑے نے شکست فاش دی اور تمام جزیرے اس کے قبضے سے چھین لئے ۹۰۶ھ میں وینس،پوپ روما،،اسپین،اورفرانس کے متحد بیڑہ سے عثمانیہ بیڑہ کا مقابلہ ہوا،ان مذکورہ عیسائی طاقتوں نے عثمانیہ بحری طاقت کی ترقی دیکھ کر آپس میں اتفاق کرکے یہ فیصلہ کیا کہ بحر روم سے ترکی اثر کو بالکل فنا کردینا چاہئے،ترکی بیڑہ کا افسر یعنی امیر البحر کمال تھا جو سلطان بایزید کا غلام تھا، اس بحری لڑائی میں کمال نے وہ کمال دکھایا کہ متحدہ عیسائی بیڑے کو شکست فاش دی،بہت سے جہازوں کو غرق بعض کو گرفتار کیا اورباقی فرار ہونے پر مجبور ہوئے،اس بحری معرکہ کے بعد کمال کی بہت شہرت ہوگئی اور بحر روم میں ترکی بیڑے کی دھاک بیٹھ گئی،مگر افسوس ہے کہ ترکی بیڑے کی فتح نمیاں سے چند سال پہلے یعنی ۸۹۷ھ میں اندلس سے اسلامی حکومت کا نام ونشان مٹ چکا تھا، بایزید ثانی کی ہنگری اور پولینڈ والوں سےب ھی متعدد لڑائیاں ہوئٰں،مگر وہ کچھ زیادہ مشہور اور قابلِ تذکرہ نہیں ہیں نتیجہ ان لڑائیوں کا یہ ہوا کہ پولینڈ والوں نے سلطان سے صلح کرلی اور پولینڈ کے بعض شہروں پر جو سرحد پر واقع تھے ترکوں نے قبضہ کرلیا،چونکہ سلطان بایزید ثانی صلح کی جانب زیادہ مائل تھا،لہذ سلطنتِ عثمانیہ کی وسعت اور شوقکت میں کوئی اضافہ نہ ہوسکا،سلطان محمد خاں فاتح کے زمانے میں اس قدر دھاک عیسائیوں کے دل پر بیغھ گئی تھی کہ انہوں نے سلطنت عثمانیہ کے اس صلح پسند طرز عمل کو بہت غنیمت سمجھا اورخود حملہ آوری کی جرأت نہ کرسکے،سلطان بایزید ثانی کی ہم زیادہ مذمت بھی نہیں کرسکتے، کیونکہ اس کے عہدِ حکومت میں بحری طاقت سلطنت عثمانیہ کی بہت بڑھ گئی تھی اوربض جزیرے اور ساحلی مقامات ترکوں کے قبضے میں آگئے جنہوں نے اس کی تلافی کردی جو بری معرکآرائیوں کے کم اور بلا نتیجہ ہونے کے سبب ظاہر ہوئی، سلطان بایزید ثانی نے کوئی ایسا عظیم الشان کام بھی نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ خاص طور پر مدح و ستائش کا حق دار سمجھا جائے،اس کی نسب مشہور ہے کہ صلح جو اورنیک طینت شخص تھا، لیکن عام طورپر کند ذہن اور سست مزاج لوگوں کی نسبت ایسا ہی مشہور ہوجایا کرتا ہے۔

    جس سال سلطان بایزید ثانی تخت نشین ہوا ہے اسی سال مولانا عبدالرحمن جامی نے اپنی کتاب سلسلہ التذہب کو تصنیف کرکے سلطان بایزید کے نام پر معنون کیا مولانا جامی اسی بادشاہ کے زمانے میں ۱۸ محرم ۹۸۹ھ کو فوت ہوکر ہرات میں مدفون ہوئے،اسی سال کولمبس نے امریکہ دریافت کیا حالانکہ اس سے پہلے مسلمانانِ اندلس امریکہ دریافت کرچکے تھے مگر یہ شہرت کولمبس ہی کے حصے کی تھی، بایزید ثانی کے زمانے میں ۹۰۳ھ میں پُرتگال کے بادشاہ عما نویل نے اپنے دارسلطنت سے بس واسکوڈی گاما کو تین جہاز دے کر ہندوستان کو تلاش کرنے کے لئے روانہ کیا، وہ ۲۰ رمضان ۹۰۳ھ کو مالایار کے بندرگاہ قندرینہ علاقہ کالی کٹ میں پہنچ کر لنگر انداز ہوا، اسی سلطان کےعہدِ حکومت یعنی ۹۰۶ ھ میں اسمعیل صفوی بانی خاندان صفویہ چودہ سال کی عمر میں ایران کے تخت پر بیٹھا ‘‘مذہب ناحق’’ اس کی تاریخ جلوس ہے ،سلطان بایزید خاں ثانی کا ہم عصر ہندوستان میں سکندر لودی تھا مگر سلطان سکندر لودی بایزید ثانی سے تین سال پیشتر یعنی ۹۱۵ ھ میں قوت ہوگیاتھا، ۲۹ شعبان ۹۱۶ھ کو شیبانی خان بادشاہ ترکستان اسمعیل صفوی بادشاہ ایران کے مقابلہ میں مارا گیا اوراس سے ایکماہ بعد سلطان محمود بیکر بادشاہ گجرات احمدآباد میں فوت ہوا، سلطان بایزید خاں ثانی کا ۳۲ سالہ عہدِ حکومت چونکہ اہم اوردلچسپ واقعات سے خالی تھا لہذا دوسرے ملکوں کے واقعات جو اس کے زمانہ میں ہوئے قارئین کرام کی دلچسپی کے لئے لکھ دیئے گئے ہیں،اسی سلسلہ میں سلطان بایزید ثانی کے عہد کا ایک اور واقعہ بھی قابلِ تذکرہ ہے جس سے اس زمانے کے عیسائیوں کی سنگ دلی اور نامردی پر تیز روشنی پڑتی ہے اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ ہنگری کے ساتھ بھی سلطان بایزید کی فوجوں
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں