ہلاکت کے سو روز بعد بینظیر بھٹو کی قبر پر

منہج سلف نے 'حالاتِ حاضرہ' میں ‏اپریل 2, 2008 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. منہج سلف

    منہج سلف --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2007
    پیغامات:
    5,047
    ہلاکت کے سو روز بعد بینظیر بھٹو کی قبر پر

    پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوتے ہی کراچی سے اسلام آباد تک اراکین اسمبلی اور وزراء کے گھروں اور دفاتر کے سامنےاندرون سندھ کے لوگوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں مگر اس مرتبہ تاحال ایسی کوئی صورتحال نظر نہیں آئی۔

    پیپلز پارٹی کی حکومت میں پہلی مرتبہ کوئی غیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوا ہے۔ ورنہ پارٹی کے کارکنان ایک ہی نعرے سے مانوس تھے کہ وزیراعظم بینظیر۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بھٹو خاندان کے آبائی گھر نئوں دیرو میں بھی عوام کا رش نہیں ہے۔ انیس سو اٹھاسی اور انیس سو بانوے میں بینظیر بھٹو کے وزیراعظم بنتے ہی نئوں دیرو میں امیدیں اور درخواستیں لیکر آنے والوں کے ٹھٹ لگ گئے تھے۔

    اس مرتبہ بینظیر سے محبت اور عقیدت رکھنے والوں کی منزل نئوں دیرو سے پانچ کلومیٹر دور گڑھی خدابخش کا قبرستان ہے جہاں لوگوں کا رش برقرار ہے۔

    ہرگھنٹے کے بعد ملک کے کسی نہ کسی کونے سے عقیدت مندوں یا پارٹی کارکنوں سے بھری کوئی بس یا ویگن بھٹو خاندان کے آبائی قبرستان گڑھی خدا بخش پہنچتی ہے۔

    بینظیر بھٹو کی ہلاکت کو ایک سو روز ہو چلے ہیں مگر عقیدت اور محبت کے اس سلسلے میں ابھی تک کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگ اور عورتیں آج بھی بینظیر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے گڑھی خدا بخش جاتے ہیں۔

    عقیدت مند بینظیر کے پوسٹر اور تصاویر بھی خریدتے ہیں

    نوشہرو فیروز سے تعلق رکھنے والے ایک پینتیس برس کے شخص نے کہا کہ وہ بدقسمت ہوگا جو ’شہید ملکہ‘ کی قبر پر حاضری دینے نہیں آیا ہوگا۔

    دور دراز سے آنے والے لوگوں میں سے کچھ گروپ ’زندہ ہے بی بی زندہ ہے’ کے نعرے لگاتے ہوئے اس تین گنبدوں والے زیر تعمیر مقبرے میں داخلے ہوتے ہیں، تو کچھ خاموشی اور چہرے پر افسردگی لے کر چپ چاپ کسی کونے میں جا بیٹھے ہیں۔

    مرکزی دروازے سے مقبرے میں داخل ہوتے ہی سامنے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالقفار علی بھٹو کی قبر ہے اور ساتھ ہی میں بینظیر بھٹو کئی من مٹی تلے سو رہی ہیں۔ مرد سیدھے بینظیر کی قبر پر آتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں جبکہ خواتین قرآن مجید یا سورہ یاسین کی تلاوت میں مصروف ہوجاتی ہیں اور مرد بھی زمین پر گھٹنوں کے بل یا آلتی پالتی مارکر بیٹھ جاتے ہیں۔

    پھولوں سے ڈھکی قبر سے ہر آنے والے ایک مٹھی کے قریب پھول تبرک کے طور پر جیبوں یا پرس میں ڈال لیتے ہیں۔ زائرین کی طرح آنے والے لوگوں میں سے بمشکل بیس فیصد لوگ ہی ذوالفقار علی بھٹو کی قبر پر دعا کے لیے جاتے نظر آئے۔ جبکہ ان کے فرزندوں میر مرتضیٰ اور شاہنواز کی قبروں پر فاتحہ کرنے والوں کی تعداد تو اس سے بھی کم ہے۔ یہ تمام قبریں بغیر کتبوں کے ہیں۔



    بینظیر بھٹو نے وطن واپسی سے قبل روزگار دینے کا اعلان کیا تھا آج ان کی قبر بھی کئی لوگوں کے لیے روزگار کا وسیلہ بن چکی ہے، جہاں پھول والے، مزار کے اندر داخلے ہونے سے قبل جوتیوں کی رکھوالی کرنے والے، بینظیر بھٹو کی تصاویر، پوسٹر، کی چین اور کھانے پینے کی اشیاء بیچنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے۔

    مقبرے کے باہر دونوں بڑے دروازوں پر ان لوگوں نےچھوٹے چھوٹے ٹھیلے اسٹال لگائے لیئے ہیں۔ مزار کے جنوبی دروازے پر ٹھیلہ لگائے ہوئے حکیم نے بتایا کہ وہ روزانہ دو سے تین سو روپے تک کماتے ہیں جس سے اچھا گزارا ہوجاتا ہے۔ ایسی ایک سو سے زائد دکانیں یہاں موجود ہیں۔

    اس مزار کے اندر اور باہر کے مناظر کچھ ایسے ہی ہیں جیسے شاہ عبداللطیف بھٹائی اور قلندر شھباز کی مزاروں پر نظر آتے ہیں۔

    لوگ عقیدت کے ساتھ یادگار یا تحفے کے طور پرکوئی نہ کوئی چیز خریدتے دکھائی دیتے ہیں۔

    عام لوگ اور سیاستدان تو یہاں آتے ہی رہتے ہیں مگر اب نوبیاہتا جوڑوں نے بھی یہاں کا رخ کرنا شروع کردیا ہے، گزشتہ ہفتے تو یہاں خیرپور اور رتوڈیرو سے دو نوبیاہتا جوڑے حاضری دنے آئے تھے۔

    سندھ میں صوفی بزرگوں کے مزاروں پر سلامی کے لیے ایسی روایت نظر آتی ہیں۔

    جام شورو سے لیکر لاڑکانہ تک تقریباً ہر مسافر گاڑی پر بینظیر بھٹو کی قمبر شہر کے بزرگ حسین شاہ بخاری کے ساتھ تصویر آویزاں ہیں۔

    اس تصویر میں وہ عاجزی اور انکساری سے زمین پر بیٹھی ہیں جبکہ پیر کرسی پر براجمان ہیں۔ پیر حسین شاہ قمبر اور گرد نواح میں تو مقبولیت رکھتے ہیں مگر بینظیر بھٹو کے ساتھ اس تصویر کی اشاعت کے بعد وہ پورے سندھ میں مقبول ہوگئے ہیں۔

    سہون سے نودیرو تک درمیان کے تمام شہروں کے باسی گڑھی خدابخش کے زائرین سے آشنا ہیں۔ ان شہروں میں آٹھ سے بارہ سال عمر کے بچے بینظیر بھٹو کے پوسٹر بیچ رہے ہیں۔ دادو میں پوسٹر بیچنے والے سجاد کھوسو نے بتایا کہ بڑا پوسٹر پچیس روپے کا اور چھوٹا پوسٹر پندرہ روپے کا ہے۔ تیسری جماعت کے طالب علم سجاد کا کہنا ہے کہ اسے ایک پوسٹر پر تین روپے ملتے ہیں اور وہ دن میں بیس سے پچیس پوسٹر بیچتا ہے۔ سجاد کے مطابق دادو شہر میں ابھی بھی دس بارہ بچے یہ کام کرتے ہیں۔

    راستے میں نوجوان گلوکار احمد مغل کی درد بھرے انداز میں گائے ہوئے گیت ’ سندھ جی رانی ، نیانی نمانی سندھ کھی روارے وئیں‘ بھی سننے کو مل جاتا ہے۔

    مزار کے اندر اور باہر پینافلکس پر بنی ہوئی بینظیر بھٹو کی قد آدم تصاویر آویزاں ہیں جن پر اشعار درج ہیں۔ ان اشعار میں بعض میں ان کی ہلاکت کو واقعہ کربلا سے مشہابت دی گئی ہے۔ بقول ایک خدمتگار کہ نواسے پیغمبر اسلام امام حسین کو دھوکے سے کربلا بلا کر قتل کیاگیا تھا اور بینظیر بھٹو کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا ہے۔

    ان عبارتوں کے علاوہ جیب کتروں سے ہوشیار رہیں اپنے موبائل اور پرس کا خیال رکھیں کی عبارت بھی دیواروں پر تحریر ہے۔ بقول ایک خدمتگار کئی عقیدت مند اپنے رقم اور موبائل فون سے محروم ہوچکے ہیں ’لوگ غم میں نڈھال ہوتے ہیں اور بدبخت لوگ ان کی جیب کاٹ لیتے ہیں۔‘
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں