حضرتِ عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے بارے میں اہلِ بیت کا موقف

بابر تنویر نے 'غیر اسلامی افکار و نظریات' میں ‏جنوری 12, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    حضرتِ عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے بارے میں
    اہلِ بیت کا موقف ​


    تیسرے خلیفہ راشد، ذوالنورین، حیا دار و سخی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے محبوب کہ جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو بیٹیوں، رقیہ رضی اللہ عنہا اور ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی شادیاں کردیں۔ کسی ایک ہی آدمی کے نکاح میں کسی نبی کی دو بیٹیاں آئی ہوں، یہ ایسا شرفِ عظیم ہے جو نہ پہلی امتوں میں سے کسی کو ملا نہ پچھلی امتوں میں سے کسی کو۔ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے دوست و ہم سر، جنہوں نے ابراہیم خلیل اللہ کے بعد سب سے پہلے ہجرت کی، اسلام کا پرچم اٹھا کر دنیا کے ان کونوں تک پہنچے جو ابھی تک اسلام کے نام سے نا آشنا و بیگانہ تھے، جنہوں نے مسلمانوں کی فتوحات میں گراں قدر اضافہ کیا۔ نئے اور وسیع و عریض ممالک کو فتح کرکے اسلامی مملکت کے زیرنگیں کیا۔ جنہوں نے اپنی جیب سے مسلمانوں کی ہر موقع پر دل کھول کر امداد کی۔ اس ارضِ مقدس پر جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نبوت و رسالت والے قدموں سے مقدس بنا دیا، ہجرت کے بعد جب اس سرزمین پر مسلمانوں کے پانی پینے کے لیے کوئی کنواں نہیں تھا، آپ رضی اللہ عنہ ہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کو کنواں خرید کر دیا تھا ۔ اور آپ رضی اللہ عنہ ہی نے زمین کا وہ ٹکڑا خرید کر دیا، جس پر مسلمانوں نے وہ مسجد تعمیر کی، جسے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری مسجد ہونے کا شرف حاصل ہے۔
    آپ رضی اللہ عنہ کا یہ لطف و کرم اور جو دو سخا عوام اور خواص سب کے لیے تھا، جہاں آپ نے جیشِ عسرہ کو امدادِ بہم پہنچا کر اور اسی جیسی دوسری خدمات پیش کرکے اجتماعی بہبود کے کام کیے، وہاں آپ رضی اللہ عنہ خواص کے لیے بھی سراپا خیرو برکت، کریم و سخی اور ان کی ضروریات کے لیے اپنے خزانوں کا منہ کھول دیا کرتے تھے۔
    آپ رضی اللہ عنہ ہی تھے جنہوں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی شادی میں آپ رضی اللہ عنہ کی مدد و معاونت کی تھی۔ وہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جنہیں پہلا امام معصوم، سب نبیوں، رسولوں اور اللہ کے مقرب فرشتوں سے بھی افضل و برتر سمجھتے ہیں۔ 1
    ---------------------------------------------------------------------------------------------------------
    1 ’’المناقب‘‘ للخوارزمی ص ۲۵۲، ۲۵۳ مطبوعہ نجف ’’کشف الغمۃ ‘‘ للاربلی ج ۱ ص ۳۵۹ ’’بحارالانوار‘‘ للمجلسی ص ۳۹،۴۰ مطبوعہ ایران۔
    ---------------------------------------------------------------------------------------------------------

    آپ رضی اللہ عنہ ہی نے علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کو شادی کے تمام اخراجات مہیا کیے، جیسا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر خود اس بات کا اقرار کیا ہے کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اپنی زرہ بیچ دو اور اس کی قیمت میرے پاس لے آؤ تاکہ میں تمہارے اور اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے (ایسا سامان وغیرہ) تیار کروں جو تم دونوں کے لیے اچھا رہے، علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
    ’’میں نے اپنی زرہ اٹھائی اور اسے بیچنے کے لیے بازار کی طرف چل نکلا۔ وہ زرہ میں نے چار سو درہم کے عوض عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بیچ ڈالی۔ جب میں نے آپ سے درہم لے لیے اور آپ نے مجھ سے زرہ لے لی تو آپ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اے بوالحسن کیا اب میں زرہ کا حقدار اور تم درہم کے حق دار نہیں ہو؟ میں نے کہا: ہاں کیوں نہیں۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے کہا: تو پھر یہ زرہ میری طرف سے آپ کو ہدیہ ہے، میں نے زرہ بھی لے لی اور درہم بھی لے لیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگیا۔ میں نے زرہ اور درہم دونوں چیزیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے میرے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعائے خیر کی۔ 2
    -----------------------------------------------------------------------------------------------------------
    2بارہ امام، انبیاء سے افضل ہیں!
    محمد بن حسن الصفار ’’بصائر الدرجات‘‘ میں عبداللہ بن ولید سمان سے نقل کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’مجھ سے ابوجعفر علیہ السلام نے پوچھا، اے عبداللہ! علی، موسیٰ اور عیسیٰ کے بارے میں شیعہ کیا کہتے ہیں؟ میں نے کہا میں قربان جاؤں، کس پہلو کے بارے میں آپ پوچھ رہے ہیں؟ آپ نے کہا: علم کے متعلق پوچھ رہا ہوں کہا: وہ (علی رضی اللہ عنہ ) خدا کی قسم ان دونوں سے زیادہ عالم تھے، آپ نے کہا: اے عبداللہ کیا یہ نہیں کہتے کہ جتنا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تھا، سب علی
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
     کو بھی تھا؟ میں نے کہا: ہاں! آپ نے کہا پھر اس میں وہ جھگڑنے لگے کہ اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا ہے ، وکتبنا لہ فی الالواح من کل شی (اور ہم نے لکھ دی ہے تختیوں میں اس کے لیے ہر چیز)
    تو ہمیں بتایا کہ پوری بات ان پر واضح نہیں تھی، اللہ تبارک و تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا: {وجئنالک علیٰ ھولاء شھیدا۔ وانزلنا علیک القرآن تبیانا لکل شیئ} (اور ہم لائے ہیں آپ کو ان لوگوں پر گواہ اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن اتارا ہے جس میں ہرچیز کی وضاحت ہے)

    علی بن اسماعیل محمد بن عمر زیات سے روایت کرتے ہیں کہ: ابوعبداللہ نے پوچھا: موسیٰ، عیسیٰ اور امیر المومنین علیہم السلام کے بارے میں شیعہ کیا کہتے ہیں؟ میں نے کہا وہ سمجھتے ہیں کہ موسیٰ اور عیسیٰ امیر المومنین سے افضل تھے، آپ نے کہا: کیا وہ سمجھتے ہیں کہ امیر المومنین ہر وہ چیز جانتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے؟ میں نے کہا: ہاں مگر وہ خدا کے اولو العزم نبیوں میں سے کسی پر آپ کو ترجیح نہیں دیتے، کہتا ہے، ابو عبداللہ نے کہا: تو پھر وہ کتاب اللہ سے جھگڑتے ہیں، میں نے پوچھا، کتاب اللہ کے کس مقام سے؟ آپ نے کہا: اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا: { وکتبنا لہ فی الالواح من کل شیئ} (اور ہم نے لکھ دی ہے تختیوں میں اس کے لیے ہر چیز) عیسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا: {ولا بین لکم بعض الذی تختلفون فیہ} (اور تاکہ میں واضح کروں تمہارے لیے بعض وہ چیزیں جن میں تم اختلاف کرتے ہو) اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا { وجئنا بک علٰی ھٰؤلاء شھیدا ونزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شیئ} (اور ہم لائے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر گواہ اور ہم نے آپ پر کتاب اتاری ہے جس میں ہر چیز کی وضاحت ہے)۔
    علی بن محمد سے روایت ہے، ابوعبداللہ نے کہا: خدا نے اولوالعزم رسول پیدا کیے اور انہیں علم کی فضیلت بخشی، ہمیں ان کا علم دیا گیا اور ان کے علم پر فضیلت بخشی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ علم دیا گیا، جو انہیں نہیں دیا گیا تھا، ہمیں ان کا علم بھی دیا گیا اور رسول کا علم بھی۔ (منقول از الفصول المہمۃ للحرالعاملی ص ۲۵۱، ۲۵۲)
    ابنِ بابویہ قمی نے بھی اپنی کتاب ’’عیون اخبار الرضا‘‘ میں روایت بیان کی ہے کہ ’’ابو الحسن علی بن موسیٰ رضا اپنے والد کے، وہ اپنے آباء کے، وہ علی کے واسطہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے اور کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! خدائے بزرگ و برتر کہہ رہے ہیں: اگر میں علی علیہ السلام کو پیدا نہ کرتا تو میری بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے روئے زمین پر آدم سے لے کر مابعد آنے والوں تک کوئی ہم پلہ نہ ہوتا۔‘‘
    (عیون اخبار الرضا جلد ۱ ص ۲۲۵)
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
     سید لاجوردی اس پر حاشیہ لکھتے ہوئے کہتا ہے: ’’بعض محققین نے حدیث کے اس فقرے سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا تمام نبیوں سے افضل ہیں۔‘‘ (ایضاً)
    حرالعاملی نے تہذیب میں طوسی سے نقل کرتے ہوئے یہ روایت اسی عنوان کے تحت درج کی ہے کہ ’’یہ باب اس بارے میں ہے کہ بارہ امام تمام مخلوقات، انبیاء او صیاء اور ملائکہ وغیرہ سے بھی افضل ہیں۔‘‘ (دیکھیے ’’الفصول المہمۃ‘‘ ص ۵۱) مطبوعہ قم ایران۔
     اسی باب میں ایک اور روایت بھی رضا سے نقل کی گئی ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خدا نے کسی کو بھی مجھ سے افضل اور مجھ سے زیادہ عزت والا نہیں بنایا۔ علی کہتے ہیں میں نے پوچھا: یا رسول اللہ ! آپ افضل ہیں یا جبرئیل ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اللہ نے اپنے فرستادہ نبیوں کو مقرب ملائکہ پر فضیلت دی ہے۔ اور مجھے تمام نبیوں اور رسولوں سے افضل بنایا ہے۔ اے علی میرے بعد افضلیت تیرے لیے اور تیرے بعد آنے والے ائمہ کے لیے ہے۔ فرشتے ہمارے اور ہم سے محبت کرنے والوں کے خادم ہیں … اس کے بعد کہا … اور ہم کیوں فرشتوں سے افضل نہ ہوں، ہم اپنے رب کی معرفت اور تسبیح و تقدیس میں ان سے سبقت لے گئے ہیں… اس کے بعد کہا… اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا، اور ہمیں ان کی پشت میں رکھا، پھر ہماری عظمت اور اکرام کی وجہ سے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا، ان کا سجدہ خدائے بزرگ و برتر ہی کی عبودیت کے لیے تھا لیکن اس میں بنی آدم کا اکرام اور اطاعت بھی تھی، ہم آپ کی پشت میں تھے تو کیونکر فرشتوں سے افضل نہ ہوئے کہ سب کے سب فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا ہے۔‘‘ (’’الفصول‘‘ ص ۱۵۳، ’’عیون اخبار الرضا‘‘ جلد ۱ ص ۲۶۳‘ زیرِ عنوان ’’افضیلت النبی والائمہ علی جمیع الملائکۃ والانبیاء علیہم السلام)
    ---------------------------------------------------------------------------------------------------

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، اللہ ، ابو عمرو (حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ) پر رحم کرے، آپ سب سے کریم مددگار اور سب سے افضل بزرگ و پرہیزگار تھے۔ راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے والے تھے، دوزخ کا ذکر ہوتا تو آپ بہت رونے اور آنسو بہانے والے تھے، نیکی و اچھائی کے کام میں چست اور ہر عطاؤ بخشش میں سب سے آگے تھے، بڑے پیارے، وفادار تھے، آپ رضی اللہ عنہ ہی نے جیشِ عسرہ کو سازو سامان دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے۔‘‘ 1
    --------------------------------------------------------------------------
    1 ’’تاریخ المسعودی‘‘ ج ۳ ص ۵۱ مطبوعہ مصر، ’’ناسخ التواریخ‘‘ للمرزہ محمد تقی ج ۵ ص ۱۴۲ مطبوعہ طہران۔
    --------------------------------------------------------------------------

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کے گواہوں میں آپ رضی اللہ عنہ کو بھی گواہ بنایا تھا۔ انس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جاؤ اور ابوبکررضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کو میرے پاس بلا لاؤ … اور اتنے ہی آدمی انصار میں سے، چنانچہ میں گیا اور ان کو بلا لایا۔ جب سب حضرات اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح علی رضی اللہ عنہ سے چار سو مثقال چاندی کے عوض کردیا ہے۔2
    -------------------------------------------------------------------------------------------------------
    2 ’’کشف الغمۃ‘‘ ج۱ ص ۳۵۸ ’’المناقب‘‘ للخوارزمی ص ۲۵۲ ’’بحارالانوار‘‘ للمجلسی ج ۱۰ ص ۳۸۔
    --------------------------------------------------------------------------------------------------------


    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

    حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے یہ شرف و فخر ہی بہت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہ کی شادی کرکے انہیں اپنے ذوی الارحام اور سسرالی رشتہ داروں میں شامل کرلیا۔ اسی بناء پر شیعہ حضرات آپ رضی اللہ عنہ کی افضلیت و امامت، اور آپ رضی اللہ عنہ کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے قائل ہیں تو ان کے بارے میں کیا خیال ہے، جن کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو بیٹیوں کی شادیاں کیں؟ عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے یہ بات بھی باعثِ فخر ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کی شادی پر سارا خرچہ کیا، اس کے لیے تمام اسباب مہیا کیے اور انہیں شادی کا ایک گواہ بنایا گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے لیے یہی فخر بہت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو وہ شرف و اعزاز ملا، جو پوری کائنات میں سے کسی کو نہیں ملا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو بیٹیوں کی شادیاں آپ رضی اللہ عنہ سے کیں۔ پوری تاریخ انسانی میں اس کی مثال ڈھونڈے سے نہ ملے گی۔
    پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں حکم خداوندی سے اپنی بیٹی رقیہ رضی اللہ عنہا کی شادی آپ رضی اللہ عنہسے کردی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان یہ ہے:
    {وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی}
    رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری بیٹی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی شادی بھی آپ رضی اللہ عنہ سے کردی۔ شیعہ حضرات کے علماء بھی ان شادیوں کے معترف ہیں۔ دیکھیے انتہائی متعصب شیعہ، مجلسی، جو صحابہ علیہم السلام پر بد زبانی و طعن میں مشہور و معروف ہے، اپنی کتاب ’’حیات القلوب‘‘ میں ابنِ بابویہ قمی سے سندِ صحیح کے ساتھ نقل کر رہا ہے:
    ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے قاسم، عبداللہ (جنہیں طاہر کہا جاتا ہے) ، امِ کلثوم، رقیہ ، زینب اور فاطمہ رضی اللہ عنھن پیدا ہوئیں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے علی رضی اللہ عنہ نے شادی کی، ابو العاص بن ربیعہ رضی اللہ عنہ نے زینب رضی اللہ عنہا سے، یہ دونوں حضرات بنی امیہ سے تھے۔ اسی طرح عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان نے ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے شادی کی جو کہ تعلقِ زوجیت سے پہلے ہی وفات پاگئیں۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی طرف جانے لگے تو رقیہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شادی کردی۔‘‘ 1
    ------------------------------------------------
    1’’حیات القلوب‘‘للمجلسی ج ۲ ص ۵۸۸ باب ۵۱۔
    ------------------------------------------------
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں