اور ہم انھیں قریب کا عذاب بھی اس بڑے عذاب سے پہلے چکھائیں گے

ام احمد نے 'قرآن - شریعت کا ستونِ اوّل' میں ‏نومبر 18, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ام احمد

    ام احمد محسن

    شمولیت:
    ‏جنوری 7, 2008
    پیغامات:
    1,333
    [font="al_mushaf"]وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴿21﴾ السجدة
    بالیقین ہم انہیں قریب کے چھوٹے سے بعض عذاب اس بڑے عذاب کے سوا چکھائیں گے تاکہ وه لوٹ آئیں
    تفسیر احسن البیان :

    عذاب ادنی (چھوٹے سے یا قریب کے بعض عذاب) سے دنیا کا عذاب یا دنیا کی مصیبتیں اور بیماریاں وغیرہ مراد ہیں۔ بعض کے نزدیک وہ قتل اس سے مراد ہے، جس سے جنگ بدر میں کافر دوچار ہوئے یا وہ قحط سالی ہے جو اہل مکہ پر مسلط کی گئی تھی۔ امام شوکانی فرماتے ہیں۔ تمام صورتیں ہی اس میں شامل ہوسکتی ہیں۔
    یہ آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب بھیجنے کی علت ہے کہ شاید وہ کفر و شرک اور معصیت سے باز آجائیں۔

    تفسیر ابن کثیر (رحمہ اللہ) :
    عذاب ادنٰی سے مراد دنیوی مصیبتیں ،آفتیں،دکھ درد اور بیماریاں ہیں ۔ یہ اس لیے ہوتی ہیں کہ انسان ہوشیار ہوجائے اور اللہ کی طرف جھک جائے اور بڑے عذابوں سے نجات حاصل کرے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد گناہوں کی وہ مقرر کردہ سزائیں ہیں جو دنیا مین دی جاتی ہیں جنہیں شرعی اصطلاح میں حدود کہتے ہیں ۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد عذابِ قبر ہے ۔ نسائی میں ہے کہ اس سے مراد قحط سالیاں ہیں ۔ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،چاند کا شق ہوجانا، دھویں کا آنااورپکڑ اور برباد کن عذاب اوربدر والے دن ان کفار کا قید ہونا اور قتل کیا جانا ہے ۔ کیونکہ بدر کی اس شکست نے مکے کے گھر گھر کو ماتم کدہ بنا دیا تھا ۔ ان عذابوں کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے
    تفسیر الکتاب (مفسرڈاکٹرعثمان رحمہ اللہ ):
    قریب کے عذاب سے مراد دنیا کا عذاب ہے۔
    مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے گناہوں پر متنبہ کرنے کے لئے دنیا میں کم درجے کا عذاب بھیجتا ہے مثلاً بیماریاں، قحط، سیلاب وغیرہ تاکہ وہ اپنے گناہوں سے باز آ جائیں اور آخرت کے بڑے عذاب سے نجات پائیں۔ انبیاء، اولیا اور مومنین پر جو آفات و مصائب آتے ہیں تو وہ ان کے امتحان اور امتحان کے ذریعے رفع درجات کے لئے ہوتے ہیں اور پہچان اس کی یہ ہے کہ ان لوگوں کو امراض و آفات کے وقت بھی ایک قسم کا قلبی سکون اور اطمینان میسر ہوتا ہے۔


    [font="al_mushaf"]وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا ۚ إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنتَقِمُونَ ﴿22﴾ السجدة

    اس سے بڑھ کر ﻇالم کون ہے جسے اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے وعظ کیا گیا پھر بھی اس نے ان سے منھ پھیر لیا، (یقین مانو) کہ ہم بھی گناه گاروں سے انتقام لینے والے ہیں
    تفسیر تیسیر القرآن :
    یعنی قیامت کا دن دراصل مجرمین سے بدلہ لینے کا دن ہے۔ اس دن کوئی بھی مجرم اپنے جرم کی سزا سے بچ نہیں سکے گا۔ اور جو شخص اپنے کبرونخوت کی بنا پر اللہ کی آیات سننا تک گوارا نہیں کرتا بلکہ پہلے سے ہی منہ جوڑ کر چل دیتا ہے وہ تو سب سے بڑھ کر ظالم ہے۔ وہ بھلا اس دن انتقام سے کیسے بچ سکے گا؟ واضح رہے کہ اللہ کی آیات کی بہت سی اقسام ہیں۔ مثلاً ایک تو وہ آیات ہیں جو کائنات میں ہرسو بکھری ہوئی ہیں۔ جنہیں ہم آفاقی نشانیاں کہہ سکتے ہیں۔ اور ان میں سورج، چاند، ستارے، گردش لیل و نہار۔ زمین کی قوت روئیدگی ۔ ہواؤں اور بارشوں کا نظام وغیرہ وغیرہ امور شامل ہیں۔ دوسری قسم وہ آیات ہیں جو انسان کے اندر کی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں۔ انسان کی تخلیق، جسم کی ساخت، اعضاء کا خود کار نظام، اور محیرالعقول قوتیں جو اللہ نے انسان کے اندر رکھ دی ہیں۔ اسی جسم میں بعض ایسے داعیے بھی موجود ہیں جو انسان کے تحت الشعور میں ہوتے ہیں۔ لیکن وقت پڑنے پر فوراً جاگ اٹھتے ہیں۔ جیسے جب موت سامنے کھڑی نظر آئے تو مشرکین کیا دہریے تک اللہ کو پکارنے لگتے ہیں۔ اس قسم کو قرآنی آیات انفس کا نام دیتا ہے تیسری قسم وہ تاریخی واقعات ہیں جن سے ہمیشہ ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جس قوم نے بھی اللہ کے مقابلہ میں سرکشی کی راہ اختیار کی اور اس کے رسول اور آیات کو جھٹلا دیا ہو۔ اللہ نے اسے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ اس قسم کو شرعی اصطلاح میں تذکیر بایام اللہ کہا جاتا ہے۔ اور یہ اصطلاح قرآن ہی کے الفاظ عععع وذکرھم بایام اللہ سے ماخوذ ہے اور چوتھی قسم وہ نشانیاں ہیں جو مصائب کی شکل میں تنبیہ کے طور پر انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر انسانوں پر بصورت عذاب ادنیٰ نازل کی جاتی ہیں۔ اور جن کا ذکر سابقہ آیت میں ہوا ہے۔ اور پانچویں قسم اللہ تعالیٰ کی وہ آیات ہیں جو اس نے انسانوں کی ہدایت کے لئے اپنے انبیاء پر وقتاً فوقتاً نازل کیں۔ ان آیات میں دراصل انسان سابقہ چاروں قسم کی آیات کو غوروفکر کے لئے انسان کے سامنے پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اور عقلی اور عام فہم دلائل کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ اور یہی وہ دلائل یا آیات ہیں جن کے متعلق قرآن میں بار بار یہ مذکور ہواہے کہ یہ آیات بالکل واضح ہیں ، روشن ہیں ان میں کوئی پیچیدگی نہیں، کوئی ابہام نہیں، کوئی ٹیڑھ نہیں بلکہ سیدھی سادی اور عام فہم دلیلیں ہیں۔ قرآن کی آیات باقی چاروں قسم کی آیات کی طرف توجہ دلاتی ہیں اور اسی کا نام ذکر اور تذکرہ ہے اور پہلی چاروں قسم کی آیات قرآن کی آیات کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ اور ان سب آیات کا ماحصل ایک ہی سامنے آتا ہے اور وہی دراصل انبیاء کی تعلیم کا نچوڑ ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اس کائنات کی تدبیر و تخلیق کرنے والی ہستی بڑی مقتدار اور حکیم ہستی ہے اور وہ صرف ایک ہی ہوسکتی ہے اس میں دوئی یا کسی دوسرے کی شراکت کی کوئی گنجائش نہیں۔ دوسرے یہ کہ کائنات اور اس کی کوئی بھی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی گئی۔ لہذا انسان جو اشرف المخلوقات ہے کہ زندگی کا بے مقصد ہونا ناممکنات سے ہے۔ تیسرے یہ کہ انسان کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح وہ طبعی اور اضطراری امور میں اللہ کے قوانین کے سامنے مجبور محصن اور ان قوانین کا پابند ہے۔ اسی طرح وہ اپنے اختیاری امور میں بھی اللہ کے احکام کے سامنے سرتسلیم ختم کردے اور کائنات کی باقی تمام اشیاء کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے صرف ایک ہی اللہ کی عبادت اور تسبیح و تقدیس بیان کرے اور اسی کا ہو کر رہے۔ اور چوتھے یہ کہ جو شخص اللہ کا فرمانبردار بن کر رہے اسے ضرور اس کا اچھا بدلہ ملنا چاہئے اور جو نافرمان ہو اسے ضرور سزا مل کر رہے اور چونکہ یہ دنیا کی زندگی اور ہر انسان کی پوری مدت عمر امتحان کا عرصہ ہے لہذا اس عرصہ امتحان کے بعد کامیاب اور ناکام انسانوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے۔ اس لحاظ سے روز آخرت کا قیام نہایت ضروری ہوا۔ ورنہ یہ دنیا ایک اندھیر نگری قرار پاتی ہے۔ نیز انسان جیسی اشرف المخلوقات مخلوق کا مقصد حیات ہی فوت ہوجاتا ہے۔
    [/font][/font]
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. ابو ابراهيم

    ابو ابراهيم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مئی 11, 2009
    پیغامات:
    3,871
    جزاک اللہ خیرا
     
  3. بنت امجد

    بنت امجد -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 6, 2013
    پیغامات:
    1,568
    جزاک اللہ خیرا
     
  4. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    جزاک اللہ خیرا
     
  5. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    جزاک اللہ‌ خیرا
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں