آسٹریلیا، مغرب کا بھانڈا پھوٹ گیا--- محسن فارانی

اہل الحدیث نے 'مضامين ، كالم ، تجزئیے' میں ‏جولائی 18, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    محسن فارانی کا خصوصی کالم ''آسٹریلیا، مغرب کا بھانڈا پھوٹ گیا''

    اہل مغرب نے پروپیگنڈے کے زور سے بعض جھوٹ ایسے پھیلائے کہ انہیں دنیا بھر میں سچ سمجھا جانے لگا۔ ایک جھوٹ یہ تھا کہ ’’کولمبس نے امریکہ دریافت کیا‘‘۔ کرسٹافر کولمبس سپین سے تین بحری جہازوں کے ساتھ بحر اوقیانوس میں سوا دو ماہ کے سفر کے بعد 12 اکتوبر 1492ء کو جزائر غرب الہند (ویسٹ انڈیز) کے ایک جزیرے پر اترا تھا۔ اس کے ساتھی جہاز رانوں میں اندلس کے 14 مسلمان بھی تھے۔ لیکن براعظم امریکہ یا اس کے جزیروں تک پہنچنے والا کولمبس پہلا شخص نہیں تھا۔ اندلس (سپین) اور مراکش کے مسلمان جہاز ران نویں دسویں صدی عیسوی سے ساحل امریکہ پر جاتے آتے رہتے تھے۔ تاہم انہوں نے تجارتی لین دین سے ہٹ کر وہاں اپنی نو آبادیاں نہیں بسائی تھیں۔ یہ کام یورپی اقوام نے کیا۔ انہوں نے سرخ رنگت کے مقامی امریکی باشندوں (ریڈ انڈینز) کا قتل عام کر کے وہاں اپنی کالونیاں بنا لیں۔ ان نو آبادیوں (کالونیوں) میں کھیتی باڑی کے لئے انہوں نے ایک کروڑ کے لگ بھگ افریقی باشندے اغوا کر کے امریکی سرزمین پر لے جا کر بدترین غلامی میں جوت دیئے۔ پھر تھوڑے عرصے میں پہلے سے موجود میکسیکو کی ازٹک تہذیب، وسطی امریکی کی مایا تہذیب اور پیرو کی ا نکا تہذیب ظالم مسیحی فرنگیوں کے ہاتھوں حرف غلط کی طرح مٹ گئیں اور امریکہ کے اصل مالک جنہیں کولمبس نے غلط طور پر Red Indians (سرخ ہندی) قرار دیا تھا، آج بچے کھچے اپنے ہی وطن میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ مسلمانوں کے علاوہ ناروے کے وائیگنگز بھی دسویں صدی عیسوی میں ساحل کینیڈا کی طرف جا پہنچے تھے۔

    مغرب والوں کا دوسرا جھوٹ آسٹریلیا کے حوالے سے ہے۔ یہ کہ ’’ڈچ (ولندیزی) جہاز ران ایبل تسمان نے 1642ء میں آسٹریلیا دریافت کیا‘‘۔ امریکہ اور یورپ کے درمیان تو دنیا کا دوسرا بڑا سمندر اوقیانوس (Atlantic) حائل تھا، لہٰذا ان کا جھوٹ چل گیا مگر یہ آسٹریلیا تو جزائر شرق الہند (ایسٹ انڈیز) یا انڈونیشیا کے جنوب میں سمندری پٹی کے پار ساتھ ہی واقع ہے، پھر اس کی ’’دریافت‘‘ کا دعویٰ کیا معنی رکھتا ہے؟ بہرحال اسے اپنی ’’دریافت‘‘ قرار دے کر ولندیزیوں اور انگریزوں نے اس ساتویں براعظم اور آگے جنوب مشرق میں جزائر نیوزی لینڈ پر قبضہ جما لیا۔ انہوں نے ’’غیر متمدن‘‘ مقامی باشندوں کو ایباریجنل (Aboriginal) کہا جو ان کے بقول متمدن دنیا سے الگ تھلگ تھے، حالانکہ یہ بات نہیں تھی۔ یورپی مسیحی آباد کاروں کی آمد سے پہلے ان لوگوں کے انڈونیشی جزائر کے مسلمانوں سے رابطے تھے اور ان میں اسلام بھی سرایت کر رہا تھا، لیکن جب انڈونیشی مسلمانوں کو ولندیزی صلیبیوں نے غلام بنا لیا اور آسٹریلیا کے ساحلوں پر برطانوی صلیبی قابض ہو گئے تو وہ روابط منقطع ہو گئے۔

    شمالی آسٹریلیا کے جزیرہ نما ’’آرنہم لینڈ‘‘ اور انڈونیشی جزیرہ تیمور کے درمیان بحیرہ تیمور حائل ہے۔ ساتھ ہی بحیرہ آرافور انڈونیشیا کے جزائر ملوکو اور نصف جزیرہ ایریان جایا (مغربی نیوگنی) کو آسٹریلیا سے جدا کرتا ہے۔ آرنہم لینڈ کی ولنگٹن پہاڑیوں کی سرخ چٹانوں پر سفید اور پیلے رنگوں سے چھوٹی بادبانی کشتیاں بنی ہوئی ہیں جو شرق الہند اور آسٹریلیا میں تجارتی روابط کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہ روایتی انڈونیشی کشتیاں (Praus) تیمور کے شمال میں جزیرہ سلاویسی کی جنوبی بندرگاہ مکاسر (موجودہ اجونگ پنڈانگ) سے آ کر آرنہم کے ساحل پر رکتی تھیں اور ان پر انڈونیشی مسلمان مچھیرے ’’سمندری کھیرا‘‘ نامی مچھلی کی تلاش میں ادھر آتے تھے۔ ریڈیو کاربن اور ان چٹانوں پر موم کے نقوش سے کشتیوں کی تصویروں کا تعین 1500ء کے لگ بھگ کیا گیا ہے۔ مکاسر کے ماہی گیر ’’سمندری کھیرا‘‘ کو چین لے جاتے تھے جہاں ادویہ اور کھانوں کی تیاری میں ان کی بڑی مانگ تھی، یوں اہل مکاسر آسٹریلیا کے عالمی رابطوں کا ذریعہ بنے ہوئے تھے۔ میلبورن کی موناش یونیورسٹی کے ماہر بشریات جان بریڈلے کے بقول ان میں کوئی نسلی تفریق مقامی باشندوں کے حوالے سے نہیں تھی۔

    لیکن جب یہاں برطانوی آن قابض ہوئے تو انہوں نے آسٹریلیا میں نسلی تفریق ابھاری اور مقامی باشندوں کو ایباریجنل ٹھہرایا، دنیا کے اس سب سے چھوٹے براعظم کو Terra nullius یعنی ’’زمین جو کسی کی ملکیت نہیں‘‘ قرار دیا اور پھر ان اچکوں نے اسے آسٹریلیا کے نام سے اپنی ملکیتی سرزمین بنا لیا۔ انہوں نے مقامی باشندوں کے حقوق ملکیت چھین کر پورا براعظم ہڑپ کر لیا۔ اس کا آغاز کیپٹن کک نے 1770ء میں کیا جب اس نے آسٹریلیا کے مشرقی ساحل کا چکر لگا کر اسے تاج برطانیہ کی ملکیت قرار دے دیا۔ پہلی برطانوی بستی سڈنی کے نام سے 1888ء میں آباد ہوئی ۔۔۔ کس طرح؟ برطانوی جیلوں میں چور، ڈاکو اور قاتل جہازوں میں بھر کر یہاں لا اتارے گئے اور کچھ سپاہی اور سرکاری اہلکاربھی سڈنی کے اولین باسی تھے۔ اس وقت آسٹریلیا کی آبادی میں 92 فیصد یورپی گورے اور 7 فیصد ایشیائی ہیں جبکہ ایباریجنل بیچارے ایک فیصد سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ گوروں کی آمد سے پہلے مکاسری مسلمان تاجر شمال کے علاقے میں آ ٹھہرتے تھے۔ وہ مقامی باشندوں میں شادیاں کر لیتے تھے، اس طرح اسلام یہاں متعارف ہوا اور مقامی لوگ بھی اس سے متاثر ہونے لگے۔ پروفیسر بریڈلے کہتے ہیں: ’’اگر آپ شمال مشرقی آرنہم لینڈ میں جائیں تو وہاں کے گیتوں، وہاں کی مصوری اور دیگر ایباریجنل فنون میں اسلام کی جھلک پائیں گے۔ ان کی کفن دفن کی رسوم اور اللہ سے بعض دعائیں بھی اس کی عکاسی کرتی ہیں اور پھر لسانی اشتراک بھی خاصا ہے۔ جزیرہ نما آرنہم لینڈ کے شمال میں وقع جزیرہ ایلکو کے باسی عبادت کے وقت مکہ کی طرف منہ کر لیتے ہیں اور مسلمانوں کی طرز پر سجدہ بھی کرتے ہیں تاہم وہ ’’ولیتھا ولیتھا‘‘ کے بت کی پوجا بھی کرتے ہیں۔

    مکاسر کے سمندری کھیرا (Sea Cucumber) کے تاجر ایباریجنل لوگوں کے ساتھ 1906ء تک تجارت کرتے رہے حتیٰ کہ برطانوی حکومت نے غیر سفید فام تاجروں پر پابندی عائد کر دی اور بھاری ٹیکس لگا دیئے۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ براعظم کو گورے عیسائیوں کے لئے مخصوص کر دیا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انڈونیشی مسلمانوں سے رابطے منقطع ہونے کے ایک صدی بعد ایباریجنل باشندوں میں اسلام سے لگاؤ پھر بڑھ رہا ہے لیکن ان سے انڈونیشی مچھیروں کا رابطہ واحد رابطہ نہیں تھا اس دوران میں ملائی مسلمان مزدور بھی ملائیشیا سے آ کر آسٹریلیا کے شمال مغربی ساحل پر ’’بروم‘‘ میں میں موتیوں کی صنعت میں کام کرتے رہے۔ وہ بھی ایباریجنل باشندوں میں شادیاں کر لیتے تھے۔ ان کے ذریعے سے اسلامی عقائد اور ثقافتی قدریں یہاں رائج ہوئیں، چنانچہ مقامی باشندوں میں دلا (عبداللہ) حسن اور خان جیسے نام عام ہیں۔ علاوہ ازیں وسطی آسٹریلیا کے صحراؤں میں انیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں افغان شتربان لائے گئے تھے۔ یہاں ایلس سپرنگز 26 ہزار کی آبادی کا قصبہ ہے جہاں سیاح ایک قدیم مسجد کا مینار دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔ یہ ’’افغان مسجد‘‘ کہلاتی ہے۔ 1860ء اور 1930ء کے درمیان 4 ہزار شتربان یہاں آئے تھے۔ ان کا تعلق افغانستان اور بلوچستان سے تھا۔ وہ آسٹریلوی ریگزاروں میں دور دراز مشن سٹیشنوں تک رسد پہنچانے اور ٹیلیگراف لائنوں اور ریلوے لائن کی تعمیر میں خدمات انجام دیتے رہے۔ ان کی تعمیر کردہ ’’غان (دراصل افغان) ریلوے لائن‘‘ آج بھی صحرائے آسٹریلیا کو شمال سے جنوب کو پار کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ان مسلمان شتر بانوں کی اگلی نسلیں مسیحی معاشرے میں گم ہو گئیں۔ باسٹھ سالہ ریمنڈسا تور کہتا ہے: ’’میرے دادا کا والد شتر بان تھا، ان کے اونٹوں کی تعداد 40 سے زائد تھی اور ان کے کاروان صحرا میں ایباریجنل باشندوں سے جا ملتے تھے۔ اس طرح ایباریجنل باشندوں سے ہماری قرابت داری ہے‘‘۔ افغان شتر بانوں نے صحرا میں کئی عارضی مسجدیں بنائی تھیں اور وہ مقامی لوگوں میں شادیاں بھی کر لیتے تھے۔ 1930ء کی دہائی میں موٹرگاڑیاں عام ہونے سے شتر بانوں کا دھندا ٹھپ ہو گیا۔ ان دنوں ایلس سپرنگز کی افغان مسجد میں بھارت، پاکستان اور افغانستان کے تارکین وطن کی پہلی نسل ہی نماز پڑھتی ہے۔ وہ مسجد سے افغان ایباریجنل مخلوط نسل کے گھروں میں آ کر تبلیغ کرتے ہیں۔ ریمنڈسا تور کہتا ہے: ہمارے ’’بھائی آ کر ہمیں نماز اور اسلامی احکام سکھاتے ہیں، یوں اسلام اور ہمارے افغان اجداد سے ہمارا تعلق استوار ہوتا ہے‘‘۔

    خوش آئند بات یہ ہے کہ ایباریجنل لوگ اب خاصی تعداد میں مشرف بہ اسلام ہونے لگے ہیں۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق 1140 ایباریجنل لوگوں نے اپنا مذہب اسلام لکھوایا۔ یہ تعداد 2001ء کی مردم شماری سے دوگناہے۔ انتھونی منڈائن انہی نو مسلموں میں سے ہے۔ وہ مڈل ویٹ چیمپئن باکسر ہے۔ وہ امریکی سیاہ فام مسلم لیڈر میلکم ایکس (عبدالمالک) سے بہت متاثر ہے۔ اگیل نامی نومسلم استعماری آسٹریلیا کی نسل پرستی اور عیسائیت کو ایک ہی شے سمجھتا ہے۔ وہ کہتاہے کہ ان سامراجیوں نے مقامی لوگوں کو سکھایا کہ خدا ان سے نفرت کرتا ہے اور وہ نامطلوب مخلوق ہیں۔ مقامی لوگوں اور مسلمانوں میں ختنہ، طے کردہ شادی ، کثرت ازواج اور بڑوں کا ادب پہلے ہی مشترک ہیں اگرچہ اسلامی کثرت ازواج چار تک محدود ہے۔ ایک اور نومسلم احمد پہلے بے گھر اور شراب خور تھا۔ وہ دائرہ اسلام میں آیا تو نماز کی پابندی اور شراب، منشیات اور جوئے سے پرہیزنے اس کی بری عادتیں چھڑا دیں۔ وہ کہتا ہے: ’’جب میں نے اسلام قبول کیا تو اپنی زندگی میں پہلی بار خود کو انسان محسوس کیا، اس سے پہلے میں بٹا ہوا تھا، شاید آدھا یا چوتھائی انسان تھا‘‘۔


    بحوالہ ہفت روزہ جرار
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  2. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    ماشاء اللہ یہ تو بہت اچھی خبر ہے ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں